4/12/23

 

وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے

دل ہے خرد ہے روحِ رواں ہے شعور ہے

اے آفتاب! ہم کو ضیائے شعور دے

چشمِ خرد کو اپنی تجلی سے نور دے

        علامہ اقبال نے جو دعا مانگی تھی شاید اب سائنس اتنی ترقی کر گئی کہ سورج پر پہنچے کے وسائل دریافت کرنے لگے ہیں۔علویات میں سورج، چاند اورکواکب دنیا کے وجود میں آنے سے لے کر قیامت تک ہماری زندگی کو اثر انداز کرتے رہیں گے۔ ان میں زرعی پیداوارکے اعتبار سے سورج بہت اہمیت کا حامل ہے۔سورج سب ستاروں میں بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ سورج کی روشنی سے دریا میں بخارات پیدا ہوتے ہیں اور وہی بخارات کرّہ زمہریر تک پہنچ کر ابر بن جاتے ہیں اور ہوا ابر کو دور دور تک لے جاتی ہے تب بارش ہوتی ہے اوریہی بارش زمین کو نمو عطا کرتی ہے،نہریں اورچشمے جاری ہوتے ہیں۔

اپنے سورج سے بچھڑا ہوا تارہ ہوں

اپنی فطرت سے بکھرا ہوا پا رہ ہوں

(شہاب جعفری)

        زمین کا نظام جس طرح اللہ نے بنایا ہے اسی طرح فلکیات کا نظام بھی مقرر کیا ہے۔ سیّاروں کی طرح  انسان بھی اپنی بساط سے  طاقتور ہوتا ہے۔ چونکہ دونوں نظام کی خدائے قادر مطلق نے ہی حدیں مقرر کی ہیں؛

اسی کی بخششیں ہیں، اس نے سورج، چاند، تاروں کو

فضاؤں میں سنوارا اک حد فاصل مقرر کی

(اختر الا یمان )

        آسماں، چاند،سورج اورستارے اپنی طاقت کی بدولت پوری دنیا پر حکومت کرتے آئے ہیں اب انسان بھی اپنی خرد کی وسعتوں سے ان سیاروں کی قوت و اساس کی جانچ کے لیے پہلی منزل کی طرف گامزن ہورہا ہے جہاں مرد حضرات سائنسی علوم سے مستفید ہوئے وہیں خواتین بھی بحرہ ور ہوئی ہیں۔اب خواتین سورج پر بازی لگانے لگی ہیں۔ زمانہ قدیم ہی سے سائنس میں خواتین کا نمایاں کردار اور اس میدان میں ان کی نہایت وقیع خدمات رہی ہیں۔ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں خواتین سائنس دانوں کے بارے میں بہت ساری کتابیں اور مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں خواتین سائنس دانوں کے بارے میں ڈیرک ریکٹر کی 1982 میں شائع ہونے والی کتاب قابل ذکر ہے۔1985 میں ''کوالیوسکائیا فنڈ''  اور 1993 میں سائنس میں خواتین کی تنظیم برائے ترقی پذیر ممالک کے قیام نے خواتین کے پہلے سے دبے ہوئے کردار کو اجاگر کیا، لیکن آج بھی ترقی پذیر ممالک میں سائنس میں خواتین کے کردار کے حوالے سے معلومات کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔  مارگریٹ کیوِنڈِش نے سائنسی علوم سے متعلق تحریر کیں اور معلومات فراہم کیں جن میں ''تجرباتی فلسفے پر مشاہدات'' اور ''فطری فلسفے کی بنیادیں'' قابل ذکرہیں۔ مارگریٹ کیوِنڈِش کا مشاہدہ ہے کہ سائنس کے ذریعے انسان فطرت پر قادر ہو گئے ہیں۔جرمنی کی روایت نے بعض خواتین کو اس قابل بنایا کہ وہ مشاہداتی سائنس کے ساتھ وابستہ ہوں، بالخصوص فلکیات وغیرہ سے۔ جرمن ماہرینِ فلکیات میں 14 فیصد تعداد خواتین کی ہے۔  مشہور خاتون ماہرِ فلکیات کی حیثیت سے ماریا ونکل مین کا نام سر فہرست ہے۔

        سائنسی انقلاب نے خواتین کے بارے میں لوگوں کے تصوّرات تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔خواتین کی سائنس کے لیے خدمات پیش کرنے کی صلاحیت اب مردوں کے مساوی ہے۔ جیکسن اسپیل ووجیل کے مطابق، ''مرد سائنس داں جدید سائنس کو یہ نظریہ پھیلانے کے لیے استعمال کرتے تھے کہ خواتین، مردوں سے کم تر اور ان کے زیرِ نگیں ہیں؛ اور خواتین، بچّوں کی پرورش کرنے والی ماؤں کے گھریلو کردار میں زیادہ مناسب ہیں۔ کتابوں کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ میں ان خیالات کا تسلسل ملتا ہے''۔اب ان خیالات سے پرے خواتین سائنس میں مساوی نظر آتی ہیں۔انیسویں صدی کی ابتداء میں خواتین  سائنسی علوم سے خارج تھیں سائنس کے پیشے کے لیے خواتین کی شرکت محدود تھی لیکن بعد میں خواتین کی اعلیٰ تعلیمی سوسائٹیوں میں قبولیت کے ذریعے اب تسلیم کرنا لازمی ہو گیا۔

        مقناطیسیت پر تجربات کے ذریعے  اسکاٹش سائنسداں میری فیئر فیکس سومر وِل نے اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ ''شمسی روشنی کی بنفشی شعاعوں مقناطیسی خصوصیات'' کے عنوان سے آپ کا مقالہ چھپ کر منظر عام پر آیا تھا۔ آپ کی متعدد تحریریں  ریاضی، فلکیات، اجسام، اور جغرافیے جیسے موضوعات پر ملتی ہیں۔اسی طرح ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ماریا مچل کا نام اہمیت کا حامل ہے انھوں نے دُم دار تارہ دریافت کیا اور امریکی ایسوسی ایشن برائے سائنسی ترقّی کی پہلی خاتون رکن ہونے کا اعزاز بھی انھیں حاصل ہے۔علاوہ ازیں میری ایننگ (ماہرِ فوصلیات)، اینا ایٹکنز (ماہرِ نباتات)، جینیٹ ٹیلر (ماہرِ فلکیات)، ماری صوفی جرمین (ریاضی داں)، جین ویلے پریوکس-پاور (ماہرِ بحری حیاتیات) وغیرہ خواتین سائنسدانوں کے نام نمایاںاور نئی نسل کے لیے قابل توجہ ہیں۔

        انیسویں صدی تعلیم نسواں کے حوالے سے عروج کا دور ہے۔ برطانیہ میں لڑکیوں کو لڑکوں کے مساوی تعلیم فراہم کی گئی، جن میں نارتھ لندن کالجیٹ اسکول، چیلٹن ہیم لیڈیز کالج اور گرلز پبلک ڈے اسکول ٹرسٹ اسکولز قابل ذکر ہیں۔برطانیہ میں خواتین کے لیے پہلا یونیورسٹی کالج، گِرٹون میں قائم کیا گیا، اور یکے بعد دیگرے اس روش پر چلتے ہوئے  نیون ہیم اور سومر وِل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ گرینچ آبزرویٹری میں شمسی شعبے کے سربراہ اینی اسکاٹ دل موندیر فلکیاتی عکاسی میں بالخصوص شمسی دھبوں کے حوالے سے نقد اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ اینی کی ریاضی مہارتوں نے یہ ممکن بنایا کہ برسوں پر محیط شمسی دھبّوں کے حاصل ہونے والے مواد کا تجزیہ کیا جائے، جن کو موندیر گرینچ میں جمع کر رہے تھے۔ 1898 میں موندیر خاندان نے ہندوستان کا سفر کیا، جہاں اینی نے سورج گرہن کے دوران سورج کے کرونا کی اوّلین تصاویرمحفوظ کر لیں۔ شمسی دھبوں اور ارضیاتی مقناطیسی طوفان کے حوالے سے دستیاب کیمبرج کی دستاویزات کا تجزیاتی تجربوں سے انھوں بتایا کہ سورج کی سطح کے بعض خاص علاقے ارضیاتی مقناطیسی طوفان کا باعث تھے؛ اور یہ کہ سورج اپنی تابکار توانائی یکساں طور پر فضا میں نہیں پھیلاتا ہے، جس کا اعلان اس سے پہلے ولیم تھامسن اول بیرن کیلوِن کر چکے تھے۔

        مشرق اور مغرب کی کائنات میں سپر کلسٹروں میں سے ایک کلسٹر کی ذیلی کہکشاں ملکی وے اور نظام شمسی کا ایک روشن ستارہ سورج، شمس یا خورشید ہے جس کو انگریزی میں(Sun) کہتے ہیں۔جبکہ ملکی وے میں ایسے بے شمار سورج موجود ہیں یہ کہکشاں ایک لاکھ نوری سال پر محیط ہے۔سورج نظام شمسی کے مرکز میں واقع ستارہ ہے۔ زمین، دیگر سیارے، سیارچے اور دوسرے اجسام سورج ہی کے گرد گردش کرتے ہیں۔ سورج کی حجم نظام شمسی کی کل کمیت کا تقریباً 99.86% ہے۔ سورج کا زمین سے اوسط فاصلہ تقریباً 14,95,98,000 کلومیٹر ہے اور اس کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 8 منٹ 19 سیکنڈ لگتے ہیں۔ تاہم یہ فاصلہ سال بھر یکساں نہیں رہتا۔ 3 جنوری کو یہ فاصلہ سب سے کم تقریباً 14,71,00,000 کلومیٹر اور 4 جولائی کو سب سے زیادہ تقریباً 15,21,00,000 کلومیٹر ہوتا ہے۔ دھوپ کی شکل میں سورج سے آنے والی توانائی ضیائی تالیف کے ذریعے زمین پر تمام حیات کو خوراک فراہم کرتی ہے اور زمین پر موسموں کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔اب تک سورج کی رسائی کے لیے مختلف ممالک اپنے اپنے طور پر کوشش کرتے آرہے ہیں۔

        انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) نے اب تک 5 خلائی جہاز پروگرام شروع کیے ہیں جن میں چندریان-1، 2، 3، منگلیان اور ایسٹروسیٹ صرف سائنسی تحقیق کے لیے ہیں۔ Astrosat کے علاوہ چار دیگر خلائی جہازوں کے پروجیکٹ ڈائریکٹر تمل ناڈو سے تھے۔ خلائی تسخیر میں تمل ناڈو کی خدمات عالمی سطح پر روشن ہیں۔ مثال کے طور پر چندریان-1 میں مئیل سوامی اننادورائی، چندریان-2 میں ونیتا، چندریان-3 میں ویرامتھو ویل اور منگلیان میں ارونن سبیہ موثر پروجیکٹ ڈائریکٹر تھے۔اس طرح راکیٹ کو دریافت کرنے والے سائنسدان ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام، سابق صدر جمہوریہ کا تعلق بھی ریاست تمل ناڈو ہی سے ہے۔ حال ہی میں، اسرو نے چاند کے جنوبی قطب کو تلاش کرنے کے لیے چندریان 3 خلائی جہاز بھیجا تھا۔ چونکہ اب تک کسی بھی ملک نے چاند کے جنوبی قطب پر قدم نہیں رکھا ہے، اس لیے کم بجٹ والے ہندوستان کی اس کوشش نے دنیا  میں ایک بیداری اور دیگر ممالک میں بڑی توقعات پیدا کر دی ہیں۔چاندنی رات سے پرے؛

تمھاری زلف کی شب پر برس پڑیں آنکھیں

کنارِ شام میں آ کر پگھل گیا سورج

        اب تمل ناڈو کی ایک خاتون سائنسدان نگار شاہ جی آدتیہ -1 Lخلائی جہاز میں پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں، جسے سورج کی تحقیق کے لیے2 ستمبر2023 کو پروازکیا گیا۔ آدتیہ  -1 Lخلائی جہاز پر VELC سورج کی روشنی، کروموسفیئر، بیرونی تہوں، اور دھماکہ خیز مواد کے بکھرنے کا مطالعہ کرنے کے قابل ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسے بنگلور میں ایرو فزیکل ریسرچ سینٹر نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ مشن زمین کے قریب ترین تارے کے بارے میں مطالعہ کرنے کے لیے پانچ سالوں کے دوران 1.5 ملین کلومیٹر کا سفر کرے گا۔ اس کے اس انتہائی اہم مشن آدتیہ خلائی جہاز کی پروگرام ڈائریکٹر خاتون سائنسدان نگار شاہ جی ہیں جن کا تعلق تمل ناڈو کے ضلع سینگوٹائی سے ہے۔ نگار شاہ جی کے والد جناب شیخ میراں صاحب جن کاآبائی وطن ضلع تینکاسی (جنوبی کاشی) سینگوٹائی(لال قلعہ) محلہ سلیمان مسجد جماعت سے ہے آپ کی والدہ کا نام زیتون بی۔ شاہ جی کا اصلی نام نگارسلطانہ ہے۔ شادی کے بعد شاید آپ نے اپنے خاوند کے نام سے لائقہ شاہ جی اختیار کرلیا ہے۔ شاہ جی نے اپنی ابتدائی تعلیم سرکاری اسکول اور ثانوی تعلیم سینگوٹائی ایس آر ایم گرلز ہائر سیکنڈری اسکول سے حاصل کیں۔ ابتداء ہی سے شاہ جی نے اپنی ذہانت و فطانت سے تعلیم میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیاہے۔دسویں جماعت میں نمایاں کامیابی اور بارھویں جماعت میں 1008 نمبر حاصل کر کے اسکول کی سطح پر ٹاپ کیا، گورنمنٹ انجینئرنگ کالج، تیرو نیلویلی جسے نیلائی بھی کہاجاتا ہے میں بیچلر آف انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ برلا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میںاعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نگار شاہ جی نے اسرو میں شمولیت اختیار کی۔ نگار شاہ جی امریکہ کے ناسا اسپیس ریسرچ سینٹر سمیت مختلف ممالک کے خلائی تحقیقی اداروں کا دورہ بھی کر چکی ہیں۔ نگار شاہ جی کے برادر مکرم شیخ سلیم آلوارکورچی پرما کلیانی کالج میں بحیثیت پروفیسر خدمات انجام دے کر ریٹائر ہوئے۔ نگار شاہ جی کے خاوند جناب شاہجہاں دبئی میں بطور انجینئر کام کر رہے ہیں۔ آپ کے فرزند ارجمند جناب محمد طارق ہالینڈ میں سائنسدان ہیں۔ نگار شاہ جی کی دختر محترمہ تسنیم بنگلور میں طب کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ایک مسلم گھرانے میں مولود، نگار شاہ جی نے ISRO کے فلیگ شپ آدتیہ L1 پروجیکٹ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے لیے بالکل موزوں شخص تھیں اور قابل قدر خدمات انجام دے کرنہ صرف اپنے خاندان کا نام روشن کیا بلکہ تمل باشندوں کوبالخصوص خواتین کے لیے فخر و اعزاز بخشا ہے۔

        عالمی سطح پر تکنالوجی میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے ریاست تمل ناڈو کے سندر پچئی سی ای وہ گورگل، شیو ناڈار، صدر، ہچ سی ایل انٹر پرائسس کے نام قابل فخر ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے عظیم منصوبوں چندریان ا،۲ اور تین کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے کارنامے انجام دینے والے بھی ریاست تمل ناڈو کی عظیم شخصیات ہیں۔ چندریان -۱ کے ڈائرکٹر مئیل سوامی انادورے، چندر یان -2 کے ڈائرکٹر محترمہ ونیات اور چندر یان -3 کے ڈائڑکٹر ویرا متھو ویل جو میرے اپنے ضلع ولوپورم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب آدتیہ ایل -1 کی ڈائرکٹر محترمہ نگار شاہ جی نے سورج کے مطالعے کے لیے اپنی عظیم خدمات سے ریاست تمل ناڈو کا نام روشن کردیا ہے۔ انھوں نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ مردو ں کے شانہ بہ شانہ خواتین بھی ہر میدان میں آگے ہیں اور بہترین کارنامے انجام دے سکتی ہیں۔

        ایس آر ایم یونیورسٹی کے ای سی ای ڈپارٹمنٹ، وڈاپلانی نے REACT'17 - الیکٹرانکس انجینئرنگ اور کمیونیکیشن تکنیک میں تحقیق پر تیسری قومی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ REACT وہ فورم ہے جس میں طلباء اور ریسرچ اسکالرز اپنی موجودہ تحقیق پر اپنے مقالے پیش کرتے ہیں۔ اس شاندار تقریب کا آغاز REACT'17 کے پرومو ویڈیو کے ساتھ ہوا۔اس اہم سیمینار میں شرکت کرتے ہوئے خاتون سائنسدان نگار شاہ جی نے ریسرچ اسکالرزاور طلباء کو خطاب کیا۔طلبا آپ کی تقریر سے متاثر ہو کر یوں کہنے لگے کہ آدتیہ ایل 1کی تیاری سے متعلق معلومات بہم پہنچائیں۔سائنسداں نگار شاجی، آدتیہ ایل 1 کی اسرو پروجیکٹ ڈائرکٹرہمیں سیٹلائٹ لانچ کرنے کے سفر پر لے گئیں۔ انھوں نے اس بات کااظہار کیا کہ وہ حکومت کی طرف سے دی گئی ضروریات کی بنیاد پر سیٹلائٹ کے اجزا کو کس طرح ڈیزائن کرتی ہیں۔ پھر انھوں نے بتایا کہ خلا زمین سے کیسے مختلف ہے۔ اس کے بعد انھوں نے انٹینا کی مختلف اقسام کے بارے میں بتایا جو سیٹلائٹ میں استعمال ہوتے ہیں۔ انھوں نے آدتیہ ایل 1 پروجیکٹ کے بارے میں وہ تمام تفصیلات اور تکنیک و منصوبے بتائے جس کے لیے وہ اس وقت محنت کر رہی تھیں۔

        آدتیہ مشن میں کام کرنے سے پہلے شاہ جی انڈین ریموٹ سینسنگ، کمیونیکیشن اور انٹرپلینیٹری سیٹلائٹس کے ڈیزائن کے لیے کام کرچکی ہیں۔ انھوں نے اسرو کے ذریعہ قومی وسائل کی نگرانی اور انتظام کے لیے شروع کیے گئے انڈین ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ریسورس سیٹ-2A کے لیے ایسوسی ایٹ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پربھی خدمات انجام دی ہیں۔ ان تجربات میں وہ امیج سینسنگ، سسٹم انجینئرنگ اور اسپیس انٹرنیٹ میتھڈولوجی جیسے اہم پہلوؤں سے متعلق تحقیقی مقالے پیش کرچکی ہیں۔

        انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس (IIA)، بنگلور نے 26 جنوری 2023 کو سینٹر فار ریسرچ اینڈ ایجوکیشن ان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (CREST) کیمپس میں منعقدہ ایک تقریب میں آدتیہ-L1 مشن کے لیے وزیبل لائن ایمیشن کوروناگراف (VELC) پے لوڈ ISRO کے حوالے کیاتھا۔ ہوساکوٹے، بنگلورو کے قریب۔ VELC پے لوڈ کو CREST کیمپس میں ڈیزائن اور محسوس کیا گیا تھا۔ اس پے لوڈافتتاح تقریب ڈائریکٹر، یو آر راؤ سیٹلائٹ سینٹر (یو ایس آر سی) کو ڈائریکٹر، آئی آئی اے نے چیئرمین، اسرو/ سکریٹری، ڈی او ایس شری ایس سومنتھ کی موجودگی میں عمل میں آئی۔ Aditya-L1 کے پروجیکٹ ڈائریکٹر محترمہ۔ نگارشاہ جی، اور VELC کے پرنسپل انویسٹی گیٹر ڈاکٹر بی راگھویندر پرساد اس موقع پر موجود تھے۔ پے لوڈ کو URSC میں سیٹلائٹ سے مربوط کیے جانے کے طریقہ کار واضح کیئے گئے۔VELC کے پاس شمسی ڈسک کو خفیہ کرنے کا ایک طریقہ کار ہے تاکہ ڈسک سے روشنی کو الگ اور خارج کیا جا سکے۔ کورونا سے روشنی کو مزید پروسیسنگ کے لیے کورونگراف کے ذریعے اخذ کیاجاتا ہے۔ VELC کا مقصد یہ حل کرنے کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے کہ کس طرح کورونا کا درجہ حرارت تقریباً ایک ملین ڈگری تک پہنچ سکتا ہے جب کہ سورج کی سطح خود 6000 ڈگری سینٹی گریڈ سے کچھ زیادہ ہی رہتی ہے۔ اس کے لیے، پے لوڈ، سولار ڈسک کی روشنی کو ضائع کرنے کے بعد، اس کی نچلی ترین باؤنڈری سے اوپر کی طرف، کورونا کے مسلسل مشاہدات کو نشانہ بناتا ہے۔VELC کا وزن 90 کلو گرام ہے اور اس کا طول و عرض 1.7mX1.1mX0.7m ہے۔

        انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IIT) روڑکی نے، انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (ISRO) کے ساتھ ورلڈ اسپیس ویک مناتے ہوئے 2021 کو ایک آن لائن لیکچر سیریز کا آغاز کیا۔اس موقع پر سائنس، ٹیکنالوجی اور خلائی میدان میں خدمات انجام دینے والوں کو اعزاز سے نوازاگیا۔ اس سال WSW کا تھیم 'خلا میں خواتین' تھا۔اسی مناسبت سے،اس ادارے نے ادارہ 6 اکتوبر سے 9 اکتوبر تک لیکچرز کا ایک سلسلہ منعقد کیا۔ یہ لیکچرز نامور خواتین سائنس دانوں کی جانب سے پیش کئے گئے جن میں محترمہ نگار شاہ جی، پروجیکٹ ڈائریکٹر، آدتیہ-L1 مشن، یو آر راؤ سیٹلائٹ سینٹر (یو آر ایس سی)، بنگلورونے آدتیہ مشن سے متعلق تفصیل سے گفتگو کی۔اس طرح کے پروگراموں میں شرکت فرماکر شاہ جی نے طلباء کو خلائی ٹیکنالوجی، ایرو اسپیس سسٹم اور ہندوستانی خلائی پروگراموں کے کام کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔  

        ایک تقریب میں ’ڈیپ اسپیس مشنز‘ کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے محترمہ نگار شاہ جی نے خلائی تحقیق میں درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالی۔ مشرقی ساحل کے ساتھ ہندوستانی لانچ پیڈز کو تعینات کرنے کے مقاصد اوراس کی وجوہات کو تفصیل سے بتایا اورخلائی مطالعہ و تحقیق کی وضاحت کی جس سے چندریان1،2 اور 3اور آدتیہ ایل ون جیسے پروگراموں کو ممکن بنایا گیا ہے۔ مشن پر کام کرنے کے بعد، انھوں نے راکٹ پروپلشن کی مختلف اقسام کے بارے میں بڑی طوالت سے بات کی۔

        سورج کا مطالعہ کرنے والی خاتون سائنسداں محترمہ نگار شاہ جی اسرو میں 36سالہ تجربہ رکھتی ہیں اور اپنے خاندان کے ساتھ بنگلورو میں رہائش پذیر ہیں۔ نگار شاہ جی نے بتایا کہ انجینئرنگ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جب اسرو نے خلائی پروجیکٹ میں کام کرنے کے لیے ایک اشتہار دیا تھا، جس کے لیے نگار نے اپنا اپلی کیشنز جمع کیا تھا ۔ وہ اپنی صلاحیت کی بنیاد پر 1987 میں اسرو کے لیے منتخب ہوئیں۔

        شاہ جی نے نوجوان خواتین کو یہ پیغام دیا ہے کہ چیلنجز ہر موڑ پر ہوتے ہی ہیں لیکن ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ اسرو میں خواتین کے لیے سازگار ماحول پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہاں پہچان صنف کے بجائے صرف صلاحیت اور قابلیت پر ہوتی ہے۔ اس لیے خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے جستجو و شوق سے تعلیم حاصل کریں تو انھیں زندگی میں کامیابی سے ہمکنار ہونے میں کوئی روک نہیں سکتا۔  

         سورج کی جغرافیائی،سائنسی اور اساطیری معنویت و افادیت سے متعلق جذبی کی ایک مشہور نظم ’’نیا سورج‘‘ کے ان اشعار سے اپنی بات کو ختم کرنا چاہوں گا کہ؛

بڑے ناز سے آج ابھرا ہے سورج

ہمالہ کے اُونچے کلس جگمگائے

فضاؤں میں ہونے لگی بارشِ زر

کوئی نازنیں جیسے افشاں چھڑائے

················

ارے او نئی شان کے میرے سورج!

تری آب میں اور بھی تاب آئے

ترے پاس ایسی بھی کوئی کرن ہے

جو ایسے درختوں میں راہ پائے

جو ٹھٹھرے ہوؤں کو، جو سمٹے ہوؤں کو

حرارت بھی بخشے گلے بھی لگائے

٭٭٭

1 تبصرہ: