31/12/24

حسرت کا تصور عشق، مضمون نگار: محمد عارف

 اردو دنیا، نومبر 2024

رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی اپنی افتادِ طبع اور فکر و نظر کے اعتبار سے یگانۂ روزگار شخص تھے۔ اردو کی غزلیہ شاعری میں ان کا بڑا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے غزل کو ایک نئی توانائی اور قوتِ فکر و نظربخشی۔کسی بھی شاعر کے اشعار کا مطالعہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کے زمانے سے واقفیت حاصل کی جائے کہ سمجھ میں آسکے کہ آخر کیا رجحانات و میلانات اور اسباب و علل تھے جن کے سبب شاعر نے یہ اشعار قلمبند کیے۔ علی گڑھ کے آسمان شعر و ادب پر درخشاں ستاروں میں سے ایک نمایاں نجم الثاقب حسرت موہانی کا نام ہے۔ غزل میں جس وقت حسرت موہانی کا عروج تھا اس وقت داغ اور امیر کے اشعار کی گونج ابھی باقی تھی۔ داغ کا شوخ رنگِ سخن اتنا مقبول ہوا کہ اس وقت کے تمام نامور شعرا میں سے معدودے چند کے علاوہ کوئی بھی اس رنگ سے اپنا دامن نہیں بچا سکا۔ اس ماحول میں حسرت موہانی نے یہ کارنامہ انجام دیا کہ پیشہ ور محبوب کو چھوڑ کر اپنی داستانِ عشق کی بنیاد اس محبوب پر رکھی جو ان کے ہی خاندان کا کوئی جیتا جاگتا فرد تھا۔ اور شوخی کے بجائے اپنی طبیعت کی مناسبت سے زیادہ زور تجربے کی صداقت پر دیا، زبان بھی صاف و شستہ اور روزمرہ کی زندگی سے بہت قریب رکھی اور انسانی نفسیات کا بھی خیال رکھا۔

داغ کے مانند وہ بھی اپنے اشعار میںایک کامیاب عاشق کا رول ادا کرتے ہیں جبکہ دیگر شعرا اپنے کمالِ فن کے باوجود ناکام عاشق نظر آتے ہیں۔ اس طرح حسرت موہانی کو بھی وہی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی جو داغ کے حصے میں آئی اور حسرت رئیس المتغزلین کہلائے۔

حسرت کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انھوںنے فلسفہ اور حیاتِ انسانی کی پیچیدگیوں کو موضوع نہیں بنایا، بلند خیالی اور معنی آفرینی سے احتراز کیا اور اپنے اشعار کو تقلیدِ لفظی و معنوی سے دور رکھا۔ انھوںنے ساری زندگی دار و رسن اور قید و محن کی آزمائشوں میں گزاری، لیکن اپنے قلب و نظر اور فکر وخیال کی دنیا کو حسن و عشق کی رعنائیوں سے تروتازہ رکھا۔ حسرت کی شاعری میں فلسفہ اور تعقل و تفکر نہیں بلکہ صداقت، معصومیت اور کھراپن ہے۔ حسرت موہانی کی نظر میں معیاری شاعری کے تین اہم اجزا ہیں۔ جذبات عالی، جذبہ نگاری اور واقعہ نگاری۔ اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ حسرت کی شاعری کی بنیاد جذبہ نگاری اور واقعہ نگاری پر ہے۔  انھوںنے متوسط اور شریف گھرانے کی اس عورت کو اپنا موضوعِ شاعری قرار دیا جو کہ باحیا ہے اور عفت و پاکدامنی کا مجسمہ ہے۔ اس کے دل میں بھی محبت کے جذبات اُمنڈ رہے ہیں لیکن محبت کا اقرار کرتے ہوئے حیا اور تذبذب دامن گیر ہو جاتے ہیں۔ وہ رسمِ وفا کی پاسداری بھی کرنا چاہتی ہے مگر زمیندار گھرانوں کی تہذیبی وضع داری سے مجبور ہو کر انکار کر دیتی ہے۔ لیکن یہ انکار اس قبیل سے ہے جس میں اقرار کا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ ملاحظہ ہو        ؎

دل مایوس کو گرویدہ گفتار کر لینا

وہ ان کا پردۂ انکار میں اقرار کر لینا

برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے

ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے

حسرت موہانی کے دم سے ہی اردو غزل کی نشاۃ ثانیہ کا دور شروع ہوا، اور یہ ایسی خدمت ہے جس نے انھیں لازوال اور دائمی بنا دیا ہے۔ انھوں نے فقط غزل کو حیاتِ نو ہی نہیں بخشی بلکہ اسے ایک نیا وقار بھی عطا کیا۔ بڑے سے بڑا نقاد بھی جو حسرت کی شاعری کو دوسرے اور تیسرے نمبر کی شاعری سمجھتا ہے وہ بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ غزل کا احیا حسرت موہانی کے ہی دم سے ہوا ہے۔ جیسا کہ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں:

’’یہ کہنے میں شاید ہی کسی کو تامل ہو کہ، حسرت کا غزل پر بڑا احسان ہے اور میرے نزدیک جس کا غزل پر احسان ہے اس کا پوری اردو شاعری اور اردو زبان پر احسان ہے۔ حسرت نے غزل کی آبرو اس زمانہ میں رکھ لی جب غزل بہت بدنام اور ہر طرف سے نرغہ میں تھی۔ انھوںنے اردو میںغزل کی اہمیت او رعظمت ایک نامعلوم مدت تک منوالی۔ حسرت غزل کے بڑے شاعروں میں تسلیم کیے جاتے ہیں اور اردو شاعری کے مسلسل ارتقا میں ان کا اہم مقام ہے۔ ان کے خیال اور انداز بیان دونوں میں شخصی اور روایتی عناصر کی آمیزش ہے۔ حسرت خالص غزل گو تھے ان سے پہلے بڑے جید غزل گو گذرے تھے۔ معاصر غزل گو بھی اپنا اپنا مقام رکھتے ہیں، پھر بھی حسرت کی غزل گوئی ممتاز اور منفرد ہے۔ اس لیے کہ حسرت غزل کا سہارا غزل سے ہی لیتے ہیں کسی اور سے نہیں، غزل گوئی کوئی کرے، غزل کا معیار حسرت ہی رہیں گے۔‘‘(رشید احمد صدیقی: کچھ حسرت کے بارے میں نگار،1952، ص22)

ڈاکٹر عبادت بریلوی کا خیال ہے کہ:

’’حسرت کا ادب تین ادبی رجحانات کا امتزاج ہے۔ سرسید کی ادبی تحریک سے انھیں واقعیت پرستی اور حقیقت پسندی ملی۔ امیر اور داغ سے انھوں نے غزل کا لوچ اور اس کا بانکپن حاصل کیا اور لکھنؤ مکتب کی شاعری کے ایک ردِ عمل کے نتیجہ میں حسرت کی شاعری میں شگفتگی، لطافت، زندہ دلی، بے تکلفی، سادگی اور نفاست کی خصوصیات پیدا ہوئیں، اور اس طرح حسرت کی شاعری صحیح رنگِ تغزل سے آشنا ہوئی۔‘‘  (ڈاکٹر عبادت بریلوی: حسرت کا تغزل نگار، 1952، ص44)

حسرت موہانی نے غزل کا انداز بدلا۔ انھوں نے عشقیہ شاعری میں ارضیت پیدا کی اور عشق کے حقیقی جذبات او رتجربات کا غزل میں اظہار کیا اور غزل کو ایک نئے غنائی آہنگ سے آشنا کیا۔

حقیقت یہی ہے کہ انسان کو جنسی اور نفسیاتی خواہشات کی غلامی سے آزاد کرا کے تہذیب و تمدن نے ہی اسے انسانیت اور آدمیت کی شناخت عطا کی ہے، اب اگر انسان انھیں خواہشات نفسانی کا اسیر ہو کر دوبارہ تہذیب و تمدن سے عاری دنیا میں چلا جائے جہاں نفس امارہ کی حکمرانی ہو اور جنسی آرزوئوں کی تکمیل ہی سرمایۂ حیات سمجھی جاتی ہو تو یہ ابتذال اور انحطاط کی آخری منزل ہے۔ ایسی حالت میں حسرت موہانی کا غزل کے میدان میں وارد ہونا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ مجنوں گوکھپوری اس سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں:

’’ہمارے اندر ایک نئی لہر دوڑ جاتی ہے اور ہم چونک پڑتے ہیں، ہم کو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ کہیں سے اردو غزل میں نئی توانائی آگئی ہے۔ اب اس سے ایک نئی اور خوش آئند سمت میں قدم اٹھایا ہے۔‘‘

 (مجنوں گورکھپوری، حسرت کی غزل، جنوری، فروری 1952، ص12)

معروف مصور ’سیزان‘ نے ایک تصویر بنائی تھی جس میں ایک شخص کو کپڑوں پر اِستری کرتے ہوئے مستی میں گاتے اور گنگناتے ہوئے دکھایا گیا تھا، یہ تصویر رومانوی (Impressionism) کا نمائندہ شاہکار بن گئی تھی۔ اس لیے کہ زندگی کی سختیاں برداشت کرنے والے سماج کے نچلے طبقے کو تمام مشقتوں اور پریشانیوں کے درمیان مستی وسرشاری میں گاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ حسرت کی عشقیہ شاعری بھی اسی قبیل کی ہے۔ ان کی شاعری میں بھولے بھالے اور زمانے کی نیرنگیوں سے بے خبر چہرے کسی معصومیت سے جھانکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور ان چہروں کے پس منظر میں سماج کے متوسط طبقے سے متعلق در و دیوار نظر آتے ہیں۔

حسرت کے عشق میں خودداری ہے جس کے سبب وہ اظہار تمنا کرنے سے گریز کرتے نظر آتے ہیں اگر اظہار کیا بھی تو اس پر بعض اوقات نادم سے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ان کے عشق کی پاکیزگی اور خودداری ہی کا نتیجہ ہے۔ مثلاً       ؎

حسن بے پروا کو خود بین و خود آرا کر دیا

کیا کیا میں نے کہ اظہارِ تمنا کر دیا!!

حسن کے سامنے اگر حسرت موہانی کبھی ہمت بھی کرتے ہیں تو ایسے رازدارانہ انداز میں کہ محبوب کو خبر نہ ہو۔ اور بعض اوقات تو حسرت کی شریفانہ احتیاط اور معصومیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ محبوب کے لطف و کرم کے اشارے کو بھی نہیں سمجھتے اور اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ چنانچہ ایک مقام پر انھوں نے اپنی کم ہمتی کو تسلیم بھی کیا ہے       ؎

وہ خواب ناز میں تھے اور نہ تھے اے شوق پا بوسی

نہ سمجھی پستی ہمت تری اس لطف ایما کو

اور اگر کبھی اپنے تذبذب اور کم ہمتی پر غلبہ حاصل کر کے اپنے محبوب کو داستان شوق سنانا بھی چاہتے ہیں تو وہ التماس کی کشمکش میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور اظہار شوق کی نوبت ہی نہیں آتی۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ آرزو کے اظہار سے زیادہ آرزو کی یاد کے دیوانے ہیں اس لیے اس یاد کو دل سے لگا کر رکھنا چاہتے ہیں         ؎

کیوں کر کوئی سنائے انھیں شوق کی وہ بات

جو پڑ گئی ہو کشمکش التماس میں!

حسرت موہانی علی الاعلان اور ببانگ دہل مضامین کو باندھتے ہیں۔ ان کے اندر کسی طرح کے تذبذب یا جھجھک کا شائبہ نظر نہیں آتا۔ بے خودی اور وارفتگی کے اظہارات حسرت کی اخلاقی جرأت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اسی صاف گوئی اور بے باکی کے سبب بعض اوقات انھیں صفائی دینی پڑتی ہے کہ ان کے باطن میں کوئی کھوٹ نہیں ہے ان کا باطن پاک و پاکیزہ اور شفاف ہے۔ چنانچہ فرماتے  ہیں         ؎

حسرت کا دل آئینہ ہے اک پر تو حق کا

گو اس کی نظر شیفتہ حسن بتاں ہے

یا پھر ایک جگہ مقطع میں اپنے عشق کی پاکیزگی کا یوں اعلان کرتے ہیں          ؎

دیار شوق میں ماتم بپا ہے مرگ حسرت کا

وہ وضع پارسا اس کی وہ عشق پاکباز اس کا

عشق و محبت کی وارداتوں پر حسرت کے اشعار کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی معاملات میں حسرت نہایت ہی بے باکی اور جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے تھے اسی طرح شاعری اور سخن وری کے میدان میں بھی اخلاقی جرأت کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ان کی وارفتگی اور بیساختگی انسانی جذبات پر پردہ ڈالنے کی روادار نہیں تھی۔ بلکہ جیسے جیسے ان کے اندر پختگی اور انفرادیت پیدا ہوتی گئی ان کا قلم اور زیادہ جسور اور جری ہوتا گیا اور ان کا بیان اور زیادہ صریح اور واضح ہوتا گیا۔ حسرت کی شاعری جذبات و احساسات کی کمی کو خیالات اور تصوات کے ذریعے پر کرنا چاہتے ہیں، لیکن تصور اور دوسرے خارجی محرکوں کی طرح جذبے کے خلا کو پُر نہیں کیا جا سکتا۔ یہی سبب ہے کہ تصورات کی شاعری میں اکثر اوقات بے لطفی اور سپاٹ پن پیدا ہو جاتا ہے۔ سوائے ایسی صورت کے کہ تصورات کی گہرائی میں جذبات کی کارفرمائی موجود ہو جیسے غالب کے یہاں ہے۔ مگر اوسط درجے کا اور معمولی شاعر اپنے اشعار میں تصورات کا سہارا اس وجہ سے لیتا ہے کہ وہ جذبات کی کمی کا تدارک کرسکے۔ حسرت کی حقیقت نگاری میں تخیل کی بھی کارفرمائی ہے لیکن اس انداز سے کہ وہ حقیقت کو اور زیادہ مؤثر اور دلکش بنا دیتی ہے۔ معنویت کی تخلیق شاعری ہے۔ داخلی جذبات اور خارجی محرکات کا امتزاج حسرت کے مادی تجربات اور مشاہدات میں معنویت پیدا کر دیتا ہے۔ حسرت چشم بینا بھی رکھتے ہیں اور دور اندیش بھی ہیں۔ وہ غزل کے ادا شناس تھے، اس کی ملائمت اور رمزیت کی حدود سے آشنا تھے اس لیے قید و بند کی صعوبتیں اور مشقتیں برداشت کرنے کے باوجود اور اپنے تیکھے سیاسی شعور اور مسلسل سیاسی جدوجہد کے باوجود انھوں نے سیاست اور سیاست کی راہ میں آپ بیتی کو علی الاعلان غزل میں بیان نہیں کیا۔ بال گنگا دھر تلک کی تعریف میں غزل اور چکی کی مشقت والے اشعار اور اسی قبیل کے چند دوسرے اشعار کے سوا اس کا تذکرہ ان کے کلام میں نظر نہیں آتا۔

حسرت موہانی کی کلیات کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ حسن و عشق کی داستانیں رقم کرنے والے اس شاعر نے حسن کی رعنائیوں اور دلربائیوں کے انگنت پہلوئوں اور تہوں کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔ اور اس سعی و کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ حسرت کے لیے عشق فقط دل لگی اور دل بستگی کا سامان نہیں بلکہ عشق مختلف اخلاقی بیماریوں کا علاج بھی ہے        ؎

مٹے عیب سب عشق بازی میں حسرت

نہ بغض و حسد ہے نہ غصہ نہ کینہ

حسرت کے نظریے کے مطابق عشق انسان کے اندر مثبت تبدیلیاں لاتا ہے اور اس کے منفی جذبات کو ختم کرتا ہے        ؎

مجموعہ خوبی ہوئی عشاق کی سیرت

یہ کیا ہے اگر عشق کا اعجاز نہیں ہے

عشق ہی کی بدولت حسرت شاعر بنے اور عشق ہی کی بدولت انھوں نے نام و نمود حاصل کیا۔ عشق ہی کے سبب ان کی شعری صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوا اور عشق ہی نے انھیں ’حسرت‘ کے نام سے دنیا والوں سے روشناس کرایا            ؎

جب سے کہا عشق نے حسرت مجھے

کوئی بھی کہتا نہیں فضل الحسن

 

Mohammad Arif

49-B/15, Stanley Road, Bali Colony

Prayagraj- 211002

Mob.: 7705964091

aarifprince857@gmail.com

 

اردو صحافت پر جدید تیکنالوجی کے اثرات، مضمون نگار: محمد سہیل

 اردو دنیا، نومبر 2024

موجود ہ دور کو سائنس اور ٹکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے، جدیدٹکنالوجی نے ہمارے رابطے اور معلومات کے طریقے میں انقلاب برپا کردیا ہے، ٹکنالوجی (Technology)  لفظ انگریزی میں یونانی زبان سے آیا ہے، جس کے معنی کسی فن یا تکنیک کا منظم مطالعہ کے ہیں۔

ٹکنالوجی سے مراد وہ وسائل، طریقے اور نظام ہیں جو مسائل کو حل کرنے، کام کو بہترین طریقے سے انجام دینے اور انسانی صلاحیتوں کو بہتر اور کار آمدبنانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں، موجودہ صدی میںجدید ٹکنالوجی زندگی کے ہرشعبے میں داخل ہوچکی ہے، انسانی زندگی کا کوئی شعبہ اس ٹکنالوجی سے خالی نہیں رہا، ایجادات واختراعات کا سلسلہ جاری ہے،روزانہ ایسی ایسی ایجادات،آلات دنیا کے سامنے آرہے ہیں جنھیں دیکھ کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔

آج سائنس اور ٹیکنالوجی نے اپنی حیرت انگیز ترقی اور وسعت کی وجہ سے دنیا کو ایک عالمی گاؤں میں تبدیل کردیا ہے، انسانی زندگی کے دھارے کو موڑ دیا ہے، انسان کی سوچ وفکر، گفتگو، تہذیب وثقافت اور اس کے طرز زندگی کو بدل دیا ہے، دوریوں اور فاصلوں کو ختم کر دیا ہے، زندگی کے ہر شعبے میں نت نئی تبدیلیاں نظر آرہی ہیں، سماجیات سے لے کر اخلاقیات تک، معاشیات سے لے کر سیاسیات تک،تعلیم سے لے کر ادب وثقافت تک، غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے میں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں،اور ان تبدیلیوں کے دور رس اثرات جہاں ایک طرف زندگی کے ہر میدان اور شعبے میں دیکھے جا رہے ہیں،  تو وہیں دوسری طرف اردو صحافت کے میدان میں بھی دیکھے جا رہے ہیں ۔

ڈاکٹر احسان عالم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیںکہ:

’’اکیسویں صدی کی آمد کے ساتھ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں کافی ترقی ہوئی، ان ترقیوں کے ساتھ اردو صحافت کے آنگن میں نئی روشنی آب و تاب کے ساتھ نظر آئی، اردو اخبارات، رسائل و جرائد کی اشاعت اور طباعت کا مرحلہ آسان سے آسان تر ہوتا چلا گیا، دنیا آج گلوبل ولیج میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس کے ساتھ ہی اردو صحافت کی مسافت پر لگام لگانا آسان ہوتا گیا، کمپیوٹر کی آمد اور انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے ساتھ اردو صحافت کا دائرہ کافی تیزی سے وسیع ہوتا گیا، اکیسویں صدی کی شروعات کے ساتھ ہی اردو اخبارات کی ظاہری شکل و صورت اور خوبصورتی میں کافی اضافہ ہو گیا جو عام قارئین کی توجہ کا مرکز بنا، دہلی، اتر پردیش، بہار، جموں وکشمیر، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، مغربی بنگال وغیرہ صوبوں میں اردو صحافت نے کافی ترقی کی، اخبارات اور رسائل بڑے پیمانے پر شائع ہونے لگے۔‘‘

(امام اعظم،ڈاکٹر،اکیسویں صدی میں اردو صحافت، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی، 2016، ص141)

اکیسویں صدی میں جدیدٹیکنالوجی اور ذرائع ترسیل کا کنٹرول ہے، ہر پل رونما ہونے والے واقعات اور حادثات کی اطلاع لمحوں میں ساری دنیا میں پہنچ جاتی ہے، عوامی ذرائع ترسیل کی بے پناہ ترقی نے تمام عالم انسانیت کو انگشت بدنداں کر دیا ہے، آج ٹی وی،فلم، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، الیکٹرانک میل، موبائل فون، ویڈیو کانفرنسنگ، سٹیلائٹ چینلز اور ڈیجیٹل صحافت کا دور دورہ ہے، دنیا بھر کی معلومات محض انگلی کی ایک جنبش کی مرہون منت ہو گئی ہیں۔

 آج ہم جس سماج میں جی رہے ہیں، اسے مکمل طور پر ایک معلوماتی اور ڈیجیٹل سماج بنانے میں ان جدید وسائل ابلاغ و ترسیل کا بہت بڑا رول ہے، ان کے ذریعے ہرطرح کی معلومات اور خبریں تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے لگیں،دنیا بھر کی خبریں انٹرنیٹ کے ذریعے لمحوں میں اِدھر سے اُدھر پہنچ جاتی ہیں، ان ذرائع ترسیل کی قوت اور دسترس کا اندازہ آسانی سے نہیں لگایا جا سکتا ہے، آج دنیا کی ہمہ جہت ترقی میں عوامی ذرائع ابلاغ سب سے اہم رول ادا کر رہے ہیں، یہ ہماری سماجی، معاشی، تجارتی، تعلیمی، تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی زندگی پر ہر طرح اثر انداز ہو رہے ہیں، زیادہ تر دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ عوامی ذرائع ابلاغ نے ہماری مادی ترقی کو، مادی وسائل کو، ہماری تہذیبی اقدار اور فکری میلانات کو شدت سے متاثر کیا ہے ۔

گذشتہ چند برسوں میں مواصلات اور ابلاغ عامہ کی غیر معمولی توسیع نے عوام کی روایتی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے اور اس نے ہمارے سماج کے سامنے ایک بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے، عوامی ذرائع ترسیل نہ صرف دنیا کا نقشہ بدل رہے ہیں بلکہ دنیا کی تقدیر کو بھی انھوں نے اپنی مٹھی میں کر لیا ہے، ترسیل اور کمیونی کیشن ایسی تکنیکیں ہیں جن سے واقف ہوئے بغیر کوئی شخص ترقی نہیں کر سکتا، خوشی کی بات ہے کہ ہماری نئی نسل اس جانب متوجہ ہوئی بھی ہے، اسے اس میدان کی وسعت کا اندازہ ہو گیا ہے اور وہ اس امر سے واقف ہے کہ اس میں آزادانہ طور پر کام کیا جا سکتا ہے، وہ شعبٔہ ابلاغیات یعنی ریڈیو، ٹی وی، صحافت اور فلم سے براہ راست وابستہ ہونا چاہتی ہے، اس لیے کہ اس میں روزگار کے مواقع موجود ہے۔

زندگی آج جس قدر تیز رفتار ہوئی ہے صحافت کی ترقی کی رفتار اس سے کہیں تیز ہے، انسان نے زمین پر جتنی سرحدیں بنائی ہیں، چوحدیوں پر آہنی پر دے لٹکائے ہیں صحافت نے ان گھیروں کو ہمیں توڑنے پر مجبور کیا ہے اور یہ تغیر کچھ یوں ہی نہیں ہوا، اس کے لیے ذات اور ذہن کے اندر جو دیوار یں اور سرحدیں تھیں اسے عبور کرنے کا سلیقہ آدمی نے اسی سے سیکھا، اس عبوری عمل میں صحافت نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ اس کے اثرات انسانی علوم پر بھی پڑے ہیں، تہذیبی تاریخ مرتب کرنے میں بھی اس کا بڑا ہاتھ ہے،تہذیب کے مختلف ادوار کو، ان کے رد و قبول کو عالمی حافظے میں محفوظ کرنے کا کارنامہ بھی اس نے انجام دیا ہے، ان کارناموں کے مظاہر کم و بیش دنیا کے سارے ممالک کی زبانوں میں موجود ہیں، اور یہ مظاہر ہمارے لیے زندہ دستاویز ہیں، جو رونما ہونے والے عالمی واقعات سے صحافت کے انسلاک کی گواہی دیتے ہیں۔

جدید ٹکنالوجی کے اثرات کی وجہ سے اردو صحافت مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والی صدی اردو صحافت کے لیے ایک خوش آئند صدی ہوگی،اردو اخبارات ورسائل نے اپنی بساط بھرٹکنالوجی کو استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور آج اردو کے اخبارات میں جدید ترین ٹکنالوجی کا استعمال ہورہا ہے۔ اس نے نہ صرف برصغیر میں اپنا پرچم بلند کیا ہے بلکہ اس نے کئی نئی بستیاں بسائیں اور نئے آشیانے آباد کیے ہیں۔

عابد انور اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیںکہ:

’’جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے معاملے میں کسی بھی زبان کے اخبارات سے اردو کے اخبارات کمتر نہیں ہیں اور خبروں کے معاملے میں بھی اردو کے اخبارات پیچھے نہیں ہیںخصوصا بین الاقوامی خبروں کے سلسلے میں اردو کے اخبارات اہل وطن کی تمام زبانوں کے اخبارات سے آگے ہیں، اردو کے اخبارات میں بین الاقوامی خبروں کوخاص اہمیت دی جاتی ہے اور نمایاں طور پر شائع کیا جاتا ہے،اردو پروگرام ان پیج نے اپنے خوبصورت نوری نستعلیق کے اخبارات کی طباعت میں انقلاب  برپا کیا ہے۔‘‘

(تنزیل اطہر، ڈاکٹر،الیکٹرانک میڈیا اور اردو صحافت،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،نئی دہلی، 2015،ص123)

آج جدید ٹکنالوجی کی مدد سے اردو خلیجی ممالک سمیت مغربی ممالک یوروپ افریقی ممالک میں بولی جارہی ہے اور وہاں سے کئی اخبارات بھی شائع ہورہے ہیں، انٹرنیٹ کی توسیع نے تو ایک انقلاب برپا کردیا ہے، ہر جگہ سے ویب اور ای اخبارات شائع ہورہے ہیں جو نہ صرف اردو زبان کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہورہے ہیں بلکہ اردو صحافت، شاعری اور ادب کو بھی عوام الناس تک پہنچا رہے ہیں،آج ہندوستان میں انٹرنیٹ کی زبان اردو ہے ،اگر کسی کو بھی اپنی بات مؤثر انداز میں کہنی ہوتی ہے تو اردو زبان، اردو شاعری اور اردو جملوں کا سہارا لیتا ہے، یہ کمپیوٹر اور اطلاعاتی ٹکنالوجی کا ہی کمال ہے کہ فیس بک ہو یا ٹوئٹر ہر جگہ اردو کی دھوم ہے۔

آن لائن ایڈیشن اور سوشل میڈیا ویب سائٹس کی بدولت اردو صحافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے،ایک عام اندازے کے مطابق دو لاکھ سے زائد اردو کی ویب سائٹس اس وقت موجود ہیں جن سے اردو صحافت کے علاوہ اردو زبان وادب کی ترویج واشاعت میں مدد مل رہی ہے،اردو سافٹ ویئرس،ڈکشنریز،اردو اخبارات وجرائد،اردو اکیڈیمیز،کتاب گھر،اردو سیکھنے سکھانے کے ذرائع ان میں شامل ہیں۔ آزادی کے بعد اکیسوی صدی کے آغاز میں پہلی بار اردو صحافت میں جدید ترین ٹکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ دہلی، ممبئی، کولکاتہ، حیدرآباد، پٹنہ، بنگلور اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں سے نئے نئے اخبارات منظر عام پر آرہے ہیں جو صحافتی معیار اور جدید ترین ٹکنالوجی کے آئینہ دار ہیں۔ مختلف اقسام کے فونٹس کے استعمال سے اردو اخبارات اور ان کے مختلف موضوعات پر شائع ہونے والے ایڈیشنز کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے جب کہ فوٹو شاپ،کورل ڈرا،پیج میکر جیسے سافٹ ویئرس کی بدولت گرافگ ڈیزائننگ،تصاویر کی صفحے کی مناسبت سے تزئین وترتیب کی جارہی ہے،یہی طریقہ کار میقاتی جرائد اور کتابوں کی اشاعت کے لیے بھی تیار کیا جا رہا ہے۔

 دور درشن پر 24 گھنٹے تک چلنے والا نیوز چینل ڈی ڈی اردو، سہارا گروپ کا عالمی سہارا اور اخبار’منصف‘ کا ’منصف ٹی وی ‘ اردو کی توسیع میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ ای ٹی وی اردو،روبی ٹی وی،4TV ،ٹی نیوزگزشتہ کئی سالوں سے اردو صحافت کو فروغ دینے میں نمایاں کردارادا کررہے ہیں۔ دور درشن اور اردو صحافت کارشتہ مضبوط اور اٹوٹ ہے۔دوردرشن کے اردو پروگراموں بالخصوص خبرنامے، مباحث، انٹرویوز وغیرہ کے لیے اردو صحافت سے وابستہ اہم شخصیات کی خدمات سے استفادہ کیا جاتا رہا، اگرچہ کہ اسے خاطر خواہ سرپرستی حاصل نہیں ہے،تاہم اردو صحافت کا سفر دوردرشن کے ذریعے بھی جاری ہے۔ای ٹی وی اردو ایک قومی ٹیلویژن چینل ہے، یہ دنیا کے بیشتر ممالک میں دیکھا اورپسند کیا جاتا ہے۔ دکن کا خبر نامہ،خاص بات،عالمی منظر وغیرہ قبول عام پروگرام ہیں۔

آج اردو کے زیادہ تر اخبارات اپنا آن لائن ایڈیشن شائع کر رہے ہیں، یہ اردو صحافت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے بھی آج ہندوستان میں اردو صحافت کی ترسیل ہو رہی ہے۔ ان کے ذریعے ثقافتی، ادبی، سماجی، تعلیمی مباحثے، مذاکرے اور تبصرے پیش کیے جارہے ہیں،بیشتر اردو اخبارات نے ویب سائٹ پر انگریزی ایڈیشن بھی جاری کئے ہیں جس کی بدولت غیر اردو داں افراد بھی ان اخبارات سے استفادہ کر سکتے  ہیں۔

دور حاضر کے معروف صحافی ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویزرقمطراز ہیں:

’’اردو صحافت کے روشن امکانات کے ثبوت کے طور پر دنیا بھر کے اخبارات، جرائدکے آن لائن ایڈیشنس ہیں جن کی تعداد میں ہر لمحہ اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو زبان وادب، صحافت کو مستقبل قریب میں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے،یہ دوسری زبانوں کے شانہ بشانہ ہے۔‘‘

(ہمایوں اشرف، ڈاکٹر، اردو صحافت: مسائل اور امکانات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی،2018،ص169)

سوشل میڈیا بھی جدید ٹیکنالوجی کا ایک اہم جز ہے، انٹرنیٹ بلاگز، سماجی روابط کی ویب سائٹس،پیغام رسانی کے اسمارٹ فون ایپس ،ای میل اور ایس ایم ایس وغیرہ پر سوشل میڈیامحیط ہے۔سوشل میڈیا کی مقبولیت عصر حاضر میں برقی اور طباعتی ذرائع ابلاغ سے کہیں زیادہ ہے۔ دراصل سوشل میڈیا کی مقبولیت کا راز اس کی سرعت اور برق رفتاری میں پوشیدہ ہے۔موجودہ دور میں لوگوں کے پاس وقت کم ہے اور کام زیادہ۔ سوشل نیٹ ورکس کی موجودگی میں اخبارات اور نیوز چینلوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے ذریعے خبررسانی سے وابستہ اداروں کو اپنے قارئین اور ناظرین کے تبصروں اور آرا سے آگاہی کے بھرپور مواقع ملتے ہیں۔

ڈاکٹر شاہد اقبال اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’’سوشل میڈیا صحافت میں جو سب سے بڑی انقلابی تبدیلی لائی وہ یہ ہے کہ اس نے صارفین کو محض قاری ہی نہیں رہنے دیا بلکہ اسے معلومات یا خبروں کو جمع کرنے ،سجانے اور دوسروں کے ساتھ اشتراک کرنے کے قابل بنا دیا اور ایک نیا نام ’شہری صحافت‘ دیا، اس طرح سوشل میڈیا نے قارئین؍ سامعین؍ ناظرین اور صحافی کے درمیان موجود خط کو مبہم اور دھندلا کر دیا،پہلے جو قاری سامع یا ناظر کی حیثیت رکھتے تھے اب محض خبروں کو پڑھنے،سننے یا دیکھنے تک ہی محدود نہیں رہ گئے ہیں بلکہ خبروں کی تشکیل، ترسیل،تجزیے وتبصرے میں بھی فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ سماجی ابلاغ کی یہ دنیا بڑی وسیع ہے اور ذاتیات سے لے کر سماجیات تک، عمرانیات سے لے کر سیاسیات تک دنیا کے ہر موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔‘‘

(اکیسویں صدی میں اردو صحافت، ص 280-281)

سماجی دنیاکے اثرات اردو صحافت کی دنیا میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ آج سوشل نیٹ ورکس کی بدولت اردو صحافیوں، ادیبوں اور قلمکاروں کی رسائی دنیا کے گوشے گوشے میں ہونے لگی ہے۔ ان کے ادبی ،علمی ،تحقیقی،تنقیدی مضامین، تصنیفات و تخلیقات دنیا میں عام ہونے لگی ہیں۔  ان پیج میں مضمون، کلام ٹائپ کر کے بیک وقت ہند و پاک ہی نہیں بلکہ امریکہ، کناڈا، انگلینڈ، ڈنمارک کے اخبارات و جرائد کوای میل کر دیجیے، کبھی املا کی غلطیوں کے ساتھ تو کبھی ایڈیٹنگ کے بعد شائع ہو جائیں گے۔  ویسے کاپی پیسٹ کی روایت بھی عام ہونے لگی ہے۔ اخبارات کے اخبارات، مضامین کے مضامین من و عن کاپی پیسٹ ہو جاتے ہیں۔ یہ روایت بہت قدیم ہے پہلے پڑوسی ملک کے ڈائجسٹ، ناولس حتی کہ قرآنی نسخے، مذہبی کتابیں ہمارے یہاں انتہائی اخلاص کے ساتھ نقل کر لی جاتی تھی۔ اب انٹرنیٹ کی سہولت کا بھر پور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ، ای میل، ان پیچ نے اخبارات و جرائد کی مشکلات کو کم کر دیاہے، ایڈیٹرو سب ایڈیٹرس کے بوجھ کو کم کر دیا ہے۔ یو این آئی، قندیل آن لائن، بصیرت آن لائن، فکر و خبر، دی وائر، مضامین ڈاٹ کام اور ملت ٹائمز وغیرہ جیسے آئن لائن خبر رساں ادارے اردو صحافت کی ترویج میں غیر معمولی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

انٹرنیٹ اور ویب سائٹ کی سہولتوں نے مشرق و مغرب کے اجنبی معاشروں میں اُردو نژاد باشندوں کو زبان اور تہذیب کی اجنبیت کے احساس کو ختم کرنے کا سنہراموقع فراہم کیا ہے۔اس جدید تر ٹکنالوجی کی مدد سے پیغام کی ترسیل اُردو والے کو ایک اجنبی ملک میں رہتے ہوئے اپنی لسانی اور ثقافتی جڑوں کی جانب لوٹ جانے کا موقع فراہم کیا ہے، رسالوں، کتابوں، روزناموں میں دن رات منتقل ہونے والا مواد ان اردو والوں کی دسترس میں بھی آگیا ہے جو انٹرنیٹ اور ویب سائٹ کی سہولتوں کو استعمال کرنے کو اپنی عادت اور مشغلہ بنائے ہوئے ہیں۔ دلّی میں اگر’ نوائے وقت ‘اور ’جنگ‘ کی سرخیوں اور اس کی خبروں سے روزانہ واقف ہونا ممکن ہے تو ’ انقلاب‘ اور’ سیاست‘ جیسے ہندوستانی اخباروں کو انٹرنیٹ کے پھیلے ہوئے رابطوں میں ڈھونڈ کر پڑھ لینا آسان ہو گیا ہے اوراس کی وجہ سے قارئین قومی وبین الاقوامی واقعات،سماجی ،سیاسی ،معاشی اور تہذیبی معاملات ومسائل سے باخبر رہتے ہیں۔

اکیسویں صدی کو سوشل میڈیا کی صدی کہا جاسکتا ہے۔دنیا کو گلوبل ولیج بنا نے میں سوشل میڈیا کا بڑا اہم رول رہاہے۔ سوشل میڈیا انٹرنیٹ پر مبنی ایپلی کیشنز کا ایک گروپ ہے جو نظریاتی اور تکنیکی بنیادوں پر کھڑا ہے،جو صارفین کو اپنے خیالات کے اظہار کی اجازت دیتا ہے۔ آج انٹرنیٹ کے صارفین کازیادہ تر وقت سوشل میڈیا سائٹس پر ہی گزرتا ہے۔ آج ہر طبقہ اور عمر کے لوگ سوشل سائٹس کے ذریعے ایک دوسرے سے متعارف بھی ہو رہے ہیں اور خبروں،معلومات ،تصاویر اور ویڈیو کلیپنگ کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ بلاشبہ سوشل میڈیا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اثر ہوا ہے مگر اسے ایک انقلابی ،تعمیری اور مثبت اثر کہا جاسکتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا سائٹس کی بدولت الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی رسائی بھی ملک،زبان اور قوم کے حدود اور خطوط سے بالا تر ہو کر دنیا کے گوشے گوشے تک ہو رہی ہے۔ جن اخبارات کی رسائی دوسرے ممالک تک ممکن نہ تھی اب وہ اپنے اخبارات کے لنکس کو سوشل میڈیا سائٹس پر مربوط کر کے ساری دنیا میں پھیلانے کے قابل ہو چکے ہیں۔

 ایک دور تھا جب پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کو نہ صرف اپنے اپنے ملک بلکہ دوسرے ممالک کی پالیسیوں کا احترام اور پابندی کرنی ضروری تھی۔ دوسرے ممالک کی سرحدوں میں داخلے کے لیے ان اخبارات کو سنسر کی کسوٹی سے گذرنا پڑتا تھا۔ سوشل میڈیا سائٹس کے ذریعے کوئی بھی اخبار کسی بھی ملک میں سنسر کے بغیر پڑھا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس سائٹس پر اس ملک میں پابندی عائد نہ ہو۔ اردو صحافت کی تعداد اشاعت گھٹ سکتی ہے مگر سوشل میڈیا سائٹس کی بدولت ان کے قارئین کی تعداد لاکھوں بلکہ کروڑوں تک پہنچ سکتی ہے۔

اکیسویں صدی کے آغاز سے پہلے تک اردو اخبارات اگر مشرق وسطی یا امریکی و یوروپی ممالک کو روانہ کیے جاتے تو کم از کم تین دن تا ایک ہفتے کا وقت درکار ہوتا۔ اور بیشتر اخبارات اپنے ہفتہ واری ایڈیشن ہی بھیجنے کے اہل ہوتے کیونکہ ایئر چارج کو برداشت کرنے کے وہ متحمل نہ ہوتے۔ اس کے علاوہ ان ممالک کی پالیسی کی بنا پر بہت سارا مواد تلف کر دیا جاتا۔  اخبار دوسرے ملک کو پہنچنے تک تاریخ کا حصہ بن جاتا اب سوشل میڈیا سائٹس کی بدولت جس ملک یا شہر میں اخبار شائع ہوتا ہے وہاں کے قارئین کے ہاتھ پہنچنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا سائٹس کی بدولت یہ اردو اخبارات امریکہ سے چین تک ،جاپان سے سعودی عرب تک پہنچنے لگے ہیں۔یہی نہیں بلکہ قارئین کی رائے اوررد عمل سے بھی وہ فوری آگاہ بھی ہو جاتے ہیں۔گوگل انالیٹکس کے ذریعے روزانہ، ہفتہ واری، ماہانہ اور سالانہ اخبارات کے آن لائن صارفین کی تعداد کا اندازہ ہو جاتا ہے جس سے دنیا بھر میں  اخبارات کی اہمیت اور افادیت مسلم ہو جاتی ہے۔ اخبارات کے آن لائن ایڈیشن کو اڈورٹائزمنٹس ملنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیںجو اخبارات کے مالی استحکام کی بنیاد ہے۔

ماہرین کے مطابق جدید ٹیکنالوجی اردو صحافت کو فروغ دینے کا باعث بن رہی ہے، امریکہ، چین، روس، برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی ممالک نے خبروں کی ترسیل کے لیے اردو سروس شروع کر رکھی ہے۔ ناروے، سویڈن،کناڈا سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں خبروں کی فراہمی کے لیے ہزاروں اردو ویب سائٹس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پہلے لوگ ہندوستان کا اردو اخبار پاکستان میں اورپاکستان کا اردو اخبار امریکہ میں نہیں پڑھ سکتے تھے۔ ڈاک کے ذریعے اگر اخبارات ورسائل منگوائے بھی جاتے تھے تو خبریں اور مضامین باسی ہو جاتے تھے، لیکن آج جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے ذریعے کناڈا، امریکہ،برطانیہ میں بیٹھا شخص ایک بٹن دبا کر ہندوستان کے اردو اخبارات وجرائد،میگزین اور دیگر ویب سائٹ کی ورق گردانی کر سکتا ہے جس کی وجہ سے اردو زبان پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں ذرائع سے بڑی سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے اور دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں اپنا نمایاں مقام بنا رہی ہے۔

اردو کے معروف صحافی سہیل انجم اپنی کتاب ’میڈیا،اردو اور جدید رجحانات ‘ میں لکھتے ہیں:

’’آج اردو کے صحافیوں میں جدید ٹکنالوجی سے استفادہ کی صلاحیتیں موجود ہیں اور اردو اخبارات کے دفاتر میں جدید ٹکنالوجیز اور وسائل سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ دہلی میں ایسے کئی اخبارات ہیں جو بیرون ملک کے پریس کی جانب اپنی کھڑکی کھولے ہوئے ہیں اور وہ اس پر نظر رکھتے ہیں کہ ان اخباروں میں کیا شائع ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے قارئین کی پسند کا لحاظ کرتے ہوئے بہت سی چیزیں لے کر شائع کر دیتے ہیں۔‘‘

(سہیل انجم، میڈیا،اردو اور جدید رجحانات،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی،2010،ص101)

اس مختصر سے جائزے کے بعد ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ جدید ٹکنالوجیز اور وسائل نے اردو صحافت پر ہر اعتبار سے دیرپا نقوش واثرات مرتب کیے ہیںاور اردو صحافت کو نئی سمتوں اور تغیرات سے آشنا کیا ہے۔

 

Mohd Suhail

Research Scholar,Department of Urdu

Lucknow University,Lucknow

Lucknow-226020(U.P)

Email:sahilsayeed1990@gmail.com

30/12/24

ناقص تغذے کے اثرات، ماخذ: ہماری غذا، مصنف: شکیل احمد

 اردو دنیا، نومبر 2024

انسان کی خوراک میں غذا کے تمام اجزا مناسب مقدار میں شامل ہونا چاہیے۔ اس سے انسان تندرست اور بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ غذا کی کمی خواہ مقدار کے اعتبار سے ہو یا قسم کے اعتبار سے مضر ہے۔ اسی طرح زیادہ کھانے سے بھی بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ ناقص تغذیہ کا بڑی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں بچوں اور خصوصاً شیر خوار بچوں پر زیادہ اثر پڑتا ہے۔ ایسی خوراک کو جس میں سبھی ضروری غذائی اجزا کی مقررہ مقدار موجودہ ہو، متوازن خوراک (Balanced Diet) کہتے ہیں لیکن یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ دنیا کے زیادہ تر لوگ متوازن غذا سے محروم ہیں۔ انسان کے مختلف کاموں کو صحیح طور پر انجام دینے کے لیے توانائی کی ضروری مقدار متوازن غذا سے دستیاب ہوتی ہے۔ غذائی اجزا کے کسی ایک جزو کی مقدار میں کمی بھی، خرابی صحت کا باعث بن سکتی ہے۔

غذا کی مقدار میں کمی سے قلت تغذیہ اور عدم تغذیہ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ صورت عام طور پر ہنگامی حالات قحط سالی وغیرہ میں ہوتی ہے۔ افراد کو یہ صورت نظام ہضم کے نقص سے جب کہ وہ غذا کو قبول کرنے اور جذب کرکے جزو بدن بنانے کے لائق نہیں ہوتے پیش آتی ہے جگر اور گردوں کے متعدی امراض میں لوگ بھی اس سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

نقص غذا کے مندرجہ ذیل پانچ وجوہ ہوسکتے ہیں:

1        غذا کی مقدار کی کمی: اس سے قلت تغذیہ اور بعد میں بھکمری ہوتی ہے۔

2        قسم غذا کا نقص: اس کی وجہ غذا میں کسی ایک ضروری جزو کی کمی ہے۔ اس سے سوئِ تغذیہ ہوتا ہے اور سوکھے اور اسقربوط جیسے امراض پیدا ہوتے ہیں۔

3        غذا کی مقدار کی زیادتی: ضرورت سے زیادہ خوراک نقصان دہ ہے اس سے بدہضمی، فربہی (موٹاپا) جیسی چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔

4        کسی تغذیہ کی زیادتی: اس میں خوراک میں غذا کا کوئی ایک جزو زیادہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً چکنائی یا وٹامن ڈی جیسے اجزا کی مقررہ مقدار سے زیادتی نقصان دہ ہے۔

5        غذا میں موجود عفونتی زہر (ٹاکسن Toxin): کچھ غذاؤں میں قدرتی طور پر تھوڑی مقدار میں ٹاکسن موجود ہوتا ہے۔ اس قسم کے زیادہ استعمال سے نقصان کے امکانات ہوتے ہیں۔ ٹاکسن سے جلبلانیت (Lathtrism) پیدا ہوتی ہے۔ یہ ٹاکسن ضعیف مقدارمیں انڈے کی سفیدی، کھیسری دال اور بتھو، پالک وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔

غذا کی بے نظمی کے سماجی اور معاشی وجوہ

پس  ماندہ ممالک میں نقصِ غذا عام ہے، لیکن ان ممالک میں بھی جہاں غلہ اور خورا ک کافی مقدار میں موجود ہے، غربت، تعصب، ناواقفیت اور غلط طریقے سے غذا کو رکھنے کی وجہ سے غذا کی بے نظمی پائی جاتی ہے۔

غذائی بے نظمی کے مرخیاتی

(Pathological) وجوہ:

کافی آمدنی، مناسب رہائش اور غذا اور پرہیز کے بارے میں معلومات رکھنے کے باوجود کسی بیماری کی وجہ سے بھی آدمی کے اندر غذا کی بے نظمی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ مندر ذیل طریقوں سے ہوتی ہے:

1        غذا کا نامناسب استعمال: (الف) بھوک کا کم ہوجانا معدہ کے کینسر اور بے اشتہائی اعصابی امراض وغیرہ میں یہ کیفیت ہوتی ہے۔ (ب) الکوہل جس میں کیلاری تو ہوتی ہے لیکن ضروری غذائیت نہیں ہوتی۔ اس کے کثرت استعمال سے پرانے شرابی ناقص تغذیہ سے زیادہ سوئِ تغذیہ کا شکار ہوتے ہیں۔ (ج) غیرمتوازن پرہیزی غذاؤں کاا ستعمال مثلاً ہاضمے کی خرابی میں دی گئی پرہیزی غذاؤں میں اسکوریک ایسڈ نہیں ہوتا۔ اگر ہم اس کو الگ سے استعمال نہ کریں تو اس کی کمی ہوجائے گی۔(د) عرصہ تک غیراوما (Parenteral) تغذیہ جیسا  کہ عمل جراحی کے دوران نسوں میں گلوکوز چڑھا کر کیا جاتا ہے۔ اس عمل سے جسم میں وٹامن بی کمپلکس کی کمی ہوجاتی ہے۔

2        غذا کے ہاضمے اور استحالے کی خرابی: (الف)  سبز (کوری) سے خون میں لوہے کی کمی ہوتی ہے۔ (ب) اسہال شحمی میں چربی میں حل ہونے والے وٹامن اور استحالہ ٹھیک نہیں ہوپاتا۔ (ج) بھوکے اور بیمار لوگوں کو نامناسب غذا دینے سے آنتوں کی حرکت کے بڑھ جانے سے نقصان کے امکانات ہوتے ہیں (د) جراثیم کش ادویات (Antibiotics) کا اثر عرصے تک جراثیم کش ادویات کے استعمال سے آنتوں کے بیکٹیریا متاثر ہوتے ہیں جس سے ان بیکٹیریا کے ذریعے تیار ہوئے وٹامن جسم کو نہیں مل پاتے۔

3        بیماری میں غذا ناقص استعمال: (الف) جگرکی بیماری (Cirrhosis) میں خصوصاً پروٹین اور وٹامن کے استعمال میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ (ب) گردے کی خرابی میں وٹامن ڈی متحوّل مادہ میں تبدیل نہیں ہوتا۔

4        تغذیہ کا جسم سے اخراج: (الف ) انحطاط گردہ کے مرض میں پروٹین پیشاب میں نکل کر ضائع ہوجاتی ہے (ذ) مرمابطیس شکری میں کاربوہائیڈریٹ کا  استحالہ ٹھیک نہیں ہوتا اور شکر پیشاب میںا ٓنے لگتی ہے جس سے سوئِ تغذیہ کے اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ (ج) عورتوں میں ماہواری خون کی زیادتی (جریانِ حیض) سے خون میں لوہے کی کمی ہوجاتی ہے۔ (د) شدید اور پرانے اسہال میں پوٹاسیم ضائع ہوجاتا ہے۔

زیادہ غذائیت کی ضرورت کی حالتیں

کچھ حالتوں میں عام حالات کے مقابلے زیادہ غذائیت کی ضرورت ہوتی ہے:

 (الف) عورتوں کو دوران حمل اور درورانِ رضاعت، نوعمر افراد کو نشو و نما کی غرض سے اور مریضوں کو بیماری سے فراغت کے بعد مزید غذا درکار ہوتی ہے اسی طرح سخت جسمانی محنت کرنے والے لوگوں کو اور سرد ممالک کے رہنے والوں کو گرم ملک کے رہنے والوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ غذائیت کی ضرورت ہوتی ہے۔

(ب) بخارا ور خدۂ ورقیہ کی ریزش کی زیادتی (Hyperthyroidish) کے دوران کیلاری کی ضرورت میںا ضافہ ہوتا ہے۔

(ج)  جلنے، ہڈی ٹوٹنے اور عمل جراحی کے بعد جسم کو پروٹین اور اس کو ریک ایسڈ کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔

جسم میں غذا کی بے نظمی عموماً مندرجہ بالا وجوہ سے ہوتی ہے، لیکن اکثر اصل وجہ خوراک میں ایک یا زیادہ تغذیہ کی کمی ہوتی ہے۔ غذا میں صرف حیاتین کی کمی کو ذہن میں نہیں رکھنا چاہیے بلکہ تمام باتوں کا مطالعہ کرکے غذا تجویز کرنی چاہیے۔

پروٹین اور کیلاری کی کمی سے سوئِ تغذیہ

ہمارے ملک میں سوئِ تغذیہ سے بچے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ اس میں غذا میں پروٹین اور کیلاری کی کمی سے پیدا ہونے والے امراض بہت اہم ہیں۔ پروٹین اور کیلاری کی کمی کی وجہ سے غریب طبقے میں بچوں کی بیماری اور موت عام ہے۔ اوائلِ عمری میں سوئِ تغذیہ کا اثر بچے کی آئندہ کی زندگی اور نشو و نما پر بہت برا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف جسمانی بلکہ دماغی اور ذہنی نشو و نما بھی متاثر ہوتی ہے۔ پروٹین کی کمی کا اثر ایک سال کی عمر سے پانچ سال کی عمر کے درمیان بہت پڑتا ہے۔ ایک سال تک چونکہ بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے اس کو مناسب پروٹین ماں کے دودھ سے حاصل ہوجاتی  ہے لیکن اپنے ملک کے غریب طبقے میں جہاں ماں کو مناسب غذا اور پروٹین حاصل نہیں ہوپاتی اس کا دودھ بچے کے لیے نوعیت اور مقدار کے لحاظ سے نامکمل ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی اس میں وٹامن کی مقدار بھی کم ہوجاتی ہے۔ بچے کے لیے ماں کا دودھ گو کہ موزوں ترین غذا ہوتی ہے لیکن چھ ماہ کے بعد بچے کی صحیح نشو و نما کے لیے اوپر سے دیگر غذائیں دینا ضروری ہوتا ہے۔ غذا میں پروٹین کی کمی سے بچوں کی نشو و نما رک جاتی ہے۔ دست آنے لگتے ہیں۔ سر کے بالوں کا رنگ ہلکا ہوجاتا ہے اور وہ گرنے لگتے ہیں۔ کھال کا رنگ بدلنے لگتا ہے اور کھال ادھڑنے لگتی ہے، جس سے جگہ جگہ سفید سے نشانات پڑجاتے ہیں۔ بدن میں خون کی کمی ہوجاتی ہے۔ جسم پھول جاتا ہے۔ استسقاء لمحی (Edema) اور خصوصاً ہاتھوں اور پیروں میں ورم ہوجاتا ہے۔ بے حسی، مردہ دلی اور کند دماغی (Apathy) پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ سب بچوں میںیہ باتیں ایک ساتھ پیدا ہوں لیکن یہ علامات عام ہیں۔ کبھی کبھی لاغری اور سوکھے کا مرض ہوجاتا ہے، جس سے نشو و نما رکھنے کے ساتھ ہی جسم کے عضلات کھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ بچوں میں سوئِ تغذیہ کی وجہ غذا میں پروٹین کی کمی ہے جس کو مزید پروٹین خوراک میں دے کر ختم کیا جاسکتا ہے لیکن اس سلسلے میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ چھ ماہ کی عمر کے بعد ضروری نہیں کہ صرف پروٹین کی کمی سے ہی یہ بات پیدا ہو۔ اس صورت میں اگر صرف پروٹین کی کمی کو پورا کیا گیا اور کیلاری کا خیال نہ کیا گیا تو دی ہوئی پروٹین کی کچھ مقدار کا استعمال توانائی کے لیے بھی ہوگا جس کے نتیجے میں نشو و نما اور منسوجات کی ساخت کے لیے پروٹین کی کمی پڑجائے گی۔ ہندوستان میں غذائی جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ غریب طبقے کے تقریباً 95 فیصدی بچے سوئِ تغذیہ میں مبتلا ہیں جن میں 70 فیصدی کیلاری کی کمی کا شکار اور 30 فیصدی پروٹین کی کمی کا شکار ہیں۔ اگر ان بچوں کو کیلاری کے لحاظ سے مکمل غذا حاصل ہوجائے تو پروٹین کی کمی آسانی سے پوری کی جاسکتی ہے۔

وٹامن اے کی کمی

سوئِ تغذیہ کا یہ المیہ نہیں ہے کہ وہ کثرت اموات کا باعث ہوتابلکہ وہ نئی پود کو مفلوج اور ہمیشہ کے لیے بیکار کردیتا ہے۔ ان تمام اثرات میں سب سے تکلیف دہ آنکھ کی بینائی پر اثر پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں سیکڑوں ہزاروں افراد نابینا ہیں۔ اس کی وجہ وقت ضرورت پر غذا میں وٹامن اے کی کمی ہے۔ وٹامن اے کی کمی سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں کیونکہ نشو و نما کے دوران وٹامنوں کی بہت ضرورت ہے۔ وٹامن اے کی کمی  کا پہلا اور ہلکا اثر آشوب چشم ہے (جس میںا ٓنکھ کے سفید دیدہ پر ایک جھلی آجاتی ہے)۔ آنکھوں میں نمی اور چمک کے بجائے خشکی اور بے نوری آجاتی ہے اور ماں کو اس کا احساس ہونے لگتا ہے کہ بچہ رات میں چیزوں کو دیکھنے میں دقت محسوس کرتا ہے جس کی پہچان یہ ہے کہ بعد غروب آفتاب بچہ پیٹ میں اپنی غذا ٹٹول کر کھاتا ہے۔ اس حالت کو رتوندھی کہتے ہیں۔ یہ مرض آسانی سے ختم ہوسکتا ہے۔ اگر فوراً اس پر توجہ دے کر علاج کرلیا جائے۔ مرض کے جڑ پکڑنے میں آنکھ کی قرینہ (پتلی) اس سے متاثر ہوتی ہے اور اس کی دیکھنے کی طاقت ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد قرینہ کے کنارے کٹ جانے سے وہ نرم ہوکر باہر کی طرف نکل آتی ہے۔ آخرکار قرینہ پھٹ کر ضائع ہوجاتی ہے اور اندرونی عدسۂ چشم (Lens of the Eye) بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ ایک بار اگر قرینہ خراب ہوجائے تو بہترین علاج کے بعد بھی اس کا درست ہونا ممکن نہیں اور کورپن کو روکا نہیں جاسکتا۔ اس بیماری میں عموماً دونوں آنکھیں متاثر ہوتی ہیں۔ وٹامن اے کی کمی سے کورپن کا مسئلہ پورے ہندوستان میں ہے لیکن اس سے جنوبی ہند اور بنگال زیادہ متاثر ہے۔

وٹامن اے کافی مقدار میں کچھ غذاؤں مثلاً مکھن، انڈے، کلیجی وغیرہ سے حاصل کیا جاسکتاہے لیکن یہ چیزیں چونکہ گراں ہیں اس لیے بہت سی ہرے پتوں والی ترکاریاں اور کچھ پھل جن میں کیروٹین پایا جاتا ہے استعمال کرنے سے جسم میں حیاتین اے کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے— روزانہ پچاس گرام ہری ترکاریاں جن کی قیمت بہت کم ہوئی، بچوں میں وٹامن اے کی کمی کو پورا کرسکتی ہیں۔ ہری ترکاریوں کے برابر استعمال سے یہ وٹامن جسم میں اکٹھا ہوجاتا ہے اور ناموافق موسم میں جسم میںوٹامن کی کمی کو پورا کردیتا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب ماں حاملہ ہو اسی وقت اس کو وٹامن  اے اور کیروٹین والی غذائیں افراط سے استعمال کرنا چاہیے تاکہ بچے کے اندر وٹامن اے کافی مقدار میں پہنچے۔ حاملہ عورتوں کو سو گرام روزانہ ہرے پتوں والی ترکاریوں کو خوراک میں شامل کرکے استعمال کرنے سے پیدائش کے وقت بچے کے جگر میں خاصی مقدار وٹامن اے موجود رہے گا۔ چھ ماہ کی عمر سے بچے کی خوراک میں ہری سبزیوں کو پکا کر ان کا عرق دینا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ضرورت بھر وٹامن اس کو ملتا رہے گا۔ خصوصاً اس کے نشو ونما کے وقت جب کہ اس کو اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے۔ تجربے سے یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پانچ سا ل کی عمر تک سال میں دوبار وٹامن اے کی بھاری خوراک دے دینے سے بھی بچہ کورپن سے محفوظ رہتا ہے۔ یہ وٹامن اے جگر میں جمع ہوجاتا ہے۔ پتہ چلا کہ 1000 ء 200 انٹرنیشنل اکائی وٹامن اے کے کھلانے سے اس کا اثر چھ ماہ تک برقرار رہتا ہے۔ وٹامن کی بھاری خوراک کا غلط اثر بھی پڑسکتا ہے۔ اس لیے چھ ماہ کے اندر دوسری خوراک ہرگز نہیں دینا چاہیے۔ معمر لوگوں کو وٹامن اے کی بھاری خوراک دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی کمی ان کے لیے مہلک نہیں ہے۔

قلت الدم (Anaemia)

قلت الدم نقص غذا کا ایک اہم نتیجہ ہے، جس میں سب سے زیادہ حاملہ عورتیں اور دودھ پلانے والی مائیں مبتلا ہوتی ہیں۔ یہ بیماری عموماً غذا میں لوہے کی کمی سے پیدا ہوتی ہے۔ حاملہ عورتیں قلت الدم کا جلد شکار ہوجاتی ہیں۔ حمل کے دوران خون کی بہت کمی ہوجاتی ہے۔ یہ مرض دوران حمل بہت مضر، خطرناک اور ماں کی صحت کے لیے مہلک ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں قلت الدم ماؤں کی بیماری اور موت کا سبب رہتی ہے۔ اس لیے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حاملہ عورت کو ضرورت بھرپور فولاد ملتا رہے۔ قلت الدم کو روکنے کے لیے نئی غذائیں جن میں ہرے پتوں والی سبزیاں ہوں روز کھانا چاہیے۔ لوہے کی نمکیات بھی مفید ہیں۔ یہ غذائیں قلت الدم کو روکنے کے لیے سستے ذرائع ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ حمل کے آخری سو ایام میں اگر توجہ دی جائے تو عورت قلت الدم کا شکار ہونے سے بچ سکتی ہے۔ اس کے لیے لوہے اور فولک ایسڈ کی گولیاں حاملہ عورتوں کو دی جاتی ہیں۔

قلت الدم کی ایک قسم اور ہے جسے کلان نہوضہ قلت الدم (Megaloblastic anaemia)کہتے ہیں۔ یہ فولک ایسڈ یا وٹامن بی 12 یا دونوں کی کمی سے پیدا ہوتا ہے۔ اس میں اتنے لوگ مبتلا نہیں ہیں جتنے لوہے کی کمی سے پیدا قلت الدم میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہرے پتوں والی سبزیوں کو استعمال کرکے فولک ایسڈ کی کمی کو پورا کرسکتے ہیں، لیکن وٹامن بی 12کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جانوروں سے حاصل غذائیں  مثلاً دودھ، گوشت، انڈے وغیرہ کھانا ضروری ہیں۔ وٹامن بی 12 کی کمی ماں کا دودھ پیتے بچے میں بھی ہوسکتی ہے، جس کی وجہ ما ںکے دودھ میں وٹامن بی 12 کی کمی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ماں کو زیادہ وٹامن کی غذائیں دی جانی چاہیے۔

ناقص تغذیے کے مزیدا مراض

ناقص تغذیہ سے پیدا مندرجہ بالا بیماریوں کے علاوہ غذا میں دوسرے وٹامن، بی مرکب، کی کمی سے بھی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ بیماریاں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ مثلاً منھ اور زبان میں جلن اور سوجن منہ کے دہانوں کے کناروں اور ہونٹوں کا پھٹنا۔ یہ بیماریاں غذا میں وٹامن بی مرکب خصوصاً رائینو فلیون کی کمی سے پیدا ہوتی ہیں۔ تھابامن کی کمی سے مرض بیری بیری (استسقاء کی قسم کی بیماری) پیدا ہوتا ہے۔ یہ بیماری ان لوگوں کو ہوتی ہے جو بہت کوٹا اور صاف کیا ہوا چاول کھاتے ہیں۔ نکوٹنک ایسڈ کی کمی سے درشت جلدی (پیلگرا) ہوجاتی ہے۔ اس مرض میں دھوپ کی وجہ سے ورم جلد پیدا ہوجاتا ہے۔ دوسری علامتیں اسہال (دست)، زبان میں سوجن اور جلن اور کچھ دماغ پر بھی اثر ہوتا ہے۔ مکائی پیداوار کے علاقوں میں جہاں لوگوں کی خاص غذا مکا (جوار) ہے پیلگرا عام طور پر ہوتا ہے، جس کی وجہ جوار میں لیوسین امینوایسڈ کی زیادتی ہے۔ اعتدال سے جوار استعمال کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔

بی وٹامنوں کی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو روکنے کا آسان طریقہ ان غذاؤں کا کھانا ہے جن میں یہ وٹامن پائے جاتے ہیں۔ ثابت اناج اور جنس چپنا مثلاً گیہوں، راگی، جوار، باجرہ، دالیں، گری دار میوے، اور تلہن عام طو پر زیادہ بی وٹامنوں کی غذائیں ہیں۔ ہرے پتوں والی سبزیوں میں خاص طور پر زیادہ رائیو فلیون اور فولک ایسڈ ہوتا ہے۔

پہاڑی علاقوں میں کنٹھ مالا اور گھینگے کا مرض وہاں کی غذا اور پانی میں آیوڈین کی کمی ہے۔ دوسری غذائی بیماری جلبانیت (Lathyrism) ہے۔ اس میں آہستہ آہستہ ٹانگوں میں تشنجی رعشہ اور فالج ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے آدمی لنگڑا اور اپاہج ہوجاتا ہے۔ یہ مرض زیادہ تر نوجوانوں میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ غذا میں زیادہ کھیسری دال کا استعمال ہے۔ تھوڑی مقدارمیں اس دال کو استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اس کو مستقل غذا کا اہم جز بنا لینے سے یہ بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔ کھیسری دال میں ایک جز مواد سامہ (Toxin) ہوتا ہے اسی کی وجہ سے جلبانیت کا مرض (Lathyrisn) پیدا ہوتا ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ مواد پانی میں محلول ہے اور آسانی سے الگ کیا جاسکتا ہے۔ اس کو الگ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دال کو دو گھنٹے گرم پانی میں بھگا دیتے ہیں پھر نتھار کر پانی الگ کردیتے ہیںا ور دال کو دھوپ میں سکھا لیتے ہیں۔ دوسری ترکیب یہ ہے کہ دال کو چاول کی طرح ابال کر اس کا پانی نکال دیتے ہیں۔ دال سے اس طرح مواد سامہ نکال کر اور لوگوں کو کم کھیسری دال استعمال کرنے کی ترغیب دے کر اس مرض پر قابو پایا جارہا ہے۔

 

ماخذ: ہماری غذا، مصنف: شکیل احمد، دوسرا ایڈیشن، جولائی ستمبر 1988، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

تازہ اشاعت

اکبر الہ آبادی کی شاعری میں مشرق کا تصور، مضمون نگار: امیرحسن

  اردو دنیا، جنوری 2025 تجھے ہم شاعروں میں کیوں نا اکبر معتبر سمجھیں بیاں ایسا کہ دل مانے زباں ایسی کہ سب سمجھیں اکبر الہ آبادی دنیائ...