28/6/24

مجلہ ’عالمی اردو ادب ‘ ایک اجمالی جائزہ، مضمون نگار: سرتاج احمد میر

ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024


اردو کے بھولے بسرے مجاہد نند کشور وکرم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت افسانہ نگار، ناول نگار، خاکہ نگار، مضمون نگار، تذکرہ نویس، مترجم و مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ادبی صحافی بھی تھے۔ انھوں نے اپنی صحافت نگاری کا آغاز تقسیم ہند کے بعد 1948 میں مشہور صحافی اور شاعر میلارام وفا کی ادارت میں شائع ہونے والے اخبارات ’قومی اخبار‘ اور ’امرت‘ سے کیا۔ کچھ مدت تک ان اخبارات سے وابستہ رہنے کے بعد انھوں نے اپنے قریبی دوست دیویندر اسر کے ساتھ مل کر 1949 میں کانپور سے ایک ترقی پسند رسالہ ’ارتقا‘ جاری کیا۔ بدقسمتی سے اس رسالے کا ابھی صرف ایک ہی شمارہ منظر عام پر آیا تھا کہ دیویندراسر کو رسالہ اجرا کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ جیل سے رہائی کے بعد وہ کانپور چھوڑ کر دہلی چلے گئے۔ اس طرح یہ رسالہ جاری ہونے کے ساتھ ہی بند ہوگیا۔

نندکشور وکرم نے 1953 میں کانپور سے ہی ایک اور ماہ نامہ ’نئی کہانی‘ کے نام سے جاری کیا جس میں ہندی زبان کے رسائل ’مایا‘ اور ’منوہر کہانیاں‘ کی طرح صرف کہانیاں ہی شائع ہوتی تھیں۔ ماہ نامہ ’نئی کہانی‘ کے دو شمارے شائع کرنے کے بعد انھیں یہ احساس ہوا کہ اردو میں غزلوں اور نظموںکے بغیر کوئی رسالہ کامیابی کے ساتھ شائع نہیں ہوسکتا اس لیے انھوں نے اس ماہ نامہ میں منظوم حصہ بھی شامل کردیا لیکن اس کے باوجود اس ماہ نامہ کے صرف پانچ شمارے ہی شائع ہوسکے۔ ماہ نامہ ’نئی کہانی‘ کی اشاعت بند ہونے کے بعد نند کشور وکرم نقل مکانی کرکے کانپور سے دہلی آگئے۔

1964 میں نند کشور وکرم دہلی سے شائع ہونے والے اردو کے مقبول عام سرکاری ماہنامہ ’آجکل‘ کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1979 میں اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گئے اور اسی سال ان کا تبادلہ پریس انفارمیشن بیورو نئی دہلی میں ہوگیا۔ پریس انفارمیشن بیورو نئی دہلی میں تقریباً آٹھ سال تک خدمات انجام دینے کے بعد 30؍ستمبر 1987 کو نندکشور وکرم سرکاری ملازمت سے سبک دوش ہوگئے۔

پریس انفارمیشن بیورو نئی دہلی میں ملازمت کے دوران ہی نندکشوروکرم نے اردو کا پہلا حوالہ جاتی مجلہ ’عالمی اردو ادب‘کے نام سے جاری کیا۔ اس حوالہ جاتی مجلے کا پہلا شمارہ جولائی 1983 میں ’اردو ‘کے نام سے منظر عام پر آیا جب کہ اس مجلہ کے باقی تمام شمارے ’عالمی اردو ادب‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے نندکشور وکرم لکھتے ہیں:

’’بہت غور و خوض کے بعد میں نے پہلی بار اسے (عالمی اردو ادب) ’اردو‘ کے نام سے 1983 میں شائع کیا مگر جب اگلے شمارے کے لیے پریس رجسٹر کے دفتر میں ’اردو‘ کے نام سے ڈیکلیریشن لینے گیا تو معلوم ہوا کہ اس نام سے کسی شخص نے حیدرآباد سے پہلے ہی ڈیکلیریشن لیا ہواہے۔ لہٰذا مجبوراً مجھے ’عالمی اردو ادب‘ کے نام پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ ‘‘ 

(نند کشور وکرم،عالمی اردو ادب ( پبلشرز اینڈ ایڈ ورٹائزرزکرشن نگر دہلی، 2011)جلد نمبر 32،ص 8)

نعمانی پریس دہلی سے شائع ہونے والے مجلہ کے پہلے شمارے کا سرورق نریش کمار نے تیار کیا تھا۔ اس شمارے کے پیش لفظ میں مدیر مجلہ نندکشور وکرم نے برصغیر ہندو پاک میں اردو زبان بولنے والوں کی تعداد، موجودہ و گزشتہ ادبا و شعرا سے متعلق مواد حاصل کرنے میں پیش آنے والی دشواریوں اور حوالہ جاتی مجلہ اجراکرنے کے وجوہات اور مقاصد وغیرہ جیسے امور پر بحث کی ہے۔

نندکشور وکرم نے اردو ز بان و ادب کی ترقی و ترویج کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایاتھا۔ اس حوالہ جاتی مجلے کو شائع کرنے کے پیچھے ان کا کوئی ذاتی مفاد کا رفرمانہ تھا بلکہ انھوں نے اس رسالے کو بغیر کسی سرکاری یا غیر سرکاری امداد کے اپنی نجی آمدنی سے شائع کیا۔ وہ کسی شہرت اور مقبولیت کے خواہاں نہ تھے بلکہ وہ خلوص نیت سے اردو زبان و ادب کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ اس حوالہ جاتی مجلہ کے اجرا کرنے کا مقصد نہ صرف ہندو پاک بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے شعرا و ادبا کی تخلیقات سے بھی قارئین کو روشناس کرانا تھا۔ اس حوالہ جاتی مجلہ کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے نندکشور وکرم یوں رقم طراز ہیں:

’’حوالہ جاتی مجلہ عالمی اردو ادب کی اشاعت کا مقصد اردو قارئین کو سال بھر کا منتخب اردو ادب پیش کرنے کے علاوہ ہر طرح کی ادبی سرگرمیوں سے روشناس کرانا نیز تخلیقی اور معلوماتی مضامین پیش کرنا ہے۔‘‘

(نند کشور وکرم،عالمی اردو ادب ( پبلشرز اینڈ ایڈ ورٹائزرزکرشن نگر دہلی، 1986)، جلد نمبر3،ص 5)

در حقیقت اس طرح کے حوالہ جاتی مجلے کی ترتیب و تدوین کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک ادارے کا کام ہے لیکن نند کشور وکرم نے ایک ادارے کا کام انفرادی طور پر انجام دے کر ثابت کیا کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ نہ صرف اس مجلے کے مدیر تھے بلکہ اس کے کمپوزر، کلرک بھی خود ہی تھے۔ اردو کے چند قارئین نے انھیں مالی معاونت کی پیش کش کی تھی لیکن انھوں نے صاف انکار کیا اور آخری دم تک اس مجلے کو اپنی ذاتی کمائی سے شائع کرتے رہے اس بارے میں وہ لکھتے ہیں:

’’میں نے آج تک جو بھی نمبر نکالے ہیں وہ اپنے پلے سے پیسے خرچ کرکے نکالے ہیں یعنی گھر پھونک تماشا دیکھا ہے... اگر مجھے ان نمبروں سے کوئی مالی منفعت حاصل کرنا ہوتی تو میں مرحوم ادبا وشعرا پر خصوصی نمبر کیوں نکالتا۔ ان تھرڈ اور سیکنڈ گریڈ ادبی شخصیتوں پر کیوں نہ نکالتا جو بڑی بڑی رقمیں خرچ کرکے مختلف رسائل میں اپنے خصوصی گوشے یا خصوصی نمبر نکلواتے ہیں۔‘‘  

(مشرف عالم ذوقی،نند کشور وکرم مشترکہ وراثت کا آخری داستان گو (ایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس دہلی، 2019)،  ص 352)

نند کشور وکرم بھارت اور پاکستان سے شائع ہونے والے ادبی رسائل و جرائد کا ہر سال مطالعہ کرکے معیاری تخلیقات کا انتخاب ’عالمی اردو ادب‘ کے لیے کرتے تھے۔ بھارت اور پاکستان کے رسائل و جرائد میں ہر سال شائع ہونے والے مضامین، افسانوں، نظموں اور غزلوں کا انتخاب کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اوّل تو ایسے تمام رسائل و جرائد تک رسائی کا مرحلہ ہی خاصا دشوار تھا پھر ان سب کا مطالعہ اور چھان بین کے بعد اچھی تخلیقات کا انتخاب یقینا جان جوکھوں کا کام تھا لیکن نند کشور وکرم یہ کام آخر تک بڑی فراخ دلی اور باقاعدگی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ حوالہ جاتی مجلہ ’عالمی اردو ادب‘ سال میں ایک بار شائع ہوا کرتاتھا۔ ابتدا میں مجلے کو بہت کم لوگوں نے پسند کیا لیکن آہستہ آہستہ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتاگیااور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر مدیر مجلہ نندکشور وکرم نے 1994 میں اسے ششماہی کردیا۔ ایک شمارے میں معمول کے مطابق گزشتہ سال کے دوران بھارت، پاکستان اور دیگر ممالک کے مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہونے والی شعری و نثری تخلیقات کا انتخاب ہوتاتھا۔ شعری انتخاب میں نظمیں، غزلیں، دوہے، گیت، رباعیات اور قطعات ہوتے تھے جب کہ نثری انتخاب افسانوں اور مضامین پر مشتمل ہوتاتھا۔ اس کے علاوہ کچھ اہم شاعروں اور ادیبوں کے سوانحی اشارے اور ’وفیات‘ کے زیر عنوان مرحومین ادبا کا تذکرہ بھی شامل ہوتاتھا نیز خراج عقیدت کے طو ر پر اہم شعرا اور ادبا پر مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ ’بخط شاعر‘ کے زیر عنوان مشہور شعراکے ہاتھ سے لکھی ہوئی تخلیقات شامل ہوتی تھیں۔ سال بھر کی ادبی خبروں کے علاوہ اہم اردو کتابوں کی فہرست، کتب خانوں کی فہرست، بھارت اور پاکستان کی مختلف دانش گاہوں میں کیے جانے والے تحقیقی کام کا جائزہ بھی دیکھنے کو ملتاتھا۔

مجلے کا کوئی شمارہ خصوصی نمبر بھی ہوتاتھا جس میں باری باری بھارت اور پاکستان کی ممتاز ادبی ہستیوں کے فن، شخصیت اور ادبی خدمات کا سیر حاصل جائزہ پیش کیا جاتا تھا۔ 2019 تک اس مجلے کے 44 شمارے شائع ہوچکے ہیں جن میں عام حوالہ جاتی شماروں کے علاوہ 14 خصوصی نمبرات بھی شامل ہیں۔ ان خصوصی نمبرات میں حبیب جالب نمبر 1994، احمد ندیم قاسمی نمبر  1996، علی سردار جعفری نمبر 2001، اشفاق احمد نمبر 2006، گوپی چند نارنگ نمبرفروری 2008، کشمیری لال ذاکر نمبر 2009، محمد حسن نمبراپریل2011،دھارمک ادب نمبرمئی 2012، سینما صدی نمبراگست 2013، کرشن چندر نمبر 2014، دیویندر اسر نمبر 2016، انتظار حسین نمبر دسمبر 2016، مصوّر یادگار غالب نمبردسمبر7 201 اور مشتاق احمد یوسفی نمبر 2018 شامل ہیں۔یہ نمبرات اتنے مقبول ہوئے کہ ہندو پاک کے بڑے بڑے ادیبوں اور قلم کاروں نے ان خصوصی نمبرات پر تعریفی و توصیفی الفاظ میں تبصرے کیے ہیں۔ذیل میں چند اہم خصوصی نمبرات کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

گوپی چند نارنگ نمبر:’ گوپی چند نارنگ :بین الاقوامی اردو شخصیت‘ کے عنوان سے شائع شدہ یہ خصوصی نمبر 415صفحات پر مشتمل ہے۔یہ ضخیم نمبر فروری2008 میں منظر عام پر لایا گیا۔اس خصوصی نمبر کو چھ حصّوں میں تقسیم کیا گیاہے۔پہلا حصہ’اوراقِ داستان ‘ کے عنوان سے ہے جس میں گوپی چند نارنگ کے مختصر سوانحی کوائف کے تحت ان کی تاریخ و مقامِ پیدائش،تعلیمی سفر،ملازمت،علمی و ادبی مشاغل،مختلف اداروں سے وابستگی،ان کی تخلیق کردہ اور ان پر تحریر شدہ کتابوں کی مکمل فہرست،قومی و بین الاقوامی سمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کے علاوہ انھیں ملنے والے انعامات و اعزازات کی مکمل تفصیل بھی درج ہے۔اس حصے میں ’بقلمِ خود‘کے عنوان سے نوصفحات پر مشتمل گوپی چند نارنگ کی تحریر کردہ مختصر آپ بیتی بھی شامل ہے جس میں انھوں نے اپنی تاریخ پیدائش سے لے کر اپنے ادبی سفر کے عروج تک کی داستان بیان کی ہے۔

زیرِ بحث خصوصی نمبر کا دوسرا حصہ ’آئینہ زندگی۔ تصویریں ‘ کے عنوان کے تحت ہے جس میں گوپی چند نارنگ کی زندگی کے اہم موقعوں پر لی گئی یاد گار تصویریں شامل ہیں۔ان تصویروں میں گوپی چند نارنگ اپنے افرادِ خانہ،اردو کی مشہور اور نامور شخصیات کے علاوہ ملک کے سابقہ وزرائے اعظم اور صدور کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔اس خصوصی نمبر کا تیسرا حصہ گوپی چند نارنگ سے متعلق مشاہیر ِادب کے تاثرات پر مشتمل ہے۔ ان مشاہیرِ ادب میں احمد ندیم قاسمی،مشفق خواجہ،مجتبیٰ حسین اورمظہر امام وغیرہ شامل ہیں۔ چوتھا حصہ انٹرویوز پر مبنی ہے جب کہ پانچویں حصّے میں گوپی چند نارنگ کی سات اہم تحریروں کو شامل کیا گیا ہے جن میں ’بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں‘، ’ سانحہ کربلا بطورِ شعری استعارہ: اردو شاعری کا ایک تخلیقی رجحان‘ اور ’سنسکرت شعریات اور ساختیاتی فکر‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

زیرِ نظر خصوصی نمبر کا آخری اور اہم حصہ ’نقدونظر ‘ کے عنوان کے تحت درج ہے۔ اس حصے میں اردو کے بڑے بڑے محققین و ناقدین کے تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ اس حصے میں حامدی کاشمیری،شمس الرحمن فاروقی، عتیق اللہ، قمر رئیس،گیان چند جین، ناصر عباس نیرّاور وہاب اشرفی وغیرہ کے مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ غرض یہ خصوصی نمبر اس قدر مکمل اور بھر پور انداز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ گوپی چند نارنگ کی شخصیت اور فکرو فن کا کوئی بھی پہلو نظروں سے اوجھل نہیں رہتا۔

کشمیری لال ذاکر نمبر: اپریل 2009 میں شائع شدہ یہ خصوصی نمبر چار حصوں پر مشتمل ہے۔’شخصیت‘کے عنوان سے شامل پہلے حصّے میں مختلف قلم کاروں نے کشمیری لال ذاکر کے سوانحی کوائف اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔اس کے علاوہ اس حصّے میں کشمیری لال ذاکر کی تمام تصنیفات (اردو،ہندی، پنجابی)اور انھیں ملنے والے انعامات و اعزازات کی مکمل فہرست بھی درج کی گئی ہے۔

زیرِ بحث خصوصی نمبر کا دوسرا حصہ ’فکشن ‘ کے عنوان سے ہے۔اس حصے میں تین ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ ’ ناول نگاری‘ کے عنوان کے تحت درج پہلے حصّے میں کشمیری لال ذاکر کے ناولٹ ’ سمندری ہوائوں کا موسم‘ کا متن دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس حصے میں کشمیری لال ذاکر کی ناول نگاری سے متعلق دو مضامین بھی شامل ہیں۔ دوسرے ذیلی حصّے کا عنوان ’ افسانے‘ رکھا گیا ہے۔اس حصّے میں کشمیری لال ذاکر کے سات افسانوںکو شامل کیا گیا ہے۔ان افسانوں میں ’اس صدی کا گرہن‘، ’ پھولا پتھیرن‘، ’شام بھی تھی دھواں دھواں‘ اور ’کورے تہمدکا درد‘ وغیرہ شامل ہیں۔تیسرا ذیلی حصہ ’ نقدونظر ‘ کے تحت درج ہے۔ یہ ذیلی حصّہ پہلے دو حصوں کی بہ نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔یہ حصہ پندرہ مضامین پر مشتمل ہے۔یہ مضامین اردو ادب کی مشہور و معروف ہستیوں جیسے بلونت سنگھ، جوگندر پال، خلیق انجم،رتن سنگھ،رشید حسن خان،شمس الرحمن فاروقی اور قمر رئیس وغیرہ کے رشحاتِ قلم کی دین ہے۔

اس خصوصی شمارے کا تیسرا حصہ ’ خاکہ نگاری‘ کے عنوان سے ہے۔اس حصے کی ابتدا میں ’کشمیری لال ذاکر: بحیثیت خاکہ نگار‘ کے عنوان سے آزاد گلاٹی کا لکھا ہوا مضمون شامل ہے۔اس کے علاوہ اس حصے میں اردو ادب کی اہم شخصیات سے متعلق کشمیری لال ذاکر کے لکھے ہوئے چھ خاکے شامل ہیںجن میں جان نثار اختر،خواجہ احمد عباس،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی پر لکھے گئے خاکے قابلِ ذکر ہیں۔ زیرِ نظر خصوصی نمبر کا آخری حصہ شاعری کے عنوان سے ہے اس حصّے میں کشمیری لال ذاکر کی شاعری سے متعلق اہم ادبا و شعرا کے مضامین شامل کیے گئے ہیں ایسے ادبا و شعرا میں علی سردار جعفری،قتیل شفائی، کیفی اعظمی اور گوپی چند نارنگ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔اس حصّے میں کشمیری لال ذاکر کی کچھ غزلیں اور قطعات بھی شامل ہیں۔ اس خصوصی نمبر کا اختتامیہ ’اب تو اپنی چھائوں میں بیٹھا ہوں‘ کے عنوان سے ہے جو خود کشمیری لال ذاکر کا تحریر کردہ ہے جس میں انھوں نے اپنی زندگی کے اہم واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔

کرشن چندر نمبر:  یہ خصوصی نمبر 2014 میں شائع ہوا۔ یہ خصوصی نمبر کرشن چندر کے صدسالہ جشنِ ولادت کے سلسلے میں انھیں خراجِ عقیدت کے طور پر شائع کیا گیا۔ یہ ضخیم نمبر گیارہ حصّوں پر مشتمل ہے۔اس میں کرشن چندر کی شخصیت اور فن کا بھر پور انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔ اس خصوصی نمبر کا پیش لفظ ’ کرشن چندر زندہ ہیں‘ کے عنوان سے ہے جس میں مدیر مجلہ نند کشوروکرم نے کرشن چندر کے فن پر بحث کرتے ہوئے انھیں ایک عظیم المرتبت افسانہ نگار اور زندہ جاوید فکشن نگار قرار دیا ہے۔

زیرِ نظر خصوصی شمارے کا پہلا حصہ ’ شخص اور شخصیت‘  کے عنوان سے ہے جس میں بلونت سنگھ،جگن ناتھ آزاد، خواجہ احمد عباس اور سلمیٰ صدیقی وغیرہ جیسے قلم کاروں نے کرشن چندر کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔’اٹوٹ یادیں ‘ کے عنوان سے شامل دوسرے حصے میں کرشن چندر کے ہم عصر ادبا و شعرا جیسے جیلانی بانو،ساحر لدھیانوی،قرۃ العین حیدر،کشمیری لال ذاکر وغیرہ نے کرشن چندر سے وابستہ اپنی اپنی یادوں کو تازہ کیا ہے۔ اس کے بعد کرشن چندر سے بلونت سنگھ کا لیا ہوا ایک انٹر ویو بھی شامل ہے۔اس خصوصی نمبر کے چوتھے حصے میں کرشن چندر سے متعلق مختلف ناقدین کی آرا کو پیش کیا گیا ہے۔ پانچواں اور چھٹا حصّہ کرشن چندر کی افسانہ نگاری کے لیے مختص کیا گیا ہے۔پانچویں حصے میں کرشن چندر کی افسانہ نگاری پر چھ مضامین شامل ہیں جب کہ چھٹے حصّے میں کرشن چندر کے آٹھ مشہور افسانوں کا متن دیا گیا ہے۔ ان افسانوں میں اَن داتا، آدھے گھنٹے کا خدا،  پشاور ایکسپریس اور ’ مہالکشمی کا پُل‘ وغیرہ شامل ہیں۔

زیرِ بحث خصوصی نمبر کا ساتواں حصہ ’کرشن چندر بحیثیت ناول نگار‘کے عنوان سے ہے۔اس حصے میں کرشن چندر کی ناول نگاری پر چار اہم مضامین کے علاوہ ان کے دو ناولوں ’ جب کھیت جاگے‘ اور ’ شکست‘ کے دو اہم حصّوں کا متن شامل کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں اس خصوصی نمبر میں کرشن چندر کے تحریر کردہ انشائیہ ’ دلیپ کمار کا نائی‘، ان کے تحریر کردہ ایک خط کا عکس،مختصر کوائف اور تصویریں بھی شامل ہیں۔اس خصوصی نمبر کا اختتامیہ ’اردو ادب میں ایک نئی آواز‘ کے عنوان سے ہے جومحمد حسن کی تحریرہے۔مختصراً یہ خصوصی نمبر کرشن چندر سے متعلق ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

مصور یاد گارِغالب نمبر: 448صفحات پر مشتمل یہ ضخیم نمبر دسمبر 2017 میں شائع ہوا ہے۔  ’ عالمی اردو ادب‘  کے تمام خصوصی نمبرات میں اس نمبر کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہ وہ واحد نمبر ہے جو کسی متقدّم شاعر یا ادیب پر شائع کیا گیا ہے۔اس سے پہلے یا اس کے بعد نند کشور وکرم نے جتنے بھی خصوصی نمبرات نکالے ہیں وہ تمام نمبرات انھوں نے اپنے ہم عصر ادبا و شعرا پر ہی نکالے ہیں۔

زیرِ مطالعہ خصوصی نمبر کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اوّل میں غالب کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’توقیت غالب‘ کے عنوان سے شامل اس باب کے پہلے مضمون میں مالک رام نے 1750 سے 1880 تک غالب سے متعلق تمام اہم واقعات کو تاریخ وار درج کیا ہے۔اس باب کے دوسرے اہم مضامین میں محمد حسین آزاد  کا تحریر کردہ مضمون ’نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسداللہ خاںغالب‘ اور محمد عتیق کا مضمون ’غالب  کی کہانی۔ غالب کی زبانی‘ شامل ہیں۔

’ مصور یاد گارغالب نمبر‘ کا دوسرا باب ’نقدونظر ‘ کے عنوان سے ہے۔اس اہم حصے میں اردو کے جن مشہور ومعروف محققین وناقدین کے تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں ان میں امتیاز علی عرشی،عبدالرحمن بجنوری،قاضی عبدالودود، گوپی چند نارنگ اور گیان چند جین قابلِ ذکر ہیں۔ امتیاز علی عرشی غالب کی اپنے کلام پر اصلاحوں کو زیرِ بحث لائے ہیں اور غالب کے کئی ایسے اشعار کی نشاندہی کی ہے جن پر غالب نے خود اصلاحیں کی ہیں۔عبدالرحمن بجنوری نے اپنے مقالے میں کلامِ غالب  کے فنی محاسن کا جائزہ پیش کیا ہے۔قاضی عبدالودود کا لکھا ہوا تحقیقی مضمون ’جہانِ غالب ‘ غالب کے تحریر کردہ اردو اور فارسی خطوط کی عبارتوں سے مملو ہے۔’حالی،یادگارِ غالب اور ہم‘ کے عنوان سے شامل مقالے میں گوپی چند نارنگ نے مولاناحالی کی مشہورومعروف تصنیف ’یادگارِغالب‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کئی اہم سوالات قائم کیے ہیں۔یہ مقالہ نارنگ کی کتاب ’غالب معنی آفرینی،جدلیاتی وضع،شونیتا اور شعریات ‘ سے ماخوذہے۔گیان چند جین نے اپنے مضمون میں غالب کے ابتدائی کلام کا جائزہ لیتے ہوئے کلام ِ غالب میں فارسی کے استعمال کو اپنے مضمون کا محور بنایا ہے۔

زیرِ نظر خصوصی نمبر کے تیسرے باب میں غالبیات سے متعلق تحریر و ترتیب کردہ کتابیات کی فہرست درج کی گئی ہے۔16صفحات پر مشتمل اس طویل فہرست میں اردو کے علاوہ ہندی، پنجابی اور انگریزی کتابوں کی فہرست بھی شامل ہیں۔اس حصے میں مختلف رسائل وجرائد کے ان خصوصی نمبرات کی فہرست بھی درج ہے جو غالب پر شائع کیے گئے ہیں۔اس خصوصی نمبر کے چوتھے باب میں دیوان غالب  مرتبہ عبدالرحمن چغتائی بعنوان ’نقش چغتائی: دیوان غالب‘ کو شامل کیا گیا ہے۔یہ دیوان ’نسخہ حمیدیہ ‘ کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا گیا ہے۔ اس دیوان کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر تین چار صفحات کے بعد ایک صفحے پر ایک رنگین تصویر کے ساتھ غالب کا ایک شعر دیا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔

زیرِ بحث خصوصی نمبر کا آخری باب ’دیوان غالب بخط غالب‘ کے عنوان سے ہے۔اس باب میں ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ سے متعلق تین اہم مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون امتیاز علی عرشی کا تحریر کردہ’غالب کا خود نقل کردہ دیوان اردو‘ کے عنوان سے ہے جس میں امتیاز علی عرشی نے ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ کو نہ صرف اہم اور نادر نسخہ قرار دیا ہے بلکہ اسے زمانی اعتبار سے ’ نسخہ حمیدیہ ‘ سے مقدم قرار دیا ہے۔اس حصّے میں شامل دیگر دو مضامین نثار احمد فاروقی کے تحریر کردہ ہیں۔انھوں نے اپنے مضامین میں ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے غالبیات کے سلسلے میں تاریخی حیثیت کا حامل قرار دیا ہے۔اس باب کے آخر میں 125صفحات پر مشتمل ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ غرض اس خصوصی نمبر میں جہاں غالب کی سوانح، شخصیت اور شاعری پر مشاہیر ادب کے بہترین مضامین اور مقالات شامل ہیں وہیں دیوان غالب کے دو نسخوں کی اضافت سے اس خصوصی نمبر کی قدرومنزلت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

مذکورہ بالا خصوصی نمبرات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نندکشور وکرم نے بھارت کے علاوہ پاکستانی ادبا و شعرا پر بھی خصوصی نمبرات شائع کیے ہیں۔ جن کی اشاعت پر انھیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر انھوں نے اس مخالفت اور تنقید کی پروا کیے بغیر اپنا کام خوش اسلوبی کے ساتھ جاری رکھا جس سے ان کا غیر جانب دارانہ رویہ و کردار نمایاں ہوجاتاہے۔

اس حوالہ جاتی مجلے کی ضخامت ابتدا میں 150 صفحات تھی جو آخر پر 450 صفحات تک پہنچ گئی۔ نندکشور وکرم نے اس مجلے کو ہر لحاظ سے بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اس مجلے کے سرورق اور پشت پر اکثرو بیشتر مختلف ادبا و شعرا کی تصویریں بھی شائع ہوتی تھیں۔ مجلے میں شعرا و ادبا کے قلمی نسخے بھی شائع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ 1993 کے شمارے کے سرورق پر اردو کے مشہور و معروف ادباو شعرا کے دستخط بھی موجود ہیں جن میں فراق گورکھپوری، دیویندر اسر، جمیل جالبی، اختر اورینوی، جوگیندر پال، شمس الرحمن فاروقی، بلراج کومل، مالک رام، خواجہ احمد فاروقی، صالحہ عابد حسین، ساحر لدھیانوی، راجندر سنگھ بیدی، قمر رئیس اور ندیم احمد قاسمی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ مجلے میں مختلف ادبا و شعرا کی تخلیقات کے علاوہ مدیر مجلہ نند کشور وکرم کی تخلیقات و نگارشات بھی وقتاً فوقتاً شائع ہوتی تھیں۔

’عالمی اردو ادب‘ 1983 سے 2019 تک نند کشورو کرم کے نجی ادارے ’پبلشرز اینڈ ایڈ ورٹائزرز ‘ کرشن نگر دہلی سے مسلسل شائع ہوتارہا۔ اگست 2019 میں اس کے مدیر جناب نند کشور وکرم کے اچانک انتقال کے سبب اس کی اشاعت کا سلسلہ بند ہوگیا تھا لیکن ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کی اشاعت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے اور اس کا اڑتالیسواں شمارہ پروفیسر کوثر مظہری کی سرپرستی اور نوجوان اسکالر محمد یوسف رضا کی ادارت میں اکتوبر 2022 میں ’اکادمی اردو زبان و ادب‘ دہلی کے زیراہتمام شائع ہوکر قارئین سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ یہ خصوصی شمارہ اردو کے مشہور ادیب ستیہ پال آنند کے احوال و کوائف اور ادبی کارناموں پر محیط ہے۔

حوالہ جاتی مجلہ ’عالمی اردو ادب‘ کے اداریوں کے مطالعے سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ نند کشور وکرم ایک نڈر، بے باک اور تعصب سے پاک ادبی صحافی تھے۔ نند کشور وکرم نے علاقائی و مذہبی سطح اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنی صحافتی کاوشوں کے ذریعے اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دی ہے۔ اردو زبان و ادب کو کسی مذہب سے وابستہ کرنے کی شدید مذمت و مخالفت کرتے ہوئے انھوں نے اردو زبان کے سیکولر کردار کو برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔ عالمی اردو ادب کے اداریوں میں انھوں نے اس بات کا تذکرہ بارہا کیا ہے۔

 الغرض ’عالمی اردو ادب‘ جیسا ضخیم حوالہ جاتی مجلہ جاری کرکے نند کشور وکرم نے ادبی صحافت کے میدان میں ایک بہترین اور قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہے جو لائق تحسین ہے۔

 

Sartaj Ahmad Mir

Research Scholar, Dept of Urdu

University of Hyderabad

Hyderabad- 500046 (Telangana)

Mob.: 9469422228

27/6/24

اردو ادب میں اساطیر (داستان اور ناول کے حوالے سے) ، مضمون نگار: طیبہ بانو

ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024


ادب میں اساطیر کی روایت اور دائرہ کار کے بارے میں گفتگو کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اساطیر نے تمام اصناف ادب پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اساطیری یا دیومالائی قصوں کا تعلق ماضی سے ہی ہے او ریہ کہانیاں قدیم ترین انسانوں کی الجھنوں اور پریشانیوں سے بھری ہوئی زندگی کی آئینہ دار ہیں۔ قدیم تہذیب اور رسم ورواج، ان کے جذبات و احساسات کا علم ان کہانیوں سے ہوتا ہے، جس طرح ادب ان کو پیش کرتا ہے وہ کوئی اور شعبۂ علم نہیں بیان کرسکتے۔انھیں قصے کہانیوں کے ذریعے آج اس گلوبل ولیج نمادنیا نے قدیم انسانوں کے حالات و واقعات سے آشنائی ادب کے ذریعے حاصل کی اور قدیم و جدید زندگی کے مابین ایک ربط بنانے کی کوشش کی ہے۔ دنیا کی مختلف ثقافتوں میں سے اساطیر بھی ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اسی لیے قدیم ترین لوگوں کی تہذیب، ان کا رہن سہن، ان کے حالات و واقعات سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے اساطیری مطالعہ ناگزیر ہے کیونکہ ہرنئی سے نئی تہذیب وثقافت کی بنیادی جڑیں اس کے قدیم نظامِ اساطیر میں پوشیدہ ہیں جو آج بھی زندگی کے تمام تر شعبوں میںموجود ہے اور موجودہ عہد کی حقیقتوں سے آشناہونے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔

قصے کہانیوں کے اساطیری جہان کا منبع اگر چہ زبانی بیانیہ ہے لیکن یہ سب اب تحریری شکل میں  موجود ہے جس کے سبب اسے آفاقیت کا درجہ ملا۔ جب بات اساطیر کی تحریری شکل کی جائے تو سب سے پہلا نام اس حوالے سے ہومرکی رزمیہ نظم ایلیڈ کا آتا ہے۔ اس نظم میں یونانی اساطیر کے اولین نقوش ملتے ہیں اور اس کے ذریعے ہی یونانی اساطیر کا در وا ہوتا ہے۔ اس کی نظم ایلیڈ میں ٹرائے کی جنگ کا تفصیلی بیان ہے۔ ہومر کی رزمیہ نظمیں ایلیڈ اور اوڈیسی یونانی اساطیر کا مظہر ہونے کے ساتھ اساطیری ادب کا گراں قدر اثاثہ ہیں۔ ہومر کے بعد ہسیاڈ (Hesiod)  نے یونانی اساطیر پر قلم اٹھایا ہے اور اس کی دو تصنیفات قابل قدر ہیں، ان میں "Works and days" اور دوسری "Theogony"ہے۔ ان کے علاوہ یونانی صنمیات میں پنڈار Pindar، سوفوکلیز Sophocles، اسلیکس Diorus Siculus، یوری پڈیز Euripides، ارسٹوفینز Aristophanes وغیرہ یونانی اساطیر کے مشہور مصنف گزرے ہیں، جنھوں نے اساطیر کے در وا کیے اور اساطیر کے لیے راہیں ہموارکیں۔

ان کے علاوہ جن لوگوں نے اساطیری جہان میں گراں قدر اضافہ کیا، ان میں لوسیس اپولیوس Apulius اور لوسین قابل ذکر ہیں۔لوسیس اپولیس کی تصانیف کیوپڈ اور سائیکی Cupid and Psychi مشہور زمانہ شاہکار ہیں۔ ان کے علاوہ رومی اور لاطینی دیومالائی ادب کی دریافت و بازیافت کرنے والوں میں ورجل Virgilاورا ووڈOvidنے بھی گراں قدر کارنامے انجام دیے۔ رومن عہد کی مشہور ومعروف شاہکار نظم اینیڈورجل کی ہی تخلیق ہے اور اووڈ کی دیومالائی حوالے سے مشہور زمانہ نظم میٹامورفوسس Metamorphoses ہے۔ ورجل کی نظم Aineidکئی حصوںمیں منقسم ہے اور اس میں دیومالائی عناصر ملتے ہیں اس کے بارے میںکہاجاتا ہے کہ اس نے اس نظم کے ذریعے سے دیومالائی جہان کے کردار و شخصیات کو حقیقی زندگی اور ہستیوں سے قریب تر کرکے دکھایا ہے۔

اردو ادب میں دیومالائی عناصر سے کوئی صنف اچھوتی نہیں ہے۔ تمام اصناف پر دیومالائی اثرات مرتب ہیں، ان میں ایک اہم صنف داستان ہے۔

جب ہم ان داستانوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسانی زندگی کے واقعات و جذبات سے بحث کرتی ہیں لیکن اپنی رنگ آمیزی اور تخیلی فضا کی وجہ سے عام انسان کی زندگی سے حالات و واقعات سے مختلف لگتی ہیں۔ اسی لیے جب ہم داستان کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ تمام داستانوں پردیومالائی اثرات موجود ہیں چاہے وہ پہلی نثری داستان سب رس ہو یا پھر فسانۂ عجائب یا باغ وبہار اور دیگر داستانیں، ان تمام میںاساطیری عناصر پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے دیومالائی عناصر اور داستا ن کو لازم وملزوم کہنا بجا ہوگا۔

یعنی دنیا کی تمام داستانوں کا سرا کہیں نہ کہیں جاکر دیومالائی عناصر سے ضرورملتا ہے۔ داستانوں میں توہمات و عقائد، انسانی کرداروں کے ساتھ بھوت جن دیو عفریت یا جانوروں کے سروالے کردار یا پرندے اور جانور وغیرہ ان تمام کا تعلق دنیا کی قدیم مختلف اقوام کی اساطیر بھی ہے۔ اس لیے داستان کے ذکر کے ساتھ اساطیر کا ذکر لازم وملزوم ہے کیونکہ اس کا پایاجانا ناگزیر ہے۔

اردو میں سب سے پہلی باضابطہ طور پرنثری داستان ’سب رس‘ ہے۔ اس میں ملاوجہی نے کرداروں کو جس طرح تشکیل دیا ہے وہ غیرمجسم جذبوں کی شکل ہے۔ ان کرداروں کے نام عقل، حسن، عشق، توبہ، خضر، غمزہ،، وہم، زلف،وفا، نظر، زہد وغیرہ ہیں۔ ان کرداروں کے نام اور ان کی پیشکش سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس داستان میں اسلامی اساطیر کا تانا بانا بُنا گیا ہے اورپوری داستان میں آغاز تااختتام اسطوری فضا چھائی ہوئی ہے۔

باغ وبہار‘کا جب مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس داستان میں بھی جس طرح سے قصہ درقصہ بیان کیا گیا ہے اور تحیر خیزفضا پیدا کی گئی ہے،تمام تر قصے ماورائیت پر مبنی نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے داستان کا شمار دیومالائی ادب میں ہوتاہے۔

دیومالائی عناصر کی ایک مثال ملاحظہ ہو:

’’…میں نے اس کے سرہانے ایک دیو دیکھا کہ کتاب لیے کھڑا ہے۔ چاہا کہ پکڑ کر خوب ماروں اور کتاب چھین لوں، اتنے میں اس کے ہاتھ سے کتاب دوسرا لے بھاگا۔ میںنے جو افسوں یاد کیے تھے، پڑھنے شروع کیے، وہ جن جو کھڑا تھا بیل بن گیا۔‘‘

(باغ و بہار،مرتبہ رشید حسن خان،انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی،1992، ص112)

یہاں ایک بات قابلِ غور ہے کہ منتر پڑھ کر جن پر پھونکنے کی روایت قدیم دور کی اساطیر کا حصہ ہے اور یہاں بھی جن کو بیل کی شکل میں دعا یامنترکے ذریعے ہی ڈھال دیا گیا۔ یہ اساطیری تصور اس داستان میں بھی موجود ہے۔

اسی طرح دیگر داستانیں خواہ وہ ’آرائش محفل‘ ہو یا ’مذہب عشق‘ تمام داستانوں میں دیومالائی اثرات پائے جاتے ہیں۔ ’آرائش محفل‘ میں جس طرح حاتم طائی کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے پوری داستان میں دیو، جن، پری، جادو، سحر سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ واقعات کے ان تصادم سے پوری داستان میں دیومالائی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ’مذہب عشق‘ کے قصے میں دلبر بیسوا کی پالتو بلی، چوہا اس کے علاوہ ممالہ دیوی کی مدد سے تاج الملوک کا بکاولی کے پھول تک پہنچنا اور اس سے اپنے والد کی بینائی کا واپس لانا، بچھو، سانپ اور پری کے کردار کا ہونا یہ سب اساطیر ہیں۔

داستان امیرحمزہ‘ کا مطالعہ کیاجائے تو اس کا تانا بانا اسلامی اساطیر کے ارد گرد بنا گیا ہے۔ پوری داستان میں آغاز تا اختتام طلسماتی فضا چھائی رہتی ہے، جس کی بنیاد میں اسلامی اساطیر پنہاں ہیں۔ اس کے بعد ’قصہ مہرافروز دلبر‘ میں بھی دیومالائی عناصر ملتے ہیں۔

داستان ’نوآئین ہندی‘ ’المعروف ملک محمدگیتی افروز‘ میں بھی اساطیری عناصر موجود ہیں، اس میں ملک محمد کا کئی بار تبدیلیِ قالب کا عمل اساطیر کے زمرے میں ہی شامل ہوتا ہے۔

داستان ’رانی کیتکی کی کہانی‘ میں ہندوستانی دیومالائی عناصر واضح طور پر موجود ہیں۔ اس میں ایک کردار ’اندر‘ بذات خود دیومالائی کردا رکے نام پر ہے، اس کے علاوہ سورج بھان اس کی بیوی اور ادے بھان کو ہرن کے روپ میں ڈھال دینا دیگر کرداروں کا بھبھوت لگاکر اوجھل ہوجانا، گٹکے کھاکر ہوا میں اڑجانا یہ سب ہندو دیومالا کے واضح نقوش ہیں۔ داستان رانی کیتکی کی کہانی میں ہندو اساطیر کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اور یہ داستان ہندوستانی دیومالا کے ذریعے ہندوستانی تہذیب کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔

مذکورہ بالاداستانوں کے علاوہ اور بھی داستانیں مثلا بوستانِ خیال، الف لیلیٰ، فسانۂ عجائب، بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، شکنتلا اور قصہ مادھونل کام کنڈلا قابل ذکر ہیں۔ الف لیلیٰ میں تبدیلیِ قالب کا قصہ، سندباد جہازی، کرداروں کو آدھا پتھر اور آدھا کسی جانور کا کردینا، دیونما انسان، آدم خور، سفید انڈا، الہ دین کا چراغ وغیرہ اساطیری جہت کے حامل ہیں۔ اس کے بعد ’فسانۂ عجائب‘ کا اثر اسطوری پہلو سے مطالعہ کیاجائے تو اس میں بھی اساطیر ساحرہ کا پایاجانا، جانوروں کا انسانوں کی طرح بولنا، اسم اعظم، جادو سے انسانوں کا پتھر کردینا، شہزادی کے خون سے دریا کا لعل موتی میں تبدیل ہوجانا اور ہیرو کا ہرنیوں کے پیچھے اپنے گھوڑے ڈال دینا جب کہ وہ ہرن نہیں جادوگرنیاں ہوتی ہیں۔ یہ بھی اساطیری زمرے میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تبدیلیِ قالب کا واقعہ بھی اساطیری عمل ہے۔ اس طرح یہ داستان بھی ہمیں اساطیر سے لبریز نظر آتی ہے۔

بیتال پچیسی‘ اپنے موضوع سے ہی اساطیری عناصر لیے ہوئے ہے۔ بیتال ایک قسم کے بھوت ہوتے ہیں جو انسانوں کی لاشوں کے درمیان رہتے ہیں۔ اس میں پچیس کہانیاں ہیں او ران تمام کہانیوں میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں وہ ہندودیومالا اساطیر کے زمرے میں آتے ہیں، جیسے اس میں ایک کہانی بنارس کے راجہ پرتاپ مکت کی کہانی ہو یا مدھومالتی کی کہانی، مہادیو کاواقعہ ہو یا برہمن کے لڑکے کی کہانی سب میں اساطیری عناصر ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’سنگھاسن بتیسی‘ کے حوالے سے ڈاکٹر گیان چند مزید لکھتے ہیں کہ:

’’ان کہانیوں میں دیومالا کا گہرا اثر ہے۔ بیتال پچیسی سے زیادہ پاتال، اندرلوک، اندر،سمندر، دیوتا، چاند دیوتا، شیر، شیش ناگ، جم کے دوت، دیوی، گندھرویہ سب بار بار رونما ہوتے ہیں… ایسی تھیلی کہ اس میں کھانے کی جو چیز چاہو نکال لو، ایسی چھڑی جسے لینے والا سب کو دیکھے اور اسے کوئی نہ دیکھے، ایسا لعل جس سے جتنی دولت چاہو مل جائے۔‘‘

(اردو کی نثری داستانیں،ڈاکٹر گیان چند جین، 1978، میسرس نشاط آفسٹ پرنٹرس ٹانڈہ،ص397)

مذکورہ بالا اقتباس سے بیان کردہ تمام کردار اور نشانیاں ہندواساطیر کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس پوری داستان میں حیرت و استعجاب کے ذریعے دیومالائی عناصر کی فضا واضح طورپر پائی جاتی ہے۔ اس کے بعد شکنتلا داستان کا ذکر کریں تو اس داستان میں ایک کردار کانام اندر ہندواساطیر کی علامت ہے اور خود شکنتلا نام بھی ہندو اساطیر کا کردار ہے۔ جس کا ذکر مہابھارت میں کیاگیا ہے۔

مذکورہ بالا داستانوں میں اساطیرکے اس مختصراً جائزے سے اس بات کی توضیح ہوتی ہے کہ داستان اور اساطیر دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں اور بسا اوقات ان میں فرق واضح کرنا مشکل امر بھی ہوتا ہے لیکن دیومالائی عناصر ہر داستان کا ناگزیر حصہ ہے۔ اساطیر کے تخلیقی استعمال سے داستانوں میںزندگی کے مختلف پہلوئوں کی معنویت کو اجاگر کیا گیاہے اوراساطیر کے ذریعے کائنات اور اس کے اسرار کو سمجھنے کے لیے اس سے کام لیا جاتا رہا ہے اور اس کے ذریعے کائنات کی تشریح کی کوشش دلچسپ اور بصیرت افروز ہے۔

داستانوں کے علاوہ اساطیر نے اپنے اثرات ناول پر بھی مرتب کیے ہیں۔ ناول جو کہ زندگی کا عکاس ہے، اس میں مافوق الفطری عناصر کا ہی نام نہیں بلکہ موت کی حقیقت اور اس کے اسرار و رموز بھی شامل ہیں۔ اس لیے زندگی کے حقائق کی عکاسی کرنے والی صنف ناول میں بھی اساطیر کی چھاپ پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں اردو ادب میں اگر دیکھاجائے تو سب سے پہلے ناول نگار نذیراحمد کے پہلے ناول ’مراۃ العروس‘ میں بھی اساطیری عناصر کی جھلک مل جاتی ہے لیکن ان کے ناول ’رویائے صادقہ‘ میں زیادہ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کیونکہ یہ ناول ایسے کردار کی کہانی ہے جو اپنی آنکھوں میں خواب سجانے کا عادی ہوتا ہے اور اپنے شوہر کی تمام ترباتوں کا جواب اپنے سچے خوابوں کی روشنی میں دیتی ہے۔ اس لیے یہ طرزبیان خواب دیکھنا اور خواب کی رہنمائی میں جواب دینا اساطیری اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ نذیراحمد کے بعد اردو ناول میں واضح طور پر اساطیری عناصر پریم چند کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں، ان میں بیوہ، پردۂ مجاز اور گئودان شامل ہیں۔ ان کا ناول ’بیوہ‘ میں بیوہ عورت کی زندگی کے بارے میں جس طرح اس کے احساسات و جذبات کا بیان کیا گیا اس کی خواہشات کی جو تصویرکھینچی گئی ہے اس سے ناول کی فضا میں ہندو اساطیر کے رمز پیدا ہوتے ہیں۔ ’پردۂ مجاز‘ کے ذریعے ہندومذہب میں مروج عقیدہ جنم کا سات بار ہونے کو آشکار کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہندومذہب میںیہ ایک راسخ عقیدہ ہے کہ ہر انسان سات بار جنم لیتا ہے اوراپنے ہر نئے جنم میںپچھلے جنم کی کمیوں او رنامکمل کام کو پورا کرتا ہے۔ اس ناول میں اس کے کردار چکردھر اورمہندر کمار اور دیگر کردار ہیں اور ان کامختلف جگہ اور موقع پر الگ الگ جنم ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا اس عقیدے کے مطابق ’پردۂ مجاز‘ بھی ہندو اساطیر کے زمرے میں شامل ہے۔

ان کا تیسراناول ’گئودان‘ جو کہ اپنے نام سے ہی ہندو دیومالاکی عکاسی کرتا ہے۔

ناولوں میں اساطیری عناصر کا پایاجاناا بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ غضنفر بھی اپنے ناول ’کینچلی‘ کے ذریعے دروپدی کے تناظر میں یہی موضوع قلمبند کرتے ہیں۔

قرۃ العین حیدر کے ناولوںمیں بھی اساطیری علامتیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے پہلے ان کا شاہکار ناول ’آگ کا دریا‘ قابل ذکر ہے۔ آگ کا دریا یہ موضوع بہت وسیع معنویت کا حامل ہے، بڑے بڑے فلسفی، ادیب اور دانشور جس عمل کو زندگی سے موت تک کا سفر کہتے ہیں اس کو قرۃ العین حیدر نے آگ کا دریا کہا ہے۔ اس ناول میں بھی اساطیرپائی جاتی ہیں۔ اس ناول کے بارے میں ایک رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ اس میںایک ہی کردار کے جو مختلف روپ پائے جاتے ہیں وہ ہندو اساطیر کے آواگون یا عقیدئہ تناسخ کا حصہ ہیں،جب کہ قراۃالعین حیدر نے ان کرداروں کو مختصر تبدیلی کے ساتھ اس لیے پیش کیا ہے کیونکہ وہ بدلتے ہوئے ہرعہد کی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی لیے کرداروں کی ان تبدیلی کو آواگون کی اساطیر نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ کردار موت سے دوچار ہوکر دوبارہ جنم نہیں لیتے ہیں،بلکہ وقت کے ساتھ تبدیلی کو اختیار کر لیتے ہیں۔ناول میںمشترکہ تہذیب کی بہترین مثال قراۃالعین حیدر نے جس طرح مختلف تہذیب کے اساطیری نقوش کو جمع کرکے پیش کی ہے وہ قابل غور ہے،کہ کس طرح انھوں نے اپنی تحریر میں معنویت اور گہرائی پیدا کرنے کے لیے اساطیر کا استعمال کیا ہے۔

قرۃ العین حیدر نے جس خوبصورتی سے مشترکہ اساطیر کو بیان کیا ہے اس کی مثال خال ہی ملتی ہے۔

آگ کا دریا‘ کے بعد ان کے دوسرے ناول ’آخرشب کے ہمسفر‘ میں بھی دیومالائی عناصر پائے جاتے ہیں۔ یہ ناول تمام فنی لوازمات پر پورا اترنے کے ساتھ ساتھ اساطیری تخلیقات کا بھی حامل ناول ہے، جس سے اس ناول کی معنویت اور وسعت میں اضافہ ہوگیاہے۔

قرۃ العین حیدر کا ایک ناولٹ ’سیتاہرن‘ رامائن سے ماخوذ ہے جو کہ ہندو دیومالا کا شاہکار ہے۔ اس ناولٹ میں سیتا کے کردار کے ذریعے جدید عہد کی عورت کی زندگی کو رامائن کی سیتا کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔

اس پورے ناولٹ کو ہندوستانی اساطیر کا ناولٹ کہاجاسکتا ہے کیونکہ کردار کے ساتھ ساتھ پوری کہانی اسی طرز پر لکھی گئی ہے اس لیے اس کو ہندوستانی اساطیر کا بہترین عکاس کہاجاسکتا ہے۔

راجندر سنگھ بیدی کے ناول ’ایک چادرمیلی سی‘ کا شماربھی ہندودیومالائی عناصر میں ہوتا ہے۔ اس ناول میں اساطیر کی بڑی واضح مثالیں پائی جاتی ہیں، اس ناول میں انھوں نے اساطیر کے ذریعے ہی کردار کی نفسیات او رتہذیب واقدار کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناول کے آغاز سے ہی ہمیں دیومالائی فضا ملتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہوـ:

’’آج شام سورج کی ٹکیا بہت لال تھی۔ آج آسمان کے کوٹلہ میں کسی بے گناہ کا قتل ہوگیا تھا۔‘‘

(ایک چادر میلی سی،راجندر سنگھ بیدی، 1964، پربھات آفسیٹ پریس،دہلی،ص13)

اس اقتباس سے ہی ایسی فضا کا تصور ہوتا ہے جس میں قتل وخون کا احساس روح کو جھنجھوڑدیتا ہے اور سورج کابیان ایک استعارہ ہونے کے ساتھ ہندودیومالا میں دیوتا اور طاقت کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس کا لال ہونا اس کے غیظ وغضب کا اشارہ ہے۔ ناول میںجگہ جگہ واقعات کے بیان میں دیومالا کا سہارا لیا گیاہے جیسے ترشول، دھرم شالہ، بھیرو، بھبھوکا، کرشن، کالی، شیو، پاروتی، دیوی ماں وشنو یہ سارے کردارو علامات ہندوستانی اساطیر کا ناگزیر حصہ ہیں، جس کو بیدی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے ناول میں شامل کیا ہے۔

ان ناولوں کے علاوہ بہت سے ناول ایسے ہیں جن میں اساطیری عناصر موجود ہیں لیکن تمام کا ذکر بغرض طوالت نہیں کیاجاسکتا۔ ان کا محض ذکر کرنا ہی مناسب ہوگا۔ ان ناولوں میں جیلانی بانو کا ’ایوانِ غزل‘ ہے۔ اس میں بھی ہندوستانی اساطیر کی کارفرمائی ہے۔ اس کے علاوہ ’ٹیڑھی لکیر‘ یا اور اس سے آگے بڑھیں توخدیجہ مستور کے ’آنگن‘ کے چوکھٹوں میں بھی اساطیر مل جاتی ہیں۔ کرشن چندر کے ناول ’دل کی وادیاں سوگئیں‘ اور ’شکست‘ کا بیان ہوان تمام ناولوں میں اساطیری عناصر کی کارفرمائی پائی جاتی ہے۔

جدید دور کے ناول نگاروں میں صلاح الدین پرویز کا ناول ’نمرتا‘بھی اساطیری ناول ہے۔ اس کے علاوہ شموئل احمد کا ناول ’اے دل آوارہ‘، سید محمد اشرف کا ’آخری سواریاں‘،  ’نمبردار کا نیلا‘، پیغام آفاقی کا ناول ’مکان‘، عبدالصمد کا ’دوگززمیں‘، کوثرمظہری کا ’آنکھ جوسوچتی ہے‘ اورخالد جاوید کا ’موت کی کتاب‘ اور ’نعمت خانہ‘ یہ وہ ناول ہیں جن میں اساطیری عناصر کی جھلکیاں ملتی ہیں۔

 

Tayyaba Bano

Research Scholar, Dept of Urdu,

Aligarh Muslim Univrsity

Aligarh- 201001 (UP)

Email.: tayyababano5@gmail.com

رشید احمد صدیقی بحیثیت مکتوب نگار، مضمون نگار: محمد امام الدین

 ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024


رشیداحمدصدیقی اردو ادب کی تاریخ میں ایک ایسا نام ہے کہ ان کا ذکر آتے ہی ایک ہرفن مولا ادیب کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ سنجیدہ مضامین، مزاحیہ مضامین، طنز و ظرافت نگاری، انشائیہ نگاری، خاکہ نگاری، خطوط نگاری، خطبات نگاری یا تنقید نگاری وغیرہ اِن تمام اقسام نثر پر رشیداحمدصدیقی نے اپنے جادوئی قلم سے گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ میں جب بھی ان اقسامِ نثر کی بات ہوگی تو رشیداحمدصدیقی کے ذکر کے بغیر اردو نثر کی وہ تاریخ نامکمل اور ادھوری رہے گی۔ رشیداحمدصدیقی یوں تو تمام غیر افسانوی نثر کے میدان کے شہ سوار ہیں لیکن خاکہ نگاری اور طنز و مزاح نگاری میں ان کے بلند مقام و مرتبے کا ناقدین نے اعتراف کیا ہے۔ طنزو مزاح نگاری کے بعد ان کی جس نثر نگاری کو ناقدین نے اہم اور قابل تحقیق و تنقید بتایا ہے وہ ان کی خطوط نگاری ہے۔ حالی نے غالب کے بارے میں کہا تھا کہ خطوط نگاری میں ان کا ہم مثل نہ ان سے پہلے کوئی تھا نہ ان کے بعد کسی سے ان کی تقلید ہوسکی۔ گویا وہ اپنی خطوط نگاری کے میدان میں یکتا تھے۔ حالی کی بات من وجہ درست ہوسکتی ہے۔ لیکن غالب نے خطوط نگاری میں جس طُرح کی بنیاد ڈالی تھی اسی پر تقلیدی یا تعمیری عمارت کھڑی کرنے والوں میں رشیداحمدصدیقی اپنے ہم عصروں میں اولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ رشیداحمدصدیقی کا اسلوب بھی اپنے ہم عصروں سے کچھ کم منفرد نہیں ہے۔ منفرد، دلچسپ، دلکش اور ناقابل تقلید۔ جس طرح انشائیہ نگاری میں وہ معمولی باتوں میں غیر معمولی شگفتگی اور معمولی مزاح میں گہرا طنز پیدا کردینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ویسے ہی خطوط نگاری میں بھی عام اور معمولی گفتگو میں وہ ایسی معنویت اور گہرائی پیدا کردیتے ہیں کہ قاری غور و فکر کرنے پر مجبور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بلکہ ان کے بیان کی گہرائی اور معنویت پر قاری جس قدر غور کرتا ہے اسی قدر حظ اٹھاتا ہے۔ رشیداحمدصدیقی کے خطوط کے وہ اسرار پنہاں جو ان کی عبارتوں کی تہوں میں لپٹے ہوئے ہیں ابھی طشت از بام نہیں ہوئے ہیں۔ جیسا کہ ان کے ایک شاگرد رشید پروفیسر عبدالقادر میسوری نے ان کے خطوط کے بارے میں اس وقت لکھا تھا جب ان کے خطوط شائع ہوکر منظر عام پر نہیں آئے تھے:

’’ان مضامین کے علاوہ ان کا ایک سب سے بڑا ادبی کارنامہ جو صفحۂ قرطاس پر تو آگیا ہے لیکن منظر عام پر ابھی نہیں آیا یہ ان کے خطوط ہیں جو انھوں نے اپنے بے تکلف دوستوں کے نام لکھے ہیں ان کو شائع ہونے دیجیے۔ وہ دن دور نہیں جب کہ بابائے اردوبھی ان کے بارے میں کہہ اٹھیں گے۔ ’’ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاک ستر میں تھی۔‘‘

(پروفیسرمحمدعبدالقادر، حنائے علی گڑھ، صف4، سالار پبلی کیشنز، بنگلور،1986)

اب رشیداحمدصدیقی کے خطوط کافی حد تک شائع ہوکر منظر عام پر تو آچکے ہیں لیکن ان کے خطوط کے حسن و قبح، اسرار و رموز اور اسلوبیات پر محققین اور تنقید نگاروں نے زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔

خطوط کے بارے میں خود رشیداحمدصدیقی کا اپنا ایک نقطہ نظر تھا۔ غالب نے خطوط کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کردیا تھا کہ خطوط غائبانہ گفتگو اور مکالمہ بازی ہے۔ رشیداحمدصدیقی کا بھی خطوط کے تعلق سے یہ نظریہ تھا کہ خطوط نثری غزل گوئی ہے۔ انھوں نے غزل کو اردو شاعری کی آبرو کہا ہے۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید رشیداحمدصدیقی کے خیالات کے سہارے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھوں نے غزل کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے کم و بیش وہ سب خیالات اچھے مکتوبات کے بارے میں بھی پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مشاہیر کے مکاتیب ادب لطیف کی آبرو ہیں۔ اختصار غزل کی طرح مکاتیب کا بھی حسن ہے اور طویل غزل کی طرح طویل مکتوب اپنا حسن کھودیتا ہے۔ غزل کا شاعر بے ربط خیالات کا ترتیب وار اظہار کرتا ہے تو خطوط میں بھی ربط و تسلسلِ خیالات کی تلاش فضول ہے۔ رشید احمد صدیقی نے خطوط کو عشق و محبت سے تشبیہ دی ہے۔ وجہ شبہ یہ ہے کہ اچھے خطوط بھی عشق و محبت کی طرح منہ زور اور روانی میں مانندِسیلاب ہوتے ہیں۔ اچھے خطوط لکھے نہیں جاتے بلکہ عشق کی طرح از خود لکھ جاتے ہیں۔ موضوعات و عنوانات کی ضرورت مضامین و مقالات کے لیے ہوتی ہے۔ خط بغیر کسی موضوع اور عنوان کے غیر ارادی طور پر لکھا چلاجاتا ہے۔ یعنی خطوط نگاری غائبانہ گفتگو اور آدھی ملاقات ہے جس میں مکتوب نگار مکتوب الیہ سے نیم ملاقات کرتاہے اور غیر ارادی طور پر مخاطب سے گفتگو شروع کردیتا ہے۔ اسے اپنی بات کہنے کے لیے نہ کچھ سوچنا پڑتا ہے نہ احتیاط برتنا پڑتا ہے بس وہ اپنی بات کہتا چلاجاتا ہے۔ رشیداحمدصدیقی اپنے ایک خطبے میں خطوط کے تعلق سے اس طرح اظہارِ خیال کرتے ہیں:

’’خطوط کو نہ پکا گانا ہونا چاہیے، نہ فلمی قوالی۔ خط لکھنا دراصل اتنا خطبۂ صدارت تصنیف کرنے کا فن نہیں ہے جتنا گفتگو کرنے کا سلیقہ ہے اور گفتگو کرنا گفتگو ہی کرنے کا نہیں خاموش رہنے کا بھی فن ہے اس اعتبار سے بڑا سخت گیر فن ہے..... اچھی گفتگو کرنے والے کی گفتگو میں نقش، رنگ، رقص، آہنگ اور شخصیت کی بیک وقت جلوہ گری ملتی ہے۔ شخص کی عدم موجودگی میں یہی کرشمہ اس کے خطوط میں نظر آئے گا۔‘‘

(غالب کی شخصیت اور شاعری، ص32، شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی، 1976)

رشیداحمدصدیقی کے خیال میں خطوط نگاری میں خطوط نگار اپنی شخصیت کو چاہے جتنے پردوں میں چھپادے اس کی شخصیت از خود ظاہر ہوکر رہتی ہے۔ بلکہ صرف شخصیت ہی نہیں اس کے جذبات و احساسات، اس کا زاویۂ فکر و نظر سب کچھ اس کی تحریر کے پردے میں منعکس ہوکر رہتے ہیں۔ گویا خط شخصیت کا ترجمان ہوتا ہے۔ بے تکلف احباب کو لکھے جانے والے خطوط میں انسان سرگوشیاں کرنے لگتا ہے۔ اپنا آپ اس طرح ظاہر کرنے لگتا ہے کہ دوئی کا پردہ اٹھ جاتا ہے۔ اور بسااوقات اپنا دل چیر کر رکھ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رشیداحمدصدیقی خطوط کی اشاعت کے سخت خلاف تھے۔ خطوط نگار خطوط لکھنے میں ذاتی اور عمومی کا فرق ملحوظ نہیں رکھ پاتا لہٰذا کسی قاری کے لیے بھی یہ امتیاز کرپانا بے حد مشکل ہے کہ کسی کے کون سے خطوط ذاتی ہیں اور کون سے عمومی۔پھر بھلا جو چیز جرم کے دائرے میں آتی ہو وہ کسی خوبصورت عنوان سے جواز کے خانے میں کیسے آسکتی ہے ؟ رشیداحمدصدیقی مولانا عبدالماجد دریابادی کو لکھے گئے 26جون1963 کے اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’نجی خطوط شائع نہ کرنے کے جواز میں دوستوں سے گفتگو اور بحث کے دوران میں مثال بجنسہ وہی دیتا تھا جو آپ نے دی ہے یعنی غسل خانے میں تاک جھانک کس صیغۂ اخلاق میں روا ہے؟‘‘

رشیداحمدصدیقی اپنے خطوط کی اشاعت کے اس قدر خلاف تھے کہ اگر کوئی ان کے خطوط شائع کرنے کا ارادہ کرتا تو اسے روکنے کے لیے سخت ناراضگی تک کا اظہار کرتے۔ اور یوں گویا ہوتے کہ میرے روکنے کے باوجود اگر کوئی نہ رکے تو میں بھلا اس کا کیا بگاڑ سکتا ہوں یا کوئی اور کیا بگاڑ سکتا ہے۔ لیکن ایسی حرکت کر کے وہ مجھے سخت تکلیف اور اذیت پہنچائے گا۔ وہ اپنے اکثر خطوط میں مکتوب الیہ کو تاکید کرتے کہ میرا خط پڑھ کر تلف کردیا جائے۔ اپنی بیٹی سلمی کو 21 اگست 1972 کے ایک خط میں سخت تنبیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’میں چاہتاہوں اور اکثر لکھتا بھی رہا ہوں کہ  میرے خطوط پڑھ کر فورا تلف کردیا کرو۔ مجھے اس خیال سے بڑی تشویش رہتی ہے کہ میرے خطوط میرے بعد شائع کیے جائیں گے۔ اوروں سے تو کچھ کہہ نہیں سکتا اور ان پر اختیار بھی نہیں ہے۔ لیکن اپنے بچوں سے تو اس کی امید کرسکتا ہوں۔ ایسے خطوط اپنے بچوں کو لکھتا ہوں جو پرسنل اور پرائیویٹ ہوتے ہیں تو ان کو شائع کرنا بڑی نازیبا بات ہے۔‘‘

اسی طرح کی ہدایت جزوی تبدیلی و تخفیف کے ساتھ ان کے اکثر خطوط میں موجود دیکھی جاسکتی ہے۔

’’اس خط کو پڑھنے کے بعد بالضرور تلف کردینا۔ اس میں بعض باتیں ایسی لکھ گیا ہوں جن کے عام ہونے سے فتنے کھڑے ہوجائیں تو عجب نہیں۔‘‘

’’پچھلے خط کو تلف کردیجیے گا۔‘‘

’’بقول غالب..... یہ عریضہ چھاپنے کے لیے نہیں چُھپانے کے لیے ہے۔‘‘

’’امید ہے آپ میرے سارے خطوط ملاحظہ فرمانے کے بعد بالضرور تلف فرمادیتے ہوں گے۔‘‘

’’میرے خط پڑھ کر ہمیشہ تلف کردیا کرو۔ تاکید جانو۔‘‘

ایسے لاتعداد فقرے ان کے خطوط کے اختتام پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ خطوط کی اشاعت کے سلسلے میں ان کے رویے میں آخری عمر تک کوئی تغیر یا لچک پیدا نہیں ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ سلیمان اطہر جاوید نے ان کے خطوط جمع کرکے شائع کرنے کے قصد سے رسالہ ہماری زبان کے توسط سے اہل ادب سے درخواست کی کہ جن کے پاس رشیداحمدصدیقی کے خطوط ہوں وہ فراہم کریں۔ رشید احمدصدیقی کو اس کا پتہ چلا تو انھوں نے اس رسالے کے ایڈیٹر کو خط لکھ کر بے حد لجاجت سے اس سے باز رہنے کی درخواست کی اور ایڈیٹر کے توسط سے سلیمان اطہر جاوید کو بھی اس سے باز رہنے کی تاکید کی۔ ان کی اس کوشش اور ممانعت کا لحاظ کرکے ان کی زندگی میں بہت سے محققین نے ان کے خطوط شائع کرنے کے خیال کو ترک کردیا۔ لیکن ان کی وفات کے بعد اس کافری سے کوئی باز نہ رہ سکا۔ سلیمان اطہر جاوید نے اچھے خطوط کے شائع نہ کرنے یا تلف کردینے کو کفر اور قتل سے تشبیہ دی ہے۔ وہ رشید احمد صدیقی کے اس نظریے کے سخت خلاف تھے۔ رشید احمد صدیقی کا قول ہے کہ اچھے خطوط وہ ہوتے ہیں جنھیں پڑھ کر تلف کردیا جائے۔ سلیمان اطہر جاوید لکھتے ہیں:

’’رشیدصدیقی کی اس منطق کو کون تسلیم کرے گا؟ اور اگر کچھ دیر کے لیے کوئی تسلیم کربھی لے تو کیا عجب کوئی دل جلا کہہ بیٹھے کہ اچھے انسان کی پہچان یہ ہے کہ گفت وشنید کے بعد اس کو ہلاک کردیا جائے۔ رشیدصدیقی نے اصغر گونڈوی مرحوم کے موسومہ ڈھیر سارے مکاتیب لکھے ہوں گے۔ اصغر کی وفات کے بعد مرحوم کی اہلیہ سے انھوں نے سارے مکاتیب حاصل کیے اور اپنے ہی ہاتھوں تلف کردیا۔ یوں کون جانے کتنے گوہر یکتا تہہ خاک ہوگئے۔ رشیدصدیقی نے اپنے مکاتیب کو تلف کردیا ہو لیکن کسی اور سے یہ کفر ممکن نہیں۔ یہ ادبی قتل کون کرے گا؟‘‘

 (سلیمان اطہر جاوید، مکاتیب رشید، صف16، نیشنل بک ڈپو حیدرآباد،1980)

ایسا نہیں ہے کہ رشیداحمدصدیقی صرف اپنے خطوط کی اشاعت کے خلاف تھے بلکہ وہ اپنے نام لکھے گئے دوسروں کے نجی خطوط کے تحفظ کا بھی خیال رکھتے تھے اور انھیں یا تو تلف کردیتے تھے یا مکتوب نگار کو واپس کردیتے تھے۔ ان کے نام بہت سے مشاہیر کے خطوط آتے رہتے تھے جن میں ڈاکٹر علامہ محمداقبال، ڈاکٹر ذاکرحسین، پطرس بخاری، جگر مرادآبادی، مولانا سہیل، سجاد انصاری، سلطان حیدر جوش، فانی بدایونی، سرتیج بہادر پسرو، آل احمد سرور، مسعود حسین خان، ڈاکٹر محمد حسن، نیاز فتح پوری، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری، سید احتشام حسین وغیرہ شامل ہیں۔ وہ ان سب کے خطوط کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات  کے بعد ان کے گھر سے کسی طرح کے کوئی خطوط برآمد نہ ہو سکے۔ خط محفوظ نہ رکھنے کے بارے میں محمدطفیل مدیر رسالہ نقوش کے موسومہ مکتوب مورخہ 13اکتوبر 1956میں اپنی اس عادت کا ذکر مزاحیہ اسلوب میں اس طرح کرتے ہیں:

’’میرے پاس مشاہر کی خطوط تو آتے ہیں لیکن میں جواب دے کر ان کو تلف کر دیتا تھا۔ سبب یہ تھا کہ جہاں تک مشاہیر کا تعلق ہے میں خود کو ان سے زیادہ مشاہیر سمجھتا تھا۔ لیکن اب جب کہ وہ مجھ سے پہلے اس جہاں سے گزر گئے اصلی مشاہیر وہی تھے۔ صرف مجھے خط نہ لکھ سکتے تھے۔‘‘

رشیداحمدصدیقی کا خیال تھا کہ خطوط میں مکتوب نگار کی جو نجی باتیں ہوتی ہیں ان کے طشت ازبام ہوجانے سے مکتوب نگار کو کوئی فرق پڑتا ہو یا نہ لیکن اس کا امکان ضرور ہوتا ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں مکتوب الیہ ان نجی باتوں سے کوئی ایسا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے جس سے مکتوب نگار کو شرمندگی اٹھانی پڑے۔ چنانچہ وہ خلیل الرحمن اعظمی کو لکھے گئے اپنے5جنوری 1952کے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’اس خط کو آپ ہی رکھ لیں۔ میں ایسے خطوط کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا جس میں لکھنے والے نے نجی باتیں لکھی ہوں اور اس کا امکان ہو کہ جس کو لکھا گیا ہے وہ کبھی اس سے اِس طور پر فائدہ اٹھائے کہ لکھنے والے کو شرمساری ہو۔‘‘

خطوط نگاری کو جو ادیب اپنی عادت بنالیتے ہیں خطوط نگاری ان کی صرف ضرورت نہ ہوکر وقت گزاری کا مشغلہ بن جاتی ہے۔ غالب کی دیگر خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ بلاضرورت اور بغیر کسی بات کے محض دل لگی اور وقت گزاری کے لیے بھی خطوط لکھتے تھے۔ یہی حال رشیداحمدصدیقی کا بھی تھا۔ انھوں نے خود اس کا اعتراف کیا ہے کہ بے تکلف دوستوں کو خطوط لکھنا لطف و تفریح کا ذریعہ ہے۔ اور انھیں اچھا لکھنے پر جو قدرت حاصل تھی اس کی سچی خوشی تب حاصل ہوتی تھی جب وہ بے تکلف احباب اور عزیز دوستوں کو خطوط لکھنے بیٹھتے تھے۔ بے تکلف دوستوں کو خطوط لکھتے وقت اپنی شخصیت کے تہوں کو کھولنے اور اپنا آپ ظاہر کرنے میں کوئی باک نہ ہوتا۔ بلکہ فطری طور پر مکتوب نگار اپنی خوبیوں و خامیوں سمیت اپنے خطوط میں جلوہ گر ہوجاتا ہے۔ اسی لیے رشیداحمدصدیقی اکثر اس بات کے اندیشے میں مبتلا رہتے تھے کہ کہیں ان کے خطوط منظر عام پر نہ آجائیں۔ انھوں نے اس تمنا کا اظہار بھی کیا ہے کہ خدا کرے میرے اس قسم کے خطوط جن بزرگوں، عزیزوں اور دوستوں کے پاس ہوں وہ ان کو تلف کرچکے ہوں۔ رشیداحمدصدیقی کی روش خطوط نگاری کے سلسلے میں یہ تھی کہ وہ اپنے چھوٹے بڑے اعزہ اقارب، دوست احباب اور بزرگوں و شاگردوں کو خطوط لکھنے میں پہل کرتے تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے منتسبین کے بارے میں بعض ناقدین نے لکھا ہے کہ وہاں کے لوگ خطوط نگاری تو دور خطوط کے جوابات لکھنے میں بھی تساہل برتتے ہیں۔ آپ کسی علیگ کو دس خط لکھیے تو جواب مشکل سے ایک کا آئے گا۔ یہ وہاں کی عام روایت بیان کی جاتی ہے۔ استثنا ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ اسی استثنا میں رشیداحمدصدیقی کا نام سرفہرست آتاہے۔ وہ کسی بھی چھوٹے بڑے کو یہ تاثر دینا نہیں چاہتے کہ میں بہت بڑا آدمی ہوں ہر کس و ناکس کے خط کا جواب دینا کسر شان سمجھتا ہوں۔ یا میں بڑا مصروف آدمی ہوں ہر طرح کے خطوط کا جواب دینا میری مصروفیت میں خلل کا باعث ہے۔ بلکہ وہ اپنے شاگردوں کے خطوط کا بھی پابندی سے جواب لکھتے تھے۔ ان کے بعض شاگردوں سے ان کے قریبی تعلقات تھے جن میں پروفیسر عبدالقادر میسوری بھی تھے۔ رشیداحمدصدیقی نے انھیں جو خطوط لکھے تھے انھوں نے ان کو مرتب کرکے شائع کیا ہے۔ رشیداحمدصدیقی کے روز مرہ کے معمولات میں خطوط نگاری بھی شامل تھی۔ آنے والے ڈاک پڑھنے اور خطوط کے جوابات لکھنے کے لیے ان کا وقت مختص تھا۔ وہ سفر میں ہوتے تب بھی خطوط لکھنے کا معمول برقرار رکھتے۔ ان کے بہت سے خطوط حیدرآباد اور مسوری وغیرہ کے سفر کے دوران لکھے ہوئے ہیں۔ 1955 میں جس روز وہ دل کے دورہ سے متاثر ہوئے اس دن انھوں نے ایک درجن کے قریب خطوط لکھ دیے تھے۔ خطوط لکھنے اور جواب ارسال کرنے کی یہ پابندی اور عادت تادم آخریں قائم رہی۔ زندگی کے آخری چند برسوں میں ان کی بینائی کمزور ہوگئی تھی اور ہاتھوں میں رعشہ آگیاتھا لیکن وہ پابندی سے خط لکھتے رہے۔ ان کا آخری خط وفات سے دو دن پہلے کا لکھا ہوا ہے جو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ وہ خط لکھنے کو اپنی ذمے داری سمجھتے تھے اور اگر کوئی خط کا جواب لکھنے میں کاہلی یا کسالت کا مظاہرہ کرتا تو وہ اسے پسند نہ کرتے تھے۔ اپنے بیٹے احسان رشید کے بارے میں مسعود حسین خان کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’وہ ان لوگوں میں ہیں جو خط کا جواب دینے میں کسرشان سمجھتے ہیں یا کاہلی کو سندجواز مانتے ہیں حالانکہ یہ دونوں باتیں نالائقی کی دلیل ہیں۔‘‘

رشیداحمدصدیقی کا خیال تھا کہ انسان کی اصل سیرت کی عکاسی اکثر دو چیزوں سے ہوتی ہے۔ اگر وہ سامنے موجود ہو تو اس کے ساتھ کُھلیے وہ کھل جائے گا اور نظروں سے اوجھل ہو تو اس کے نجی خطوط پڑھیے وہ پہچانا جائے گا۔ اس کلیے کے مطابق رشیداحمدصدیقی کے خطوط پڑھیے تو وہ ان میں چلتے پھرتے بولتے چالتے نظر آئیں گے۔ ان کے خطوط میں ان کی شخصیت، ان کا اسلوب، ان کے افکار و نظریات، مختلف مشاہیر کے بارے میں ان کے خیالات کی بھر پور عکاسی نظر آتی ہے۔ مکتوبات کے بارے میں مشہور ہے کہ اس سے مکتوب نگار کی زندگی کا سوانحی خاکہ مرتب کیا جاسکتاہے۔ غالب کے خوشہ چینوں نے ان کے خطوط کی مدد سے نہ جانے ان کی زندگی کے کون کون سے گوشوں کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔ لیکن رشیداحمدصدیقی کا اپنے خطوط میں محتاط انداز رہتاتھا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے ان کے چاہنے والے ان کے رقعے پرزے تک سے محبت کرتے ہیں لہٰذا بہت بعید ہے کہ وہ ان کی تشہیر سے باز آئیں گے۔ لہٰذا رشید احمدصدیقی کے خطوط غالب کے خطوط کی طرح ان کی زندگی کی مکمل کتاب تو نہیں البتہ ان کی شخصیت کی معرفت کے لیے ناکافی بھی نہیں ہیں۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید لکھتے ہیں:

’’اگر آپ نے رشیدصدیقی سے ملاقات کی ہو، تبادلۂ خیال کیا ہو، ان کو دیکھا ہی نہیں ان کو سمجھنے کی کوشش بھی کی ہو اور سمجھا بھی ہو تو ان کے مکاتیب میں آپ ان کو بولتا ہوا پائیں گے۔ یہ ان کے مکاتیب کی بہت بڑی خوبی ہے اور پھر ان کے اسلوب کی طرفگی، شائستگی، شگفتگی، بات کو دھیمے دھیمے کہنے کا انداز اور کیف میں ڈوبا ہوا لب و لہجہ۔ لگتا ہے پیاری سی موسیقی کے ریکارڈ ہیں جو آپ ہی آپ بجتے جا رہے ہیں مدھم سروں میں۔‘‘

(سلیمان اطہر جاوید، مکاتیب رشید، صف20، نیشنل بک ڈپو حیدرآباد، 1980)

رشیداحمدصدیقی اپنے خطوط میں مزید کئی رنگ و روپ میں نظر آتے ہیں۔ خطوط میں انھوں نے اپنی پسند ناپسند، اپنے ذاتی و خانگی مسائل، روزہ مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتیں مثلا پاندان، سیوئیاں، گلاب وغیرہ کے علاوہ اپنی بیماریوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ان تمام کا تفصیلی مطالعے اور احاطے کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ہوسکتا۔ مکتوب نگار کی حیثیت سے رشیداحمدصدیقی کا مطالعہ اہمیت، افادیت اور دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔

 

Mohd Imamuddin

Research Scholar, Dept of Urdu

Delhi University

Delhi- 110007

mdimamrahi@gmail.com

تازہ اشاعت

علم طب، ماخوذ ازہمارا قدیم سماج، مصنف: سید سخی حسن نقوی

  ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024 علم طب کی ابتدا بھی ویدک دور ہی میں ہوگئی تھی۔ اتھرووید میں بہت سی بیماریوں اور ان کے علاج کا ذکر موجود ہ...