13/9/24

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024

شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ سال کی عمر سے لے کر تقریباً 27 سال تک حیدرآباد میں مقیم رہے، کیونکہ ان کے والد محترم بینکٹھ ناتھ بھٹاچاریہ حیدرآباد میں ریلوے کے ملازم تھے یعنی ان کا بچپن حیدرآباد میں ہی گزرا اور تعلیم و تربیت یہیں ہوئی۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے محض اٹھارہ سال کی عمر میں افسانہ نگاری شروع کی۔ ان کے افسانوں میں افسانوی رنگ کے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز غزل گوئی سے کیا، پھر افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے مگر اس میدان میں بھی بہت دیر تک قائم نہ رہ سکے۔ آخر میں وہ اپنے بیدار ذہن کی وجہ سے تحقیق و تنقید کی طرف مائل ہوئے۔ وہ ایک محنتی اور ذہین ادیب کے ساتھ ساتھ بہت ہی بہترین محقق بھی ہیں، جس موضوع پر کام کرنے کی کوشش کی اسے کر دکھایا۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ اردو کے مخلص اور سنجیدہ قلم کار تھے۔ اردو، بنگلہ دونوں ادبیات سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ ان کی مادری زبان بنگلہ تھی، لیکن خود کو اردو کا ادیب کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے 1948 سے لکھنا شروع کیا۔ اپنی ادبی زندگی کی شروعات عام شاعروں اور نوجوانوں کی طرح غزلوں سے کی کیونکہ ان کے ابتدائی دور میں شاعری کا بول بالا تھا۔ اس لیے بھٹاچاریہ بھی غزلوں کی وادیوں میں سیر کرنے لگے۔ شاید بھٹاچاریہ کے دماغ میں یہ بات آئی کہ وہ اپنے ہدف کو غزل سے پورا نہیں کرسکتے ، لہٰذا انھوں نے اس راستے سے خود کو الگ کرلیا۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے جہاں افسانے لکھے، ناول تحریر کیے، تراجم کیے وہیں تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا۔ ویسے تو ان کی تمام تحقیقی کتابوں میں تنقیدی عنصر نمایاں ہے۔ تنقیدی شعور کا اندازہ ان کی کتاب ’اقبال، ٹیگور اور نذرل، تین شاعر ایک مطالعہ‘ سے ہوتا ہے اس کے علاوہ ’رابندر ناتھ ٹیگور حیات و خدمات‘ سے بھی ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ’اقبال، ٹیگور اور نذرل۔ تین شاعر ایک مطالعہ‘ میں تینوں قد آور شاعروں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ابتدا میں تینوں شاعروں کے حالات زندگی اور تعلیم کو پیش کیا گیا ہے اس کے بعد ان تینوں کی شاعری سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے نذرل کی انقلابی شاعری کی ستائش کی ہے وہیں اقبال کے بعض انقلابی اشعار پر اعتراض بھی کیا ہے۔ انھوں نے ’رابندر ناتھ ٹیگور حیات و خدمات‘ میں ٹیگور کی شاعری سے جو بحث کی ہے اس سے ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ زود نویس تھے، انھوں نے متعدد کتابوں کے علاوہ مضامین بھی بہت لکھے جو ملک کے مختلف اخبار و رسائل میں شائع ہوتے رہے، اس سے ان کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ان کی زود نویسی سے جہاں ان کو عزت و شہرت ملی وہیں اپنی بعض کمیوں اور خامیوں کی وجہ سے نظرانداز بھی کیے گئے۔ وہ اپنے تحقیقی کاموں مثلاً بنگالی ہندوئوں کی اردو خدمات، مختصر تاریخ بنگلہ ادب، بنگال میں اردو زبان و ادب، آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو اور ’بنگال میں اردو کے مسائل‘ کی وجہ سے ہمیشہ ہمیش زندہ رہیں گے۔

بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں جب شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے ہوش سنبھالا تو انگریزوں کا ظلم و ستم چہار سو پھیلا ہوا تھا۔ انگریزوں کے مظالم سے پورا ہندوستان متاثر تھا۔ غریب مزدور اور کسان کی حالت خستہ سے خستہ تھی۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی دہشت اور ہولناکیوں سے یہ طبقہ بہت حد تک متاثر تھا۔ بھٹاچاریہ نے اپنی زندگی میں کسانوں اور غریبوں پر ہونے والے مظالم کو بہت ہی قریب سے دیکھا، جس کا اثر ان کی ادبی زندگی پر پڑا اور ان ہی سب وجوہات کی بنا پر وہ غزل گوئی کو چھوڑ کر افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوگئے۔ کوئی بھی حساس اور بیدار ذہن انسان کسانوں، غریبوں اور مظلوموں کی چیخ و پکار اور خون خرابہ دیکھ کر خاموش کیسے رہ سکتا ہے، لہٰذا انھوں نے تلنگانہ تحریک میں حصہ لے کر غریب کسانوں کی مدد اور انسانیت کی خدمت کی اور افسانہ نگاری کے ذریعے انسانیت کو جگانے کی حتی المقدور کوشش کی۔

مغربی بنگال کی قدآور شخصیتوں میں شانتی رنجن بھٹاچاریہ کا نام اہم ہے۔ انھوں نے بنگالی ہونے کے باوجود اردو زبان وادب کی جس قدر خدمت کی اس کی مثال مغربی بنگال میں نہیں ملتی ہے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی کسی ایک یا دو میدان میں طبع آزمائی کرتا ہے۔ بہت کم ہی ایسے ملتے ہیں جنھوں نے کئی میدان میں طبع آزمائی کی ہو۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی مادری زبان اردو نہیں بنگلہ تھی۔ اس کے باوجود ان کی اردو فہمی قابل داد ہے۔ ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع ہے۔ اردو زبان و ادب کی ابتدا و ارتقا سے بھی وہ کما حقہ واقفیت رکھتے تھے۔ انھوں نے سماج اور کلچر کا مطالعہ بھی بڑی گہرائی سے کیا تھا۔ سیاست سے بھی جڑے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر بھی تھے۔ اس پارٹی سے ان کی وابستگی کی وجہ ملک وقوم کی خدمت تھی۔ ظلم و استحصال پر وہ خاموش نہیں رہتے تھے، تلنگانہ تحریک اس کی ایک مثال ہے جس کے لیے انھیں بڑی مشقت اٹھانی پڑی۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی زندگی مختلف ادبی و علمی منزلوں سے گزر کر تحقیق کی منزل تک پہنچی جہاں وہ اس دشت کے میر کارواں ثابت ہوئے۔ انھوں نے بنگلہ اور اردو کے درمیان ایک معتبر رابطے کی حیثیت حاصل کی۔ اس طرح انھیں مغربی بنگال کے تحقیقی میدان میں ایک اہم مقام حاصل ہوا۔

شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے مغربی بنگال کے اردو حلقوں، اسلام پور، آسنسول، بارکپور، ہگلی، گارڈن رچ، ہاوڑہ اور شہر کلکتہ کے اردو مسائل کا تذکرہ تحقیق کی روشنی میں کیا ہے۔ مثلاً وہاں اردو آبادی، بنگلہ بولنے والوں کی آبادی، پرائمری اسکولوں اورسکنڈری اسکولوں کی تعداد، وہاں کا تعلیمی معیار اور وجوہات، اساتذہ، طلبہ و طالبات کی مشکلات، گھر سے کالج تک کی آمد و رفت کے ذرائع، انجمن ترقی اردو ہند شاخ مغربی بنگال کی کارکردگی، ادبی اداروں کی سرگرمیاں، ڈرامہ گروپ کا تعارف، دفتروں میں اردو کا استعمال، اسکولوں اور کالجوں میں داخلے کا مسئلہ، کتب خانوں کی تعداد، کتب خانوں میں کتابوں کی تعداد، اردو اکادمی کی جانب سے کتابوں کی فراہمی، اردو مشاعرے، اردو شعراوا دبا کی خدمات، اردو اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری، غیر منظور شدہ اسکولوں کے مسائل، اردو اخبارات اور رسائل کی فہرست وغیرہ کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔ وہ مغربی بنگال میں اردو کے مسائل پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ درحقیقت مغربی بنگال میں اردو کا صرف ایک ہی اہم اور بنیادی مسئلہ ہے اور یہ اہم مسئلہ ہے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مسئلہ اور اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو دیگر مسائل سب یکے بعد دیگرے آسانی سے حل ہوجائیں گے۔

اردو کے مسائل کو حل کرنے کی شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے ہرممکن کوشش کی، وہ لکھتے ہیں :

’’اگر یہ بنیادی مسئلہ حل ہوجائے تو اردو کو اپنا قانونی حق مل جائے گا۔ اس کے بعد اردو تعلیم وغیرہ کے سلسلے میں جو دیگر دشواریاں ہیں وہ راستے میں حائل نہیں ہوسکیں گی اور اردو والے قانونی حق پانے پر ایسی تمام دشواریوں کامقابلہ کرلیں گے۔ اردو کی بقا اور فروغ کے لیے نہ صرف مغربی بنگال بلکہ ہندوستان کے وہ تمام علاقے جہاں جہاں اردو بولنے والوں کی دس فیصد آبادی ہے وہاں اردو کو ریاستی زبان کا قانونی حق ملنا چاہیے اور یہی مختلف ریاستوں میں اردو والوں کا اہم ترین مسئلہ ہے جس کے لیے اردو والے برسوں سے کوشاں ہیں۔‘‘

شانتی رنجن نے اردو زبان کے تعلق سے جو ٹھوس دلائل پیش کیے ہیں اس سے نہ صرف دشمنان اردو بلکہ عام افراد یا لسانی تعصب رکھنے والے انسان کے ذہن شیشے کی طرح صاف ہونا چاہیے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ مختلف قوموں کی آمیزش سے بنی زبان ہے اس کاکوئی مخصوص علاقہ یا مخصوص یوم ولادت نہیں ہے اور نہ ہی یہ اچانک ایک دن عالم وجود میں آئی۔ اس کا خمیر تیار ہونے میں ایک طویل عرصہ لگا۔ یہ ایک جدید ہندوستانی زبان ہے جو مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی ہندی، ہندوی، ریختہ، دکنی، گجری اور آخر میں اردو کے نام سے روشناس ہوئی جو رفتہ رفتہ بین الاقوامی شکل اختیار کر گئی۔ آج اس کے بولنے والے نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک میں بھی موجود ہیں۔

شانتی رنجن کی محققانہ نگاہ نے نہ صرف مغربی بنگال میں اردو زبان کے مسائل اور حل پر روشنی ڈالی ہے بلکہ آزادی کے بعد پورے ملک میں اردو زبان کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں،  سیاسی کھیل، تقسیم ہند، قیام بنگلہ دیش، اردو اور مسلمان، اردو کی ابتدا کے تعلق سے مختلف نظریات و حقائق پر روشنی ڈالی ہے۔

نامور ادیب اور محقق ڈاکٹر خلیق انجم نے شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی تصنیف ’مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل ‘کے دیباچے میں ان کی ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’شانتی رنجن بھٹاچاریہ اردو کے مشہور اور ممتاز ادیب ہیں تقریباً چالیس برسوں سے اردو زبان و ادب کی خدمت کررہے ہیں چونکہ بھٹاچاریہ صاحب کی مادری زبان بنگالی ہے اس لیے انھوں نے اردو میں ایسا کام خاصے پیمانے پر کیا ہے جس میں بنگالی اور اردو دونوں زبانوں کا علم آیا ہے۔ انھوں نے بنگال میں اردو ادب اوراردو زبان کے موضوعات پر بھی کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ بھٹاچاریہ صاحب نے کچھ بنگالی کتابوں کے اردو میں او ر کچھ اردو کتابوں کے بنگالی میں ترجمے کیے ہیں۔ بھٹاچاریہ صاحب کی تحریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ، ذہین، اور محنتی ادیب اور محقق ہیں جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ متعلقہ موضوع پر دستیاب تمام مواد سے استفادہ کریں۔ ‘‘

(متنی تنقید: خلیق انجم، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2006، ص 31)

شانتی رنجن کی کتاب ’مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل‘ کے مطالعے سے مغربی بنگال میں اردو زبان کے مسائل کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں مغربی بنگال کے مختلف اضلاع میں اردو بولنے والوں کے اعدادوشمار، اسکولوں کی مجموعی تعداد، اساتذہ، طلبہ و طالبات کے مسائل، اردو اساتذہ کے ٹریننگ سینٹر کا قیام اور یونیورسٹی کا جائزہ لیتے ہوئے مغربی بنگال میں اردو کے بے شمار مسائل کو پیش کیا ہے، جس کا سامنا آج بھی اہل اردو کررہے ہیں۔

اردو زبان کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں کا ذکر شانتی رنجن نے اپنی کتاب ’مغربی بنگال میں اردو زبان اور اس کے مسائل‘ میں مغربی بنگال کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موصوف نہایت ہی بے باک، غیرجانب دار اور اردو کے سچے بہی خواہ اور بے خوف سپاہی ہیں۔

 

Mohd Naushad Alam Nadwi

E-167, 4th Floor, Shaheen Bagh

Jamia Nagar, Okhla

New Delhi, 110025

Mob.: 8826096452, 9015763829

mohdnaushad14@gmail.com

 

صلاح الدین پرویز کی شاعری میں رادھا اور کرشن کا تصور، مضمون نگار: محمد شبلی آزاد

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024



صلاح الدین پرویزار دو شعروادب کی وہ شخصیت ہے جس کی شہرت و مقبولیت کی داستان اس پھلجڑی  کی سی ہے جو یکایک روشن ہوکراپنے اطراف کو روشنی سے بھر دیتی ہے اور کچھ ہی پل میں بجھ کر راکھ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس عروج و زوال کی داستان پر گفتگو ہمارا مقصود نہیں ہے، بلکہ میرا مقصدصلاح الدین پرویز کی نظموں میں رادھا اور کرشن کی داستان محبت کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینا ہے۔

رادھا اور کرشن کے کردار ہندوستان کی سرزمین کے وہ تاریخی کردار ہیں جنھوں نے عشق و محبت کی اعلی مثال قائم کی اور دنیا کو ایثار و قربانی کا درس دیا اور ہمیشہ کے لیے کتاب محبت کے اوراق میں محفوظ ہو گئے۔ ہندوستان کی تمام زبانوں کے ادب میں رادھا اور کرشن کی داستان عشق ملتی ہے جو کہ شری کرشن سے عقیدت کا واضح ثبوت ہے۔شری کرشن کی عقیدت مذہب، ذات پات اور جغرافیائی حدود سے پرے ہے۔ ہندو شعرا نے انھیں اپنی شاعری میں بھگوان کی طرح پیش کیا ہے اور مسلمان شعرا کے نزیک وہ محبت و ایثار اور قربانی کی لازوال مثال ہیں جبھی تو مغلوں کے دور میں ’سید ابراہیم‘ برنداون آئے تو رسکھان بن گئے اور کرشن بھکتی کو اپنے شب و روز کا مشغلہ بنا لیا وہ کہتے ہیں          ؎

مانس ہوں تو وہی رسکھان بسوں برج گوکل گاوں کے گوارا

جو پسو ہوں تو کہاں بس میروں چروں نت نند کی دھنوں مجارن

مولانا حسرت موہانی لکھتے ہیں          ؎

حسرت کی بھی قبول ہو متھرا میں حاضری

سنتے ہیں عاشقوں پہ تمھارا کرم ہے خاص

شکیل بدایونی ’مغل اعظم‘ میں کچھ یوں کہتے ہیں          ؎

موہے پن گھٹ پہ نند لال چھیڑ گیورے

ہندوستان سے باہر پاکستان میں بھی رادھا اور کرشن کی مثالی محبت کو فراموش نہیں کیا گیا بلکہ وہاں کے شعرا نے بھی اپنی غزلوں اور نظموں میںرادھا اورکرشن کی محبت کی داستانوں کو پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے پروین شاکر کا نام قابل ذکر ہے، انھوں نے رادھا اور کرشن کو اپنی غزلوں اور نظموں میں پیش کر کے ہندوستانی تہذیب کی امر پریم کتھا کو سرحدوں کی بندش سے آزاد کر دیا ہے، ملاحظہ ہو        ؎

قید میں گزرے گی جو عمر بڑے کام کی تھی

پر میں کیا کرتی کہ زنجیر تیرے نام کی تھی

کیوں ہوا آکے اڑا دیتی ہے آنچل میرا

یوں ستانے کی تو عادت میرے گھن شیام کی تھی

اردوشعرا کے کلام میںبلاامتیاز مذہب و ملت رادھا اور کرشن کی محبت اور ان سے عقیدت کے موضوع پرکثرت سے اشعار ملتے ہیںلیکن ’سفینہ چاہیے اس بحربے کراں کے لیے‘۔ سردست نہ اس کا موقع ہے اور نا ہی ضرورت۔ اس کا مقصد تو صلاح الدین پرویز کی شاعری میں رادھا اور کرشن کی محبت کو جس خوب صورتی و فنکارانہ دروبست کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اس کو اجاگر کرناہے۔ رادھا کرشن کی محبت اور قدیم زمانے سے چلی آرہی اس روایت کی خوشبو ہندوستان کی مٹی میں رچی بسی ہے شاید اسی لیے صلاح الدین پر و پز جیسا جد ید شاعر بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے رادھا اور کرشن کے رشتے کی پاکیزگی، خلوص اور اس کے حسن کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس کی روح میں اتر کر جذبۂ عشق کی سرشاری کو بہت قریب سے دیکھااورمحسوس کیاہے۔ صلاح الدین پرویز کا شعری مجموعہ ’ پرماتما کے نام آتما کے پتر‘ کرشن سے ان کی عقیدت کی واضح دلیل ہے۔ اس مجموعے میں شامل تمام نظمیں رادھا کرشن کی محبت اور غم فراق کے موضوع پر ہیں۔ یہ نظمیں مکالماتی ہیں جن کی نوعیت خطوط کی ہے۔ پرماتما یعنی پرم آتما جس کو ہندو مذہب میں خدا کی حیثیت حاصل ہے۔ اس نام میں ایک استعارہ یہ بھی ہے کہ پتر لکھنے والے کرشن آتمابھی ہیں اور پرم آتما بھی وہ خود آتما بن کر پرم آتما کو خط لکھ رہے ہیں جو خود ان کے اندر رادھا کی شکل میں موجود ہے۔ رادھا کرشن کے من میں اس طرح بس گئیں کہ آتما اور پرماتما کو الگ کرنا نا گزیر ہو گیا ہے۔ رادھا کرشن کے بچپن کی محبت ہے۔ برنداون میں بچپن گزارنے کے بعد کرشن متھرا چلے گئے اور اس طرح رادھا سے بچھڑ گئے۔ اس موضو ع کو شعرا نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔  اکثر شعرا نے رادھا کی تنہائی اور ان کے دل میں اٹھ رہے طوفان کو دکھا نے کی کوشش کی ہے۔ برنداون میں اکیلی، اداس،مجبور رادھا  بھکتی میں لین کرشن کو یاد کر رہی ہے۔شعرا نے اس کیفیت کو اجاگر کرنے کی طرف توجہ کی ہے لیکن صلاح الدین پرویز نے اس سے ہٹ کر ایک نئی روش اختیار کی ہے۔ وہ رادھا رانی کی تنہائی دکھانے کے بجائے متھرا میں اکیلے اور بے چین کرشن کی بے تابی و بے قراری کو پیش کرتے ہیں اور کرشن کے اندرچھپے ہوئے درداور فراق کی اذیت کو خطوط کی شکل میں رادھا تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے ہر ایک لفظ سے درد چھلکتاہے وہ شاید اس لیے کہ یہ کوئی عام الفاظ نہیں ہیں بلکہ کرشن کی مرلی کے وہ سر ہیں جو رادھا سے محبت کے قصے سناتے ہیں۔ صلاح الدین پر ویز نے ان سروں کو اپنے ہردے میںاتار کر الفاظ کی شکل دی ہے اور ان کے ذریعۂ عشق کی الگ زبان بنادی ہے وہ اس کتاب کے پہلے بھاگ کی بھومکا میں لکھتے ہیں:

’’میں اعتراف کرتا ہوں، میں کرشن،نہیں ہوں اور اس کا بھی اعتراف کرتا ہوں میری محبوبہ رادھا نہیں ہے لیکن میں اس بات کی قسم کھاتا ہوں،میںنے ایک شب خواب میں، کرشن کو دیکھا ہے اور یہ چٹھیاں جو انھوں نے کبھی 'رادھا کو لکھی تھیں، خود مجھے پڑھ کے سنائی ہیں ہاں یہ بات بھی سچ ہے انھوں نے اس شب خواب میں جو کچھ مجھے سنایا وہ شبد نہیں تھا، وہ تو مرلی کا سُر سنگیت تھا جسے میں نے شبد دینے کی کوشش کی ہے۔‘‘

(پرماتما کے نام آتما کے پتر،ص107)

صلاح الدین پرویز کی شاعری کے دو اہم ہیرو ہیں ایک محمدؐ اور دوسرے شری کرشن۔پرویز بحیثیت مسلمان محمدؐ کی حیات طیبہ اور اخلاق سے حد درجہ متاثر ہیںان کی زندگی انسان اور انسانیت کے لیے مشعل راہ تصور کرتے ہیں لیکن جب وہ ہندوستانی تہذیب اور یہاں کی جمالیات کی بات کرتے ہیں تو انھیں ہندو اساطیراور کرشن کے کردار میں ہزاروں سالہ ہندوستانی تہذیب کا عکس نظر آتا ہے جس کی بنیاد عشق و محبت پر ہے،کرشن اور رادھا کی پاکیزہ محبت پر۔صلاح الدین پرویز کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس پریم کتھا کو اپنی نظموں میں مصوری کی حدتک برتا ہے وہ الفاظ سے ایسی تصویربناتے ہیںکہ رادھا اور کرشن کی شخصیت ابھر آتی ہے لیکن یہ تصویر جسم سے پرے روح کی تصویر ہے۔ عشق اور پریم کی تصویر ہے۔ ہجر میں تنہائی کے کرب کی تصویر ہے اور یہ تمام تصویریں ان کی نظموں کے ہر ہر مصرعے میں بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

 صلاح الدین پرویز یوں تو جدیدیت کا شاعر ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی جدیدیت دوسرے شعرا سے مختلف ہے۔ وہ صرف فرد کے اندورن میں جھانک کر اپنا موضوع نہیں تلاش کرتاہے بلکہ ہندوستانی و اسلامی تہذیب و ثقافت اور قدیم شعری روایت کی تہہ میں اتر کر نباضی کرتا ہے۔ وہ دیومالائی اور اساطیری کرداروں کے من میں جھانک کر دیکھتا ہے اور ان کے احساسات و جذبات اور اندرونی کیفیات کو قدیم و جدید علامات و استعارات کے سہارے پیش کرتا ہے۔ ان کی نظموں میں رادھا اور کرشن کے ہجر سے اٹھنے والے کرب کو جس انداز میں بیان کیاگیاہے اس میں سطحیت اور ہلکا پن نہیں ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کرشن کی روح کو اپنے اندر اتار کر ان کے من کو چھو رہا ہے، ان کے من میں پیدا ہونے والے تلاطم کو خود میں محسوس کر رہا ہے۔ وہ رادھا کے ساتھ برنداون کی گلیوںمیں حسین یادوں کی ایک عمارت تعمیر کرتا ہے جس کے اندر تنہا ہی زندگی گزار دیتا ہے بس وہ ہے اور اس کی بنسی اور ارد گرد صرف رادھے رادھے یہی عقیدت اور بھکتی ان کی نظموں کا محور ہے۔

تعجب ہوتا ہے کہ صلاح الدین پرویز جیسا جدید شاعر جس نے پوری دنیا کا سفر کیا ہے۔ جس نے عمر کا ایک حصہ عرب میں گزاراہے اس کے دل میں ہندوستانی اساطیر سے اتنی انسیت کیسے پیدا ہوئی کہ اس نے اپنے ناولوںاور شاعری میںاساطیر ی عناصر کی بارش کردی وجہ چاہے جو بھی رہی ہو لیکن یہ واضح ہے کہ ان سیر و سیاحت نے ان کے نظریے کو وسعت بخشی ہے اور انھوں نے دنیا کی تمام تہذیبوں میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کو زیادہ بہتر پا یا۔ہندوستانی تہذیب میں ہر اس چیز کو پا لیا جس کے وہ متلاشی تھے یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تہذیب سے محبت اور انسیت بڑھتی رہی حتی کہ وہ ان کی روح میں پیوست ہو کر ان کی شاعری کا خوبصورت حصہ بن گئی۔ ان کی نظموں کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ گویا کرشن ان کی شخصیت کا ایک حصہ ہیں اور وہ  صرف اور صرف رادھا کی محبت کے متلاشی ہیں۔ ان کو ہر چیز میں کرشن کا عکس نظر آ تا ہے انھیں نیلے آسمان میں شری کرشن کا نیلا رنگ دکھائی دیتا ہے حتی کہ زمین کی سر سبز و شادابی او ر رادھا کے دھانی و ستر میں بھی کرشن کے نیلے رنگ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

’’رادھے،

کیا سوچ رہی ہو!

کہیں اس بادل کے بارے میں نہیں

 جس کا رنگ

میرے رنگ سے ملتا جلتا ہے!!۔۔

یاد ہے اک دن تم نے اُسی رنگ میں

 اپنی دھانی ساڑی بھی رنگ لی تھی

 اُسی رنگ کی ماتھے

اپنے بندیا بھی رکھ لی تھی...

 لیکن اس رنگ کا سندور

 ورنداون کے بازاروں سے غائب تھا

وہ سندور تومن کی ہاٹ میں پایا جاتا ہے

     صلاح الدین پر ویز غالباً اردوکاوہ جدید شاعر ہے جس نے بارہ ماسہ بھی لکھا ہے۔ بارہ ماسہ ہماری قدیم شاعری کی روایت کا ایک حصہ ہے۔ سنسکرت،برج اور ہندی کے علاوہ اردو میں افضل کی بکٹ کہانی سے لے کر اب تک کئی بارہ ماسے لکھے گئے ہیں جن میں عام طور پر ایک فراق زدہ عورت کے دلی احساسات و جذبات، شوہر یا محبوب کی یاد میں تڑپنے کی کیفیت کو خود اس کی زبانی بیان کیا جاتا ہے۔ صلاح الدین پرویز نے اس روایت میں بھی جدید پہلو ڈھونڈھ نکالا اور اردو شاعری میں بارہ ماسے کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ انھوں نے بارہ ماسے میں کرشن کی بے چینی اور ان کے دلی جذبات کو بارہ مہینوں کی رعایت سے بیان کیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ رادھا کی دلی کیفیت اور ان کے اکیلے پن کو بھی درشایا ہے لیکن رادھا کی یہ کیفیت خودرادھا کی زبانی بیان نہ کر کے کرشن کی یادوں کے جھروکوں سے ہم تک پہنچائی ہے۔

صلاح الدین پرویز نے رادھا اور کرشن کے پریم کی کہانی کو صرف موضوعاتی سطح پر ہی قبول نہیں کیا ہے بلکہ فنی اعتبار سے بھی انھوں نے اساطیری نظم کے تمام تقاضوں کو بحسن و خوبی پورا کیا ہے۔اساطیر کی مخصوص اصطلاحات، لفظیات اور علامات و استعارات کو ملحوظ رکھا ہے۔

انھوں نے بے شمار اصطلاحات اور مخصوص الفاظ جو رادھا اور کرشن کے کردار کو ہندوستان کی سرزمین اور یہاں کی ہزاروں سالہ تہذیب سے جوڑتے ہیںان کا بر محل استعما ل کیا ہے۔اس کے علاوہ صلاح الدین پرویز نے سنسکرت کے تت سم،ہندی اور مقامی الفاظ بھی کثرت سے استعمال کیے ہیں، مثلاً کنگڑیا، آلنگن، پدچاپیں، گھن گاجے، منڈوے، کپٹی، کنچن با نس وغیرہ انھوں نے میگھوالفظ کا استعمال کیا ہے جو میگھ سے بنا ہے۔اودھی اور بھوجپوری دونوں زبانوں میں اسم کو ندائیہ شکل دینے یا جمع بنانے کے لیے اکثر (وا  اور  یا  )کا لاحقہ لگاتے ہیں مثلا پانی سے پنیا، کپڑا سے کپڑوا  وغیرہ۔صلاح الدین پرویز نے یہ طریقہ کار بہت سی جگہوں پر استعمال کیا ہے۔

رادھا اور کرشن پر لکھی گئی ان کی نظمیں فنی اور موضوعاتی دونوں اعتبار سے کامیاب ہیں۔لفظوں کے انتخاب سے اپنی نظموں میں ہندوستانی فضا قائم کرنے میں وہ کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ 

Mohd Shibli Azad

Research Scholar, Dept of Urdu

Maulana Azad National Urdu Univeristy

Hyderabad- 500032 (Telangana)

Cell.: 9198859645

mohdshibliazad1995@gmail.com

12/9/24

افسانہ نگار صدیقہ بیگم کے ادبی کارنامے، مضمون نگار: ایم اے کنول جعفری

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024

صدیقہ بیگم کی پیدائش 1925میںلکھنؤ میں ایک خوشحال زمیندار گھرانے میں ہوئی، ویسے ان کا آبائی وطن اتر پردیش کے ضلع بجنور کا شہر سیوہارہ ہے۔ ان کے والد کا نام شفیع احمد وارثی ہے۔انھوں نے اپنی زندگی کے شروعاتی دس برس لکھنؤ کے دینی اور ادبی ماحول میں گزارے۔ ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے والدین کے ساتھ سیوہارہ آگئیں۔ گھر کا ماحول مکمل طور پرمشرقی اور پردے والا تھا۔اسی بنا پر ان کی تعلیم و تربیت روایتی انداز میں سخت پردے کے دینی ماحول میں ہوئی۔ انھیں بندشوں میںگھر کے اندر قرآن مقدس کی تکمیل کی اور پھر اُردو، عربی اور فارسی کی کئی کتابیں پڑھیں۔ ایک طرح سے گھر ہی اُن کا مدرسہ تھا۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں لڑکیوں کی رسائی مدارس تک نہیں تھی۔ مکاتب کے فرش پر بیٹھ کر لڑکے ہی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ کمسن بچیاں تو ہم عمر لڑکوں کے ساتھ مساجد سے منسلک مدارس میں قاعدہ اور چند سپارے پڑھ کر پردے میں بیٹھ جاتی تھیں۔ قرآن مجید اتفاق سے ہی کوئی لڑکی پورا پڑھ پاتی تھی۔ شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کے ناول اور مصور غم علامہ راشد الخیری کی کچھ کتابیں صدیقہ بیگم کا سرمایہ تھیں۔ عہدشیرخواری میں والدہ کی وفات ہوگئی۔دیکھ بھال کی ذمے داری دادی پر آ گئی۔پھر اپنی نانی کے پاس نگینہ چلی گئیں۔تین بھائی بہنوں میں اِن سے بڑی ایک بہن اور اُن سے برے ایک بھائی تھے۔ والد کے دوسری شادی کرنے کے بعد گھر میں سوتیلی ماں نے قدم رکھا۔ سوتیلی ماں دیگر خواتین سے قدرے مختلف اور سنجیدہ خاتون تھیں۔ انھوں نے’ سوتیلی ماں‘  کے مشہور نفرتی کردار کو کوڑے دان میں پھینک کرصدیقہ بیگم کی پرورش انتہائی لاڈپیار سے کی۔ کبھی کسی قسم کی تکلیف یا سوتیلے پن کا احساس نہیں ہونے دیا۔ اس دوران بڑے بھائی اخلاق احمدوارثی نے  صدیقہ بیگم کے شوق و ذوق کو دیکھتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے میں ان کی ہر ممکن طریقے سے مدد کی۔ سائنس کے طالب علم ہونے کے ناطے وہ دقیانوسی خیالات کو ناپسند کرنے کے علاوہ پرانی روش پر چلنے کے خواہاں نہ تھے۔وہ سائنس اور نئی قدروں کے رجحانات،روشن خیالی اور نئی تراکیب سے مرتب کی گئی ڈگر پر دوڑ لگانے کے قائل تھے۔انھیں بھائی کے تعاون سے صدیقہ بیگم نے جامعہ اردو کے سبھی امتحانات میں کامیابی حاصل کی۔انھوں نے جو کچھ پڑھا، بھائی کی مدد سے پڑھا،جوکچھ لکھا بھائی کے تعاون سے لکھا اور جو کچھ ذہنی تربیت حاصل ہوئی وہ بھائی کے سبب ہی ممکن ہو سکی۔ان کی آزاد خیالی اور ادبی زندگی انھیں بھائی کی مرہون منت تھی۔ اردو کے رسالے اور ادبی کتابیں گھر والوں سے چھپاکر پڑھتی تھیں۔پڑھنے کے ساتھ لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔اس کے بعد کہانیاں لکھ کر رسالوں میں بھیجنے لگیں۔ رسالوں میں کہانیاں چھپیں،تو گھر والوں کے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا۔ریلوے کی ملازمت میں بھائی مدھیہ پردیش کے شہر گوندیاگئے،تو بہن بھی ساتھ چلی گئیں۔ وہاں گھر جیسی پابندیاں اور دیگر مسائل  نہیں تھے۔ اس لیے ترقی پسند تحریک سے جڑ گئیں۔ جبل پور میں ہونے والی اُردو ترقی پسند ادیبوں کی پہلی کانفرنس میں شرکت کی اور اپنا پہلا افسانہ پڑھا۔ کسی کم عمر لڑکی کوپہلی مرتبہ اسٹیج پر کھڑے ہوکر افسانہ پڑھتے دیکھ حاضرین حیرت میں پڑ گئے۔ملک تقسیم ہوا،تواخلاق احمد وارثی پاکستان کے شہر لاہور چلے گئے۔صدیقہ بیگم بھائی کے لاہور چلے جانے کے بعد سیوہارہ آگئیں۔ آزادی کے قریب مہینہ بھر بعد صدیقہ بیگم کی شادی ستمبر 1947 میں پھوپی زاد بھائی اطہر پرویز کے ساتھ ہوگئی۔شادی کے بعد وہ شوہر کے ساتھ الہ آباد چلی گئیں۔ الہ آباد کی ادبی مٹی بہت زرخیز تھی۔شوہر کے قدم قدم پر حوصلہ افزائی کرنے کی بنا پرانھیں اپنے ادبی ذوق کوپروان چڑھانے کا موقع ملا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کچھ دنوں بعد ہی وہاں سے شائع ہونے والے اُردوکے مشہور جریدے ’فسانہ‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہو گئیں۔ 1950 میں دہلی آگئیں، جہاں ان کی رسائی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں ہو گئی۔وہاں کے اَدبی ماحول میں رہ کر اچھے افسانے تحریر کیے۔ ان کے زیادہ تر افسانے نہ صرف آل انڈیا ریڈیو دہلی سے نشر ہوئے، بلکہ ’عالم گیر‘، ’ساقی‘، ’ادیب‘، ’شاہ کار‘، ’کلیم‘، اَدبی دنیا‘، ’ اَدب لطیف‘، ’نقوش‘ اور ’شاہرہ‘ وغیرہ معیاری رسالوں میں شائع ہوئے۔ انھوں نے’آواز نسواں‘ اور ’نیا راگ‘ رسالے ترتیب دیے،جو زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکے۔اس کے بعد’ نورس‘ نام کارسالہ نکالا،لیکن بدقسمتی سے اس میگزین کے  ابھی دو ہی شمارے نکل کر منظر عام پر آئے تھے کہ یہ میگزین 1947کے ہنگاموں کی نذر ہو گئی۔ ان کے شوہر اطہر پرویز علی گڑھ میںشعبۂ اُردو میں ریڈر جیسے باوقار عہدے پر فائز ہوئے،تو صدیقہ بیگم بھی 1956 میں ان کے ساتھ علی گڑھ چلی گئیں۔ علی گڑھ میں اُن کی ملاقات ڈاکٹر رشید جہاں سے ہوئی۔ رشید جہاں کی قربت اور رہنمائی میں اُن کے شعوروفن میں مزید پختگی آئی۔ ادب کی دنیا میں بھائی اخلاق وارثی نے ان کی رہنمائی کی، حوصلہ بڑھایا اور آنے والی تمام رُکاوٹوں کو دُور کیا۔ اطہر پرویز نے بھی اپنی باصلاحیت بیوی کی ادبی لیاقتوں کو پہچانا۔ان کی ہر طرح سے مدد کے ساتھ حوصلہ افزائی کی اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں تعاون کیا،جس سے وہ اپنی تحریروں کو جلا دینے کے فن میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں۔ 10مارچ 1984کو حرکت قلب بند ہونے سے اطہر پرویزکا انتقال ہو گیا۔شوہر کا انتقال ہونے کے بعد صدیقہ بیگم بری طرح ٹوٹ گئیں۔ ازدواجی زندگی کے سفر میں تنہا رہ جانے والی اس مایہ ناز افسانہ نگار پر شوہر کا ساتھ چھوٹنے کا زبردست صدمہ پہنچا۔صدیقہ بیگم اَدبی زندگی کے علاوہ خانہ داری کے کام میں بھی ماہر تھیں۔ عمدہ قسم کے کھانے تیار کرنے کے علاوہ وہ سلائی، کڑھائی اور بنائی کے کام میں بھی مہارت رکھتی تھیں۔ اعزا و اقربا کا بہت خیال رکھتی تھیں۔شوہر کے ملنے والوں کا دائرہ وسیع تھا۔ گھر آنے والے ہر ایک مردوزن کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتیں اور ان کے ساتھ وقت گزارتیں۔لکھنے میں دلچسپی کم ہوگئی۔ دیگر مصروفیات بڑھیں، تو تحریری کام متاثر ہوا اور آخر میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ بالکل بندہو گیا۔ صدیقہ بیگم کے ذہنی اور جسمانی طور پر لاچار ہونے سے زندگی کے آخری ایام میں ان کی یادداشت جاتی رہی۔ تنہائی کے 28برس جیسے تیسے گزرے اور بالآخر29 ستمبر 2012 میں علی گڑھ میں صدیقہ بیگم کا انتقال ہو گیا۔ ان کے اَدبی سرمایے میںپانچ افسانوی مجموعوں، ’ہچکیاں‘، ’دودھ اور خون‘، ’پلکوں میں آنسو‘، ’ٹھیکرے کی مانگ‘ اور’رقص بسمل‘ کے علاوہ مختلف جرائد میں شائع ہونے والی تحریریں اور مضامین شامل ہیں۔

صدیقہ بیگم کا پہلا افسانوی مجموعہ ’ہچکیاں‘، 1944 میں شائع ہوا تھا۔ اس میں واپسی، چاول کے دانے، آندھی، گلابی کی نذر، لال کرتا، کلرک، سندرناری، زنجیر، تصویر اور زندگی پرمشتمل دس افسانے ہیں۔ ان شروعاتی افسانوں میں غریب اور درمیانی طبقے کے لوگوں کی زندگی کو متاثر کرنے والی معاشرتی پابندیوں، اقتصادی پریشانیوں، جذباتی پیچیدگیوں اور تعلیمی دشواریوں کا عکس ملتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے جو کچھ اپنے اردگرد دیکھا اور محسوس کیا اسی کو اپنے قلم کی نوک سے قرطاس ابیض پر اتارکر پیش کر دیا۔ انھوں نے نہ صرف جاگیرداری رسم و رواج کے شکنجوں میںجکڑی عوامی زندگی کو دیکھا،بلکہ اس کے کرب اور گھٹن بھرے ماحول کے تجربوں میں کسی نہ کسی حد تک خود کو بھی مبتلا پایا۔تب لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں پر زیادہ پابندیاں عائد تھیں۔لڑکیاں جذباتی کشمکش کا شکار تھیں۔ایک عورت ہونے کے ناطے وہ ان کی پابندیوں، مجبوریوں، محرومیوں، خواہشوں، اُمیدوں اورارمانوں سے اچھی طرح واقف تھیں۔ قید زنداں کے کشمکش بھرے ماحول میں نسوانی درد کو زبان پر لانا آسان نہیں تھا،لیکن ایک خاتون کی حیثیت سے انھوں نے اس کام کو کر دکھانے کی جرأت کی اور اپنے آپ کو اُن خواتین کی صف میںلا کھڑا کیا،جس میں ابھی چند ہی چہروں کو نمایاں اہمیت حاصل ہو سکی تھی۔

’رسم و رواج کے شکنجوں کو انھوں نے ذاتی طور پر محسوس کیا۔انھیں اس گھٹن کا تجربہ ہے،جس میں ان کے طبقے کے نوجوان مبتلا ہیں اور خاص  طور پر انھیں لڑکیوں کی جذباتی کش مکش کا  شدید احساس ہے جو جاگیردارانہ نظام اخلاقیات کی اور زیادہ شکار ہیں۔ ان پر جو گزرتی ہے، اسے وہ اچھی طرح جانتی ہیں۔ان کی محرومیوں، مجبوریوں، تمناؤں اور امیدوں سے وہ بخوبی آشنا ہیں۔ لیکن ہمارے سماج میں اس بارے میں زبان کھولنا اور خاص طور پرایک خاتون کے لیے بڑی ہمت کی بات ہے۔‘

(دودھ اور خون:  پیش لفظ،ڈاکٹر سلامت اﷲ،10جنوری1952،ص 13)

صدیقہ بیگم کے افسانوں میں قحط سالی، ظلم و ستم اور جبروتشدد کی شکار انسانیت کے چیخنے، کراہنے اور سسکنے کی درد سے بھری آوازیں سنائی دیتی ہے۔ غریب اور متوسط طبقے میں خصوصی طور پر خواتین کی خانگی زندگی کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہوئے جس طرح ان کے رنج و غم اور درد و الم کو بیان کیا گیا ہے،وہ عام لوگوں کی ذاتی زندگی کو قریب سے دیکھے اورجانے بغیر ممکن نہیںتھی۔ آزادی کے شروعاتی دور میں تعلیم کا فقدان تھا۔ چند بڑے اور تعلیم یافتہ خاندانوں کو چھوڑ کر زیادہ تر افراد تعلیم سے کوسوں دور تھے۔ بیٹے اور بیٹی میں فرق کی بنا پر کسی حد تک لڑکے تو اسکول چلے جاتے تھے،لیکن لڑکیوںکو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا تھا۔ اس امتیاز کی بنا پر لڑکیاں چاہتے ہوئے بھی علم کی دولت سے فیضیاب نہیں ہو سکتی تھیں۔ ان کے تحریر کردہ کئی افسانوں میں متوسط طبقے کے لوگوں میں موجود تفاوت کی کھٹاس، زندگی کا کرب، چہاردیواری کی گھٹن اوربے راہ روی کی شاندار عکاسی کی گئی ہے۔ صدیقہ بیگم کے افسانوں میں مختلف رنگ اور جدت پسندی کے مضامین کو اہمیت دی گئی ہے۔انھوں نے اپنے دور کے اہم مسائل کو اُٹھانے کے لیے اپنے قلم کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ انھوں نے جہاں جنگ کے حالات، انسانیت کے قتل، جبروتشدد، نسلی منافرت اور خون خرابے کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا، وہیں امن و آشتی، بھائی چارے اور انسانیت کو بھی اپنی کہانیوں میںاہم مقام دیاہے۔ صدیقہ بیگم نے ملک کی تقسیم کے بعدجہاں تہاں بھڑکی نفرت کی آگ، سرحد پرپھوٹے نسلی فسادات، فرقہ وارانہ کشیدگی، ذہنی کشمکش، دم توڑتے مسائل، مذہبی منافرت، بے لگام مہنگائی، چارسو پھیلی بے روزگاری،طبقہ داری اور جہد مسلسل کی گہماگہمی کو بھی شدت سے محسوس کیا۔ انھوں نے نچلے اور متوسط طبقے کے لوگوںکی آواز کو بلند کیا، تواُونچے طبقے کے لوگوں کی وضع قطع، ظاہرداری، مکرو فریب ا ور زندگی کے کھوکھلے پن کو بھی نشانہ بنایا۔ انھوں نے معاشرے کو متاثر کرنے والے اس طبقے میں موجود کوڑھ اور ذہن میں رچی بسی گندگی کی تصویر کشی کرتے ہوئے بیوی اور طوائف کے فرق کو واضح کیا ہے۔صدیقہ بیگم نے عام آدمی کے نقطۂ نظر سے اپنے قرب و جوار کے حالات کا مشاہدہ کیا۔ اسی بنا پر ان کے افسانوں میں لوگوں کی اُمیدوں، اُمنگوں، ولولوں،جلووں ا ور ارادوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ان کی کہانیوں میں انداز بیان شگفتہ،زبان سلیس اور بے ساختگی نمایاں ہے۔انھوں نے عام فہم، سیدھے سادے،گھریلو اور روزمرہ استعمال ہونے والے الفاظ کا تعین کیا ہے،تاکہ قاری کو لفظوں کے معنی ڈھونڈنے کے لیے لغت اُٹھانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ انھوں نے حسب ضرورت عام بول چال میں استعمال ہونے والے علاقائی محاوروں کا بڑی بے باکی، بے تکلفی اورانتہائی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔ کردار نگاری میں اختصار سے کام لیا گیا ہے،لیکن اتنی تفصیل ضرور ملتی ہے کہ کہانی میں موجود اہم کرداروں کے نقش و نگاربڑی حد تک واضح ہوجائیں اور کہانی کو اپنے اختتام تک پہنچنے کے لیے کسی قسم کی رُکاوٹ درپیش نہ آئے۔صدیقہ بیگم اپنی کہانیوں اور تحریروں میں قدرتی نظاروں اور گردوپیش کے مناظر کا انتہائی خوبصورت نقشہ کھینچنے میں بھی خاصی مہارت رکھتی ہیں۔

’وہ جاڑوں کی ایک سرد رات تھی۔جب تاروں کے جھرمٹ میں گول سا چاند چمک رہا تھا اور آس پاس کے تمام تارے مدھم پڑ چکے تھے۔آسمان پر رونق تھی اور زمین پر خوفناک سناٹا۔ جنوری کی سرد ہوا سرسراتی ہوئی اس کے پاس سے نکلی چلی جا رہی تھی اور اس نے یہ سوچا کہ ہوا اس سے کتنی مانوس ہو چکی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کو آئے ہوئے بھی بہت دن ہو گئے ہیں،مگر آج بھی اس کو اپنی بستی یاد آرہی ہے،جواس کے تصور میں بھی ویران ہو چکی تھی۔لہلہاتی ہوئی کھیتیاں مرجھا چکی تھیں، درختوں کے سرسبزپتے سرد ہو چکے تھے اور ناریوں کے گیت فضا میں جذب ہو گئے تھے،مگر وہ سرزمین اب بھی اس کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔۔۔۔۔‘  

(دودھ اور خون: مصنفہ صدیقہ بیگم،  افسانہ  ’دودھ اور خون‘، ص213)

صدیقہ بیگم نے عام طور پر زندگی کی ابتری، سماج کی ستم ظریفی، حکومت کی بے راہ روی،زندگی کی لاچارگی، گم ہوتی رنگینی، چہروں پراُڑتی اُداسی، کرب میں ڈوبی مفلسی،مزدور کی بے بسی اورروزمرہ کی زندگی کواپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔افسانوں کے کردار چاہے معمولی لوگ ہیں یا پھر غیر معمولی افراد ہیں،لیکن اپنے آپ میں ایک طبقے یا جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کردار کی زندگی کے حرکات و سکنات یا محسوسات فرد واحد کے نہیں ہیں، بلکہ ایک جماعت کی زندگی کی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں۔

’۔۔۔دوسرے ابھی عام ذہنی سطح اتنی بلند نہیں ہو ئی کہ بین الاقوامی واقعات و کردار سے پورا لطف و اثر حاصل کر سکے۔اگر کوئی افسانہ نویس اس حقیقت سے چشم پوشی کرکے قلم اُٹھاتا ہے،تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے افسانہ پڑھنے والوں سے کماحقہٗ واقف نہیں۔اس سلسلے میں یہ بھی عرض کردینا ہے کہ صدیقہ بیگم کے افسانوں کے کردار بھی عموماً معمولی لوگ  ہیںیا کم از کم غیر معمولی نہیں مگر ہر کردار اپنی جگہ پر ایک طبقہ یا جماعت ہے۔اس کی زندگی،اس کے حرکات و سکنات اس کے محسوسات ایک فرد کی نہیں بلکہ پوری ایک جماعت کی زندگی پر حاوی ہیں۔‘ 

(ہچکیاں : مصنفہ صدیقہ بیگم، پیش لفظ : ڈاکٹرسید اعجازحسین، 24اپریل 1950، ص15)

دراصل، زندگی ایک دوڑ ہے۔ دنیا میں بسنے والے تمام افراد دوڑ رہے ہیں۔اس دوڑ میں مرد، خواتین، بچے، جوان اوربوڑھے سبھی شامل ہیں۔ کہانی کے کرداروں کا تو بغیر دوڑے کام چل ہی نہیں سکتا۔ پیدل چلنے والا شخص کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد پیچھے چھوٹنے والے درختوں کو مڑکر دیکھتا ہے۔کہانی کے کردار بھی چلتے اور دوڑتے ہیں۔ صدیقہ بیگم کے افسانوں کے کردار بھی دوڑ میں شامل ہیں۔’ واپسی‘ افسانے میںاحمد کی موٹرکار میں بیٹھ کر اسٹیشن کی طرف جارہا رشید کبھی کار اور کبھی اپنے کپڑوں کی طرف دیکھ کر یہ جائزہ لے رہا ہے کہ آیا وہ کار میں بیٹھنے کا اہل ہے یا نہیں۔یہ امتیاز ہمارے معاشرے میں موجودنچلے طبقے اور متوسط طبقے کے درمیان کے فرق کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ فرق دوڑ میں آگے نکل جانے اور پیچھے رہ جانے والوں میں موجود برتر اور کمتر ذہنیت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

’۔۔۔۔یہ موٹر اس کی نہیں تو کیا ہوا۔ دنیا میں کتنے ہیں، جن کے پاس موٹریں نہیں ہیں۔فی الواقعی موٹر والے تو انگلی پر گنے جا سکتے ہیں۔موٹر والے کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں۔ اس نے دوبارہ احمد کی طرف دیکھا۔موٹر تیزی سے چلی جا رہی تھی۔  تیس میل فی گھنٹے کی رفتار کافی تیز تو ہوتی ہے۔موٹر آگے جا رہی تھی دوکانوں کی عمارتیں پیچھے چھٹتی جا رہی تھیں۔ پیدل چلنے والے راہگیر پیچھے رہے جا رہے تھے۔ زندگی ایک دوڑ ہے۔ رشید نے دل ہی دل میں کہا۔جس میں موٹر والے منزل پر پہنچتے ہیںاور پیدل چلنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔‘

(افسانوی مجموعہ ہچکیاں:مصنفہ صدیقہ بیگم، پہلا افسانہ ’واپسی‘، ص 44)

دنیا کا کوئی بھی حصہ اُونچ اور نیچ، امیر اور غریب، خوش حال اور بد حال، تونگر اور فقیر، کسان اور مزدور اور حاکم و محکوم کے امتیاز سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ صدیقہ بیگم کی زیادہ تر کہانیوں میں بھی یہ فرق واضح طور پر نظر آتا ہے۔ پیٹ بھرا ہو،تو سب کچھ ٹھیک لگتا ہے۔نیند بھی خوب آتی ہے۔خالی شکم میں اپنا آپ بھی بُرا اور زمین پر بوجھ لگنے لگتا ہے۔ دماغ میںطرح طرح کے سوالات اُبھرتے ہیں،تو دل میں عجیب عجیب خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ شکم سیر ہونے کی تراکیب سوچی جاتی ہیں۔  بھوک کے آگے اچھے برے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ ذہن میںچوری کر پیٹ میں آگ بھرنے کے خاکے بننے لگتے ہیں۔’چاول کے دانے‘ میں جس خاندان کی کہانی پیش کی گئی ہے،وہ غربت کا شکار ہے۔ان کی قسمت میں ایک دو وقت نہیں کئی کئی روز کے فاقے لکھے ہیں۔پریم چند کی کہانیوں کی طرح گاؤں میں ایک ساہوکار اور زمیندار بھی ہے۔مالدار لوگوں کی کوٹھیاں گیہوں اور چاول سے بھری ہیں،جب کہ غریبی کی مار جھیل رہے کمزور و نحیف افراد ایک ایک مٹھی چاول اور آٹے کو محتاج ہیں۔ کئی کئی روز کے فاقے برداشت کرنابہت مشکل  ہے؟ ہر بات، شے اور کیفیت کی ایک حد ہوتی ہے۔ ایسا بھی وقت آتا ہے،جب گھر کا سامان اور برتن بھانڈے فروخت کرنے کی نوبت آ جاتی۔اور جب سروسامان بھی ختم ہو جائے،تو پھر نگاہ جان سے پیاری شریک حیات اورجگر گوشوں پر جا ٹھہرتی ہے۔ پیٹ کی آگ انسان کی عزت کو تارتار اور آبرو کو جلاکر خاک کردیتی ہے۔گھر کے ہر کونے میںبھوک کے لپکتے شعلے دیکھ کر نذیر چاول لینے گیا تھا،لیکن لوٹ کر نہیں آیا۔بیٹے کی واپسی کے انتظار میں باپ کی آنکھیں پتھرانے لگیں۔خود چھ روز سے بھوکا ہے، لیکن پوتی شفو کی بھوک نہیں دیکھی جاتی۔اسے ہر سمت سے نذیرآتا دکھائی دیتا ہے،لیکن تھوڑی دیر میں غائب ہو جاتا ہے۔ایسا روز ہی ہوتا ہے۔آخر ایسا کب تک چلے گا؟

’ابا! تم نے شفو کو بیچ دیا...کیوں بیچا؟...خود نہیں کھلا سکتے تھے...تمھارے پاس کچھ نہیں تھاتو اس کی آبرو بیچ دی۔تمھیں شرم نہیں آتی،اپنی پوتی کی عزت بیچ کر تم زندہ رہنا چاہتے ہو۔ مرجانے دیا ہوتا۔...تمھاری اتنی عمر ہونے کو آئی۔عزت و آبرو کا خیال نہیں... اور یہ تمھاری گودمیں کیا ہے؟... وہ چونک پڑا... چاول اس کی گود سے چھوٹ کر زمین پر بکھر گئے۔ اس کے پاؤں لڑکھڑانے لگے،  دماغ چکر کھانے لگا۔شف...او...اُس کی زبان سے نکلا،  وہ گر پڑا... شف... ہی ہی ہی ... چاند  بڑی آب و تاب سے چمک رہا تھا،لیکن تاریکی سے زیادہ  ڈراؤنی تھی وہ چاندنی... سایہ نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔اب وہاں کوئی بھی نہ تھا۔چاول کے دانے چاندنی میں چمک رہے تھے۔‘  

(افسانوی مجموعہ ہچکیاں:مصنفہ صدیقہ بیگم،دوسرا افسانہ’چاول کے دانے‘،ص69)

صدیقہ بیگم کے افسانوں کے زیادہ تر کردار ان کے آس پاس اور سماج سے اخذ کیے گئے ہیں۔ان کامذہبی، تاریخی اورسیاسی مطالعہ بہت وسیع ہے۔وہ عام زندگی کے نشیب و فرازسے بخوبی واقف ہیں، توبچوں کی نفسیات سے بھی خاصی واقفیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے پرانی اور فرسودہ روایات کومکمل طور پر درکنار کر تے ہوئے حقیقت پر مبنی روزمرہ کے واقعات کی ترجمانی کی ہے۔انھوں نے زیادہ تر موضوعات کا انتخاب سماج سے کیا ہے۔اپنی پوری قوت اور صلاحیتوں کے ساتھ وقت کی آواز کو الفاظ کا جامہ پہنانے والی صدیقہ بیگم کبھی امیروں کے محلات میں دکھائی دیتی ہیں،تو کبھی رؤسا کی کوٹھیوں میں گھومتی نظر آتی ہیں۔ وہ کبھی غریبوں کی جھونپڑیوں میں پہنچ کر بھوک سے ملاقات کرتی ہیں،تو کبھی مزدوروں کی بستیوں میں جاکر ان کے چہروں پر لکھی عبارت کو پڑھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ صدیقہ بیگم  ایک ایسی شخصیت ہیں،جن کے اَدبی کارناموں پر ابھی بہت کچھ لکھے جانے کی ضرورت ہے۔

M. A. 'Kanwal' Jafri

127/2, Jama Masjid,

NEENDRU, Tehsil Dhampur

District: Bijnor - 246761 (U.P.)

Cell.: 09917767622,  09675767622

Email: jafrikanwal785@gmail.com  

 

شکستہ قدروں کا نوحہ خواں عنبر بہرائچی، مضمون نگار: عظیم اقبال

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024

عنبر بہرائچی ہندوستان کے گراں قدر ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ہیں۔ موصوف کا نام نامی محمد ادریس ہے۔ عنبر تخلص ہے۔ وطن موضع سکندر پور، ضلع بہرائچ ہونے کے سبب تخلص میں اضافی لفظ بہرائچی استعمال کرتے ہیں۔ جغرافیہ میں ماسٹر کی ڈگری رکھتے ہیں اور اترپردیش کی ریاستی سول سروس کے سینئر رکن رہ چکے ہیں۔

ان کی تاریخ پیدائش 5 جولائی 1949 ہے۔ اردو کے علاوہ انھیں ہندی، اودھی، برج، بھوجپوری، انگریزی، سنسکرت اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔

مناظر فطرت:کوہساروں، آبشاروں، دریاؤں، نہروں، جھیلوں، پرندوں، جنگلوں اور جنگلی جانوروں کے مشاہدے کا شغف رکھتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ قرآن پاک کی قرأت سننے کے علاوہ بھجن اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا بھی انھیں شوق ہے۔ بقول ان کے:

’’میں نے شاعری کی ابتدا اس وقت کی جب میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا۔‘‘

عنبر بہرائچی کی تصانیف کی فہرست  یوں ہے:

*        اقبال: ایک ادھیین (ہندی)، 1985

*        مہا بھنشکرمن (اردو)، ایک رزمیہ، جو گوتم بدھ کی حیات اور تعلیمات پر مبنی ہے، 1987

*        دوب (اردو): غزلوں اور نظموں کا انتخاب، 1990

*        سوکھی ٹہنی پر ہریل (اردو)، نظموں کا انتخاب، 1995

*        لم  یاتِ نظیرک فی نظر (اردو)، ادبی رزمیہ، حضرت محمدؐ کی حیات اور تعلیمات پر مبنی۔

*        سنسکرت شعریات (اردو)، 1997

*        خالی سیپیوں کا اضطراب (اردو)، غزلوں کا انتخاب، 2000

*        گم نام جزیروں کی تمکنت

ظاہر ہے ان کی ادبی کاوشیں گوناگوں جہات رکھتی ہیں۔ ان کی متفرق اور متنوع تحریروں سے ان کے عمیق مطالعے اور گہرے مشاہدے کی شہادت ملتی ہے۔

موصوف نے مندرجہ ذیل انعامات پائے ہیں:

*        وویکا نند ایوارڈ برائے ہندی نثر

*        سائنس سنگم اعزاز (کانپور)

*        کلاشری اعزاز (لکھنؤ)

*        نوائے میر اعزاز (لکھنؤ)

*        لائف ٹائم ایوارڈ، اردو اکادمی، یوپی (لکھنؤ)

*        راغب ایوارڈ (رائے بریلی)

*        ثاقب غزل ایوارڈ (لکھنؤ)

*        ساہتیہ سرسوت ایوارڈ (لکھنؤ) ساہتیہ تخلیق

جس طرح اپنے اظہار کے لیے انھوں نے اردو، اور ہندی، دونوں زبانوں کا استعمال کیا، اسی طرح انھیں انعامات اور اعزازات دینے والو ںمیں ہندی اور اردو دونوں کے ادارے شامل ہیں۔

عنبر بہرائچی کی شاعری تقلید یا کسی ردعمل کا  نتیجہ ہے، نہ کسی مکتب فکر سے وابستہ ہے۔ یہ اپنی مثال آپ ہے۔ اپنی شاعری کے متعلق موصوف کہتے ہیں:

’’میری  شاعری میں شمالی ہند کی زبانوں، اودھی برج اور بھوجپوری کے نرم لہجے والے الفاظ کا بھرپور استعمال ہوا ہے۔‘‘ اس ضمن میں وہ مزید کہتے ہیں ’’ایرانی، آریائی اور سیمیٹک ادبی اور ثقافتی عناصر نے اسے بیش بہا بنایا ہے۔‘‘

جہاں تک ان کی شاعری کے پس منظر کا تعلق ہے وہ دیہی ہندوستان ہے۔ دیہاتی ماحول سے ان کی بے پایاں چاہت ان کی غزلوں کے مجموعے ’خالی سیپیوں کا اضطراب‘ کے انتساب سے عیاں ہوجاتا ہے۔ لکھتے ہیں  ’’اپنے دور افتادہ گاؤں کی خوشبوؤں کے نام‘‘

عنبر بہرائچی نے ادبی رزمیہ کے وسیلے سے اردو شاعری کو ایک نئے طرز سے متعارف کیا ہے۔ یہ وہی طرز ہے، جو زمانۂ قدیم میں سنسکرت شاعری میں ’مہا کاویہ‘ کے بطور رائج تھا۔ اس ادبی رزمیے میں قصیدے اور غزل کی شاندار روایات کی پیروی بے حد باضابطہ انداز میں کی گئی ہے۔

سنسکرت اور فارسی زبانوں سے ان کی رغبت نیز اودھی، برج، بھوجپوری اور راجستھانی بولیوں سے ان کی قربت نے ان کے شعری رنگ و آہنگ کو ندرت بخشی ہے۔ عنبر روایتی شاعر ہیں، نہ ان کی شاعری روایتی ہے۔ وہ بہرطور جدت پسند ہیں اور ان کی شاعری جدت پسندی سے عبارت ہے۔ ان کی تشبیہات میں جدت پسندی ہے تو ان کے استعارات میں ندرت ہے۔ ان کا ہر شعر ایک داستان ہے، فسانہ ہے، حکایت ہے۔ ان کا ہر شعر ایک نئی تصویر ابھارتا ہے۔ چند نمونے پیش ہیں:

گھر میں داخل ہوئے تھے شکستہ بدن

توتلی بولیاں تازگی بھر گئیں

گالوں پر جگنو کی قطاریں دوڑ رہی ہیں

جوڑے میں اک سوکھا گجرا ٹنکا ہوا ہے

ہم جیسے نادار بھلا کیوں کر ہوتے

اس کی ہنسی میں لاکھوں موتی مونگے تھے

باطنی خوشبوؤں سے نہیں تھی غرض

وہ نگاہیں، کلاہ و قبا پر گئیں

عنبر بہرائچی روایت پسند شاعر نہ سہی، روایت پسند انسان ضرو رہیں۔ دیرینہ قدروں کی شکست و ریخت کے ذکر کے ساتھ ساتھ پارینہ تہذیب و ثقافت کی پسپائی و پامالی کا بیان بھی کرتے ہیں۔ مثالیں دیکھیے:

وہ ہوائیں چلیں، ہر نفس ہر گھڑی، جگمگاتی ذہانت کی بازی گری

وہ زمانے گئے جب ہر اک شخص تھا پیار کی بارشوں میں نہایا ہوا

اب کہاں؟ میرے بزرگوں کے پسینے کی مہک

نہر کے ساتھ میرا کھیت ہے جانے والا

برجیاں، چھجے، دریچے، طاقچے ٹوٹے مگر

گھر سے پرکھوں کے بدن کی خوشبوئیں روٹھی نہیں

عنبر بہرائچی موجودہ سیاست کی پراگندگی کی مخالفت کرتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضرورت کا احساس بھی دلاتے ہیں         ؎

کھیل یہ دراصل تھا بونی سیاست کا مگر

دھوپ اور لوبان کا جھگڑا ہمارے سر گیا

خطیبوں نے یہاں، کل صرف گل افشانیاں کی تھیں

گلی کے موڑ پر خوں ریز سناٹا بپا کیوں ہے؟

عنبر بہرائچی گرد و پیش پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ طبقاتی کشمکش کے اسباب سے باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے نتائج سے بھی بے خبر نہیں ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں وہ کسی ناصحانہ یا خطیبانہ اندازِ بیان سے گریز کرتے ہیں۔ اشعار دیکھیے      ؎

جیسے کہ انا صرف امیروں کی غذا ہے

اب طنزیہ ہم پر ہے کہ مزدور ہوتے کیوں؟

ہاں! یہی تعمیر کرتے ہیں محل سارے، مگر

ان ہنرمندوں کے سر پر پھوس کی چھت بھی نہیں

عنبر بہرائچی انسانی وجود کی عظمت کی شہادت دینے کے ساتھ ساتھ فرش تا عرش انسان کی حیثیت کے اعلیٰ اور برتر ہونے کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں        ؎

ہم وارث آدم ہیں یہ شان ہماری ہے

ہم عرش کی بانہوں کو مہکا کے چلے آئے

عنبر بہرائچی نے زندگی کے تضادات کو دیکھا، پرکھا اور سمجھا ہے۔ گاہے وہ ششدر ہوئے ہیں، گاہے وہ مبہوت ہوئے ہیں۔ ان تضادات کی پیشکش وہ فنکاری سے کرتے تو ہیں، لیکن وہ طنز کا جو تیر چلاتے ہیں، وہ ہمیں مجروح کیے بنا نہیں رہتا۔ شعر دیکھیے       ؎

ہنستے ہوئے چہرے میں کوئی شام چھِپی تھی

خوش لہجہ تخاطب کی کھنک نیم چڑھی تھی

عنبر نہ صرف یہ کہ مخصوص انداز میں سوچتے ہیں بلکہ وہ اپنی سوچ کا اظہار بھی بے باکی سے کرتے ہیں۔ وہ مصلحت کوشی سے باز آتے ہیں اور مفاہمت پسندی سے احتراز کرتے ہیں        ؎

ناکام ہوا شعر، تو نقاد بنے ہو

فنکار کے شانوں پہ رعونت سے کھڑے ہو

عنبر بہرائچی کی شاعری دلپذیر ہے۔ ان کے یہاں بے پناہ رجائیت ہے۔ کہتے ہیں          ؎

شب کے جوڑے سے ابھرتے ہیں سحر کے گجرے

پھول برسیں گے اگر رنج و محن ہیں ام شب

عنبر بہرائچی کے کلام میں عمدہ شاعری کے نمونے ڈھونڈنے کے لیے تگ و دو کی ضرورت نہیں۔ ان کی شاعری آراستگی اور شائستگی سے عبارت ہے۔

اپنے شعروں میں چنندہ الفاظ کی برجستہ نشستوں سے عنبر بہرائچی ایک پوری کہانی کہہ دینے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ اشعار دیکھیے       ؎

ہر سمت پڑے ہیں کئی خوش رنگ کھلونے

بچہ کسی دامن کی ہوا ڈھونڈ رہا ہے

سبز ٹہنی پر مگن تھی فاختہ گاتی ہوئی

ایک شِکرہ پاس ہی بیٹھا ہوا تھا، دیکھیے

سبز محل کے روزن میں اس پار ہے کوئی

ٹوٹی ہوئی کشتی ہے  دریا چڑھا ہوا ہے

دلپذیر منظرکشی کے ساتھ ساتھ حالات کی ستم ظریفی کی جھلکیاں بھی ہیں۔ اس کڑی کاایک اور شعر ملاحظہ کیجیے         ؎

وادیِ گل رنگ میں ہنگامہ بپا ہے

تپتے ہوئے صحرا میں کوئی پھول کھلا ہے

یہ شعر بھی دیکھ لیجیے       ؎

اس راہ سے گزرا تھا کوئی پیکرِ خوبی

ہر گام لطافت کا چمن زار کھلا ہے

ذیل کا شعر بھی اسی صف کا ہے۔ دیکھیے      ؎

میں نے تو، اس کو پل بھر ہی دیکھا تھا

ایک دھنک، اس کے عارض میں ڈوب گئی

چاہت اور محبت کی انوکھی ادا دیکھنا چاہیں تو اس شعر پر نظر ڈال لیجیے        ؎

پتیوں کے درمیاں سے چاندنی چھنتی رہی

صبح تک بیتاب آنکھوںمیں چمک ابھری نہیں

زندگی کے پیچ و خم دیکھنا ہو تو یہ اشعار دیکھیے     ؎

ہم تو ٹھہرے فٹ پاتھ کے رہنے والے

شہزادے کا چہرہ بھی کیوں بجھا ہوا ہے

ہم کس بستی میں آئے ہیں ہر شخص یہاں تو

اپنے در پر ہاتھ پیارے کھڑا ہوا ہے

حسین تشبیہیں اور خوبصورت استعارے عنبر بہرائچی کی غزلوں کی نمایاں خوبیاں ہیں۔ شعر ملاحظے کیجیے         ؎

پھول سیمل کے ہر اک سمت اڑاتے ہیں شرر

ہم بھی ہر سانس میں پھاگن کی ادا لائے ہیں

اس شعر پر بھی نظر ڈال لیجیے          ؎

خواب میں جب بھی دمکتے ہیں خد و خال وہی

ہم تخیل کی ہتھیلی پہ حنا لائے ہیں

عنبر بہرائچی مابعد جدید شاعر ہیں۔ کبھی وہ حالات کی ستم ظریفی کھل کر بیان کرتے ہیں، تو کبھی ابہام سے گریز نہیں کرپاتے۔ مثالیں دیکھیے       ؎

ہیں فرض شناسوں کے مقدر میں اندھیرے

ہاتھوں میں اداکاروں کے انعام رہے گا

اس بار بھی سوکھے ہوئے ہیں کھیت برہنہ

اس بار بھی برسات پہ الزام رہے گا

تالاب کے بازو میں املتاس کھڑے ہیں

جس نے انھیں پالا ہے وہ گمنام رہے گا

شفاف فضا، طرز تخاطب میںہے لیکن

عنبر جی ہر اک لفظ میں ابہام رہے گا

مرے حجرے کو بھی تشہیر ملی اس کے سبب

اور آندھی نے بھی اس بار بہت نام کیا

یہ شعر بھی دیکھیے       ؎

آج پھر دھوپ کی شدت نے بڑا کام کیا

ہم نے اس دشت کو لمحوں میں کنول فام کیا

عنبر بہرائچی آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی کہانی بیان کرنے کے  ساتھ ساتھ گزرے ہوئے دنوں کی کتاب پلٹ کر رکھ دینے میں طاق ہیں۔ شعر دیکھیے      ؎

جس نے طوفانوں کے ہاتھ مروڑے تھے

وہ کشتی ننھی لہروں میں ڈوب گئی

ظاہر ہے خستہ حالی میں بھی پست ہمتی ان کا شیوہ نہیں۔ بے پناہ امیداور حددرجہ رجائیت ان کی شاعری کی شناخت ہے!

عنبر بہرائچی کی غزلیہ شاعری تک بندی سے عبارت نہیں۔ لفظوں کی شعبدہ بازی بھی انھیں پسند نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جس طرح زندگی کے لیے ان کے نظریات ہیں، شاعری کے لیے بھی ان کے تصورات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کی شناخت مشکل نہیں۔ وہ انوکھے یا البیلے شاعر تو نہیں، لیکن اپنے جاندار اور دمدار کلام کے باعث وہ متاثر کرتے ہیں۔

غزل سے قطع نظر عنبر بہرائچی نے نظم کے میدان میں بھی نمایاں کام کیا ہے۔

عنبربہرائچی کا شعری مجموعہ ’سوکھی ٹہنی پر ہریل‘ نظموں پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے پر موصوف کو، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ تفویض ہوا تھا۔ بقول کوثر مظہری:

’’...اس مجموعے سے دیہی زندگی اور ہندوستانیت سے ان کی وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں:

’’...نظموں میں انھیں پورا موقع ملا ہے کہ وہ اپنے خاص ہندوستانی رنگ کے اسلوب کو اضح طور پر ابھار سکیں۔‘‘

عنبر بہرائچی کی نظموں میں جس دیہی پس منظر کی عکاسی ہوئی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اس حوالے سے عنبر بہرائچی کی نظموں سے چند پرکشش فقرے دیکھیے      ؎

گلابی چونچ میں کیڑے لیے گوریا

وہ جل کمبھی کی نیلی اوڑھنی اوڑھے ہوئے

چپ چاپ لیٹی تھی

ہمارے گاؤں کی وہ جھیل

ریت کے چمکیلے دریا میں

وہ گھونگھے چنتا رہتا ہے

نیم کے سائے میں اساڑھ کی بھری دوپہر

تھرک رہی ہے

رات بھر مہوے کی خوشبو دور تک پھیلی رہی

ٹوکری، اوکھلی، کھیت کی کیاریاں،

تم تو کہتے تھے اجلے کبوتر اڑیں گے میرے گاؤں میں

گھڑے کولہے پہ رکھ کر اک نویلی

کسی پنگھٹ کی جانب چل پڑی

عنبر بہرائچی کی نظموں میں دلفریب فقروں کی بہتات ہے۔ ایسے فقروں سے مزین عنبر بہرائچی کی نظمیں ہمارے دیہی خطوں کی محض تصویرکشی نہیں کرتیں، بلکہ ایک مکمل داستان سنا دیتی ہیں۔ غالباً اس حوالے سے کوثرمظہری اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:

’’...ان کی بیشتر نظموں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم گاؤں اور قصبے کی سیر کرتے ہوئے گزر رہے ہیں۔‘‘

عنبر بہرائچی کی شعری تخلیقات پرابوالکلام قاسمی ایک دوسرے نظریے سے تجزیہ کرتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

’’...انھوں نے اردو شاعری میں ہند ایرانی روایت اور لفظیات کے بجائے خالصتاً ’’ہندوستان کے تہذیبی اور ثقافتی عناصر کو ترجیح دی ہے اوران ہی عناصر کی بنیاد پر اپنے اسلوب کا یقین کیا ہے۔‘‘

عنبر بہرائچی 7؍ مئی 2021 کو عالمی وبا کووڈ 19 کی زد میں آگئے، اور راہی ملک عدم ہوئے۔

بہ حیثیت انسان، عنبر بہرائچی کے بے مثل ہونے میں شبہ ہوسکتا ہے، لیکن بطور شاعر وہ یقینا بے مثال ہیں۔ ویسے لوگ ان کے عمدہ انسان ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ عمدہ فنکار، عمدہ انسان بھی ہو تو حیرت کیا؟ ان کی اعلیٰ ظرفی کے چرچے عام تھے۔ حصول کا غرور ہو یا عہدے کا سرور، وہ دونوں سے الگ تھے۔

چند حوالے دیکھیے :

’’...وہ عمدہ شاعر بھی تھے۔‘‘ (شہزاد انجم)

’’...وہ بہت محبت سے ملتے تھے۔‘‘ (احمد محفوظ)

عنبر بہرائچی کے اپنے اعترفات بھی سن لیجیے         ؎

وہ   اپنی ڈگر سے ہٹا ہی نہیں

کوئی رنگ اس پر چڑھا ہی نہیں

مجھے سانپ دن رات ڈستے رہے

مگر زہر عنبر چڑھا ہی نہیں

عنبر بہرائچی اپنے بیشتر ہم عصروں اور ہم قلموں سے یکسر جدا ہیں۔ اسی سبب ہمعصر شعرا کے ہجوم میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہیں۔ ان کی شاعری جدیدیت اور تجریدیت سے مغلوب ہونے کے بجائے اسے سجانے، سنوارنے کی کوشش ہے۔ ان کی شاعری نئی جہتوں کی دریافت ہے۔ یہ مسرت آمیز ہے اور جمالیاتی حسوں کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ہے۔ یہ بے معنی اچھل کود سے عبارت نہیں۔ بلکہ بامعنی تجربہ پسندی ہے۔ اس میں محرومی اور افسردگی کے بجائے لطف و کرم ہے۔ بے شک عنبر بہرائچی نئی اردو شاعری میں میل کا پتھر ہیں۔

 

Azim Iqbal

Adabistan, Ganj No-1

Bettiah- 845438

Mob.: 9006502649

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...