24/9/24

رسول حمزہ توف: پہاڑی فضاؤں جیسی تازگی بھرا شاعر، مضمون نگار: پرگتی ٹپنس، مترجم: استوتی اگروال

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024


کوہِ قاف کی قدرتی وادیوںمیں بے شمار ممالک آباد ہیں،داغستان بھی انہی میں سے ایک ہے۔اِسی ملک کی ایک پہاڑی بستی تساد میں شاعر و مترجم حمزات تسداسا کے گھر رسول پیدا ہوا۔ان کے آبا بنیادی طور پر کاشت کار تھے،لیکن اپنے علاقے میں قصیدہ گوئی کو عام کرنے میں بھی ان کا بڑا تعاون رہا۔رسول کے والد نظمیں اور افسانے لکھتے تھے اور الیگزینڈر پشکن کی نظموں اور دیگر کاوشوں کا روسی سے ’اَواری‘ زبان میں ترجمہ کرتے تھے۔ رسول اپنے دو بڑے بھائیوں کے ساتھ شعر و ادب کے ماحول میں پروان چڑھے اور چھوٹی عمر سے ہی والد کی سرپرستی میں نظمیں کہنے لگے۔

رسول کی ابتدائی تعلیم اپنے ہی علاقے کے ایک اسکول میں ہوئی۔ 1939 میں انھوںنے اَوار ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ایک سال تک بطور استاد اپنے ہی اسکول میں خدمات انجام دینے کے بعد اَوار تھیٹر سے وابستہ ہوئے۔انھوںنے وہاں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا،prompt boxمیں بیٹھ کر ڈرامے کو دیکھتے اور حسبِ ضرورت اداکاروں کو ڈائیلاگ وغیرہ بھی بتاتے۔ اِکّا دکّاچھوٹے کردار انھوں نے خود بھی ادا کیے۔ ان کا تھیٹر اپنے آرٹسٹوں کے ساتھ ایک سے دوسری جگہ جایا کرتا تھا۔ اس اثنا میںرسول کو کئی پہاڑی دیہاتوں میں جانے اور وہاں کے لوگوں کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔اپنے اِن اسفار کے دوران وہ گائوں کے اسکولوں میں اپنی تحریریں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔

دوسری جنگِ عظیم کے وقت حمزہ توف کی تخلیقات ’بالشویک گور‘(پہاڑوں کا بالشویک )نامی اخبار میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ان دنوں وہ سپاہیوں کی بہادری کے قصے، خاکے، مضامین وغیرہ لکھتے اور بہادرانِ داغستان کے جنگ میں کیے گئے کارناموں کی ستائش کرتے۔سنہ 1942  سے انھوںنے ریڈیو میں بطور پروگرام ایڈیٹر کام کیا۔ شروعاتی دور میں وہ تسداسا نام سے ہی نظمیں لکھتے تھے لیکن بعد میں انھوںنے والد کے نام ’حمزات‘ سے ہی اپنا تخلص’حمزہ توف‘ اختیار کر لیا۔

حمزہ توف جب 20 سال کے تھے تب ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ’دِھدھکتا پیار اور بھڑکتی نفرت‘ان کی مادری زبان اَواری میں شائع ہوا تھا۔اِس مجموعے میں جنگ سے متعلق نظمیں شامل ہیں۔اَوار کاکیشیا کی ایک قوم کی زبان ہے،وہ قوم بھی اِسی نام سے جانی جاتی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد رسول نے 1945 میں گورکی لٹریری انسٹی ٹیوٹ( ماسکو) میں داخلہ لے لیا۔ حمزہ توف نے بعد میں بتایا تھا کہ انھیں اس وقت پڑھائی سے زیادہ دلچسپی ماسکو میں تھی۔وہ موجودہ سرگرمیوں میں شامل ہونا چاہتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ ادب تو انھیں اپنے والد سے وراثت میں مل ہی چکا ہے،ان کی ایک کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔لیکن انسٹی ٹیوٹ میں پڑھنا شروع کیا تو ان کا یہ رویہ بالکل بدل گیا۔انھوںنے روسی ادب، تاریخ اور تہذیب و ثقافت کو سنجیدگی سے لیا اور ان میں سیکھنے کی تڑپ پیدا ہو گئی۔وہ اکثر تھیٹر اور دیگر ثقافتی تقریبات میں شرکت کرنے لگے اور ثقافت کو قریب سے جاننے لگے۔اپنے ان دنوں کے متعلق انھوںنے لکھا تھا      ؎

مانا وظیفہ نہیں تھا بہت بڑا

لیکن ہر پہلی نمائش پر

ہم ہوتے تھے موجود

آگے کی قطار نہ سہی

آخری جھروکے سے ہی

تھا طالبِ علم ہمارا وجود

اِس ادارے میں نامور ادیب پڑھاتے تھے۔ طلبا فنِ عروض،لٹریچر وتاریخ کا مطالعہ کرتے، آپس میں تبادلۂ خیال کرتے اورتخلیقات کی اشاعت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ دورانِ تعلیم اِسی ادارے میں نائوم گریبنیو(Naum Grebnev) اور یاقب کزلووَسکی (Yakov Kazlovsky) حمزہ توف کے جگری دوست بن گئے۔رسول حمزہ توف کی بیشتر نظموں کا اَوار سے روسی زبان میں ترجمہ کرنے کا سہرا اِنھیں دونوں دوستوں کے سر جاتا ہے۔اس کے بعد ہی ان کی نظموں کا دنیا کی تمام زبانوں میں ترجمہ ہوا۔اِن نظموں کو روسی زبان کے پیکر میں ڈھالنے سے پیشتر ترجمہ نگار ہر نظم کا لفظی ترجمہ اور ضرورت پڑنے پر تشریح بھی رسول سے کرواتے۔ان کی نظموں  کا پہلا روسی ترجمہ’میری دھرتی‘1948 میں شائع ہوا اور فوری طور پر یہ نظمیںلوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے لگیں۔ ایک سال بعد روسی زبان میں ان کی نظموں کا مجموعہ’پربت گیت‘ شائع ہوا۔ان کی نظموں کو ادبی حلقوں میں خاصا پسند کیا گیا اور اخبارات و رسائل ان کی تخلیقات کو اوّلیت سے چھاپنے لگے۔ان کی نظموں کا ہندی اردو ترجمہ فیض احمد فیض،سریش سَلِل جیسے شعرا کے علاوہ دیگر شاعروں اور ترجمہ نگاروں نے کیا ہے۔

ماسکو میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حمزہ توف داغستان لوٹ آئے۔پڑھائی کے دوران بھی وہ والدین سے ملنے اپنے گائوںجایا کرتے تھے اور اِسی درمیان انھیں پتیمات یوسوپوا سے محبت ہوگئی اور 1951 میں دونوں سلکِ ازدواج میں بندھ گئے۔اسی سال وہ داغستان رائٹرس یونین کے صدر منتخب کیے گئے۔اس عہدے پر رہتے ہوئے وہ سماجی کام کرتے،ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت میں مدد کرتے،نوجوان مصنفین کی رہنمائی کرتے اور مختلف پبلشرز اور ایڈیٹنگ ہائوسز سے رابطہ قائم کرتے۔

حمزہ توف کی زیادہ تر نظمیں پہلے داغستان میں اَوار زبان میں اور بعد میں ماسکومیں روسی زبان میں شائع ہوتیں۔ان کی نظموں میں شیرینیت، بے تکلفی،وطنیت اور اَوار شاعروں کی روایت کے لیے غیر متزلزل وابستگی صاف نظر آتی ہے۔رسول حمزہ توف نے لکھا ہے:

’’بچپن میں،میںنے اپنے چھوٹے سے گائوں میں زندگی بسر کی،جب میں جوان ہوا تو مجھے داغستان کی دیگر اقوام اور ان کی طرزِ زندگی کے بارے میں معلوم ہوا۔ جب میں بالغ ہوا تو پورا ملک میرے سامنے کھلا ہوا تھا۔ قسمت مجھے ملک کے کونے کونے میں لے گئی،ہر جگہ میں نے خود کو اس پہاڑ،اس علاقے، اور اس گائوں کا نمائندہ محسوس کیا جہاں میں نے گھوڑے پر زین ڈالنا سیکھا تھا۔میں ہر جگہ خود کو داغستان کا بااختیار سفیر سمجھتا ہوں۔‘‘

سال 1958میں ان کی جانی مانی نظم ’گَریانَکا‘ (پہاڑی لڑکی)شائع ہوئی۔اپنی اِس تخلیق کے ذریعے شاعر نے روایتی پہاڑی رسم و رواج اور عورتوں کے تئیں مردوں کے روّیوں سے متعلق اہم مسائل کو اجاگر کیا ہے۔نظم کا مرکزی کردار ایک چھوٹے سے گائوں کی داغستانی لڑکی عصیات ہے۔عصیات کی رضامندی کے بغیر اس کے والد ایک ایسے نوجوان سے اس کی شادی کر نے کا فیصلہ کرتے ہیں جس سے وہ محبت نہیں کرتی۔لڑکی اس وقت  ہمتِ کمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے منگیتر کو شادی سے انکار کر دیتی ہے۔اس کے والد ناراض ہو جاتے ہیں اور نافرمانی پر اسے گھر سے نکال دیتے ہیں۔عصیات جانبِ شہر روانہ ہو جاتی ہے،ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیتی ہے،جہاں اسے ایک نوجوان سے محبت ہو جاتی ہے۔لیکن پہلے والا منگیتر عصیات سے انتقام لینے کے لیے پر عزم ہے اور وہ اس پر حملہ کر دیتا ہے،جس سے وہ شدید زخمی ہو جاتی ہے۔ڈاکٹر عصیات کو بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور مجرم کو سزا مل جاتی ہے۔

اِس نظم کا روسی ترجمہ Yakov Kazlovskyنے کیا ہے۔اِس نظم کو بیسیوں بار شائع کیا گیا اور کئی غیر ملکی زبانوں میںاِس کا ترجمہ بھی ہوا۔اس نظم کے پلاٹ پر مبنی اِسی عنوان سے حمزہ توف نے ڈرامہ بھی لکھا،جو ملک کے کئی حصوں میں اسٹیج کیا گیا۔سنہ 1975 میں اس نظم پر مشتمل ایک فیچر فلم بھی بنی تھی۔رسول حمزہ توف نے ڈائریکٹر اِرینا پاپلاوسکایا کے ساتھ مل کر فلم کی اسکرپٹ پر کام کیاتھا۔فلم’گریانَکا ‘ کا اختتام نظم کے اختتام سے الگ ہے،جس میں دیکھنے والوں کے لیے سب کچھ کھلا کھلا سا ہے۔داغستان کے دلکش مقامات کی جھلک بھی اس فلم میں دیکھی جا سکتی ہے۔فلم میں نظم کی پیشکش اداکار اورفلم ڈائریکٹر سَرگوئی بندرچوک نے کی ہے۔یہ تمام باتیں اِس بات کا ثبوت ہیں کہ حمزہ توف کی کاوشیں لوگوں کو کس قدر متاثر کرتی تھیں اور کس حد تک مقبول تھیں۔

رسول حمزہ توف سوویت یونین کے سیاسی حلقوں سے بھی فعالیت کے ساتھ وابستہ رہے اور مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔بطور پارلیمنٹیرین انھوںنے بلغاریہ، جرمنی، اٹلی، ترکی، ایران،جاپان،بھارت اور دیگر ممالک کا دورہ کیا۔

1960 کی دہائی سے رسول حمزہ توف مختصر طنزیہ نظمیں بھی کہنے لگے تھے،جنھیں صحافتی اور ادبی،دونوں ہی حلقوں کی جانب سے خوب پذیرائی ملی۔ان کی تخلیقات کا روسی ترجمہ ہوتا رہا۔رسول حمزہ توف نے الیگزینڈر پشکن، میخائل لیرمانتوف،نکالائی نیکرسیف اور ولادیمیر مایاکو وَسکی کی نظموں اور  تصانیف کا ترجمہ روسی سے اَوار زبان میں کیا۔

سنہ 1967 میں ان کی روح پرور کتاب’میرا داغستان‘ شائع ہوئی۔اِس کتاب کو منظرِ عام پر آتے ہی بڑی شہرت اور پسندیدگی حاصل ہوئی۔ ’میرا داغستان‘ میں حمزہ توف نے اپنی مٹی اور اس کے لوگوں کی توصیف کی ہے۔اِس کتاب کے ذریعے زندگی، ادب، ثقافت، شاعری اور تخلیقیت سے متعلق ان کے افکار و عقائد سے واقفیت حاصل کی جا سکتی ہے۔انھوںنے اِس کتاب میں یہ بھی بتایا ہے کہ اسے لکھنے کا خیال انھیں کیسے آیا۔ایک اشاعتی ادارے کے مالک نے حمزہ توف کو داغستان کے بارے میں تفصیل سے لکھنے کو کہاتاکہ داغستانیوں کی کامیابیوں، روز مرہ کی زندگی اور چیلنجزکے بارے میں باہر کے لوگ بھی جان سکیں۔اس کار کے لیے پچیس دن کی مدت اور دس ٹائپ شدہ صفحات مقرر کیے گئے تھے۔اِس تجویز کی پیشکش پر حمزہ توف تھوڑا پریشان ہو گئے کہ اِتنے کم وقت میں اور صرف دس صفحات میں کوئی اپنے مادرِ وطن کے بارے میں کیسے لکھ سکتا ہے!بالآخر انھوں نے کئی برسوں تک اس شاہکار پر بڑے پیمانے پر کام کیا۔ابتدا میں صرف پہلا حصہ تحریر کیا جو 1967 میں شائع ہوا؛ بعد از چند سال دوسرا حصہ بھی منظرِ عام پر آیا۔اِس کہانی کا ترجمہ شاعر ولادیمیر سلواخین نے کیا ہے۔حمزہ توف نے پہلی بار نثر میں طبع آزمائی کی تھی۔اس کہانی میں انھوںنے اپنی نظمیں بھی شامل کی ہیں۔

’میرا داغستان‘ کو ہندوستان میں غیر متوقع مقبولیت حاصل ہوئی۔

یہ پوچھنے پر کہ آپ کب لکھتے ہیں یا کب کام کرتے ہیں، ان کا جواب ہوتا تھا’’میں کب کام کرتا ہوں؟صبح سویرے یا دیر رات تک؟میں دن میں کتنے گھنٹے کام کرتا ہوں؟آٹھ،چھ،بارہ یا اس سے بھی زیادہ؟اگر میں اِتنا کام کرتا ہوں تو اپنے حق میں آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟دن میں محض آٹھ گھنٹے کام کرنے کے مدعے کو لے کر مورچہ کیوں نہیں کھولتا؟بات دراصل یہ ہے کہ میں ہر وقت کام کرتا ہوں— وقتِ طعام، تھیٹرمیں،دورانِ میٹنگ، دورانِ شکار، وقتِ چائے،بر جسدِ خاکیِ کساں،در حضر،در شادی۔ یہاں تک کہ خواب میں بھی میرا کام جاری رہتا ہے۔شاید مجھے کافی پہلے ہڑتال کر دینی چاہیے تھی!‘‘

حمزہ توف کی نظموں کا جادو داغستان میں سر چڑھ کر بولتا تھا،ان کی نظموں کو گیتوں کا پیکر عطا کیا جاتا تھا اور سب ایک سر میں گیتوں کی نغمہ سنجی کیا کرتے تھے۔گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں ترجمہ ہونے کے کچھ عرصے بعد پورا سوویت یونین ان کی نظموں کا دیوانہ ہو گیا تھا۔ ان نظموں پر مبنی گیتوں کو اس دور کے تمام مشہور اور معزز گلوکار بڑی شان سے گاتے تھے۔

سوویت موسیقار Yann Fraenkelنے ان کی نظم’سارَس‘ کے لیے سنگیت لکھا تھا،جسے اس وقت کے مقبول ترین گلوکار و اداکار مارک بیرنس نے آواز دی تھی۔ اِس نغمے کو ملک بھر میں اِس قدر پسند کیا گیا کہ یہ زبان زد عام ہو گیا۔یہ مسلسل ریڈیو اور ٹی وی سے نشر کیا جاتا رہتاتھا۔شاعر نے شہید فوجیوں کو سارس کی مثال دے کر سدا کے لیے اَمر کر دیا ہے۔اہلِ وطن اِس گیت کو شہید فوجیوں کے لیے خراجِ عقیدت مانتے تھے اور اب بھی مانتے ہیں۔ملک کے مختلف مقامات پر اِس گیت کے لیے کئی یادگاریں تعمیرکی گئی ہیں۔رسول حمزہ توف کو اِس گیت کے لیے دیس بدیس کے کونے کونے سے مبارکباد اور تشکر آمیز پیغامات موصول ہوتے رہتے تھے۔یہ گیت دوسری جنگِ عظیم میں اپنی جانوں کی قربانی دینے والے فوجیوں کی یاد بن گیاہے        ؎

مجھے اکثر لگتا ہے

خوں آلود میدانوں سے

نہ لوٹے ہمارے سپاہی

زمین میںکہیں دفن

نہیں ہوئے ہیں

بلکہ بن گئے ہیں

وہ سفید سارس

جو اس وقت سے اب تک

اڑتے ہیں نیلے آکاش میں

اور ہمیں پکارتے رہتے ہیں

تبھی تو کتنی ہی بار

گھیر لیتا ہے ہمیں رنج و الم

دیکھتے ہیں سر اٹھا کر

جب ہم لامحدود آکاش

اِس نظم کا ترجمہ بھی نائوم گریبنیو نے کیا ہے۔حمزہ توف کو ’سارس‘ لکھنے کا خیال جاپان کے شہر ہیروشیما میں آیا تھا۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہیروشیما پر امریکہ کے گرائے ہوئے ایٹم بم کی وجہ سے جاپانی لڑکی ’سداکو‘ کو لیوکیمیا ہو ا اور اِس کے بعد اس کی موت ہو گئی۔اس بچی کی یاد میں ہی حمزہ توف کو نظم لکھنے کا خیال آیا،اور اپنے وہ سبھی ہم وطن بھی یاد آئے جو جنگ سے کبھی گھر واپس نہ آ سکے،اور ان کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ تھی۔

حمزہ توف کے مجموعے باقاعدگی سے شائع ہوتے رہتے تھے۔ان کی نظموں کا غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ان کی تخلیقات اخبارات اور رسائل میں بھی مسلسل شائع ہوتی رہیں۔ان کی کاوشوں کی افادیت ان کی زندگی میں ہمیشہ رہی اور آج بھی برقرار ہے۔

داغستان کا یہ فرزند اپنے آخری ایام تک وہاں کے رائٹرس اسوسیشن کے عہدۂ صدارت پر فائز رہا۔پہاڑوں کی تازہ اور خوشگوار بادِ صبا خود میں سموئے یہ ہر دلعزیز شاعر اکّیاسی سال کی عمر میں اِس فانی دنیا سے کوچ کر گیا۔ وہ مخچکلا(دارالحکومت داغستان) میں اپنی شریکِ حیات کی بغل والی قبر کے اندر گہری نیند میں سویا ہوا ہے لیکن اس کے گیت اور نظمیں ہمیں ہمیشہ بیدار و باخبر رہنے کے لیے متوجہ کرتے رہتے ہیں۔چند نظمیں پیش ہیں:

لفظ

ٹوہ میں نہیں رہتا میں کسی لفظ کی

کہ وہ آئے اور لکھ—لکھ جائے

مرضی جب ہوگی تب آئے گا —

کوئی بھی روک نہیں پائے گا—

ادبدا کر آنسو جیسے آنکھ سے چھلک آئے

یک بہ یک آ اترے گا ورقاں پر

گویا اگلے زمانے کا کوئی دوست

بِنا اطلاع کے آ کھڑا ہو در پر

خواہش

اگر کسی دھات میں کبھی بدلا جائوں میں

سکّے نہ ڈھالنا مجھ سے ٹکسال میں

بٹوئے یا کہ تھیلی میں نہ قید کیا جائوں میں

دور رکھنا خسیسوں سے ہر حال میں

 

قسمت میں ہو ہی کسی دھات میں بدل جانا

ڈھالنا خنجر،مجھے بھٹّی میں تپا کر

میان میں رَما کر دھیان،بھی ہے مجھے دِکھلانا

آری کے سینے میں کیسے دھنستی ہوں جاکر

لیکھا— جوکھا

لمبی عمر تم نے گزاری

اور اب بھی ہو

مطمئن اپنے دائرے میں۔

بنا نہیں پائے ایسا ایک دوست بھی

چھٹپٹائو جس کے لیے اکیلے میں!

 

اب جب آئے

بڑھاپے کے دن

لوگوں نے مَن ہی مَن افسوس جتایا:

’’جیا تو سو سال

مگر ایک بھی دن

زندگی کو سپھل نہیں کر پایا‘‘

والد سے مخاطب

سنائوں گا نہیں میں اپنے نئے اشعار تمھیں

نہ ہی پوچھوں گا: پہلے کبھی سنا ہے انھیں!    

سیکھا ہے تمھیں سے میں نے کہ ایک شاعر

کس طرح پیش آئے—گھر یا باہر،

 

کیوں بھلا سنائے پھر اِسے— اسے، یہاں وہاں

شاعر اپنا خود کا نیا کلام!

صفت تو تب ہے کہ قلمبند ہوتے ہی

گنگنانے لگ جائے اسے خاص و عام!

 

Stuti Agarwal

Agarwal Jewellers

Sironj-464228 (M.P.)

Mob.:9575089694

Email:Stuti9575@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...