30/10/24

اردو شاعری میں رامائن اور گیتا کے اساطیر، مضمون نگار: سرفراز جاوید

 اردو دنیا، اکتوبر2024

ہندوستان کے بیشتر زبان و ادب پرسنسکرت کا اثر تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس سے انکار وانحراف ممکن نہیں۔ اردو، ہندی زبان نے لسانیاتی میلان اور ادبی ضرورتوں کے باعث سنسکرت بھاشا سے بے حد اثرات قبول کیے ہیں۔ اردو ہندی، لسانیات کی رو سے انتہائی یکسانیت کی حامل ہیں ، کیونکہ جب ہم اردو ہندی زبان کے مشکل الفاظ کے معنی ومفہوم کی وضاحت سہل زبان میں کرتے ہیں تو ان کے امتیازات مفقود ہوجاتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے اردو نے عربی، فارسی اور ہندی نے سنسکرت زبان کی لفظیات اور رسم الخط سے براہ راست استفادہ کیا ہے۔ مگر دونوں زبانوں نے فعلی مادوں، فعلی ترکیبوں، فعلیہ لاحقوں، حروف جار اور شخصی و غیرشخصی ضمائر وغیرہ کو بعینہٖ طور پر ہنوز رائج رکھاہے۔ ان دونوں زبان میں امتیازی فرق رسم الخط، لفظیات اور معمولی طور پر ابجدی صوتیات کا ہے۔

انیسویں صدی کے ابتدائی دور میں اردو کو ہندی اور ہندوی کے نام سے موسوم کیاجاتا تھا۔کیونکہ اس سے کئی صدی قبل کبیرداس، ملک محمد جائسی اور تلسی داس وغیرہ جس زبان میں شاعری کرتے تھے، وہ بھاشا اور بھاکا کہلاتی تھی۔ تاریخِ لسانیات کے سیاق میں اردو ہندی کھڑی بولی کا روپ ہیں۔ ماہر لسانیات کی تحقیق کی رو سے یہ بات ثابت ہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیاجاسکتا۔یہ ضرور ہے کہ اردو پر بیرونی زبانوں کے اثرات زیادہ ہیں مگر ہندی نے خالص ہندوستانی اور عوامی زبان کو اپنے سانچے میں ڈھالا ہے۔

اردو شاعری میں سنسکرت ادب کے اثرات ہندی کے بالمقابل کم مرتب ہوئے ہیں۔ شمالی ہند میں جنوبی ہند کے بالمقابل اردو پر مزید کم اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اردو شاعری کی معروف صنف غزل نے سنسکرت ادب سے براہ راست کم، مگر ہندی کے ذریعے ضرور اثرات لیے ہیں۔ ہاں ہمارے بزرگ اردو ادیبوں نے براہ راست سنسکرت کے بیشتر اہم علمی و ادبی سرمایے کا اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ مثلاً اتھروید کا نوبت رائے شوخ نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ رامائن سے متعلق اردو منظوم تراجم کی فہرست ڈاکٹر محمد عزیز اور مظفر حنفی نے رقم کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر تراجم موجود بتائے جاتے ہیں۔مزید رامائن کے ضمنی واقعات کے تراجم بھی موجود ہیں۔جیسے برج نرائن چکبست کی نظم ’رامائن کا ایک سین‘ ظفر علی خاں کی ’ایک رشی کے داغ جگر کی کہانی‘تلوک چند محروم کی ’سیتا ہرن‘اور شاد عارفی کی’ دسہرا اشنان‘ وغیرہ۔گیتا کے تراجم میں ’کشن گیتا، ارجن گیتا‘ کے نام سے گیارہ صدی ہجری میں سید مبین نے، ’ نغمۂ الہام ‘کے نام سے یوگی راج نظر،’نسیم عرفان‘ کے نام سے منشی بشیشور پرشاد منور لکھنوی...بہت سے حضرات نے کیے ہیں۔

ہندورسم وروایت کی رو سے پرشوتم رام وشنوجی کے ساتویں اوتار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اردو شاعری میں رام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پربڑے احترام وعقیدت میں نظمیں لکھی گئیں ہیں۔ خواجہ الطاف حسین حالی ’حب وطن‘ نظم میں رام کے بن باس کا ذکر کرتے ہیں۔تو انسان کے فطری جذبہ واحساس کابیان غربت کے پس منظر میں کیا خوب کرتے ہیں          ؎

قدر اے دل وطن میں رہنے کی

پوچھے پردیسیوں کے جی سے کوئی

جب ملا رام چندر کو بن باس

 اور نکلا وطن سے ہو کے اداس

باپ کا حکم رکھ لیا سر پر

 پر چلا ساتھ لے کے داغ جگر

پانو اٹھتا تھا اس کا بن کی طرف

اور کھنچتا تھا دل وطن کی طرف

گزرے غربت میں اس قدر مہ وسال

پرنہ بھولا اجدھیا کا خیال

دیس کو بن میں جی بھٹکتا رہا

دل میں کانٹا سا اک کھٹکتا رہا

تیر اک دل میں آ کے لگتا تھا

آتی تھی جب اجدھیا کی ہوا

کٹنے چودہ برس ہوئے تھے محال

 گویا ایک ایک جگ تھا اک سال

علامہ اقبال نے دنیا کی اہم دانشور شخصیتوں کے احترام میں اپنے تاثرات کااظہار کیا ہے۔ رام کے تعلق سے علامہ کا حسن عقیدت ملاحظہ کیجیے          ؎

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند

اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی

روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند

تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا

پاکیزگی میں، جوش محبت میں فرد تھا

مولاناظفر علی خاں ہندوستان کی تہذیبی شناخت، راجہ رام، سیتا اور لکشمن کی شان عظمت کے باعث سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے تاثرات کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں        ؎

نہ تو ناقوس سے ہے اور نہ اقسام سے ہے

ہند کی گرمیِ ہنگامہ ترے نام سے ہے

ساغر نظامی نے والہانہ وطن پرستی اورصلح کل طبیعت کے باعث ہندوستان اور رام کو مثالی انداز میں شعری پیکر میں ڈھالا ہے         ؎

ہند کے مرکز سے نکلی شاہ راہ زندگی

سب سے پہلی ہے یہی تفسیر گاہ زندگی

ہندیوں کو فیض قدرت سے ہوا عرفانِ نفس

جامِ ہندی میں چھلک اٹھی مئے ایقان نفس

ہندیوں کے دل میں باقی ہے محبت رام کی

مٹ نہیں سکتی قیامت تک محبت رام کی

زندگی کی روح تھا روحانیت کی شان تھا

وہ مجسم روپ میں انسان کے عرفان تھا

نظیر اکبرآبادی ہندوستانی مشترکہ تہذیبی روایت کے بڑے شاعرہیں۔ انھوں نے اپنے کلام میں باہمی رواداری کی جیتی جاگتی تصویر پیش کی ہے۔ وہ کرشن جی کی پیدائش و بچپن، حیات و زیست اور بانسری کے تعلق سے کیا خوب تاثرات قلم بند کرتے ہیں        ؎

تھا نیک مہینہ بھادوں کا اور دن بدھ گنتی آٹھن کی

پھر آدھی رات ہوئی جس دم اور ہوا نچھتر روہن کی

سب ساعت نیک مہورت سے واں جمنے آ کر کرشن جی

اس مندر کی اندھیاری میں جو اور اجالی آن بھری

اب دیو سے بولیں دیو کی جی مت ڈر بھومن میں کھیر کرو

اس بار اس کو تم گو کل میں لے پہنچو اور مت دیر کرو

نظیراکبرآبادی کا کرشن جی سے خلوص وعقیدت کا یہ عالم ہے کہ وہ بانسری کے سرکی لے میں اس قدر محو اوربے خود ہوجاتے ہیں         ؎

جب مرلی دھر نے مرلی کو اپنی ادھر دھری

کیا کیا پریم میت بھری اس میں دھن بھری

لے اس میں رادھے نام کی ہردم بھری بھری

لہرائی دھن جو اس کی ادھر اور ادھر ذری

سب سننے والے کہہ اٹھے جے جے ہری ہری

ایسی بجائے کشن کنہیا بانسری

حیدرآباد کے مہاراجہ کشن پرساد شاد نے مثنوی ’جلوئہ کرشن‘ تخلیق کی ہے، جس میں انھوں نے کرشن جی کی مکمل حیات کو اجمالی طور پر قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس میں  ان سے والہانہ عقیدت اور محبت کا خوب اظہارکرتے ہیں۔ انھوں نے مثنوی میں مولود کرشن کو ’صبح صادق‘ کے عنوان سے کیا خوب سراہا ہے       ؎

ہشیار کہ شیر کی ہے آمد

عالم کے دلیر کی ہے آمد

بنیادِ ستم کا ڈھانے والا

احکامِ خدا سنانے والا

پیدا ہوا پیشوا مبارک ہو

پورا ہوا مدعا مبارک ہو

اک چادرِنور تن گئی وہ

اب کنس کی انجمن گئی وہ

مولانا حسرت موہانی اسلامی شعار پرستی کے باوجود کرشن نگری میں دھونی رمانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں      ؎

تن من دھن سب وار کے حسرت

متھرا نگر چل دھونی رمائی

تلوک چندمحروم کو قوم، وطن اور مذہب سے بڑی محبت تھی۔ وہ کرشن کی بانسری سے بڑاوالہانہ لگاؤ رکھتے تھے۔ انھوں نے نظم ’بانسری کی کوک‘ میں کیا خوب بیان کیاہے         ؎

لعل معجز نما سے بنسی

اے لو وہ شام نے لگا دی

پیدا ہوا اک نفس سے اعجاز

اب اس سے زیادہ کون سا ساز

ہر ایک ترانہ دلربا ہے

جنگل نغموں سے گونج رہا ہے

مرزا جعفر علی خاں اثر نے گیتا کا گہرا مطالعہ کیا اور اس کے عظیم مقاصد کو قلب وجگر میں بسالیاتھا۔ انھوں نے کرشن کی وحدت ایمانی کی تعلیم کو والہانہ محبت کے ساتھ اردو اشعار کے قالب میں ڈھالنے کی سعی کی ہے۔ ان کے نزدیک کرشن کی مرلی سے فضاؤں کو محبت سے سرشار کرنے والے نغمے پھوٹتے ہیں۔ جو خوابیدہ روحوں کو بیدار اور سنوارنے والے ہیں       ؎

ترا نام پیارا، ترا بول بالا

تری پریت سمرن تری یاد مالا

ہوا من کے درپن میں تجھ سے اجالا

وہ دیوکی کی آنکھوں کا تارا دلارا

کمل نیں امرت ہے جس کا اسارا

سری کرشن موہن، منوہر کنہیاں

بہاری مراری مدھر مرلی والا

حفیظ جالندھری کوبھی گوپال کرشن سے بڑا شغف تھا۔

ترقی پسند شاعر شہاب جعفری کو سری کرشن سے بڑی والہانہ عقیدت تھی۔ انھوں نے کرشن لیلا کو بطور علامت اپنی شاعری میں برتا ہے۔وہ اپنے بھجن میں راجستھان کی ایک رانی ’میرا‘ کو سری کرشن سے ہوئے عشق کی واردات کا بیان کرتے ہیں۔کیونکہ وہ دیوانگی کی حالت میں کرشن کی یاد میں گھوما کرتی تھی۔

یہاں یہ عرض کرنا مناسب ہے کہ اردوشاعری میں فارسی روایت کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ فارسی روایت کے اثرات کم ہوئے بعد ازاں اردو نے سنسکرت اور ہندی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرات قبول کیے اور ہنوزاستفادہ کررہی ہے۔ اردو شعرا رامائن اور مہابھارت کے اساطیری کرداروں کو اپنے کلام میں برت رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سنسکرت ادب کی تلمیحات یعنی ہندوی تہذیب کو شعوری یا غیر شعوری طورپراردو زبان و ادب میں برتا جارہاہے۔ اردو شاعر رامائن اور مہابھارت کے اہم کرداروں سے بخوبی واقف ہیں۔ اردو شاعروں نے عام ہندوئی تہذیب کے مطابق رام اور سیتا کو نیکی اور راون کے کردار کو بدی کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف غزل بھی اچھوتی نہیں ہے۔

جاں نثاراختر حیات و زیست کے حصار میں خود اپنی امیدوں کے اجڑجانے پر رام کے بن باس جیسا محسوس کرتے ہیں          ؎

اجڑی اجڑی ہوئی ہر آس لگے

زندگی رام کا بن باس لگے

رفیعہ شبنم عابدی زندگی کی حقیقت کے عملی پہلوؤں کو سمجھتے ہوئے کس خوب صورتی سے رام اور سیتا کے کردار کے ذریعے خیالی دنیا سے گریز کا مشورہ دے رہی ہیں         ؎

تم کوئی رام نہیں میں بھی نہیں ہوںسیتا

پھر یہ بن باس اٹھانے کی ضرورت کیسی

رفعت سروش بڑے حوصلے کے ساتھ بن باس مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں          ؎

فرشتوں کو تری جنت مبارک

مرے حصے میں تو بن باس لکھ دے

اثرغوری راجہ رام کے بن باس کے مد نظر غزل کے شعر میں کیا خوب حوصلہ دکھاتے ہیں        ؎

کوئی سچائی دل کے پاس رکھ دو

بدن میں رام کا بن باس لکھ دو

اردوزبان وادب پرسنسکرت زبان وادب کے گہرے اثرات ہیں، جو روز افزوں ہیں۔مگر اب یہ اثرات ہندی کے توسط سے اردو پر مرتب ہورہے ہیں۔قدیم دور میں اس کے زیادہ اثرات دکنی اردو ادب پر نمایاں طورپر دکھائی دیتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ شمالی ہند کے قدیم اردو ادب پرکم اثرات نظر آتے ہیں، کیونکہ آبرو، حاتم، میر، سودا، خواجہ میردرد، ذوق، مومن اور غالب کے کلام میں سنسکرت کے اثرات قدرے مفقود ہیں  مگر بعد کے اردو شعرا کے یہاں بالواسطہ طور پر یہ اثرات وقت کے ساتھ بڑھے ہیں۔

 

Dr. Sarfaraz Javed

R-155, Third Floor, Gali No: 6

Sir Syed Road, Jogabai Ext

Jamia Nagar, Okhla

New Delhi- 110025

Mob.: 9971895740

javedsarfaraz@yahoo.com

 

29/10/24

آندھرا پردیش میں دکنی تحقیق اور تدریس،روایت اور معاصر صورت حال، مضمون نگار: ستار ساحر

 اردو دنیا، اکتوبر2024

اردو ادب کے وزن و وقار‘ اعتبار اور رنگ و نکھار کا شاندار قصر دکنی شعر و ادب کی بنیاد پر تعمیر ہوا ہے۔ ہمارے جن بزرگوں نے دکنی ادب سے دلچسپی لی، ان کا زاویہ تحقیقی رہا اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ انہی کی مسلسل محنتوں اور کاوشوں کے نتیجے میں آج دکنیات کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔ تاہم یہ بات بھی کافی اہمیت رکھتی ہے کہ دکنی شعر وادب کا تنقیدی نقطۂ نظر سے مطالعہ ابھی حال حال کی بات ہے، حق تو یہ ہے کہ ابھی حق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ دکنیات کا تجزیاتی مطالعہ اور دیگر پہلوؤں سے جائزہ جس قدر گیرائی اور گہرائی کا حامل ہوگا۔ دکنی شعر وادب کی اہمیت فزوں تر ہوتی جائے گی۔

دکن میں نویں صدی ہجری ہی سے بزرگانِ دین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ان کے تحریر کردہ چھوٹے چھوٹے مذہبی رسائل اور نظمیں دکنی زبان کے اولین نمونے قرار پائے۔ ایسے بزرگوں میں جنھوں نے نویں، دسویں اور گیارہویں صدی ہجری میں دکن کا رخ کیا، بالخصوص حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ‘ شیخ بہاء الدین باجنؒ‘ میراں جی شمس العشاق، برہان الدین جانم، امین الدین اعلیٰ، سید میراں حسینیؒ، شاہ علی جیوگام دھنی وغیرہ قابل ذکر ہیں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ اور میراں جی شمس العشاق ؒ کے خانوادوں نے خانقاہی تعلیم اور مذہبی فکر کو دکنی زبان میں عام کیا۔ اس کام کو ان بزرگوں کی اولاد و خلفا اور مریدوں نے بھی آگے بڑھایا اس طرح دکنی زبان میں تصوف، اخلاقیات اور دینی علوم کا ایک بڑا سرمایہ جمع ہوگیا جس کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ یہ سرمایہ دکنی نظم و نثر کی شکل میں ملتا ہے جو دکنی زبان کے فروغ کا باعث بنا۔

خانوادۂ شہ میریہ، آندھراپردیش کا عالم و فاضل گھرانہ ہے۔ شہ میری اولیا ایک طرف مشہور زمانہ صوفی حضرت مخدوم جہانیان جہاں گشت کی اولاد سے ہیں تودوسری طرف حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے خاندان سے نسبی رشتہ رکھتے ہیں۔ حضرت سید جمال الدین بخاری ملتان سے ہندوستان آئے اور گلبرگہ پہنچ کر آپ نے حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کی پڑپوتی سے عقد کیا۔ حضرت سید جمال الدین بخاری کے پوتے سید کمال الدین بخاری اول گلبرگہ سے بیجاپور ہوتے ہوئے آندھرپردیش کے شہر کرنول سے گزر کر کڈپہ پہنچے اور یہاں سے رائچوٹی کا رخ کیا اور وہیں پر مستقل قیام فرمایا۔ آپ کا وصال گرم کنڈہ (ظفر آباد) میں ہوا اور آپ کا مزار گرم کنڈہ میں مرجع خلائق ہے۔ خانوادۂ شہ میریہ حضرت سید جمال الدین بادشاہ بخاری،  رائچوٹی کے بڑے فرزند حضرت شاہ میر بادشاہ بخاری (اول) تلپول، کدری تعلقہ کے اسم گرامی سے منسوب ہے جن کا تذکرہ نصیر الدین ہاشمی نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ’دکن میں اردو‘ میں کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’اس دور کے صوفی اور شاعر شاہ میر ہیں۔ آپ کا نام سید محمد حسین تھا۔ حضرت مخدوم جہانیان جہاں گشت بخاری کی اولاد میں شامل تھے۔ 1018 ہجری میں تولد ہوئے یعنی آپ کا بچپن بیجاپور کی عادل شاہی حکومت کا آخری دور ہے کئی انقلاب آپ کی نظر سے گزرے1186 ہجری میں آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کو اپنے والد سے بیعت اور خلافت حاصل تھی آپ کے مریدوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک سو پانچ سال کی عمر ہوئی۔ آپ کا مزار تلپول، ضلع اننت پور (آندھرا) میں واقع ہے۔ 5جمادی الثانی کو ہر سال آپ کا عرس ہوتا ہے۔

شاہ میر کی نظم و نثر کی کئی ایک تصانیف ہمدست ہوتی ہیں جن میں سے اسرار التوحید، رسالۂ عینیت و غیریت، رسالۂ قادریہ، عقائدِ صوفیہ اور دیوان قابل تذکرہ ہیں۔‘‘(ص:377)

’اسرار التوحید‘ دکنی اردو میں علم تصوف کی مختصر اور جامع کتاب ہے۔ ان کی ایک اور تصنیف ’انتباہ الطالبین‘ بھی ہے۔

حضرت شاہ کمال (ثانی، جامیِ دکن) کے دیوان ’مخزن العرفان‘ کو اسی خانوادہ کے جواں سال سجادہ نشین سید شاہ میر قادری شہ میری نے 2010 میں مع فرہنگ ترتیب دیا ہے جو 680 صفحات پر مشتمل ہے۔

گرم کنڈہ (تاریخی نام ظفر آباد) ضلع انا میا، آندھرا پردیش کے ایک اردو استاد شاعرو محقق ڈاکٹر نقی اللہ خان نقی نے بعنوان ’حضرت شاہ کمال  (جامیِ دکن) کے دیوان مخزن العرفان کا ادبی، لسانی اور تحقیقی مطالعہ، 2018 میں جامعہ سری وینکٹیشورا، تروپتی میں ڈاکٹر محمد نثار احمد کی نگرانی میں پی ایچ۔ڈی کا مقالہ پیش کرکے ڈگری حاصل کی۔ اس مقالے میں موصوف نے ’مخزن العرفان‘ کی ادبی اہمیت و افادیت واضح کی ہے۔

قاری جی۔ ہدایت اللہ لطیفی رشادی نے خانوادۂ شہ میریہ کے صوفی شاعر ’ حضرت شاہ کمالؒ (جامیِ دکن) : حیات اور کارنامے‘ عنوان سے پروفیسر سید عبدالستار ساحر کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ 2019  میں سری وینکٹیشورا یونیورسٹی‘، تروپتی میں داخل کیا۔ جس پر انھیں جامعہ نے پی ایچ ڈی کی سند تفویض کی۔ پانچ ابواب پر مشتمل اس مقالے میں انھوں نے جامیِ دکن کی حمد، مناجات، نعوت، سلام، مراثی، مثنویات، قصائد، رباعیات، غزلیات و دیگر کلام پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ خاص کر ان کی تصانیف کی فہرست سازی کرتے ہوئے ان کے دیوان مخزن العرفان سے متعلق یہ رائے پیش کی ہے کہ یہ دکنی اردو میں ہے علم و ادب اور فن کے اعتبار سے اسے دکنی ادب کا ایک عظیم شہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔

شاہ کمال کا ابتدائی زمانہ ولی دکنی کا آخری زمانہ تھا اور آپ کے معاصر و قریب العہد سراج دکنی، سید محمد خاکی، عارف الدین خان عاجز، عبدالولی عزلت، شاہ قدرت اللہ بلیغ اورنگ آبادی اور غلام علی آزاد بلگرامی رہے ہیں۔

شہر کڈپہ (آندھراپردیش) کے متوطن ڈاکٹر راہی فدائی کی تحقیقی و تنقیدی تصانیف ادبی اہمیت کی حامل ہیں مثلا باقیات ایک جہاں، اکتساب نظر، مسلکِ باقیات، کڈپہ میں اردو، جوئے شیر، مدرسۂ باقیات الصالحات کے علمی و ادبی کارنامے، ویلور تاریخ کے آئینے میں، قلم رو، فکر اور علاقہ کڈپہ کے نایاب تاریخی کتبے وغیرہ۔

’اکتساب نظر‘ تحقیقی مضامین کا انتہائی قابل قدر مجموعہ ہے۔ جس میں ہاشمی بیجا پوری کی مثنوی،  یوسف زلیخا، کا ایک نو دریافت مخطوطہ‘ وشارم میں اردو، اختر کڈپوی ان کی مثنوی در مدح ٹیپو سلطان اور جنگ آزادی اور علمائے جنوب مضامین خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ’قلم رو فکر‘ میں موصوف نے یہ ثابت کیاہے کہ ’’فرہنگ آنند راج کے مؤلف آنند راج نہیں بلکہ منشی محمد پاشاہ متوطن وجیا نگرم ہیں، جنھوں نے اپنے حکمران مہاراجہ آنند گجپتی راج کے نام اسے منسوب کیا۔ مولانا نے نصرتی کے ایک اور فارسی قصیدے کو دریافت کرکے ہماری زبان شمارۂ اکتوبر 1995 میں شائع کیا۔

’کڈپہ میں اردو‘ راہی فدائی کی مایہ ناز تصنیف ہے۔ جس میں موصوف نے شہر کڈپہ کی تین سو سالہ ادبی تاریخ کو سمیٹ کر اس کتاب کی شکل میں محفوظ کردیا ہے۔ اس کتاب کا پہلا اڈیشن 1992 میں شائع ہوا تھا، اور دوسرا 2012 میں زیور طبع سے آراستہ ہوا۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ موصوف نے اپنی تحقیقی بصیرت کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ قدیم ترین اردو دکنی تصنیف محمد ابن رضا کی مثنوی ’ قصیدہ بردہ‘ ہے وہ لکھتے ہیں:

’’دنیا کی مختلف زبانوں میں اس قصیدے کے ترجمے ہوئے مگر اس کو دکنی زبان میں ترجمہ کرنے کا شرف محمد ابن رضا کو عطا ہوا۔ راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق قصیدہ بردہ کا یہی اولین اردو ترجمہ ہے تاحال اس کے صرف دو نسخے دستیاب ہوئے ہیں۔ ایک کتب خانۂ سالار جنگ، حیدرآباد کا مخزونہ ہے اور دوسرا انڈیا آفیس لائبریری لندن میں محفوظ ہے۔‘‘

 (کڈپہ میں اردو، ص:15,16)

’قصیدۂ بردہ شریف‘ کے دکنی اشعار اور کڈپہ کی اہم تاریخی مسجدوں کے کتبوں پر ترقیم فارسی اشعار کی روشنی میں موصوف نے محمد ابن رضا کے اصل نام ‘ تخلص اور قصیدہ کے سنہ تصنیف وغیرہ سے متعلق اہم معلومات فراہم کی ہیں جو تحقیق کے میدان میں مولانا کی لگن اور ان کے انہماک پر دال ہے۔

نواب عبدالحمید خان میانہ (کڈپہ) کے درباری شاعر محمد حیدر المتخلص بہ ابن جعفر نے اپنے شاگرد رشید عبدالکریم عرف کرمو میاں کی فرمائش پر ابن نشاطی کی مثنوی ’پھول بن‘ (1066ھ) میں 341 اشعار کا اضافہ کیا تھا مولانا کے الفاظ میں ابن جعفر نے ابن نشاطی کے اختتامی شعر        ؎

عدالت کار کہ، اپنی سیس پر تاج

فراغت سوں کرتا رہا راج

کے بعد بطورِ تکملہ تین سو اکتالیس اشعار میں شادی بیاہ کی تفصیل جیسے مقامی رسم و رواج تہذیب و تمدن اس وقت کے زیورات، اشیائے خوردونوش‘ رنگا رنگ ملبوسات وغیرہ کی مکمل تصویر بڑی عمدگی اور نہایت خوب صورتی کے ساتھ پیش کی ہے۔ ابن جعفر کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فنی چابکدستی اور کمال سادگی نمایاں ہے۔‘‘(ص۔24,25)

دکنی میں قدیم اردو کی تصانیف کا سراغ لگا کر جس طرح بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اردو کے ماضی میں تقریباً 200 برس کا بے نظیر اضافہ کیا۔ ڈاکٹر راہی فدائی نے ’کڈپہ میں اردو‘ لکھ کر علاقائی ادب بلکہ دکنی ادب کی تاریخ میں بڑا پائیدار اور بیش بہا اضافہ کیا ہے۔

ڈاکٹر وحید پاشاہ کوثر کا تعلق شہر کرنول، آندھرا پردیش سے ہے موصوف کو ابتدأ سے ہی دکنیات سے کافی دلچسپی رہی ہے۔ ان کی ایک اہم تصنیف ’دکنی کلیات حضرت شاہ فی الحال قادریؒ کی تنقیدی تدوین ہے۔ موصوف نے کلیات کی تدوین سے متعلق کتب خانۂ سالار جنگ، کتب خانۂ ادارہ ادبیات اردو اور کتب خانۂ آصفیہ، حیدرآباد کے علاوہ حضرت سید اقبال پاشاہ قادری کے ذاتی کتب خانے سے استفادہ کیا ہے دراصل اسی کتب خانے میں انھیں حضرت فی الحال قادری کی فارسی مثنویات ’نکات العارفین‘ اور ’مراق السالکین‘ دستیاب ہوئیں اور دوسرے ذرائع سے ممکنہ معلومات حاصل کرکے اور مخطوطات سے مدد لے کر انھوں نے کلیات کی تدوین کی۔ وحید کوثر نے شاہ فی الحال قادری کے صوفیانہ خیالات کا بھرپور جائزہ لیا ہے دکنی میں ان کے دیوان اور مثنویوں، بودنامہ (اول)، بود نامہ (دوم) اور ارشاد نامہ کے بارے میں بتلایا کہ یہ مثنویاں حضرت فی الحال کے صوفیانہ رجحانات کا اظہار ہیں۔ وحید کوثر اپنے تحقیقی و تنقیدی مضامین کے مجموعے ’اسلوب و افکار‘ (2017) میں رقمطراز ہیں:

’’شاہ فی الحال کا دور آصف جاہی حکومت کا ابتدائی زمانہ ہے۔ اس لحاظ سے شاہ فی الحال جدید دکنی کے پہلے دور کے شعرامیں شمار ہوتے ہیں۔ ماحول میں جو عام بول چال کی زبان تھی اس پر دکنی اثرات کا ابھی غلبہ بنا ہوا تھا گھروں اور بازاروں میں اس کا چلن عام تھا۔‘‘ (ص۔28)

’شعر اور شعور‘ (2018) وجدی سے یسیر تک، (2011)کلیاتِ تصوف(2015)،  شاہ فی الفور قادری جان عارفان (2018) اور تین جلدوں پر مشتمل مثنوی جنگ ابرار (2022) جو 600 صفحات پر مشتمل ہے۔ وحید کوثر کی گراں قدر تصانیف ہیں۔ ’جنگ ابرار‘ گویا دکنی اردو کی آخری طویل رزمیہ مثنوی ہے اس کے مصنف سید محی الدین حسینی قادری محی ہیں یہ مثنوی دس ہزار چھ سو ستائیس (10,627) دکنی اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں صرف 27 عربی اشعار بھی ہیں۔ اس طرح کل 10654 اشعار ہیں اور اس کا صرف ایک نسخہ اس وقت سید صادق پاشاہ حسینی القادری کی تحویل میں ہے۔ مثنوی کی بحر متقارب مثمن مقصور یعنی فعولن فعولن فعولن فعل‘ مثنوی کی مقررہ 7 بحروں میں سے ایک ہے۔

اردو زبان اور شعر و ادب کے پیش نظر آندھراپردیش کے ایک اہم اور معروف شہر تروپتی کو ایک سنگلاخ زمین کہنا چاہیے لیکن یہاں کی ایک موقر سری وینکٹیشورا یونیورسٹی میں 1959 میں شعبہ اردو کا قیام نعمت غیر مترقبہ کے مصداق ہے۔ شعبۂ اردو سے پی ایچ۔ڈی سند یافتہ طلبہ و طالبات اور ان کے عنوانات کی فہرست کافی طویل اور وزن و وقار کی حامل ہے تاہم دکنی تحقیق کا جہاں تک تعلق ہے بیشتر اہم موضوعات پر تحقیقی مقالوں کو پیش کرنے اور ان میں بعض مقالوں کی کتابی شکل میں اشاعت حیرت انگیز ہے۔ خانوادۂ شہ میریہ سے متعلق تحقیقی مقالوں کا تذکرہ کیا جاچکا ہے۔ ڈاکٹر شہزادی بیگم نے 1995 میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی نگرانی میں ’اردو مثنوی کا ارتقا: دبستانِ گولکنڈہ میں‘ تحقیقی مقالہ پیش کرکے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔

ڈاکٹر محمد نعیم الرحمن نے برصغیر کے مشہور و معروف نقاد پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی رہنمائی میں اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان ’جدید دکنی شاعری‘ 1996 میں سری وینکٹیشورا یونیورسٹی، تروپتی میں داخل کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس مقالے میں جدید دکنی کے ممتاز شاعروں علی صائب میاں، سلیمان خطیب، سرور ڈندا، گلی نلگنڈوی کی شاعری پر نقد و تبصرہ کیا گیا ہے علاوہ ازیں موصوف نے اپنے مقالے میں دیگر جدید دکنی شعرا جیسے زعیم صاحب میاں، نذیر دہقانی، اعجاز حسین کھٹا‘ بگڑ رائچوری، گلیم میدکی، معین نظامی، صبغت اللہ بمباٹ، حمایت اللہ، اشرف خوندمیری، ڈھکن رائچوری، حفیظ خان اور قیسی قمر نگری کی حیات اور جدید دکنی شاعری کے بارے میں اہم معلومات ان کی شاعری کے نمونوں اور امتیازات کے ساتھ فراہم کی ہیں۔

ڈاکٹر سی ممتاز بیگم نے 2002 میں ڈاکٹر سید عبدالستار ساحر کی زیر سرپرستی ’دکنی مثنویوں میں کردار نگاری ‘ عنوان کے تحت اپنا تحقیقی مقالہ جامعہ سری وینکٹیشورا میں داخل کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

یہ مقالہ دکن میں صنف مثنوی اور اس کے ایک خاص پہلو کا بسیط منظر نامہ ہے۔ جس کی اشاعت سے دکنی شعر وادب میں قابل ذکر اضافہ ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر سید ریاض بخاری نے 2014 میں پروفیسر سید عبدالستار ساحر کی نگرانی میں بعنوان ’خانوادۂ شہ میریہ کی ادبی خدمات‘ تحقیقی مقالہ سری وینکٹیشورا یونیورسٹی میں پیش کرکے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔

اس مقالے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شہ میری اولیا کے دکنی کلام کے ساتھ ساتھ ان کی دکنی نثر کے بیشتر نمونے شائقین دکنی شعرو  ادب کے مطالعے کے لیے دستیاب ہیں۔

آندھراپردیش میں کل 13 جامعات (تکنیکی اور سائنسی سے قطع نظر) ہیں، ان میں سے چار جامعات میں ایم اے اردو کی تعلیم دی جاتی ہے اور صرف جامعہ سری وینکٹیشورا میں تحقیق کی سہولت ہے۔ اس کی وجہ باقی تین جامعات میں مستقل اساتذہ کی غیر موجودگی ہے، شعبۂ اردو جامعہ سری وینکٹیشورا کا قیام 1959 میں عمل میں آیا تھا اور دیگر جامعات ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کرنول، یوگی ویمنا یونیورسٹی، کڈپہ اور آچاریہ ناگارجنا یونیورسٹی، گنٹور میں اردو شعبہ جات کا آغاز بالترتیب 2016، 2017، اور 2023 میں ہوا۔ مسرت کی بات یہ ہے کہ مذکورہ چاروں جامعات کے نصاب میں دکنیات کا پرچہ شامل ہے اور دکنی شعر وادب کی تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔

کرنول اور گنٹور کی یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں میں قدیم دکنی کے ساتھ ساتھ جدید دکنی شعر و ادب بھی نصاب کا اہم حصہ ہے۔ جس کو عصر حاضر کی دکنی زبان کی نمائندگی کہا جاسکتا ہے۔

جغرافیائی اعتبار سے موجودہ ریاست آندھراپردیش کا ساحلی علاقہ اردو شعر و ادب کے فروغ اور اردو تہذیب نیز تصنیفی و تالیفی اعتبار سے خطہ رائل سیما سے نسبتاً بہت کم زرخیز کہا جاسکتا ہے یہاں ادبی سرگرمیاں حال حال کی بات ہے تاہم خطہ رائل سیما سے دکنی تحقیق اور تدریس کی روایت اور معاصر صورت حال کا ایک دلکش منظر نامہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے بالخصوص کرنول اور کڈپہ کے حوالے سے دکنی تحقیق و تدریس کی روایت بہت قدیم ہے۔ یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ریاست آندھراپردیش کے ادیبوں، شاعروں،  اساتذہ اور ماہرین تعلیم نیز محبان شعروادب نے دکنی شعر وادب کے تحفظ اور اس کی اہمیت و افادیت کی وضاحت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے اور وقتاً فوقتاً دکنیات سے متعلق عنوانات پر سمیناروں، کانفرنسوں اور مذاکروں سے اردو کے بنیادی ادب کو مضبوط و مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو نئی نسلوں تک پہنچانے کا پر خلوص اہتمام کیا ہے۔

 

Prof. Sattar Sahir

Ex. Head Dept of Urdu

Jamia Sri Venkateshwar

Tirupathi- 517502 (AP)

ssahir717@gmail.com

28/10/24

مضمون اور اس کا فن، ماخذ: اردو ادب میں مضمون کا ارتقا، مصنفہ: سیدہ جعفر

 اردو دنیا،اکتوبر 2024

مضمون کا آغاز

مضمون یا ’’اسّے‘‘(Essay) اپنی اصطلاحی شکل اور اپنے لفظی پیکر کے اعتبار سے مغرب کی دین ہے اور مغرب میں نثر کی ایک ممیز ادبی صنف تصور کیا جاتا ہے۔ فرانس میں مانیتں Montaigne(1571) نے اس کاآغازکیا تھا۔ اس صنف کی صورت گری اور تشکیل و نشوو نماکے مختلف محرکات رہے ہیں۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی مصروفیت اور ہیئت اجتماعی کے مختلف شعبوں کی روز افزوں گہما گہمی نے طویل ادبی کارنامو ںکے مطالعے کی فرصت چھین لی۔ ’فرصت کا روبار شوق‘ کی کمی نے ’ذوق نظارہ جمال‘ کے نئے معیار اور نئے سانچوں کو متعارف کروایا۔ میقاتی رسالے اور اخبارات کی ترویج نے ’اسّے ‘ یا مضمون کی مانگ بڑھادی۔ قاری اب طویل وبسیط کارناموں کے بجائے اسّے  ادب پاروں کا متمنی تھا جن میں ایجاز و اختصار ، ادبی ذوق کی تسکین کے سامان ، فکر انگیزی اور زندگی کی مزاج شناسی موجود ہو اور مضمون یا اسّے  میں ان کی پذیرائی کے امکانات موجود تھے جس نے اس ادبی صنف کو مقبولیت عطا کی اور صنفی اہمیت تسلیم کروائی۔

مانیتں (Montaigne) ، Miechael De Montaigne (1533-1592)نے پہلے پہل اسّے نئے قسم کی تحریریں پیش کیں وہ عالمی انشائیہ کا موجد ہے ۔سیاسی زندگی سے سبکدوش ہونے کے بعد اس نے اپنے تجربات اور تاثرات نوٹس (Notes) کی شکل میں قلمبند کرنے شروع کیے جس وقت مانیتں یہ نوٹس لکھ رہا تھا اسے یہ گمان بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ ادبیات عام میں نثر کی ایک نئی صنف متعارف کروارہا ہے۔ مانیتںنے اپنے ان نوٹس کو’ اے سیز (Essays) کے نام سے شائع کروایا اور یہ اتنے مقبول ہوئے کہ یورپ اور انگلستان میں ان کے چرچے ہونے لگے۔ اور مانتیں کے تتبع میں انگریزی اور دوسری زبانوں سے ’اسّے ‘لکھے جانے لگے۔

مضمون  کی اصطلاح

اسّے‘ کی اصطلاح اب ایک متعین صنف ادب کے لیے استعمال ہوتی ہے اس کا ماخذ ایک فرانسسی لفظ Assayہے جس کے معنیٰ سعی اور کوشش کے ہیں ۔ یہ قدیم فرانسسی لفظ Essaiسے ماخوذ ہے جس کا لاطینی ماخذ Exgagium(تولنا) ہے Exagereکوشش کرنا اور جانچنا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

(دی کنگ سائز آکسفورڈ ڈکشنری آف کرنٹ انگلش، ص 386)

انگریزی میں یہ لفظ املا کے تغیر کے ساتھ فرانسسی ہی سے لیا گیا ہے چاسر Chacer نے لفظ Assay استعمال کیا ہے لیکن تجربے اور جائزے کے معنیٰ ہیں۔ گائلز کے پاس یہ لفظ کوشش اور جدوجہد کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے لفظ ’اسّے‘ بطور فعل بھی برتا گیا ہے اور اس لفظ کے معنیٰ تجربہ کرنے کے ہیں۔ شیکسپیئر کی تخلیقات میں یہ لفظ Assayکی صورت میں فعل کے طور پر آیا ہے۔

اصطلاح کا استعمال

ابتدائی دور میں اسّے کی اصطلاح اسّے مضامین کے لیے استعمال ہوتی تھی جو بقول ارل آف برکن ہیڈ (Earl of Birken Head) اس اصطلاح کے ’مستحق‘ نہ تھے یعنی جن پر پوری طرح اس کا اطلاق نہیں ہوتا تھا جان لاک (John Lock)نے 1690 میں اس اصطلاح کو اپنی ضخیم فلسفیانہ کتاب کے لیے تجویز کیا تھا اور اس کا نام’ این اسّے کنسرنگ ہیومن انڈر اسٹانڈنگ 

(An Essay Concerning Human Understanding) رکھا۔ لیکن قاری کو شبہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے اٹھارہ سالہ گہرے مطالعے کے نتائج کو محض ایک جائزہ کہا تھا یا سنجیدہ مسائل میں الجھے رہنے والے ذہن کے لیے تفریح کی چیز سجھ کر اس کے لیے یہ نا م منتخب کیا تھا کیونکہ اسی سال اس نے دو سیاسی رسالے تصنیف کیے اور ان رسالوں کا نام اس نے’ ٹِری ٹائز آن سیول گورنمنٹ‘ (Trestise On Civil Government) رکھا۔ اٹھارویں صدی کے اکثر مصنفین نے جان لاک کی پیش کردہ مثال کی تقلید کی اور ’ایس اے‘کے نام پر اسّے  نثر پارے کا استعمال کیاجس میں کوئی قصہ بیان نہ کیا گیاہے۔جان ڈرائی ڈن (John Dryden) نے ادبی جمالیات( Literary Aesthtics) پر لکھے ہوئے سلسلے کے لیے یہ نام تجویز کیا ۔ پوپ (Pope)نے معاشرت پر تنقید کے مجمع کو’’ این اسّے آن مین‘‘( An essay on Man)کہا۔

مضمون بطور صنف ادب

مضمون یا اسّے کسی خاص موضوع کے بارے میں انشاپردازکے خیالات اور جذبات کے رد عمل کا پرتو ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسا ادب پارہ ہوتاہے جس میں بیک وقت فکر انگیزی خیال کی اعتمادی تاثرات کی دلفریب ترجمانی اسلوب کا نکھار اور تصور کی لطافت سب ہی عناصر سموئے ہوئے ملتے ہیں۔ مضمون ہمارے ذہن کو ایک خاص ذوق آگہی بخشتا اور ہمارے جذبات میں ایک انبساط پر ور تازگی اور تابناکی پیدا کرتا ہے ۔ خواہ اس کا موضوع ’ آرائش خم کا کل‘ ہو یا ـ’اندیشہ ہائے دور دراز‘ کی قبیل کا۔ مضمون کی صنف میں بڑی لچکداری اور اس کے موضوعات میں خاصی گہرائی اور وسعت ہے ۔ اس صنف ادب کے وسیلے سے بہت سے کام لیے گئے ہیں۔ کبھی یہ صنف سماجی اور ذہنی بیداری کے حربے کے طور پر استعمال ہوئی ہے تو کبھی اصلاحی اور افادی مقصد کی اشاعت کے لیے ۔ کبھی انسانی جذبات کی حسین اور رنگین مرقع کشی کے لیے۔ مضمون یا اسّے کے ذریعے سے مزاح اور ظرافت کی پھلجڑیاں بھی چھوڑی گئی ہیں اور طنز کے تیر بھی برسائے گئے ہیں لیکن ہر صورت میں مضمون کی صنف سے اس کا یہ مقصد وابستہ رہا ہے کہ وہ انسانی جذبات اور خیالات کی عکاسی کرے۔

مضمون کی ماہیت

مضمون کی ماہیت اس کی ٹکنک اور اس کے فنی خد و خال کے بارے میں بھی مختلف ادیبوں اورنقادوںنے مختلف تصورات اوراصول پیش کیے ہیں۔جی ای ہڈسن ( G.E Hudson) اپنی کتاب انگلش لٹریچر (English Literature) میں اسّے کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’اسّے  الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتا جو بغیر کسی مقصد کے باہم جوڑ دیے گئے ہوں ۔ اسّے  قصداً سوچا سمجھا اور آسان لیکن مربوط اصولوں کی مدد سے مناسب اندازمیں اس شخص، چیزیا خیال کے متعلق ایک جائزہ ہوتا ہے جو مضمون نگار کو دلچسپ اور اہم معلوم ہو‘‘۔

(جی ای ہڈسن۔ انگلش لٹریچر، باب چہارم، ص 227)

اوپر کے اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہڈسن کے خیال میں مضمون یا اسّے کو ایک خاص مقصد کی نمائندگی کرنی چاہیے ۔ اور یہ کہ اس کے کچھ مربوط اور منظم اصول بھی ہوں جن کی روشنی میں وہ کسی خاص شخص چیز یا خیال کا جائزہ لے سکے لیکن ایچ واکر(Hugh Walker) اس تصورسے اختلاف کرتاہے۔ اس نے اپنی کتاب انگلش اسیز اینڈ ایسیسٹس  (English Essays and Essayists) میں لکھا ہے کہ اسّے  (مضمون) ایک ایسی صنف ہوتی ہے جو باقاعدہ اور سخت اصولوں میں جکڑی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک آزاد قسم کی تحریر ہوتی ہے ۔ واکرنے اپنے اس خیال کی تائید میں ڈاکٹر جانسنکا قول بھی نقل کیا ہے ۔ لکھتاہے:

’’اسّے (مضمون)کیاہے اس سوال کے متعلق دو تصورات ہیں ایک تو یہ کہ وہ مختصر مضمون ہوتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اسّے آزاد تحریر ہوتی ہے۔ موخر الذکر ڈاکٹر جانسن کا تصور ہے جو نہ صرف ایک عظیم انشا پرداز بلکہ خود ایک ممتاز ایسیسٹ بھی تھا۔ اس نے اسّے کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ ’اسّے ‘ ذہن کی آزاد پیداوار اور ایک غیر تحلیل شدہ چیز ہوتی ہے نہ کہ باقاعدہ اور باضابطہ تحریر۔‘‘

(ایچ واکر۔ انگلش ایسیز اینڈ ایسیسٹس ۔باب اول، ص 1)

مضمون کی تعریف

’’آکسفورڈ ڈکشنری نے ان دونوں تعریفوں کو جوڑ کر اسّے کی فنی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بتایا گیا کہ اسّے معقول طول کی ایک ایسی تصویر ہوتی ہے جس میں تکمیل کا احساس تشنہ رہ جائے ‘‘ یعنی یہ کہ کسی خاص موضوع پر انشا پرداز کے جذبات اور تاثرات ’اسّے ‘ کو ظاہر کرتا ہے ۔ اشیا کی نوعیت کے متعلق فیصلے صادر کرتا اور کوئی قطعی رائے دینا ’اسّے ‘ کے فرائض میں داخل نہیں۔‘‘ (دی آکسفورڈ انگلش ڈکشنری، ص 327)

مرے (Mure)بھی اسی خیال کاحامی ہے۔ نقادوں اور انشا پردازوں نے اسّے کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔  ان تعریفوں میں اتنا اختلاف اور ایسی رنگا رنگی ہے کہ’ کثرت تعبیر‘نے اسّے کو’ خواب پریشاں‘ بنادیا ہے۔

’’ارل آف برکن ہیڈ (Earl of Birken Head)  نے آکسفورڈ ڈکشنری واکر اور جی ای ہڈسن کی تعریفوں کے برخلاف ہنڈرڈ بسٹ انگلش ایسیزمیں  (Hundred Best English Essaya) یہ بتایا ہے کہ اسّے آرٹ کا ایک ایسا طریقہ عمل ہے جو محض اس لیے ہوتا ہے کہ انشا پردازی اپنی یادگار باقی رکھے اور اس عمل میں ایسیسٹ کو ایسی ہی مسرت حاصل ہوتی ہے جیسی کسی دوسرے شخص کو اس کے باغ گھوڑوں اور دوستوں سے حاصل ہوسکتی ہے۔‘‘ (باب اول، ص 1)

ارل آف برکن ہیڈ نے اسّے کا جو تصور پیش کیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس صنف کا مقصد محض مسرت بخشنا اور دلچسپی عطا کرناہے ۔ مصنفین اور نقادوں نے اسّے کی تعریف کے بارے میںاتنے متنوع خیالات کااظہارکیاہے کہ بقول ہنری ہڈس  (Henry Hudson) اگر ہم ان کے ذریعے سے اسّے کی صنف کو سمجھنے کی کوشش کریں تو تصورات کے اس اختلاف اورانشا میں اسّے کی ماہیت گم ہوتی نظر آتی ہے ۔

(ولیم ہنری ہڈسن۔انٹرو ڈکشن ٹو دی اسٹیڈی آف لٹریچر، ص331)

اس کا سبب ہڈ سن نے یہ بتایا ہے کہ اسّے  کے مواد اس کے موضوعات اس کے مقاصد اور اسا لیب میں اتنی ہمہ گیری اور بو قلمونی ہے کہ نقاد کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے ۔ کہ چند اصولوں اور ضوابط میں اس کے وسیع تصور کا احاطہ کرسکے۔

(انٹروڈکشن ٹو دی اسٹڈی آف لٹریچر،ص 331)

اپنی کتاب انٹروڈکشن ٹو دی اسٹڈی آف لٹریچر (Introduction to the Study of Literature)  میں ہڈسن نے اسّے  کی صنف کے بارے میں اپنے اس تصور کی وضاحت کی ہے ۔ ادب میں شاید ہی کوئی صنف اتنی متنوع اقدار کی حامل اور مابہ النزاع ہوگی جتنی کہ اسّے کی صنف ہے۔ (Usage) نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اسّے  کے لیے نثر کی بھی قید نہیں۔ (ایچ واکر: انگلش ایسیز اینڈ ایٹس، باب اول، ص 3)

یہ خیال غالباً اس لیے ظاہر کیا گیا ہے کہ انگریزی ادب میں لفظ اسّے  نثر سے پہلے نظم کے لیے استعمال ہوا ہے۔ انگریزی کے اولین مضمون نگار بیکن (Bacon)کے مضامین سے پہلے اسّے کا لفظ نظم کے لیے استعمال ہواتھا۔ مثال کے طور پر ہم اسّے آف اے پر نٹس ان دی ڈی وائن آرٹ آف پوئٹرک (Essay of a Prentice in the Devine Art of Poetric) کولے سکتے ہیں۔ اس کے بعد بھی اسّے کا لفظ نظموں کے لیے استعمال ہوتا رہا ۔ اٹھارھویں صدی میں اسّے آن کرئی ٹیسیزم (Essay on Criticism)اور انیسویں صدی میں اسّے آن مین (Essay on Man) اس کی عمدہ مثالیںہیں۔

’’بعض نقادوں کے خیال میں اسّے  یا مضمون ایک نہایت سہل اور سطحی صنف ادب ہے ۔ کریبل (Crable)کہتا ہے کہ اسّے لکھنا ان مصنفین کے لیے موزوں ہے جن کے پاس گہری معلومات اور ادب کا ذاتی جوہر موجود نہیں ہوتا۔

(ولیم ہنری ہڈسن۔این انٹرو ڈکشن ٹودی اسٹڈی آف لٹریچر،ص 34)

کریبل کے بر خلاف سان بیو (San Bue) اسّے کو ادب کی مشکل ترین صنف سمجھتا ہے اور اسّے نہایت محو کن اور خوشگوار اور ادب پارہ تصور کرتا ہے ۔ اس کے خیال میں اسّے کچھ سطحیت برداشت نہیں کر سکتا ۔ ایک اور نقاد اسمتھ (Smith)نے ارل آف برکن ہیڈ کی طرح اسّے کے خالص ادب ہونے پر زور دیا ہے ۔

 مندرجہ بالا تعریفوں سے زیادہ ایڈمنڈگوس (Edmund Gosse) کی یہ تعریف جامع اور قابل قبول معلوم ہوتی ہے جس میں اس نے ان تمام تصورات کا نچوڑ اور حاصل پیش کردیا ہے۔ لکھتا ہے۔ ’’اسّے معقول طریقے کا ایک نثری خاکہ ہوتا ہے جس میں قواعد اور ضوابط کی پابندی سے آزاد ہو کر سرسری انداز میں کسی شئے یا موضوع پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتے ہوئے ذاتی خیالات اور احساسات کو دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے۔‘‘

(اعجاز حسن: نئے ادبی رجحانات، ص 247)

مضمون کا طول

انسا ئیکلو پیڈیا آف برٹانکیکا میں اسّے  اور اس کے طول کے متعلق یہ لکھا ہے کہ یہ اوسط طول کا کمپوزیشن ہوتا ہے۔

(انسائیکلو پیڈیا۔انسا ئیکلوپیڈیا ایڈیشن 14، جلد8، ص 716)

ایچ واکر) (Hugh Walkerکاطول مختصرہونا ضروری نہیں سمجھتا۔اس کاکہناہے کہ ادب میںطویل انشائیے لکھے گئے ہیں جیسے جان لاک(John Locke) کا اسّے کنسرننگ ہیومن انڈر اسٹینڈنگ(An Essay Concerning Human Understanding) لیکن جی ای ہڈسن (G.E Hudson)لکھتا ہے کہ یہ دونوں تصانیف اسّے  کے طول کی سرحدوں سے آگے بڑھ گئی ہیں۔ جس طرح اسّے کی تعریف کے بارے میں ادیبوں اور نقادوں میں اختلاف رائے ہے اسی طرح اسّے  کے طول کے متعلق بھی نقاد متفق نہیںہیں۔ اسّے کی وسعت پر روشنی ڈالتے ہوئے انگلش لٹریچر میں ای وی ڈان) (E.V Don لکھتا ہے کہ اسّے کا موڈ اور اس کا موضوع اس کے طول کا تعین کرتا ہے ۔ اس نے طویل اسّے میں فرانسس بیکن (Francis Bacon 1561-1626) کے اسّے آف اڈورسٹی(Essay of Adversity)کا حوالہ دیاہے جو چارسو الفاظ پر مشتمل ہے۔ اور اس نے ڈی کوئنسی(De Quency)کے اسّے  مرڈر ایز اے فائن آرٹ (Murder As A Fine Art) کا تذکرہ کیا ہے جو 24ہزار الفاظ میں لکھا گیا ہے ۔ اور یہ بتانا چاہا ہے کہ اسّے کے طول کو ہم اصول اور قوانین کے ذریعہ سے مقرر نہیں کرسکتے۔ بلکہ اسّے کا مواد اور اس خاص موضوع پر مضمون نگار کے روشنی ڈالنے کا انداز اس کے طول کو گھٹاتااور بڑھاتا رہتا ہے۔  (ای وی ڈان: انگلش لٹریچر، باب 5، ص 167)

مضمون کا موضوع

اسّے کی تعریف اور اس کے طول کی بحث کے برخلاف مضمون یا اسّے  کے موضوع کے متعلق نقادوں اور انشا پردازوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان میں بڑی حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے ۔ ڈبلیو ایچ ہڈسن اسّے  کے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ اسّے کا موضوع غیر محدود ہوتا ہے۔ایچ واکر (H.Walker)نے بھی  اسّے کے موضوع کو غیرمحدود اور وسیع بنایا ہے اور لکھا ہے۔ ’ ’ستاروں سے لے کر خاک کے ذروں اور امیبا سے لے کرانسان تک کوئی موضوع ایسا نہیں ہے جو کسی اسّے کا موضوع بحث نہ بن سکتا ہو‘‘۔ (A loose salley of mind unirregular undigested piece)نے بتایا ہے اس کو عدم تکمیل کا احساس اسّے  یا مضمون کے موضوع پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی۔ مضمون نگار مواد اورعنوان کے انتخاب میں آزاد ہوتا ہے اور وہ چھوٹی سے چھوٹی یا عظیم سے عظیم حقیقت کو اپنے مضمون میں پیش کرسکتا ہے اس طرح دنیا کی کوئی بھی چیز مضمون کا موضوع بن سکتی ہے۔

 اسمتھ کا خیال ہے کہ :

’’دنیا ہر طرف موضوعات برسارہی ہے صرف انسان کو ہم آہنگ ہونے کی دیر ہے ۔‘‘

(اعجاز حسین: نئے ادبی رجحانات، ص 248)

مضمون کی قسمیں

مضمون یا اسّے کی مختلف قسموں اور اس کی جماعت بندی کے طریقوں کی وضاحت کرتے ہوئے ارک مک کالون Eric Mc Collon لکھتا ہے ۔

اسّے کی کئی قسمیں ہیں جن میں بڑا تنوع پایا جاتاہے۔ ان میں سب سے اہم یہ قسمیں ہیں:

-1      ادبی مضامین: اس میںانگریزی کے تمام عظیم ترین اسّے لکھنے والوںکی تحریریں شامل ہیں۔  بیکن، ایڈیسن، لیمپ ، ہیزلٹ اور لی ہنٹ کے مضامین سے لے کرحالیہ انشا پردازوں رابرٹ لینڈ ، جی کے چسٹرٹن اور میکس بیولر کے مضامین تک شامل ہیں ۔ ادبی انشائیہ نگار اس صنف کو اپنے ذاتی خیالات اور فلسفہ حیات سمجھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

.2       تنقیدی مضامین : اس عنوان کے تحت اشیا اور موضوعات کے  مطالعے آسکتے ہیں جیسے مکالمے کا مضمو ن جو لارڈ کلائیو پر لکھا گیا ہے۔ 

(ارک میک کالون۔اے ریفرنس کورس آن اسّے۔ رپورٹ اینڈ پرسی رائٹینگ، ص 26)

آگے چل کر ارک مک کالون نے صحافتی مضامین، سائنٹفک مضامین واقعاتی اور تاریخی مضامین وغیرہ کا ذکر کیا ہے ۔ مصنف نے مضامین کی جو تقسیم کی ہے اس میں مضمون کی تمام اہم قسمیں آگئی ہیں۔ مضمون میں چونکہ سماجی ، سیاسی ، تاریخی اخلاقی اور فلسفیانہ موضوعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے اس لحاظ سے انھیں ارک مک کالون نے زمرو ںمیں تقسیم کیا ہے ۔ مرتب مقالہ نے باب آٹھ اور نو میں مضامین کی اسی طرح تقسیم کی ہے Hugh Walkerنے اس قسم کے مختلف موضوعات پر لکھے ہوئے مضامین کو ایک زمرے میں رکھا ہے ۔ اس طرح واکر نے مضامین کی صرف دو قسمیں بتائی ہیں۔ موخر الذکر کو وہ’ بہترین Par excellence’پاراگسی لنس‘ کہتا ہے اور اول الذکر کو’ عام‘ موضوعات سے متعلق تعبیرکرتا ہے۔

مضمون کی خصوصیات

ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی خصوصیات ہیں جو اسّے  یا مضمون کو دوسری تحریروں سے ممتاز بناتی ہیں۔ اسّے  یا مضمون کے اقتضا اور اس کی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے Virginia woolf ورجینیاو ولف لکھتی ہیں:

’’اسّے میں جو اصول کارفرما دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مسرت میںاضافہ کرے اسّے کو اسی مقصد کی تکمیل کرنی چاہیے ۔  اسّے اپنے پہلے لفظ ہی سے ہم پرایسا جادو کرے جو اس کے آخری لفظ ہی پرٹوٹے۔‘‘

(ورجینیا وولف۔ ماڈرن اسّے  (مضمون) کامن ریڈر، ص 267)

اس سے واضح ہوتا ہے کہ دلچسپی پیدا کرنا اور قائم کرنا اسّے کا پہلا فرض ہے ۔ مختلف اصناف ادب میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے مختلف عناصر سے کام لیا جاتا ہے۔ افسانہ اور ناول میں کہانی، نظم میں غنائیت اور اسّے  میں دلچسپی۔ دلچسپی کا فقدا ن اسّے کی موت ہے ۔ مضمون نگار دلچسپی قائم رکھنے کے لیے مختلف وسیلوں اور مختلف طریقوں سے کام لیتا ہے۔ کہیں اسلوب بیان کی دلکشی، کہیں خیالات و جذبات کی ندرت اور کہیں مزاح اور طنز کے ذریعے سے وہ قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول رکھتا ہے۔

اسّے کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ ادیب کی شخصیت اس کے مذاق، جذبات اور تاثرات اور اس کے نظریہ حیات کی ترجمانی کرے اور اسّے  کے آئینے میں مضمون نگار کی ذات اس کے فن شعور اور ادبی مزاج کا عکس نمایاں طور پر دکھائی دے۔  اسّے  کی ان ہی خصوصیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مانیتس Montiagne نے جو اسّے  کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے لکھا ہے ’’میں اسّے  میں اپنی تصویر کھینچتا ہوں‘‘ اس بات کو پریچڈ Prichard ’ شخصیت کا اظہار‘کہتا ہے ۔ شخصیت کے اظہار کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے اس سے کسی فن کار کی ذات بے نقاب ہوتی ہے۔ پریچڈ اپنی کتاب گریٹ ایسیز آف آل نیشنز Great Essays of All Nations میں لکھتا ہے :

’’اسّے اپنی اس خصوصیت میں شاعری سے مشابہ ہے۔  (ایف ایچ پریچڈ۔ گریٹ ایسیز آف آل نیشنس، ص 4)

   ڈبلیو ہڈسن کا کہنا ہے کہ اسّے  لازمی طور پر شخصی جذبات و خیالات کا اظہار ہوتا ہے اس کی دانست میں مضمون یا اسّے کا مرکزی تصور یہ ہے کہ وہ بحث کے دوران مضمون نگار کے ذہن اور اس کے کردار کو راست طور پر نمایاں کردے۔ الیگزنڈر اسمتھAlexender Smits نے بھی اسّے  میں داخلیت کی اہمیت پر زور دیا ہے ۔ ورجینیا وولف بھی ہڈسن اور اسمتھ کی ہم خیال ہے ۔

مضمون،مقالہ اور انشائیہ کا فرق

انگریزی ادب میں اسّے  رسمی اور غیر رسمی یعنی فارمل او ران فارمل ہوتا ہے۔ موخر الذکر کو Parexcellence کا نام دیا گیا ہے ۔ اردو میں مقالہ، مضمون انشائیہ اپنے ادبی مزاج اور بعض وقت موضوع کے اعتبار سے ایک دوسرے سے ممیز کیے گئے ہیں۔ وزیرآغا لکھتے ہیں کہ انشائیہ اس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازگی اور نئے انداز فکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے تخلیقی مفاہیم کو کچھ اس طرح گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم آگے آکر نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ وزیر آغا نے انشائیہ کے خد و خال میں ورجینیا وولف لیوئس رابرٹ لینڈ اور بریسٹلے گارڈ وغیرہ کو انگریزی کے نمائندہ انشائیہ نگار بتاتے ہوئے انشائیہ اور مقالے کا فرق اس طرح واضح کیا ہے کہ مقالے کی نسبت انشائیے کا ڈھانچہ کہیں زیادہ لچکیلا elasticalہوتاہے اس میں مقالے کی سنگلاخ کیفیت موجود نہیں ہوتی۔

(ایف ایچ پریچڈ گریٹ ایسیز آف آل نیشن، ص 4)

 اکبر حمیدی انشائیے کے بارے میں اپنی کتاب ’جدید اردو انشائیے‘ میں لکھتے ہیں۔ انشائیہ میں پند و عظمت اور رشد و ہدایت کا رنگ غالب نہیں ہوتا۔ موزے تنگ کے الفاظ میں ’ادب کو پوسٹر نہیں بننا چاہیے‘۔  ادب میں سب سے زیادہ اہمیت اس لطف و مسرت کو حاصل ہوتی ہے جو ہم کسی ادب کے ذریعے اکتساب کرتے ہیں اور جس میں مقصدیت جاری و ساری ہوتی ہے۔ آگے چل کر تحریر کیا ہے:

’’انشائیہ نگار ان سب کو جتنے بڑے انداز میں جتنی زیادہ دلکشی سے جتنے زیادہ موثر اسلوب میں جتنے زیادہ نئے پن کے ساتھ کہے گا وہ اتنا ہی بڑا انشائیہ نگار کہلائے گا۔‘‘

(اکبر حمیدی: جدید اردو انشائیہ، ص 9، اکاری ادبیات پاکستان 1991)

 

ماخذ: اردو ادب میں مضمون کا ارتقا، مصنفہ: سیدہ جعفر، پہلی اشاعت: 2019، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

تازہ اشاعت

اکبر الہ آبادی کی شاعری میں مشرق کا تصور، مضمون نگار: امیرحسن

  اردو دنیا، جنوری 2025 تجھے ہم شاعروں میں کیوں نا اکبر معتبر سمجھیں بیاں ایسا کہ دل مانے زباں ایسی کہ سب سمجھیں اکبر الہ آبادی دنیائ...