17/10/24

حشم الرمضان کی نظم نگاری، مضمون نگار: فرزانہ پروین

 اردو دنیا، ستمبر 2024

بنگال کے نظم نگاروں میں ایک اہم اور معتبر نام حشم الرّمضان کا ہے ان کی تصانیف میں دو شعری مجموعوں کے علاوہ ایک تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ ’میری نظمیں میرے گیت‘ 2000 میں شائع ہوئی، ’میری غزلیں‘ (غزلوں کا مجموعہ) 2011 میں منظر عام پر آئی اور تیسری کتاب جو تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے وہ ’قلم بولتا ہے‘کے عنوان سے 2007 میں منصۂ شہود پر آئی ۔

حشم الرمضان پیشے سے ایک مدرس تھے انھیں اردو، فارسی، ہندی اور انگریزی زبان پر دسترس حاصل تھا جس کے نمونے جا بجا ان کی غزلوں اور نظموں میں نظر آتے ہیں۔ حشم الرمضان ایک کہنہ مشق استاد شاعر تھے، شاعری کے رموز و نکات سے بخوبی واقف تھے، شعر و سخن کے میدان میں انھوں نے کئی شعرا کی ذہنی آبیاری کی جن میں معصوم شرقی، واقف رزاقی، وفا سکندر پوری، دل عرفانی، نور اقبال اور زماں قاسمی کے نام قابل ذکر ہیں، یوں تو حشم الرمضان نے غزلیں بھی کہی ہیں لیکن نظموں میں ان کا جوہر کھل کر سامنے آتا ہے، پابند نظمیں ہوں یا آزاد نظمیں ان میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔

حشم الرمضان فطری شاعر تھے ان کی شاعری آورد کی نہیں بلکہ آمد کی شاعری تھی، شعوری کوششوں سے شعر کہنے والوں کی شاعری میں وہ جذباتی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی جو سیدھے دل میں اترنے کی صلاحیت رکھتی ہو، مثال کے طور پر جب ہم ان کی نظمیں ’فردوسِ گم شدہ‘ اور ’قربانی‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کا درد ان کے لہجے سے آشکار ہوتا ہے حشم الرمضان نے اپنی پہلی رفیق حیات حسینہ کی یاد میں نظم ’فردوسِ گم شدہ‘کہی تھی جسے انھوں نے پہلی اور آخری بار عالمِ نزع میں ہی دیکھا تھا اور جس کی یاد جب ان کے دل کو کچوکے لگاتی ہے تو اس طرح کے اشعار وجود میں آتے ہیں       ؎

کسے پھر یاد آؤں گا میں اکثر

کسے میں منتظر پاؤں گا اپنا

بنوں گا دھڑکنیں کس آسرے کی

کہاں ہے اس کی آغوشِ تصور

حشم الرمضان جب درجہ دہم کے طالب علم تھے تو حسینہ سے ان کا نکاح اسی شرط پر ہوا تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ان کے گھر دلہن بن کر آئیں گی لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا لہٰذا حشم الرمضان جب ایم اے کے طالب علم تھے تو چھ سال کے طویل انتظار کے بعد ان کی منکوحہ حسینہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوکر دلہن بننے کی حسرت دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں، حسینہ کے اسی درد کا اظہار وہ نظم ’قربانی‘ میں ان کی زبانی کرتے نظر آتے ہیں      ؎

 ایک آواز سی آتی ہے مرے کانوں میں

منتظر رہ گئی بے تاب جوانی میری

قبل آغاز ہوئی ختم کہانی میری

گومجھے تو نے لگایا نہ کبھی سینے سے

پھر بھی مایوس کبھی میں نہ ہوئی جینے سے

سچا فنکار بہت ہی حساس ہوتا ہے، وہ اپنے سماج اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے آنکھیں چرانا بھی چاہے تو چرا نہیں سکتا اور اس سماج میں جب کسی مظلوم کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو اس مظلوم کی خاموش چیخ پکار، آہ و بکا ایک سچے فنکار کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے اور اس کا دکھ اس کے دل کو چھلنی کرتا ہے اور پھر وہ اپنے احساسات کو قلم کے حوالے کرکے اس درد کو الفاظ کا جامہ پہناتا ہے نوجوان بھکارن، طوائف، طوائف کی بیٹی، بانجھ، آوارہ اسی قبیل کی نظمیں ہیں نظم ’طوائف‘ کے دو بند دیکھیں      ؎

تاریک شب کی اوٹ میں آکر مرے یہاں

ہوتے ہیں میرے عارض و گیسو کے ورد خواں

کچھ ایسے ایسے عابد و زاہد کہ الاماں

ان پر خیالِ خام بھی لانا حرام ہے

میں کیا بتاؤں کون ہوں کیا میرا نام ہے

 

تیری رضا پہ خود کو فدا کر رہی ہوں میں

تاوان مفلسی کا ادا کر رہی ہوں میں

تیرا ہی خون تجھ کو عطا کر رہی ہوں میں

تجھ سے سماج، میرا یہی انتقام ہے

میں کیا بتاؤں کون ہوں کیا میرا نام ہے

میرا مقام و نام تو معروفِ عام ہے

طوائف بھی ہمارے اسی سماج کا ایک حصہ ہے جسے ہم ناپاک، بدچلن، بد کردار اور نہ جانے کن کن الفاظ سے یاد کرتے ہیں، لیکن ہے تو وہ بھی ایک عورت، اور وہ کس کرب و اذیت دکھ درد سے گزرتی ہے، اس کا نمونہ اس بند میں ملاحظہ کریں        ؎

وہ بنتِ تن فروش وہ زخم معاشرہ

اک داغ تھی جبینِ تقدس پہ بد نما

لیکن یہ اس غریب کی ہرگز نہ تھی خطا

اس کو تو آج بھی تھا یہ دھڑکا لگا ہوا

’’آغوش میں ہو جس کی، مرا جسمِ مرمریں

وہ میرا باپ، میرا ہی بھائی نہ ہو کہیں‘‘

(نظم:طوائف کی بیٹی )

مسائل نسواں کو بیشتر شعرا نے الگ الگ انداز سے اپنی نظموں میں پرونے کی کوشش کی ہے لیکن جب ہم حشم الرّمضان کی نظموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی نظموں کے موضوعات اور نوعیت دیگر شعرا سے مختلف اور منفرد پاتے ہیں۔  آل احمد سرور کا قول ہے کہ:

’’فن کی وجہ سے فنکار عزیز اور محترم ہونا چاہیے، فنکار کی وجہ سے فن نہیں‘‘

یہ حشم الرمضان کا فن ہے کہ جہاں وہ حجلۂ عروسی اور نو عروس جیسی نظموں میں یہ دکھاتے ہیں کہ عورت کس بے تابی، بے چینی سے اپنے محبوب کے دیدار کی منتظر ہے، اپنے چہرے پر حیا کی لالی سمیٹے، خوب صورت آنکھوں میں محبوب سے ملنے کے سپنے اور تڑپ لیے دروازے کو نہارتی ہے تو نظم بانجھ میں وہی عورت اپنی دلکشی اور اپنا حسن کھو بیٹھتی ہے، اس کی خوب صورت ہرنی جیسی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں نے جگہ لے لی ہے، اداس زلفیں، پچکے ہوئے گال، آنکھوں میں ویرانی، اجڑی ہوئی مانگ کے ساتھ وہ نظر آتی ہے، کل تک جس محبوب کے تصور سے اس کے چہرے پر گلال  اور دھنک کے رنگ بکھر جاتے تھے آج اسی محبوب اور اس کے اہل خانہ سے اسے وحشت سی ہوتی ہے کہ کہیں ان کی زبان کے خنجر سے اس کا معصوم دل زخمی نہ ہو جائے اور وہ بھی صرف اس لیے کہ وہ اس خاندان کو ایک بچہ نہیں دے سکتی اور وہ بانجھ ہے، لیکن اس کے بانجھ ہونے میں بھلا اس کا کیا قصور ہے مگر وہ مظلوم اس ظالم سماج کو کیا سمجھائے گی وہ لوگوں کا نظریہ تو نہیں بدل سکتی۔ شاعر نے بانجھ عورت کی بے بسی، بے کسی، اس کی اذیت ناکی اور درد کی جو تصویر کھینچی ہے اس کا ایک نمونہ دیکھیں        ؎

بیوہ ہوئی ہے کس لیے شوہر کے جیتے جی

اجڑی ہے کیوں وہ مانگ کہ جو تھی کبھی سجی

 کل تک جو تھی سویرا وہ کیوں آج سانجھ ہے

کیا اس لیے کہ کوکھ سے بیچاری بانجھ ہے

بے بس کو اس طرح کا کوئی کیوں عذاب دے

اے خود غرض سماج تو اس کا جواب دے

حشم الرمضان اس بے حس اور خود غرض سماج سے سوال کر کے اپنی بیداری کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔

حشم الرمضان نے اپنی نظموں میں عورتوں کے مختلف پیکر تراشے ہیں۔ کبھی اس کی وفا، خلوص و محبت کا ذکر کرتے ہیں تو کہیں اس کے کرب و اذیت کی منظر کشی کرتے ہیں اور کہیں عورتوں کے استحصال پر قلم کو جنبش دیتے ہیں۔

حشم الرمضان کی نظمیں فقط عورتوں کے کرب، دکھ، آزار، ان کے استحصال کی آئینہ دار نہیں بلکہ ان میں نشاطیہ پہلو بھی نمایاں ہے، عورتوں کے جذبات اور لطیف احساسات کا بھی ذکر ہے، ایسی نظموں میں شہکار، ادھورے سپنے، برہا رُت اور وہ نرس اہم ہیں ان نظموں میں ہجر کی کسک، محبوب کے دیدار کی آس، درد کا میٹھا میٹھا سا احساس ہے، نظم ’برہا رُت‘ سے ایک بند پیش کرتی ہوں        ؎

برہا کے اندھکار میں میں نینوں کے دیپ جلاؤں

آس نراس کے دو راہے پر بیٹھی نِیر بہاؤں

اب تو رو رو کھو بیٹھی میں جوت بھی ان نینن کی

اب کے سال بھی بیتے نا البیلی رُت ساون کی

مذکورہ بالا جن نظموں کا اب تک میں نے ذکر کیا ہے ان کا تعلق عورت کی ذات سے ہے۔عورتوں کے کئی روپ کو انہوں نے اپنی نظموں میں الگ الگ زاویے سے برتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ حشم الرمضان نے سماج کے دیگر مسائل کو نظر انداز کیا ہے، ان کی نظم ’آوارہ‘ میں ایک یتیم بچے کا درد صاف نمایاں ہے جسے سماج پیار اور پناہ دینے کی بجائے دھتکار دیتا ہے اور یہی بچہ لوگوں کی پھٹکار کھا کر جب غلط راہ اختیار کرتا ہے تو پھر ظالم سماج اسے آوارہ کا نام دیتا ہے نظم ’آوارہ ‘کا یہ بند دیکھیں          ؎

میں نے دیکھی سردی گرمی اور نہ آندھی پانی

پیٹ کی خاطر کہاں کہاں کی میں نے خاک نہ چھانی

لیکن راس نہ آیا مجھ کو خون کا کرنا پانی

یوں ہی ہوتی رہی سدا میری برباد جوانی

جس کی چوکھٹ پر میں پہونچا اس نے ہی دھتکارا

کہنے کو تو سب کہہ دیتے ہیں مجھ کو آوارہ

مطالعۂ کتب سے انسان کے فہم و ادراک کا نظریہ بدل جاتا ہے اس سے خیالات میں وسعت، فکر میں گہرائی و گیرائی آتی ہے لیکن اس کے لیے اعلیٰ ذوق، اور اعلیٰ معیار کا ہونا لازمی ہے حشم الرّمضان غالب و اقبال جیسے شاعر، مفکر اور فلسفی سے بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین کی کتاب ’قلم بولتا ہے‘ میں غالب کے فن، ان کی شعری بول چال اور دیگر موضوعات پر چار مضامین نظر نواز ہوتے ہیں اور نظموں میں بھی غالب اور اقبال کی شخصیت سے متاثر ہوکر وہ پیغمبرِ جہدو عمل، اقبال نامہ، غالب، غالب سے ہم کلام جیسی نظمیں کہتے ہیں۔ اقبال نامہ نظم کی خاصیت یہ ہے کہ شاعر نے اقبال کی تمام تصانیف کو بڑی مہارت سے موضوع بنایا ہے۔ چند اشعار ان نظموں سے ملاحظہ فرمائیں    ؎

ہے عصاے شعر سے تیرے یم عالم دو نیم

خاتمِ فرعونِ دوراں ہے تری ضرب کلیم

(اقبال نامہ)

قوم جو صدیوں سے بے بہرہ تھی سوز و ساز سے

ہو گئی سرگرم تیرے شعلۂ آواز سے

(پیغمبرِ جہد و عمل)

غالب ہے تو مجھ پر، اس کا مجھ کو اقرار ہے

ناممکن ہے غلبہ پائے مجھ پر ہر فن کار

(غالب سے ہم کلام)

حشم الرمضان قومی یکجہتی اور حب الوطنی کے جذبے سے بھی سرشار نظر آتے ہیں، کل کا ہندوستان، مروڑ دو چینیوں کے پنجے،  دیپ جلے دیوالی کے اور ترانۂ امن اس کی عمدہ مثالیں ہیں   ؎

آؤ مل جل کر گن گائیں دھرتی کی ہریالی کے

رنگ برنگے ہیں تو کیا ہم پنچھی ہیں اک ڈالی کے

 (دیپ جلے دیوالی کے)

بھوک، جانی دشمن، ایک آنکھ، ادھیڑ بن، حقیقت، کوشش سے تقدیر بدل وغیرہ بھی ان کی شاہکار نظمیں ہیں۔

نثرنگاری ہو یا شاعری ادبا و شعرا کے جمِ غفیر میں اپنی انفرادیت قائم کرنا ہر کس و ناکس کی بات نہیں اس کے لیے علمیت، لیاقت، استعداد، خدا داد صلاحیت، فن سے دلچسپی، آشنائی اور سنجیدگی ضروری ہے، اس کے علاوہ شاعری کے اسرار و رموز سے واقفیت بھی لازمی ہے، تبھی ایک فنکار ہجوم میں بھی اپنی شناخت بنا پاتا ہے اور حشم الرّمضان میں یہ خوبیاں موجود تھیں۔

حشم الرمضان نے اپنی علمیت اور قابلیت کے لحاظ سے بہت کم لکھا، لیکن جو کچھ بھی نثر و شعر کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے وہ قیمتی اثاثے سے کم نہیں۔

 

Farzana Parveen

The Quraish Institute

5/1, Kimber Street

Kolkata - 700017

Mobile - 7003222679

Email - fparveen150@gmail.com

اردو کی پہلی طنز و مزاح نگار خاتون شفیقہ فرحت، مضمون نگار: محمد نعمان خان

 اردو دنیا، ستمبر 2024

پروفیسر شفیقہ فرحت ایک ہمہ جہت و ہمہ صفات خاتون تھیں۔ تعلیم و تدریس و تربیت ان کا پیشہ تھا لیکن مختلف علمی، ادبی، تہذیبی، سماجی، فلاحی اور اصلاحی انجمنوں سے عملی وابستگی کے سبب ان کا شمار بے لوث سماجی خدمت گار اور تانیثیت کی زبردست حامی اور علمبردار کی حیثیت سے ہوتا تھا۔ ادبی اعتبار سے وہ محقّق، ناقد، مبصر، صحافی، سفرنامہ نویس، فیچر نویس، نثری نظم نگار، بچوں کی ادیبہ، افسانہ نگار، انشائیہ نگار، خاکہ نگار تھیں لیکن ان کا اصل میدان طنزو مزاح نگاری تھا اور یہی ان کی ادبی شناخت بھی تھی۔

غیر معمولی ذہانت  و ذکاوت، مشاہدے کی شدّت، مطالعے کی وسعت، زبان دانی، شعر فہمی اور اظہار و بیان پر قدرت اور سماجی وادبی معاملات و مسائل کے ادراک نے انھیں کامیاب طنزو مزاح نگار بنادیا تھا۔

شفیقہ فرحت نے ناگپور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، معزّز خانوادے میں آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد محکمۂ پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ تعلیم کی روشنی اور اظہار کی آزادی کے سبب غور و فکر کی صلاحیت اور کچھ کرنے اور کرگذرنے کا جذبہ و حوصلہ صِغرسِنی ہی سے اُن میں پروان چڑھنے لگا تھا۔ ناگپور یونیورسٹی سے جرنلزم میں ڈپلوما اور اردو، فارسی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد بغرض ملازمت اردو استاد وہ بھوپال آگئیں۔ بھوپال کا فطری حُسن، اہلِ بھوپال کی زندہ دلی اور ادب نوازی نے ان کے فن کو نہ صرف جلابخشی بلکہ اِس قدر متاثر کیا کہ انھوں نے بھوپال کو اپنا مستقل مسکن اور وطن بنالیا اور اس سرزمین پر نصف صدی سے زیادہ قیام پذیر رہ کر ایسی وقیع ادبی تعلیمی اور سماجی خدمات انجام دیں کہ یہاں کے لوگ انھیں ’آپائے اردو‘ کے نام سے موسوم کرنے لگے اور وہ جگت آپا بن کر بھوپالی خاندانوں میں گُھل مِل کر انھیں کا حصّہ بن گئیں۔

شفیقہ فرحت کی ادبی اور صحافتی زندگی کا آغاز ناگ پور سے ہی ہوگیا تھا۔ ابتداً انھوں نے بچّوں کے لیے دلچسپ کہانیاں لکھیں اور بچّوں کے ہی لیے دو رسالے ’چاند‘ اور ’کرنیں‘ کے نام سے جاری کیے اور ’انقلاب‘ و’بلٹز‘ اخبارات میں کالم لکھنا شروع کردیا تھا۔  بھوپال آکر بڑوں کے لیے کہانیاں لکھنے لگیں۔ان کی کہانیوں پر معروف فکشن نگار قرۃ العین حیدر نے لکھا :

’’سُنا ہوا نام ہے بلکہ ہم نے پڑھا بھی ہے۔ خوب لکھتی ہیں۔‘‘

مشہور افسانہ نگار رتن سنگھ نے ان کی افسانہ نگاری پر اظہارِ رائے کرتے ہوئے لکھا تھا :

’’شفیقہ فرحت کی کہانیاں لطیف جذبوں کی آئینہ دار ہیں۔ انھوںنے نرم و نازک لطیف احساسات کے تانے بانے سے ایسی خوبصورت کہانیاں رچی ہیں جیسے وہ رنگین ریشم کے دھاگوں سے پُھلکاری کے پھول کاڑھ رہی ہوں۔‘‘

بھوپال کے بابائے ظرافت، موجدِ گلابی اردو ملّا رموزی، معروف کالم نگارجوہر قریشی اوربھوپالی اردو کے خالق عبدالاحد خاں تخلص بھوپالی کی طنزو مزاح نگاری، ملک گیر شہرت حاصل کر چکی تھی۔شفیقہ فرحت نے بھی اس میدان میں قدم رکھا اور مردوں کے دوش بدوش اپنی طنزیہ مزاحیہ تحریروں سے انھیں اردو کی پہلی خاتون طنز و مزاح نگار ہونے کا شرف حاصل ہوا اور وہ بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ انڈو امریکن "Who is who"   اور انڈویورپین "Who is who"   اور دہلی اردو اکادمی کی ڈکشنریز اور ترقی پسند مصنفین کی انسائیکلوپیڈیا میں ان کا نام شامل ہے۔ مختلف ملکی اور بین الاقوامی اداروں اور انجمنوں نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں اعزازات عطا کیے۔ برکت اللہ یونیورسٹی، بھوپال نے ان کی شخصیت و خدمات پر پی ایچ ڈی کی سند تفویض کی ہے۔ شفیقہ فرحت جہانیانِ جہاں گشت تھیں۔ انھوں نے چین، جاپان، لندن، پاکستان اور بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والی عالمی طنزو مزاح کانفرنسوں میں نہ صرف حصّہ لیا بلکہ دلچسپ اور پُرلطف سفرنامے بھی تحریر کیے۔

طنزو مزاح کا فن تلوار کی دھار پر چلنے کا فن ہے۔ کسی خاتون کا اس پُرخطر اور نازک راہ کو سلامت روی کے ساتھ عبور کرنا، جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ شفیقہ فرحت نے جب طنزو مزاح کے میدان میں قدم رکھا تو خاتون ہونے کے سبب اُن کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی گئی۔

دھان پان سا جسم مگر چٹانوں سا عزم رکھنے والی شفیقہ فرحت بھلا ہار ماننے والی کہاں تھیں چنانچہ انھوں نے اس دشوار کام کو بطورِ چیلنج اور بطورِ فن نہ صرف اختیار کیا بلکہ ثابت کردکھایا کہ حوّا کی بیٹی آدم کے بیٹوں سے کسی طرح کم تر نہیں ہے۔

شفیقہ فرحت کی طنزیہ مزاحیہ تحریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ و مشاہدہ وسیع تھا جس کے سبب وہ موضوع کی تہہ تک پہنچ جاتی تھیں۔ ان کی تحریروں میں علمیت کی شان، محاکاتی اور جزئیاتی عناصر نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ انسان دوست، حسّاس دل ادیبہ تھیں۔ اُن کی تحریریں محض تفنّنِ طبع کا سامان ہی فراہم نہیں کرتیں بلکہ زیرِلب ہنسی کے ساتھ دعوتِ غور و فکر پر آمادہ بھی کرتی ہیں۔ روتوں کو ہنسانا، غم زدوں کی دل جوئی کرنا ان کا مقصد و مشن تھا۔

تماشائے اہلِ ادب دیکھتے ہیں، ذرا دھوم سے نکلے، عہدنامہ جدید، میری روم میٹ، خط لکھیں گے ہم، اور لکھنا ناول کا، رانگ نمبر، ٹیڑھا قلم، زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی، ہنس لیتے ہیں ہم اپنے آپ پر، گول مال، نیا قطب مینار، ہیراپھیری، ہاتھ میں نشتر کُھلا رشتہ زندگی کا، زندگی کا کباڑ خانہ، قاضی جی دُبلے، پھر نظر میں پھول مہکے اور ’آدھا انگریز‘ وغیرہ ان کے تحریر کردہ ایسے انشائیے، خاکے اور طنزیہ مزاحیہ مضامین ہیں جن میں مصنفہ نے اپنے مشاہدات و تجربات و تاثرات کو فنکارانہ چابک دستی کے ساتھ پُرلطف انداز میں پیش کیا ہے۔

خط لکھنے میں اکثر لوگ بے جا لفّاظی، بے ربطی اور بے ہنگم پن سے کام لیتے ہیں۔شفیقہ فرحت نے ایسے خط نگاروں پر ایک عاشقِ صادق کی زبانی اس طرح طنز کیا ہے :

’’میری جان ! میری زندگی ! میری روح، میری بہار!

تم سلامت رہو ہزار برس! کل تم سہہ پہر کے تین بج کر پچّیس منٹ اور چھبیس سیکنڈ پر کالج کے آہنی دروازے سے برآمد ہوئیں۔ طلوعِ آفتاب کا منظر دیکھا تو نہیں، لیکن جتنا کچھ سُنا ہے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تمہارے طلوع ہونے کا منظر اس سے کہیں حسین اور تابناک ہے۔ کاش کسی دن مقابلہ ہو سکتا، مگر نہیں! سورج تو شاید قیامت کے دن بھی دن کے تین بج کر پچّیس منٹ اور چھبّیس سیکنڈر پر طلوع ہوگا …… خیر، میری مشعلِ فلک تم جب تک اس طرح سے طلوع ہوتی ہو، مجھے سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مطلب!‘‘

شفیقہ فرحت کو اردو اشعار کی تخریب کاری، الفاظ کی تحریف یا الٹ پھیر سے اپنے طنزیہ مزاحیہ مضامین، انشائیوں اور خاکوں کو دلچسپ اور پُرلطف بنانے میں خاص مہارت حاصل تھی۔ شفیقہ فرحت نے اپنی مزاحیہ تحریروں میں ’بریکٹ‘ کا استعمال بھی بار بار کیا ہے جس کے سبب مضمون کی فطری روانی، بے ساختگی، لطافت، رمزیت و اشاریت پر آنچ آتی محسوس ہوتی ہے۔ان کا یہ عمل جب حدود سے متجاوز ہوجاتا ہے تو مزاحیہ تحریروں میں آمد کی بجائے آورد کا عنصر غالب نظر آنے لگتا ہے۔ بقولِ ابراہیم یوسف :

’’محترمہ طنزنگاری کرتی ہیں تو اس میں مزاح خواہ مخواہ پیدا ہوجاتا ہے اور مزاح نگاری پر اترتی ہیں تو طنز اس میں ہاتھ پیر پھیلادیتا ہے۔‘‘

لیکن شفیقہ فرحت کے خاکے مذکورہ بالا عیوب سے پاک ہیں۔ یہ خاکے ان کی حسِّ مزاح، جولانیِ طبع کے غمّاز ہیں جن میں ماضی کی سنہری یادوں کو بھی جگایا گیا ہے اور انشا نگاری کی شان بھی دکھائی دیتی ہے۔ نہروجی، بل رام جاکھڑ، فیض احمد فیض اور کیفی اعظمی پر لکھے گئے خاکوں میں رپورتاژ کا رنگ غالب ہے لیکن بے تکلف ساتھیوں پر لکھے گئے خاکوں میں مزاح کی چاشنی اور طنز کا عنصر بھی شامل ہے۔ مثال کے بہ طور معروف شاعر پریم وار برٹنی کے خاکے ’آدھا انگریز‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :

’’...کسی رسالے میں ایک عجیب و غریب نام دیکھ کر یوں چونکے جیسے زُو میں پہلی مرتبہ جراف کو دیکھ کر چونکے تھے۔ پریم واربرٹنی... نام چھوٹا، جِراف کے سر کی طرح اور وطنیت لمبی، اس کی گردن کی طرح۔ خیر یہ تو سائڈ ایفیکٹس تھے چونکنے کا اصل سبب نام کے اجزائے ترکیبی کی بے ترتیبی نہیں تھا بلکہ اس برٹنی نے ہمیں حوضِ حیرت میں گلے گلے اُتار دیا تھا۔ ہمارے شاعروں کو شاید بھیڑ بھڑکّے میں کھوجانے کا دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ احتیاطاً تخلص کے ساتھ اپنا پوسٹل ایڈریس بھی نتّھی کرلیا کرتے تھے مثلاً سعدی شیرازی، ولی دکنی، نظیر اکبرآبادی، اصغر گونڈوی، جگر مرادآبادی، سلام مچھلی شہری وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح آپ نے ’برٹنی‘ کی تختی گلے میں لٹکالی ہے۔ مگر برٹن آخر ہے کہاں؟ دیگر مضامین کی طرح ہمارا جغرافیہ بھی خاصا کمزور تھا لہٰذا کسی قسم کی کُمک کی امید نہ تھی۔ پھر آیاتِ الٰہی کی طرح ایک دم نزول ہوا کہ ’برٹن‘ سے مراد Britain   یعنی برطانیہ ہے اور آپ دقیانوسی ’پریم برطانوی‘ نہ لکھ کر ڈرامائی انداز میں برٹنی لکھتے ہیں لیکن یہ کم بخت ایک وار بھی تو راہ میں حائل ہوگئی ہے۔ اب ہماری سمجھ میں یہ نہیںآرہا تھا کہ اس ’وار‘ کو کس پہ وار دیں اور کس کے ساتھ فٹ کردیں... معاملہ پھر الجھنے لگا تھا لیکن خیر غیب سے مضامین کی آمد یا غیبی امداد سے یہ حل نکل آیا کہ پریم وار برٹنی وہ حضرت ہیںجو کسی ورلڈ وار کے دوران برطانیہ میں پیدا ہوئے اور ایک عرصے تک ہم آپ کو آدھا انگریز سمجھتے رہے۔‘‘

شفیقہ فرحت کی طنز و مزاح نگاری پر کئی مشاہیر ادب نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔کوثر چاند پوری نے ان کے فن کو ’میٹھے طنزو مزاح‘ سے تعبیر کیا ہے۔ پروفیسر گیان چند جین ان کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’شفیقہ فرحت ہندوستان کی نمائندہ طنزو مزاح نگار ہیں جو اپنی تحریروں کو نہ صرف خوش کلامی و خوش گفتاری کے رنگ دے رہی ہیں بلکہ اُن میں فانوسِ فکرو خیال کی جھمک کے زاویے بھی بنا رہی ہیں۔ اس سے اُن کے معیارِ فن کا اندازہ ہوتا ہے۔‘‘

معروف ہندی ادیب ہری شنکر پرسائی کا یہ اعتراف شفیقہ فرحت کے لیے ہی نہیں اردو کے ہر طنزو مزاح نگار کے لیے ہے وہ لکھتے ہیں :

’’ہم نے آپ کی کئی چیزوں کا انوواد کرکے چھاپا ہے۔ ہمارے یہاں آپ جیسا ذہن کم ملتا ہے۔‘‘

شفیقہ فرحت نے ساری عمر طنزو مزاح لکھا۔ ان کے تحریر کردہ خاکوں، انشائیوںاور طنزیہ مزاحیہ مضامین کے سات مجموعے شائع ہوئے لیکن ان کی کئی تحریریں ہنوز غیر مطبوعہ ہیں۔شفیقہ فرحت اردو کی اوّلین طنزو مزاح نگار خاتون تھیں۔ آج بھی ان جیسی کوئی دوسری خاتون طنزو مزاح نگار نظر نہیں آتی۔میری رائے میں وہ ایسی طنزو مزاح نگار تھیں کہ جن کے ذکر کے بغیر اردو طنزو مزاح کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتیn

Mohammad Nauman Khan

204, Gulshan-e-Desnavi

Green Valley, Airport Rd,

Bhopal (M.P.) - 462030

Mob. : 9891424095

mnkhanncert@gmail.com

پروف اور اس کی تصحیح،ماخذ: فن طباعت، مصنف: بلجیت سنگھ مطیر

 اردو دنیا، ستمبر 2024

پروف: ہر مطبع میں پروف اٹھانے کے لیے بہت ہی ماہر کاریگر ہونا چاہیے۔ ہر زید و بکر کو پروف اٹھانے کا کام سونپنا بہت ہی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے ہمارے ملک میں پروف اٹھانے کا کام بہت ہی معمولی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے بیشتر چھاپہ خانوں میں پروف اٹھانے کے لیے قلی مقرر کردیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پروف کی اہمیت کو بہت کم لوگ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ پروف کی تصحیح کو مطبع کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔ ہر مطبع کے مالک کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اگر پروف اٹھانے والا اناڑی ہوگا تو یقینا وہ پروف اٹھانے کے طریقۂ کار سے ناواقف ہونے کی وجہ سے جوں توں کرکے پروف اٹھانے کی کوشش میں ٹائپ کو توڑ دے گا۔ اس کے علاوہ وہ صاف پروف نہیں اٹھا سکے گا حالانکہ اعلیٰ طباعت کے لیے پروف اتنا صا ف ہونا چاہیے کہ اس کا ہر ایک حرف مکمل طور پر واضح ہو اور آسانی سے پڑھا جاسکے۔ پروف کا جو حرف صاف نہیں ہوگا اس کی تصحیح نہیں ہوسکے گی اور پروف میں غلطیاں رہ جائیں گی۔

تصحیح کے کام میں آسانی مہیا کرنے کے لیے پروف پوری طرح صاف ہونا چاہیے۔ صاف پروف نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ دباؤ جس قدر ممکن ہو، کم ڈالا جائے کیونکہ زیادہ دباؤ پڑنے سے سیاہی حروف میں بھر جاتی ہے اور پروف غیرواضح ہوجاتا ہے،لیکن اس کے ساتھ اس بات کا دھیان بھی رکھنا چاہیے کہ سیاہی اتنی ہلکی بھی نہ ہو کہ پروف پڑھاہی نہ جاسکے۔

پروف اٹھانے کے لیے مندرجہ ذیل باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے:

1        کمپوز کیا ہوا مواد گیلی میں اپنی اصل حالت میں رہنا چاہیے کیونکہ اگر مواد دائیں بائیں ہل جائے گا تو ایک طرف کا پروف اٹھے گا اور دوسری طرف کا غیرواضح رہے گا۔

2        گیلی میں مودا کو اچھی طرح بندھا ہوا ہوناچاہیے۔ ڈھیلا مواد ہونے سے ٹائپ بکھر جاتے ہیں نیز پروف صاف نہیں اٹھتا۔

3        مواد کو بکھرنے سے بچانے کے لیے پروف پریس مشین پر گیلی رکھنے کے بعد کمپوز کیے ہوئے مواد کی دائیں اور بائیں طرف لکڑی کی اسٹک جما دینا چاہیے۔ا س عمل سے پروف کے دونوں طرف یکساں دباؤپڑتا ہے اور پروف صاف نکلتا ہے۔

4        پروف اٹھانے سے پہلے گیلی پروف مشین سے اٹھا لینی چاہیے یعنی گیلی میں مواد کو رکھ کر پروف نہیں نکالنا چاہیے۔ اس سے ٹائپ پر پڑنے والا دباؤ سخت ہوجاتا ہے اور ٹائپ کے کونے ٹوٹ جاتے ہیں نیز حروف میں روشنائی بھر جاتی ہے اور پروف صاف نہیں اٹھتے۔

5        پروف لینے کا کاغذ مواد کی چوڑائی سے کافی زیادہ چوڑا ہونا چاہیے تاکہ تصحیح کے لیے دونوں طرف کافی حاشیہ رہ جائے اور غلطیوں کی آسانی سے نشان دہی کی جاسکے۔

6        جس کاغذ پر پروف نکالنا ہو اس پر برش سے پانی لگا دینا چاہیے تاکہ کاغذ نرم اور ملائم ہوجائے اور پروف بڑھیا اٹھ سکے۔ یاد رہے کہ گیلے کاغذ پرپروف صاف اور واضح اٹھتا ہے۔

7        گیلی میں کمپوز کیے ہوئے مواد کی لمبائی 16 سے 20 تک ہونی چاہیے کیونکہ اس سے بڑا پروف اٹھانے میںکافی دقت اور پریشانی ہوتی ہے نیز پروف ریڈر کو گیلی پروف بار بار سمیٹنا پڑتا ہے جس سے تصحیح پر برا اثر پڑتا ہے۔ عام طور پر ایک گیلی پروف پر کتاب کے تین صفحات سے زیادہ کا مواد نہیں ہونا چاہیے۔

پروف کی قسمیں

پروف تین قسم کے ہوتے ہیں (1)  گیلی پروف (2) صفحاتی پروف (Page Proof) (3) فارم پروف، گیلی پروف میں ٹھوس مواد رہتا ہے۔ صفحاتی پروف میں ہر ایک صفحے پر صفحہ نمبر ڈالنے کے بعد مطلوبہ صفحے کے سائز کے مطابق پروف اٹھایا جاتا ہے۔ فارم پروف میں پورے فرمے کے کل صفحات (ان کی تعداد 16، 8 یا 4 ہوسکتی ہے)  کی ترتیب کے مطابق پروف اٹھایا جاتا ہے۔

پروف مشین

پروف اٹھانے کی مشینیں دو طرح کی ہوتی ہیں (1) ہینڈ پریس (2) بانڈر کک پروف مشین۔

ہینڈ پریس

پرانی طرز کی مشین ہے۔ طباعت کے ابتدائی زمانے میں اسی مشین پر کتابیں شائع کی جاتی تھیں۔ اس مشین کے کئی چھوٹے بڑے سائز ہوتے ہیں۔ ہینڈ پریس پر پرو ف اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ مواد کو اسٹون پر ہی درست کرلیا جائے کیونکہ پروف اٹھانے کے لیے اس مشین کا ہینڈل اتنی سختی سے دبا دیا جاتا ہے کہ گیلی پر رکھے ہوئے مواد کے حروف ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہینڈ پریس پر پروف اٹھانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مواد کو مشین کے اسٹون کے عین درمیان میں رکھا جائے۔ا س کے بعد اس کے دونوں طرف اسٹک لگا دی جائیں۔ کاغذ کو بھگو کر مواد کے اوپر نہایت احتیاط سے رکھا جائے تاکہ اس کے دونوں طرف غلطیاں نکالنے کے لیے حاشیہ رہ جائے۔ پھر اس کے بعد مشین کے تختے کو آہستہ آہستہ کاغذ کے اوپر رکھ دیا جائے اور ہینڈل کو گھما کر مواد پر دباؤ ڈالا جائے۔ اس سے مواد کے ٹائپ کے نقوش کاغذ پر ابھر آتے ہیں۔ اس کے بعد ہینڈل چھوڑ دیا جائے۔اب پروف تیار ہوگیا۔

بانڈرکک پروف مشین

پروف اٹھانے کے لیے بہت ہی کارگر ثابت ہوئی ہے۔ اس مشین میں گیلی اور مواد دونوں کو رکھا جاسکتا ہے۔ا س مشین میں دو بیلن ہوتے ہیں جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک گھوم جاتے ہیں۔ اس کے بعدٹائپ پر بھیگا ہوا کاغذ رکھ کر سلینڈر گھما دیا جاتا ہے اور پروف اٹھ جاتا ہے۔

مندرجہ بالا دستی مشینوں کے علاوہ بجلی کی مدد سے چلنے والی مشینیں بھی تیار ہوگئی ہیں۔ بجلی کی مشین سے ایک منٹ میں چالیس پروف اٹھ سکتے ہیں، اس میں صرف گیلی کو ہاتھ سے لگانا پڑتا ہے باقی سارا کام خودبخود ہوجاتا ہے لیکن بجلی کی یہ مشین بڑے بڑے چھاپہ خانوں میں ہی کارگر ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہے نیز یہ جگہ بھی زیادہ گھیرتی ہے۔

اس کے علاوہ ہندوستان میں بھی پروف پریس تیار ہوگئے ہیں۔ ان مشینوں کی ساخت بہت ہی سیدھی سادی ہے۔ یہ مشینیں سستی بھی بہت ہیں اور مطبع میں جگہ بھی بہت کم گھیرتی ہیں۔ ذاتی اور ملکی مفاد کے پیش نظر ان مشینوں کا استعمال کرنا بہتر ہے۔

مشین کے بیلن

پروف اٹھانے کے لیے بیلن گھماتے وقت یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کی حرکت مواد کی پیشانی کی طرف سے مواد کے پاؤں کی طرف ہونی چاہیے۔ دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں بیلن کو کبھی نہیں گھمانا چاہیے کیونکہ اس طرح بیلن گھمانے سے مواد کے حروف فوراً ڈھیلے ہوکر بکھر جاتے ہیں۔

روشنائی لگا دینے کے بعد بیلن کو فوراً ہی کسی قریبی کھونٹی پر ٹانگ دینا چاہیے لیکن اس سے پہلے بیلن پر سے سیاہی پونچھ دینی چاہی تاکہ بیلن پر سیاہی جمنے نہ پائے۔ پروف اٹھانے کے بعد مواد کے ٹائپ کو بھی برش سے صاف کردینا ضروری ہے تاکہ سیاہی حروف میں جمنے نہ پائے اورنہ تصحیح کرتے وقت حرف ساز کو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔

پروف اور مسودہ (کاپی) کی نشان دہی

پروف اٹھا لینے کے بعد حرف ساز کو سبھی پروف اپنے سامنے رکھ لینے چاہئیںاور مسودے سے ملا کر پروف پر گیلی کا نمبر اور کتاب کا نام درج کردینا چاہیے تاکہ صفحہ سازی کے وقت موا دکی ترتیب آسانی سے قائم کی جاسکے نیز اسی سائز اور اسی قسم کی دوسری کتاب کے مواد سے خلط ملط نہ ہونے پائے۔

اس کے بعد پروف اور اصل مسودہ پروف ریڈر (تصحیح کار) کے پاس بھیج دینا چاہیے۔ا گر مسودے کے کسی صفحے کا ایک حصہ حرف ساز کو اپنے پاس رکھنا پڑے تو اس صفحے کو اس مقام سے پھاڑ لینا چاہیے اور صفحے کا وہ حصہ جسے پروف  کے ساتھ بھیجنا ہے اور وہ حصہ جسے اپنے رکھنا ہے دونوں پر نمبر ڈال دینا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر مسودے کے مذکورہ صفحے کا اصل نمبر 16 ہے تو پروف ریڈر کو بھیجے جانے والے حصے پر 16 نمبر اور اپنے پاس رکھے جانے والے حصے پر `16-A ڈال دینا چاہیے۔

پروف کی تصحیح

پہلے باب میں بتایا جاچکا ہے کہ پرو ف ریڈنگ کا شعبہ کمپوزنگ اور مشین کے شعبوں کے نزدیک ہی ہونا چاہیے لیکن مشین کے شور و غل سے محفوظ بھی ہونا چاہیے کیونکہ بعض دوسرے اوصاف کے ساتھ پروف ریڈر کو یکسوئی کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے۔ا گر شور و غل سے وہ لگاتار مخل ہوتا رہے تو اسے یکسوئی حاصل نہیں ہوسکے گی اور پروف کی تصحیح اچھی طرح نہیں ہوسکے گی اور اس میںا غلاط رہ جائیں گی۔

پروف ریڈر کی میز اتنی بڑی ہونی چاہیے کہ وہ مسودے اور پروف اچھی طرح سنبھال کر رکھ سکے اور مختلف پروف اور ان کے مسودے آپس میں خلط ملط نہ ہوجائیں۔ پروف پڑھنے میں سب سے زیادہ زور آنکھوں پرپڑتا ہے اس لیے قدرتی یامصنوعی روشنی کا معقول انتظام ہونا چاہیے تاکہ پروف ریڈر کو کسی قسم کی دماغی پریشانی اور جسمانی کوفت نہ ہو اور وہ اپنی تمام تر توجہ پروف کی تصحیح پر صرف کرسکے۔ ایک بات پر اور دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ پروف ریڈر کو بار بار مخل نہ کیا جائے کیونکہ اس کا کام انتہائی نازک ہوتا ہے۔ خلل اندازی سے اگر اس کی توجہ بار بار بٹتی رہے گی تو غلطیوں کے رہ جانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

کاپی ہولڈر

پروف ریڈر کے ساتھ ایک قابل کاپی ہولڈر کا ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ اس میں کم ازکم اتنی قابلیت ضرور ہونی چاہیے کہ وہ مسودے کو صحیح طرح پڑھ سکے۔ اس کو مسودہ اس طرح پڑھنا چاہیے کہ پروف ریڈر اس کی ا ٓواز کو بغیر کسی دقت کے سن سکے اور غلطیوں کی نشان دہی کرسکے۔

پروف ریڈر بہت ہی قابل شخص ہونا چاہیے۔ اس کو زبان پر قدرت حاصل ہونی چاہیے۔ اس کی نظریں ہمیشہ کمپوز کیے ہوئے مواد پر جمی رہنی چاہئیںا ور ذہن میں کتاب یا مضمون کے موضوع کے متعلق کسی قسم کااثر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کا کام اصل مسودے کے مطابق پروف کی تصحیح کرنا ہے۔ اگر اس کا دماغ موضوع سے متاثر ہوتا رہے تو الفاظ کا املا اور چھوٹے بڑے ٹائپ کے فرق کو وہ نظرانداز کرجائے گا۔ اس کے علاوہ مختلف موضو عات کے لیے مقرر کیے گئے رموز و علامات کا اسے پوری طرح علم ہونا چاہیے۔ مطبع کے مختلف شعبوں کے کام کے بارے میں بھی اسے معلومات حاصل ہونی چاہئیں۔ مثلاً مختلف سائز کے کاغذوں اور ٹائپ کے سائز وغیرہ کا اس کو علم ہونا چاہیے۔ چونکہ املا، اور گرامر کے سہو ٹھیک کرنا اس کے فرض میں شامل ہے لہٰذا اس کا گرامر کا گہرا مطالعہ ہونا چاہیے۔ اگر کوئی کتاب باتصویر ہے تو یہ دیکھنا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے کہ تصویریں مناسب جگہ پر ہیں یا نہیں! صفحات ٹھیک طرح سے امپوز ہوئے ہیں یا نہیں، پرنٹ لائن (Print Line) دی ہوئی ہے یا نہیں، اگر مسودے میں کوئی قابلِ اعتراض بات ہو جس سے مطبع پر حرف آنے کا احتمال ہو تو اس کو چاہیے کہ مطبع کے مالک یا منیجر کو فوراً آگاہ کردے۔

مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ اسے زبان پر عبور حاصل ہونا چاہیے۔ اس کی نظریں غلطیوں کو  فوراً پکڑ لیں، گرامر کا اس کو علم ہونا چاہیے اور رموز و علامات کا صحیح استعمال بھی اسے آتا ہو، لیکن اس سے بھی زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ تحمل مزاج ہو۔ ہمارے ملک میںا س وصف کی بہت ہی کمی ہے، کیونکہ یہاں کے لوگ پریس کاپی تیار کروانا فضول کام سمجھتے ہیں، جیسے تیسے مسودے پریس میں بھیج دیے جاتے ہیں کہ جن کو کمپوزیٹر اچھی طرح پڑھ نہیں سکتے۔ اس سے کمپوزنگ (کتابت) میں اتنی زیادہ غلطیاں ہوجاتی ہیں کہ پروف ریڈر اکتاہٹ محسوس کرنے لگتا ہے اور پروف اچھی طرح نہیں پڑھے جاتے۔

تصحیح کا طریقہ

سب سے پہلے پروفر ریڈر کو اپنی نظر کی مدد سے ہر ایک سطر کو دو حصوں میں بانٹ لینا چاہیے۔ بائیں نصف سطر کی غلطیاں پروف کی بائیں طرف اور دوسرے نصف کی غلطیوں کی نشان دہی پروف کی دائیں طرف کرنی چاہیے (اردو پروف کے لیے یہ ترتیب دائیں اور بائیںہوجائے گی غلطیوں کی نشان دہی ترتیب وار ہونا چاہیے تاکہ حرف ساز ان کی تصحیح اسی ترتیب سے کرسکے۔ ہر ایک سطر کی غلطیاں اسی سطر کے سامنے علامتوں کے ذریعے لگانی چاہئیںا ور ان کے آگے ایک ترچھی لکیر لگا دینی چاہے۔ یہ ترچھی لکیر ایک غلطی کے اختتام کی علامت ہے۔ دونوں طرف حاشیے میں تصحیح کی علامتیں کاغذ کے بائیں سرے سے شروع ہوکر دائیں طرف کو کمپوز کیے ہوئے مواد کے برابر آجانی چاہئیں۔ لکیر یا حروف  اتنے بڑے نہیں ہونے چاہئیں کہ وہ نیچے کی سطر کو بھی گھیرلیں او تصحیح کے نشان آپس میں خلط ملط ہوجائیں۔ فل اسٹاپ، کوما، کولن اور سیمی کولن کے اردگرد دائرہ بنا دینا چاہیے۔ اگر کوئی لفظ ہٹا کر اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ رکھنا ہو تو پروف میںا س لفظ کو اچھی طرح کاٹ دینا چاہیے اور حاشیے میں جہاں اس کی جگہ ہو دوسرا لفظ واضح حروف میں بنا دینا چاہیے۔ اگر کسی جگہ پر نیا جملہ جوڑنا ہو اور حاشیے میں اتنی جگہ نہ ہو تو اس جگہ پر کوئی علامتی نشان لگا کر پروف کے اوپر یا نیچے اسی طرح کانشان بنا کر وہ جملہ لکھ دینا چاہیے۔ یہ نشان تصحیح کے نشانات سے مختلف ہونا چاہیے۔ اگر نئے جملے کئی جگہوں پر بنانے پڑیں تو اعداد کی مدد سے ان کو 1، 2، 3… کی ترتیب سے کاغذ کے اوپر یا نیچے لکھ دینا چاہیے۔

پروف کی تصحیح کرلینے کے بعد پروف ریڈر کو اپنے دستخط اور تاریخ ڈالنی چاہیے۔ اگر وہ پروف دوسری بار پڑھنا چاہتا ہے تو اسے پروف کی پیشانی پر واضح ہدایت لکھ دینی چاہیے۔ا گر پروف کی تصحیح سے اس کی تسلی ہوگئی ہے تو پروف پر چھاپنے کی ہدایت دے دینی چاہیے۔

تصحیح کے نشان

پروف پر غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کچھ نشان اور علامتیں مروج ہوچکی ہیں۔ ان نشانات اور علامات کا مکمل علم ہر پروف ریڈر اور کمپوزیٹر کو ہونا چاہیے کیونکہ ان کے بغیر نہ تو غلطیوں کی نشان دہی ہوسکتی ہے اور نہ ہی ان کی تصحیح ممکن ہے لہٰذا مندرجہ ذیل نشانات اور علامات ہر پروف ریڈر کو ازبر ہونے چاہئیں۔

نشانات اور علامات

          کاٹو حذف کرو       سطر ٹھیک کرو (پہلو کی جانب)

          کاٹو اور باہم ملاؤ       سطر سیدھی کرو (عرض کی جانب)

          درمیان میں فاصلہ دو دونوں کو ملاؤ

          فاصلہ ختم کرو        نیا پیرا بناؤ

          فاصلہ کم کرو         نیچے کی سطر اوپر کی سطر سے

          جوں کا توں رہنے دو   جوڑو

          بڑے حروف بناؤ     لفظ کا پورا املا لکھو

          درمیانی سائز کے حروف بناؤ     مسودہ دیکھو

          پہلا حرف بڑا اور باقی کے درمیانی فل اسٹاپ (1) ہندی کا فل اسٹاپ

          سائز کے بناؤ         (-) اردو کا فل اسٹاپ

          چھوٹے حروف بناؤ   کاما لگاؤ

          موٹے/ کالے حروف بناؤ        کولن لگاؤ

          ترچھے حروف بناؤ    سیمی کون لگاؤ

          رومن حروف بناؤ    ہائفن لگاؤ

          ٹائپ غلط فانٹ کا ہے  ڈیش لگاؤ

          ٹائپ کو سیدھا کرو    سوالیہ نشان لگاؤ

          ٹائپ ٹوٹا ہوا ہے، بدلو اس کی پڑتال کی جائے

          درمیانی فاصلہ برابر کرو         قوسین لگاؤ

          جگہ بدلو   بریکٹ لگاؤ

ان کے علاوہ حواشی کی وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل نشانات کا جاننا بھی ضروری ہے:

          ایٹ دی ریٹ آف    اسٹار

          ڈیگر      ڈبل اسٹار

          ڈبل              ڈیگر  1,2,3

پروف کے متعلق ضروری باتیں

1        پروف صاف اور واضح ہونا چاہیے۔ اس کے دائیں بائیں کافی چوڑا حاشیہ ہونا چاہیے۔ اگر پروف ایسا نہ ہو تو پروف ریڈر کو دوسرا پروف طلب کرنا چاہیے۔

2        پروف ریڈر کو کم ازکم دوبار پروف پڑھنا چاہیے۔د وسرے پروف میں بھی اگر زیادہ غلطیاں ہوں تو پروف ایک بار اور پڑھنا چاہیے۔        

3        مصنف کے پاس جو پروف جائے اس میں املا اور ہجے کی غلطیاں نہیں ہونی چاہئیں۔

4        صفحہ سازی سے پہلے مصنف کی نکالی ہوئی غلطیوں کی تصحیح کرکے اچھی طرح پڑتال کرلینی چاہیے۔

5        اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ پوری کتاب کا صفحہ نمبر، پیشانی، باب نمبرا ور ضمیمہ وغیرہ کتاب کے پہلے فرمے کے مطابق ہی ہوں نیز وہ ترتیب وار ہوں۔

6        فارم کا اشاریہ نمبر ٹھیک ٹھیک لگایا گیا ہے یا نہیں۔

7        فارم پروف پڑھتے وقت صرف غلطیاں نکالنے پر ہی توجہ مرکوز نہیں رہنی چاہیے بلکہ پہلے آنے والے صفحے کی آخری سطر کو اگلے صفحے پر آنے والی پہلی سطر سے ملا کر دیکھ لینا چاہیے تاکہ ان میں باہمی ربط ہو کیونکہ کئی بار صفحہ سازی کے وقت کئی سطریں نکل جاتی ہیں یا اِدھر اُدھر لگ جاتی ہیں۔

8        مشین پر بھیجنے سے پہلے پروف اس طرح ملا لیا جائے کہ مشین پر پروف میں نئی غلطیاں نہ نکلیں کیونکہ مشین پر غلطیوں کی تصحیح کرنے میں وقت بہت ضائع ہوتا ہے اور کام کی رفتار بہت کم ہوتی ہے۔ غلطیوں کی تصحیح کرنے کے لیے جتنی دیر تک مشین رکی رہے گی مطبع کو اتنا ہی زیادہ نقصان ہوگا۔

9        مشین پروف کو اچھی طرح فارم پروف سے ملا لینا چاہیے۔ مشین پروف میں مندرجہ ذیل باتوں کا دھیان رکھنا چاہیے۔

1        کوئی سطر ٹیڑھی نہ ہو۔

2        صفحہ نمبر ترتیب وار ہو۔

3        حروف اور سطروں میں اتنا زیادہ دباؤ نہ ہو کہ ایک طرف کے ٹائپ دوسری طرف ابھر آئیں۔ مشین پروف میں اسپیس اکثر ابھر آیا کرتی ہیںا ن کو دبا دینا چاہیے۔ کبھی کبھی ایک آدھ ٹائپ ٹوٹ جاتا ہے یا گر جاتا ہے اس کو فوراً تبدیل کروا دینا چاہیے۔

4        اگر کتاب میں تصویریں، اشکال یا نقشے ہوں تو اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ الٹے نہ لگ جائیں نیز وہ مناسب جگہ پر ہوں۔

10      جدول سازی کی صورت میں ہر ایک خانے (کالم) کی پیشانی کو دھیان سے پڑھنا چاہیے۔

11      حواشی پر خاص طور پر نظر رکھنی چاہیے۔ جن علامتی نشانوں کا استعمال متن میں کیا گیا ہو وہی نشان حواشی میں ہونے چاہئیں جس صفحے کے متن میں علامتی نشان ہو حواشی اسی صفحے پر آجانا چاہیے۔

12      غلطیوں کی تصحیح کرنے کے لیے کبھی کبھی مصنف پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ مصنف اپنے مضمون کا عالم ہوتا ہے لیکن فن تصحیح سے واقف ہونا اس کے لیے ضروری نہیں ہوتا۔ کتاب کو ٹھیک چھاپنا مطبع کا کام ہے، مصنف کا نہیں۔ غلط یا بھدی چھپائی سے مطبع کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے مصنف کو نہیں۔

13      مصنف جس پروف پر پرنٹ آرڈر دے اسے حفاظت سے رکھنا چاہیے۔

14      مشین پروف دیکھتے وقت اس بات کا بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ صفحہ سازی ٹھیک ہوئی ہے یا نہیں یعنی فرمے کا ہر ایک صفحہ ترتیب وار ہے یا نہیں۔

اہم ہدایتیں

1        گیلی پروف پریس میں دوبار پڑھا جانا چاہیے۔

2        ایک گیلی پروف مصنف کے پاس جانا چاہیے تاکہ اگر وہ اس میں کوئی کاٹ چھانٹ یا اضافہ کرنا چاہے تو ابتدائی مراحل ہی میں کرلے مبادا فارم بن جانے پر مصنف کی طرف سے کی گئی تراش خراش کو گھٹانے بڑھانے سے صفحات اِدھر اُدھر ہوجاتے ہیں جس سے مطبع کا کام غیرضروری طور پر بڑھ جاتا ہے۔

3        مصنف کے پڑھے ہوئے پروف کی تصحیح کرکے اور ایک بار پریس میں پڑھ کر صفحہ سازی کرنی چاہیے۔

4        صفحاتی پروف اور مشین پروف پریس ہی میں پڑھے جانے چاہئیں۔ البتہ تکنیکی موضوعات سے متعلق کتابوں کے مشین پروف مصنف کو بھیج دینے چاہئیں۔

5        مصنف کی نکالی ہوئی غلطیوں کو مشین پروف سے پڑتال کرکے ہی پرنٹ آرڈر دیا جانا چاہیے۔

 

ماخذ: فن طباعت، مصنف: بلجیت سنگھ مطیر، سنہ اشاعت: دوسرا ایڈیشن 1988، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

تازہ اشاعت

حشم الرمضان کی نظم نگاری، مضمون نگار: فرزانہ پروین

  اردو دنیا، ستمبر 2024 بنگال کے نظم نگاروں میں ایک اہم اور معتبر نام حشم الرّمضان کا ہے ان کی تصانیف میں دو شعری مجموعوں کے علاوہ ایک تنق...