18/10/24

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

 اردو دنیا، ستمبر 2024

اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہمکنار ہوا، کبھی تنزلی نے آکر گھیر لیا، پھر بھی یہاں کی تہذیب اور تمدن میں ہم آہنگی، تسلسل اور یکسانیت نظر آتی ہے۔ یہ چشمۂ تہذیب و تمدن بدھ اور اشوک کے زمانے سے جاری ہے اور گاندھی اور ونوبا کے زمانے میں بھی لوگوں کو فیض یاب کررہا ہے۔ ہندوستان میں ہمیشہ تنوع اور بوقلمونیت رہی ہے۔ اس کے باوجود یہاں یکسانیت اور ہم آہنگی بھی باقی رہی۔ یوں کہا جائے کہ ہم آہنگی اور یکسانیت تنوع ا ور اختلافات سے ہمکنار ہیں۔ یہ گنگا جمنی سنگم ہے، ہم اس یکسانیت اور وحدانیت کو مضبوط تر بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ نوع بنوع تمدن آپس میں مل جل کر ارتقا کی منزلوں پر بڑھیں، لیکن اگر کوئی ہماری سالمیت یا وحدانیت پر ضرب لگاتا ہے تو پھر یہ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔

ہم کو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کے اندر انتشار پسندی ا ور تفرقہ انگیزی کے میلانات پیدا ہوگئے ہیں۔ ان پر قید و پابندی لگانا اہم کام ہے۔ اس سے ہماری یکجہتی اور سالمیت کو بہت خطرہ ہے۔ ہم ان طریقوں اور ذریعوں کو تلاش کریں جن کو اختیار کرکے ہندوستان نے اپنی وحدانیت اور یکجہتی کو ایک زمانے سے برقرار رکھا ہے۔ آزادی سے قبل ہم نے دیکھا کہ ہماری زندگی کا مقصد یہ تھا کہ ہم ساتھ رہیں گے اور ساتھ مریں گے۔ کچھ سال پہلے چین اور پاکستان کے حملوں کے زمانے میں یہ بات پھر سامنے آئی۔ برطانوی دور حکومت میں ہندوستان کے اندر انتظامی وحدانیت ضرور تھی،لیکن وہ رشتے جو عوام کو آپس میں منسلک رکھتے ہیں، بری طرح سے شکستہ کیے گئے تھے۔ آزادی کے بعد ملک کے سامنے جو سب سے بڑا مسئلہ تھا وہ یہ تھا کہ عوام کو جذباتی اور فطری طور پر یکجا کردیا جائے۔ سیاسی وحدانیت قائم رکھی جائے۔ عوام میں آپسی میل کا جذبہ اجاگر کیا جائے تاکہ ہندوستان میں مستحکم امن ہو اور پھر ملک ترقی اور خوش حالی کے راستے پر چل پڑے۔

قومی یکجہتی کی ضرورت

ہندوستان میں طرح طرح کے لوگ بستے ہیں، یہاں پر تنوع ہے۔ اس کے باوجود ہم میں یکسانیت کا جذبہ ہو اور آپس میں ایک اکائی بن کر رہنے کے احساسات پیدا ہوں۔ یہی قومی یکجہتی کے اصل معنی ہیں۔ کسی بھی علاقے میں رہنے والوں میں میل جول اور محبت کا جذبہ ہونا چاہیے۔ ان حالات میں قومی یکجہتی کے معنی یہ ہوں گے کہ یہاں کے رہنے والے اس جذبے کے حامل ہوں کہ وہ اول اور آخر ہندوستانی ہیں اور محض ہندوستانی۔ محض جذبہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ انھیںا س کا اقرار بھی ہو اور وہ اس کا اظہار بھی اپنے اعمال سے کریں۔ تمام مذہبی، علاقائی اور لسانی اختلافات اس جذبے کے ماتحت ہوں۔ مختلف ضمنی تمدنی اقدار، مذاہب، زبانیں سب کا وجود ضروری ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ ان سے جو جذبات بیدار ہوں وہ قومی مفاد اور قومی یکجہتی اور شعور کو منتشر کرنے والے نہ ہوں یعنی کوئی تمدن، مذہب اور زبان قومی یکجہتی اور مفاد کے لیے مضر نہ ہو۔ حقیقتاً ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں جتنے بھی تمدن، مذہب اور زبانیں ہیںا ن کا سبھی لوگ احترام کریں اور ان کے لیے اپنے اندر جذبۂ ستائش بیدارکریں۔ ہندوستان میں کروڑوں شہری بستے ہیں۔ ان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ مختلف زبانوں کے بولنے والے ہیں۔ مختلف ذاتوں اور کنبوں سے ان کا واسطہ ہے، لیکن ہر ہندوستانی شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بیگانے کی تمیز سے بالا تر ہو اور بغیر کسی تفریق کے ہر ایک کے دکھ درد اور مصیبت میں برابر کا شریک ہو، بلکہ یوں کہا جائے کہ کسی بھی شہری کی تکلیف اپنی تکلیف سمجھی جائے۔ مختلف مذہبی اور لسانی فرقوں کے درمیان بھائی چارے کے تعلقات ہوں، آپسی اختلاط ہو، لوگ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوں۔ جذبہ اخوت اور بھائی چارگی پیدا کی جائے۔ا س سے قومی یکجہتی پیدا ہوگی۔

(Horizontal integration) مسطح قومی یکجہتی سے مراد یہ ہے کہ تمام شہری سماجی اور قانونی معیار سے مساوی ہوں۔ سماج کی نظروں میں کوئی اونچی اور نیچی ذات کا نہ ہو اور کوئی بھی خصوصی حقوق یا مراعات کا حامل نہ ہو۔ قانون اور عدالت کے سامنے سبھی برابر ہوں گے۔ یہ مسطح قومی یکجہتی بہت ضروری ہے لیکن کافی نہیں۔

مسطح قومی یکجہتی کے ساتھ ساتھ Vertical integration یعنی عمودی سالمیت بھی لازمی ہے۔ تاکہ ملک کے تمام شہری مساوی طور پر قومی ارتقا میں تعاون پیش کرسکیں۔ اس فرق کو ختم کرنے کے لیے ’تہی دستوں‘ اور ’متمول‘ شہریوں کے درمیان جو بہت بڑی کھائی ہے اسے پاٹنا پڑے گا یعنی دولت کی تقسیم کا منصفانہ حل دریافت کرنا ہوگا۔ طبقاتی امتیاز کو بھی ختم کرنا ضروری ہے تاکہ غریبوں اور امیروں میں جو رسہ کشی ہے اس کا خاتمہ ہوسکے۔

قومی یکجہتی کی ارتقا کے عناصر

1        جغرافیائی وحدانیت: ہندوستان ایک نہایت واضح جغرافیائی علاقے کا حامل ہے۔ شمال میں ہمالیہ کی اونچی اونچی دیواریں ہیں۔ دوسری طرف جنوب میں سمندر موجیں مار رہا ہے۔ مشرقی علاقہ پوری طرح سے بنگلہ دیش اور برما سے علاحدہ نہیں ہے۔ مغربی اطراف میں پنجاب کی ندیاں اور سندھ کے ریگستان کی فطری حدود ہیں۔ زمانہ قدیم سے بھارت کا یہ جغرافیائی وجود رہا ہے حالانکہ تقسیم کے وقت اس میں کچھ مصنوعی تبدیلی پیدا ہوئی تھی۔

2        تمدنی وحدانیت: ویدوں، اپنشدوں، رامائن اور مہابھارت کے لیے جذبہ احترام نے وحدانیت اور قومی یکجہتی کے جذبے کو بڑی حد تک پروان چڑھایا۔ ہندوستان کے چار اطراف میں چار زیارت گاہیں ہیں۔ بدری ناتھ، رامیشورم، دوارکا اور پوری یہ زیارت گاہیں تمدنی وحدانیت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ کمبھ کے زمانے میں لاکھوں عوام گنگا جمنا کے سنگم پر اشنان کرتے ہیں۔

3        تاریخی وحدانیت: ویدوں کے زمانے سے آج تک ہندوستان نے مسلسل تاریخی وحدانیت برقرار رکھی ہے۔ اشوک اور گپت کے زمانے سے بہت سے بادشاہ ہندوستان میں گزرے۔ انھوں نے حکومت کی، اور ہندوستان کو وحدانیت اور یکجہتی کے رشتے میں باندھنے کی کوششیں کیں۔ یہ سلسلہ آج کے جمہوری نظام کے دور تک جاری ہے۔ پرانے حکمرانوں نے ہندوستان کے وحدانی وجود کو برقرار رکھنے کی ہر طرح کوشش کی ہے۔ حالانکہ ان کے ادوارمیںا ٓمد و رفت اور گفت و شنید کے مناسب اور لاسلکی ذرائع نہ تھے اور ان ذرائع کے نہ ہونے کی وجہ سے اس یکجہتی اور وحدانیت کا قائم رکھنا دشوار تھا۔

4        سیاسی وحدانیت: ہندوستان  کے فلسفی اور مفکرین نے زمانہ قدیم سے اپنے طریقۂ فکر اور اندازِ تحریر میں سالمیت اور وحدانیت برقرار رکھی ہے۔ آریہ شمال و مغرب کی جانب سے ہندوستان آئے اور شمالی ہند میں بس گئے۔ وہ جنوب تک پہنچنا چاہتے تھے اور جنوب کے عوام سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں تھے۔ چکرورتی راجہ، اشومیدھ یگیہ اور پروہتوں کے احترام کا جذبہ اس وقت تمام ہندوستان میں یکساں تھا۔

5        انتظامی وحدانیت:  ملک پر عام طور سے ایک مرکزی طاقت کا تسلط رہا کرتا تھا، کبھی کبھی مقامی اور صوبائی خودمختار حکومتیں بھی رہی ہیں۔ برطانوی حکومت کے دور سے لے کر آزادی کے بعد اب ہندوستان نے انتظامی لحاظ سے بالکل ایک اکائی کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اگرچہ اس میں 22 ریاستیں اور 9 مرکزی علاقے ہیں۔ کل ہند ملازمتوں کے کردار سے سارے ہندوستان میں انوکھی یکسانیت پیدا ہوگئی ہے۔ کل ہند ملازمتوں کے بارے میں پہلے ہی تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے۔

.6       ہندوستانی فنون لطیفہ اور فن تعمیر: ہندوستانی  فنکاروں، مصوروں، موسیقاروں اور ماہرین فن تعمیر نے میدانِ تخلیق میں ایک عظیم نظریہ پیش کیا ہے۔ ہندوستان کے کسی بھی حصے کے مندر سے انوکھے اور حیرت انگیز تسلسل، یکسانیت اور ہم آہنگی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سے غاروں کی مصوری اور کتبات حیرت انگیز تسلسل کے حامی ہیں۔ تقریباً تمام ہندوستانی زبانوں کا رسم الخط سنسکرت کے رسم الخط سے اخذ کیا گیا ہے۔ ان کا رسم الخط سنسکرت کے حروف تہجی کی بنیادوں پر تشکیل کیا گیا ہے۔

.7       جذباتی وحدانیت: ملک کے تمام لوگ آپس میں مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ ان میں ایکتا اور وحدانیت کا احساس بدرجہ اتم موجود ہے۔ آج بھی یہ احساس پوری طرح بیدار ہے اور ہندوستان کے عوام میں ایکتا کا احساس موجود ہے۔ جب محمود غزنوی کے مقابلے کے لیے راجاؤں کو دعوت دی گئی اور بابر کے خلاف جنگ کے لیے راجاؤں کو بلایا گیا تو اس دعوت پر بہت سے ہندوستانی راجاؤں نے لبیک کہا۔ ان جنگوں میں راجاؤں کی شرکت بہت ہمت افزا رہی۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بہت سے مسلمان رانا پرتاپ، شواجی، گوروگوبند سنگھ کے ہم دوش اور ہم نوا تھے۔ انھوں نے ان ہندو رہنماؤں کے ساتھ مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف جنگوں  میں اپنے کارناموں کا مظاہرہ کیا۔ یوں کہنا بہتر ہے کہ ہندو اور مسلمانوں میں کبھی جنگ نہیں ہوئی— جنگ ہمیشہ تخت و تاج، حکومت و فرماں روائی، مال و دولت، زر، زن اور زمین کے لیے ہوتی ہے۔ برطانوی حکومت کے خلاف ہندو، مسلمان اور سکھ دوش بدوش رہے اور انھوں نے جنگ آزادی نہایت بہادری اور بڑے جذبہ اخوت سے لڑی حتیٰ کہ چین اور پاکستان کے حملوں کے دوران پورا ہندوستان ایک اکائی کی حیثیت سے ستونِ آہنی بنا رہا۔

 

ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی، دوسرا ایڈیشن: اگست 2002، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...