18/10/24

طرز داغ میں اساتذہ قدیم کی جھلکیاں، مضمون نگار: محمد شاہد خان

 اردو دنیا، ستمبر 2024

داغ کا شمار اردو ادب میں صرف ایک بڑے شاعر اور اساتذہ کی حیثیت سے ہی نہیں ہوتا بلکہ پورے ایک دبستان کے نام سے ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے دبستان داغ کوداغ  اسکول کے نام سے بھی موسوم کیا ہے۔ حالانکہ یہ بات اپنی جگہ مسلّم ہے کہ داغ صرف ایک شاعر کا نام نہیں بلکہ پورے ایک دبستان کا نام ہے جس کا اعتراف اس دور کے اور بعد کے دور کے تقریباً تمام شعرا و ادبا نے کیا ہے۔ چنانچہ ہم روایت کے طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو شاعری کی تاریخ میں جسے دلّی کا دبستانِ شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے اس کا آغاز چندر بھان برہمن سے ہوتا ہے اور اختتام داغ کی شاعری پر ہوتا ہے لیکن اس سے یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس دور سے قبل یا بعد کے دور میں یہ خصوصیات مجموعی یا جزوی طور پر صرف دہلی کے سوا اور کہیں نہیں پائی جاتی تھی۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ان خصوصیات کا تعلق بحیثیت مجموعی دہلوی طرزِ فکر اور اسلوب ادا سے ہے۔ اسی تناظر میں جب ہم داغ کے دبستان شاعری کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ادبی کسوٹی پر ہمیں داغ کی یہ خصوصیت نظر آتی ہے کہ انھوں نے دہلی کے اسلوب ادا، روزمرہ، محاورات اور لکھنؤ کی رنگین بیانی کے درمیان ایک آواز اور امتزاج پیدا کر کے ایک نیا رنگ اور اسلوب ایجاد کیا۔ جو آگے چل کر اردو ادب میں دبستان داغ کے نام سے معروف ہوا۔ اس میں سلاست بھی ہے اور روانی بھی، تازگی بھی ہے اور نازکی بھی، سادگی بھی ہے اور صفائی بھی، سرمستی بھی ہے اور سرشاری بھی، لطافت بھی ہے اور کثافت بھی، گویا کہ یہ زبان و بیان کی تاریخ کا وہ ارتقائی سلسلہ ہے جو شعوری یا غیر شعوری طور پر صرف داغ کا ہی نہیں بلکہ داغ سے پہلے بھی رائج تھا۔ یہ سلسلۂ ارتقا قدیم سے جدید تک جاری و ساری ہے۔ قدیم شعرا نے اپنے سے پہلے کے شعرا کی تقلید کی ہے یا اُسی زمین اور رنگ میں شاعری کرنے کی کوشش کی ہے۔ داغ بھی قدیم شعرا کے رنگ کی صاف طور پر پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ داغ کے عہد میں طرحی مشاعروں کا بہت زور شور تھا۔ جس کی وجہ سے داغ نے اکثر اساتذہ کی مشہور غزلوں پر ان ہی کے رنگ میں غزلیں کہی ہیں۔ خصوصاً سودا، میر درد، میر تقی میر، مصحفی، مومن، آتش، ذوق اور غالب کی غزلوں پر اور ان میں سے تمام استاد کے رنگ وآہنگ کو اختیار کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہی نہیں انھوں تو حافظ شیرازی کی بھی پیروی کا دعویٰ کیا ہے          ؎

اے داغ مقلد ہیں اسی طرز کے ہم بھی

ہر شعر میں ہو بلبلِ شیزاز کا انداز

درج بالا باکمال و مشہور شعرا کے کلام سے داغ نے بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر فیض اٹھایا ہے اور اتباع کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اِنہی استادوں کے رنگ و آہنگ میں اپنی جودت طبع جدّت فکر اور اسلوبِ ادا سے ایک نئی اکائی کو جنم دیا جو خالصتاً داغ سے ہی مخصوص ہو کر رہ گئی۔ مثال کے طور پر داغ کے شاگردِ رشید مارہروی کا قول اس پر دال ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اس وقت جو اردو رائج ہے اس کی امکانی ترقی اگر ہو سکتی ہے تو اتنی ہی ہو سکتی ہے جتنی 33برس پہلے فصیح الملک داغ کے بدولت ہو چکی ہے۔‘‘

چونکہ کسی بھی شاعر کا منفرد انداز دو ہی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے ایک شاعر کی حقیقت اور دوسرا شاعر کا زمانہ۔ کہیں شاعر کی حقانیت کا اثر ہوتا ہے اور کہیں زمانے کا، اور کہیں دونوں کا غلبہ نظر آتا ہے۔

داغ پر دونوں ہی ماحول کا گہرا اثر پڑا۔ جس سے اس زمانے کی سلاست، روانی، تخیل کی سادگی، زبان کی صفائی، لب و لہجے کی نرمی وغیرہ نمایاں طور پر ان کی شاعری میں نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر اساتذۂ قدیم کی چند غزلوں کو پیش کیا جارہا ہے، جس میں داغ نے کامیاب کوشش کی ہے۔ اولاً خواجہ میر درد کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں          ؎

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے

جس لیے آئے تھے ہم، سو کر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا

ایک دم آئے ادھر، ادھر چلے

دوستو! دیکھا تماشا یاں کا بس

تم رہو اب، ہم تو اپنے گھر چلے

آہ! بس مت جی جلا، تب جانیے

جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے

خواجہ میر درد کی یہ غزل 13اشعار پر مشتمل ہے۔ مقطع کا شعر اس طرح ہے       ؎

درد! کچھ معلوم ہے، یہ لوگ سب

کس طرف سے آئے تھے، کدھر چلے

درد کی اس غزل کی تقلید داغ دہلوی اس خوبی سے کرتے ہیں کہ اس کا آہنگ جوں کا توں برقرار رہتا ہے۔ داغ کی غزل کچھ اس طرح ہے        ؎

دل  جگر سب  آبلوں سے بھر چلے

مر چلے اے سوزِ فطرت مر چلے

کہتی ہے رگ رگ ہمارے حلق کی

دم میں دم جب تک رہے خنجر چلے

راہ ہے دشوار، منزل دور تر

یا شکستہ کیا کرے، کیوں کر چلے

کیسی ہلچل ہے سرائے دہر میں

سب مسافر چھوڑ کر بستر چلے

کربلا ہے کوئے قاتل کی زمیں

شام کو پہونچے وہیں دن بھرچلے

مار ڈالے گی قفس میں بوئے گل

ہم اسیروں سے ہوا بچ کر چلے

حسرتوں سے کیوں نہ ہو دل پائمال

اس زمیں پر سیکڑوں لشکر چلے

منزل مقصود کے خواہاں ہیں سب

ساتھ کس کس کو کوئی لے کر چلے

کیا دھرا تھا اس تہی خم خانہ میں

ہم بھی آکر اپنا بھرنا بھر چلے

داغ نے یہ پوری غزل درد کی غزل کے رنگ و آہنگ میں کہی ہے۔ مفہوم میں فرق تو واضح طور پر نمایاں ہے لیکن طرز ادا، لب و لہجہ اور درد کے مخصوص اندازِ بیان کو بڑی کامیابی کے ساتھ برتا ہے۔ اسی طرح مرزا محمد رفیع سودا کی ایک مشہور غزل ہے۔ جس کی تقلید داغ نے بہت خوبصورتی سے کی ہے مثلاً          ؎

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی

سودا کی غزل کو پڑھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ سودا نے خود کلامی لہجہ بہت کم اختیار کیا ہے۔ ان کے اشعار میں یہاں اظہار کا طرز مکالماتی ہے۔

اس غزل میں سودا نے اپنے تخیل کی نادرہ کاری کو تعلیل میں ظاہر کیا ہے۔ حسن تعلیل میں سودا نے واقعات کی بعض ایسی علتیں بیان کی ہیں جس سے ان کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جو کہ درج بالا غزل میں نمایاں طور پر واضح ہے۔ داغ نے کس عمدگی سے سودا کی اس طرز کو اپنایا ہے اور انہی کے مخصوص لب و لہجے میں یہ اشعار کہے ہیں        ؎

اس تیر کا زخمی ہے میرا دل بھی جگر بھی

اچھوں کی بڑی ہوتی ہے سیدھی سی نظر بھی

ہوتی ہے دعا کا فرو دیندار کی مقبول

اللہ کی سرکار میں لٹتا ہے اثر بھی

کیا تیز رو راہِ محبت ہے الٰہی

پیچھے رہی جاتی ہے مرے دل سے نظر بھی

فرماتے ہیں وہ سنتے ہیں جب داغ کے اشعار

اللہ زباں دے تو زباں میں ہو اثر بھی

اپنی اس غزل میں داغ نے سودا کی طرز کو تو برقرار رکھا ہے لیکن اس میں داغ کی ادبیت، اصلیت، واقعیت، داخلیت اور نشتریت سب ہی کچھ شامل ہے۔

اس کے بعد میر تقی میر کی ایک معروف غزل ملاحظہ کریں جو اپنی مثال آپ ہے۔ مثلاً        ؎

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں

حالت اب اضطراب کی سی ہے

میں جو بولا کہا کہ یہ آواز

اسی خانہ خراب کی سی ہے

میر ان نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

میرکے اسی طرز یا اسی خیال کی ترجمانی داغ اس طرح کرتے ہیں         ؎

شوخی میں ان کی چھیڑ ہے کچھ اضطراب کی

گھر کر گئی وفا کسی خانہ خراب کی

جنبش میں یوں ہیں وہ لب نازک نفس کے ساتھ

جیسے نسیم صبح سے پتی گلاب کی

گر آگ میکشی کی سزاہے یا خدا

دوزخ میں ایک نہر بہا دے شراب کی

اے داغ آہ کی تو غضب کون سا کیا

ایسی بری لگی دلِ خانہ خراب کی

داغ کی یہ غزل میر کے خیال تک بہت زیادہ رسائی نہیں حاصل کر سکی ہے اس لیے میں اس غزل کے یہاں فقط ایک شعر پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جو کہ میرے ناقص علم کے مطابق میر کے خیال کے زیادہ قریب ہے  اور وہ شعر یہ ہے         ؎

جنبش میں یوںہیں وہ لب نازک نفس کے ساتھ

جیسے ہلے نسیم سے پتی گلاب کی

میر کی غزل کا شعر         ؎

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

میرکے اس شعر میں اول تو ’کیا کہیے‘ کی ترکیب بہت نرالی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ترسیل کے زیادہ تر حاصل ذرائع اس کے لب کی نازکی کو بیان کرنے سے قاصر ہیں اس لیے ’کیا کہیے‘ کی ترکیب کو لے کر خوب قیاس آرائیاں کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ گلاب کی پنکھڑی میں رنگ اور نازکی دونوں عناصر ہوتے ہیں لیکن شاعر کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے لب کی ناز کی اور اس کے رنگ دونوں کے لیے صرف ایک لفظ ’نازکی‘ کا استعمال کیا ہے جس کے سبب ذہن لب کی نازکی اور اس کے رنگ کی طرف فوراً منتقل ہو جاتا ہے۔ گویا کہ یہ شعر لطیف ترین احساس جمال اور نزاکتِ رنگ سے معمور ہے۔

داغ، میرکے اس خیال تک تو پہونچتے نظر آتے ہیں لیکن جو لطافت میرکے شعرمیں ہے وہ داغ کے یہاں نہیں نظر آتی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میر کے رنگ کے لیے دل میں درد اور طبیعت میں اثر پذیری ہونی چاہیے۔  جب کہ یہ عنصر داغ کے یہاں نہیںملتا۔

اس کے بعد مصحفی کی ایک غزل کے چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ کریں۔ جس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہو جائے گا کہ داغ، مصحفی کی کس طرح تقلید کر تے ہیں   ؎

کیا غیر کا خطرہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

یہ منہ مجھے تیرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ناحق وہ مجھے گالیاں دیتا ہے، خدایا

تو عالم و دانا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

اے مصحفی! بعضے ہیں مرے کہنے کے قایل

بعضوں نے یہ سمجھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

اسی رنگ و آہنگ اور طرز کی غزل داغ کے یہاں ملاحظہ کریں          ؎

دیکھو تو ذرا چشمِ سخن گو کے اشارے

پھر تم کو یہ دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

تم کو یہی شایاں ہے کہ تم دیتے ہو دشنام

مجھ کو یہی زیبا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

بن آئی ہے جو چاہیں کہیں حضرتِ ناصح

اندیشۂ عقبیٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

اور یہ شعرتو داغ نے ہلکے سے الٹ پھیر کے ساتھ ویسے ہی رقم کر دیا ہے         ؎

خط میں مجھے اول تو سنائی ہیں ہزاروں

آخر میں یہ لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

یوں تو پوری غزل میں مصحفی کا رنگ وآہنگ نمایاں ہے لیکن یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ داغ نے یہ خیال اور طرز ادا مصحفی کا ہی اختیار کیا ہے کیونکہ اسی طرز اور رنگ میں مومن خاں مومن کی بھی غزل موجود ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ داغ نے مصحفی کے مقابلے میں مومن کا زیادہ اثر قبول کیا ہے۔ چونکہ مصحفی کے رنگ میں اثر انگیزی اور دردمنددل کی کارفرمائی نظر آتی ہے جبکہ داغ کے یہاں سلاست و صفائی اور محاورے کا لطف اور زبان کی شیرینی زیادہ پائی جاتی ہے۔ لہٰذا مومن کی غزل کے بھی چند اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

پر حال یہ افشا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ناصح یہ گلا کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

تو کب مری سنتا ہے کہ میں کچھ نہیںکہتا

ناصح کو جو چاہوں تو ابھی ٹھیک بنادوں

پر خوف خدا کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

مومن بخدا سحر بیانی کا جبھی تک

ہر ایک کو دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

مومن کی یہ غزل چودہ اشعار پر مشتمل ہے لیکن طوالت سے بچنے کے لیے صرف چند اشعار درج کیے گئے ہیں۔ ان اشعار سے یہ واضح ہو جاتاہے کہ داغ کا کلام مومن کے رنگ سے بالکل اچھوتا نہیں ہے بلکہ ان کے رنگ میں رنگا ہوا نظر آتا ہے۔ لہٰذا مومن کی ایک اور غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے جو زبانِ زد خاص و عام ہیں      ؎

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا؟ تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو؟

وہی، یعنی وعدہ نباہ کا، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیشتروہ کرم کہ تھا مرے حال پر

مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمھیںیاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ نئے گلے، وہ شکایتیں، وہ مزے مزے کی حکایتیں

وہ ہر ایک بات پر روٹھنا، تمھیںیاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے باوفا

میں وہی ہوں مومنِ مبتلا، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مومن کے اسی طرز اور رنگ میں داغ کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے         ؎

وہ طریقِ مہر و رہِ وفا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

تمھیں روز یاد دلائوں گا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ابھی قول کر کے جو بھولے تم ہوئی اس سے تو میری عقل گم

کہ خدا کا نام بھی مہ لقا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو داغ سحر بیاں رہا کہ ثناگر اس کا جہاں رہا

کوئی شعر اس کا برا بھلا، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

اگرچہ مومن کی ان دونوں غزلوں کی پیروی داغ بڑی عمدگی سے کرتے ہیں لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ داغ کے یہاںمومن کی سی نزاکتِ تخیل موجود نہیں ہے ہاں مومن کی معاملہ بندی و شوخی داغ کی فطرت کے عین مطابق تھی۔ جس کے باعث مومن کی ہم طرح غزلوںمیں مومن کا رنگ اختیار کرنے میں کامیاب رہے۔

 اس کے بعدہم داغ کے استاد ذوق کی غزلوں کی طرف رخ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح داغ نے اپنے استاد کی تقلید کی ہے۔ مثلاً ذوق کی اس غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے       ؎

مرتے ہیں ترے پیار سے ہم اور زیادہ

تو لطف میں کرتا ہے ستم اور زیادہ

دے کیوں کہ نہ وہ داغِ الم اور زیادہ

قیمت میں بڑھے دل کی ورم اور زیادہ

جو کنجِ قناعت میں ہیں تقدیر پہ شاکر

ہے ذوق برابر انھیں کم اور زیادہ

یوں تو ذوق کی اس غزل میں کل 39 اشعار ہیں لیکن بے جا طوالت کے سبب صرف چند اشعار نقل کیے گئے ہیں۔ لہٰذا اب داغ کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے جس میں وہ اپنے استاد کے رنگ کی پیروی نہایت خوبصورتی کے ساتھ کرتے ہیں          ؎

یا رب ہمیں دے عشق صنم اور زیادہ

کچھ تجھ سے نہیں مانگتے ہم اور زیادہ

خط ان کا بہت خوب عبارت بہت اچھی

اللہ کرے حسن رقم اور زیادہ

قاصد مگر اغیار کا لکھا ہے جہاں حال

پاتا ہوں وہاں زور قلم اور زیادہ

صد شکر کہ نواب کے الطاف سے اے داغ

چند اہل سخن جمع ہیں کم اور زیادہ

داغ کی اس غزل کا مطالعہ کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داغ پیروی تو ضرور اپنے استاد کی کر رہے ہیں لیکن بعض اشعار میں خیال کی وہ پختگی اور بلندی ہے جس کی توقع داغ سے کم ہی کی جاتی ہے۔ اسی لیے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ داغ بعض اشعار میںاپنے استاد سے آگے بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جیسے ’اللہ کرے حسن رقم اور زیادہ‘ یا ’زور قلم اور زیادہ‘ یہ مصرع تو اردو ادب میں بہت معروف ہوا اور آج بھی ہے اور آئندہ بھی اس کی مقبولیت رہے گی۔

ذوق کی ایک اور غزل ملاحظہ کیجیے         ؎

ہے کان اس کے زلف معنبر لگی ہوئی

چھوڑے گی یہ نہ بال برابر لگی ہوئی

میت کو غسل دیجو نہ اس خاک سار کی

ہے تن پہ خاک کوچۂ دل بر لگی ہوئی

اے ذوق اتنا دخترِرز کو نہ منہ لگا

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

اسی طرز میں داغ کی غزل ملاحظہ کیجیے         ؎

یہ کس کی لو ہے اے دلِ مضطر لگی ہوئی

اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

دل کیا کھلے مرا کہ تری زلف کی طرح

مضبوط اک گرہ ہے گرہ پر لگی ہوئی

میں آشنا نہیں بتِ ناآشنا سے داغ

تہمت یہ مفت کی ہے مرے سر لگی ہوئی

اس غزل میں بھی داغ نے اپنے استاد کے رنگ و آہنگ کو بحسن و خوبی برتا ہے اور کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ذوق کی غزلوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ علوم متداولہ عقلی و نقلی میں ماہر اور محاوروں کو خوش نمائی کے ساتھ باندھنے میں استاد ہیں۔ رعایت لفظی ذوق کے فن کا خاص جزو ہے اور عمومیت کا جوہر نمایاں ہے۔ بقول محمد حسین آزاد:

’’تازگی مضمون، صفائیِ کلام، چستی، ترکیب، خوبیِ محاورہ اور عام فہم ہے۔‘‘

اس سلسلے کی سب سے اہم اور نابغۂ روزگار ہستی، جس کا شہرہ دنیائے ادب پر بہت نمایاں ہے وہ مرزا اسداللہ خاں غالب ہیں۔ اِن کی مقبولیت کا سبب اُن کا نام نہیں کلام ہے۔ چنانچہ جب داغ کے استاد ذوق کا انتقال ہوگیا تو انھوں نے غالب سے قربت پیدا کرلی تھی۔ ویسے تو غالب اور داغ کی قرابت داری خاندانی تھی۔

داغ نے غالب کی زمین اور رنگ میں جو غزلیں کہی ہیں وہ کس نوعیت کی ہیں؟ اس بات کا محاکمہ کرنے کے لیے اولاً غالب کی غزلوں کے ایک یاد و شعر بطور مثال پیش کر رہا ہوں          ؎

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو

نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

اس زمین میں داغ کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے        ؎

جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو

خلش کیوں ہو، تیش کیوں ہو، قلق کیوں ہو، فغاں کیوں ہو

داغ چونکہ غالب کا بہت احترام کرتے تھے اور ان کی شاعرانہ عظمت کے دل سے قائل تھے۔ حالانکہ غالب بھی داغ کی زبان دانی کے بہت معترف تھے۔ اوروہ اس فن میں انھیں ذوق سے معتبر سمجھتے تھے۔

ایک مرتبہ بہادر شاہ ظفر نے داغ سے غالب کی ہم طرح میں شعر کہنے کی فرمائش کی۔ اس واقعے کو رفیق مارہروی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’داغ نے فرمایا کہ ایک دفعہ مرزا نوشہ (غالب) بہادر شاہ ظفر کے حضور اپنی ایک غزل لے کر پہنچے، جس کا ایک شعر یہ ہے        ؎

 

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

بادشاہ کو یہ زمین بہت پسند آئی۔ حکم ہوا کہ اس طرح میں مشاعرہ ہو۔ ہماری جوانی کا زمانہ تھا۔ طبیعت پورے جوش پر تھی۔ ہم نے بھی غزل کہی اور مشاعرے میں پہنچے۔ جب یہ شعر پڑھا         ؎

ہوئے مغرور وہ جب آہ میری بے اثر دیکھی

کسی کا اس طرح یارب نہ دنیا میں بھرم نکلے

’’بادشاہ نے بہت داد دی اور اپنے پاس بلا کر میری پیشانی کو بوسہ دیا۔‘‘

(بزمِ داغ، ص50-51، بحوالہ: داغ دہلوی، غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی، ص40)

چونکہ غالب، داغ کے عمدہ اشعار کے بے حد معترف تھے اور دل کھول کر داد یتے تھے۔ رفیق ماہر روی داغ کے ایک بیان کو اس طرح رقم کرتے ہیں: ’’آج مرزا صاحب نے برسرِ تذکرہ فرمایا کہ میں نے مرزا غالب کی مشہور غزل        ؎

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

پر غزل کہہ کر جب انہیں سنائی تو بڑی تعریف کی۔ بعض بعض اشعار پر تو مجھے گلے سے لگا لیا۔ میں نے اپنی غزل کا جب یہ شعر پڑھا        ؎

دلبروں پر طبیعت آتی ہے

اس طرح اس قدر نہیں آتی

تو یہ شعر حضرت غالب نے کئی بار پڑھوایا اور بے حد پسند کیا۔ اس کے بعد جب میں اس شعر پر پہنچا         ؎

دل کے لینے کی گھات ہے کچھ اور

یہ تجھے مفت بر نہیں آتی

تو غالب بے چین ہو گئے۔ زانو پر ہاتھ مار کر بولے۔ خدا نظر بد سے بچائے۔ صاحبزادے تم نے تو کمال کر دیا۔ میری غزل کے اس شعر پر        ؎

حال معلوم ہے قیامت کا

بات کہنی ہے پر نہیں آتی

’’مرزا غالب کھڑے ہو گئے ،مجھے سینے سے لگا لیا۔ دیر تک کھڑے کھڑے جھومتے رہے اور میرے شعر کو دہراتے رہے۔‘‘

(رفیق مارہروی، بزمِ داغ، لکھنؤ 1956، ص38-39)

اس طرح کے بہت سے واقعات معروف ہیں۔ جس میں غالب نے براہِ راست داغ سے فرمائش کی ہے کہ میری کہی ہوئی زمین میں جو غزل تم نے کہی ہے وہ سنائو۔ اور داغ نے ہمیشہ حکم کی تعمیل کی ہے۔ یہاں کسی بھی واقعے کو پیش کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ غالب اور داغ کے تعلقات کس نوعیت کے تھے بلکہ مقصود یہ ہے کہ داغ نے کس خوبصورتی کے ساتھ غالب کی زمین میں اشعار کہے ہیں جس کا اعتراف غالب نے خود کیا ہے۔

اس کے علاوہ داغ نے غالب کی فرمائش پر یا طرحی مشاعروں کے سبب انہی کی زمین میں بہت سی غزلیں کہی ہیں۔ جن میں سے چند غزلوں کے ایک ایک شعر ملاحظہ کیجیے        ؎

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید

نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے

داغ کا یہ شعر اسی زمین میں دیکھیے       ؎

اے فلک سامانِ محشر ہی سہی

اپنی آنکھوں کو تماشا چاہیے

غالب         ؎

دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

داغ          ؎

گو نہیں بندگی قبول پر ترا آستاں تو ہے

کعبہ و دیر میں ہے کیا خاک کوئی اڑائے کیوں

غالب       ؎

ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

داغ         ؎

وہ عیادت کو مری آتے ہیں لو اور سنو

آج ہی خوبیِ تقدیر سے حال اچھا ہے

درج بالا غالب کی تمام غزلوں کو داغ نے انہی کی زمین میں نہایت عمدگی سے پیش کیا ہے۔ تاہم غالب کا رنگ داغ کے سطحِ تخیل سے بلند و برتر تھا۔ کیونکہ جس بلندیِ افکار، وسیع النظری، رفعتِ تخیل، مضمون آفرینی، جدّت طرازی اور حکیمانہ تفکر کی ضرورت ہے اس کو اختیار کرنے کا داغ کو نہ حوصلہ تھا نہ فرصت۔ نیز غالب کی غزلوں پر جو غزلیں لکھیں ان میں اپنا ہی رنگ اختیار کیا۔ الغرض غالب کی زمین میں غزلیں لکھتے وقت غالب کی جدّتِ طبع اور انداز پیشِ نظر ہونے کی وجہ سے بعض اشعار میں غالب کا رنگ نمایاں ہو گیاہے۔

ایک مقام پر ڈاکٹر سید محمد علی زیدی لکھتے ہیں :

’’اس طرح کی اور بھی بہت سی غزلیں داغ کے دواوین میں موجود ہیں جن میں انھوں نے اساتذہ کے رنگ کی باز آفرینی کی ہے۔ لیکن ان کے دواوین میں ایسے اشعار بھی بکثرت ہیں جن میں دوسرے اساتذہ کے اشعار سے توارُد ہو گیا ہے۔ بلکہ بعض اشعار میں اسی طرح یا معمولی تغیر کے ساتھ وہی مضمون لے لیا ہے۔‘‘

(مطالعۂ داغ، از ڈاکٹر سید محمد زیدی، ص219)

گویا کہ داغ کے دواوین میں ایسے اشعار کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کو اس مختصر سے مقالے میں پیش کرنا ممکن نہیں۔اسی سبب چند معروف اور مخصوص شعرا کے کلام کو ہی اس مقالے میں زیرِ بحث لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

 

Dr. Mohd Shahid Khan

Govt Teacher

GIC, Fatahpur- 212601 (UP)

Mob.: 8545941850

shahidonly8@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...