17/10/24

حشم الرمضان کی نظم نگاری، مضمون نگار: فرزانہ پروین

 اردو دنیا، ستمبر 2024

بنگال کے نظم نگاروں میں ایک اہم اور معتبر نام حشم الرّمضان کا ہے ان کی تصانیف میں دو شعری مجموعوں کے علاوہ ایک تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ ’میری نظمیں میرے گیت‘ 2000 میں شائع ہوئی، ’میری غزلیں‘ (غزلوں کا مجموعہ) 2011 میں منظر عام پر آئی اور تیسری کتاب جو تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے وہ ’قلم بولتا ہے‘کے عنوان سے 2007 میں منصۂ شہود پر آئی ۔

حشم الرمضان پیشے سے ایک مدرس تھے انھیں اردو، فارسی، ہندی اور انگریزی زبان پر دسترس حاصل تھا جس کے نمونے جا بجا ان کی غزلوں اور نظموں میں نظر آتے ہیں۔ حشم الرمضان ایک کہنہ مشق استاد شاعر تھے، شاعری کے رموز و نکات سے بخوبی واقف تھے، شعر و سخن کے میدان میں انھوں نے کئی شعرا کی ذہنی آبیاری کی جن میں معصوم شرقی، واقف رزاقی، وفا سکندر پوری، دل عرفانی، نور اقبال اور زماں قاسمی کے نام قابل ذکر ہیں، یوں تو حشم الرمضان نے غزلیں بھی کہی ہیں لیکن نظموں میں ان کا جوہر کھل کر سامنے آتا ہے، پابند نظمیں ہوں یا آزاد نظمیں ان میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔

حشم الرمضان فطری شاعر تھے ان کی شاعری آورد کی نہیں بلکہ آمد کی شاعری تھی، شعوری کوششوں سے شعر کہنے والوں کی شاعری میں وہ جذباتی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی جو سیدھے دل میں اترنے کی صلاحیت رکھتی ہو، مثال کے طور پر جب ہم ان کی نظمیں ’فردوسِ گم شدہ‘ اور ’قربانی‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کا درد ان کے لہجے سے آشکار ہوتا ہے حشم الرمضان نے اپنی پہلی رفیق حیات حسینہ کی یاد میں نظم ’فردوسِ گم شدہ‘کہی تھی جسے انھوں نے پہلی اور آخری بار عالمِ نزع میں ہی دیکھا تھا اور جس کی یاد جب ان کے دل کو کچوکے لگاتی ہے تو اس طرح کے اشعار وجود میں آتے ہیں       ؎

کسے پھر یاد آؤں گا میں اکثر

کسے میں منتظر پاؤں گا اپنا

بنوں گا دھڑکنیں کس آسرے کی

کہاں ہے اس کی آغوشِ تصور

حشم الرمضان جب درجہ دہم کے طالب علم تھے تو حسینہ سے ان کا نکاح اسی شرط پر ہوا تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ان کے گھر دلہن بن کر آئیں گی لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا لہٰذا حشم الرمضان جب ایم اے کے طالب علم تھے تو چھ سال کے طویل انتظار کے بعد ان کی منکوحہ حسینہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوکر دلہن بننے کی حسرت دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں، حسینہ کے اسی درد کا اظہار وہ نظم ’قربانی‘ میں ان کی زبانی کرتے نظر آتے ہیں      ؎

 ایک آواز سی آتی ہے مرے کانوں میں

منتظر رہ گئی بے تاب جوانی میری

قبل آغاز ہوئی ختم کہانی میری

گومجھے تو نے لگایا نہ کبھی سینے سے

پھر بھی مایوس کبھی میں نہ ہوئی جینے سے

سچا فنکار بہت ہی حساس ہوتا ہے، وہ اپنے سماج اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے آنکھیں چرانا بھی چاہے تو چرا نہیں سکتا اور اس سماج میں جب کسی مظلوم کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو اس مظلوم کی خاموش چیخ پکار، آہ و بکا ایک سچے فنکار کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے اور اس کا دکھ اس کے دل کو چھلنی کرتا ہے اور پھر وہ اپنے احساسات کو قلم کے حوالے کرکے اس درد کو الفاظ کا جامہ پہناتا ہے نوجوان بھکارن، طوائف، طوائف کی بیٹی، بانجھ، آوارہ اسی قبیل کی نظمیں ہیں نظم ’طوائف‘ کے دو بند دیکھیں      ؎

تاریک شب کی اوٹ میں آکر مرے یہاں

ہوتے ہیں میرے عارض و گیسو کے ورد خواں

کچھ ایسے ایسے عابد و زاہد کہ الاماں

ان پر خیالِ خام بھی لانا حرام ہے

میں کیا بتاؤں کون ہوں کیا میرا نام ہے

 

تیری رضا پہ خود کو فدا کر رہی ہوں میں

تاوان مفلسی کا ادا کر رہی ہوں میں

تیرا ہی خون تجھ کو عطا کر رہی ہوں میں

تجھ سے سماج، میرا یہی انتقام ہے

میں کیا بتاؤں کون ہوں کیا میرا نام ہے

میرا مقام و نام تو معروفِ عام ہے

طوائف بھی ہمارے اسی سماج کا ایک حصہ ہے جسے ہم ناپاک، بدچلن، بد کردار اور نہ جانے کن کن الفاظ سے یاد کرتے ہیں، لیکن ہے تو وہ بھی ایک عورت، اور وہ کس کرب و اذیت دکھ درد سے گزرتی ہے، اس کا نمونہ اس بند میں ملاحظہ کریں        ؎

وہ بنتِ تن فروش وہ زخم معاشرہ

اک داغ تھی جبینِ تقدس پہ بد نما

لیکن یہ اس غریب کی ہرگز نہ تھی خطا

اس کو تو آج بھی تھا یہ دھڑکا لگا ہوا

’’آغوش میں ہو جس کی، مرا جسمِ مرمریں

وہ میرا باپ، میرا ہی بھائی نہ ہو کہیں‘‘

(نظم:طوائف کی بیٹی )

مسائل نسواں کو بیشتر شعرا نے الگ الگ انداز سے اپنی نظموں میں پرونے کی کوشش کی ہے لیکن جب ہم حشم الرّمضان کی نظموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی نظموں کے موضوعات اور نوعیت دیگر شعرا سے مختلف اور منفرد پاتے ہیں۔  آل احمد سرور کا قول ہے کہ:

’’فن کی وجہ سے فنکار عزیز اور محترم ہونا چاہیے، فنکار کی وجہ سے فن نہیں‘‘

یہ حشم الرمضان کا فن ہے کہ جہاں وہ حجلۂ عروسی اور نو عروس جیسی نظموں میں یہ دکھاتے ہیں کہ عورت کس بے تابی، بے چینی سے اپنے محبوب کے دیدار کی منتظر ہے، اپنے چہرے پر حیا کی لالی سمیٹے، خوب صورت آنکھوں میں محبوب سے ملنے کے سپنے اور تڑپ لیے دروازے کو نہارتی ہے تو نظم بانجھ میں وہی عورت اپنی دلکشی اور اپنا حسن کھو بیٹھتی ہے، اس کی خوب صورت ہرنی جیسی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں نے جگہ لے لی ہے، اداس زلفیں، پچکے ہوئے گال، آنکھوں میں ویرانی، اجڑی ہوئی مانگ کے ساتھ وہ نظر آتی ہے، کل تک جس محبوب کے تصور سے اس کے چہرے پر گلال  اور دھنک کے رنگ بکھر جاتے تھے آج اسی محبوب اور اس کے اہل خانہ سے اسے وحشت سی ہوتی ہے کہ کہیں ان کی زبان کے خنجر سے اس کا معصوم دل زخمی نہ ہو جائے اور وہ بھی صرف اس لیے کہ وہ اس خاندان کو ایک بچہ نہیں دے سکتی اور وہ بانجھ ہے، لیکن اس کے بانجھ ہونے میں بھلا اس کا کیا قصور ہے مگر وہ مظلوم اس ظالم سماج کو کیا سمجھائے گی وہ لوگوں کا نظریہ تو نہیں بدل سکتی۔ شاعر نے بانجھ عورت کی بے بسی، بے کسی، اس کی اذیت ناکی اور درد کی جو تصویر کھینچی ہے اس کا ایک نمونہ دیکھیں        ؎

بیوہ ہوئی ہے کس لیے شوہر کے جیتے جی

اجڑی ہے کیوں وہ مانگ کہ جو تھی کبھی سجی

 کل تک جو تھی سویرا وہ کیوں آج سانجھ ہے

کیا اس لیے کہ کوکھ سے بیچاری بانجھ ہے

بے بس کو اس طرح کا کوئی کیوں عذاب دے

اے خود غرض سماج تو اس کا جواب دے

حشم الرمضان اس بے حس اور خود غرض سماج سے سوال کر کے اپنی بیداری کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔

حشم الرمضان نے اپنی نظموں میں عورتوں کے مختلف پیکر تراشے ہیں۔ کبھی اس کی وفا، خلوص و محبت کا ذکر کرتے ہیں تو کہیں اس کے کرب و اذیت کی منظر کشی کرتے ہیں اور کہیں عورتوں کے استحصال پر قلم کو جنبش دیتے ہیں۔

حشم الرمضان کی نظمیں فقط عورتوں کے کرب، دکھ، آزار، ان کے استحصال کی آئینہ دار نہیں بلکہ ان میں نشاطیہ پہلو بھی نمایاں ہے، عورتوں کے جذبات اور لطیف احساسات کا بھی ذکر ہے، ایسی نظموں میں شہکار، ادھورے سپنے، برہا رُت اور وہ نرس اہم ہیں ان نظموں میں ہجر کی کسک، محبوب کے دیدار کی آس، درد کا میٹھا میٹھا سا احساس ہے، نظم ’برہا رُت‘ سے ایک بند پیش کرتی ہوں        ؎

برہا کے اندھکار میں میں نینوں کے دیپ جلاؤں

آس نراس کے دو راہے پر بیٹھی نِیر بہاؤں

اب تو رو رو کھو بیٹھی میں جوت بھی ان نینن کی

اب کے سال بھی بیتے نا البیلی رُت ساون کی

مذکورہ بالا جن نظموں کا اب تک میں نے ذکر کیا ہے ان کا تعلق عورت کی ذات سے ہے۔عورتوں کے کئی روپ کو انہوں نے اپنی نظموں میں الگ الگ زاویے سے برتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ حشم الرمضان نے سماج کے دیگر مسائل کو نظر انداز کیا ہے، ان کی نظم ’آوارہ‘ میں ایک یتیم بچے کا درد صاف نمایاں ہے جسے سماج پیار اور پناہ دینے کی بجائے دھتکار دیتا ہے اور یہی بچہ لوگوں کی پھٹکار کھا کر جب غلط راہ اختیار کرتا ہے تو پھر ظالم سماج اسے آوارہ کا نام دیتا ہے نظم ’آوارہ ‘کا یہ بند دیکھیں          ؎

میں نے دیکھی سردی گرمی اور نہ آندھی پانی

پیٹ کی خاطر کہاں کہاں کی میں نے خاک نہ چھانی

لیکن راس نہ آیا مجھ کو خون کا کرنا پانی

یوں ہی ہوتی رہی سدا میری برباد جوانی

جس کی چوکھٹ پر میں پہونچا اس نے ہی دھتکارا

کہنے کو تو سب کہہ دیتے ہیں مجھ کو آوارہ

مطالعۂ کتب سے انسان کے فہم و ادراک کا نظریہ بدل جاتا ہے اس سے خیالات میں وسعت، فکر میں گہرائی و گیرائی آتی ہے لیکن اس کے لیے اعلیٰ ذوق، اور اعلیٰ معیار کا ہونا لازمی ہے حشم الرّمضان غالب و اقبال جیسے شاعر، مفکر اور فلسفی سے بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین کی کتاب ’قلم بولتا ہے‘ میں غالب کے فن، ان کی شعری بول چال اور دیگر موضوعات پر چار مضامین نظر نواز ہوتے ہیں اور نظموں میں بھی غالب اور اقبال کی شخصیت سے متاثر ہوکر وہ پیغمبرِ جہدو عمل، اقبال نامہ، غالب، غالب سے ہم کلام جیسی نظمیں کہتے ہیں۔ اقبال نامہ نظم کی خاصیت یہ ہے کہ شاعر نے اقبال کی تمام تصانیف کو بڑی مہارت سے موضوع بنایا ہے۔ چند اشعار ان نظموں سے ملاحظہ فرمائیں    ؎

ہے عصاے شعر سے تیرے یم عالم دو نیم

خاتمِ فرعونِ دوراں ہے تری ضرب کلیم

(اقبال نامہ)

قوم جو صدیوں سے بے بہرہ تھی سوز و ساز سے

ہو گئی سرگرم تیرے شعلۂ آواز سے

(پیغمبرِ جہد و عمل)

غالب ہے تو مجھ پر، اس کا مجھ کو اقرار ہے

ناممکن ہے غلبہ پائے مجھ پر ہر فن کار

(غالب سے ہم کلام)

حشم الرمضان قومی یکجہتی اور حب الوطنی کے جذبے سے بھی سرشار نظر آتے ہیں، کل کا ہندوستان، مروڑ دو چینیوں کے پنجے،  دیپ جلے دیوالی کے اور ترانۂ امن اس کی عمدہ مثالیں ہیں   ؎

آؤ مل جل کر گن گائیں دھرتی کی ہریالی کے

رنگ برنگے ہیں تو کیا ہم پنچھی ہیں اک ڈالی کے

 (دیپ جلے دیوالی کے)

بھوک، جانی دشمن، ایک آنکھ، ادھیڑ بن، حقیقت، کوشش سے تقدیر بدل وغیرہ بھی ان کی شاہکار نظمیں ہیں۔

نثرنگاری ہو یا شاعری ادبا و شعرا کے جمِ غفیر میں اپنی انفرادیت قائم کرنا ہر کس و ناکس کی بات نہیں اس کے لیے علمیت، لیاقت، استعداد، خدا داد صلاحیت، فن سے دلچسپی، آشنائی اور سنجیدگی ضروری ہے، اس کے علاوہ شاعری کے اسرار و رموز سے واقفیت بھی لازمی ہے، تبھی ایک فنکار ہجوم میں بھی اپنی شناخت بنا پاتا ہے اور حشم الرّمضان میں یہ خوبیاں موجود تھیں۔

حشم الرمضان نے اپنی علمیت اور قابلیت کے لحاظ سے بہت کم لکھا، لیکن جو کچھ بھی نثر و شعر کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے وہ قیمتی اثاثے سے کم نہیں۔

 

Farzana Parveen

The Quraish Institute

5/1, Kimber Street

Kolkata - 700017

Mobile - 7003222679

Email - fparveen150@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

حشم الرمضان کی نظم نگاری، مضمون نگار: فرزانہ پروین

  اردو دنیا، ستمبر 2024 بنگال کے نظم نگاروں میں ایک اہم اور معتبر نام حشم الرّمضان کا ہے ان کی تصانیف میں دو شعری مجموعوں کے علاوہ ایک تنق...