17/10/24

اردو کی پہلی طنز و مزاح نگار خاتون شفیقہ فرحت، مضمون نگار: محمد نعمان خان

 اردو دنیا، ستمبر 2024

پروفیسر شفیقہ فرحت ایک ہمہ جہت و ہمہ صفات خاتون تھیں۔ تعلیم و تدریس و تربیت ان کا پیشہ تھا لیکن مختلف علمی، ادبی، تہذیبی، سماجی، فلاحی اور اصلاحی انجمنوں سے عملی وابستگی کے سبب ان کا شمار بے لوث سماجی خدمت گار اور تانیثیت کی زبردست حامی اور علمبردار کی حیثیت سے ہوتا تھا۔ ادبی اعتبار سے وہ محقّق، ناقد، مبصر، صحافی، سفرنامہ نویس، فیچر نویس، نثری نظم نگار، بچوں کی ادیبہ، افسانہ نگار، انشائیہ نگار، خاکہ نگار تھیں لیکن ان کا اصل میدان طنزو مزاح نگاری تھا اور یہی ان کی ادبی شناخت بھی تھی۔

غیر معمولی ذہانت  و ذکاوت، مشاہدے کی شدّت، مطالعے کی وسعت، زبان دانی، شعر فہمی اور اظہار و بیان پر قدرت اور سماجی وادبی معاملات و مسائل کے ادراک نے انھیں کامیاب طنزو مزاح نگار بنادیا تھا۔

شفیقہ فرحت نے ناگپور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، معزّز خانوادے میں آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد محکمۂ پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ تعلیم کی روشنی اور اظہار کی آزادی کے سبب غور و فکر کی صلاحیت اور کچھ کرنے اور کرگذرنے کا جذبہ و حوصلہ صِغرسِنی ہی سے اُن میں پروان چڑھنے لگا تھا۔ ناگپور یونیورسٹی سے جرنلزم میں ڈپلوما اور اردو، فارسی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد بغرض ملازمت اردو استاد وہ بھوپال آگئیں۔ بھوپال کا فطری حُسن، اہلِ بھوپال کی زندہ دلی اور ادب نوازی نے ان کے فن کو نہ صرف جلابخشی بلکہ اِس قدر متاثر کیا کہ انھوں نے بھوپال کو اپنا مستقل مسکن اور وطن بنالیا اور اس سرزمین پر نصف صدی سے زیادہ قیام پذیر رہ کر ایسی وقیع ادبی تعلیمی اور سماجی خدمات انجام دیں کہ یہاں کے لوگ انھیں ’آپائے اردو‘ کے نام سے موسوم کرنے لگے اور وہ جگت آپا بن کر بھوپالی خاندانوں میں گُھل مِل کر انھیں کا حصّہ بن گئیں۔

شفیقہ فرحت کی ادبی اور صحافتی زندگی کا آغاز ناگ پور سے ہی ہوگیا تھا۔ ابتداً انھوں نے بچّوں کے لیے دلچسپ کہانیاں لکھیں اور بچّوں کے ہی لیے دو رسالے ’چاند‘ اور ’کرنیں‘ کے نام سے جاری کیے اور ’انقلاب‘ و’بلٹز‘ اخبارات میں کالم لکھنا شروع کردیا تھا۔  بھوپال آکر بڑوں کے لیے کہانیاں لکھنے لگیں۔ان کی کہانیوں پر معروف فکشن نگار قرۃ العین حیدر نے لکھا :

’’سُنا ہوا نام ہے بلکہ ہم نے پڑھا بھی ہے۔ خوب لکھتی ہیں۔‘‘

مشہور افسانہ نگار رتن سنگھ نے ان کی افسانہ نگاری پر اظہارِ رائے کرتے ہوئے لکھا تھا :

’’شفیقہ فرحت کی کہانیاں لطیف جذبوں کی آئینہ دار ہیں۔ انھوںنے نرم و نازک لطیف احساسات کے تانے بانے سے ایسی خوبصورت کہانیاں رچی ہیں جیسے وہ رنگین ریشم کے دھاگوں سے پُھلکاری کے پھول کاڑھ رہی ہوں۔‘‘

بھوپال کے بابائے ظرافت، موجدِ گلابی اردو ملّا رموزی، معروف کالم نگارجوہر قریشی اوربھوپالی اردو کے خالق عبدالاحد خاں تخلص بھوپالی کی طنزو مزاح نگاری، ملک گیر شہرت حاصل کر چکی تھی۔شفیقہ فرحت نے بھی اس میدان میں قدم رکھا اور مردوں کے دوش بدوش اپنی طنزیہ مزاحیہ تحریروں سے انھیں اردو کی پہلی خاتون طنز و مزاح نگار ہونے کا شرف حاصل ہوا اور وہ بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ انڈو امریکن "Who is who"   اور انڈویورپین "Who is who"   اور دہلی اردو اکادمی کی ڈکشنریز اور ترقی پسند مصنفین کی انسائیکلوپیڈیا میں ان کا نام شامل ہے۔ مختلف ملکی اور بین الاقوامی اداروں اور انجمنوں نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں اعزازات عطا کیے۔ برکت اللہ یونیورسٹی، بھوپال نے ان کی شخصیت و خدمات پر پی ایچ ڈی کی سند تفویض کی ہے۔ شفیقہ فرحت جہانیانِ جہاں گشت تھیں۔ انھوں نے چین، جاپان، لندن، پاکستان اور بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والی عالمی طنزو مزاح کانفرنسوں میں نہ صرف حصّہ لیا بلکہ دلچسپ اور پُرلطف سفرنامے بھی تحریر کیے۔

طنزو مزاح کا فن تلوار کی دھار پر چلنے کا فن ہے۔ کسی خاتون کا اس پُرخطر اور نازک راہ کو سلامت روی کے ساتھ عبور کرنا، جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ شفیقہ فرحت نے جب طنزو مزاح کے میدان میں قدم رکھا تو خاتون ہونے کے سبب اُن کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی گئی۔

دھان پان سا جسم مگر چٹانوں سا عزم رکھنے والی شفیقہ فرحت بھلا ہار ماننے والی کہاں تھیں چنانچہ انھوں نے اس دشوار کام کو بطورِ چیلنج اور بطورِ فن نہ صرف اختیار کیا بلکہ ثابت کردکھایا کہ حوّا کی بیٹی آدم کے بیٹوں سے کسی طرح کم تر نہیں ہے۔

شفیقہ فرحت کی طنزیہ مزاحیہ تحریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ و مشاہدہ وسیع تھا جس کے سبب وہ موضوع کی تہہ تک پہنچ جاتی تھیں۔ ان کی تحریروں میں علمیت کی شان، محاکاتی اور جزئیاتی عناصر نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ انسان دوست، حسّاس دل ادیبہ تھیں۔ اُن کی تحریریں محض تفنّنِ طبع کا سامان ہی فراہم نہیں کرتیں بلکہ زیرِلب ہنسی کے ساتھ دعوتِ غور و فکر پر آمادہ بھی کرتی ہیں۔ روتوں کو ہنسانا، غم زدوں کی دل جوئی کرنا ان کا مقصد و مشن تھا۔

تماشائے اہلِ ادب دیکھتے ہیں، ذرا دھوم سے نکلے، عہدنامہ جدید، میری روم میٹ، خط لکھیں گے ہم، اور لکھنا ناول کا، رانگ نمبر، ٹیڑھا قلم، زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی، ہنس لیتے ہیں ہم اپنے آپ پر، گول مال، نیا قطب مینار، ہیراپھیری، ہاتھ میں نشتر کُھلا رشتہ زندگی کا، زندگی کا کباڑ خانہ، قاضی جی دُبلے، پھر نظر میں پھول مہکے اور ’آدھا انگریز‘ وغیرہ ان کے تحریر کردہ ایسے انشائیے، خاکے اور طنزیہ مزاحیہ مضامین ہیں جن میں مصنفہ نے اپنے مشاہدات و تجربات و تاثرات کو فنکارانہ چابک دستی کے ساتھ پُرلطف انداز میں پیش کیا ہے۔

خط لکھنے میں اکثر لوگ بے جا لفّاظی، بے ربطی اور بے ہنگم پن سے کام لیتے ہیں۔شفیقہ فرحت نے ایسے خط نگاروں پر ایک عاشقِ صادق کی زبانی اس طرح طنز کیا ہے :

’’میری جان ! میری زندگی ! میری روح، میری بہار!

تم سلامت رہو ہزار برس! کل تم سہہ پہر کے تین بج کر پچّیس منٹ اور چھبیس سیکنڈ پر کالج کے آہنی دروازے سے برآمد ہوئیں۔ طلوعِ آفتاب کا منظر دیکھا تو نہیں، لیکن جتنا کچھ سُنا ہے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تمہارے طلوع ہونے کا منظر اس سے کہیں حسین اور تابناک ہے۔ کاش کسی دن مقابلہ ہو سکتا، مگر نہیں! سورج تو شاید قیامت کے دن بھی دن کے تین بج کر پچّیس منٹ اور چھبّیس سیکنڈر پر طلوع ہوگا …… خیر، میری مشعلِ فلک تم جب تک اس طرح سے طلوع ہوتی ہو، مجھے سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مطلب!‘‘

شفیقہ فرحت کو اردو اشعار کی تخریب کاری، الفاظ کی تحریف یا الٹ پھیر سے اپنے طنزیہ مزاحیہ مضامین، انشائیوں اور خاکوں کو دلچسپ اور پُرلطف بنانے میں خاص مہارت حاصل تھی۔ شفیقہ فرحت نے اپنی مزاحیہ تحریروں میں ’بریکٹ‘ کا استعمال بھی بار بار کیا ہے جس کے سبب مضمون کی فطری روانی، بے ساختگی، لطافت، رمزیت و اشاریت پر آنچ آتی محسوس ہوتی ہے۔ان کا یہ عمل جب حدود سے متجاوز ہوجاتا ہے تو مزاحیہ تحریروں میں آمد کی بجائے آورد کا عنصر غالب نظر آنے لگتا ہے۔ بقولِ ابراہیم یوسف :

’’محترمہ طنزنگاری کرتی ہیں تو اس میں مزاح خواہ مخواہ پیدا ہوجاتا ہے اور مزاح نگاری پر اترتی ہیں تو طنز اس میں ہاتھ پیر پھیلادیتا ہے۔‘‘

لیکن شفیقہ فرحت کے خاکے مذکورہ بالا عیوب سے پاک ہیں۔ یہ خاکے ان کی حسِّ مزاح، جولانیِ طبع کے غمّاز ہیں جن میں ماضی کی سنہری یادوں کو بھی جگایا گیا ہے اور انشا نگاری کی شان بھی دکھائی دیتی ہے۔ نہروجی، بل رام جاکھڑ، فیض احمد فیض اور کیفی اعظمی پر لکھے گئے خاکوں میں رپورتاژ کا رنگ غالب ہے لیکن بے تکلف ساتھیوں پر لکھے گئے خاکوں میں مزاح کی چاشنی اور طنز کا عنصر بھی شامل ہے۔ مثال کے بہ طور معروف شاعر پریم وار برٹنی کے خاکے ’آدھا انگریز‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :

’’...کسی رسالے میں ایک عجیب و غریب نام دیکھ کر یوں چونکے جیسے زُو میں پہلی مرتبہ جراف کو دیکھ کر چونکے تھے۔ پریم واربرٹنی... نام چھوٹا، جِراف کے سر کی طرح اور وطنیت لمبی، اس کی گردن کی طرح۔ خیر یہ تو سائڈ ایفیکٹس تھے چونکنے کا اصل سبب نام کے اجزائے ترکیبی کی بے ترتیبی نہیں تھا بلکہ اس برٹنی نے ہمیں حوضِ حیرت میں گلے گلے اُتار دیا تھا۔ ہمارے شاعروں کو شاید بھیڑ بھڑکّے میں کھوجانے کا دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ احتیاطاً تخلص کے ساتھ اپنا پوسٹل ایڈریس بھی نتّھی کرلیا کرتے تھے مثلاً سعدی شیرازی، ولی دکنی، نظیر اکبرآبادی، اصغر گونڈوی، جگر مرادآبادی، سلام مچھلی شہری وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح آپ نے ’برٹنی‘ کی تختی گلے میں لٹکالی ہے۔ مگر برٹن آخر ہے کہاں؟ دیگر مضامین کی طرح ہمارا جغرافیہ بھی خاصا کمزور تھا لہٰذا کسی قسم کی کُمک کی امید نہ تھی۔ پھر آیاتِ الٰہی کی طرح ایک دم نزول ہوا کہ ’برٹن‘ سے مراد Britain   یعنی برطانیہ ہے اور آپ دقیانوسی ’پریم برطانوی‘ نہ لکھ کر ڈرامائی انداز میں برٹنی لکھتے ہیں لیکن یہ کم بخت ایک وار بھی تو راہ میں حائل ہوگئی ہے۔ اب ہماری سمجھ میں یہ نہیںآرہا تھا کہ اس ’وار‘ کو کس پہ وار دیں اور کس کے ساتھ فٹ کردیں... معاملہ پھر الجھنے لگا تھا لیکن خیر غیب سے مضامین کی آمد یا غیبی امداد سے یہ حل نکل آیا کہ پریم وار برٹنی وہ حضرت ہیںجو کسی ورلڈ وار کے دوران برطانیہ میں پیدا ہوئے اور ایک عرصے تک ہم آپ کو آدھا انگریز سمجھتے رہے۔‘‘

شفیقہ فرحت کی طنز و مزاح نگاری پر کئی مشاہیر ادب نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔کوثر چاند پوری نے ان کے فن کو ’میٹھے طنزو مزاح‘ سے تعبیر کیا ہے۔ پروفیسر گیان چند جین ان کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’شفیقہ فرحت ہندوستان کی نمائندہ طنزو مزاح نگار ہیں جو اپنی تحریروں کو نہ صرف خوش کلامی و خوش گفتاری کے رنگ دے رہی ہیں بلکہ اُن میں فانوسِ فکرو خیال کی جھمک کے زاویے بھی بنا رہی ہیں۔ اس سے اُن کے معیارِ فن کا اندازہ ہوتا ہے۔‘‘

معروف ہندی ادیب ہری شنکر پرسائی کا یہ اعتراف شفیقہ فرحت کے لیے ہی نہیں اردو کے ہر طنزو مزاح نگار کے لیے ہے وہ لکھتے ہیں :

’’ہم نے آپ کی کئی چیزوں کا انوواد کرکے چھاپا ہے۔ ہمارے یہاں آپ جیسا ذہن کم ملتا ہے۔‘‘

شفیقہ فرحت نے ساری عمر طنزو مزاح لکھا۔ ان کے تحریر کردہ خاکوں، انشائیوںاور طنزیہ مزاحیہ مضامین کے سات مجموعے شائع ہوئے لیکن ان کی کئی تحریریں ہنوز غیر مطبوعہ ہیں۔شفیقہ فرحت اردو کی اوّلین طنزو مزاح نگار خاتون تھیں۔ آج بھی ان جیسی کوئی دوسری خاتون طنزو مزاح نگار نظر نہیں آتی۔میری رائے میں وہ ایسی طنزو مزاح نگار تھیں کہ جن کے ذکر کے بغیر اردو طنزو مزاح کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتیn

Mohammad Nauman Khan

204, Gulshan-e-Desnavi

Green Valley, Airport Rd,

Bhopal (M.P.) - 462030

Mob. : 9891424095

mnkhanncert@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

حشم الرمضان کی نظم نگاری، مضمون نگار: فرزانہ پروین

  اردو دنیا، ستمبر 2024 بنگال کے نظم نگاروں میں ایک اہم اور معتبر نام حشم الرّمضان کا ہے ان کی تصانیف میں دو شعری مجموعوں کے علاوہ ایک تنق...