اردو دنیا، ستمبر 2024
امرود
ایک درخت کا مشہور پھل ہے۔ ہندوستان میں جابجا پیدا
ہوتا ہے۔ اوپر سے سفید اندر سے سفید یا سرخ خام بکسا پختہ شیریں یا کھٹ مٹھا ہوتا
ہے۔ اس کا درخت چھوٹا ہوتا ہے۔ یہ پانچ سات برس کا ہونے کے بعد پھلتا ہے اور بعض
اس سے بھی جلدی جب درخت پرانا ہوجاتا ہے تو پھل کم اور چھوٹے آنے لگتے ہیں۔ اگر
اس کے تنے کو کاٹ ڈالا جائے تو پھر شاخیں نکل کر ایک دو سال میں پھل آنے لگتے ہیں۔
اس کی لکڑی بے ریشہ ہونے کی وجہ سے عمارت کے کام میں نہیں آتی ہے۔
مزاج: گرم و تر پہلے درجہ میں۔
فوائد: نہایت فرحت بخش پھل ہے۔ دل کو قوت دیتا ہے۔
ابتدا میں پاخانہ کھول کر لاتا ہے۔ اس کے
بعد قبض پیدا کرتا ہے مگر غذا کے بعد کھائیں تو قبض رفع کرتا ہے اور غذا سے قبل
کھانے سے قبض پیدا کرتا ہے۔ مدر بول ہے۔ بواسیر خونی کے لیے بے حد نافع ہے۔ پتھری
کو توڑ کر خارج کرتا ہے۔ معدے کو قوت دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دستوں کو روکتا ہے۔
خاص کر جب کہ چھلکے اور بیجوں کے ساتھ کھائیں اور گدرا پھل زیادہ قابض ہوتا ہے۔ حکیم
شریف خاں کہتے ہیں کہ بکسا امرود مقوی معدہ اور قابض شکم ہے۔ اس کی کثرت مراقیوں
کے لیے مضر ہے۔ سرد و تر مزاجوں اور قولنج کے مریضوں کو مضر ہے۔ درد سر پیدا کرتا
ہے۔ نزلے کو اخلاط ساکنہ کو حرکت دیتا ہے۔ نفخ اور قراقر اور ریاح پیدا کرتا ہے۔ اس
کی کثرت مضر ہے۔ نمک اور سیاہ مرچ کے ساتھ کھانا چاہیے۔
وید کہتے کہ صفرا اور بلغم لزج کو دور کرتا ہے۔ دل کو
خوش رکھتا ہے۔ بدن کو گرم کرتا ہے۔ کم قوقی کو دور کرتا ہے۔ کھانسی کو نافع ہے۔ تپ
صفراوی کو دردِ شکم کو نافع ہے۔ قے جو غذا کے بعد ہوتی ہے، دفع کرتا ہے مگر اس بیان
میں بعض باتیں تجربے کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ کچا امرود آگ میں بھبھلا کر کھانے سے
کھانسی کو مفید ہے اور یہ ایک گھریلو دوا ہے۔
وید اس کے کچے پھل کو قابض مانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کچے
پھل کے کھلانے سے دست بندہوجاتے ہیں۔ اس کی جڑ کی چھال بھی قابض ہے۔ بچوں کے دست
بند کرنے کے لیے اس کی سوا تولہ جڑ کی چھال کو پندرہ تولہ پانی میں جوش دیں۔ جب
آدھا پانی رہ جائے تو چھ چھ ماشہ کی مقدار میں دن میں دو تین بار پلانا چاہیے۔ کیسے
ہی پرانے دست آرہے ہوں بندہوجاتے ہیں۔ اس کے پتے جڑ اور پھل سے کچھ کم قابض ہوتے
ہیں۔ اس کے پتوں کو جوش کرکے اس سے غرارہ کرنے سے منھ کا ورم دفع ہوجاتا ہے۔
مسوڑھے اور ہلتے دانت مضبوط ہوجاتے ہیں، دانتوں کے درد کو تسکین ہوتی ہے۔ ہیضے
والے کو اس کے پتوں کو جوش کرکے پلانے سے پرانے دست بند ہوجاتے ہیں۔ اس کا پکا پھل
ملین ہے۔ اس کی جڑ کی چھال یا کچے پتوں کو جوش کرکے پلانے سے پرانے دست بند ہوجاتے
ہیں جس کو کانچ نکلنے کا عارضہ ہو اس کی
کانچ پر اس کی جڑ کی چھال کا یا تمام جڑ کا گاڑھا کیا ہوا جوشاندہ لیپ کرنا چاہیے۔
حکیم
شریف خاں کہتے ہیں کہ اس کی بو طبیعت کے منافر ہے مگر یہ درست نہیں۔ اس لیے کہ
امرود بہت خوشبودار پھل ہے۔ بعض آدمی سونگھنے کے لیے اکثر ہاتھ میں رکھتے ہیں،
غرضیکہ حاصل کلام یہ امرود ایک بہترین، غذائے دوائی ہے اور قریب قریب ہر ملک میں
مستعمل ہے۔
انار
ایک درخت کا پھل ہے۔ اس کے درخت ہندوستان میں اکثر سب
جگہ بوئے جاتے ہیں۔ بعض درخت 20 فٹ اونچا ہوتا ہے۔ اس کا تنا چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کی
گولائی تین چار فٹ کی ہوتی ہے ،اس کی چھال کچھ پیلی یا گہرے بھورے رنگ کی ہوتی ہے۔
ماگھ اور پھاگن میں اس کے نئے پتے نکلتے ہیں۔ اس کے پتے ٹہنیوں کے آمنے سامنے
لگتے ہیں۔ کچھ لمبے نوکدار اور کچھ زردی مائل لال ہوتے ہیں۔ اس کے پھول ایک ایک
جگہ دو لگتے ہیں۔ انار کی درمیانی لکیر دو سے ساڑھے تین انچ لمبی ہوتی ہے۔ اس کے
دانے لال نوکدار اور کسی کسی کے سفید ہوتے ہیں۔ کسی کسی کے دانوں میں گٹھلی ہوتی
ہے اور کسی کسی میں بالکل نہیں ہوتی۔ عمدہ وہ ہے جس میں گٹھلی نہ ہو اسے بیدانہ
کہتے ہیں۔ کابلی انار سب ملکوں کے اناروں سے بہتر ہوتا ہے اور اس سے اترا ہوا انار
پٹنہ کا ہے۔ یہ انار بھی اچھوں میں گنا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے سب موسموں میں پھول
لگتے ہیں مگر چیت بیساکھ میں بہت لگتے ہیں۔ اساڑھ سے بھادوں تک پھل پکتے ہیں مگر یہ
قاعدہ ہر ملک کے لیے عام نہیں ہے۔ سب سے بہتر وہ ہے جس کا دانہ بڑا ہو۔
مزاج: اعتدال کے ساتھ سرد و تر پہلے درجہ میں۔
فوائد: بسبب حرارت لطیف یا رطوبت کے ملین شکم ہے اور
بسبب کمی ارضیت کے لطیف ہے۔ اس کا شربت اور آب شراب کے خمار کو اتارتا ہے۔ خفقان
گرم کو مٹاتا ہے۔ گرم مزاج والے آدمی کے فم معدہ کی جلا کرتا ہے۔ پس بخارات جو
خفقان پیدا ہونے کا موجب ہوتے ہیں، زائل ہوجاتے ہیں۔ جس کو شراب نوشی کی وجہ سے تپ
آنے لگے۔ اس کے لیے اس سے بہتر کوئی چیز نہیں، دل اور جگر کو قوت دیتاہے۔ استسقاء
یرقان اور تلی اور درد سینہ اور گرم کھانسی کو مفید ہے۔ صالح خون پیدا کرتا ہے۔
صالح الکیموس قلیل الغذا ہے۔ نفاخ بھی ہے اسی لیے گرم مزاج والوں میںاس کے کھانے
سے نعوظ بڑھاتا ہے۔ آواز کو صاف کرتا ہے۔
بدن کو فربہ کرتا ہے۔ پیشاب زیادہ لاتا ہے اور پیاس لگاتا ہے۔ سینے اور حلق کی
خشونت دفع کرکے نرمی پیدا کرتا ہے۔ انار زیادہ استعمال کرنے سے غذا میں فساد پیدا
ہوتا ہے۔ معدہ ڈھیلا ہوجاتا ہے مگر بیدانہ انار معدے کے موافق ہے کیونکہ اس میں
تھوڑا سا قبض ہے اس کو ہمیشہ کھانے سے رنگ کی سفیدی اور زردی جاتی رہتی ہے۔
معدے کے ضعف اور سردی کی وجہ سے جو ہونٹ
سفید ہوتے ہیں تو ان کی سفیدی بھی اس کے ہمیشہ استعمال میں رکھنے سے مٹ جاتی ہے۔
جگر کی ریاح کو تحلیل کرتا ہے۔ اگر انار کے دانوں کا پانی ایک بوتل میں بھر کر
دھوپ میں یہاں تک رکھیں کہ گاڑھا ہوجائے پھر آنکھ میں لگائیں تو روشنی بڑھ جاتی
ہے۔ بینائی کو قوت دیتا ہے اور یہ جتنا پرانا ہو بہتر ہے انار کے دانوں کے پانی کو
کسی تانبے کے برتن میں اتنا جوش دیں کہ گاڑھا ہوجائے پھر آنکھ میں لگائیں تو خارش
اور سلاق کو نفع پہنچائے بینائی بڑھ جائے۔ انار شیریں کو شراب میں جوش دیں پھر سب
کو پیس کر کان پر ضماد کریں تو ورم کو بے حد نفع پہنچے۔ انار اگر غذا سے پہلے کھایا
جائے تو بہتر ہے مگر جب دست آرہے ہوں تو پہلے نہ کھائیں یا متلی اور قے معلوم ہوتی
ہو اور گرم مزاج والا غذا کے بعد انار کھائے تو معدے سے غذا جلد نیچے اتر جاتی ہے
اس کے ستو صفراوی دست بند کرتے ہیں اس کے دانوں کا پانی منھ میں رکھنے سے اور اس
کے غرغرہ کرنے سے منووان اور حلق کا ورم جاتا رہتا ہے۔ نہار منھ اس کا پانی پینے
سے معدے کی حرارت مٹ جاتی ہے اس کے دانوں کو پیس کر شہد میں ملا کر لگانے سے خراب
زخموں کو نفع پہنچاتا ہے اور داخس کے لیے یہ پیپ بہت مفید ہے۔
وید کہتے ہیں کہ انار شیریں کا پانی صفرا کی اصلاح کرتا
ہے۔ دل و جگر کو قوت دیتا ہے۔ بلغم و باہ کو دفع کرتا ہے۔ بھوک بڑھاتا ہے۔ باہ کو
قوی کرتا ہے۔ منی پیدا کرتا ہے۔ اس کا تازہ رس ٹھنڈا اور تسکین دینے والا ہوتا ہے۔
انجیر
ایک درخت کا میوہ ہے۔ ولایتی اور ہندی بستانی اور جنگلی
ا ور پہاڑی اور ہر ایک نر و مادہ اور رنگ سفید و سرخ سیاہ و شیریں ہوتا ہے۔ شاخوں
سے ملا ہوا ہوتا ہے۔ درخت اس کا پلتا ہے مگر پھولتا نہیں۔ برخلاف اور درختوں کے جب
مطلق انجیر بوتے ہیں تو پھل مراد ہوتی ہے۔ یہیں پر بستانی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ملک
شام کا انجیر سیاہ اور بہت بڑا ہوتا ہے ۔ جس انجیر میں گدا زیادہ ہو اسے شاہ انجیر
بولتے ہیں۔ عمدہ وہ ہے جس کا دانہ بڑا ہو اور بہت شیریںہو۔ شیخ کے نزدیک بہتر وہ
ہے جس کا چھلکا سفید ہو اور پھٹ گیا ہو
پھر سرخ پھر سیاہ اور بہت پکا ہوا ہو بالاتفاق افضل ہے۔ عمدہ شیریں و شاداب ہے۔ سفید
و سرخ کھانے کے واسطے اور سیاہ دوا کے واسطے مناسب ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ سفید سب سے
زیادہ ضعیف ہے۔ انجیر کا بونے سے پھل چوتھے برس میں پھلتا ہے۔ اس کے دو پھل آتے ہیں۔
پھل پہلا اساڑھ اور ساون میں دوسرا پوس اور ماگھ میں آتا ہے۔ یہ بیس برس تک پھلتا
ہے اور بعد اس کے سوکھ جاتا ہے۔
مزاج: گرمی و سردی میں معتدل ہے۔
فوائد: تازہ
لطافت پیدا کرتا ہے۔ ریاح کو تحلیل کرتا ہے جلا کرتا ہے۔ نضج اور تلیین پیدا
کرتا ہے۔ دست آور ہے جگر کو قوت دیتا ہے۔ تلی کے ورم کو دور کرتا ہے۔ سینے کے درد
کو نافع ہے۔ بدن کو فربہ کہرتا ہے۔ بلغمی کھانسی اور بخار کو دور کرتا ہے۔ مرگی،
فالج، خفقان، دمہ اور اکثر امراض بلغمی کو نفع پہنچاتا ہے۔ تازہ انجیر میں مائیت زیادہ
ہوتی ہے۔ اور دوائیت کم اور خون اس سے زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ اتنا کسی دوسرے پھل سے
پیدا نہیں ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں باوجود مائیت کے ارضیت کثرت سے ہے اور اس
کا جوہر اعضا جوہر کے مناسب ہے، لیکن نفخ اور صفرا پیدا کرتا ہے۔ اگر امراض کی وجہ
سے رنگ فاسد ہوجائے تو اس کے کھانے سے درست ہوجاتا ہے۔ سریع الغذا ہے۔ معدے اور
بدن میں جلد نفوذ کرجاتا ہے۔ بدن کو قوی کرتا ہے۔ انجیر تر و خشک و مرگی کو مفید
ہے۔ سینے کے موافق ہے۔ سینے کی متلی مٹاتا ہے اور حلق کی خشونت کو بھی دفع کرتاہے۔
گردے اور مٹانے کو نافع ہے۔ پیشاب اگر قطرہ قطرہ آتا ہو یا تنگی سے آتا ہو تو
دونوں کو نفع دیتا ہے۔ تر انجیر سے پاخانہ کھل کر ہوتاہے بلکہ کسی قدر قوت اسہال
رکھتا ہے۔ رحم کی سختی اور ورم کو دور کرتا ہے۔ مرگی اور جنون کے مریضوں کے موافق
ہے۔ زہروں کو دفع کرتا ہے۔ حرارت اور پیاس کو تسکین دیتا ہے۔ بالخاصیت قوت غضبی کو
توڑتا ہے۔ دل میں سردی پیدا کرتا ہے۔ خفقان کو نافع ہے اور ربو کو بھی مفید ہے
اورام میں نفع پیدا کرتا ہے۔ اس کو نہار منھ کھانا بہت مفید ہے۔ غذا کے راستے کھول
دیتا ہے۔ خاص کر جب کہ اخروٹ اور بادام کے ساتھ کھایا جائے۔ اخروٹ کے ساتھ زیادہ
نافع ہے۔ قوت باہ پیدا کرتا ہے، صفرا دور کرتا ہے۔ اطباء نے اس میں اختلاف کیا ہے
کہ خون جو انجیر سے بنتا ہے وہ اچھا ہے یا خراب، بعض کہتے ہیںکہ خراب ہوتا ہے۔ اس
لیے کہ جویں پیدا کرتا ہے مگر اس دلیل پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ جوؤں کا پیدا
ہونا خون کی خرابی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ خراب فضلے کو بدن کے چمڑے کی
طرف خارج کرتا ہے۔ اسی لیے پسینہ بھی لاتا ہے اور پسینہ لانے کے بعد کرب پیدا کرنے
والی حرارت کو تسکین دیتا ہے۔ پس جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ اس سے عمدہ خون پیدا
ہوتا ہے وہ اس دلیل کو باطل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خراب فضلہ کے جلد کی طرف
آجانے سے جویں پیدا ہوتی ہیں نہ انجیر کے پیدا کیے ہوئے خون کی وجہ سے۔
وید کہتے ہیں کہ انجیر سے بدن اور چہرے کا رنگ نکھرتا
ہے تپ اور سوزش کو دفع کرتا ہے۔ بدن میں گوشت زیادہ کرتا ہے۔ حواس خمسہ کو روشن
کرتا ہے، صفرا و خون اور باد کا فساد مٹاتاہے۔ تازہ پھل کھانے سے خون بنتا ہے۔
ماخذ: علاج بذریعہ غذا، مصنف: حکیم احتشام الحق قریشی،
دوسرا ایڈیشن 2006، سنہ اشاعت: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں