23/10/24

اردو افسانہ اور ماحولیاتی تنقید، مضمون نگار: محمد فرید

 اردو دنیا، ستمبر 2024

ادب کی اصطلاح میں ماحولیاتی تنقید تھیوری کی نئی صورت حال کے بمقابل ایک طرز مطالعہ کے طور پر خاص طور پرابھر کر آئی جو ’بشر مرکوزیت‘ کے برعکس ’زمینی اخلاقیات‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ ’زمینی اخلاقیات‘ میں فطرت کا احترام اور ماحول کی حفاظت پر خاص توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ ماحولیاتی تنقیدی دبستان میں فطرت کی عکاسی کرتی تخلیقات، رومانی شاعری، چرند و پرند کی کہانیوں، سائنسی بیانیہ وغیرہ کو زیر بحث لایا جاتا ہے اور اس بات پر روشنی ڈالی جاتی ہے کہ کرۂ ارض پر موجود بنی نوع انسان اور دیگر انواع ( مثلاً حیوانات، نباتات، جمادات، سمندر، ہوا، پانی، چاند، سورج وغیرہ) برابر کے شہری ہیں۔ ماحولیاتی نقاد انسان اور فطرت کے مابین تعلقات اور انسانی زندگی میں ماحولیات کی اہمیت و افادیت پر زور دیتے ہیں اور ادب میں ماحولیات کی ترجمانی کس طرح کی گئی ہے، فطری مناظر، بارش، ندی، نالے، دریا، سمندر، پہاڑ، ہوا، کھیت کھلیان اور چرند پرند وغیرہ کو فکشن یا شاعری میں کس طور سے پیش کیا گیا ہے، ان کی حفاظت کوئی تدبیر پیش کی گئی ہے یا محض انھیں تشبیہ اور استعارے کے طور پر ہی استعمال میں لایا گیا ہے، ساتھ ہی اس امر کی بھی کھوج کرتے ہیں کہ انسان ماحولیاتی توازن کو کس حد تک اہمیت دیتا ہے اور اس کی حفاظت کے لیے کن اقدامات کی نشاندہی کرتا ہے۔

فطرت سے انسان کا گہرا رشتہ ہے۔ پھولوں کا کھلنا، چڑیوں کا چہچہانا، جانوروں کا چلنا پھرنا، جنگلوں کا پیڑ پودوں سے گھرا رہنا، سمندروں کا اٹکھیلیاں کرنا، سبز کھیتوں کا لہلہانا، سورج سے امید بھری کرنوں کا ابھرنا اور چاندنی راتوں میں تھکن کو دور کرتے گیت گنگنانا سب فطرت سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی فطری اشیا انسان کے دل کو سکون و اطمینان بخشتی ہیں لیکن انسان جیسے جیسے ترقی کی منازل طے کررہا ہے فطرت سے اس کا رشتہ کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ ترقی کے زعم میں وہ اس خوبصورت ماحولیاتی زندگی کو بھول کر مصنوعی زندگی بسر کر رہا ہے۔ آج ترقی کے اس دور میں جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی، سمندروں کو پاٹ کر زمین کی بازیابی، موسمیاتی تبدیلیاں، کارخانوں ،گاڑیوں سے نکلتے زہریلے دھوئیں اور زہریلا پانی (جسے بغیر کسی جانچ کے سمندروں اور دریائوں میں بہایا جا رہا ہے جس سے آبی حیات کو بھی خطرات پہنچ رہے ہیں)، زرعی ادویات کے استعمال سے ابھرتے نقصانات اور جنگی و ایٹمی ہتھیاروں کی صنعت کاری کے پھیلائو وغیرہ نے ماحول کو آلودہ اور انسانی زندگی کو خطرات سے پُر کر دیا ہے۔

ادب میں ماحولیاتی تنقید کی ابتدا اس وقت عمل میں آئی جب دور حاضر کے حساس تخلیق کاروں نے فطرت کی بحالی پر زور دیتے ہوئے ماحولیات کی اہمیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آلودگی سے پر ماحول کو صاف شفاف کرنے کے لیے خیالات و افکار پیش کیے۔اس سلسلے میں سب سے پہلے ایلڈ ولیوپولڈ کی کتاب A Sand Country Almance  (1949) کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ کتاب ’بشر مرکوزیت‘سے ہٹ کر ’زمینی اخلاقیات‘ سے تعلق رکھتی ہے۔اس کے بعد ولیم روئیکرٹ کا مضمون  Literature and Ecology: an Experiment in Ecocriticism  ماحولیاتی تنقیدی اصطلاح کے طور پر منظر عام پر آیا۔ انھوں نے اپنے مضمون میں ادب کی ’ماحولیاتی شعریات‘ کی تلاش کی اور ہماری زبان اور ادب کو تخلیقی توانائی محفوظ کرنے کا ذریعہ بتایا ہے ۔ بقول ولیم روئیکرٹ:

’’ادب میں بسنے والی توانائی قابل تجدید ہوتی ہے۔ سورج سے خارج ہونے والی توانائی کے برعکس ادب کی محفوظ توانائی ختم یا منتشر نہیں ہوتی بلکہ دوسرے متون میں منقلب ہو جاتی ہے۔‘‘  1

ماحولیاتی تنقید کے ابتدائی دبستان میں انسانی ثقافت اور فطرت کے درمیان رشتوں کا مطالعہ کیا گیا ہے اور فطری و طبعی دنیا کے آپسی حقوق پر بحث کرکے دونوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اس ابتدائی دور میں ماحولیاتی نقاد کا بنیادی مقصد ادب میں ماحولیاتی موجودگی کی تلاش ، ماحولیاتی بحران کو پرکھنا اور اس کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ اسی لیے اس دور کو ’سبز انتقاد‘، ’ماحولیاتی شعریات‘ اور ’سبز ثقافتی مطالعات‘ وغیرہ ناموں سے منسوب کیا گیا۔

مغربی فلسفی شیرل گلاٹفیلٹی ماحولیاتی تنقید کا تعارف یوں بیان کرتے ہیں:

’’سادہ لفظوں میں ماحولیاتی تنقید ادب اور طبعی ماحول کے مابین رشتوں کے مطالعے کا نام ہے۔ جیسے تانیثی تنقید ایک صنفی شعور کے تناظر میں ادب اور زبان کا جائزہ لیتی ہے اور مارکسی تنقید پیداوار اور معاشی طبقات کی روشنی میں ادبی متن کو مرکز بناتی ہے، اسی طرح ماحولیاتی تنقید ادبی مطالعات کے لیے ایک زمین مرکوز منہاج اختیار کرتی ہے۔‘‘  2

ادب میں فطرت کا استعمال اکثر رومانی شعور کے طور پر ہی کیا جاتا رہا اور اس کے جزئیات و حسن کی تعریف بیان کی جاتی رہی لیکن ماحولیاتی تنقید میں رومانی شعور کے برعکس ’زمین مرکز‘ کو خیال میں رکھتے ہوئے فطرت کو اس کی موجودہ صورت حال میں دیکھنے کی سعی کی گئی اور اس میں رونما ہوتی تبدیلیوں اور ان تبدیلیوں کے اثرات انسان ، چرند ، پرند کو کس طرح نقصان پہنچا رہے ہیں اس پر روشنی ڈالی گئی اوراس مطالعے کو ماحولیاتی شعور کا نام دیا گیا اور ساتھ ہی ماحولیاتی تنقید کے زیر اثر ایک ایسا ادبی نظریہ بھی ابھر کر سامنے آیا جسے’ایکوفیمینزم‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔اس ادبی نظریے میں ’ماحولیات مادریت‘ کو زیر بحث لایا گیا اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ مرد اور عورت انسانی لحاظ سے برابر اور جسمانی و جذباتی لحاظ سے مختلف ہیں اور دونوں کے معاملات و حقوق بھی مختلف مزاج رکھتے ہیں۔

اردو ادب میںماحولیاتی تنقید کی ابتدا مغربی ادب کے مقابلے بڑی تاخیر سے عمل میں آئی۔ اس سے قبل علی گڑھ تحریک، رومانی تحریک، ترقی پسند تحریک، جدیدیت اور مابعد جدیدیت وغیرہ نے ادب میں اپنا مقام بنایالیکن یہ تمام تحریکات کسی مخصوص نظریے و رجحان کے ساتھ ادب میں متعارف ہوئیں جن کے موضوعات بھی بشر سے تعلق رکھتے تھے۔ جنگوں اور ایٹمی ہتھیاروں اور مشینوں سے انسان کی زندگی میں کیا کیا تغیرات رونما ہوئے ان کا بیان کرنا ہی ان تحریکات کا خاص مقصد تھا جبکہ ماحولیاتی تنقید تحریک ورجحان کے برخلاف ادبی نظریے و مطالعے کے طور پر ابھری جس کی ابتدا 20ویں صدی کے اواخر اور 21 ویں صدی کے اوائل میں بڑھتی آبادی، صنعت کاری،صنعتی انقلاب، ایٹمی ہتھیار اور سائنس و ٹکنالوجی کی نئی نئی ایجادات،مشینوں کے بے دریغ استعمال سے انسان اور فطرت پر کیا اثرات رونما ہوئے اس کی ترجمانی منظر عام پر آئی۔ ماحول کو درپیش مسائل، ماحولیاتی بحران اور ماحولیاتی آلودگیوں کا ذکر اس سے اثرانداز ہوتی انسانی زندگی کا تذکرہ اردو ادب میں مغربی ادب سے فروغ پایا۔ جس میں اورنگ زیب نیازی کی ایک ترجمہ شدہ کتاب اردو ادب میں ماحولیاتی تنقیدی دبستان کے روپ میں ملتی ہے۔ اس کتاب میں ماحولیاتی مضامین کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نسترن احسن فتیحی کی کتاب ’ایکوفیمینزم اور عصری تانیثی اردو افسانہ‘ میں ماحولیاتی مادریت کی عکاسی اور ماحولیاتی مادریت کے زیر اثر تخلیق کردہ افسانوں کو پیش کیا گیا ہے، لیکن اگر ہم غور کریں تو ادب کی تمام اصناف میں ماحولیاتی تنقید کے آثار ابتدا سے دیکھنے کو ملتے ہیں چاہے وہ فکشن ہو یا شاعری، ہمارے سنجیدہ تخلیق کاروں نے ابتدا سے ہی اپنے اطراف کا مکمل جائزہ لیا ہے اور نہ صرف انسانی زندگی کو موضوع بنایا بلکہ موسمیاتی تبدیلی، جنگلوں کی کٹائی اور  چرند و پرند کی کیفیات وغیرہ تمام کو اپنی تخلیقات کا حصہ بنایا ہے۔

اردو افسانوں کے اولین دور کا جائزہ لیں تو منشی پریم چند، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، احمد علی، قرۃالعین حیدر، حجاب امتیاز علی، بلونت سنگھ، سجاد حیدر یلدرم، حسن منظر، خالدہ حسین، انتظارحسین، فہیم اعظمی وغیرہ نے اپنے افسانوں میں فطرت کا ذکر بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے اثر انداز ہوتی زندگی کا بخوبی نقشہ پیش کیا ہے۔ ان افسانہ نگاروں نے فرد کے مسائل و رجحانات کو مدّنظر رکھ کر افسانے تخلیق کیے لیکن دیہی زندگی کی منظر نگاری میں ان افسانہ نگاروں نے ماحولیات کی بھی عمدہ تصویر کشی کی ہے۔ پریم چند کے زیادہ ترافسانے او رناول دیہی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کم سہولیات میں زندگی بسر کرتے فرد کی مکمل ترجمانی ملتی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں دیہات کے مسائل، کسانوں کی کیفیت، آپسی رنجشوں سے ہونے والے نقصانات، چرند وپرند کے انسانی زندگی میں ادا کرتے اہم کردار وغیرہ تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ ان کے افسانہ ’دو بیل‘ کے مرکزی کردار دو بیلوں کے اپنے مالک سے جذباتی وابستگی مظاہر فطرت اور انسانی رشتوں کی قربت کا منظرنامہ بیان کرتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’آبلے‘، بلونت سنگھ کا ’ گرنتھی‘، پریم چند کا ’راہِ نجات، پوس کی رات‘، منٹو کا ’بارش‘، انتظار حسین کا ’ انجنہاری کی گھریا،اجنبی پرندے‘،احمد علی کا ’قید خانہ‘ اور سید محمد اشرف کا ـــ’ڈار سے بچھڑے‘ وغیرہ میں انسان اور فطرت کی بدلتی تصویروں، پہاڑوں، ندیوں، چشموں، آبشار، کھیت کھلیان، رسم و رواج اور مقامیت کی بہترین منظرنگاری ملتی ہے۔

احمد علی کا افسانہ ’مہاوٹوں کی ایک رات‘ جس میں ایک غریب ماں ٹوٹی پھوٹی ٹپکتی جھونپڑی میں زوروشور سے برستی بارشوں سے پریشان اپنے اچھے دنوں کو یاد کرتی ہے اور مہاوٹوں کی اس رات کو برا کہتی ہے جس نے  اس کے جسم کو برف سے اکڑادیا ہے۔ بوڑھی عورت کہتی ہے:

’’ چھت ہے کہ کڑیاں رہ گئیں ہیں اور اس پر بارش! یا اللہ کیا مہاوٹیں اب کے ایسی برسیں گی کہ گویا ان کو پھر برسنا ہی نہیں۔ اب تو روک دو۔ کہاں جائوں، کیا کروں۔ اس سے تو موت ہی آجائے! ۔‘‘  3

احمد علی غریب بوڑھی کے کردار کے ذریعے اس کے اچھے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے فطرت کے حسن کا منظر یوں بیان کرتے ہیں:

’’ایک باغ درختوں سے گھرا ہوا، جن کے کاہی پتوں پر تاروں کی چمک شبنم اور تارے چمکا رہی ہے۔ واہ واہ، کیا خوش نما پھل ہیں۔ آم ،منھ لال،کلیجہ بال۔ ماں کا بغدد بچہ، سیب کیسے خوبصورت ہیں۔ اندھیرے اندھیرے، درختوں میں سرخ اور گلابی اور پستئی لٹکے ہوئے ہیں۔ ڈالیوں سمیت جھکے ہوئے ہیں۔‘‘ 4

احمد علی کا یہ افسانہ حالانکہ ماحولیاتی تنقید کو موضوع بنا کر نہیں لکھا گیا ہے لیکن افسانہ نگار نے افسانہ تخلیق کرتے وقت ماحول کی خوبصورتی کا بغور جائزہ لیا ہے اور اس کی انسانی زندگی میں ماحول کی اہمیت واضح کی ہے۔ بیدی کا افسانہ ’دس منٹ بارش میں‘ قدرت کی اس نعمت کو واضح کرتا ہے جو زندگی کا اہم عنصر ہے۔ بارش گرمی سے جھلستے بدن کو سکون دیتی ہے، سوکھے پڑے ندی نالوں کو سیراب کرتی ہے کھیت کھلیان کو لہرا کر کسانوں کی محنت کو انجام تک پہنچاتی ہے۔بارش کے تعلق سے بیدی لکھتے ہیں:

’’بارش میں ایشور کی دیا سے کوئی نرم و گرم کپڑے زیب تن کرتا ہے تو کوئی عریاں ہو جاتا ہے۔ کسی کی آمدنی دوگنی ہو جاتی ہے، تو کسی کی کھپریل ٹوٹ جاتی ہے۔ کوئی شب سمور گزارتا ہے، کوئی شب تنور۔ ‘‘5

اس طرح قرۃ العین حیدر کے افسانے کا یہ اقتباس دیکھیں جس میں فطرت کی خوبصورتی اور چرند و پرند کی موجودگی سے انسانی ذہن کس قدر مطمئن اور دلی سکون حاصل کرتا ہے۔وہ اپنے افسانے ’میں نے لاکھوں کے بول سہے‘ میں لکھتی ہیں:

’’ہمارے یہاں چاروں طرف گلہریاں تھیں۔ جنگلی طوطے، خرگوش اور جھرمٹ کے سارے پرند لیچیوں کی ٹہنیوں  پر اکھٹے ہو کر شور مچا رہے تھے۔ وادی کے نشیب میں گذر کر پہاڑی کے صنوبروں میں گھِرے ہوئے ایک چھوٹے سے پرانے سرخ رنگ کی چھت والے گھر کے سامنے پہنچے۔ ایسا گھر جو ہمیں اکثر کرسمس کارڈوں پر سفید برف سے ڈھکا ہوا نظر آتا ہے اور ایسا ہی کوئی پرانا، سرخ چھت اور شیشے کے برآمدوں اور سبز لکڑی کی جالیوں والا درختوں کے جھنڈ میں چھپا ہوا گھر اچانک نظر آکر جانے کیوں یک لخت بڑا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہمیں ساری عمر صرف اسی جگہ پہنچنے کا انتظار رہا ہے۔‘‘  6

دور حاضر کے افسانہ نگاروں نے بدلتی ہوئی صورت حال پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے معاشی، اقتصادی، سماجی، تہذیبی نظام کے مسائل کے ساتھ ساتھ ماحولیات کا بھی بغور مشاہدہ کیا اور نہ صرف ماحولیاتی تغیرات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا بلکہ ان مسائل کا حل بھی اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔دور حاضرکے افسانوں میں شہرکاری،پاورفل ٹرانسمیٹر کے ریڈی ایشن اور اس سے پھیلتے ماحولیاتی توازن کے انتشار، درختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی، ماحول کو قدرت سے دور کرکے مصنوعی اشیا کی ایجادات، ماحولیاتی بحران اور آلودگیوں کی عکاسی ملتی ہے۔آج انسانی زندگی اس قدر خطرات سے پر ہوچکی ہے کہ کب کیا ہوجائے اس کا ڈر ہر کسی کو ستائے رہتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں مشینوں والی زندگی بسر کرتے کرتے انسان زہر آلودہ ماحول کا شکار ہو گیا ہے۔ جہاں اس کا سانس لینا بھی محال ہے۔ مشینی زندگی کی اس بے حس دنیا میں خود فرد بھی مشین کا ایک اوزار بن کر رہ گیا ہے اور ہر طرح کے جذبات و احساسات سے عاری مصنوعی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ شہروں میں بڑھتی آبادی نے گائوں کو ویرانی بخشی اور محبت و الفت کے ماحول میں نفرت ، حسد اور احساسِ برتری و احساس کمتری جیسے عناصر شامل کر دیے۔

سائنس و ٹکنالوجی کے اس عہد میں نئی نئی مشینوں کی ایجاد نے گھریلو صنعتوں پر گہرا اثر ڈالا اور ایسے فنکاروں کا استحصال بڑھا جو گھر بیٹھے اپنے ہنر سے چھوٹی چھوٹی صنعت کاری و گھریلو دستکاری سے اپنا اور اپنوں کا پیٹ بھرتے تھے۔ آج کے بے مروّت اور بے حس دور نے ان کی محنت و مشقت کو نظراندازکر کے مصنوعی اشیا اور مشینوں و کیمکل سے تیار کردہ اشیا (جو مضر صحت ہے) کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان غربا و مفلسوں نے اپنے ہنر کی بے قدری کی وجہ سے نسل در نسل گھریلوں صنعتوں میں دلچسپی کم کر کے بے لطف شہری زندگی کی روزگاری کو فوقیت دی۔آج کا حساس فنکار اپنے گردوپیش کا مشاہدہ کرتے ہوئے شہروں سے نفرت اور گائوں دیہات کی بے حد سکونی والی زندگی کو یاد کرتا ہے اور اس کے ختم ہونے پر فکرمند نظر آتا ہے۔ نسترن احسن فتیحی دور حاضر کے افسانہ نگاروں کے اسلوب پر یوں رقم طراز ہیں:

’’اب تو خلا کو آلودہ کرنے میں سائنس دانوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ یہاں ٹھہر کر ایک اور اہم پہلو پر غور کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ان افسانہ نگاروں نے فطرت کے ایک وسیع و عریض منظر کو اپنی تخلیقات کا اہم ساختیہ بنایا ہے۔ ماحولیاتی مفکرین فطرت کے ایک وسیع و عریض منظر کو جس میں زندگی کے گہرے رازوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے یا جس میں تقدیر کے المیے کو پیش کیا گیا ہے ایسے فکشن میں ماحولیاتی آلودگی اظہار کا ایک گہرا ساختیہ بن جاتا ہے۔‘‘ 7

نسترن احسن فتیحی نے ماحولیاتی تنقید میں ’ایکوفیمینزم (ماحولیاتی تانیثیت)‘ پر خاص توجہ مرکوز کی اور اپنی کتاب میں ان خواتین کے افسانے پیش کیے جو ماحول اور ماحولیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان خواتین افسانہ نگاروں میںسبین علی، غزال ضیغم،سلمیٰ جیلانی، ڈاکٹر نگہت نسیم ، کوثر جمال، انجم قدوائی، نسیم سید،شاہین کاظمی، نورالعین ساحرہ، ناہید اختر، نسترن احسن فتیحی، عینی علی، ترنم ریاض، نگار عظیم، عذرا نقوی، افشاں ملک، مہرافروز، صادقہ نواب سحر وغیرہ  شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی تخلیقات میں ماحولیات و فطرت کو نئے استعارے کے طور پر برت کر دور حاضر کی تبدیلیوں اور تباہیوں کا ذکر کیا ہے اور انسان کی ہوسناکی و ترقی کے ماحول پر پڑنے والے اثرات کو اپنے افسانے نسل (نسترن احسن فتیحی)، بوگن ویلیا کی اوٹ سے (عذرا نقوی)، کتن والی (سبین علی)، اسنومین(نور العین ساحرہ)، بیل فلاور(نگہت نسیم)، پانچواں موسم (شاہین کاظمی)، ایکوریم (نگار عظیم) اور عشق پیچاں (سلمیٰ جیلانی)  وغیرہ میں بڑی خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔

حواشی

1        ولیم روئیکرٹ[William Rueckert]ــ’’Litrature and Ecology:An Experiment in Ecocriticism‘‘،مشمولہ The Ecocriticism Reader:Landmark in Litrary Ecology، مرتبہ شیرل گلاٹفیلٹی، ص 123-105

2        ماحولیاتی تنقید: نظریہ اور عمل،ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی، اردو سائنس بورڈ،پاکستان ،2019، ص15-16

3        انگارے، سجاد ظہیر ،مشمولہ مہاوٹوں کی ایک رات،نظامی پریس وکٹوریہ اسٹریٹ،لکھنؤ،ص 81

4        انگارے ،سجاد ظہیر ،مشمولہ مہاوٹوں کی ایک رات،نظامی پریس وکٹوریہ اسٹریٹ،لکھنؤ،ص82

5        دانہ و دوام،راجیندر سنگھ بیدی ،مشمولہ دس منٹ پارش میں،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،نئی دہلی،1980،ص 159

6        شیشے کے گھر،قرۃ العین حیدر،مشمولہ میں نے لاکھوں کے بول سہے،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،2004،ص57

7        ایکوفیمینزم اور عصری تانیثی اردو افسانہ، نسترن احسن فتیحی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی،2016، ص279-80

 

Mo Fareed

House No: 28-A, Street No.: 1

Sangam Vihar, Wazirabad

Delhi- 110084

Mob.: 78603242

fareed786sp@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو کے تین جگر، مضمون نگار: مختار ٹونکی

  اردو دنیا، دسمبر 2024 راقم التحریر کے زیرمطالعہ جگر تخلص والے تین نامور شعرا رہے ہیں اور تینوں ہی اپنی فکر رسا اور طرز ادا کے اعتبار سے من...