اردو دنیا، ستمبر 2024
یہ کلیہ اپنی جگہ درست ہے کہ شعر و ادب کی دنیا میں بھی
تعین قدر کے پیمانے ماحول اور مزاج کے تابع رہتے ہیں کبھی نظریات کی شاعری گراں
قدر سمجھی جاتی ہے تو کبھی شاعری میں جذبہ و احساس کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے
مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرلینا صیح نہیں کہ نظریات کی شاعری جذبہ و احساس سے بالکل
عاری ہوتی ہے اگر ایسا ہوتا تو فریدپربتی کانام اردو شاعری کا ایک خوبصورت نام
قرار نہیں پاتا۔فرید پربتی نے اس وقت لکھنا شروع کیا جب جموں وکشمیر میں جدیدیت کا
رجحان سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
فرید پربتی کی شاعری میں دل موہ لینے والی کیفیت ہے تو
اس کا سبب یہی ہے کہ ان کا شعری کردار تخلیقی سطح سے کبھی نیچے نہیں اترا اگر ایسا
ہوتا تو ان کی شاعری تخلیقی حسن کا استعارہ نہیں بن پاتی۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت کا
دائرہ وسیع ہے۔ کبھی وہ شاعر بن کر ابھرتے ہیںتو کبھی محقق و نقاد کی صورت اختیار
کرتے ہیں۔کبھی عروض و اصلاح کے شناور بن کر، تو کبھی خالص رباعی گوشاعر بن کر
سامنے آتے ہیں غرض جس میدان میں قدم رکھا، اس میں امتیازی شاخت قائم کی۔
فرید پربتی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں یا پھر رباعی
کے، ان کے جتنے بھی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں وہ ان کے شعری کردار کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں
جن میں ’ابر تر،آب نیساں، اثبات، فریدنامہ اور گفتگو چاند سے ‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ان کے شعری کردار کو ذہن میں رکھنے سے پہلے شاعری کے بارے میں ’فرید نامہ ‘ کے دیباچے
میں ان کی رائے ضرور دیکھیں،لکھتے ہیں:
’’شاعری
کا منظر نامہ دلکش بھی ہے اور پیچیدہ بھی، اُفق شعر پر متعدد رنگ ایک دوسرے کو
کاٹتے ہوئے گزر تے ہیں اور ہر رنگ کو اصرار ہے کہ وہی سب سے زیادہ سچا اور موزوں
رنگ ہے۔ میرے نزدیک شاعری اظہار ذات کا ایک وسیلہ ہے۔ یہ اپنے اصل مفہوم کے لحاظ
سے زمان و مکان کی حدودو قیود سے یکسر بالا تر ہوتی ہے۔شاعری جدید ہے نہ قدیم بلکہ
صرف شاعری، متنوع اظہار کے سانچوں کے باوجود یہ اپنی اصلیت کی دفاع کرتی ہے۔‘‘1
غرض فرید پربتی کے شعری کردار کو محض اظہار ذات کی شاعری
قرار دینا ان کی شاعری کے معنیاتی امکانات کو محدود کرنے کے مترادف ہوگا۔ فرید
پربتی اردو شاعری کی روایات، اجتہادات اور عصری مقتضیات کا گہرا شعور رکھنے والے ایک ہمہ جہت شاعر ہیں رباعی ہوں یاغزل،
وہ طرز فکر اور پیرایہ بیان دونوں کے اعتبار سے انفرادیت رکھتے ہیں۔ فرید پربتی کے
مجموعہ ’خبر تحیر‘کے شروع میں عتیق اللہ رقمطراز ہیں:
’’فرید
پربتی‘ خواہ غزل کو اپنا ذریعہ اظہار بنائیںکہ رباعی یا کسی اور صنف کو‘ان کی سج
دھج ہمیشہ دوسروں سے مختلف ہوتی ہے۔ فرید پربتی کی صلاحیت حس بے حد شدید ہے، وہ چیزوں
سے پرے جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے، ان کے اندراُترنے کی سعی بھی کرتے ہیں تاکہ
جہان اندر جہان کی کیفیات کو اپنے تجربے کا حصہ بنا سکیں۔‘‘2
اب چند مثالیں ملاحظہ ہوں ؎
خواب ہیں سارے نئے آنکھ پُرانی میری
ہے تضادات سے بھر پور کہانی میری
اسی مکاں میں گھٹن ہو رہی ہے اب محسوس
یہی مکان بہت ہی کشادہ تھا پہلے
تمنا اپنی ان پر آشکارا کررہا ہوں میں
جو پہلے کر چکا ہوں اب دوبارہ کررہا ہوں میں
میں کھل کر کہہ نہیں سکتا نیاز عشق کی باتیں
فقط ان کی طرف بس اک اشارہ کررہا ہوں میں
رگ و پے میں سرایت کرگیا وہ
مجھی کو مجھ سے رخصت کر گیا وہ
یوں تو فرید پربتی روایتی شاعری کے پرستار ہیں پھر بھی
نہ تو وہ دوسروں کے خیالات کو نئے سانچوں میں ڈھالنے میں یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی
اپنے آپ کو دہراتے ہیں ان کی یہ کوشش رہتی ہے کہ نت نئے خیالات، تشبیہات اور
استعارے استعمال کریں اور روایتی شاعری میں نئی روح پھونک دیں۔ان کے شعری مجموعوں
کے مطالعے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ شاعری کی لفظیات کو گھسے پٹے انداز میں
استعمال کرنے کے بجائے نئے نئے پیکر تراشنے کی کوشش کرتے تھے۔ زبان و بیان اور عروض و آہنگ پر عبور
حاصل تھا۔ جذبات کو فنی قیود کے باوجود برتنے کا بھر پور حوصلہ رکھتے تھے چند مثالیں ؎
سلگتے خواب خریدے ہیں نیند کے بدلے
یہ کاروبار پرانا نیا نیا سا لگا
ہم کہ محروم ہیں چراغ سے بھی
وہ کہ سورج کے بادشاہ ہوئے
کاغذی ناؤ یہ کیا پار اُتارے گی فرید
خود کو نادان تماشا نہ بنا پانی پر
اس جگہ تم نے مجھ کو چھوڑ دیا
جس جگہ سبز ہے نہ پانی ہے
اب سلامت مکان ہے نہ مکیں
کیا یہی تیری پاسبانی ہے
فرید پربتی کی شاعری اظہار ذات کی شاعری ہے اُن کی غزلیں
اور رباعیاں اپنے مخصوص لہجے اور منفرد اسلوب کی وجہ سے دور سے پہچانی جاسکتی ہیں
۔فرید کا تعلق اگر چہ جدید نسل سے ہے مگر اُن کی شاعری میں قدیم و جدید کا ایک
خوبصورت امتزاج پیدا ہوگیا ہے جو بہت کم شاعروں کو نصیب ہوتا ہے ۔مثال کے طور
پر ؎
تنہا ہوں چار سمت ہے یلغار تیر گی
میں اک چراغ ہوں تہہ داماں نہ رکھ مجھے
دے رہا تھا کوئی رہ رہ کے صدا یاد آیا
رات چلتی تھی بہت تیز ہوا یاد آیا
فرید پربتی نے صنف رباعی کے بارے میں طالب علمی کے
زمانے سے ہی غور کرنا شروع کردیا تھااس صنف کی طرف جیسا کہ خود کہا ہے انھیں مائل
کرنے میں سب سے زیادہ ہاتھ غلام رسول نازکی کا ہے ۔کم و بیش 300 رباعیاں لکھی ہیں
اور اس صنف کو ان موضوعات سے باہر نکالنے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے یہ صنف کافی
محدود ہو کر رہ گئی تھی۔مجموعہ ’اثبات ‘کے شروع میں شمس الرحمن فارقی لکھتے ہیں:
’’فرید
پربتی نے ان دنوں کثرت سے رباعیاں کہی ہیں ،میرا خیال ہے کہ وہ رباعی کے فن کی رعایتیں
ملحوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو رباعیاں میںنے دیکھیں ان میں کہیں کہیں نئے
رنگ اور آہنگ اور نئے احساس کی چمک نظر آئی۔‘‘3
یہ بات قابل ذکر ہے کہ رباعی کی ظاہری ہیئت بس اتنی ہے
کہ چار مصرعے ہوں اور ان میں سے تین یا چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوں، مگردراصل رباعی
ایک مختصر اور مکمل ڈراما ہوتا ہے۔ اس میں نہ صرف وحدتِ فکر ،تسلسل بیاں اور فنی
ارتکاز کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ایک مکمل ڈرامے کی طرح ہی پلاٹ ،مرکزی خیال، آغاز،
تسلسل، نقطہ عروج اور انجام ہونے چاہئیں، اُن سب چیزوں کے علاوہ یہ چاروں مصرعے رباعی
کے مخصوص وزن یا اوزان میں ہونے چاہئیں۔ رباعی کے لیے چوبیس اوزان مقرر کیے گئے ہیں
جن کو بعد میں خواجہ امام حسن قطان نے دو دائروں ’دائرہ اخرم‘اور ’دائرہ اخرب ‘میں
تقسیم کیا ہے۔ یہاں پر اس چیز کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اگر پہلا،دوسرا،اور
چوتھا یا چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ان میں وحدت ِفکر، تسلسل ِخیال، فنی ارتکاز
بھی ہو مگر مخصوص چوبیس اوزان نہ ہوں تو وہ رباعی نہیں زیادہ سے زیادہ قطعہ کہلائے
گا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فرید کی رباعیاں اس صنف کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں،شمس
الرحمن فارقی لکھتے ہیں۔ ’’فرید پربتی کی رباعیوں میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی
ہے انھوں نے تقریباً تمام اوزان میں رباعیاں کہی ہیں۔‘‘4 اتنا ہی نہیں کہ فرید
پربتی نے تمام اوزان میں رباعیاں کہی ہیں بلکہ موضوعات کی بات کریں تو جہاںان کی
رباعیوں میں روایتی موضوعات مثلاً اخلاقیات، تصوف، وعظ و پند ملتے ہیں وہیں موجودہ
دور کے تقاضوں کو بھی شاعرانہ ہنر مندی سے برتا ہے۔ چند مثالیں ؎
تکتا ہوں ہر اک چیز کو ہٹ کر تب سے
آپ اپنے سے رہتا ہوں کٹ کر تب سے
اندازہ ہوا جب سے دنیا ہے وسیع
بیٹھا ہوں پروں میں سمٹ کر تب سے
گاؤں کی ہے اور نہ ہے شہری ہوا
آوارہ ہے من موجی ہے یہ لہری ہوا
رُک جا کہ شجر میرے گریں گے سارے
مت کہہ کہ سنے گی نہیں کچھ بہری ہوا
ٹوٹی ہوئی دیوار نظر آتی ہے
سائے سے بے زار نظر آتی ہے
اے زیست کے سائے میں اچھلنے والو
کاندھوں پہ مجھے بار نظر آتی ہے
یوں تو کشمیر میں اردو شاعری کے آثار باضابطہ طور پر
اس وقت سے مل رہے ہیں جس وقت شمالی ہندمیں اردو کے آثار ملتے ہیں تاہم رباعی کا
سراغ کہیں نہیں ملتا ۔بہت عرصے دیر تک غلام رسول نازکی کے چو مصرعوں کو ہی رباعی
سمجھتے تھے جو رباعی کے قریب تو تھے لیکن رباعی کی مخصوص بحر سے خالی ۔کشمیر کا
پہلا رباعی گو شاعر شہہ زور کاشمیری کو مانتے ہیں لیکن مسعو د سامون اور فرید پربتی
نے اس صنف کو سنجیدگی سے لیا ۔فرید پربتی کی خاصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں شہر آشوب
سے لے کر واردات ِ قلبی کے مضامین پائے جاتے ہیں ۔بقول حقانی القاسمی:
’’فرید
پربتی اپنے شعری طریق اور تخلیقی اظہار میں وحید و فرید ہیں۔ انھیں شعری روایت کی
جمالیات کی آگہی ہے اور انسانی اقدار و روایات کا عرفان بھی ہے۔ درد و غم ان کے
تخلیقی وجدان کا ایک اٹوٹ حصّہ بن گئے ہیں۔ اس لیے ان کی شاعری میں وہ ساری آوازیں
مل جاتی ہیں جو کسی ٹوٹے ہوئے زخمی دل سے
آہ کی صورت اُبھرتی ہیں۔‘‘5
مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فرید پربتی نہ صرف
غزل بلکہ رباعی کے بھی منجھے ہوئے شاعر ہیں، وہ کشمیر میں رہتے ہوئے یہاں کے سیاسی
و سماجی منظر نامے کا ایک حصہ ہوتے ہوئے بھی خود کو صرف کشمیر تک محدود رکھنا پسند
نہیں کیا۔ اس کے برعکس وہ اپنی شناخت پورے ملک بلکہ وسیع تر کائنات اور اس کے
لامحدود افکار سے قائم کرتے نظر آتے ہیں ۔اس لحاظ سے ان کے یہاں ایک آفاقی شعری
تناظر کی بھی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ بقول حامدی کاشمیری ’’فرید نہ صرف نئی شعری
فضا کے زائیدہ ہیں بلکہ اپنے اشعار کی رخشندگی سے اس فضا کی تابناکی میں اضافہ کر
رہے ہیں۔‘‘6
حوالہ جات
1 فرید
پربتی: فرید نامہ،عفیف پرنٹرس،دہلی،2003،ص12
2 فرید
پربتی: خبر تحیر،رباعیوں کا مجموعہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی،2007،ص2
3 فرید
پربتی ،اثبات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی، 1998، ص2
4 بحوالہ
تنقید رباعی، فرید پربتی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی، 2011،ص156
5 فرید
پربتی (شعر، شعور اور شعریات)، مرتبہ،سلیم سالک، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی،2006،ص28
6 ایضاً،
ص 6
Nazeer Ahmad Kumar
Research Scholar, Dept Urdu
Kashmir University
Srinagar-190006 (J&K)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں