اردو دنیا، اکتوبر2024
س: زبانوں کی موت کی وجوہات کیا ہیں؟
ج: زبان اور بولیوں کی موت کی کئی وجوہ ہیں۔ بڑی وجہ یہ
ہے کہ جب کسی زبان کو ایک طبقہ ’ان کا‘ اور ایک طبقہ صرف ’اپناسمجھنے‘ لگتا ہے یا
عوام کی روزمرہ کی زندگی سے زبانوں اوربولیوں کا رشتہ ٹوٹ جاتاہے تو وہ مرجاتی ہیں۔
ایک زبان کو جب دوسری خاص طور سے ارباب اقتدار اور اکثریت کی زبان کی ’شیلی‘ سمجھ
لیاجاتا ہے تب بھی یہی ہوتا ہے۔ زبانوں اور بولیوں کا تعلق معاشرے سے ہے، معاشرے
سے ان کا تعلق باقی نہ رہے توان کا وہی حشر ہوتاہے جو پانی سے باہرمچھلی کا۔
س: زبان کو زندہ رکھنے کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا
جانا چاہیے؟
ج: زبان کو زندہ رکھنے کے لیے اس کا معاشرے سے جڑارہنا
اور زندہ زبانوں اور نفع بخش علوم کے الفاظ کا قبول کرتے رہنا ضروری ہے۔ اپنی شرط
پر دوسری زبانوں کے الفاظ قبول نہ کرنے سے زبانیں سمٹنے اور مرنے لگتی ہیں۔
س: زبان کا تہذیب و ثقافت سے کیا رشتہ ہے؟
ج: ہر زبان کی صورت گری کسی خاص تہذیب و ثقافت کے ہی
حوالے سے ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہوتاتوانگریزی میںBig
Pigکا اور اردو میں ؎
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
کا تصور نہ ہوتا۔ روسی، فرانسیسی ، انگریزی اور ہندوستان
کی مختلف بولیوں کے ادب اور انداز بیان میں بھی اتنا فرق نہ ہوتا۔
س: کیا زبانوں کی موت سے انسانی وراثت کے تحفظ کا مسئلہ
بھی جڑا ہوا ہے؟
ج: جی ہاں ! ایک زبان کا مرنا ایک تہذیب کا مرنا ہے۔ کسی
بھی زبان یا بولی کے ختم ہونے سے انسانی وراثت کے تحفظ کا مسئلہ پیدا ہوتاہے۔ وہ
زبان ہی ہے جو ثقافت و معاشرت کے ہر پہلو کو محفوظ رکھتی ہے۔
س: کیا کسی زبان میں خواندگی، سائنسی، سماجی مواد کی کمی
سے زبان پر منفی اثرات پڑتے ہیں؟
ج: جی ہاں خواندگی کی شرح میں کمی یا سماجی و سائنسی
علوم میں دوری کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ اردو میں اُمّی شعرا کی ایک روایت ہے ، دوسری زبانوں کے بولنے والوں
میں بھیTradition Oral
کی اہمیت ہے مگر بدلتے معاشرے اور مقبول
ہوتے نئے نئے موضوعات کا حق ادا کرنا بہتر
خواندگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت (AI)
اور ڈیپ فیک فائدہ بخش بھی ہو سکتے ہیں اور نقصان دہ بھی
مگر دونوں صورتوں میں یہ خواندگی کے ساتھ ہی مشروط ہیں۔ اب تو خواندگی میں (Computer Literacy) بھی
شامل ہے۔
س: اردو کا مستقبل کیا ہے؟
ج: اردو خالص ہندوستانی زبان ہے اور ہندوستان میں جو
کچھ ہے وہ سب کچھ اردو میں ہے۔ اردو تحریر و تقریر میں اس کا اظہار بھی کیا جا تارہا ہے۔ بعض ناواقف یہ
کہتے نہیں تھکتے کہ اردو رسم الخط بدیسی ہے مگر وہ اس پر غور نہیںکرتے کہ اردو رسم
الخط میں بعض حروف دوسری یا بدیسی زبانوں کے ضرور ہیں مگر ان کو اس درجہ ’ہندوستانیایا‘
جاچکا ہے کہ اب وہ ہندوستان میں ہی بولے
اور سمجھے جا سکتے ہیں مثلاً حرف ب عربی میں ہے مگر بھ کی آواز صرف اردو میں ہے۔
ایسا نہ ہوتا تو بھابھی، بھار دواج، بھارگو۔۔۔ کیسے بولا جاتا۔ فارسی کامرغ اردو میں
مرغااور مرغی بن گیا ہے ورنہ انڈاکہاں سے آتا؟ موجودہ دور میں اردو زبان کو ایک
طرف توان سے خطرہ ہے جواس کو اور اس کے رسم الخط کو ہندوستانی ہی تسلیم نہیں کرتے اور دوسری طرف ان
سے بھی خطرہ ہے جو اردو شعبوں سے دور رہ کر اردو کی خدمت کرنے والوں کو حلیف نہیں
حریف سمجھتے اور ان کے خلاف طرح طرح ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ار دو کو ایک خطرہ
ان سے بھی ہے جو مدارس، عصری دانش کدوں اور روزمرہ کے کاموں میں استعمال ہونے والی
اردو کو خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
س: زبان کی سطح پر جو بگاڑ پیدا ہورہا ہے اس کو روکنے
کے لیے کون سی ترکیبیں استعمال کی جاسکتی ہیں؟
ج: اردو کے
مستقبل کا انحصار اردو بولنے والوں کے مستقبل اور غیرت پر ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ بے حسی اور بے غیرتی یا تمام الزامات دوسروں کے سر منڈھ کر خود کو بے قصور ثابت
کرنے کی روش نے بھی اردو کے مستقبل پرسوالیہ نشان لگایا ہے۔
سب سے بڑی ضرورت تو یہ ہے کہ لفظوں کے تخلیقی استعمال
سے معنی میں رونما ہونے والے فرق کو سمجھا جائے۔ غالب، شبلی، آزاد ، پریم چند،
راجندر سنگھ بیدی اور ظ انصاری. یا پھر مشتاق یوسفی ’خامہ بگوش‘ کی نثر کا بار بار مطالعہ کیا
جائے۔واقعہ اورسانحہ کے فرق کو ذہن میں رکھاجائے۔ اچھی زبان بولنے اور لکھنے والوں
کی مجلسوں میں شرکت کی جائے ایسے لوگوں کو مدعو کیا جائے جو زبان کی صحت کا خیال
رکھتے ہوئے صاف وسلیس زبان بولتے اور
لکھتے ہیں۔
س: کیا کلاسیکیت، جدیدیت وغیرہ پر گفتگو سے زبان کو کوئی
فائدہ پہنچ سکتا ہے؟
ج: زبان کے
سفراور دنیا میں ادبی رجحانات کے مقبول ونا مقبول ہونے کے بارے میں معلومات تو
ضروری ہے اس لیے کلاسیکیت اور جدیدیت کے بارے میں جانکاری بھی بے فیض نہیں ہے۔ اس
سے زبان کے بارے میں بھی علم ہوتا ہے کہ کلاسیکی ادب میں لفظ کو کس طرح استعمال کیا
جاتا تھا اور جدیدیت نے ان میں کیا تغیرات پیدا کیے یا غلط العام اور غلط العوام میں
کیا فرق ہے۔
س: آپ کے علاقے میںکتنے اردو میڈیم اسکول ہیں اور ان میں
اساتذہ کی تعدا دکتنی ہے؟
ج: میں بھی (مہاراشٹر) سے تعلق رکھتا ہوں۔ یہاں پرائمری
سے ڈاکٹریٹ تک کی اردو تعلیم کا انتظام ہے۔ امید ہے کہ حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی
کے تحت اردو میںتکنیکی اور پیشہ ورانہ کور سیز بھی شروع کیے جائیں گے مگر میں اردو
اسکولوں اور اردو شعبوں کے معیار میں بہتری چاہتا ہوں۔
س: آپ کے علاقے میں کتنی لائبریریاں ہیں اور وہاں کون
کون سے اخبارات و رسائل آتے ہیں؟
ج: لا ئبریریاں تو بہت تھیں۔ پہلے ان لائبریریوںسے اردو
کو ’ٹاٹ باہر‘ کیا گیا پھر اردو لائبریریاں بند ہونا شروع ہوئیں۔ اس کے لیے حکومت
اور میونسپل کارپوریشن ہی ذمے دار نہیں ہے۔ ملّی اداروں میں بھی اردو کے گلے پر کند چھری رکھی گئی۔
س: آپ کے علاقے میں اردو سے جڑی ہوئی کتنی شخصیات ہیں،
جن کی خدمات کا اعتراف علاقائی اور قومی سطح پر نہیں کیا گیا ہے؟
ج: کالی داس گپتا رضا ، علی سردار جعفری ، ظ انصاری۔۔۔
وغیرہ کے علمی ادبی کاموں کا کم زیادہ اعتراف ہوا مگر ڈاکٹر صفدرآہ، مانک ٹالا۔۔۔
وغیرہ کونظر انداز کیا جاتا رہا۔ اس خاکسار شمیم طارق کو توکوئی نہیں پوچھتا۔ ادیبوں کے مقدر اورمرتبے کا فیصلہ وہ کر رہے ہیں
جن کے نامہ اعمال میں سازش،سفارش،گزارش اور خوشامد کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔اردو
زبان وادب میں دلوں کو فتح کرنے کی طاقت آج بھی ہے مگر سازش کرنے والوں نے اس
زبان کی زمینی صورت حال کوبگاڑا ہے۔
س : آپ کے ذہن میں فروغ اردو کے لیے کیا تجاویز اور
مشورے ہیں؟
ج: گھر، محلے، شہر میں اچھے اردو پروگرام کیے جانے چاہئیں۔
ایک واقعہ میں سناؤں جس ادارے میں ڈائرکٹر کی حیثیت سے میں کام کرتا تھا،
مہاراشٹر کے گورنر صاحب تشریف لائے۔ انھوں نے انگریزی میں تقریر کی۔ بچوں نے اردو
میں گیت پیش کیے۔ گیت سن کر وہ اردو بولنے لگے۔ انھوں نے پوچھا ایسے اردو پروگرام
ٹی وی پر کیو ںنہیں پیش کیے جاتے۔ اسی ادارے میں ایک سالانہ پروگرام ہوتا تھا۔ ایک
صاحب اور ان کی بیگم نے پروگرام دیکھا تو اپنی بچی کو لے کر آئے کہ اس کو نویں یا
دسویں کلاس میں داخلہ دیجیے، حالانکہ وہ کسی دوسرے اسکول کی نویں یا دسویں جماعت میں
پڑھ رہی تھی۔
س: اردو رسم الخط کی بقا کے لیے کیا کوششیں کی جاسکتی ہی؟
ج: اردو کی
کتابیں نہیں بکتی تھیں مگر جب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے میلہ لگانا اور
کتابوں سے بھری گاڑی گھمانا شروع کیا تو کتابیں فروخت ہونے لگیں۔ 3 دن ،7دن یا 11
دن کے کیمپ لگائے جائیں تو اردو رسم الخط کو بڑے طبقے میں مقبول بنایا جا سکتا ہے۔
ہر عمر اور صلاحیت کے لوگ اردو رسم الخط سیکھ سکتے ہیں۔ وہ بھی سیکھ سکتے ہیں جو
اردو اور اردو رسم الخط نہیں جانتے مگر اردو کی ادبی تقریبات کی صدارت کرتے ہیں۔
س: دوسری علاقائی زبانوں میں اردو کے فروغ کی کیا کیا
صورتیں ہوسکتی ہیں؟
ج: ہندوستان کی علاقائی زبانیں اردو کے معاملے میں فراخ
دل ہیں۔ بنگلہ، مراٹھی ، کنڑ،تیلگو،تمل کے بارے میں تو ہمیں علم ہے کہ یہ زبانیں
اردو کے الفاظ کو استعمال کرتی ہیں۔ اردو رسم الخط سیکھنے میںبھی قباحت محسوس نہیں
کرتے۔ موجودہ ہندی کئی ریاستوں میںبولی جاتی ہے پہلے اردو ہندی میں بلاوجہ کی
رقابت پیدا کر دی گئی تھی۔ اب یہ رقابت رفاقت میں بدلتی جارہی ہے۔ بنارس ہندو یونورسٹی کے اردو اور ہندی شعبوں نے مل
کر’ اردو اور ہندی کی ساجھی وراثت‘کے عنوان پر دو روزہ سمینار منعقد کیا تھا۔ یہ
سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے۔
س: کیا آپ کے اہل خانہ اردو جانتے ہیں؟
ج: بیٹی، بیٹا ،بہو، پوتیاں سب انگریزی میڈیم کی ہیں
مگر سب اردو بولتی ہیں۔ بیٹے کو اردو رسم الخط پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے مگر وہ بھی
اردو ہی بولتا ہے۔
س: آپ کے بعد کیا آپ کے گھر میں اردو زندہ رہے گی؟
ج: ان شاء اللہ میرے مرنے کے بعد بھی بچے اردو سے
اپنارشتہ باقی رکھیں گے۔ اردو میرے گھر میں بولی بھی جائے گی اور پڑھی بھی جائے گی۔
س: غیراردو حلقے میں فروغ اردو کے لیے کیا حکمت عملی
اختیار کرنی چاہیے؟
ج: غیر اردو داں حلقے میں اردو کو متعارف کرانے کے لیے
ضروری ہے کہ ہم انہیں یہ تاثر دیںکہ اردو ہندوستانی زبان ہے۔ اردو ہندوستان کی
اکھنڈتا کی قائل ہے۔ یہ انتشار کا نہیں اتحاد کا درس دیتی ہے۔اس کے پروگرام ایسے
ہوں کہ لوگ ان میں باربار شریک ہونے کی خواہش ظاہر کریں۔
س: ملکی سطح پر غیرسرکاری تنظیموں سے اردو کی ترویج و
اشاعت کے سلسلے میں کس طرح سے مدد لی جاسکتی ہے؟
ج: اچھے
پروگرام ہوں گے تو امداد کرنے والے سامنے آئیں گے۔ ایسے افراد اور تنظیمیں ہیںجو
پروگرام میں مدد دیتے ہیں مگر اب ہم شاید امداد حاصل کرنے کے بھی اہل نہیں رہ گئے
ہیں جوشہرت پسند امداد دیتے ہیں وہ اسٹیج پر قبضہ کرتے ہیں اور اس سے فائدہ کے
بجائے نقصان ہوتا ہے۔
س: سینٹرل اسکولوں اور نوودیالیہ میں اردو کی تعلیم کا
کوئی معقول انتظام ہے؟
ج: نوودے ودّیالوں،سینٹرل اورکانوینٹ اسکولوں میں اردو
معقول تعلیم کے انتظام کو ترس رہی ہے۔ اگر کہیں ہے بھی تو اس کو معقول اور معیاری
بنائے جانے کی ضرورت ہے۔
زبان کے ارتقا اور اشاعت و مقبولیت میں اپنے پرائے کی
تمیز کی ہی نہیں جانی چا ہیے۔یہ تمیز کرکے گروہ بندی تو کی جا سکتی ہے، کوئی تعمیری
مقصد نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ میںاردو میں لکھتا ہوں، کیا برا کرتا ہوں!جو لکھتا
ہوں وہ پسند ہی کیاجاتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے کئی ایسے ادبی کام کیے ہیں جو
دوسروں نے بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑدیے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ نیک نیتی، محنت و تربیت
اور فیض رسانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اسی لیے نقصان اٹھا کر بھی میںاردو کی خدمت
کر رہا ہوں۔ جن کی سرشت میں ’شر‘ ہے، وہ شوشے چھوڑتے رہتے ہیں مگر منہ کی بھی
کھاتے ہیں۔ شکر ہے کہ میں ان میں نہیں جو لاکھ ڈیڑھ تنخواہ یا لاکھ پچاس ہزار پنشن
لیتے رہنے کے باوجود کچھ نہیں کر سکے۔ آج ان کی حیثیت نشان عبرت کی ہے۔
ہندوستان میں اردو کو جو نقصان پہنچا ہے یا پہنچ رہا ہے
اس کے پس پردہ تعصب،لسانی پالیسی اور زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل پر تو
ہماری نظر ہے مگر ہم اردو والے اپنی کوتاہیوں پر کبھی نظرنہیں کرتے۔ یونیورسٹیوں
اور کالجوں کے اردو شعبوں میں اردو کے فروغ کی عملی تدابیر پر شاید ہی کبھی غور کیا
جاتا ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ ایک طبقے یا جماعت کو یہ احساس بلکہ دعویٰ تو ہے کہ وہ
اردو میں ڈگری یافتہ ہے مگر بیشتر کو یہ احساس نہیں ہے کہ اردو میں ڈگری یافتہ
ہونے کے باوجود وہ اسمٰعیل میرٹھی کی یا پریم چند کی یا فکر تونسوی کی طرح زبان
لکھنے اور بولنے پر قادر نہیں ہیں۔ عام لوگ ’مصلّی‘ س سے اور قبرستان میں قبروں کے
کتبے دیوناگری میں لکھنے لگے ہیں۔ ’ریختہ‘ والوں نے یہ احساس دلایا کہ اردو بولنے
اور سیکھنے کی خواہش یا اردو کاگلیمر ان میں بھی ہے جو اردو رسم الخط نہیں پڑھ
سکتے مگر اردو کے دوچار برگزیدہ استاذ اور تخلیق کار کے علاوہ بیشتر اسی کوشش میں
رہے کہ اردو زبان، تہذیب، ادب اور روایت کو ان کے حوالے سے سمجھا جائے حالانکہ ان
کا املا، جملہ غلط ہے اور وہ من جملہ بھی غلط ہیں۔ اچھی صحبتیں اور مجلسیں اجڑ گئیں،
معیاری تقریبات کم ہی منعقد ہوتی ہیں جہاں کچھ سیکھنے کا موقع ملے۔ ایسے میں
معاشرے سے اردو زبان وادب کا تعلق کیسے برقرار رہے گا؟ معاشرے سے زبان وادب کا
تعلق برقرار نہ رہ سکے تو برا نتیجہ ہی برآمد ہوتا ہے۔ اردو کی خوش نصیبی یہ ہے
کہ اس کو عوام نے زندہ رکھا ہے۔ نقصان پہنچایا ہے تو ان خود پسندوں نے جن کا کھلے
عام یا ڈھکے چھپے دعویٰ ہے کہ اردو ان سے
ہے وہ اردو سے نہیں۔ میں ایک ادارے سے ڈائرکٹر کے طور پر وابستہ تھا۔ وہاں ایک اور
صاحب تھے اور انتظامیہ نے ان کو سر پر بٹھارکھا تھا۔ انھوں نے اس ادارے کے اردو
کردار کو ختم کردیا۔ میں احتجاجاً پہلے ہی اس سے الگ ہوگیا تھا ان کو باقاعدہ مورد
الزام ٹھہراکرنکالا گیا۔
Shamim Tariq
Flat No: 27, 4th Floor, Marzban
Mansion Byculla
fruit Market
Mumbai- 400024 (MS)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں