اردو دنیا، ستمبر 2024
قدیم زمانے میں کتب خانے کی سربراہی عبادت گاہو ںکے پروہت،
شاہی معلم یا شاہزادوں کا حصہ تھی۔ کتب خانے کے محافظ یا نگراں کا کام بادشاہ یا
اس کے خاندان کے افراد کو ان کی ضرورت پر شاہی کتب خانے سے کتابیں مہیا کرنا ہوتا
تھا۔ مغل تاریخ میں ایسے واقعا ت کا ذکر ملتا ہے۔ جہاں کسی شاہزادی کو اس کی پسندیدہ
کتاب نہ فراہم کرنے پر شاہی کتب خانے کے مہتمم کو شاہی عتاب کا شکار ہونا پڑا۔ تاریخ
کی کتابوں میں لائبریرین کی حیثیت سے سب سے پہلا نام لاؤتزے کا ملتا ہے۔ لاؤتزے
چین میں چو سلسلہ بادشاہوں کے شاہی دستاویز
کے کمرے کا مہتمم تھا۔
طباعت کی ایجاد سے پہلے چند مشہور کتب خانوں کو چھوڑ کر عام
کتب خانوں میں کتابوں کی تعداد بہت مختصر ہوتی تھی۔ ان کتب خانوں تک دسترس صرف
محدود افراد کو حاصل تھی۔ ان حالات میں ناظم کتب خانہ کے لیے لازم تھا کہ وہ
کتابوں کو پڑھ کر ان میں درج باتوں سے بخوبی واقف ہو۔ طباعت کا فن وجود میں آجانے
کے بعد صورتِ حال میں زبردست انقلاب آیا۔ سیاسی انقلاب نے شہنشاہیت کی جگہ جمہوری
نظام لاکھڑا کیا۔ تعلیم عام ہوئی۔ سائنسی اور صنعتی انقلابات نے مطبوعہ کتابوں کی
تعداد میں بے انتہا اضافہ کیا۔ اب کسی ناظم کتب خانہ کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ
کتب خانے کے جملہ ذخیرۂ کتب کے مضامین سے واقفیت رکھ سکے۔ فن وار درجہ بندی اور کیٹلاگ
سازی کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا۔ ان کے قواعد و ضوابط وضع ہوئے اور لائبریرین کی
ذمے داریوں کا انداز بدلا۔ اب اس پیشے میں داخل ہونے سے پہلے پیشے میں درکار فنی تربیت
کی ضرورت پر زور دیا جانے لگا۔ 1829 میں شہر کے ایک مفکر مارٹن شرے ٹنگر نے لکھا:
’’کوئی بھی فرد چاہے وہ تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہو اور چاہے
اس کی تعلیمی سطح کتنی ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو ،
مخصوص موضوع کے مطالعے کے بغیر (اپنے کام کے لیے) اور مناسب تیاری اور عملی
تجربہ کے بغیر لائبریرین ہونے کے لیے موزوں نہیں۔ لائبریرین کی تربیت کے لیے ایک
ادارہ ہونا چاہیے جس کا تعلق ملک کے قومی کتب خانے سے ہو، تاکہ وہاں سے فارغ التحصیل
لائق اشخاص دوسرے کتب خانوں کو مہیا کیے جاسکیں۔‘‘
اگرچہ شرے ٹنگر نے تربیت کے خد و خال کو واضح نہیں کیا لیکن
تربیت کی ضرورت کا واضح احساس بلاشبہ ہمیں سب سے پہلے اسی کے یہاں ملتا ہے۔ علم
کتب خانہ داری کے لیے تعلیم و تربیت کی اولین سہولت فرائی برگ، جرمنی میں فراہم کی
گئی جہاں کے ناظم کتب خانہ نے ایک تین سالہ نصاب وضع کیا۔ اسی طرح علم کتب خانہ
داری کی پہلی پرفیسر شپ جرمنی کی گوٹنگن یونیورسٹی میں قائم ہوئی۔
علم کتب خانہ داری کی تعلیم امریکہ میں
امریکہ میں علم کتب خانہ
داری کی باقاعدہ تعلیم شروع کرنے کا سہرا میلول ڈیوی کے سر ہے۔ پہلا اسکول
کولمبیا میں 1887 میں قائم کیا گیا۔ اس میں 20 طالب علم داخل ہوئے۔ نصاب میں عملی
تربیت پر زیادہ زور تھا۔ تین ماہ کی عملی تربیت کے بعد زیرتربیت افراد کو دو سال
تک مختلف کتب خانوں میں کام کرنا پڑتا تھا۔ اس کے بعد ان کی صلاحیت کا اندازہ کرنے
کے لیے انھیں دوبارہ تین مہینہ عملی تربیت سے گزرنا پڑتا۔ دو سال کے بعد کورس مکمل
کرنے پر بی۔ لب کی سند عطا کی جاتی اور تین
سال کی مدت کے بعد ایم لب کی سند دی جاتی۔ کچھ عرصے بعد ڈیوی نے اس اسکول کو نیویارک
اسٹیٹ لائبریری (البنی) میں منتقل کردیا۔ تین سال کے بعد 1890 میں ڈیوی کی شاگردہ
میری پلمر نے ایک دوسرا اسکول لائبریرین کی تربیت کے لیے قائم کیا۔ تعلیم و تربیت
کے ابتدائی سالو ںمیں امریکن لائبریری ایسوسی ایشن نے بڑی سرد مہری سے کام لیا۔
1900 میں انجمن نے تربیت کی موجودہ سہولیات کا جائزہ لینے کی غرض سے ایک سہ رکنی
کمیٹی مقرر کی۔ کمیٹی کے صدر جان کاٹن ڈانا تھے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں تعلیم کے
معیار کی نگرانی کو انجمن کی ذمے داری قرار دیا اور اس کیے لیے نصاب کی معیاربندی
کی ضرورت پر زور دیا۔ لائبریری سائنس کی تعلیم دینے والے اساتذہ بھی اعلیٰ معیار
قائم رکھنے کے حق میں تھے۔ 1907 میں میلول ڈیوی نے اسی ضرورت کے پیش نظر علم کتب
خانہ داری کی تعلیم فراہم کرنے والے جملہ تعلیمی اداروں کی ایک انجمن قائم کرنے کی
تجویز پیش کی۔ اس تجویز کو کامیابی کا جامہ1916 میں ملا جب امریکہ میں مدارس علم
کتب خانہ داری کی انجمن وجود میں آئی۔
اسی طرح انیسویں صدی کے اواخر میں جب ڈیوی نے مشہور صنعت
کار اور کتب خانہ تحریک کے سرپرست اینڈریو کارینگی سے اپنے تربیت کے منصوبہ میں
مالی امداد کی خواہش ظاہر کی تو کارینگی نے اس پر کوئی توجہ نہیں کی، لیکن بیسویں
صدی کے پہلے بیس برسوں میں کارینگی ٹرسٹ نے چارلس سی ولیم سن کو ملک میں دستیاب تعلیمی سہولیات کا جائزہ لینے پر
مامور کیا اور ولیم سن رپورٹ 1923 میں ’لائبریری خدمات کے لیے تربیت‘ کے نام سے
شائع ہوئی۔ امریکہ میں علم کتب خانہ داری کی تعلیم و تربیت کے آئندہ کے ڈھانچے میں
اس رپورٹ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس میں گیارہ سفارشات تھیں جن میں ایک سفار ش یہ بھی تھی
کہ لائبریری اسکول یونیورسٹی کے ایک شعبے کی حیثیت سے کام کریں، تربیتی کورس کی
مدت 2 سال ہو۔ اب امریکن لائبریری ایسوسی ایشن کی سرد مہری کا دور بھی ختم ہوچکا
تھا۔ 1925 میں انجمن کی کونسل نے درج ذیل تربیتی پروگرام تسلیم کیے۔
جونیئر انڈر گریجویٹ اسکول، سینئر انڈرگریجویٹ اسکول، گریجویٹ
اسکول، اعلیٰ معیاری گریجویٹ اسکول، مختصرالمدتی اسکول یا سمراسکول۔
کارینگی کارپوریشن کی مالی امداد سے شکاگو یونیورسٹی میں
1926 میں ایک لائبریری اسکول قائم ہوا۔ اس اسکول کے قیام کا مطلب علم کتب خانہ داری
کو قانون اور طب کے مضامین کی اعلیٰ سطح تعلیم کے مساوی درجہ دینا تھا۔ ہارورڈ لا
اسکول اور جانس ہاپکنس طبی اسکول کی طرح یونیورسٹی لائبریری سے آزاد امریکہ کا
پہلا علم کتب خانہ داری کا اسکول تھا۔ 1928
سے وہاں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کی سہولت بھی فراہم کی جانے لگی۔ امریکن
لائبریری ایسوسی ایشن نے 1932 میں دوبارہ لائبریری سائنس کی تعلیم کے معیار کی
درجہ بندی کی۔ اب تعلیم و تربیت کی سہولیات کو درج ذیل خانوں میں تقسیم کیا گیا:
1 ایسے ادارے جہاں داخلے کی شرط بی اے کی سند ہو اور کورس کی
مدت ایک سال یا کورس کا معیار اعلیٰ سطح ہو۔
2 ایسے ادارے جہاں داخلے کے لیے کسی کالج لائبریری میں چار
سال کے عملی ترجمے کی شرط کو کافی سمجھا جائے اور کورس کی تکمیل ایک سال میں ہو۔
3 ایسے ادارے جہاں داخلے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط میں سے کوئی
نہ ہو اور کورس کی مدت ایک سال ہو۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک امریکہ میں علم کتب خانہ داری کی
تعلیم و تربیت کے بند و بست کے چھ جائزے لیے گئے۔
امریکن لائبریری ایسوسی ایشن نے 1948 میں ایک تجویز منظور کی
جس کے تحت امریکہ میں لائبریرین کے عہدے کے لیے ایم اے کی سند کو پیشے کی اوّلین
سند تسلیم کیا گیا اور اس تعلیم کے لیے معیار گریجویٹ رکھا گیا۔ سکنڈری اسکول کی
تعلیم کے بعد پانچ سال کا کورس گریجویٹ ماسٹر کورس کہلایااور اب بی۔ ایل۔ ایس کے
بجائے ایم ایل ایس کی سند دی گئی۔ پہلے یہ سند سکنڈری اسکول کی تعلیم کے چھ سال
بعد دی جاتی تھی۔
نئے کورس شروع ہونے کے نتیجے میں 1951 میں نئے معیار وضع
ہوئے۔ 1957 تک ملک کے 31 اسکولوں نے خود کو اس معیار پر ڈھال لیا تھا۔ 1970 کے دہے
میں امریکہ میں 50 سے زائد ایسے لائبریری اسکول تھے جو امریکن لائبریری ایسوسی ایشن کے مقررہ معیار پر پورے اترتے تھے جب کہ 80
اسکول ایسے تھے جنھیں انجمن نے سند قبولیت نہیں دی۔
امریکہ میں ایم ایل ایس کا نصاب لازمی اور اختیاری مضامین
پر مشمل ہوتا ہے۔ لازمی مضامین میں نام کتب خانہ اور انتظامی امور، کتابیات اور
حوالہ جات، انتخاب کتب، کیٹلاگ سازی، درجہ بندی شامل ہیں۔ اختیاری مضامین میں حالیہ
برسوں میں بہت نوع پیدا کیا گیا ہے۔ آج کل اس میں مضمون معلومات،سمعی و بصری
امدادی آلات، ابلاغ کے ذرائع وغیرہ شامل ہیں۔ اختیاری مضامین کا دوسرا گروپ تخصص
کے میدان کا ہے۔ مثلاً سائنسی، تکنیکی، طبی یا قانون کے پیشے کے کتب خانوں کا
مخصوص مطالعہ۔
اختیاری مضمون کا تیسرا گروپ اہتمام کتب خانہ کا موازناتی
مطالعہ، تعلیم کتب خانہ داری میں طریقہ تحقیق وغیرہ پر مشتمل ہے۔
کورس کی مدت پانچ سال ہوجانے سے ایک جانب لوگوں میں وہ علمی
گہرائی نہیں ہوپارہی تھی جو چھ سالہ کورس میں دستیاب تھی۔ 1965 کے اعلیٰ تعلیم کے
قانون کی وجہ سے بھی لوگ اپنی تربیت کے معیار کو بلند کرنے کے خواہش مند ہوئے۔
چنانچہ سب سے پہلے کولمبیا نے چھ سالہ اعلیٰ اختصاص کی تربیت کا کورس شروع کیا۔ اب
تک 20 سے زائد تسلیم شدہ لائبریری اسکول اس طرح کا کورس اپنا چکے ہیں۔
اس وقت امریکہ میں امریکن لائبریری ایسوسی ایشن سے تسلیم
شدہ 585 اسکول ہیں لیکن 19 ریاستیوں میں کوئی لائبریری اسکول نہیں ہے جس کی وجہ سے
ان ریاستوں میں لائبریری سائنس کی تعلیم کی راہ میں مشکلات ہیں، چنانچہ ان ریاستوں
میں یہ تحریک چل رہی ہے کہ ریاستوں میں 182 اسکولوں کو ایم ایل ایس کے مساوی سند دینے
کی اجازت دی جائے۔
علم کتب خانہ داری کی تعلیم برطانیہ میں
برطانیہ میں انیسویں صدی میں یہ عام خیال تھا کہ ایسے تمام
پیشوں کے لیے جو خدماتی نوعیت کے ہیں، باقاعدہ تعلیم کے بجائے عملی تجربہ زیادہ
اہم ہے۔ چنانچہ لائبریری سائنس سے پہلے طب اور قانون کی تعلیم اسی نہج پر ہوتی تھی۔
انیسویں صدی کے آخری سالوں میں جب لائبریری سائنس کی تعلیم کی ضرورت محسوس ہوئی
تو اسی طریقے کو اپنایا گیا۔ لائبریری سائنس کی سند کسی کتب خانے میں عملی تجربہ
کے بعد جز وقتی کورس میں حاضر ہوکر حاصل کرلی جاتی تھی، لیکن اس طریقہ تعلیم کے
ناکافی ہونے کا احساس بتدریج بڑھتا گیا۔ اب لوگوں کو اندازہ ہونے لگا تھا کہ اس طریقے
سے یکسانیت رکھنے والے کاموں کا عملی تجربہ تو ضرور ہوجاتا ہے لیکن کتب خانے کے
کاموں سے عہدہ برآہونے کے لیے جس نظری بصیرت کی ضرورت ہے وہ نہیں حاصل ہوپاتی۔ اب
لوگوں کی نظریں یونیورسٹی کی جانب اٹھنے لگی تھیں، لیکن انیسویں صدی کے انگلستان میں
کتب خانوں کو وہ وقار نہیں حاصل ہوا تھا کہ یونیورسٹیاں اسے بطور ایک مضمون کے اپنے نصاب میں شامل کرتیں۔
لندن اور ڈرہم کی یونیورسٹیاں اب روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ تکنیکی اور سائنسی پیشے
سے متعلق مضامین کوبھی اپنے تعلیم کے دائرے میں شامل کرنے لگی تھیں لیکن لائبریری
سائنس ابھی اس زمرے میں نہیں شمار ہوتی تھی۔ اس کی تعلیم کا بار بھی دوسرے پیشوں کی
تعلیم کی طرح پیشہ ور اصحاب کی انجمن یعنی لائبریری ایسوسی ایشن کا رہین منت بنا۔
کچھ لوگوں نے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کی اس آزادی کو ایک نعمت شمار کیا۔
تربیت کے ابتدائی سالوں میں مختصر المدتی کیمپ یعنی سمر
اسکول کے طریقے کو موزوں جان کر اسی پر اکتفا کیا گیا۔ لندن اور چند دوسرے بڑے
شہروں میں لائبریری ایسوسی ایشن کی نگرانی میں جزوقتی تعلیم کا بندوبست بھی کیا گیا۔
ابھی اس موضوع پر کتابیں بھی زیادہ نہیں تھیں۔ دوسری طرف لائبریرین کی مانگ بڑھ رہی
تھی۔ بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر چند سالوں کے اندر انجمن نے خط و کتابت کورس کے
ذریعے بھی تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ آخر لائبریری ایسوسی ایشن اور کارینگی یونائیٹڈ
کنگڈم ٹرسٹ کی مشترکہ کوششوں سے لائبریری سائنس کا ایک کورس 1920 سے لندن یونیورسٹی
میں شروع کیا گیا، لیکن اس کورس کو ان لوگوں نے جن کے پاس انجمن کی تربیت کی سند
تھی پسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھا، اس
لیے انجمن نے اس سمت میں مزید پیش رفت کرنا مناسب نہیں جانا۔ 1964 تک پورے ملک میں
لائبریری ایسوسی ایشن کے نصاب کی تعلیم کے لیے اسکول موجود تھے، یہاں تعلیم مکمل
کرنے کے بعد ایسوسی ایشن کی جانب سے امتحان کا بندوبست ہوتا تھا اور ایسوسی ایشن یا
انجمن ہی سند دیتی تھی۔ سند کا نام اے ایل اے تھا۔ جملہ سند یافتہ افراد کا نام ایک
رجسٹر میں درج ہوتا تھا۔
1964 میں انجمن نے ایسلب اور علم کتب خانہ داری کے دوسرے
اسکولوںکے اساتذہ سے مشورہ کے بعد ایک نیا نصاب مرتب کیا۔ اس نصاب کے تعلیمی تجربہ
کے بجائے اب دو سال کی باقاعدہ تعلیم کا بندوبست کیا گیا، لیکن اب انجمن کے تعلیم
دینے کا دائرہ محدود ہوتا جارہا تھا۔ اس کی جگہ اب کالج برائے مزید تعلیم کھلنے
لگے تھے جہاں لائبریری کی تعلیم کو بھی داخل نصاب کیا جانے لگا تھا۔ انگلینڈ میںاعلیٰ
تعلیم کی دو سطحیں ہیں۔ یونیورسٹی کی سطح اور کالج برائے مزید تعلیم کی سطح۔ کونسل
برائے قومی تعلیمی ایوارڈ کے قیام کے بعد ان کالجوں کو بھی سند دینے کا اختیار
حاصل ہوگیا ہے۔ لائبریری سائنس کی تعلیم
مزید تعلیم فراہم کرنے والے کالج جنھیں عرف عام میں پالی ٹکنیک کہا جاتا ہے میں عام کرنے میں انجمن کا بھی ہاتھ
ہے۔ جب یونیورسٹیوں نے علم کتب خانہ داری اپنے نصاب میں شامل کرنا چاہا تو انجمن
نے امتحان اپنی نگرانی میں کران ے کی تجویز رکھی، اس لیے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ
سکا، لیکن مزید تعلیم کے کالج اس شرط کو ماننے پر تیار ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعدانجمن
نے اپنے پرانے نصاب جس میں عملی تجربہ اور
جزوقتی تعلیم پر زور تھا،بدل کر 2 سالہ نصاب وضع کیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ
مزید تعلیم کے کالجوں میں داخلہ کے لیے دباؤ بڑھا۔ 1966 میں حکومت نے ایک قرطاس
ابیض (وہائٹ پیپر) جاری کیا جس کے تحت پالی ٹکنیک قائم کیے گئے۔ بہت سے مزید تعلیم
کے کالج بھی پالی ٹکنیک میں بدل گئے۔ برطانیہ کے سات لائبریری اسکول جو پہلے کالج
برائے مزید تعلیم کے تحت تھے اب پالی ٹکنیک کے تحت ہوگئے۔
1964 کے پبلک لائبریری قانون کے تحت ملک میں کتب خانہ مشاورتی
کونسل کا قیام ہوا۔ یہ کونسل اب علم کتب خانہ داری کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی
تعداد پر نظر رکھتی ہے تاکہ تربیت یافتہ افراد کی تعداد مانگ سے نہ بڑھ جائے۔
کونسل کی اس نگرانی کا اثر نصاب کے معیار پر بہت خوشگوار ہوا ہے۔
انگلینڈ میں یونیورسٹی سطح پر لائبریری سائنس کی تعلیم کا
بندوبست 1920 سے 1960 تک لندن یونیورسٹی تک ہی محدود تھا۔ اب شے فیلڈ، بیلفاسٹ،
اِسٹے تھی۔ کلائڈ کی یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم کا بندوبست ہے۔ اس کے علاوہ ویلس یونیورسٹی
میں ویلس کالج برائے لائبریری سائنس اور لف بورویونیورسٹی میں ٹکنیکل کالج لائبریری
اسکول قائم ہوئے ہیں۔
انجمن اب اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے دائرے کو سمیٹ رہا ہے اور
امتحان لینے والے ادارے کے بجائے امریکن لائبریری انجمن کی طرح محض نصاب کے معیار
پر نگرانی کرنے والے ادارے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، دوسرے ملک کی ہی طرح اب
برطانیہ میں بھی اس کورس میں داخلہ کے لیے گریجویٹ کی سند کی شرط تسلیم کرلی گئی
ہے۔ انجمن کے بہت سے ممبران ابھی تک اس پالیسی سے متفق نہیں ہوسکے ہیں۔ برطانیہ میں
ایف ایل اے کی سند حاصل کرنے کے لیے انجمن کے امتحان پاس کرنے کے علاوہ ایک مقالہ
بھی لکھنا پڑتا ہے۔ اب چند یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کی سند دینے کی سہولت بھی
موجود ہے۔ حال ہی میں لف بورو یونیورسٹی میں ایم ایل ایس کا ایک نیا کورس شروع کیا
گیا ہے۔ اس کورس میں داخلے کے لیے کسی کتب خانہ میں پانچ سالہ عملی تجربہ کی شرط
ہے۔ لیڈس یونیورسٹی میں بھی اب بی لب کی سند کے لیے کورس شروع کیا گیا ہے۔
ماخذ: کتب خانہ داری: ایک تعارف، مصنف: شہاب الدین انصاری،
دوسرا ایڈیشن: 2004، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں