21/10/24

اردو کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس لایحہ عمل تیار کرنا ہوگا: پروفیسر مشتاق احمد، خصوصی گفتگو: عبد الحی

 اردو دنیا، ستمبر 2024

ڈاکٹر عبدالحی: آپ اپنے کوائف پر روشنی ڈالیں۔ اپنی تعلیم و تربیت اور پرورش پر گفتگو کریں؟

پروفیسر مشتاق احمد: میری پیدائش شمالی بہار کے ایک مردم خیز مسلم اکثریتی گائوں شکری، بلاک پنڈول، ضلع دربھنگہ (حال مدھوبنی) میں21 نومبر1967 کو ہوئی۔ میرے والد عبدالحکیم مرحوم عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی بالخصوص اردو تعلیم کے دلدادہ تھے اس لیے مجھے بھی عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی اور اردو زبان وادب کی تعلیم دلائی گئی۔  اس وقت ہمارے گھروں میں اردو کا ماحول تھا کہ خواتین کے لیے کئی ادبی ونیم ادبی اصلاحی رسائل آتے تھے اور بچو ں کے لیے بھی مکتبہ جامعہ سے نکلنے والا رسالہ ’پیامِ تعلیم‘، ’کھلونا ‘ ودیگر انگریزی وہندی کے رسائل آتے تھے۔ میری بنیادی تعلیم گھریلو مدرسے کے بعد بیسک اسکول شکری،  اس کے بعد ہائی اسکول پنڈول اور پھر آر این کالج پنڈول، مدھوبنی میں ہوئی اور اعلیٰ تعلیم للت نرائن متھلا یونیورسٹی،  دربھنگہ میں ہوئی۔  البتہ درمیان میں صحافت کی ڈگری ایچ ٹی  میڈیا انسٹی ٹیوٹ، دہلی سے حاصل کی۔ چونکہ میرے والد محکمہ ریلوے میں ملازمت کرتے تھے اس لیے اکثر ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا اس لیے مجھے بھی نینی تال بورڈنگ میں رکھا گیا پھر آسام میں بھی اسکولی تعلیم کے مواقع ملے جس کی وجہ سے بنگالی اور آسامی زبان بھی سیکھنے کا موقع ملا لیکن والد مرحوم کی خواہش تھی کہ اردو کی تعلیم ضروری ہے لہٰذا مجھے پھر ایس کے ہائی اسکول، پنڈول میں داخلہ دلایا گیا جہاں میں نے میٹرک تک پڑھائی کی۔

ع ح: آپ نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز بطور صحافی کیا، بعد میں تدریس کی طرف آئے اور اب بطور کامیاب ایڈمنسٹریٹر پہچانے جارہے ہیں۔ اس طویل عرصے میں بہت سارے نشیب و فراز سے گزرے۔ اس طویل سفر سے متعلق بتائیں۔ کیسا تجربہ رہا؟

م ا: میرے والدین کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر، انجینئر بنوں لیکن میری خالہ جان بی بی نجم النسا جو لا ولد تھیں اور انھوں نے مجھے گود لے لیا تھا،  ان کی خواہش تھی کہ میں اعلیٰ تعلیم تو حاصل کروں لیکن اپنی زمین وجائداد کا محافظ رہوںاس لیے میں نے سائنس چھوڑ کر آرٹس لیا۔ پوسٹ گریجویٹ کے بعد نیٹ جے آر ایف پاس کیا اور پھر لکچرر شپ مل گئی۔  اس طرح میں پیشۂ درس وتدریس سے وابستہ ہو گیا۔ جہاں تک صحافت کا سوال ہے اس سے میں ہائی اسکول کے دنوں میں جُڑ گیا تھا اور انٹر کے بعد باضابطہ گورنمنٹ ایکری ڈیٹیڈ صحافی کے طورپر روزنامہ ’قومی تنظیم‘پٹنہ سے وابستہ ہو گیا۔ 2009 میں کمیشنڈ پرنسپل بن گیا اور میری پہلی تقرری ملّت کالج، دربھنگہ میں ہوئی۔ چونکہ کمیشنڈ پرنسپل کی مدتِ کار ایک کالج میں پانچ سال ہوتی ہے اس لیے اب تک ملت کالج، مارواڑی کالج، ایم ایل ایس ایم کالج اور فی الحال سی ایم کا لج، دربھنگہ میں بطور پرنسپل اپنی خدمات انجام دے رہا ہو ں۔ دریں اثنا ستمبر 2020میں بہار کے گورنر موصوف  نے جو ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر ہوتے ہیں،  مجھے تین سال کے لیے ایل این متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ کا رجسٹرار مقرر کیا جہاں اپنی مدت کار پوری کرکے پھر سی ایم کالج میں بطور پرنسپل واپس آگیا ہوں۔

ع ح:یوں تو آپ ایک ادبی صحافی، کالم نگار اور شاعر کے طور پر مقبول ہیں۔ ادبی زندگی کا ا ٓغاز شاعری سے کیا تھا، آپ نے افسانے بھی لکھے ہیں اور پہلا افسانہ ’خاتون مشرق‘ میں شائع ہوا تھا شاید 1980 میں، لیکن آپ نے افسانہ نگاری کو کیوں خیرباد کہہ دیا جب کہ اس میں آپ کم وقت میں اپنی شناخت قائم کرسکتے تھے۔

م ا: ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے گھر میں شاعرانہ ماحول تھا۔ ہمارے بھائی اور بھتیجے شاعری کرتے تھے بالخصوص ابوالقیس قیصر جو رشتے میں میرے بھتیجے تھے لیکن عمر میں مجھ سے بڑے تھے مگر رشتے کی بنیاد پر مجھے محترم رکھتے تھے،  وہ ایک کہنہ مشق شاعر تھے اس لیے انھوں نے میری شاعرانہ صلاحیت کو نکھارنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس کے بعد میں نے افسانہ لکھنا شروع کیا اور 1980 کی دہائی میں آل انڈیا ریڈیو دربھنگہ اور پٹنہ سے میری کہانیاں نشر ہونے لگیں اور رسائل وجرائد میں بھی شائع ہونے لگیں۔ اس وقت افسانے لکھنے والوں کی صف میں بڑے بڑے نام تھے ۔ مثلاً عبدالصمد، حسین الحق، مشتاق احمد نوری، شموئل احمد، شفق، کلام حیدری، شوکت حیات، فخرالدین عارفی وغیرہ کے ساتھ ساتھ ہمارے ہم عصروں میں ذوقی، قیام نیّر خوب لکھ رہے تھے ۔ مجھے احساس ہوا کہ ان اکابرین افسانہ نگاروں کے درمیان میری کوئی پہچان بننی بہت مشکل ہے اس لیے میں نے افسانہ لکھنا کم کردیا لیکن اب بھی لکھتا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ انھیں شائع نہیں کراتا لیکن بہت جلد میرا افسانوی مجموعہ بھی منظر عام پر آئے گا۔

ع ح:آپ نے کالم نگاری اور پھر بعد میں شاعری پر ہی توجہ دی۔ کورونا اور لاک ڈائون کے عرصے میں آپ نے ایک مشاق اور کہنہ مشق نظم نگار کے طور پر اپنی پہچان بنائی ہے اور ’آئینہ حیران ہے‘ جیساشعری مجموعہ شائع ہوکر مقبول ہوا۔ شاعری سے زیادہ لگائو کی کوئی خاص وجہ؟

م ا: چونکہ شاعری پہلے سے کر رہا تھا اس لیے شعری تخلیقات شائع بھی ہوتی رہیں۔ ا لبتہ لاک ڈائون میں ذہنی اضطرابی کیفیت نے نظم نگاری کی جانب راغب کیا اور اس وبائی دور میں مسلسل نظمیں وجود میں آئیں جو مجموعے ’آئینہ حیران ہے‘ اور ’زرد موسم کی نظمیں‘ کی صورت میں شائع ہوئیں۔

ع ح:آپ کی ایک درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ اقبال کی وضاحتی کتابیات ایک بہت اہم کتاب ہے۔ آپ نے مولانا آزاد اور فیض پر بھی کتابیں لکھی ہیں۔ اپنی مزیدکتابوں کے بارے میں بھی بتائیں۔

م ا: دیکھیے میں نے اپنا ادبی سفر شاعری سے شروع کیا۔ افسانے لکھے اور عصری مسائل پر کالم نگاری کو فوقیت دی۔ نتیجہ ہے کہ اب تک ہفتہ وار کالموں پر مشتمل تین کتابیں ’ایوانِ فکر‘، ’چراغِ فکر ‘ اور ’جہانِ فکر‘ شائع ہو چکی ہیں اور کالموں کا چوتھا مجموعہ بھی بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے لیکن تنقید وتحقیق سے میں کبھی غافل نہیں رہا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کالج کے دنوں میں ہی ہمارے تنقیدی وتحقیقی مضامین برصغیر کے مؤقر علمی وادبی رسائل میں شائع ہونے لگے تھے۔ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی میں میری تحریریں شائع ہوئی ہیں البتہ میرا تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی ’اقبال کی وضاحتی کتابیات‘ جب کتابی صورت میں شائع ہوا تو نہ صرف ماہرین اقبالیات بلکہ اردو ادب کے سنجیدہ قارئین نے اسے قبولیت بخشی اور میری حوصلہ افزائی کی او ر اس کے بعد ایک درجن سے زائد تنقیدی و تحقیقی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں تنقیدی بصیرت، قرطاس مہر،تنقیدی تقاضے، اقبال کی عصری معنویت، جہان فیض،بہار میں اردو تحقیق وتنقید، احتساب فکر ونظر وغیرہ ہیں۔ ساتھ ہی اقلیتوں کے حوالے سے دو کتابیں اور مولانا آزاد پر ایک کتاب انگریزی میں بھی شائع ہوئی ہیں۔ میں اپنی تحریر وتنقید کے متعلق کچھ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ ایک تخلیق کار کو اس کی تخلیقی قوت ہی جہانِ ادب میں احترام ومقام عطا کرتی ہے۔  اگر میری تخلیقات اس لائق ہوں گی تو خود بخود میری شناخت کی ضامن بنیں گی۔

ع ح:آپ بہار کی ایک اہم یونیورسٹی میں بطور رجسٹرار اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ موجودہ تعلیمی منظرنامہ آپ کے سامنے ہے ، اردو کی اعلیٰ تعلیم کے مسائل پر گفتگو کریں؟

م ا: اس تلخ سچائی سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ حالیہ دو دہائیوں میں تعلیمی معیارووقار دونوں میں پستی آئی ہے اور صلاحیت سے زیادہ ڈگری حاصل کرنے کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے جب کہ عا  لمیت کے بعد صلاحیت کی اہمیت بڑھی ہے اور ملک میں کلرکی کی ملازمت سے لے کر اعلیٰ عہدے تک کے لیے مقابلہ جاتی امتحان لازمی ہوگیا ہے اسی لیے موجودہ تعلیمی نظام میں بھی تبدیلی ضروری ہے تاکہ عصری تقاضوں کو پورا کرنے والی تعلیم طلبا کو دی جا سکے۔ جہاں تک اردو میں اعلیٰ تعلیم کے مسائل کا سوال ہے تو شمالی ہند میں کبھی اتر پردیش اور بہار میں ا ردو کی تعلیم کا شہرہ تھا اور معیاری تعلیم کا انتظام بھی تھا لیکن اس وقت  افسوسناک صورت یہ ہے کہ پرائمری اور ثانوی سطح پر اردو کی تعلیم کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ بالخصوص اردو رسم الخط سے معاشرے کے بچے نا بلد ہوتے جا رہے ہیں۔ جب وہ اردو رسم الخط سے ہی محروم ہیں تو پھر اردو کی تعلیم کا  متاثر ہونا فطری عمل ہے اسی لیے اعلیٰ تعلیم کی صورت حال بھی دگر گوں ہے۔ ظاہر ہے کہ بنیاد کی خشت اول پر ہی مستحکم عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ جب پرائمری وثانوی سطح پر اردو بے توجہی کی شکار ہوگئی ہے تو پھر زبان وبیان اور املا کا اغلاط سے پُرہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ زبان اپنا علاقہ بدلتی رہتی ہے ۔ اگر شمالی ہند میں اتر پردیش جیسی بڑی ریاست میں اردو کا وجود خطرے میں ہے تو جنوبی ہند کی ریاستوں میں اس کا علاقہ بڑھ رہا ہے۔بہار میں تو قدرے بہتر صورت حال ہے کہ یہاں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اور دفاتر میں چلن میں ہے لیکن اردو آبادی کو اردو رسم الخط کو زندہ رکھنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی اور اردو کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔

ع ح:آپ نے اپنا ایک ہفتہ واراخبار’آواز نو‘بھی جاری کیا تھا،بعد میں وہ بند ہوگیا اور اب پچھلے 21 برسوں سے جہان اردو جیسا وقیع رسالہ نکال رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ادبی صحافت کا میدان ایک ایسا خارزار ہے جو ہمیشہ گھاٹے کا سودا رہا ہے۔ آپ کس طرح اس رسالے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس بارے میں کچھ بتائیں؟

م ا: جی ہاں میں نے ایک ہفتہ وار اخبار ’آوازِ نو‘ ڈاکٹر نذیر انجم کے ساتھ مل کر شروع کیا تھا لیکن ہفتہ وار اخبار نکالنا کتنا مشکل ہے اس سے آپ بھی واقف ہیں لہٰذا اسے بند کرنا پڑا لیکن 2001 سے میں سہ ماہی ’جہانِ اردو‘ پابندی کے ساتھ وقت پر شائع کر رہا ہوں اور مقامِ شکر ہے کہ اردو دنیا میں ’جہانِ اردو‘ ایک معیاری ریسرچ جرنل کے طورپر قبولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ حکومت ہند کے ادارہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے بھی ’جہانِ اردو‘ کو اپنی کیئر لسٹیڈ جرنل کی فہرست میں جگہ دی ہے اور دیگر ممالک میں بھی جہانِ اردو کے قارئین کا ایک بڑا حلقہ ہے۔ یہ میرے لیے اطمینان کی بات ہے اگرچہ اردو معاشرے میں اردو رسائل وجرائد وکتاب خرید کر پڑھنے کے تعلق سے منفی رویہ ہے اس سے ادارہ ’جہانِ اردو‘ بھی متاثر ہے لیکن بس اردو کی خدمت کا ایک جذبہ ہے جس نے اسے زندہ رکھا ہے ۔

ع ح:ایک طویل عرصے سے آپ مختلف اخبارات کے لیے کالم نگاری کررہے ہیں، آپ کے کالموں  کے موضوعات میں ملکی و غیرملکی مسائل تو ہوتے ہی ہیں لیکن خاص طور سے اقلیتوں کی تعلیم کے حوالے سے آپ بہت فکرمند ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ بتائیں کہ اقلیتوں کی تعلیمی صورت حال کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے اور آپ کچھ کوششیں بھی کررہے ہیں۔

م ا: اس میں کوئی شک نہیں کہ میں گذشتہ دو دہائیوں سے مستقل اخباری کالم لکھ رہا ہوں اور اس میں وطن عزیز کے اقلیتی طبقے کے مسائل بالخصوص تعلیمی، سماجی، معاشرتی، تہذیبی وتمدنی موضوعات پیشِ نظر رہے ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان تعلیمی شعبے میں پستی کی شکار رہی ہے جس کی وجہ سے اس کی معاشرتی زندگی بھی متاثر ہوئی ہے اس لیے بس حقیقت سے آگاہی اور اس طبقے کو تعلیمی شعبے میں اپنی موجودگی کا احساس کرانے کی غرض سے ہمارے اخباری کالموں کا موضوع اقلیتوں کے تعلیمی ودیگر مسائل رہتے ہیں۔

ع ح:آپ نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ اردو پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے؟آخر اس کی کیا وجوہات ہیں اور ان پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے؟

م ا: ہاں ہاں ا س میں کوئی شک نہیں کہ اردو پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اس کی وجہ پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ جب بنیادی سطح پر اردو کی تعلیم نہیں ہوگی تو پھراردو کاد ائرہ محدود ہوجائے گا ۔ اس پر قابو پانے کے لیے احساس کمتری سے باہر آکر اردو کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ یہ زبان صرف اور صرف زبان نہیں ہے بلکہ اسی زبان میں ہمارے تہذیب وتمدن کے ساتھ ساتھ مذہبی اثاثے بھی موجود ہیں۔

ع ح:آپ نے اسی طرح ایک تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ اردو زبان کی مقبولیت غزل سے ہے۔ اس بیان کی وضاحت فرمائیں۔کیا غالب کی مکتوب نگاری،سرسید کی انشائیہ نگاری، پریم چند کی افسانہ نگاری  اوررشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری اردو ادب میں مقبول نہیں ہیں۔

م ا: دیکھیے عالمی تاریخ ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کی ہرایک زبان میں کوئی ایک صنف بہت مقبول رہی ہے مثلاً انگریزی میں ایپک، سنسکرت میں مہا کاویہ ، ہندی میں کویتا ئیں اورعربی وفارسی میں قصیدے کو فروغ حاصل رہا۔ اسی طرح اردو میں غزل کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا ہے اور آج بھی برقرار ہے۔ اس کی وجہ ہیئتی اور موضوعی انفرادیت ہے کہ غزل کے ایک ہی شعر میں فلسفہ زیست کو مکمل طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے غزل کے علاوہ دوسری اصناف کا مقبول ہونا مشکل رہا۔ جہاں تک نثر نگاری کا سوال ہے تو اردو نثر کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ سرسید، غالب، پریم چند، رشید احمد صدیقی، حالی، ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ کی تحریروں کی قدروقیمت اپنی جگہ مسلّم ہے۔

ع ح:آپ نے اردو ادب کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے، اب صرف ناول، خودنوشت، خاکہ اور انشائیہ جیسی اصناف باقی رہ گئی ہیں۔ کیا مستقبل میں ناول بھی لکھنے کا ارادہ ہے؟

م ا: ہاں۔مستقبل میںخود نوشت لکھو ں گا البتہ بعض تحریریں انشائیہ کی صف میں بھی رکھی جا سکتی ہیں البتہ خاکہ نہیں لکھا ہے۔ ناول کا پلاٹ بھی ذہن میں ہے۔

ع ح:اکیسویں صدی سائنس و ٹکنالوجی کی صدی ہے، اب لوگ موبائل اور انٹرنیٹ کے رسیا ہیں۔ ایسے میں کتابوں کی اہمیت کم ہورہی ہے۔ آپ کے خیال میں ہم موجودہ دور میںکس طرح اردو کا فروغ کرسکتے ہیں؟

م ا: حالی نے کہا تھا ’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی ‘ اس لیے اردو کو بھی تغیر زماں کے ساتھ سائنس وٹکنالوجی کے سہارے آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر آپ انقلاب زمانہ سے گریز کریں گے تو آپ خود بھی پیچھے رہیں گے اور آپ کی زبان بھی ترقی کے اس برقی دور میں پیچھے رہ جائے گی۔

ع ح:آج اردو زبان کو روزگار سے جوڑنے کی باتیں کی جارہی ہیں؟آپ کے خیال میں اردو کو صحیح معنوں میں فروغ دینے کی کیا کوششیں ہوسکتی ہیں؟

م ا: سب سے پہلے تو زبان کی تعلیم عام ہونی چاہیے کہ جب تک اس زبان کے پڑھنے والے نہیں ہوں گے تو اس زبان کی کتابوں کو کون پڑھے گا۔ اکثر یہ غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے کہ زبان کو روزگار سے جوڑنے کی ضرورت ہے جب کہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ زبان کی تعلیم انسان کے اندرون کو روشن کرتی ہے او ر ذہن کو پختگی عطا کرتی ہے اس لیے دنیا کے تمام ماہرین نے اس بات کی وکالت کی ہے کہ بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔  دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک بالخصوص چین، جاپان اور روس جیسے ممالک میں بنیادی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ اپنے ملک میں بھی آزادی سے قبل میڈیکل سائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم اردو میں ہوتی تھی اور آج بھی اردو رسم الخط کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والے کسی دوسری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والوں سے کہیں پیچھے نہیں ہیں۔

ع ح:اپنی غیر ادبی دلچسپی اور شوق کے بارے میں کچھ بتائیں؟

م ا: میں اسکول کے زمانے سے ہی فٹ بال میں دلچسپی رکھتا تھا اور آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ میں بہار میں ریاستی سطح کی فٹ بال ٹیم کا برسوں حصہ رہا لیکن مطالعہ کتب نے دیگرکھیل کو د سے مجھے دور رکھا اور آج تک مطالعہ کتب میرے معمول میں شامل ہے اور مختلف موضوعات کی کتابیں تلاش کرکے پڑھنا میری عادت میں شامل ہے۔

ع ح:قارئین کے لیے کوئی پیغام...

م ا:  اردو کے قارئین کبھی احساس کمتری کے شکار نہ ہوںاور اپنے عمل پیہم ویقینِ محکم کی بنیاد پر اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ فعال رہیں۔

 

Abdul Hai

C.M. College

Darbhanga- 846004 (Bihar)

Mob.: 9899572095

Email: ahaijnu@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو کے تین جگر، مضمون نگار: مختار ٹونکی

  اردو دنیا، دسمبر 2024 راقم التحریر کے زیرمطالعہ جگر تخلص والے تین نامور شعرا رہے ہیں اور تینوں ہی اپنی فکر رسا اور طرز ادا کے اعتبار سے من...