فکر و تحقیق، جولائی-ستمبر2024
تلخیص
’
معاصر ادبی تحقیق : رویے ورجحانات‘ میں ادبی تحقیق کے
معنی ومفہوم، حدود وامکانات اور عصر حاضر میں اردو تحقیق کا اجمالی جائزہ پیش کیا
گیا ہے۔ زبان وادب، ادبی مسئلہ، شخصیت اور نظریہ کے مختلف ومتضاد، مصدقہ وغیر
مصدقہ معلومات کی تردید یا تصدیق کے نکات دلائل وشواہد کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں
تو ایسی تحریر کو ادبی تحقیق کہتے ہیں۔
اس مقالے میں مولوی عبدالحق، ڈاکٹرجمیل جالبی، شمس
الرحمن فاروقی اور قاضی عبدالودود وغیرہ کے اقوال کے حوالے سے اردو میں تحقیق کے
اصول، عروج وانحطاط وغیرہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ خاص طور پر جامعات میں ایم فل
اور پی ایچ ڈی کے لیے لکھے جارہے تحقیقی مقالوں کے معیار سے متعلق بے اطمینانی کے
اسباب کا بھی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ادھر نئی تعلیمی پالیسی کے تحت سندی
تحقیق کے لیے جو اصول وضع کیے گئے ہیںان پر بھی اس مقالے میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
کلیدی الفاظ
ادب، تحقیق، معاصر، رویے، رجحانات، حدود، امکانات، نظریہ،
جامعات، مقالات، ریسرچ اسکالرز، نگراں، ممتحن، معیار، تسامحات، حقائق، دیانت داری،
نئی تعلیمی پالیسی۔
———
شاید ہی کبھی تحقیق کی افادیت اور اس کی اہمیت سے انکار
کیا گیا ہو یا پھر اس کا ارتقائی سفر کسی مخصوص منزل پر آکر رک گیا ہو۔یہ الگ بات
ہے کہ ہر عہد میں کسی نہ کسی سطح پر تحقیق کے معیارات ومعاملات اور رجحانات پر
مختلف پہلوؤں سے غور وفکر کیا گیا۔ تحقیق کا نہ تھمنے والا یہ سلسلہ تحقیق کے
وجود اور اس کی اہمیت کا جواز فراہم کرتا ہے اور یہ بھی واضح کرتا ہے کہ مستقبل کی
علمی سرگرمیاں بھی ایک صحت مند تحقیقی نظام پر منحصر ہیں۔ علمی ترقیات اور معاشرتی
تغیرات میں تحقیق کے افادی پہلوؤں کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔تحقیقی نظام ومزاج میں یک
گونہ رکھ رکھاؤ کی کیفیت ہوتی ہے۔ اس رکھ رکھاؤ سے زندگی کا فلسفہ مزید دل کش
وبامعنی ہوتا ہے اور ہم تنظیمی طور پر اپنے امور انجام دیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ فی زمانہ تحقیقی میلانات
ورجحانات پر مباحث قائم کیے جاتے رہے ہیںتاکہ نئی راہ کھلے اور ہم معاشرتی، علمی،
ثقافتی اور اقتصادی میدان میں ترقی کرسکیں۔ ادبی تحقیق کا معاملہ ہمارے معاشرتی
نظام سے بھی جڑاہوتا ہے کیونکہ ادبی تحقیق میں تنقیدی رویوں کی اپنی اہمیت ہے۔ جس
طرح خودرو پودوںکی تزئین وتہذیب کے بعد ان میں خوب صورتی پیدا ہوتی ہے،اسی طرح ادبی
تحقیقات میں پائے جانے والے تنقیدی رویوں سے معاشر تی اعتدال کی راہیں ہموار ہوتی
ہیں۔ اس طرح کہ ادبی تہذیب دراصل معاشرتی تہذیب ہے۔ کیوں کہ ادب کا منبع ومرکز
معاشرہ ہے۔ جب ہم اس رشتے کو نظر میں رکھتے ہیں تو ادبی تحقیق کا سماجی رشتہ بھی
ابھر آتا ہے اور تحقیق کے مزاج ومعیار سے ہمارے معاشرے کا تعارف ہوتا ہے۔ ڈاکٹر
جمیل جالبی لکھتے ہیں:
’’جب
کسی معاشرے میں تحقیق کا عمل ناکارہ سمجھا جانے لگتا ہے تو وہاں اتنے سارے جھوٹ،
سچائیاں بن کر، خود ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھا نے لگتے ہیںکہ’ بے تحقیق‘
معاشرہ ہر سطح پر ناکارہ وبے جان ہوجاتا ہے اور تھکادینے والا غبار اسے اور اندھا
کردیتا ہے۔ ‘‘1؎
جمیل جالبی کے اس اقتباس سے کئی باتیں واضح ہورہی ہیں۔
اول یہ کہ تحقیق کو بے مطلب کی چیز کہنے کا دور آسکتا ہے، یا پھر کسی دور میں تحقیق
کو غیر اہم کام سمجھ کر اس کی اہمیت سے رو گردانی کی گئی۔ دوم جس معاشرے میں تحقیقی
رجحان ختم ہوجائے وہاں نت نئی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ سوم ان برائیوں کے بعد ہمارے
اندر ادھر ادھر بھٹکنے کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ گویا اندھا پن ہمارا مقدر بن جاتا
ہے۔ عصرحاضر میں تحقیق کی اہمیت وافادیت کو تسلیم تو کیا جا رہا ہے تاہم یہ حقیقت
ہے کہ تحقیقی رجحان میں ایک طرح کی اسفلیت پائی جانے لگی ہے۔ ظاہر ہے جب تحقیق کے
معیار میں غایت درجہ کمی آئے گی تو ہمارے معاشرے کا وہی حال ہوگا جس کی طرف جمیل
جالبی نے اشارہ کیا ہے اور ہمارے مزاج میںایک طرح کی اسفلیت آئے گی یا کسل مندی
ہمارا مقدر ہوگا۔ اس شعبے میں کسل مندی
اور تساہل پسندی نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔ رفتہ رفتہ ہمارا ذہن ایسا ہوتا
جارہا ہے کہ ہم تحقیقی مباحث میں خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ کسی تحقیقی مقالے کے عیوب
اور اس کی خامیوںپر نظر ڈالنے یا اس پر سوال کرنے سے ہم کترانے لگے ہیں۔ اسی طرح
ہماری ذہنی تربیت ہوتی رہی تو وہ دن دور نہیں جس کی طرف مذکورہ اقتباس میں اشارہ کیاگیا
ہے۔یہاں قاضی عبدالودود کی رائے بھی پیش کی جاسکتی ہے
:
’’کسی
ملک کے باشندوں کا معیار ِ اخلاق پست ہو اور وہ کام سے جی چراتے ہوں تو وہاں
بالعموم تحقیق کادرجہ پست ہوگا،اردو ادب کی تاریخیں خواہ وہ جامع ہوں، خواہ کسی
خاص دور، علاقے یا صنف سخن سے تعلق رکھتی ہوں، سخت بے احتیاطی سے لکھی گئی ہیں۔
‘‘2؎
اس مختصر اقتباس میںقاضی عبدالودود نے غیر تحقیقی مزاج
کے نفسیاتی پہلوؤں کی طرف بھی اشارہ کردیا ہے۔ گویا تحقیق کا صحت مند رواج نہ
ہونے کے سبب ہماری خارجی زندگی ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ ہمارے اندرون کا نظام بھی
متاثر ہوتا ہے۔ پھر اس کے اثرات ہمارے عادات واطوار میں شامل ہوجاتے ہیں۔قاضی
عبدالودود نے اردو تاریخ کی کتابوں کی طرف جو اشارہ کیا ہے وہ صرف ایک صنف سے خاص
نہیں بلکہ ہمارے تحقیقی نظام واطوار کی کمزوریوں کی بھی سخت تنقید کرتا ہے۔ ظاہر
ہے یہاں ان خامیوں اور بد احتیاطیوں کا تجزیہ کرنا مقصود نہیں ہے،البتہ ان کے
اسباب وعلل پر گفتگو کی جائے گی۔
دیگر زبانوں کے تحقیقی رویوں ورجحانات سے راقم الحروف
واقف ہے اور نہ ہی وہ اس کا مکلف ہے کہ تمام زبانوں کے تحقیقی مزاج اور سمت ورفتار
پر گفتگو کرے۔رہی بات اردو کی تو اردو کا موجودہ تحقیقی منظرنامہ ناگفتہ بہ ہے اور
یہ سلسلہ ماقبل صورت حال سے بھی جوڑا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ہمارے یہاں میدانِ تحقیق
میں انحطاط کا دور بہت پہلے شروع ہوچکا تھا۔ ممتاز ناقد شمس الرحمن فاروقی کا یہ
اقتباس دیکھیں:
’’میر
ا ہرگز یہ منصب نہیں کہ میں ادبی تحقیق کے موضو ع پر لب کشائی کروں اور وہ بھی
محققین کے مجمعے میں،جو اس کام میں مصروف ہیں اور شاید پہلے بھی تحقیقی مقالے لکھ
چکے ہیں۔ بیشک اہم اور بزرگ محققین کی کمی کے باعث قرعۂ فال مجھ دیوانے کے نام پڑ
گیا۔‘‘ 3؎
شمس الرحمن فاروقی کا یہ کہنا کہ وہ ادبی تحقیق کے
موضوع پر لب کشائی کے لیے موزوں نہیں ہیں، یہ ان کی منکسرالمزاجی کے سوا کچھ نہیں۔ البتہ ان کے
دوسرے جملے میں طنز ہے، اسی میں حقیقت بھی ہے اور تحقیقی انحطا ط کا ذکر بھی۔ پہلی
بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس ضعیف محققین بھی نہیںر ہے۔ جو چند تھے وہ بھی چل بسے۔
گویا پہلے سے ہی تعداد کم تھی۔ پھر جس عہد میں فاروقی گفتگو کررہے ہیں اس میں اگر
نوجوان محققین کی فہرست بنائی جائے تو یہ فہرست انتہائی مختصر ہو گی۔یہ الگ بات ہے
کہ ’دادِ تحقیق‘ کا دعوی کرنے والوں کی فہرست بنانا ناممکن امر ہے کہ وہ بہ کثرت
پائے جاتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کے محولہ بالا اقتباس سے قطع نظر اگر ہم خود
احتسابی سے کام لیں تو تحقیقی انحطا ط کا مسئلہ مزید واضح ہوکر سامنے آئے گا۔ اس
انحطاط کا اگر عالمانہ تجزیہ کیا جائے تو بہت سے عوامل ومحرکات واضح ہوں گے۔ پھر یہاں
ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا لازمی ہے کہ جب تحقیق کی بات آتی ہے تو ہمارا ذہن
فی الفور جامعات کی طرف جاتا ہے۔ اس لیے جامعات سے الگ ہٹ کر جو تحقیقی کارنامے
انجام دیے ہیں وہ اکثر پردۂ خفا میں رہتے ہیں۔جامعات کی طرف ہماری نظر اس لیے بھی
جاتی ہے کہ وہاں منظم طریقے سے تحقیق کرنے اور کرانے کا انتظام واہتمام ہے۔ اس لیے
ہم جامعات سے معیاری تحقیق کی توقع ’گانٹھ ‘ لیں تو کوئی عجب بات نہیں۔ اس لیے یہاں
غالب گفتگو جامعاتی تحقیق کے پس منظر میں ہی کی جا ئے گی۔ اس پس منظر میں اجمالی
طور پر چند باتوںکی طرف اشار ہ کرنا ضروری ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ معیارِ تحقیق کو پست کرنے میں فقط ریسرچ
اسکالرزقصور وار نہیں ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ تحقیق میں عدم دلچسپی نوجوان ریسر چ
اسکالرز کے یہاں ایک عام بات ہوکر رہ گئی ہے۔ پھر وسائل اور وظائف کی کثرت اور ان
کے بامقصداستعمال میں کوتاہی بھی انھیں بڑی حد تک تساہلی کی طرف لے جا رہی ہے۔ گویا
جن علمی و تحقیقی مقاصد کے حصول کے لیے ان وظائف اور وسائل کی سہولت بہم پہنچائی
گئی تھی وہ پسِ پشت جا پڑے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ وسائل کی کثرت بعض مرتبہ تساہلی اور
بے فکری کے رجحانات کو جنم دیتی ہے اور اس بے فکری و تساہلی کے بطن سے غیر تحقیقی
رویے وجود میں آتے ہیں۔ان معروضات کا مقصد تحقیق کے لیے ملنے والے وظائف اور
وسائل کی اہمیت کا انکار یا نفی نہیں ہے بلکہ یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ تحقیق کے
پست ہوتے معیار کے پس پردہ یہ اسباب بھی کام کرتے ہیں۔ اس لیے یہ پہلو یہاں محل
بحث ہے۔مقصود دراصل یہ ہے کہ ان تمام تر تساہل پسندیوں کے باوجود محض ریسرچ
اسکالرز قصور وار نہیں ہیںبلکہ وہ نظام بھی ذمے دار ہے جس کی رو سے ریسرچ میں
داخلہ ہوتا ہے۔ کیونکہ داخلے کی شرائط میں(عموماً) ایک شرط نیٹ کی بھی ہوتی ہے۔
تشویشناک امریہ ہے کہ جس امتحان کی کامیابی ریسرچ میںداخلے کے لیے معاون ہوتی ہے،
اس میں تحقیقی مزاج پیدا کرنے کے عناصر موجود نہیں ہوتے۔اس امتحان کی تیاری کے لیے
طلبہ رات دن ایک کرتے ہیںاور وہ اس میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیںتاہم حقیقت یہ ہے کہ
تیاری کے دوران ذہنی تربیت بالکل مختلف خطوط پر ہوتی ہے جو صحت مند تحقیق کے لیے
عملاًزیادہ موزوں اور کارگرثابت نہیں ہوتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ آج
مطالعاتی سطح پرہم انحطا ط کے شکار ہیں اورمطالعے میں عدم دلچسپی ہماراشعار
ہوتاجارہا ہے۔تمام موضوعات کی تقریباًیہی صورت حال ہے۔ مطالعے میں دل چسپی کی کمی
کے باعث ہمارے ذہن میں سوالات پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ مفروضے نہیں اُگتے ہیں۔اس لیے
تحقیقی موضوعات کی قلت یا تکرار کی صورت حال بھی ہمارے تحقیقی رجحان میں نمایاں
ہے۔ قلتِ مطالعہ کی دو سطحیں۔ اول عام مطالعے کا رجحان۔ دوم تحقیق کے گہواروں میں
مطالعے کی عمومی فضا۔اس ذیل میں اساتذہ و ریسرچ اسکالر ز دونوں کے رول پر گفتگو کی
جا سکتی ہے۔اس ذیل میں ہمیں یہ کہنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی کہ یہاں
دونوں کی ذہن سازی کی ضرورت ہے۔مطالعے میں دلچسپی نہ ہونے یا پھر معیاری کتابوں
کامطالعہ نہ کرپانے کے سبب طلبا میں
سوالات کا شوق ختم ہوگیا ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ آج اساتذہ وریسرچ اسکالرز کے درمیان
ربط و ہم آہنگی ویسی نہیں رہی جو کسی صحت منداور معیاری علمی و تحقیقی نظام کے لیے
ضروری ہے۔عام مشاہدہ ہے کہ ریسرچ میں داخلہ لینے کے بعد بعض طلباکسی مقابلہ جاتی
امتحان کی تیاری میں اپنا بیشتر وقت صرف کرتے ہیں اور انھیں اس وقت مقالہ لکھنے کا
خیال آتا ہے جب پی ایچ۔ڈی۔کا مرحلہ اپنے اختتام کے قریب ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ
اپنے تحقیقی موضوع سے متعلق دستیاب شدہ مواد کا مطالعہ بھلاکیوں کر کر سکتے ہیں۔
نتیجتاًان میں نہ صرف تحقیق کے تئیں عدم دلچسپی کے رجحانات پیدا ہو رہے ہیں بلکہ
جو تحقیقی مقالے وجود میں آرہے ہیں۔ انھیں کسی بھی طرح معیاری تحقیقی کے زمرے میں
نہیں رکھا جا سکتا۔ اس تعلق سے یونیورسٹیوں میں برسرِ کار اساتذہ کے رول پر گفتگو
کرتے ہوئے مالک رام لکھتے ہیں :
’’
اگر پروفیسر حضرات چاہیں تو معیار بلند ہوسکتا ہے۔ اور
جب تک موجودہ سہل انگاری رہے گی، اس کا معیار بلند ہونے کا کوئی امکان نہیں
ہے۔‘‘4؎
یہ اقتباس مالک رام کے ایک خطبۂ صدارت سے ماخوذ ہے جو
شعبۂ اردو آل انڈیا اورینٹل کانفرنس کے ایک اجلاس منعقدہ علی گڑھ میں پیش کیا گیا
تھا۔ اس کتاب(مقالے) میں انھوں نے تذکرہ نگاری کے مباحث اور اردو کے دیگر اہم محققین
پر نظر ڈالی ہے اور موجودہ حالات پر بھی بحث کی ہے۔ اس طویل مقالے پر تاریخ
27,28,29 اکتوبر درج ہے مگر سنہ ٔاشاعت کا
کچھ پتا نہیں چلتا تاہم اتنی بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ دہائیوں قبل یہ مقالہ معرض
وجود میںا ٓیا ہوگا۔ ظاہر ہے ان کے زمانے میں چند محققین موجود تھے۔ ان کے معاصرین
میں کئی قابل ذکر محققین بھی نظر آتے ہیں۔ اگروہ زندہ ہوتے اور موجودہ تحقیقی
صورت حال پر نظر ڈالتے تو شاید اور بھی زیادہ مایوس ہوتے۔ کیونکہ سہل انگاری کا
رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے اور بہ ظاہر اس میں اصلاح کے امکانات نظر نہیں آتے۔
اس تشویشناک صورت حال سے
نپٹنے،ریسرچ اسکالرز کو تحقیق کی طرف مائل کرنے اور ان میں ایک پختہ اور صحت
مندتحقیقی مزاج پیدا کرنے میں اساتذہ اورنگراں زیادہ بہتر اور مؤثر رول ادا کر
سکتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں تربیت یافتہ اور تحقیقی صلاحیتوں سے لیس قابل
اساتذہ کی کمی ہے۔ یا وہ طلبا و ریسرچ اسکالرز کی ذہنی تربیت اور ان کے اندر تحقیقی
مزاج پیدا کرنے کی اپنی ذمے داری میں کسی قسم کی کوتاہی سے کام لیتے ہیں۔بلکہ
ضرورت ایک نئی حکمتِ عملی کی ہے تاکہ جو کوششیں اس ذیل میں کی جارہی ہیں انھیں مزید
مؤثر اور مفید بنایا جا سکے۔اس میں شک نہیں کہ کسی ایک موضوع پر تحقیق کے لیے
پانچ برس کا عرصہ کم نہیں ہوتا۔ اگر ان پانچ برسوں کو مختلف مرحلوں میں تقسیم کرکے
کام کیا جائے تو بہتر کام ہوسکتا ہے۔حالیہ برسوں میں ایک خوش آئندرجحان یہ بھی دیکھنے
میں آیا ہے کہ سہ ماہی یا شش ماہی میٹنگیں ہونے لگی ہیں۔ جن میں تحقیقی کاموں کی
رفتار اور معیار پر بات کی جاتی ہے اور ریسرچ اسکالرز کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ اس لیے
یہ کہا جاسکتاہے کہ مستقبل بعید میں اس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ کیوں کہ اس
سے کسی نہ کسی سطح پر تساہلی اور بے فکری دور ہوتی ہے اور کام کرنے والوں کو اپنے
فرض کا احساس ہوتا ہے۔اپنے تحقیقی کام کے تئیں جواب دہی کے اس احساس سے بعض
اسکالرز کے یہاں سنجیدگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ بلاشبہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اس
سے تحقیقی کام میں تسلسل کے ساتھ ساتھ اعتدال پسندی بھی قائم رہتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تحقیق کے میدان میں بے فکری و تساہلی
نہ صرف جامعات میں دیکھنے کو مل رہی ہے بلکہ عام زندگی میں بھی یہ رویہ عام ہوتا
جارہا ہے۔ ہم جہاں تیز رفتار ہوئے ہیں، وہیں علمی معاملات میں بہت سے مقامات پر
تساہل پسند بھی واقع ہورہے ہیں۔دیگر معاملات میںجامعات کا موجودہ تحقیقی نظام بھی
اہل علم کو تشویش میں مبتلا کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تحقیق کا معیار بلند نہیں
ہورہا ہے۔ہم یہاں مشہورمارکسی نقاد ودانشورسیداحتشام حسین کا ذکر کر سکتے ہیں۔وہ
نہ صرف بڑے ناقد تھے بلکہ ایک مقبول استاذ بھی تھے اور ادب کے اہم اساتذہ میں ان
کا شمار ہوتا تھا۔ ان کی نگرانی میں بھی بعض اچھے کام ہوئے تاہم ان کی رہنمائی میں
ہونے والے ایک تحقیقی کام کی مثال یہاں پیش کی جاسکتی ہے۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’محمودالحسن
کی کتاب ’اردو تنقید میں نفسیاتی عناصر‘ کے مطالعے کے بعد جوالجھنیں پیش آئیں وہ
اس کتاب[نفسیاتی تنقید:سلیم اختر] سے حل ہوجاتی ہیں۔۔۔ محمودالحسن کی کتاب میں ہر
ایک ناقد نفسیاتی نظر آتا ہے۔گویا ان کے یہاں 70 سے زائد افرادنفسیاتی تنقید کے
زمرے میں آتے ہیں اور سلیم اختر کے یہاں فقط 21۔ راقم کا خیال ہے کہ محمود الحسن
کے یہاں نفسیاتی مطالعہ کا رجحان صاف نہیں ہے۔ اردو تنقید کے مختلف مراحل پر انھوں
نے نگاہ تو ڈالی ہے مگر نفسیاتی دبستان پر وہ بہت کچھ نہیں کہہ سکے۔ حالاں کہ
انھوں نے سید احتشام حسین کی ماتحتی میں اپنی پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار کیا
تھا۔‘‘5؎
یہاں زیاد ہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ اقتباس خود شاہد
ہے۔ البتہ دو تین باتیں کچھ یوں سامنے آتی ہیں کہ ہمارے یہاں اس زمانے میں بھی
انحطاط کی کیفیت در آئی تھی جب قابل تقلید اساتذہ موجود تھے۔ اس سے راقم کا مقصود
قطعاً یہ نہیں ہے کہ جس طرح کی تحقیقی کاوشیں سامنے آرہی ہیں وہ ان سے پوری طرح
مطمئن ہے یا پھر تحقیق کی دنیا میں جو کچھ
ہورہا ہے، اس سے اتفاق کا اظہار ہے۔ بس تجزیاتی تناظر میں یہ تقابل ذہن میں رکھنا
لازمی ہے۔ اس کے علاوہ سید احتشام حسین کے متعلق جمیل جالبی نے جو کچھ لکھا وہ بھی
قابل مطالعہ ہے۔ انھوں نے ’مہرنیم روز‘ کے تناظر میں تصنیف، ترجمہ،تاریخ اور غالب
کی شعری انفرادیت پر اچھی بحث کی ہے۔ 6؎ مذکورہ دونوں پہلوؤں سے تساہلی اور محققین
کے غیر صحت مند رجحان کا تصور وابستہ ہے۔اس میں شک نہیں کہ آج تحقیق کے مواقع اور
تحقیقی وسائل نسبتاً زیادہ ہیں اور مطالعاتی نظام کئی سطحوں پر بلند ہوا ہے۔اس لیے
پہلے کے مقابلے آج محتاط تنقید کی امیدبھی عبث نہیں ہے۔
بین الجامعات بے ربطی بھی تحقیق کے پست ہوتے ہوئے معیار
کا ایک اہم سبب ہے۔ مختلف جامعات کو ایک دوسرے سے علمی سطح پر تعلق استوار کرنے میں
کوئی دلچسپی نہیںہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سمیناروںکی سطح پر تعلقات بحال ہوتے رہتے ہیںمگر
ان تعلقات سے شاید(اصولی سطح پر) تحقیقی سلسلے کی کوئی کڑی مربوط نہیں۔ ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ جامعاتی سطح پر قابل ذکر یونیورسٹیوں میں تحقیقاتی ٹیم موجود ہو جو
اس بات پر نظر رکھے کہ کہاں کون سا کام ہورہا ہے اور کس معیار پر ہورہا ہے۔ یہ کام
بہت مشکل نہیں۔ وسائل اور تکنیکی سطح پر ہم پہلے سے زیادہ مستحکم ہوگئے ہیں۔ بین
الجامعات تحقیقاتی ٹیم کے بہت سے مثبت اور صحت مند نتائج سامنے آئیںگے۔ ایک یہ کہ
موضوعاتی تکرار میں کمی آئے گی،یا پھر اگر ایک ہی عنوان پر کام ہورہا ہوتو اس کی
نوعیت وماہیت میں تبدیلی لانا آسان ہو گالیکن ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اپنی یونیورسٹیوں
میں ہونے والے تحقیقی کاموں سے بھی بے خبر رہتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے
مضمون ’ادبی تحقیق کے تقاضے‘میں اس حوالے سے جو اشارہ کیا وہ واقعی تشویشناک ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
’’
اردو ناول میں ترقی پسندانہ عناصر (موضوع بظاہر ایک ہے،
نگراں بھی ایک ہے۔ سال بھی ایک ہے، صرف ’محقق‘ صاحب کا نام مختلف ہے)۔ ‘‘7؎
اس سیاق میں بین الجامعات تحقیقی ٹیم تشکیل دیے جانے
والی بات بھی قابلِ غور ہے۔بلاشبہ دیگر علمی کاموں کے ساتھ ساتھ تحقیق بھی ایک اہم
علمی سرگرمی ہے۔ آخر اسی کام کے لیے تو یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آتا ہے۔
چنانچہ علمی تعلقات کی استواری پر غور وفکر کرنا قطعاً غیر علمی کام نہیں ہے۔ اس
کا بنیاد ی فائدہ یہ ہوگا کہ کئی افراد ایک ساتھ بیٹھ کر کوئی عنوان طے کریں گے
اور ایک دوسرے کی معاونت کا فریضہ انجام دیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ ان یونیورسٹیوں سے
وابستہ افراد کی جواب دہی بڑھے گی کہ وہ دوسری یونیورسٹیوںکے سامنے اپنی تحقیقی
سرگرمیوں کو کیسے پیش کریں۔یہاں مالک رام کا ایک
اقتباس پیش کیا جانا مناسب معلوم ہوتا ہے:
’’میں
دیکھتا ہوں کہ ایک ہی موضوع پر دو دو بلکہ بعض اوقات تین تین جگہ کام ہورہا ہے۔
آخر یہ لوگ ایک دوسرے سے خط وکتابت کرکے کیوں طے نہیں کرلیتے کہ ان میں سے ایک نہ
ایک کام اس موضوع سے دست بردار ہوجائے۔ بعض جگہوں پر بہت راز داری سے کام لیا جاتا
ہے، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی کہ کن موضوعات پر کام ہورہا ہے۔ ‘‘8؎
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مالک رام کسی ایسے
زمانے کی بات کررہے ہیں جب ہم تکنیکی سطح پر بہت زیادہ مضبوط نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے
خط وکتابت کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے باخبر رہنے کی تلقین کررہے ہیں۔ اگر وہ ہمارے
زمانے کی تیز رفتار ترقی دیکھتے تو شاید کچھ اور لکھتے۔ گویا مالک رام نے جن خیالات
کا اظہار دہائیوں قبل کیا تھا، ان پر آج کاربند ہونا یا پھر اس کے لیے تگ ودو
کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہ گیا ہے۔ تکنیکی وسائل کی ترقی اور فراہمی کے پیش نظر
اب مختلف سطحوں پر کمیٹیاں بنائی جاسکتی ہیں اور تحقیقی امور میں زندگی وشفافیت
لائی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی یونیورسٹی میں معمولی ترمیم وتبدیلی کے
ساتھ دوسرا عنوان طے کردیا جاتا ہے۔ظاہر ہے اس صورت حال میں حساسیت کا مظاہرہ ناگزیر
امر ہے۔
ایک سوال یہ ہے کہ کیا ایم اے کے بعد ہر ایک طالب علم
کا تحقیقی میدان میں آنا مناسب ہے ؟ اس کا جواب آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ کبھی
محسوس ہوتا ہے کہ پی ایچ ڈی کے بغیر شاید ایم اے کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔
ظاہرہے اس صورت میں ایم کے بعد پی ایچ ڈی کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے
کہ ایم اے کرنے والے ہر طالب علم کے اندر تحقیقی آداب ولوازمات سے عہدہ برآ ہونے
کا مادہ ہوتا ہے نہ صلاحیت۔ تاہم اس کے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ اس نے ایم اے
کرلیا ہے تواب کیا کرے؟ اس کے سامنے یہ بھی مجبوری ہے کہ ایم کے بعد ملازمت کا
مسئلہ حل نہیں ہوتا تاہم تحقیقی مزاج نہ رکھنے والے طالب علم کا میدانِ تحقیق میں
آجانا ایک نقصان دہ امر ہے۔اس ضمن میں ملک کے تعلیمی نظام بالخصوص اعلی سطح کے
تعلیمی اداروں کے رول پر بالتفصیل بات کی جاسکتی ہے اور یوجی سی کی نگرانی میں کوئی
حکمت عملی تیار کی جاسکتی ہے۔
معیار تحقیق کو بلند کرنے اور اسے بہتر بنانے میں
مقالات کے ممتحن کے رول کو کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔جامعاتی تحقیق
سے سروکار رکھنے والا ہر فرد یہ بخوبی جانتا ہے کہ مقالات کی جانچ کے لیے ایک یونیورسٹی
اپنے اسکالرز کی تھیسس کسی دوسری یونیورسٹی کے پاس بھیجتی ہے۔ مقالے کے ممتحن کے
کمنٹس اور پھر اس کی سفارشات کے مطابق ہی پی ایچ۔ ڈی۔ کی ڈگری تفویض کی جاتی ہے۔ لیکن
یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض ممتحن حضرات بوجوہ مکمل تھیسس نہیں پڑھ پاتے۔ ایسے میں
متعلقہ تھیسس پر حقیقت پسندی کے ساتھ کوئی رائے دیناممتحن کے لیے ناممکن ہوتا ہے۔میری
ذاتی رائے ہے کہ جس طرح نیچے کے درجات میں رول نمبر وغیرہ ہٹاکر ممتحن کو کاپی چیک
کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ اسی طرح پی ایچ ڈی کے مقالات کی جانچ میں بھی ہونا چاہیے
کہ نگراں اور اسکالرز کے نام ہٹا کر ممتحن کے پاس مقالات بھیجے جائیں۔ راقم کو قطعی
یہ خوش فہمی نہیں ہے کہ اس سے موجودہ صورت حال میں فی الفور شفافیت آجائے گی یا
تحقیقی معاشرہ بہت سی آلائشوں سے دور ہوجائے گا، بلکہ اس طریقۂ کار سے شفافیت کی
امید ضرور کی جاسکتی ہے۔ گذشتہ سطور میں راقم الحروف نے جس بین الجامعات تحقیقاتی
ٹیم کا مشورہ دیا ہے، اسی تحقیقاتی ٹیم کے ذمے ہو کہ وہ کس سے مقالہ چیک کرائے اور
کس سے نہیں۔ آج کل عموماً یہ ہوتا ہے کہ جب اسکالرز تھیسس جمع کردیتے ہیں تو ان
کے نگراں چند نام اپنی یونیورسٹی انتظامیہ کو بھیج دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یونیورسٹی
انتظامیہ ان چند ناموںمیں سے کنہی دو کو مقالہ بھیج دیتی ہے۔ اس طریقۂ کار میں
شفافیت کی امید کرنا مشکل ہے۔ اس لیے اس نظام میں تبدیلی ضروری ہے۔ تاکہ میدانِ
تحقیق میں شفافیت اور دیانت داری کو یقینی بنایا جاسکے۔
زمانۂ ماضی میں پی ایچ۔ڈی۔کے مقالات بغور پڑھنے اور ان
میں خامیاں پائے جانے کے بعد تھیسس واپس کرنے یا ان میں تصحیح کرنے کا مشورہ دیا
جاتا تھالیکن حالیہ برسوں میں اس طرح کے رجحانات میں کمی آئی ہے۔ جس کے نتائج ریسرچ
اسکالرز میں تیزی سے پھیلتے جارہے تساہل پسندی کے رویے اور اپنے مقالات کے تئیں
خوش خیالی کے مرض کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔مکمل تھیسس پڑھنااور خامیاں پائے
جانے کے بعد اسے تصحیح کی غرض سے واپس کرنا خود ممتحن کے لیے بھی ایک مشکل اور
دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے۔ مستثنیات سے قطع نظر بعض ممتحن حضرات کے یہاں یہ رویہ دیکھنے
کو ملتا ہے کہ انھیں یا تو تھیسس پڑھنے کی فرصت ہی نہیں مل پاتی اور اگر وہ مقالہ
پڑھ چکنے کے بعد اس پر اپنی رائے یا کمنٹ متعلقہ یونیورسٹی کو بھیجتے ہیں تو اس میں
حقیقت پسندی کے برخلاف ایک نوع کی مصالحت پسندی کا رویہ حاوی رہتا ہے۔اس کے اسباب
و علل کا تجزیہ کیے بغیر کسی معیاری اور صحت مند تحقیقی نظام کا تصور محال ہوگا۔کوئی
بھی قابلِ قدر تحقیقی نظام حقیقت پسندی کا تقاضا کرتا ہے۔ حقائق کو ان کی اصل صورت
میں دیکھنا اور خوب چھان پھٹک کر اس کے تمام تر ممکنہ پہلوؤں کا تجزیہ کرنا ہر کس
و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ حقائق کی چھان بین اور زیر بحث متن کی صحت و عدم صحت
کے شعور کے فقدان یا اس میں کسی شعوری مصالحت پسندی کی آمیزش سے نہ صرف تحقیقی
نظام متاثر ہوتا ہے بلکہ مستقبل کی علمی و تحقیقی سرگرمیوں پر بھی اس کے منفی و غیر
صحت مند اثرات کا خدشہ بنا رہتا ہے۔ اس لیے تحقیق کے معیار کو بلند کرنے اور اسے
خوب سے خوب تر بنانے کی کوششوں میں مقالے کے ممتحن کے رول کو کسی بھی طرح نظر
انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مقالات کسی ایسے ممتحن
کے پاس بھیجے جائیں جو نہ صرف متعلقہ موضوع پر نظررکھتا ہو بلکہ تحقیقی شعور سے بھی
لیس ہو۔ تحقیق کا فن بلا شبہ ایک منفرد بصیرت مندی کا مطالبہ کرتا ہے اس لیے ممتحن
کا تحقیق کے اصول و مبادیات سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ قاضی عبدالودود نے ’دلی کا
دبستان شاعری‘ از: نورالحسن نقوی اور ’لکھنؤ کا دبستان شاعری‘ از: ابواللیث صدیقی
جیسی کتابوں پر جو تبصرہ کیا وہ نہ صرف عالمانہ ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ
سات آٹھ دہائیوں قبل جو تحقیق کی گئی اس کا کیا حال ہے۔ ظاہر ہے ان کے مقالات بھی
کسی کے پاس چیک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہوں گے۔ ان کے بھی نگراں رہے ہوں گے۔ اس کے
باوجود ان کے یہاں اتنے تسامحات موجود ہیں۔ ظاہر ہے تسامحات پر نظر رکھنے کے لیے
دقت نظری سے کام لینا پڑے گا۔ آج بھی غیر جانبداری اور حقیقت پسندی سے مقالات کو
دیکھنے کا کام کیا جائے تو یقینا بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
آج تنقید کے ذیل میں بین العلومیت پر بات کی جاتی ہے۔
ظاہر ہے متعدد علوم سے باخبر فرد اگر تنقید لکھے تو بہ نسبت اس کے جو زیادہ زبان
وعلوم نہیں جانتا ہے، وہ بہتر لکھ سکتا ہے۔ تحقیق کے لیے بہت سے علوم درکار ہوتے ہیں
مگر اس میں زبان دانی کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ کیونکہ ہرزبان میں قدیم وجدید لفظیات،
رسومیات اور استعمالات کا معاملہ ہوتا ہے۔ اگر زبان کے تناظر میں موجودہ محققین کی
بات کی جائے تو معلوم ہوگا کہ آج وہ تین زبانوں سے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہوتے۔
چند دہائیوں قبل اردو میں لکھنے پڑھنے والا متعدد زبانوں سے نہ صرف آگاہ ہوتا تھا
بلکہ بہت سی زبانوں پر عبور رکھتا تھا۔ آج پہلے کے مقابلے زبان سیکھنا قدرے آسان
ہے مگر کم ہی اسکالر ز ایسے ہوں گے جو عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی سے کماحقہ
واقف ہوں۔ لسانیات کا علوم اپنی جگہ تاہم زبان سیکھنے اور جاننے کا معاملہ ایک الگ
اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اردو میں تحقیق کرنے والا عربی اور فارسی سے ناواقف ہوتو وہ
کیوں کر مصادرومآخذ سے استفادہ کرسکتا ہے۔عصری آگاہی کے لیے عربی وفارسی کے
علاوہ ملکی سطح پر رائج کئی زبانوں کا جاننا لازمی ہے۔ ہمارے اسکالر ز تو ملکی سطح
پر رائج زبانوں سے بھی بے خبر ہیں۔ گویا تحقیق کے پست ہوتے معیار میں مختلف زبانوں
سے ناآشنائی بھی ایک بڑا سبب ہے۔ ذیل میں جمیل جالبی کایہ اقتباس دیکھیں:
’’ایک
پرانے اہل قلم نے ’شعلۂ جوالہ‘ نامی مجموعۂ واسوخت کا مطالعہ کیا تو واسوخت نمبر
32و33 کے نیچے مصنف کا ’لاادری‘ لکھا ہو ادیکھا اور قیاس کے طوطا مینا اڑا کر لکھا
کہ ان دونوں واسوختوں کا مصنف ایک ہی شخص ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’ ادری
‘’لاہوری‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ‘‘9؎
’لاادری‘
ایک تحقیقی اصطلاح بھی ہوسکتی ہے اور عربی کا ایک معمولی فقرہ بھی۔ ظاہر ہے واسوخت
پر کام کرنے والا یہ فرد عربی زبان سے واقف ہے اور نہ ہی تحقیقی اصطلاح سے۔اس
اقتباس کے بعد زبان جاننے کی اہمیت پر کچھ لکھنا بے معنی ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اس میں
وہ تمام پہلو موجود ہیں جن کی طرف اشارہ مقصود ہے۔
مقالے کی تسوید اور ضخامت کا مسئلہ بھی ایک اہم اورپرپیچ
مسئلہ بن گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج مقالے کی کیفیت وکمیت کا مسئلہ زیر بحث آتا
ہے۔ ضخامت وجسامت کے لحاظ سے مقالوں کا اگر انصاف پسندی سے مطالعہ کیا جائے تو
واضح ہوجائے گا کہ بہت ہی کم مقامات پر مقالہ نگار اپنی رائے کا اظہار کرسکاہے۔
’’انھوں نے کہا ہے، فلاں نے لکھا ہے، ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے، شاعر نے اس شعر میں
یہ کہا ہے‘‘ جیسے جملوں کی تکرار ہوتی ہے۔ اقتباسات پر اقتباسات نقل کرنے اور
صفحات کے صفحات سیاہ کرنے کا مرض بڑھتا جارہا ہے۔ ظاہر ہے غیر ضروری اقتباس سے
مقالہ ضخیم ہوسکتا ہے مگر اس کی وقعت بھی بڑھے یا وہ اپنے موضوع سے انصاف کرسکے، یہ
ضروری نہیں ہے۔ موضوع سے متعلق مواد جمع کرنا ایک بات ہے اور جمع شدہ مواد کا
مطالعہ اور تجزیہ کرنے کے بعد مطلوبہ نتائج تک رسائی حاصل کرنا دوسری بات ہے۔ تاہم
ان دونوں کو اس قدر گڈ مڈ کردیا گیا کہ مقالہ صرف ضخیم ہوکر رہ جاتاہے۔ اس میں شک
نہیں کہ اقتباس نقل کرنا کوئی عبث کام ہے لیکن معقول جوازکے بغیر نقلِ اقتباس کا
معاملہ غزل میں بھرتی کے اشعار جمع کرنے جیسا ہی ہے،بلکہ اس سے زیادہ معیوب ہے۔ کیوں
کہ غزل میں قافیہ اور ردیف کے وجود سے بھرتی کے اشعار میں بھی موزونیت پیدا ہوجاتی
ہے۔ اس کے علاوہ بھرتی کے اشعار میں چند الفاظ ہی ضائع ہوتے ہیں مگر غیر ضروری
اقتباس نقل کرنے میں الفاظ بھی زیادہ ضائع ہوتے ہیں، ساتھ ہی تھیسس غیر دلچسپ ہوکر
رہ جاتا ہے۔ یہاں جمیل جالبی کا ہی ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’ان
مقالات میں ایک خرابی عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ وہ ضروری وغیر ضروری مواد کے ڈھیر
سے لدے پھندے ہوتے ہیںاور اسی وجہ سے ضخیم اور فربہ ہوتے ہیں۔ تحقیق کرنے والے کو یہ
معلوم ہونا چاہیے کہ اسے کیا شامل کرنا ہے اور کیاشامل نہیں کرنا ہے۔ ‘‘ 10؎
یہ ضروری نہیں کہ ہر ناقد یا محقق جو رائے قائم کرے یا
تجزیے کے بعد جو نتیجہ اخذ کرے وہ صحیح ہی ہو۔
تاہم صحت مند اور مدلل اتفاق و اختلاف سے کوئی نئی بات ضرور پیدا ہوتی ہے۔
اس لیے اقتباس نقل کرنے کے بعد انحراف،اختلاف یا اتفاق آمیز جملے ضرور ہونے چاہئیں،
تاکہ اقتباسات مقالے کا لازمی حصہ بن سکیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ایک مقالہ
پڑھ کر دوسرا مقالہ لکھ لینے کا چلن عام ہوتا جارہا ہے بلکہ ناقدانہ شعار بنتا
جارہا ہے۔غیر ضروری اقتباس نقل کرنا اس سے بھی مہمل عمل ہے۔دوسروں کے خیالات اور
نظریات کو اپنے الفاظ میں لکھ دینا ایک غیر صحت مند اور غیر دیانت دارانہ عمل ضرور
ہے تاہم غیر ضروری اقتباسات کی کثرت کے
مقابلے یہ کسی حد تک اپنا جواز رکھتا ہے۔ اقتباس کی روشنی میںنہ صرف اتفاق واختلاف
کی بات کی جاسکتی ہے بلکہ اس میںعالمانہ، ناقدانہ اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ شمس
الرحمن فاروقی لکھتے ہیں :
’’میں
جس زمانے میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا،ادبیات اور دیگر انسانی علوم (Humanities) کے شعبوں میں تحقیقی
مقالہ نگاروں پر جو شرطیں پی ایچ ڈی کے لیے (یا الہ آباد یونیورسٹی میں، جہاں کا
طالب علم میں تھا) ڈی فل کے لیے عائد کی جاتی تھیں۔ انھیں چند الفاظ میں اس طرح بیان
کیا جاسکتا ہے۔ (1) اپنے موضوع کے اعتبار
سے نئے حقائق کی دریافت (2) یاپھر اس موضوع کے بارے میں پہلے سے معلوم حقائق کی نئی
تعبیر۔‘‘11؎
جن شرائط کی طرف فاروقی صاحب اشارہ کررہے ہیں، آج کی
جامعات ان پر ہی کاربند ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مصلحتوں اور تساہل پسندیوںکے سبب ان
خطوط پر تحقیقی کام نہیں ہوپاتے ہیں۔ مذکورہ اقتباس میں ’نئی تعبیر‘ سے تنقید اور
’ نئے حقائق کی دریافت‘ سے نئے تحقیقی پہلو کھل کر سامنے آر ہے ہیں۔ رشید حسن
لکھتے ہیں:’’حقائق کی بازیافت تحقیق کا مقصد ہے‘‘۔12؎ اس جملے سے ’نئی تعبیر‘سے کہیں زیادہ نئے حقائق
کی بازیافت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ آج کی جامعات میں بھی ان دونوں پہلوؤں پر الگ
الگ یا پھر دونوں کو ہم آہنگ کرتے ہوئے تحقیقی کام کرائے جاتے ہیں تاہم ریسرچ
اسکالرز اور تحقیق کے طالب علموںکے اندر تساہلی پیدا ہوجائے تو غیر ضروری اقتباس
نقل کرنے کا چلن عام ہوگا ہی جس سے ’نئی تعبیر‘ کی کوئی راہ نکلے گی اور نہ ہی
دادِ تحقیق کی گنجائش۔شمس الرحمن فاروقی کے مذکورہ اقتباس میں گویا عملی تحقیق کے
لیے رہنمائی شامل ہے۔
کسی موضوع پر شائع ہونے والی آخری کتاب دیگر زاویوں سے
اہم ہوسکتی ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ وہ تحقیق کے نقطۂ نظر سے بھی اہمیت کی حامل
ہو۔ اس لیے ایک محقق کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ آخر میں شائع ہونے والی کتاب پر تکیہ
نہ کرے۔ کیوں کہ اس سے گمراہی کے در وا ہوتے ہیں۔ گویا کسی مصنف نے تساہلی یا سہو
کی بنیاد پر کچھ لکھ دیا اور آپ نے بغیر تحقیق کے اسے کسی مضمون یا کتاب میں نقل
کردیا تو یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا۔غیر صحت مند اور بے بنیاد باتوں کی تشہیر
میں آپ بھی برابر کے شریک ہوجاتے ہیں۔
بطور مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو کے تحقیقی رویے
ور جحانات قابل اطمینا ن نہیں ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن کا اوپر تذکرہ کیا گیاہے۔
سہل انگاری،مطالعاتی انحطاط،بین الجامعات، بے ربطی، زبانوں سے نا آشنائی،ممتحن
حضرات کی تساہلی اور موضوعاتی تکراروغیرہ نے معیارِ تحقیق کو نقصان پہنچا یا
ہے۔ضروری ہے کہ نہ صرف حکومتی بلکہ جامعاتی اور ذاتی سطحوں پر بھی اس تعلق سے سنجیدگی
اور دیانت داری کا مظاہرہ کیا جائے۔ یہ خوش کن بات ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں معیارِ
تحقیق کی بلندی اور دور تک اس کی رسائی کے لیے ممکنہ شقوں کا اظہار کیا گیا ہے۔اس
کے علاوہ نظامِ تحقیق میں تبدیلی یعنی سہ ماہی اور شش ماہی گوشواروں(رپورٹ) کے طریقۂ
کار سے شفافیت، وقار، معیار اور تحقیقی مزاج میں تبدیلی آئے گی۔ یہاں یہ بات بھی
ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایسا نہیں کہ ہمارے زمانے سے پہلے جو تحقیقی کام ہوئے ان میں
تساہلی اور عدم سنجیدگی کا گزر نہ تھا۔ اتنی بات ضرور ہے کہ اس عہد میں آج سے کم
سہل انگار محققین تھے۔ پھر اس وقت باضابطہ اردو میں جامعاتی تحقیق نہیں ہوتی تھی۔
آج جب کہ باضابطہ تحقیقات کے شعبے ہیں تو اطمینان بخش اور قابل ذکر تحقیقی
کارناموں کا سامنے نہ آنا بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے۔تحقیق اور تنقید میں ایک
تردیدی ذہن کا پایا جانا بھی ضروری ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر ناقد یا محقق اپنی ہر بات
اور ہرجملے کو جامع اور اہم تصور کرلے تو بات نہیں بن سکتی۔ کیونکہ تحقیق اور تنقید
کے معیار کو محسوس کرنے والا خود لکھنے والا ہوتا ہے، اس کے اندر اپنے جملوں کو رد
کرنے کی قوت ہونی چاہیے۔ یہ قوت جہاں تنقید میں شان پیدا کرتی ہے، وہیں بڑی حد تک
معیارِ تحقیق کی بلندی میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔
حوالے
1 ڈاکٹر
جمیل جالبی، ادبی تحقیق، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 1996، ص 11۔
2 قاضی
عبدالودو،اردو میں ادبی تحقیق کے بارے میں، خدا بخش لائبریری پٹنہ،1995، ص 36
3 شمس
الرحمن فاروقی، ادبی تحقیق کے تقاضے، مشمولہ: اردو دنیا، جنوری 2017، ص 11
4 مالک
رام، اردو میں تحقیق،جمال پرنٹنگ پریس دہلی،(؟)،ص 27
5 سلمان
عبدالصمد، متن کے آس پاس، مرکزی پبلی کیشنز دہلی، 2023، ص 191
6 ڈاکٹر
جمیل جالبی، ادبی تحقیق، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 1996، ص 13
7 شمس
الرحمن فاروقی، ادبی تحقیق کے تقاضے، مشمولہ: اردو دنیا، جنوری 2017، ص 15
8 مالک
رام، اردو میں تحقیق،جمال پرنٹنگ پریس دہلی،(؟) ، ص 25
9 ڈاکٹر
جمیل جالبی، ادبی تحقیق،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 1996، ص 14
10 ڈاکٹر جمیل جالبی،
ادبی تحقیق،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 1996، ص 19
11 شمس الرحمن فاروقی،
ادبی تحقیق کے تقاضے، مشمولہ: اردو دنیا، جنوری 2017، ص 11
12 رشید حسن خان، ادبی
تحقیق :مسائل اور تجزیہ،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،1978، ص 11
13 پروفیسر قدوس جاوید،
ادبی سماجیات، کتاب محل الٰہ آباد، 1978، ص 35
Dr. Javed Alam
CNL, NCERT
New Delhi- 110016
Mob.: 9717984657
javed.alam075@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں