فکر و تحقیق، جولائی-ستمبر2024
تلخیص
1164ھ سے قبل عزلت نے دکنی شعرا کے احوال کی
تحقیق و بازیافت کی اور ان کے کلام کے نمونوں کو تلاش کیا اس لیے راقمۃ الحروف کے
خیال میں عزلت کو دکنی کا پہلا محقق کہنا بجا ہے کیونکہ1164ھ سے قبل دکنی ادبیات میں
کسی محقق کا تحقیقی کام نہیں ملتا۔ دکنی شعرا کے اولین تذکرے یعنی خواجہ خاں حمید
اورنگ آبادی کا تذکرہ ’گلشن گفتار‘ اورمرزا افضل بیگ خاں قاقشال کا ’تحفۃ الشعرا‘
1165ھ مطابق 1751-52 کی تصنیف ہیں۔ان تذکروں میں دکنی شعراکا ذکر ملتا ہے۔ اس لیے ان کا شمار عزلت کے بعد کے محققوں میں
ہوگا۔ دکن میں تحریر کردہ دیگر تذکروں میں لالہ لچھمی نراین شفیق اورنگ آبادی کا
’چمنستان شعرا‘ (1175ھ م1762)، اسد علی خاں تمنا کا ’گل عجائب‘ (1194ھ م 1780)،
شاہ تجلی علی کا ’مجموعہ فصاحت‘ (1216ھ م 1802) اور شاہ کمال مانک پوری کا’مجمع
الانتخاب‘ (1219ھ م 1804) میں دکنی شعرا کا ذکر ہے۔
دکنیات کے باب میں تحقیق کا آغاز بیاض عزلت اورقدیم
تذکروں کی تالیف سے ہوتا ہے جن میں دکنی تحقیق کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔
کلیدی الفاظ
سید عبدالولی عزلت سورتی، بیاض شعرا، گلشن گفتار، تحفۃ
الشعرا، خواجہ خاں حمید اورنگ آبادی، مرزا افضل بیگ خاں قاشقال، چارلس اسٹیوارٹ،
گارساں دتاسی، اشپرنگر، مولوی عبدالجبار صوفی ملکاپوری، محبوب الزمن تذکرہ شعرائے
دکن، حکیم شمس اللہ قادری، مولوی عبدالحق، ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور، پروفیسر
مسعود حسین خان
————
دکنی ادب کی تحقیقات کے میدان میں عام طور پر مشہور
فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی کو دکنی تحقیق کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے جس نے1833
میں ’دیوان ولی‘ مرتب کرکے پیرس کے شاہی دارالطبع سے شائع کیا تھا۔چنانچہ ڈاکٹرسید
محی الدین قادری زور رقم طراز ہیں:
’’اردو کے قدیم ادب پر تحقیقی کام کی ابتدا
کا سہرا گارساں دتاسی کے سر ہے۔گارساں دتاسی سوربوں یونیورسٹی پیرس میں اردو کے
استاد تھے انھوں نے یہ کام 1825 میں شروع کیا اور تقریباً پچاس سال تک وہ اس میں
مصروف رہے۔‘‘ 1؎
ڈاکٹر زور کی تقلید میں بعض دیگر علما و محققین نے بھی دتاسی کو دکنی تحقیق کا بنیاد
گزار بتایا ہے۔میرا خیال ہے کہ گارساں دتاسی دکنی کا پہلا محقق نہیں ہے۔راقمۃ
الحروف کی تحقیق کے مطابق دکنی ادب کے اولین محقق ہونے کا شرف سید عبدالولی عزلت
سورتی کو حاصل ہے۔ عزلت کا شمار اردو کے
قدیم ممتاز شعرا میں ہوتا ہے،لیکن ان کے کلام کا بیشتر حصہ زمانے کی دست برد سے
محفوظ نہ رہ سکا۔ عزلت 1104ھ ق م1692 میں سلون ضلع سورت(گجرات) میں پیدا ہوئے۔وہ
اپنے وقت کی جامع الکمال شخصیت تھی۔ علوم منقول ومعقول میں دستگاہ کامل رکھتے
تھے۔وہ قادرالبیان شاعر تھے اس کے علاوہ تاریخ دانی،موسیقی اور مصوری میں بھی یدطولیٰ
رکھتے تھے۔ انھیں سیاحت کا شوق تھا۔ 1164ھ کو سورت سے دہلی پہنچے۔دہلی سے مرشد
آباد (بنگال) کا رخ کیا اور نواب علی وردی خاں مہابت جنگ کی مصاحبت اختیار کی۔
مہابت جنگ کی وفات کے بعد وہاں سے اورنگ آباد آئے اور نواب ناصر جنگ شہید کی
خدمت میں باریاب ہوئے۔ ناصر جنگ کی شہادت کے بعد یہ حیدرآباد آئے اور یہیں کے
ہورہے۔ نواب امیر الممالک سید محمد خاں (پہلے نواب صلابت جنگ خطاب تھا۔نظام الملک
آصف جاہ کے تیسرے فرزند تھے)نے ان کی بڑی آ ؤ بھگت کی۔عزلت نے16؍رجب1189ھ
م4؍ اگست1775 کو انتقال کیا
اور دائرہ میر مومن استر آبادی میں آسودہ خاک ہوئے۔عزلت کی تصانیف میں دیوان
فارسی، دیوان اردو( ان کے اس دیوان اردو میں بارہ ماسا بھی شامل ہے)2؎، مثنوی راگ
مالا، ساقی نامہ، تعلیقات بر حواشیِ سیدزاہد3؎،
شطرنج کبیر ِجدید4؎ اور ایک ’بیاض
شعرا ‘ کاپتہ چلا ہے۔ ان کی آخرالذکرتالیف یعنی ’بیاض شعرا‘ جسے عام طور پر’بیاض
عزلت‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ راقمۃ الحروف کے خیال میں دکنی تحقیق کی خشت اول
ہے۔شومیِ قسمت سے ان کی یہ بیاض تا حال
ناپید ہے۔ کسی محقق کو اس کا نسخہ نہیں مل سکا۔ اس بیاض میں عزلت نے مختلف شعرا کے
احوال اور اشعار یکجا کیے تھے جن میں دکنی شعرا بھی شامل ہیں۔اس کا ثبوت اس طرح
ملتا ہے کہ میر تقی میر نے اپنے تذکرے’نکات الشعرا‘کی تدوین میں بیاض عزلت سے
استفادہ کیا تھا۔ میر کے تذکرے کو شمالی ہند میں شعرائے اردو کا اولین تذکرہ مانا
جاتا ہے یہ1165ھ میں مرتب ہوا۔ اس تذکرے کی تالیف کے زمانے میں عزلت دہلی میں تھے
اورسراج الدین علی خاں آرزوکے علاوہ میر تقی میر اورسید فتح علی حسینی گردیزی
دہلوی سے بھی ان کے تعلقات تھے جس کا اظہار میر نے ان الفاظ میں کیا ہے:
’’تازہ وارد ہندوستان کہ عبارت از شاہ جہاں
آباد است شدہ اند...بافقیر (بسیار محبت
دارند‘ و) جو ششہا می کنند۔‘‘5؎
فتح علی حسینی گردیزی لکھتے ہیں: ’’خوش گو و خوش صحبت
کسی است۔‘‘6؎
’نکات الشعرا‘ میں میر نے دکنی شعرا کے احوال
و نمونہ کلام کے سلسلے میں بیاض عزلت سے خوشہ چینی کی تھی جس کا انھوں نے اعتراف
بھی کیا ہے مثلاً:
.1
سراج اورنگ آبادی کے ترجمے میں لکھتے ہیں: ’’ہمیں قدر از بیاض سید( عبدالولی
صاحب) مسطور مستفاد می گرود‘‘7؎یعنی بیاض سید عبدالولی صاحب سے جن کا ذکر ہوچکا ہے
اسی قدر معلوم ہوتا ہے۔
.2 حسیب
نامی شاعر کے کوائف میں لکھتے ہیں: ’’از بیاض سید(عبدالولی) صاحب مذکور نوشتہ
شدہ‘‘ 8؎ یعنی سید (عبدالولی عزلت) صاحب کی بیاض سے لکھا گیا۔
.3 اسی
طرح حکیم یونس کے احوال میں بھی یہی لکھا ہے کہ ’’ از بیاض سید صاحب (معزی الیہ)
نوشتہ شدہ۔‘‘ 9؎
ان کے علاوہ محمد قیام الدین قائم چاند پوری نے بھی
اپنے تذکرہ’مخزن نکات‘ (1168ھ) میں اس کا ذکر کیا ہے اوربہ نسبت میر کے زیادہ واضح
طور پر کیا ہے۔ ایک دکھنی شاعر میر میران کے حال میں وہ لکھتے ہیں کہ :
’’است ایں دو شعر بنام او در بیاض میر
عبدالولی مسطور نوشتہ یافتم۔‘‘10؎
عزلت جیسا کہ قبل ازیں مذکور ہوچکا ہے1164ھ میں دہلی
گئے۔اس اعتبار سے ان کی بیاض 1164ھ سے قبل مرتب ہوچکی تھی جس میں انھوں نے مختلف
شعرا کے احوال اور ان کے نمونہ کلام کو اکٹھا کیے تھے جن میں دکنی شاعروں کے حالات
اور ان کی شاعری کا نمونہ بھی درج کیا تھا۔ یہ بیاض گو مفقود الخبرہے لیکن اس کا
وجود تھا جس کے بدیہی شواہد(’نکات الشعرا‘، ’تذکرہ ٔریختہ گویاں‘ اور تذکرہ ’مخزن
نکات‘ میں) موجود ہیں۔ 1164ھ سے قبل عزلت نے دکنی شعرا کے احوال کی تحقیق و بازیافت
کی اور ان کے کلام کے نمونوں کو تلاش کیا اس لیے راقمۃ الحروف کے خیال میں عزلت کو
دکنی کا پہلا محقق کہنا بجا ہے کیونکہ1164ھ سے قبل دکنی ادبیات میں کسی محقق کا
تحقیقی کام نہیں ملتا۔ دکنی شعرا کے اولین تذکرے یعنی خواجہ خاں حمید اورنگ آبادی
کا تذکرہ ’گلشن گفتار‘ اورمرزا افضل بیگ خاں قاقشال کا ’تحفۃ الشعرا‘ 1165ھ مطابق
1751-52 کی تصنیف ہیں۔ان تذکروں میں دکنی شعراکا ذکر ملتا ہے۔ اس لیے ان کا شمار عزلت کے بعد کے محققوں میں
ہوگا۔ دکن میں تحریر کردہ دیگر تذکروں میں لالہ لچھمی نراین شفیق اورنگ آبادی کا
’چمنستان شعرا‘ (1175ھ م1762)، اسد علی خاں تمنا کا ’گل عجائب‘ (1194ھ م 1780)، شاہ
تجلی علی کا ’مجموعہ فصاحت‘ (1216ھ م 1802) اور شاہ کمال مانک پوری کا’مجمع
الانتخاب‘ (1219ھ م 1804) میں دکنی شعرا کا ذکر ہے۔
دکنیات کے باب میں تحقیق کا آغاز بیاض عزلت اورقدیم
تذکروں کی تالیف سے ہوتا ہے جن میں دکنی تحقیق کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔
تذکروں سے متعلق عام احساس یہ ہے کہ یہ ناقص اور نا
مکمل معلومات اور تذکرہ نگار کے تاثرات و تعصبات کا مرکب ہوتے ہیں۔یہ احساس بڑی حد
تک درست ہے لیکن اس کے باوجود تذکروں کی تحقیقی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
بقول
ڈاکٹر گیان چند جین:’’تمام کمزوریوں اور فروگزاشتوں کے باوجود ہم قدیم تذکروں سے
صرف نظر نہیں کرسکتے۔ اردو کے محققوں کے لیے خشت اول بلکہ حبل المتین یہی تذکرے ہیں
جنھیں چشم کم سے نہیں دیکھنا چاہیے۔‘‘ 11؎قدیم شعرا کی زندگی، سیرت و شخصیت اور ان
کے کلام تک رسائی کا اہم ماخذ یہی تذکرے رہے ہیں بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جدید
تحقیق کی بنیاد بھی وہی قدیم تذکرے ہیں جن کے حوالوں کے بغیر ہماری تحقیق ادھوری
ہے۔‘‘12؎
مذکورہ بالا اقتباسات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں
کہ بعض اہم تذکرے ہماری تحقیقات کی اساس ہیں ان کی اپنی انفرادیت مسلمہ ہے۔ان کو
نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جیسے نکات الشعرا، گلشن گفتار، تحفۃ الشعرا، مخزن نکات،
چمنستان شعراوغیرہ۔ انھیں تذکروں کی بدولت ہم ’بیاض عزلت‘ سے واقف ہوئے ہیں جس کو
ہم دکنی تحقیق کی خشت اول قرار دیتے ہیں۔
دکنی ادب کی تحقیق میں سید عبدالولی عزلت، خواجہ خاں حمید
اورنگ آبادی، مرزا افضل بیگ خاں قاقشال کے بعدزمانی ترتیب کے لحاظ سے دکنی مصنفوں
اور دکنی فن پاروں کی تحقیق و تدوین کے میدان میں اولیت کا سہرا مستشرقین کے سر
جاتا ہے انگریز مستشرق چارلس اسٹیوارٹ (1764-1837) نے کتب خانہ ٹیپو سلطان کی فہرست
بہ عنوان''A Descriptive Catalogue of the Oriental
Library of the Late Tippoo Sultan of Mysore" مرتب
کی جسے 1809 میںکیمبرج یونیورسٹی لندن نے شائع کر کے دکنی تحقیق کی شمع فروزاں کی،
جس میں دکنی شہ پاروں جیسے تذکرۃ الشعرا ہندی، علی نامہ، گلشن عشق، گلدستہ عشق، کلیات
قطب شاہ، قصہ ماہ پیکر، قصہ رضوان شاہ و روح افزا، قصہ بہرام و گل اندام، پھول بن، طوطی نامہ، قصہ پدماوت دکھنی،
قصہ لعل و گوہر، بھوگ بل یعنی کوک شاستر، مفرح القلوب اور روضۃالشہدا مخطوطات کی
تفصیل درج ہے۔ اسٹیوارٹ نے پھول بن اور طوطی نامہ دونوں کے مصنف کا نامAvaryلکھا
ہے، جو بے بنیاد ہے۔ اور مشہور فرنچ (فرانسیسی اسکالر) مستشرق گارساں دتاسی
1794-1878)نے1833 میںمطبع شاہی پیرس (فرانس) سے ’دیوان ولی‘ مرتب و شائع کرکے دکنی
متون کی تدوین کے شعبے میں اولیت کا شرف اپنے سے معنون کرلیا، جس کے درج ذیل
کارنامے دکنی تحقیق سے تعلق رکھتے ہیں:
(1)
دیوان ولی کی تدوین1833(مقدمہ فرنچ زبان میں ہے۔اس کا ترجمہ ڈاکٹر یوسف حسین
خاں نے اردو میں کیا۔جو رسالہ ’الموسی‘ کے ’یاد گار ولی‘نمبر میں شامل ہے۔) (2)
تاریخ ادبیات ہندوی و ہندوستانی1839 (اس میں اردو اور ہندی دونوں شعرا و ادباکا
تذکرہ ابجدی ترتیب سے ہے) (3) ہندوستانی مصنّفین اور ان کی تصنیفات1855 (4) مقالات
و خطبات1850 تا 1877
گارساں دتاسی کی آخرالذکر تین تصانیف فرانسیسی زبان میں
ہیںجن کے اردو میں ترجمے ہوچکے ہیں۔ خطبات گارساںدتاسی کے فرانسیسی سے اردو میں متعدد
ترجمے ہوئے۔اس پر مولوی عبدالحق نے مقدمہ نیزشیخ چاند نے حواشی لکھے۔(یہ شاید
عبدالحق کا پہلا مقدمہ ہے) مقالات کا اردو ترجمہ1943 میں شائع ہوا۔
گارساں دتاسی کے بعد دکنی تحقیق کے میدان میں
اے۔اشپرنگر (1813-1893) کا نام آتا ہے جس نے شاہان اودھ کے کتب خانوں کے نوادر کے
متعلق جو فہرست مرتب کی تھی، وہ کئی جلدوں پر مشتمل تھی۔ ان میں سے جو فہرست بہ
عنوان:
''A Catalogue of
the Arabic, Persian and Hindustany Manuscripts, of the Libraries of the King of
Oudh"
ّّمرتب کی جس کی جلد اول کلکتہ سے 1854 میں شائع ہوئی۔اس
جلد میں شعرائے ریختہ(اردو) کے20 تذکروں کے نام کے ساتھ ان کے مؤلف کا نام،سال
تصنیف اور مختصر کیفیت بھی درج ہے۔بعد ازاں اشپرنگر نے ان تمام شعرا کی ایک فہرست
دے دی ہے جن کا ذکر ان تذکروں میں ہے۔اس طرح اس فہرست میں156شعرا کے حالات ہیں گو
نہایت مختصر۔
اشپرنگر کی دوسری فہرست یعنی جلد دوم جس کا عنوان A Catalogue of the
Bibliotheca Orientalis Sprengeriana ہے جو 1857 میں شائع ہوئی۔یہ فہرست ببلیو تھیکا
اورینٹیلس کا ایک اورکیٹلاگ ہے۔ اس فہرست میں چار زبانوں (عربی، فارسی، ہندوستانی یعنی
اردو اور ترکی) کے
مخطوطات اور مطبوعات شامل ہیں۔اردو کے کل اندراجات125ہیں۔
علاوہ ازیںاشپرنگر نے شا ہ اودھ کے کتب خانوںسے متعلق کیٹلاگ
مرتب کیا۔اسی سلسلے میں ایلیٹ کو تین رپورٹیں پیش کیں۔
اشپرنگر کی تین رپورٹوں کی تفصیل درج ذیل ہے:
1 پہلی
رپورٹ متعلقہ موتی محل
بابت6؍جون 1848 (لکھنؤ)
2 دوسری
رپورٹ متعلقہ توپ خانہ بابت یکم اکتوبر 1848 (لکھنؤ)
3 تیسری
رپورٹ متعلقہ توپ خانہ و فرح بخش محل بابت13مارچ
1849(لکھنؤ)
بعد ازاں ان رپورٹوں کو یکجا کر کے کلکتے سے1894 میں
مندرجہ ذیل عنوان کے تحت شائع کردیا گیا:
''Report of the
Researches into the Muhammadan Libraries of Oudh"
اشپرنگر کے بعداردو تذکروں میں محمد عبد اللہ خاں ضیغم
کا ’یادگار ضیغم‘(1303ھ )کا نام آتاہے جومطبع دکن حیدرآباد میں طبع ہوا۔
ایڈورڈ۔جی۔ براؤن (1862-1926) نے کیمبرج یو نیورسٹی کے
کتب خانے کی فہرست (جو عربی، فارسی، ترکی،ہندی اور اردو قلمی کتابوں پر مشتمل ہے)کیمبرج
کے ہندوستانی مخطوطات کی فہرست کے نام سے 1896 میں مرتب و شائع کی تھی۔یہ کیٹلاگ
تفصیلی نہیں ہے۔اس میں دیوان ولی(3 نسخے)اور
قصہ سیف الملک (2 نسخے) وغیرہ کا ذکر موجود ہے۔
دکنی تحقیق کے ضمن میں قلمی نسخوں کی وضاحتی فہرست مرتب
کنندہ مستشرقین میں ایک اہم نام جیمس فلر بلوم ہارٹ 1844-1922)کا بھی ہے۔انھوں نے
دو فہرستیں مرتب کیں۔پہلی برٹش میوزیم کے کتب خانے میں مخزونہ ہندی، پنجابی اور
ہندوستانی(اردو) مخطوطات کی وضاحتی فہرست جس کا عنوان
''Catalogue of the
Hindi,Panjabi and Hindustani manuscripts in the library of the British
museum"
ہے
جولندن سے1899 میں شائع ہوئی۔ انیسویں صدی میں اردو مخطوطات کے جتنے کیٹلاگ بنے ان
میں اس کیٹلاگ کو فوقیت اس لیے ہے کہ اس کی ترتیب محققانہ ضرورت کے تحت ہے۔اس کے
علاوہ بلوم ہارٹ کی مرتبہ انڈیا آفس میں مخزونہ اردو مخطوطات کی دیگر دو وضاحتی
فہرستیں بھی شائع ہوچکی تھیں۔ان کا بیان زمانی ترتیب میں سپرد قلم ہوگا۔
اب تک دکنیات کی تحقیق کے بارے میں جن کارناموں کا ذکر
کیا گیا وہ اٹھارویں اور انیسویں صدی سے متعلق ہیں۔ تذکروں اور مستشرقین کے مذکورہ
بالا کارناموں کے بعد دکنی زبان و ادب کی تحقیقات میں کچھ مدت تک سکوت طاری
رہا۔دکنی ادب کی تحقیق و بازیافت کے عہد زریں کا آغاز بیسویں صدی کے تیسرے عشرے
سے ہوتا ہے۔لیکن اس سے قبل محمد عبد اللہ خاں ضیغم کے’تذکرہ ہند‘ (1324ھ م1906غیر مطبوعہ)اور
مولاناشبلی نعمانی نے مرزا علی لطف کے تذکرہ ٔ گلشن ہند(1215ھ م 1801) کو1906 میں
تصحیح و تحشیہ کے ساتھ ترتیب دیا، جس پر مولوی عبدالحق نے ایک عالمانہ مقدمہ تحریر
کیا۔ اس مقدمے کو اولین تحقیق دکنی ادب میں ایک منفرد و اہم مرتبہ حاصل ہے۔
اردو کے قدیم ادب کی تحقیق کے یہ ابتدائی نقوش اپنے عہد
زریں کاپتہ دیتے ہیںاور یہی دکنی ادب کی بازیافت کی عالی شان عمارت کو تعمیر کرنے
کا فرض ادا کرنے میں ممد و معاون ہوئے ہیں۔
بیاض عزلت،تذکروں اور مستشرقین کے مذکورہ بالا کارناموں
کے بعد دکنی ادب کی تحقیق میں دوسرا سنگ میل تواریخ ادب ہے۔ بیسویں صدی ربع اول کے
پہلے دکنی محقق شمس المورخین حکیم سید شمس اللہ قادری (1885-1953)ہیں جنھوں نے قدیم
دکنی شعرا کے تعارف کے متعلق ایک طویل تحقیقی مقالہ بہ عنوان ’قدیم شعراے
اردو‘لکھا جو1910 میںماہنامہ رسالہ’لسان العصر ‘، لکھنؤ کے تین شماروں میں قسط
وار شائع ہوا۔13؎
اس کے بعددکنی شعرا و مصنّفین اور ان کے تخلیقی
کارناموں کی تحقیق و بازیافت کی جانب وہ علما و محققین متوجہ ہوئے جنھیں دکنی اور
دکنیات کے میدان میں قافلہ سالار کی حیثیت حاصل ہے۔ان میں سب سے روشن اور نمایاں
نام مولوی عبدالجبار خاںصوفی ملکاپوری 14؎
ہے جنھوں نے قدیم دکنی شعرا کے متعلق اپنا ضخیم تذکرہ ’محبوب الزمن تذکرہ
شعرائے دکن‘ جو دو جلدوں پرمحتوی ہے1329ھ م 1911 میں مطبع رحمانی، حیدرآباد سے
شائع کیا۔ مولوی عبدالجبار خاں صوفی ملکاپوری پہلے محقق ہیں جنھوں نے سیدعبدالقادر
سامی اورنگ آبادی کے دیوان سے متعلق معلومات فراہم کیں،جس کا نسخہ ان کے ذاتی کتب
خانے میں محفوظ تھامگر اب یہ قلمی نسخہ نا پید ہے۔15؎ بعد کے محققین نے عبدالقادر سامی کے دیوان کے
بارے میں لکھا کہ وہ مولوی عبدالجبار خاں صوفی ملکاپوری ہی کی روایت کو دہراتے رہے
ہیں۔
اے۔کباٹون (1863-1942) نے پیرس کے قومی کتب خانے کے
اردو مخطوطات کی فہرست مرتب کی جو 1912میں
شائع ہوئی۔یہ فہرست بھی مکمل اور صحیح نہیں معلوم ہوتی اور مختصر ہے۔ اس میں دیوان
عاجز، تحفۃالنسا،ریاض الجنان،رسالہ فرقہ ہائے اسلام، ہدایت نامہ وغیرہ کاذکر موجود
ہے۔
مذکورہ بالا دو اولین محققین(حکیم شمس اللہ قادری اور
مولوی عبدالجبار خاں صوفی ملکاپوری ) کے کارناموں کے تقریباً بارہ سال بعد بابائے
اردو مولوی عبدالحق نے رسالہ’اردو‘ بابت
جنوری 1922 میں ’کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ ‘ کے عنوان سے ایک بسیط مضمون لکھا
جس میں انھوں نے کلیات محمد قلی قطب شاہ
کے اس نادر و مکمل مخطوطے کامفصل تعارف کرایا ہے جو قطب شاہی خاندان کے پانچویں
حکمران سلطان محمد قلی قطب شاہ کے جانشین بھتیجے اور داماد سلطان محمد قطب شاہ نے
شاہی کتب خانے کے لیے نہایت اہتمام سے نسخ کروایا تھا۔ مولوی عبدالحق کے بعد جب
ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورنے کلیات محمد قلی قطب شاہ کی تدوین کرنا چاہی تو اس
وقت تک یہ مخطوطہ کتب خانۂ آصفیہ حیدرآباد سے مفقود الخبرہوچکا تھا۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مولوی عبدالحق نے محمد
قلی قطب شاہ کی شاعری پر پہلی مرتبہ قلم اٹھایا لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں۔ان سے
دس گیارہ سال قبل مولوی عبدالجبار خان صوفی ملکاپوری نے اپنے ’تذکرہ شعرائے دکن‘ میںسلطان
محمد قلی قطب شاہ کی شاعری پر تفصیلی اظہار خیال کیا تھا۔1923 میں مولوی نصیرالدین
ہاشمی کی تاریخ ساز تصنیف ’دکن میں اردو‘شائع ہوئی۔ یہ اردو میں پہلی علاقائی تاریخ
ادب ہے۔اس کے کئی ایڈیشن ہند و پاک سے شائع ہوچکے ہیںاور ہرجدید اشاعت میں ترمیم و
اصلاح و اضافہ ہوتا رہا۔چنانچہ ان کی زندگی کا آخری یعنی چھٹاایڈیشن نہایت ضخیم
ہے۔’دکن میں اردو‘ کی تقلید میں متعدد علاقائی ادبی تواریخ لکھی گئیں۔اس کے بعدحکیم
سیدشمس اللہ قادری نے اپنے مذکورالصدر تحقیقی مقالے میں ترمیم و اضافہ کرکے
دسمبر1925 میں اسے ’اردوئے قدیم ‘کے نام سے تاج پریس حیدرآباد سے کتابی شکل میں
شائع کیاجس نے اردو کے علمی و ادبی حلقوں میں دھوم مچادی۔ حکیم سید شمس اللہ قادری
کی اس اہم تحقیقی کاوش نے تاریخ ادب اردو میں صدیوں کااضافہ کردیا یہی وجہ ہے کہ
حکیم سید شمس اللہ قادری کو دکنی ادب کے اولین ادبی مورخ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
اردو نثر کے اولین مصنف کے طور پر حضرت شیخ عین الدین
گنج العلم کو حکیم سید شمس اللہ قادری ہی نے اردو ادب کی تاریخ میں متعارف کیا۔اب
ان کے رسالے مفقود ہیں،’اردوئے قدیم‘ کا بیان ہی اس کے وجود کے بارے میں معلومات
کا واحد ماخذ ہے اس لیے کوئی تسلیم نہیں کرتا کہ شیخ عین الدین گنج العلم نے واقعی
یہ رسائل لکھے تھے۔بعد کے محققین حکیم شمس اللہ قادری کی روایت کو دہراتے رہے ہیں۔
اسی طرح حکیم شمس اللہ قادری،ڈاکٹر زور وغیرہ دکنی محققوں نے حضرت خواجہ بندہ نواز
گیسو دراز سے دکنی کے کئی رسائل منسوب کیے ہیں جیسے معراج العاشقین، ہدایت نامہ،
سہ بارہ،درالاسرار،شکار نامہ، ہفت اسرار،
تلاوت الوجود، خلاصہ توحید، تمثیل نامہ،رسالہ شرح کلمہ طیبہ وغیرہ لیکن بعد کی تحقیق
نے ثابت کردیا کہ یہ حضرت خواجہ بندہ نواز کی تصانیف نہیں ہیں انھوں نے دکنی میں
نثر کی کوئی تصنیف نہیںچھوڑی۔ اس لیے انھیں حضرت خواجہ بندہ نواز کی تصنیف قرار دینا
مناسب نہیں۔
جے ایف بلوم ہارٹ کی پہلی فہرست کا ذکر ہوچکا ہے۔اس نے
کتب خانہ انڈیا آفس میں محفوظ ہندوستانی قلمی نسخوں کی وضاحتی فہرست بہ عنوان ''Catalogue
of the Hindustani manuscripts in the library of the India office" مرتب
کی جو آکسفورڈیونی ورسٹی پریس لندن سے1926میںزیور طباعت سے آراستہ ہوئی۔اسی سال
محمد سردار علی کا’تذکرۂ شعرائے اورنگ آباد‘ بھی منظر عام پر آیا۔1927 میں مولوی
سید علی احسن مارہروی (1876-1940) نے’ کلیات ولی‘ کی تدوین کی جو انجمن ترقی اردو
اورنگ آباد کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔
دکنی
تحقیق و بازیافت کے سلسلے میں ڈاکٹرسید محی الدین قادری زورکی معرکتہ الآرا تصنیف
’اردو شہ پارے‘ 1928 میں مرتب ہوئی اور1929 میں شائع ہوئی۔
1929 میں دکنیات کی تحقیق کے شعبے میں دو اہم
کتابیں مرتب و شائع ہوئیں یہ اولین باقاعدہ اردو وضاحتی فہرستیں جوحوالہ جاتی نوعیت
کی حامل ہیں ان میں ایک پروفیسر عبدالقادر سروری کی کتب خانۂ کلیۂ جامعہ عثمانیہ
حیدرآباد کے اردو مخطوطات کی وضاحتی فہرست اور دوسری مولوی نصیرالدین ہاشمی کی ’یورپ
میں دکھنی مخطوطات‘ ہے۔ آخرالذکر فہرست مرتب تو ہوچکی تھی لیکن شائع1350ھ م1932 میںہوئی۔
دکنی ادب کی تحقیق کا قافلہ چل پڑاتو کئی محققین نے اس
جانب توجہ کی اور اہم کارنامے انجام دیے۔جن کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد حفیظ سید نے 1939 میں ’کلیات بحری‘ مع’بنگلہ
ادب نامہ‘ مقدمہ و تشریح کے ساتھ مرتب کی نیز برہان الدین جانم کی تصانیف ’سکھ سہیلا‘
اور ’منفعت الایمان‘ کی بھی تدوین کی۔ محمد سعید عبدالخالق کی تصنیف ’میسور میں
اردو ‘ 1942 میںادارۂ ادبیات اردو سے شائع ہوئی۔گارساں دتاسی اورمولوی احسن
مارہروی کے بعد مولوی عبدالحق کے ایما پر پروفیسر نورالحسن ہاشمی نے1945 میں ’کلیات
ولی‘ کو مرتب و شائع کیا۔جس کوانھوں نے مزید ترمیم و اضافے کے ساتھ 1954 میں مرتب
کیا،جسے انجمن ترقی اردو کراچی نے شائع کیا۔ ڈاکٹر سید ظہیر الدین مدنی کے مضامین
کا مجموعہ ’ولی گجراتی‘ کے عنوان سے 1950 میں منظر عام پر آیا۔ علاوہ ازیں انھوں
نے محمد سخاوت مرزاکے اشتراک میں ’علی گڑھ تاریخ ادب اردو‘ (1962)میں باب ششم ’ولی
اور اس کا عہد‘تحریر کیا۔ وجدی کرنولی پرمحمد بن عمر کی کتاب ’وجہہ الدین وجدی‘ 1954 میں منظر عام پر آئی۔پروفیسر مسعود حسین
خاں نے فیروز بیدری کی مثنوی ’پرت نامہ‘ 1955 میں مرتب کی اور اسی سال ڈاکٹر نذیر
احمد نے ابراہیم عادل شاہ ثانی کی تصنیف ’کتاب نورس‘ مرتب کی۔اس کے علاوہ ’علی گڑھ
تاریخ ادب اردو‘میں ایک باب ’اردو ادب عادل شاہی دور میں‘ حصہ ’الف‘ تحریر کیااور
دکنی ادب پر متعدد مضامین و مقالات لکھے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے 1957 میں
’معراج العاشقین‘کی تدوین کی،اور اسی سال خلیق انجم نے بھی اس نثری رسالے کو مرتب
کیا۔ حکیم محمود بخاری نے1958 میں تذکرہ ’شہ میری اولیا‘تحریر کیا اوراسی سال ڈاکٹر
خالدہ بیگم نے داؤد اورنگ آبادی کے دیوان پر ایک کتاب بہ عنوان ’دیوان داؤد
اورنگ آبادی‘ کی ترتیب و تدوین کی۔ پروفیسر ثمینہ شوکت نے ’مہ لقا‘(ماہ لقا بائی
چندا کی زندگی اور اس کا کلام)کی تدوین کی جو1959 میں اشاعت پذیر ہوئی۔ محمد بن
عمر نے ’کلیات غواصی‘کو 1959 میں مرتب و شائع کیا۔ گوپی چند نارنگ کی ایک اور تصنیف
’ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں‘ بھی 1959 ہی میںمنصہ شہود پر آئی۔جس میں
دکنی مثنویوں کا ذکر بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر آمنہ خاتون اور ان کے خاوند محمدخاںکی
مرتبہ تصنیف ’ریاست میسور میں اردو‘1960 میں شائع ہوئی۔
دکنی ادب کی تحقیقات کے ارتقا میں1935 کا سال ایک سنگ میل
کی حیثیت رکھتا ہے۔اس سال نواب سالار جنگ بہادر کی سرپرستی میں ولی کا دوصد سالہ یادگاری
جشن منایا گیا تھا۔اس سلسلے میں دکنی مخطوطات کی ایک نمائش بھی ترتیب دی گئی تھی۔نواب
سالار جنگ افتتاحی اجلاس کے صدر تھے۔ انھوں نے اپنے خطبہ صدارت میں دکنی کے نادر و
نایاب مخطوطات کی اشاعت پر زور دیا۔ اس سلسلے میں ’مجلس اشاعت دکنی مخطوطات‘ کے
نام سے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کے سرپرست نواب سالار جنگ تھے جنھوں نے دکنی مخطوطات کے اشاعتی منصوبے کے
لیے درکار جملہ اخراجات کی ذمے داری اپنے سر لی تھی۔ اس کمیٹی کے صدر سید محمد
اعظم پرنسپل سٹی کالج، نائب صدر ڈاکٹر زور، اور معتمد سید محمد تھے۔ نواب سالار
جنگ کے انتقال تک اس کمیٹی نے ’سلسلہ یوسفیہ‘ کے تحت درج ذیل دکنی شہ پاروں کی
اشاعت عمل میں لائی۔ ’کلیات محمد قلی قطب شاہ‘ (مرتبہ ڈاکٹر زور1359ھ م1940)، ’کلیات سراج‘
(مرتبہ پروفیسرعبدالقادر سروری 1357ھ)، مثنوی’سیف الملوک و بدیع الجمال‘
(مرتبہ میر سعادت علی رضوی 1357ھ )، مثنوی’طوطی نامہ‘ (مرتبہ میر سعادت علی رضوی 1357ھ )، ’کلام الملوک‘ (مرتبہ میر سعادت علی رضوی 1357ھ )، مثنوی’پھول بن‘ (مرتبہ پروفیسرعبدالقادر سروری 1357ھ )، مثنوی’قصہ بے نظیر‘(مرتبہ پروفیسرعبدالقادر سروری 1357ھ )۔
نواب سالار جنگ کے انتقال کے بعد مجلس اشاعت دکنی
مخطوطات کا کام جاری نہ رہ سکا۔بنا بریں 1954 میں سالار جنگ اسٹیٹ کمیٹی نے یہ طے
کیا کہ دکنی مخطوطات کو وسیع تر استفادے کے لیے دیوناگری رسم خط میں بھی شائع کیا
جائے۔اس مقصد کی خاطر مرکزی حکومت سے نمائندگی کی گئی۔ ریاستی حکومت نے دکنی
پرکاشن سمیتی کے تعاون سے ایک جائنٹ بورڈ قائم کرنے کی ہدایت دی۔ اس طرح مرکزی
حکومت، ریاستی حکومت اور سالار جنگ اسٹیٹ کمیٹی کی مالی امداد اور مجلس اشاعت دکنی
مخطوطات اور دکنی ساہتیہ پرکاشن سمیتی کے تعاون سے کچھ دکنی مخطوطات کی اشاعت عمل
میں آئی جن میں بعض یہ ہیں: مثنوی ’گلشن عشق‘ (مرتبہ پروفیسر سید محمد 1956)، مثنوی ’رضوان شاہ و روح افزا‘ (مرتبہ پروفیسر سید محمد 1956)،
مثنوی ’ چندر بدن و مہیار‘ (مرتبہ
محمد اکبرالدین صدیقی 1956)، مثنوی
’ تصویر جاناں‘ (مرتبہ خواجہ حمید الدین شاہد
1357)، مثنوی’ پنچھی باچھا‘(مرتبہ
پروفیسر سید محمد 1959)، مثنوی ’علی
نامہ‘ (مرتبہ پروفیسر عبدالمجید صدیقی 1959)، ’دیوان عبداللہ قطب شاہ‘ (مرتبہ سید محمد
1959)۔ مجلس اشاعت دکنی مخطوطات
اور بعد میں سالار جنگ پبلشنگ کمیٹی کے زیر اہتمام انجام دیے گئے سارے کام تدوین
متن سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ کام تدوین کے موجودہ معیارات پر پورے نہیں اترتے لیکن اس
سے ان کی اہمیت اور افادیت کم نہیں ہوتی۔ اس وقت ان محققوں کے پیش نظر یہ مقصد تھا
کہ کسی صورت یہ دکنی شہ پارے جو تاریکی اور لا علمی کے دھندلکوں میں گم ہیں لیکن
عبور و مرور ایام کی زد سے بچ کر ہم تک پہنچ پائے ہیں وہ زیور طباعت سے آراستہ
ہوجائیں تاکہ وقت کی ناقدری کے ہاتھوں وہ مٹ نہ جائیں۔
دکنی اوردکنیات کی تحقیقات کا ارتقا ایک وسیع الذیل
موضوع ہے۔اس مختصر سے مقالے میں اس موضوع کی ساری جہات اور تمام پہلوؤں کا احاطہ
نا ممکن ہے۔سہولت کی خاطر راقمۃ الحروف نے ابتدائی محققین کے حوالے سے دکنی زبان
اور شعر و ادب کا منظر نامہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔دکنی کے اہم اور اولین محققوں
میں حکیم سید شمس اللہ قادری اور عبدالجبار خاں صوفی ملکاپوری کے بعد بابائے
اردوڈاکٹرمولوی عبدالحق (1870-1961)کی تحقیقی نگارشات منظر عام پر آئیں۔ ان کی
بعض تحریروں کا ذکر گذشتہ اوراق میں ہوچکا ہے۔ مزید برآںدکنی ادب کی تحقیق و بازیافت
سے متعلق مولوی عبدالحق کے گراں قدر کارنامے یہ ہیں: حضرت خواجہ بندہ نواز سے
منسوب نثری رسالہ ’معراج العاشقین‘ (1343ھ) کی ترتیب و ا شاعت،قطب شاہی سلطنت کے
پانچویں فرمانرواسلطان محمد قلی قطب شاہ کے دربار کے ملک الشعرا ملا وجہی کی مثنوی
’قطب مشتری‘ (1939) اور اس کی مایہ ناز نثری تصنیف اور دکنی کی اولین نثری داستان
’سب رس‘ (1932)کی ترتیب و اشاعت، عادل شاہی سلطنت کے آٹھویں حکمران علی عادل شاہ
ثانی شاہی کے ملک الشعرا نصرتی کی حیات اور کارناموں پر مشتمل تصنیف’نصرتی‘
(1944)، نصرتی کی مثنوی ’گلشن عشق‘(1952)، غضنفرحسین کی آصف جاہ اول اور عالم علی
خاں کے درمیان لڑی جانے والی جنگ سے متعلق مثنوی ’جنگ نامہ عالم علی خاں ‘(1932)کی
تدوین، قدیم دکنی ادب کی تاریخ و تحقیقات پر مولوی عبدالحق کی کتاب ’اردو کی
ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام‘ (1933)، دکنی شعرا کے تذکروں میںانھوں
نے لالہ لچھمی نارائن شفیق اورنگ آبادی کا تذکرہ ’چمنستان شعرا‘ (1928) اور اسد
علی خاں تمنا اورنگ آبادی کاتذکرہ ’گل عجائب‘ (1936) مرتب و شائع کیا اور ان پر
مفیدو مبسوط مقدمات سپرد قلم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ رسالہ ’اردو ‘ میں قدیم اردو
شعرا پر متعدد تحقیقی مضامین لکھے جن کا مجموعہ ’قدیم اردو‘کے نام سے1961 میں
انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی سے شائع ہوا ہے۔
مولوی عبدالحق نے سب سے پہلے’معراج العاشقین‘کو دو قلمی
نسخوں کی مدد سے مدون کر کے 1343ھ میں اورنگ آباد سے شائع کیا۔انھوں نے اس رسالے
کو حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی تصنیف قرار دیا۔ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو
دراز کے مرید سید محمد علی سامانی نے’سیرِ محمدی‘ میں خواجہ بندہ نواز کے کسی
اردورسالے کا ذکر نہیں کیا لیکن دکنی کے بیشتر محققین مثلاً ڈاکٹرزور، مولوی
عبدالحق، عبدالقادر سروری، اکبر الدین صدیقی، ڈاکٹر جمیل جالبی وغیرہ نے بعض اردو
رسائل کو خواجہ بندہ نواز سے منسوب کیا ہے اور ان کی تصانیف ہونے پر شک و شبہ کا
بھی اظہار کیا ہے، لیکن ’معراج العاشقین‘ کی اشاعت (1343ھ) کے ایک عرصے تک ’معراج
العاشقین‘کو حضرت گیسو دراز کی کتاب اور اردو میں نثر کی اولین تصنیف مانا جاتا
رہا۔ 1968میں ڈاکٹر حفیظ قتیل(عثمانیہ یونیورسٹی) نے اپنی تصنیف ’معراج العاشقین
کا مصنف‘ (حیدرآباد،1968) میں مدلل طور پر یہ ثابت کیا کہ’ معراج العاشقین‘ حضرت
خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی تصنیف نہیں ہے بلکہ گیسو دراز سے بہت بعد کے (یعنی
سترہویں صدی کے اواخر اور اٹھارویں صدی کے اوائل کے عہد کے) ایک صوفی مخدوم شاہ حسینی
ملکاپوری کی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر حفیظ قتیل کی اس تحقیق کے بعد اب عام طور سے یہ مان لیا
گیا ہے کہ’ معراج العاشقین‘ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی تصنیف نہیں ہے اس لیے
یہ اردو کا پہلا رسالہ بھی نہیں ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے مثنوی’کدم راو پدم راو‘کے مقدمے میں
واضح طور پر لکھا ہے کہ خواجہ بندہ نوازنے اردو میں کوئی کتاب نہیں لکھی۔ 16؎ ڈاکٹر حسینی شاہد یہ ثابت کر چکے ہیں کہ بندہ
نواز نے اردو میں کوئی رسالہ نہیں لکھا۔17؎
ڈاکٹر حسینی شاہدکے اس بیان کی تائیدپروفیسر م ن سعید نے اپنی’خواجہ نواز سے منسوب دکنی
رسائل‘ میں بھی کی ہے۔18؎ مذکورہ محققین
کے ان بیانات کے بعد شک و شبہہ کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔
دبستان ِ بیجاپور کے استاد سخن شیخ حسن شوقی کا تعارف
سب سے پہلے مولوی عبدالحق نے اپنے ایک مضمون ’حسن شوقی‘ میںکروایا تھا اور ان کے
ادبی کارناموں کی بھی نشاندہی کی تھی۔19؎
ان کے پیش نظر شوقی کا جو کل سرمایہ تھا وہ دو نظمیں (مثنویاں) ایک ’فتح
نامہ، نظام شاہ‘ یا ’ظفر نامہ،نظام شاہ‘ اور دوسری’میزبانی نامہ، سلطان محمد عادل
شاہ‘ اور تین غزلیں تھیں جو انجمن ترقی اردو میں محفوظ ہیں۔
دکنی ادب کی تحقیق و بازیافت کے میدان میں مولوی نصیرالدین
ہاشمی (1895-1964) کی شخصیت ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ تحقیق دکنیات میں ان
کی دو تصانیف کا ذکر ہوچکا ہے دیگر کارناموں میں ’مدراس میں اردو‘ (1938)،’مقالات
ہاشمی‘ (1939)، ’’ دکھنی (قدیم اردو)کے چند تحقیقی مضامین (1963)اور ’دکنی کلچر‘
(1963)اہم ہیں۔ ’علی گڑھ تاریخ ادب اردو‘جلد اول (علی گڑھ 1962) میں چوتھاباب
’اردو ادب عادل شاہی دور میں‘کاجزو (ب) مولوی نصیرالدین ہاشمی نے لکھا۔ ان کے
علاوہ نصیرالدین ہاشمی کا سب سے اہم کارنامہ ان کی مرتبہ وضاحتی فہرستیں ہیں۔
انھوںنے مختلف کتب خانوں کے اردو مخطوطات کی سب سے زیادہ وضاحتی فہرستیں مرتب و
شائع کیں جو یہ ہیں:
(1) کتب خانہ نواب سالار جنگ مرحوم کی اردو
قلمی کتابوں کی وضاحتی فہرست‘1957 (کتب خانہ نواب سالار جنگ کے اردو مطبوعات کا ایک
جائزہ رسالہ’نوائے ادب‘بمبئی جولائی1960) (2)کتب خانہ آصفیہ(اسٹیٹ سنٹرل لائبریری
حیدرآباد) کے اردو مخطوطات کی وضاحتی فہرست (دو جلدوں میں)1961(کتابی شکل سے قبل
’نوائے ادب‘ جنوری1952)، (3) حیدرآباد (دکن) کے عجائب خانہ کی اردوقلمی کتابیں ‘
مشمولہ سہ ماہی رسالہ ’نوائے ادب‘بمبئی بابت جنوری 1955، اپریل 1955، جولائی1955
اور جولائی1956، (4) دفتردیوانی و مال کے
اردو مخطوطات رسالہ ہندوستانی، الہ آباد 1953، (5) سنٹرل ریکارڈ آفس کی اردو قلمی
کتابیں، مشمولہ ’نوائے ادب‘بمبئی اپریل 1956 اور جولائی 1956، (6) جامعہ نظامیہ (حیدرآباد)کے
اردو مخطوطات کی وضاحتی فہرست بہ عنوان ’جامعہ نظامیہ کے اردو مخطوطات کا ایک
جائزہ‘ مشمولہ ’نوائے ادب‘ بمبئی جنوری1964
اوراپریل 1964، (7) ’پنجاب یونیورسٹی کے اردومخطوطات‘، مشمولہ رسالہ’قومی
زبان‘کراچی نومبر- دسمبر1964 وغیرہ۔
مولوی نصیرالدین ہاشمی کے چند اہم کارنامے و انکشافات یہ
ہیں۔ نصیرالدین ہاشمی نے اپنے مضمون ’بہمنی عہد کا ایک دکنی شاعر‘کے ذریعے جو
رسالہ’معارف‘اعظم گڑھ (اکتوبر1932) میں شائع ہوا، اردو کی اب تک کی پہلی معلوم
مثنوی’کدم راؤ پدم راؤ‘ (بہمنی دور کے شاعر فخردین نظامی )کا تعارف کرایا۔
برہانپور کے علاقے سے سلطان علی عادل شاہ ثانی شاہی کی کلیات دریافت کی اور اس پر
تعارفی مضمون لکھا،جورسالہ’معارف‘ بابت1923 میں شائع ہوا۔ سالار جنگ کے کتب خانے کی
ایک قلمی بیاض سے عادل شاہی دور کے شاعر نصرتی کا قطعہ تاریخ وفات ڈھونڈھ نکالااور
اس کے سنہ وفات کا تعین کیا۔ عادل شاہی دور کے شاعر رستمی کے’خاور نامہ‘ اور مقیمی
کی مثنوی ’چندر بدن و مہیار‘ کے بارے میں پہلی بار نئی معلومات فراہم کیں۔بزمیہ
مثنویوں’قصہ بہرام و گل اندام‘(طبعی) اور’گلشن عشق‘ (نصرتی )کے متعلق بھی تحقیقی
مواد منظر عام پر لایا۔ دکنی کی پہلی نثری داستان ’سب رس‘ (قطب شاہی دور کے شاعر
ملا وجہی)کے سنہ تصنیف 1045ھ کا تعین کیا۔ابراہیم عادل شاہ کی ’کتاب نورس‘ کے بارے
میں سابقہ محققین کی اس غلط فہمی کو دور کیاکہ یہ علمِ موسیقی کی کتاب ہے۔یہ ابراہیم
کے گیتوں کا مجموعہ ہے،جن کی ابتدا میں اس راگ کا نام درج کردیا ہے جس میں یہ گایا
جانا چاہیے۔دکنی ادب کی تحقیق کے میدان میں نصیرالدین ہاشمی نے کئی تصانیف لکھیں
اور ان کی تحقیقی تحریروں نے متعدد دکنی شعرا و ادیبوں کو طاق ِ نسیاں سے نکال کر
انھیں علم و تحقیق کی روشنی میں ادبی دنیا سے روشناس کرایا۔دکنی کا کوئی طالب علم یا
محقق نصیرالدین ہاشمی کی تصانیف سے مبرا نہیں رہ سکتا۔اس شعبے میں قدم قدم پر نصیرالدین
ہاشمی کی ذات اور خدمت سے واسطہ پڑتاہے۔
قدیم دکنی شعرا اور ادبا کی حیات اور ان کے ادبی خدمات
سے دنیائے ادب کو روشناس کرانے کے ضمن میں نصیرالدین ہاشمی کی دو اور تصانیف ’سلاطین
دکن کی ہندوستانی شاعری‘ (1933) اور’دکنی ہندو اور اردو‘(1956) بھی اہم ہیں۔
دکنی تحقیقات کے آسمان کا سب سے تاباں و درخشاں ستارہ
ڈاکٹرسید محی الدین قادری زور (1904-1962)
تھے جنھیں بجا طور پر’بابائے دکنیات‘ کہا جاتا ہے۔دکنی زبان و ادب کی تحقیق و تدقیق
کے حوالے سے ڈاکٹر زور کے کچھ تحقیقی کارناموں کا ذکر ہوچکاہے ان کے دیگر تحقیقی
کاموں کی فہرست نہایت طویل ہے۔ ان کے چند اہم کارنامے یہ ہیں: ’کلیات سلطان محمد
قلی قطب شاہ‘ کی تدوین اور بسیط و مفصل مقدمہ کے ساتھ اشاعت (1940)، ’میر محمد
مومن‘(1941)، ’داستان ادب حیدرآباد‘ (1951)، مثنوی’طالب و موہنی‘ (مصنفہ والہ
موسوی)کی تدوین و اشاعت (1957)، ’دکنی ادب کی تاریخ‘ (1960)، ادارہ ٔادبیات اردو
کے کتب خانے میں مخزونہ مخطوطات کی وضاحتی فہرست،’تذکرہ اردو مخطوطات‘ جو پانچ
جلدوں (اشاعت بالترتیب 1943، 1951، 1957، 1958 اور 1959 میںہے اور ’ علی گڑھ تاریخ
ادب اردو‘ جلد اول (علی گڑھ1962) میں باب پنجم’اردو ادب قطب شاہی دور میں‘ ڈاکٹر
زور نے لکھا ، نیز انھوں نے دکنی شعرا،ادیبوں اور دکنی شہ پاروں پر پچاسوں مضامین
و مقالات لکھے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر زور نے جنوری1931 میں ’ادارہ ادبیات اردو‘ کا قیام
اورجنوری 1938 میں رسالہ ’سب رس‘ کا اجرا بھی کیا۔
حکیم شمس اللہ قادری نے خواجہ بندہ نواز کی دکنی تصانیف
میں رسالہ ’ہفت اسرار‘کا ذکر کیا ہے۔20 ؎
اس میں خواجہ صاحب کے سات ارشادات ہیں جن کی شرح آپ کے کسی مرید نے لکھی
ہے۔،ڈاکٹر زور نے’اردو شہ پارے‘21؎ میں
اسے خواجہ صاحب کی نہیں، ان کے کسی مرید کی تصنیف قرار دیا ہے۔ اس کااب کہیں سراغ
نہیں ملتا۔ شمس اللہ قادری نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔
دکنی اور دکنیات کے ایک اہم محقق محمد سخاوت مرزا
(1898-1977) بھی تھے جن کا شمار ڈاکٹر زور
کے معاصرین میں ہوتا ہے، جنھوں نے ہند و پاک میںدکنی تحقیق کے میدان میں دکنی ادبیات
اور اردو کے قدیم شعرااور ادبا کے بارے میں تقریباً دو سو تحقیقی مقالات
لکھے۔علاوہ ازیں ان کے مرتبہ متون میں قاضی محمود بحری کی مثنوی’من لگن‘(1955)اور
شاہ قاسم اورنگ آبادی کا دیوان ’دیوانِ قاسم‘ (1975) اہم ہیں۔عبدالقیوم کی مولفہ
’تاریخ ادب اردو‘جلد اول (کراچی 1961) میں دکنی ادب سے متعلق محمد سخاوت مرزا کے تین
ابواب(باب ششم’اردو دکن میں(نظم)بہمنی دور‘، باب ہفتم ’اردو نظم (قطب شاہی اور
عادل شاہی دور) ‘ اور باب ہشتم ’قدیم اردو نثر (دکن میں)‘ شامل ہیں۔’ علی گڑھ تاریخ
ادب اردو‘ جلد اول (علی گڑھ1962) میں باب ششم ’ولی اور اس کا عہد‘ سخاوت مرزا نے
ڈاکٹر سید ظہیر الدین مدنی کے اشتراک سے لکھااوراسی طرح ’تاریخ ادبیات مسلمانانِ
پاکستان و ہند‘کی چھٹی جلد (1971) میں دسواں اور گیارھواں باب سخاوت مرزا نے علی
الترتیب مشفق خواجہ اور فیضان دانش کے اشتراک میں لکھا۔محمد سخاوت مرزا نے بعض صوفیا
اور شعرا کی سوانح بھی لکھی جن میں ’حضرت مخدوم عبدالحق ساوی کے مختصر حالات‘
(1941) اور ’حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت‘ (1962) شامل ہیں۔ انھوں نے مہدی واصف
مدراسی کے تذکرے’حدیقۃ المرام‘کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ انھوں نے اپنے
مقالات کے ذریعے متعدد دکنی کے غیر معروف یا کم معروف شعرا و ادبا اور دکنی شہ
پاروںکا تفصیلی تعارف کرایا۔ غواصی، مشتاق، افضل، شاہ کمال، فی الحال شاہ قادری، سید
شاہ طاہر حموی، ہاشمی، مختار، میراں جی، شمس العشاق،اثیمہ ارکاٹی اور ضعیفی وغیرہ
پر ان کے مضامین نہایت تفصیلی اور معلوماتی ہیں۔
اردو ادب کی تحقیق میں سخاوت مرزا کی نگارشات کا نہایت
وقیع اور گراں مایہ حصہ ہے۔ اردو کے بعض ادب پاروں اور ان کے مصنفین کے بارے میں
اردو کی مختلف اصناف پر اور لغات کے بارے میں ان کے مبسوط مقالے اولین تحقیق کی حیثیت
رکھتے ہیں۔ ان کے بیشتر مقالات غیر معروف اور مجہول الاحوال شعرا و ادیبوں اور ان
کی گمنام تصانیف کے تعارف و ترجمانی پر مبنی ہیں۔ ان کے مقالات کے ذریعے یا توکوئی
قدیم ادیب دنیائے تحقیق میں پہلی مرتبہ روشناس ہوا ہے یا اس کی کوئی تخلیق یا کوئی
صنف منظر عام پر آئی ہے۔ نہ صرف قدیم ادب کی نامعلوم شخصیتوں، ان کے ادب پاروں کے
تعارف مختلف اصناف اور لغات پر انھوں نے قلم اٹھایا ہے بلکہ شمالی ہند کے مخطوطات
اور ان کے مصنفین کے تعارف کے سلسلے میں بھی انھوں نے متعدد مقالے تحریر کیے۔
انھوں نے زبان و ادب کی اس خلوص و انہماک سے خدمت کی کہ ان کا شمار بجا طور پر
اردو کے محسنوں میں ہوتا ہے۔ ان کے مضامین و مقالات اور کتابوں سے استفادے کے بغیر
اردو زبان و ادب اور خاص کر دکنی زبان و ادب کی تفہیم و تحسین کا حق ادا نہیں کیا
جاسکتا۔ اردو ادب کے ممتاز محققوں اور نقادوں کی کتابوں میں ان کی تصانیف کے حوالے
ملتے ہیں۔
علم و ادب کے مختلف شعبوںجیسے تحقیق و تدوین، تاریخ نویسی،
سوانح نگاری، تذکرہ نگاری، مکتوب نگاری اور ترجمہ نگاری میں محمدسخاوت مرزا کی قلمی
فتوحات اور تحقیقی ارتسامات ملتے ہیں۔
اردو شعر و ادب پر سخاوت مرزا کے مقالے نہایت مبسوط، وقیع
اور عالمانہ ہیں۔ ان سے مصنف کی دقیقہ سنجی، ژرف نگاہی، مطالعے کی وسعت اور مشاہدے
کی باریکی کا پتہ چلتا ہے۔ زبان کی قدامت، اسلوب کی غرابت اور مخطوطات کی قرأت کے
دشوار گزار مراحل دکنی تحقیق کا لازمہ ہیں۔ سخاوت مرزا نے نہایت حوصلے سے تحقیق کی
منازل ہفت خواں طے کی ہیں۔ انھوں نے اصل مخطوطات تک رسائی حاصل کی اور نہایت تفحص
و احتیاط اور صبر وتحمل کے ساتھ ان کا مطالعہ کیا۔ ان مضامین سے ان کے مطالعے کی
وسعت اور نظر کی گہرائی کے علاوہ ذہن کی رسائی، درا کی اور قوت اخذ و ترتیب کا پتہ
چلتا ہے۔
مرزا صاحب جس موضوع پر قلم اٹھاتے تھے اس کا حق ادا کردیتے
تھے۔ اور کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑتے تھے۔ موضوع سے متعلق مواد کے علاوہ اس عہد سے
متعلق تفصیلات بھی ان کے مضمون کا حصہ ہوتی ہیںبعض اوقات اس مواد کی موجودگی میں
موضوع اور اس دور کو سمجھنے میں سہولت ہوتی ہے۔
سخاوت مرزا کے مقالات اردو ادب میں گراں مایہ اضافہ ہیں
ان کی عبارت پختہ رواں، اسلوب د ل نشیں اور نقطۂ نظر معروضی ہے جو محقق کے لیے بے
حد ضروری ہے ان مقالوں سے اردو تحقیق اور خاص کر دکنی تحقیق کو ایک نئے سنگ میل کے
علاوہ ایک نئی سمت اور نئی جہت بھی ملی۔ ان علمی و تحقیقی کاموں، مضامین، مقالات
اور تبصروں کے سبب اردوادب میں سخاوت مرزا کا نام ہمیشہ روشن رہے گا۔
حکیم شمس اللہ قادری نے سید عبداللہ حسینی کو حضرت
خواجہ بندہ نواز کا نبیرہ قرار دیا ہے۔22؎
ڈاکٹر زور ’اردو شہ پارے‘ میں انھیں خواجہ بندہ نواز کا پوتا لکھتے ہیں23؎
محمد سخاوت مرزا کی تحقیق ہے کہ سید عبداللہ حسینی خواجہ بندہ نواز کے برادرِ نسبتی
مولانا ابوالمعالی کے بیٹے تھے، نبیرہ نہ تھے24؎
ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ مطلع کرتی ہیں کہ’ سیرِ محمدی‘میں حضرت گیسو دراز کا جو
شجرہ دیا گیا ہے،اس میں عبداللہ حسینی کا نام خواجہ صاحب کی نواسی کے شوہر کی حیثیت
سے بتایا ہے اور عبداللہ حسینی سید ابوالمعالی کے فرزند بتائے گئے ہیں۔ 25؎
محمد
سخاوت مرزا نے سب سے پہلے اثیمہ ارکاٹی پر قلم اٹھایاونیز حسن شوقی کی دو غزلیں
اور ایک صوفیانہ نظم دریافت کی۔26؎
مذکورالصدر دکنی ادبیات کی تحقیق و تنقید کے بنیاد
گذاروں کی تحقیقی بازیافتیں اتنی اہم تھیں کہ ان سے اثر قبول کر کے دیگر محقق اور
دانشور بھی دکنی اور دکنیات کی تحقیق کے میدان میں کود پڑے جن میں نمایاں نام پروفیسر
عبدالقادر سروری، سید محمد، پروفیسر عبدالمجید صدیقی، ا میر سعادت علی رضوی اورشیخ
چاند کے ہیں۔ حسن اتفاق سے ان سب محققین کا تعلق جامعہ عثمانیہ سے تھا۔
ڈاکٹر زور کے رفقا میںپروفیسر عبدالقادر سروری
(1906-1971) نے تحقیق و تنقید کے مختلف میدانوں میں وقیع کارنامے انجام دیے۔ وہ’
مجلہ مکتبہ ‘ جیسے علمی رسالے کے مدیر تھے۔ انھوں نے دکنیات کے علاوہ لسانیات اور
فکشن میں بھی گراں قدر کتابیں یادگار چھوڑیں۔ دکنیات کی تحقیق سے متعلق ان کی
فہرست مخطوطات کاذکر ہو چکا ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں ’اردو مثنوی کا ارتقا‘
(1358ھ م1940 ) اور’اردو کی ادبی تاریخ‘ (1958) اہم ہیں۔’علی گڑھ تاریخ ادب اردو‘
جلد اول (علی گڑھ1962) میں تیسرا باب ’اردو ادب بہمنی دور میں‘ پروفیسر عبدالقادر
سروری نے لکھا۔ انھوں نے دکنی کے بعض نایاب متون کی بھی تدوین و اشاعت کی جن میں
ابن نشاطی کی مثنوی ’پھول بن‘ (1357ھ)، سراج اورنگ آبادی کی ’کلیات سراج‘
(1357ھ)، صنعتی کی مثنوی ’قصۂ بے نظیر‘ (1357ھ)، شاہ محمدصدر الدین میسوری کے نثری
رسالے ’مراۃ الاسرار‘کی تدوین و اشاعت(1944)، لالہ مہتاب رائے سبقت میسوری کا کلام
’مہتابِ سخن‘ (1945)،سید شاہ سراج الدین سراج اورنگ آبادی کا کلام ’سراج سخن‘
(1355ھ م1936) اور مثنوی’بوستان خیال‘ (1969) وغیرہ اہم ہیں۔ 1952 میں حیدرآباد میں
’مجلس تحقیقات اردو‘ کے نام سے انھوں نے ایک علمی و تحقیقی ادارہ بھی قائم کیا
تھا۔
پروفیسرسید محمد (1906-1976) ڈاکٹر زور کے اہم رفیق تھے
جن کی کتاب ایک خاص تحقیقی اہمیت رکھتی ہے۔ دکنی ادب کی تحقیق و تدوین میں بھی
پروفیسر سید محمد نے اہم کارنامے انجام دیے۔ نصرتی کی مثنوی ’گلشن عشق‘ (1956)،
فائز کی مثنوی’رضوان شاہ و روح افزا‘(1956)،’دیوان عبداللہ قطب شاہ‘ (1959)،وجدی
کرنولی کی مثنوی’پنچھی باچھا‘ (1959) اورخواجہ خاںحمید اورنگ آبادی کاتذکرہ ’گلشن
گفتار‘کی تدوین و اشاعت (1339ف)کے علاوہ پروفیسر سید محمد مدیرسہ ماہی رسالہ’
الموسی‘ نے ’جشن ولی‘ کے موقع پر سمینار میں پیش کیے گئے مقالوں کو بہ عنوان ’یادگار
ولی‘ (خورداد1346ف م1935) بھی مرتب و شائع کیا۔
ڈاکٹر زور کے
ساتھیوں میں پروفیسر عبدالمجید صدیقی (1903-1979) کانام بھی نہایت نمایاں ہے۔ وہ
عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ و سیاسیات کے پروفیسر تھے۔ان کی تاریخی تصانیف میں
’تاریخ گولکنڈہ‘(1939)، ’مقدمۂ تاریخ دکن‘ (1940) اور’بہمنی سلطنت‘(1952) اہم ہیں۔
دکنیات کے شعبے میں انھوں نے ملا نصرتی کی مثنوی’علی نامہ‘کی تدوین و اشاعت(1959)
مع جامع مقدمہ کے ذریعے اپنی شناخت بنائی۔
میر سعادت علی رضوی(1907-08)نے دکنیات کی تحقیق و تدوین
سے متعلق اہم کام انجام دیے جن میں ملک الشعرا غواصی کی دو مثنویوں ’سیف الملوک و
بدیع الجمال‘ (1357ھ) اور ’طوطی نامہ‘ (1357ھ ) کی ترتیب و اشاعت کے علاوہ انھوں
نے ’کلام الملوک‘(1357ھ) اور’عادل شاہی مرثیے‘ ( طباعت1959 ) کو مرتب کر کے شائع کیں۔
شیخ چاند (1906-1936) بھی اس دور کے ایک اہم محقق تھے
جن کا تحقیقی مقالہ’سودا‘ اردو کا پہلا سندی مقالہ ہے جومولوی عبدالحق کی نگرانی میں
سائنٹفک انداز میں لکھا گیا۔جو انجمن ترقی اردو اورنگ آباد سے 1936 میں شائع ہوا۔
انھوںنے اس مقالے میں مرزا محمد رفیع سودا
کی حیات اور کلام کے بارے میں غلط فہمیوں اور غلط بیانیوں کی تردید کی اور
سودا کے کلام میں الحاقی عناصر کی نشاندہی کی۔
دکنی ادب سے متعلق انھوں نے طویل تحقیقی مقالات قلم بند
کیے جن میں’اورنگ آباداوراردو شاعری‘ (1337ف؍1927)
نہایت معرکتہ الآرا تحقیقی مضمون ہے۔ شیخ چاند کے دیگر مضامین و مقالات میں ’سید
عبدالولی عزلت‘(1930)، ’ساقی نامۂ درد مند‘(1934) اور ’ یورپ میں دکھنی مخطوطات،
پر ایک تنقیدی نظر‘ (1932) نہایت اہم ہیں۔ خطبات گارساںدتاسی کے فرانسیسی سے اردو
میں متعدد ترجمے ہوئے۔ اس پر مولوی عبدالحق نے مقدمہ نیزشیخ چاند نے حواشی لکھے(یہ
شاید عبدالحق کا پہلا مقدمہ ہے)۔ مقالات
کا اردو ترجمہ1943 میں شائع ہوا۔اس کے علاوہ شیخ چاند رسالہ’نورس‘ اورنگ آباد
اور’مجلہ عثمانیہ‘ حیدرآباد کے مدیر بھی رہے۔
بعد ازاں جامعہ عثمانیہ ایک طرح سے دکنی زبان و ادب کی
تحقیق کا مرکز بن گئی۔اس جامعہ سے وابستہ اساتذہ اور طلبا کی ایک پوری کہکشاں ہے
جس نے دکنی اور دکنیات کے میدان میں نئے سنگ میل قائم کیے۔
پروفیسرشیخ چاندابن حسین ناگوری (1907-1982) ہندوستان(
احمد نگر) سے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد انھوں نے تین اہم دکنی مخطوطات کی اپنے وقیع
مقدموں کے ساتھ ترتیب و تدوین کی جیسے گولکنڈے کے شاعر ابن نشاطی کی مثنوی ’پھول
بن‘ کو مولوی عبدالحق کی فرمائش پر انڈیا آفس کے نسخے کو اساس بنا کر مرتب و مدون
کرکے 1955 میں انجمن ترقی اردو کراچی سے شائع کیااور ابن نشاطی کے نام شیخ محمد
مظہر الدین ابن نشاطی سے اہل اردو کو واقف کیا۔ان کا معرکتہ االآرا کارنامہ دکنی
کی سب سے ضخیم مثنوی ’خاور نامہ ‘(مصنفہ۔ کمال خاں رستمی بیجاپوری)کوواحد قلمی
نسخے کی مدد سے مرتب و مدون کرکے ترقی اردو بورڈ،کراچی کے زیر اہتمام1968 میں زیور
طباعت سے آراستہ کرنااورایک دکنی شاعر محمد حیدر ابن جعفرکڑپوی کا ’تتمہ پھول بن‘
مرتب کرکے 1968 میںدو قسطوں میں سہ ماہی رسالہ ’اردو‘ کراچی سے شائع کرناہے۔ علاوہ
ازیں انھوں نے قیام ہند وستان کے دوران دو وضاحتی فہرستیں بھی مرتب و شائع کیں۔(1) 1944 میں ستارا میوزیم مہاراشٹرا میں مخزونہ
مخطوطات کی وضاحتی فہرست (اب یہ سرمایہ دکن کالج پونا کے عجائب گھر میں محفوظ ہے)،
(2) 1946 میں مملوکہ خان بہادر ظفر الحسن
دہلوی کے قلمی نسخوں کی وضاحتی فہرست۔
پروفیسر آغا حیدر حسن مرزا (1892-1976) نظام کالج حیدرآباد
میں اردو کے پروفیسر تھے انھوں نے دکنی ادب پر متعدد مضامین تحریر کیے جو نظام
کالج میگزین،نظام ادب، سب رس، آجکل، صبا اور شہاب وغیرہ میں شائع ہوئے۔مثنوی
’پھول بن‘،’ظفر نامہ عشق‘، ’نوسرہار‘،’علی نامہ نصرتی‘، ’سلطان عبداللہ قطب شاہ
والیِ گولکنڈہ کے گیت‘اور’قطب شاہی تہذیب و تمدن‘ ان کے اہم تحقیقی مضامین ہیں۔ ان
کے انتقال کے بعد ان کے مضامین کو ان کی صاحبزادی مہرالنسا معظم حسین نے مرتب کر
کے ’ندرت زبان‘کے نام سے1996 میں شائع کیا۔اس کے علاوہ ان کے قلمی آثار کوپروفیسر
مغنی تبسم نے ’دکنی لغت و تذکرہ ٔدکنی مخطوطات‘کے عنوان سے یکجا کرکے2002 میں منظر
عام پر لائے۔ جس میں آغا حیدر حسن کی تیار کردہ دکنی لغت اور اپنی لائبریری میں
موجود 38دکنی قلمی نسخوں کی توضیحی فہرست درج ہے۔پروفیسر آغا حیدر حسن مرزا دکنی
ادب کے شیدائی تھے۔ان کا اپنا ذاتی کتب خانہ تھا جس میں دکنی زبان اور شعر و ادب
سے متعلق بے شمارنادر و نایاب فرامین،مخطوطات اور مطبوعات محفوظ ہیں۔
بہ حیثیت مجموعی دکنی ادب کے ابتدائی محققوں میں حکیم
شمس اللہ قادری، مولوی عبدالجبار خاں صوفی ملکاپوری، مولوی عبدالحق،مولوی نصیر الدین
ہاشمی،ڈاکٹرسید محی الدین قادری زور ، محمد سخاوت مرزا، پروفیسرعبدالقادر سروری،پروفیسرسید
محمد، پروفیسر عبدالمجید صدیقی،میر سعادت علی رضوی،شیخ چاند اور پروفیسرشیخ چاند
ابن حسین کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ان محققوں کی اعلیٰ تحقیقی کاوشوں سے اردو زبان
و ادب کے وہ گوشے جو لا علمی کے دھندلکوں میں ملفوف تھے باصرہ نواز ہوئے اور
فراموش کردہ اور منتشر ادب پاروں کی بازیافت اور شیرازہ بندی عمل میں آئی۔ امتداد
زمانہ نے ادب کے جن بیش قیمت نگینوں پر نا قدری اور بے وقعتی کی خاک ڈال دی تھی ان
محققوں کی نظرِ تحقیق نے انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور جھاڑ پونچھ کر ان کی آب
وتاب اور ضیا بحال کی نیز ان کی قدر و قیمت کا تعین کر کے ان سے اردو ادب کے ایوانِ
تاریخ میں نئے ابواب تعمیر کیے ان لوگوں نے گنجینۂ ادب کے بکھرے ہوئے اور پریشان
و بے ترتیب گہر ہائے آبدار کو جو مخطوطوں،بیاضوں اور کشکولوں کی شکل میں کسمپرسی
کے عالم میں پڑے تھے چن چن کر اٹھایا آنکھوں سے لگایا اور زماں و مکاں کے رشتے میں
پرو کر اردو کے سفر کی راہ میں چراغوں کی طرح سجایاتاکہ ان کی روشنی سے اس زبان و
ادب کے آغاز و ارتقا کی مختلف کڑیوں کو جوڑنے میں مدد مل سکے۔
استاذالاساتذہ پروفیسر گیان چند جین نے اپنے مقالے
’اردو کی ادبی تحقیق آزادی سے پہلے‘ میں لکھا ہے:
’’زیادہ معیاری اور زیادہ قابل قدر کام ان
پختہ کار محققوں کے تھے جو ڈگری سے بلند و بالا تھے۔‘‘27؎
متذکرہ بالا دکنی محققین کے تحقیقی کارناموں کے ضمن میں
بھی یہی کہا جائے گا کہ انھوں نے سند یافتہ محققین سے زیادہ بہتر خدمات انجام دیے
ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دکنی ادب کے ان محققوں کی تحقیقات کو منظر عام پر لایا
جائے تاکہ دکنیات کے باب میںاس قدر تحقیق
کے باوجود آج بھی کبھی کبھی ایسے کتب و مقالات نظر سے گذرتے ہیں جن میں تسامحات و
فروگذاشتیں پائے جاتے ہیں وہ ختم ہوسکیں۔
قدیم اردو ادب میں لا تعداد تحقیقات منظر عام پر آئی ہیں
یہ دکنی تحقیق کے شہ پاروں کی حیثیت رکھتی ہیں اور جن محققین کا یہاں تذکرہ کیا گیا
ہے وہ دکنی تحقیق کے بنیاد گزار ہیں۔
حواشی
1 ڈاکٹر
سید محی الدین قادری زور،’ادبی تحریریں‘،ادارۂ ادبیات اردو،حیدرآباد،1963،ص 74
2 سیدعبدالولی
عزلت سورتی،’دیوان عزلت‘،مرتبہ عبدالرزاق
قریشی،بمبئی،1962
3 میر
قدرت اللہ قاسم،’مجموعہ نغز‘،مرتبہ محمود شیرانی،
جلداول،دہلی،1973، ص 383
4 میر
علی شیرقانع،’تحفۃ الکرام‘،جلد2، ص
33
5 میر تقی میر، تذکرہ’نکات
الشعرا‘،مرتبہ ڈاکٹر محمود الٰہی،دہلی،1972،ص 93
6 فتح
علی حسینی گردیزی،’تذکرہ ریختہ گویاں‘،ص
110
7 میر
تقی میر، تذکرہ’نکات الشعرا‘،مرتبہ ڈاکٹر
محمود الٰہی،دہلی،1972،ص 95
8 ایضاً،
ص: 106
9 ایضاً، ص: 107
10 محمد
قیام الدین قائم چاند پوری، تذکرہ’مخزن نکات‘،اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ،
1985،ص 74
11 پروفیسر
گیان چند،’ذکر و فکر‘،1980، ص 213
12 رسالہ’نگار‘
تذکروں کا تذکرہ نمبر،پاکستان،1964،ص 36
13 ماہنامہ
رسالہ’لسان العصر‘، لکھنؤ،اپریل،1910،جلد1، حصہ اول،ص 106-07
14 ڈاکٹر
نورالسعید اختر،’مولوی عبدالجبار خاں صوفی ملکاپوری‘، مضمون مشمولہ ’تذکرۂ مشاہیر
برار‘ مہاراشر، 1982، ص 73, 67
15 مولوی
عبدالجبار خاں صوفی ملکاپوری،’تذکرہ شعرائے دکن‘حصۂ اول،حیدرآباد،1911، ص 508
16 ڈاکٹر
جمیل جالبی،مثنوی ’کدم راؤ پدم راؤ‘، مقدمہ،دہلی ایڈیشن،1979،ص 44
17 ڈاکٹر
حسینی شاہد،’کلمۃ الحقائق۔اردو نثر کا پہلا مستند نقش‘،مضمون مشمولہ،’نوائے
ادب‘،بمبئی، جولائی 1970
18 پروفیسر
م ن سعید،’خواجہ بندہ نواز سے منسوب دکنی رسائل‘، 2013،ص 296
19 رسالہ
’اردو‘، جولائی، 1929، ص 553
20 حکیم
سید شمس اللہ قادری،’اردوئے قدیم‘، ص 41
21 ڈاکٹر
زور،’اردو شہ پارے‘، ص 20
22 حکیم
سید شمس اللہ قادری، ’اردوئے قدیم‘، ص 44
23 ڈاکٹر
زور،’ اردو شہ پارے‘، ص 20
24 محمد
سخاوت مرزا، بحوالہ ’تاریخ ادب اردو‘،
مرتبہ عبدالقیوم، کراچی،1961،
ص 537
25 ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ،’اردو نثر کا آغاز
اورارتقا‘،حیدرآباد،1962،ص 115
26 محمد
سخاوت مرزا،’حسن شوقی‘، مضمون مشمولہ، رسالہ ’اردو‘، کراچی، اپریل،1954، ص 14
27 پروفیسر
گیان چند،’ذکر و فکر‘، 1980، ص 237
Dr. Hakeem Rayees Fathima
Flat No: 201, Plot No.: 121, Alind
Employees Colony
Phase 3, Opp. Serilingampally, Mandal
Office
Hyderabad - 500019 (Telangana)
Mob.: 9948125832
Email.: vadighani@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں