اردو دنیا، نومبر2024
بر صغیر کی زبانوں کے خاندان کا مطالعہ کرنے سے پہلے ایک
نظر دنیا میں زبانوں کے خاندان کے بارے میں مختصر وضاحت ضروری ہے تاکہ آسانی سے
معلوم ہو کہ برصغیر کی زبانوں کے خاندان کس زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1822 میں جرمن
عالم ہمبولٹ نے دنیا میں زبانوں کو 13 خاندانوں میں تقسیم کیا ہے پھر ایک اور ماہر
لسانیات پار ٹی رج نے 10 خاندانوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس کے بعد ایک اور ماہر لسانیات
فریڈرک ملر اور کئی ماہر لسانیات نے دنیا میں زبانوں کو 100 خاندانوں میں تقسیم کیا
ہے۔ سپیر نے1929 عیسوی میں زبانوں کے چھ بڑے خاندانوں کا ذکر کیا ہے۔ بیسویں صدی
کے نصف اول میں فرینچ اکیڈمی نے دنیا میں زبانوں کی تعداد 2796 بتائی ہے ۔گرے نے دنیا میں زبانوں کو 26
خاندانوں میں تقسیم کیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر مختلف ماہر لسانیات کے مختلف نظریات
پیش کیے گئے ہیں۔ جن میں ہر ایک ماہر لسانیات کی اپنی اپنی زبانوں کے خاندانوں کے
متعلق رائے پیش کی گئی ہے۔ بعض نے تعداد کم اور بعض نے زیادہ بتائی ہیں۔ اسی سے
ملتا جلتا ایک نظریہ اور ہے۔جس کے مطابق دنیا میں زبانوں کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم
کیا گیا ہے۔ جس کے بڑے بڑے آٹھ خاندان ہیں جن خصوصیات کی بنا پر ان آٹھ بڑے
خاندانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے اس کو بھی واضح کرنا ضروری ہے۔ پہلی
قسم میں زبان کو لفظ اور گرامر کی خصوصیات کی بنا پر رکھا گیا ہے۔ اس گروہ میں
سابقوں اور لاحقوں کا استعمال نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ایک لفظ سے کئی الفاظ
بنائے جاتے ہیں۔ بلکہ ہر لفظ اپنی الگ حیثیت، شناخت اور وجود رکھتا ہے۔ ہر لفظ کا
ایک مخصوص مطلب ہوتا ہے اور لفظ کے معنی نہیں بدلتے جب کہــ
دوسری قسم میں زبانوں کو نسلی اور تاریخی تعلقات کی بنا پر رکھا گیا ہے یعنی اس
گروہ میں سابقوں اور لاحقوں کا استعمال نہیں کیا جاتا ان میں الفاظ اپنی شکل و
صورت کے ساتھ ساتھ مطلب اور مفہوم بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ایک ہی لفظ کے کئی معنی
نکالے جا سکتے ہیں۔
دنیا
کے آٹھ بڑے خاندانوںکے نام اور ان کی زبانوں کی تعداد لکھنے کے بعد ہم صرف ہند یوروپی
زبان کے خاندان کے بارے میں تفصیل سے بحث کریں گے۔
ہند یوروپی
خاندان: ہند یوروپی خاندان السنہ کے بارے
میں خلیل صدیقی اپنی رائے یوں پیش کر تے ہیں:
’’ زبانوں کے خاندان میں ہند یوروپی خاندان
کو ایک لسانی اہمیت حاصل ہے۔ پوری دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں اکثر اسی
خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس خاندان سے تعلق رکھنے والی زبانوں میں لسانی، ادبی،
علمی اور سائنسی سرمایہ دوسرے خاندان کی زبانوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ان زبانوں کے
بولنے والوں میں یورپ، ایران، افغانستان ،شمالی ہند، سری لنکا،نیپال، بھوٹان، شمالی
امریکہ، جنوبی امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اور جزائر عرب الہند میں پھیلے
ہوئے ہیں۔ اس کا تعلق مختلف نسل و مذہبوں اور فرقوں سے ہے۔‘‘
(خلیل احمد صدیقی، زبان کیا ہے، ص171)
اب دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہند یوروپی زبان کو کسی
دوسرے نام سے بھی پکارا جاتا ہے؟ اس کا جواب بھی خلیل احمد صدیقی پیش کرتے ہیں۔
’’ہند یوروپی خاندان کو سنسکرتی، یوروپی، سربیئن،
سامی اورحافی کے مقابلے میں ہند کلاسیکی کی ہند جرمانی اور آریائی بھی کہا جاتا
رہا۔ بہرحال عالمی سطح پر ہند یوروپی رائج ہے۔‘‘( خلیل احمد صدیقی ،زبان کیا ہے،
ص173)
’’
ہند یوروپی زبانوں کا خاندان اپنی اہمیت کے اعتبار سے لسانیات کے باب میں ایک تاریخی
اہمیت کا حامل ہے۔ ہند یوروپی کی تین شاخوں کا تعلق تین ادوار سے ہے۔ ان شاخوں میں
ہند ایرانی، یونانی اور اٹالک زبانیں شامل ہیں۔ قدیم ایرانی کی ذیلی شاخ ’ایرانی ــ‘کی
قدیم ترین دستاویز میںملتا ہے اور ہند آریائی کی سب سے پرانی زبان ’رگ وید
سمہتہ‘ہے۔ ماہرینِ لسانیات کے مطابق رگ وید کے منتر اور بھجن 1600 تا2000 قبل مسیح
کے درمیانی عرصے میں وضع کیے گئے۔ اسی بات کو ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی کی رائے کے
مطابق ان کی تخلیق 1200 قبل مسیح کے قریب ہوئی ہوگی۔ اس زمانے میں آرین فنِ تحریر
سے ناواقف تھے۔ اس لیے انھوں نے ان منتروں اور بھجنوں کو ازبر کر لیا ہوگا جو سینہ
بہ سینہ آگے چلتے گئے اور ایک طویل مدت کے بعد ضبط تحریر میں لائے گئے ہوں گے۔‘‘
(خلیل صدیقی، زبان کیا ہے، ص174)
گیان چند جین ہند یوروپی خاندان السنہ کے متعلق اپنی رائے کچھ یوں پیش کرتے
ہیں:
’’ سرویلیم جونز کی اس دریافت کی وجہ سے کہ
سنسکرت اوریوروپی کلاسیکی زبانیں ایک ہی کڑی سے تعلق رکھتی ہیں۔ جرمنوں نے اپنے
لسانی مطالعہ کو آگے بڑھایا جس سے تاریخی لسانیات قاعدے کا مقابلہ او رآوازوں کے
قوانین مرتب ہوئے۔ جرمنوں نے سوچا کہ زبانوں کا یہ خاندان ایک طرف تو یوروپ سے جڑا
ہوا ہے اور دوسری طرف انگریزی یا آئیس لینڈ جرمن زبانوں سے اسی لیے اس خاندان کا
نام ہند جرمن سوچا گیا تا کہ اس نام سے دونوں بڑے علاقوں کی نمائندگی ہو جائے۔
آئرلینڈ کی زبان آئرش کیٹلک خاندان ہونے کی وجہ سے اس کا نام ایڈوکیٹلک بھی رکھا
گیا۔ مگر پھر زبانوں کے اس خاندان کا نام ہند یوروپی رکھ دیا گیا۔ جرمن علما نے اس
بات کو اچھا نہیں سمجھا اور خیال کیا کہ ہند جرمن نام کو بدلنا دراصل جرمن بیزاری
کا نتیجہ ہے۔ چونکہ ہند یوروپی نام بھی فرانسیسیوں کا دیا ہوا ہے۔ جو کہ جرمنی سے
کئی بار جنگ کر چکے تھے اسی لیے جرمن اس خاندان کو ہند جرمن ہی کہتے ہیں اور باقی
اسے ہند یوروپی کے نام سے پکارتے ہیں۔‘‘(گیان چند جین عام لسانیات ص793 )
ہند یوروپی خاندان کی شاخیں
(1)
ہند آریائی /ہند ایرانی (2) ستم
(3) کینٹم
ہند
ایرانی/ ہند آریائی
1600 قبل مسیح آریوں نے جب یہاں قدم رکھا تو
ان میں سے کچھ ایران میں ٹھہر گئے اور کچھ ہندوستان کی طرف چلے آئے۔ان دونوں کی
زبانوں میں مماثلت ’اوستا‘اور’ سنسکرت‘ کی زبان کے تقابلی مطالعے نے ثابت کر دی
ہے۔ ’اوستا‘ اور ’سنسکرت‘ سے زبان کے دو دھاروں نے جنم لیا۔ گریر سن نے ہند آریائی
زبان کو تین شاخوں میں تقسیم کیا ہے۔
ہ
ہند آریائی:
ہند آریائی میں سنسکرت وسط ہند آریائی پراکرتیں،اپ بھرنش قواعد نویس
مارکنڈیہ کے بقول سنسکرت سے پراکرت نکلی اور پراکرت سے اپ بھرنش مذہبی پراکرتوں میں
پالی،اودھی، مگدھی، جین مہاراشٹری، جین شور شینی، عمومی سنسکرت، اوہٹ پراکرتیں سنسکرت سے جہاں بہت کچھ لیتی تھیں وہاں وہ بہت
کچھ دیتی بھی تھیں۔ہیور نلے اور گریرسن نے جدید آریائی زبانوں کو دو گروہوں
اندرونی اور بیرونی میں تقسیم کیا ہے۔
ہند آریائی زبانیں ہندیوروپی خاندان السنہ کی ہند ایرانی
شاخوں کی ایک شاخ ہے۔ یہ انڈک کے نام سے بھی معروف ہے۔ ایس آئی ایل انسٹیٹیوٹ 2005کی تحقیق کے مطابق ہند آریائی
زبانوں میں 209 زبانیں شامل ہیں۔ ہندوستانی (ہندی اور اردو) سب سے بڑی زبان ہے۔ جس
کے بولنے والے کروڑوں ہیں اس خاندان میں دوسرے نمبر پر بنگالی جس کے بولنے والے بھی
کروڑوں ہیں۔ پنجابی تیسرے نمبر پر اورمراٹھی چوتھے نمبرپر آتی ہے۔ اس خاندان میں
سنسکرت، ہندی، اردو، بنگالی، کشمیری، سندھی، پنجابی، شرائکی، رومانی، آسامی،
گجراتی، مراٹھی وغیرہ ۔
اسی طرح ایک اور نظریہ ہند یوروپی زبانوں کے متعلق ہے
کہ یہ لسانی گروہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ اس میں اکثر ایسی زبانیں داخل ہیں جو
اپنے ادبی اور علمی ذخیروں کے لحاظ سے دنیا کی سب سے اعلی زبانیں ہیں۔ ان زبانوں کی
اہم خصوصیات یہ ہیں کہ ان کے اجزائے الفاظ ایک دوسرے سے اس قدر گھل مل جاتے ہیں
اور ان میں اس قدر تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے کہ کچھ عرصے بعد ایک ہی لفظ مختلف شکلوں
اور کئی ایک معنوں میں استعمال ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔
یہ گروہ نہایت وسیع اور زیادہ اہم درجہ زمین پر پھیلا
ہوا ہے۔ ہندوستان، یوروپ، ایران وغیرہ کے باشندے بھی اس کی شاخوں کا استعمال کرتے
ہیں۔ ابتدائی زبان کو کئی مختلف شاخوں کے ساتھ تین ناموں سے یاد کیا جاتا ہے:
(1)ہند یوروپی (2)
ہند جومائی (3) ہندآریائی
پہلا
نام ان ملکوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں زیادہ تر یہی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔یہ ایک
حد تک صحیح نام ہے ۔دوسرا نام عام طور پر جرمنی میں استعمال ہوتا ہے اور یورے یورپی
خاندان کے لیے غیر تسلی بخش ہے ۔تاہم تیسرا نام مشہور ہو چکا ہے کہ شاید آنے والے
دور میں ہندآریائی کے نام سے ہی پکارا جانے لگے۔
1 ہند
ایرانی خاندان کی زبانیں متعدد ہیں تقریباً 600قبل مسیح اور قدیم ایرانی کتبوں کی
تحقیق کے مطابق 520 سے 350 قبل مسیح اس خاندان کی سب سے مشہور زبانیں ہیں۔ جو بحر
اسود سے لے کر وسط ایشیا تک بولی جاتی ہیں۔ ہند ایرانی خاندان میں پشتو اور بلوچی
بھی شامل ہیں۔ مغربی فارسی بھی اسی میں ہے۔اس میں شمال اوروسط کی بولیاں قدیم فارسی،
جدید فارسی اور کردی شامل ہیں۔ جدید فارسی اپنے علم و ادب کی وجہ سے مشہور ہے۔
اردو خاص کر اس سے بے حد متاثر ہے۔
2 پشاچہ : کا تعلق بھی ہندآریائی خاندان سے ہے۔
اس خاندان کی زبانیں ہندوستان کے انتہائی شمال مغربی مقامات پر بولی جاتی ہیں اس
کے تین گروہ ہیں ۔
3 ہند
آریائی: ہند آریائی خاندان سے ہماری
اردو زبان کا تعلق براہ راست ہے جس کا ذکر کرنا نہایت ضروری ہے۔
البتہ بعض محققین کی یہ بھی رائے ہے کہ فاتحین اور مفتوحین کے ملاپ سے نئی
زبانیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر لاطینی زبان جب فرانس میں پہنچی تو مدت
کے بعد فرانسیسی ہسپانیہ میں بلکہ خود اطالیہ میں اطالوی زبان بن گئی یہ مقامی
اثرات کا نتیجہ تھا تعجب نہیں اگر برصغیر میں یہی صورت ظہور پذیر ہو گئی ہو اور
اردو جیسی مخلوط زبان فقط لسانی اختلاط سے وجود میں آگئی ہو۔ درحقیقت زبان کی
نشوونما قدرتی عوامل کے تحت ہوتی ہے اور بڑے بڑے سماجی انقلاب صرف ان کی سمت متعین
کرتے ہیں۔
امیر خسرو جو کہ مختلف زبانوں کے فرق سے آگاہ تھے۔( امیر
خسرو نے اپنی مثنوی نہ سپہر میں بعض علاقوں کی الگ الگ زبانوں کا ذکر کیا ہے۔ جو یہ
ہے سندھی، لاہوری، کشمیری، بنگالی، گوڑی، گجراتی، تلنگی، معبری، دہور سمندری، اودھی
دہلوی) اس لیے انھوں نے (لاہوری جسے ابو الفضل نے ملتانی کا نام دیا ہے) اور دہلوی
(برج بھاشا کے نام ہندی کا ذکر کر کے اس بات کا ثبوت فراہم کر دیا کہ یہ زبان
مذکورہ بالا صوبائی علاقائی زبانوں کے مابین ایک بین الاقوامی زبان کا درجہ رکھتی
تھی۔ بشمول مندرجہ بالا السنہ کا ذکر کرتے ہوئے امیر خسرو اور ابو الفضل نے اس
زبان کو دہلوی کے نام سے یاد کیا ہے۔ ہندو اہل علم نے عام طور پر برج، قنوجی، بندیلی،
بولیوں وغیرہ سے امتیاز کے لیے جنھیں بڑی بولیاں کہتے تھے اسے کھڑی بولی کے نام سے
یاد کیا ہے۔جب دہلی کی شاہی فرودگاہ کو اردو ئے معلی کہا جانے لگا تو یہ زبان بھی
اردو کہلانے لگی مسلمانوں کے اثر سے اس زبان میں فارسی اور عربی الفاظ کثرت سے
داخل ہو گئے اور فارسی عربی قواعد کا بھی کچھ اثر پڑا۔ دہلی کی مرکزی حکومت سے
مسلمان برصغیر میںجہاںگئے یہی زبان ان کے ہمراہ رہی۔ بعض ماہرین لسانیات کی رائے
ہے کہ جس زبان کو ہم آج کل اردو کہتے ہیں وہ دہلی میرٹھ اور اس کے قریب کی بول
چال کی زبان کی نکھری ہوئی ترقی یافتہ شکل ہے۔
زبان
کا مولد وہی ہوتا ہے جہاں وہ بلا شرکت غیر بولی جائے پنجاب،اودھ، دکن، بہار،
گجرات، ممبئی، وسط ہند جہاں کہیں اردو کا سکہ چلتا ہے اردو کے پہلو بہ پہلو دوسری
زبانی بھی ہیں۔کہیں اردو تہذیبی زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ بول چال کی زبانیں اور ہیں،
کہیں اردو کے ساتھ دوسری زبانیں بھی بولی جاتی ہیں، کہیں شہر کی زبان اردو ہے اور
دیہات کے باشندے مقامی زبان بولتے تھے۔ لیکن یو پی کے مغربی اضلاع میں اردو کے سوا
کوئی دوسری زبان نہیں۔ صرف اردو ہے، جو شہروں اور دیہاتوں میں عام طور پر بولی جاتی
ہے۔ یو پی کے مغربی اضلاع میں ہندو مسلمان سبھی اردو زبان کا استعمال کرتے ہیں۔
ہندو علما مفکرین تارک الدنیا فلسفے پر اعتقاد رکھنے والوں کی حیثیت سے ہمیشہ عقبہ
پر نظریں جمائے رہتے تھے اور اس بے ثبات دنیا اور اس کے چند روزہ واقعات کو یہ نظر
حقارت سے دیکھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے تاریخ اور سوانح نگاری میں کوئی دلچسپی نہیں
لی۔ البتہ شاعری، ڈرامے، فلسفے کی طرف توجہ کی، مذہبی نوشتے، رزمیہ قصائد،
مہابھارت اور رامائن کو تاریخ میں ہرگز شمار نہیں کیا جا سکتا۔ برخلاف اس کے
مسلمانوں کو سوانح، علم الرجال اور تاریخ سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ چنانچہ جب وہ
برصغیر میں آ کر بس گئے تو انھوں نے یہاں بھی اس دلچسپی کا عام طور پر مظاہرہ کیا۔
عربوں نے عربی، ایرانیوں اورپٹھانوں نے زیادہ تر فارسی میں بہت سی کتابیں لکھیں۔
جن سے برصغیر کے جغرافیہ، تہذیب وتمدن، ثقافت، معاشرت، اہم شخصیات اور سیاسی تاریخ
کاعلم ہوتاہے۔ سلاطین دہلی کے زمانے کی تاریخوں میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ضیاء الدین کی فیروزشاہی، قاضی منہاج الدین بن
سراج کی طبقات ناصری، شمس سراج کی تاریخ فیروز شاہی، امیر خسرو کی خزائن فتوح، مغلیہ
خاندان کی تاریخوں میں بابر کی تزک بابری، جہانگیر کی تزک جہانگیری وغیرہ بہت
مشہور ہیں۔ لیکن ان تمام تاریخوں سے بھی زیادہ معتبر و مستند عام تاریخیں جن سے
اکثر مورخین استفادہ کرتے ہیں، ملا نظام الدین احمد کی طبقات اکبری جس میں سبکتگین
کے آغاز حکومت سے لے کر اکبر کے سال ِجلوس تک کے واقعا ت درج ہیں۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی ذکر الملوک یا تاریخ حقّی جس
میں سلطان شہاب الدین غوری سے اکبر کے جلوس تک کے واقعات درج ہیں۔ نظام الدین حسن
نیشا پوری کی تاج المأ ثر، ملا یحییٰ بن احمد کی تاریخ مبارک شاہی افغان سلاطین
کے زمانے کی تاریخوں میں خواجہ نعمت اللہ ہروی کی مخزن ِافغانی اور عبداللہ کی تاریخ
داودی، خاندان مغلیہ کی تاریخوں میں بابر کی تزک بابری،جوہر آفتابچی کا تذکرۃ
الواقعات، گل بدن بیگم کا ہمایوںنامہ، ابوالفضل علامہ کا اکبر نامہ اورآئین اکبر ی،
امیر حیدر حسینی کی سوانح اکبر ی، محمد شریف معتمد خان کا اقبال نامہ جہانگیری،
مرزا ابنائے قزوینی کا بادشاہ نامہ، محمد صالح کنبوہ کا عمل صالح، مرزا محمد
طاہرآشنا کا شاہجہاںنامہ، مرزا محمد کاظم کا عالمگیر نامہ، نعمت خاں کے وقایع
گولکنڈہ، عاقل خان رازی کے واقعات عالمگیری وغیرہ بہت مشہورہیں۔
کیونکہ ان سب کتابوں کا اردو زبان کی پیدائش سے گہرا
تعلق ہے۔ یہ کتاب مبادی طور پر 75 فیصد فارسی اور 25 فیصد عربی کی آمیزش سے فارسی
رسم الخط میں لکھی گئی ہیں۔ جدید اردو میں کافی حد تک عربی اور فارسی کی آمیزش
پائی جاتی ہے۔ ان کتابوں کی تاریخ پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک الگ عنوان کی ضرورت
ہے کہ کس طرح بر صغیر کے خطے میں کن کن مراحل سے گزرتی ہوئی اردو زبان وجود میں
آئی ۔
پروفیسر احتشام حسین بھی کم و بیش اسی نتیجے پر ہیں۔
’’ فارسی بولنے والے مسلمانوں نے پہلے پہل
پنجاب میں سنسکرت اختیار کی اور یقینا انہوں نے پنجابی بولی اختیار کی ہوگی جسے امیر
خسرو نے لاہوری اور ابوالفضل نے ملتانی کہا ہے اور جب وہ لوگ دہلی کی طرف بڑھے تو
انہیں پنجابی سے کسی قدر ملتی جلتی نئی بولیوں کا سابقہ پڑا یہاں اس بات کو اچھی
طرح سمجھ لینا چاہیے کہ 200 سال کی مدت زبان بننے کے لیے کافی نہیں ہوتی لیکن ایک
مولود زبان کے خدوخال ضرور ابھر سکتے ہیں۔چنانچہ ابتدائی اردو یا مخلوط زبان میں
پنجابی کی کافی آمیزش نظر آتی ہے، لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ خود پنجابی اور بالخصوص
مشرقی پنجابی اپ بھرنش سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘ (ہندوستانی لسانیات کاخاکہ احتشام حسین،
لکھنؤ، 1928)
محققین لسانیات کی ان تمام آرا کا جائزہ لینے کے بعد یہ
واضح ہو جاتا ہے کہ قدیم اردو (ہندوی )کا آغاز جدید آریائی زبانوں کے طلوع کے
ساتھ ایک ہزار عیسوی کے لگ بھگ اس زمانے میں ہو گیا تھا۔ جب مسلمان فاتحین شمال
مغربی ہند میں آباد ہوئے اور یہاںاسلامی اثرات بڑی تیزی سے پھیلنے لگے۔
اس کے بعد مسئلہ اردو زبان کے آغاز کا نہیں رہتا بلکہ اس کے نشوونما و ارتقا کے
مختلف مرحلوں کاآجاتا ہے، جس سے گزر کر اردو زبان نے ترقی کرکے موجودہ صورت اختیارکرلی
ہے۔
Shamim Ahmad
2964, 4th
Floor
Kucha Neel Kanth, Darya Gamnj
New Delhi- 110002
Mob.: 9868596773
shamimah1975@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں