24/1/25

آنکھ، ماخذ: ہمارے جسم کا معجزاتی نظام، مصنف: قیصر سرمست

 اردو دنیا، دسمبر 2024

آنکھ آپ کے جسم کا صرف ایک حصہ ہی نہیں جو آپ کی خوبصورتی کا مظہر، آپ کی ذہانت کا آئینہ دار آپ کی ہوشیاری کا نقیب اور آپ کی بصارت کا ذریعہ ہے بلکہ بہت کچھ ہے۔ ان دو معمولی سے ڈھیلوں Eye  Balls میں قدرت کی بڑی کاریگری پوشیدہ ہے۔ آپ اگر توجہ دیں تو آپ کے لیے معلومات اور بھلائی کے خزانے ہیں ورنہ بینائی کھو دینے کے مواقع بہتیرے ہیں۔ تو آئیے ان دو آب گینوں کے اندر جھانک کر دیکھیں۔

جب روشنی آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو عضلات کے سر ے Nerve Endingsپراثرانداز ہوتی ہے جو آنکھ کے ڈھیلے Eye Ball کے پچھلے حصے پر واقع ہوتے ہیں جسے Retinaکہتے ہیں— یہاں سے روشنی کی شعاعیں عضلاتی خلیوں کے ذریعے دماغ کے مخصوص حصے میں پہنچتی ہیں جسے مرکز بصارت Optical Center کہتے ہیں۔ یہیں سے دماغ دیکھنے کے  عمل کا  آغاز کرتا ہے ۔ اگر کسی شخص کا مرکز بصارت کسی وجہ سے مجروح ہوجائے تو (حالانکہ اس کی بینائی ہر طرح سے اچھی ہے) مکمل طور پر بینائی سے محروم ہوسکتا ہے۔

ہماری آنکھ کا ڈھیلا Eyeball بہت زیادہ پیچیدہ بناوٹ کا حامل ہوتا ہے۔ آنکھ کے ڈھیلے پر شفاف اور مہین سی جھلی قرنیہ Cornea چڑھی رہتی ہے۔

روشنی کی شعاعیں اسی قرنیہ کے ذریعے پانی جیسے محلول (Aqueous Humour Aqueous) بہ معنی پانی جیسا اور Humour) بہ مائع) میں سے گزرتی ہیں یہی آنکھ کا رنگین حصہ Iris کہلاتا ہے۔ آنکھ کی پتلی (پردہ غیبیہ Iris عموماً نیلی،بھوری اور ہری مائل ہوتی ہے) اس کی غرض و غایت روشنی کی مقدار کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے جو آنکھ میں داخل ہوتی ہے۔ اس کے بیچ میں ایک بہت ہی چھوٹا سوراخ ہوتا ہے اور یہی روشنی کو کنٹرول کرتا ہے۔کھلنے والا حصہ Pupil کہلاتا ہے۔ جب ہمارا سامنا تیز اور چکاچوند کردینے والی روشنی سے ہوتا ہے تو پیوپل چھوٹی ہوجاتی ہے تاکہ کم روشنی داخل ہو۔ ہوتا یہ ہے کہ آئرس Iris پیوپل کے گرد قریب ہوجاتی ہے اور جب مدھم روشنی داخل ہوتی ہے تو آئرس سمٹ کر پیچھے چلی جاتی اور پیوپل پھیل جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ روشنی آنکھ میں داخل ہوسکے۔ پیوپل کے پیچھے آنکھ کا عدسہ Crystal Line Lens ہوتا ہے۔ تمام روشنی جو آنکھ میں داخل ہوتی ہے وہ عدسہ کے ذریعے سے ہوتی ہے۔

بعض لوگ انسانی آنکھ کو عکس گیر یعنی کیمرہ Camera سے تشبیہ دیتے ہیں۔ دونوں میں روشنی ایک ایسے کھلے حصے سے داخل ہوتی ہے جو بہت چھوٹا ہوتا ہے اور روشنی کی شعاعیں عدسوں سے گزر کر مڑ جاتی ہیں اور تصویر اس حصے پر مرتسم ہوجاتی ہے جو کیمیائی طور پر روشنی کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ یہ حساس حصہ عکس گیر کی فلم ہے اور آنکھ کا پردہ Retina ہے۔ آنکھ بہ نسبت کیمرے کے بہت زیادہ عظیم تر ہے کیونکہ آنکھ غیرمحدود تصاویر، ذخائر کی صورت میں ذہن میں محفوظ کرلیتی ہے اور آئندہ جب کبھی ضرورت پڑے ذہن کے پردے پر آویزاں کردیتی ہے۔

آنکھ ایک کرہ ہے جو ملائم انسجہ Fabby Tissue کی ملائم گدیوں اور کھوپڑی کی ہڈیوں سے بنے چشم خانے میں رہتا ہے۔ آنکھ کا ڈھیلا اپنی شکل اس طبقے کی وجہ سے برقرار رکھتا ہے جسے صلبیہ Sclera کہتے ہیں۔ آنکھ کا دوسرا طبقہ جو بہت سی عروق دمویہ (خون کی نالیوں) پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے مشیمیہ کہتے ہیں۔

آنکھ ہمارے جسم کے مابقی اعضا کی طرح زندہ عضو ہے اور اسے بھی غذا اور آکسیجن، خون کے ذریعے پہنتے رہنا چاہیے۔

آنکھ کا انتہائی اندرونی طبقہ Layer شبکیہ Retina بہت سے انتہائی نازک عضلاتی خلیوں Nervecell سے بنا ہے۔ یہ کوئی تصویر حاصل کرکے دماغ کے مرکز بصارت Sightcentre تک عصب بصری Optical Nerve کے ذریعے پہنچاتا ہے۔

آنکھ کے ڈھیلے کا بیرونی طبقہ صلبیہ Sclera آگے آنے کے بعد شفاف قرنیہ Cornea ہوجاتا ہے۔ آنکھ کو زخمی ہونے سے بچاتا ہے۔ قرنیہ Cornea کے پیچھے کا خانہ ایک قسم کے مائع Aqueous Humour سے بھرا رہتا ہے۔

عدسہ آنکھ کا وہ حصہ ہے جہاں سے روشنی کی شعائیں مڑجاتی ہیں تاکہ شبکیہ Retina کے نقطۂ ماسکہ پر مرکوز ہوسکیں۔

Folus عدسے میں خود اتنی قوت و صلاحیت ہوتی ہے کہ شکل و صورت بدل سکے۔ یہ موٹے اور تقریباً گول ہوجاتے ہیں۔ جب ہم نزدیک کا معروض Objects دیکھتے ہیں اور جب دور کی چیز دیکھتے ہیں تو عدسہ پتلا اور لانبا ہوجاتا ہے۔ یہ موقتی تبدیلی ان اعصاب و عضلات Muscles کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے جو آنکھ کے ڈھیلے کے اندرونی حصے سے منسلک ہوتے ہیں۔

عدسہ (لینس) کے پیچھے گاڑھا اور جیلی جیسا مائع رطوبت زجاجیہ Vitreous Humour ہوتی ہے اور یہ مائع تقریباً آنکھ کے تمام ڈھیلے میں بھرا رہتا ہے۔ یہ گاڑھا ہونے کے باوجود شفاف ہوتا ہے اور روشنی کو لیس سے آنکھ کے پردے Retina تک گزرنے دیتا ہے۔ آنکھ کا پردہ کروڑہا عضلاتی خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ اپنی شکل و صورت کی وجہ عصا اور مخروط Rod And Cone کہلاتا ہے۔ یہی عضلاتی خلیے بصارت کا پیام دماغ تک پہنچاتے ہیں۔

بعض لوگوں کی بصارت میں خرابی کا تعلق Rod سے ہوتا ہے۔ ایسے بدنصیب افراد سرخ اور سبز Red and Green رنگوں میں فرق نہیں کرسکتے۔ اسی قبیل کے لوگوں کو رنگندھے Colour Blind کہتے ہیں۔ کبھی آپ نے ٹرافک کے سگنلوں Traffic Signals پر غور کیا؟ سرخ روشنی ہمیشہ اوپر کیوں رہتی ہے؟ یہ رنگندھے لوگوں کو سمجھنے کے لیے ہے۔ چونکہ وہ سرخ اور سبز میں فرق محسوس نہیں کرسکتے ا س لیے اوپر کی جلتی ہوئی روشنی کو دیکھ کر وہ سمجھ جاتے ہیں کہ رکنے کا اشارہ کیا جارہا ہے— یہ ٹرافک کی عالمی زبان ہے کیونکہ آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں گے تو یہی اصول پائیں گے۔

آنکھوں کی بعض خرابیاں: آنکھوں کی اکثر خرابیاں ایسی ہیں جن کے دور کرنے کے لیے عینکوں کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے۔ ایک تو نزدیک کی بصارت کی کمزوری یا خرابی ہے۔ عموماً یہ حالت اس وقت ہوتی ہے جب آنکھ کا ڈھیلا Eyeball بہت زیادہ لانبا ہوجاتا ہے۔ آنکھ کے ڈھیلے کے لانبا ہونے سے یہ ہوتا ہے کہ جب روشنی کی شعاعیں لینس میں داخل ہوتی ہیں تو وہ ٹھیک طریقے پر شبکیہ Ratina پر فوکس نہیں کرسکتا جیسا کہ ہونا چاہیے— یہ خرابی یا تو پیدائشی ہوتی ہے یا پھر خراب طبع کی ہوئی کتابوں یا ناکافی روشنی میں پڑھنے سے ہوتی ہے۔

جس آدمی کی نزدیک کی بصارت کمزور ہو اس میں عموماً ہوتا یہ ہے کہ Retina تک روشنی کی شعاعیں پھیل کر پہنچتی ہیں۔ عینک ان پھیلی ہوئی شعاعوں کو پھیلنے نہیں دیتی اور Retina پر ایک مرکز بناتی ہوئی پہنچتی ہیں جس سے تصویر واضح اور صاف طور پر نظر آتی ہے۔

ایسی بصری کمزوری اکثر ہمیشہ قائم رہنے والی ہوتی ہے لیکن ایسے بچے جن کی آنکھیں کمزور ہوں صحیح نمبر کی عینک استعمال کرکے اس کمزوری سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں اور ایک عام خرابی دور کی نظر Farsightedness کی خرابی ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ جب روشنی کی شعاعیں Focusکے پیچھے Retina کرتی ہیں تو آنکھ کا ڈھیلا بہت زیادہ چھوٹا ہوجاتا ہے۔ اس کاعلاج بھی ایسی عینک لگانا ہے جو روشنی کی شعاعوں کو ایک دوسرے کے قریب کرکے Retinaپر صحیح اور ٹھیک ٹھیک Focus کرسکے زیادہ عمر کے لوگوں میں یہ خرابی بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔

جب Cornea یا آنکھ کے ڈھیلے کی اگلی تہہ ناہموار، غیرمسطح اور مڑی ہوئی ہوتی ہے تو ایسے لوگ نظر کی لامرکزیت (Astigmatism) میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ غیرہموار مڑا ہوا پن روشنی کی شعاعوں کو Retina تک ایک نقطے پر پہنچانے سے رکتا ہے۔ اس لیے معروض Object دھندلا نظر آتا ہے۔ ٹھیک عدسے اس لامرکزیت Astigmatism کو ٹھیک کرتے ہیں۔ چنانچہ ایسے لوگ اچھی طرح سے دیکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ہم کو اپنے اطراف چوتھی خامی جو نظر آتی ہے وہ ترچھا پن Crosseyenessہے۔ ایسے اشخاص کی آنکھوں کے اندرونی عضلات جو آنکھ کی حرکت کو قابو میں رکھتے ہیں اپنا کام مناسب طریقے پر نہیں کرسکتے۔ ہوتا یہ ہے کہ ایسے لوگو ںکی دونوں آنکھیں ایک ہی وقت میں ایک معروض Object پر فوکس کرتی ہیں۔ چنانچہ ایسے خامی والے لوگوں کی آنکھیں اندر کی طرف مڑجاتی ہیں یا باہر کی جانب

مناسب عدسے Lenses اور مناسب ورزش جو ڈاکٹر بتائے ترچھے پن کو دور کرسکتے ہیں اور بعض حالتوں میں خاص قسم کا آپریشن بھی ترچھے پن کو دور کردیتا ہے۔ خصوصاً چھوٹے بچوں میں۔

ہلکے رنگ اور آپ کی بصارت

مختلف رنگوں کی وجہ سے روشنی کی شعاعوں کی تعداد میں زبردست فرق آجاتاہے۔ گہرے رنگ، میلی اور گندی دیواریں اور چھتیں روشنی کی شعاعو ںکے لیے کمزور منعکس ہوتے ہیں۔ ہر اس کمرے کی چھتیں اور دیواریں سفید یا قریب قریب سفید ہونی چاہیے جہاں پڑھنے، لکھنے کا کام کیا جاتا ہے۔ یہ بظاہر معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن بصار ت کے لیے بہت ضروری اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

ہلکے رنگ جیسے سفید، ہلکے زرد Cream،گلابی Pnk، روشنی کی شعاعوں کے لیے اچھے منعکس ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ہلکے سبز اور ہلکے نیلے ہوتے ہیں۔ گہرا بھورا Dark Brown رنگ روشنی کی شعاعوں کا دسواں حصہ منعکس کرتے ہیں۔ اس لیے اچھی بصارت کے لیے ہلکے رنگ بے حد ضروری ہیں۔

زرد yellow اور نیلا Blue رنگندھا ایسا ہے جو صرف سرخ Red Shades اور سبز رنگ ہی دیکھ سکتا ہے۔ لیکن رنگدھوں کی اکثریت سرخ اور سبز دیکھنے سے محروم ہوتی ہے۔ ایسے رنگدھے لوگ ان دونوں رنگوں میں تمیز نہیں کرسکتے اور یہ دونوں ہی رنگ انھیں بھورے معلوم ہوتے ہیں۔ سو میں اگر آٹھ مرد رنگدھے پائے جائیں تو ان میں صرف آدھا فیصد عورتیں ہوتی ہیں۔

ہم اپنے اطراف کی چیزوں سے اپنی حسیات Sense سے اتنی معلومات حاصل نہیں کرسکتے جتنا کہ دیکھنے سے۔

کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لیے ہمیشہ کسی بھی طرح کی روشنی کا ہونا ضروری ہے۔ جب تک کہ معروض Object سے روشنی کی شعاعیں ٹکرا کر ہماری آنکھوں تک نہ پہنچیں ہم اسے دیکھنے سے قاصر ہیں۔

آپ تو جانتے ہیں کہ روشنی کی شعاعیں ہوا کے واسطہ میں سے خط مستقیم میں چلتی ہیں اور جب کسی کثیف واسطہ سے گزرتی ہیں تو وہ اپنا رخ تھوڑا سا موڑ لیتی ہیں۔ یا ان کے راستے میں فرق آجاتا ہے۔ اس وقت ہماری آنکھ روشنی کی منعطف شعاعوں سے معروض Object سے وصول کرکے نقطہ ماسکہ Focus پر مرکوز کرکے Retina تک پہنچاتی ہیں۔

ہم  آہنگی یعنی Accomodation نزدیک اور دور کی نظر کو ہم آہنگی بنانے کو Accommodation کہتے ہیں اور یہ اس طریقے کو کنٹرول کرتی ہے بلورین عدسہ Crystallinelens کی حرکت۔ آنکھ کا عدسہ ایک خمیدہ عدسے کے مشابہ ہوتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ آنکھ کا عدسہ، کانچ کے عدسے کی طرح یکساں اور ہموار بناوٹ نہیں رکھتا بلکہ خلیوں کی دو ہزار تہوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ چنانچہ روشنی کی شاعیں جب ان طبقات میں سے گزرتی ہیں تو ہر طبقے میں نامعلوم طور پر منعطف ہوتی ہیں۔ ایک اور قابل لحاظ فرق کانچ کے عدسے اور ہماری آنکھ کے عدسے میں پایا جاتا ہے۔ یہ انتہائی لچکیلا ہوتا ہے اور وہ سخت۔ ہماری آنکھ کا عدسہ ایک طرح سے کیمرے کے لینس سے اس حد تک ملتا جلتا ہے کہ جب تک فوکس نہ ہو اسے آگے پیچھے کیا جاتاہے اسی طرح ہماری آنکھ کا عدسہ بھی اپنی وضع بدلتا رہتا ہے۔

 

ماخذ: ہمارے جسم کا معجزاتی نظام، مصنف: قیصر سرمست، پہلا ایڈیشن: 1999، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

بھیل عورتیں، ماخذ: ہندوستان کی قبائلی عورتیں:، مصنف: شیام سنگھ ششی، مترجم: محبوب الرحمن فاروقی

 اردو دنیا، دسمبر 2024

 
بھیل راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ ہندوستان کے مغربی حصے میں بھیل دوسرا سب سے بڑا درج فہرست قبیلہ ہے۔ ان میں زیادہ تر مغربی راجستھان کے اودے پور، بانسواڑہ، درگاپور، بھیلواڑہ اور چتوڑ گڑھ کے ضلعوں میں رہتے ہیں۔ راجستھان کے ہر پانچ درج فہرست ذات کے ارکان میں سے دو بھیل ہیں۔

ہندوستانی قبائلیوں میں بھیل اعلیٰ نشانے باز مانے جاتے ہیں۔ مہابھار ت کے زمانے میں دروناچاریہ کا شاگرد ایکلپیہ بھیل تھا وہ اپنے وقت کا مثالی نشانے باز تھا۔ رام کو بیر نذر کرنے والی شبری بھی بھیل مانی جاتی ہے۔

’بھیل‘ دروڑ لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب ’دھنش‘ ہے اور یہ اس قبیلے کا خاص ہتھیار ہے۔ قدیم سنسکرت ادب میں اس لفظ کا استعمال دوسرے جنگلی قبیلوں جیسے نشاد، شبر کے لیے بھی کیا گیا ہے۔ نشاد کا مطلب ہے۔ برہمن باپ سے شودرماں کی اولاد، حقیقت میں بھیل نام ان قبائلیو ںکو دیا گیا جو تیر کمان کا استعمال کرتے ہیں۔

بھیل اپنی ابتدا ایک راجپوت قبیلے سے مانتے ہیں جن کی شاخیں درج ذیل ہیں:

          ہیرات   تیجات

          نوات    کھیتات

          رتنات   امرات

          بھیتات  جگات

          رنگات   نکیات

ناڈ نے بھیلوں کا تذکرہ کالے اور بھدے، سب سے لمبے، پورا جسم ڈھک لینے والی لمبی داڑھیوں اور بالوں والے لوگوں کی شکل کا کیا ہے، بھیلوں کے لیے بھلا اور بھیڑاناموں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

بھیل گاؤں کو پال کہا جاتا ہے، جس میں مختلف ’پھل‘ ہوتے ہیں۔ پھل میں ایک ہی باپ کے خاندان کے مختلف افراد رہتے ہیں۔ لیکن پال، لفظ کا استعمال تبھی کیا جاتا ہے۔ جب وہاں 2000 سے زیادہ آبادی ہو ورنہ وہ گاؤں ہی کہلاتا ہے۔

ڈاکٹر ایل ایل دوشی کا قول ہے کہ خاندان کی عورتوں پر مردوں کی فوقیت ایک مسلمہ خاندانی روایت ہے۔ خاندان کی عورتوں سے ان کی حیثیت کے مطابق سلوک کی امید کی جاتی ہے۔ مرد اکثر و بیشتر فحش گالیوں کے استعمال سے اپنی فوقیت جتاتے ہیں، لیکن عورتوں کی طرف اس طرح کی زبان کے استعمال کی امید نہیں کی جاتی۔ اس کے برعکس ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ خاموش رہیں۔ یہ ان کے کمزور ہونے کی علامت ہے۔ اگر بیوی شوہر کا حکم نہیں مانتی تو اس کو مارا جاتا ہے جس کے شور و شغب سے پورا گاؤں یہ جان لیتا ہے کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔

لیکن گھنٹالی کے بھیلوں کا سلوک اس سے مختلف ہوتا ہے۔ وہاں عورتیں مردوں کے لیے اتنے لحاظ کا جذبہ نہیں رکھتیں اور نہ ہی مردانہ فوقیت کا خیال کرتی ہیں۔ اگر شوہر بیوی سے گالی گلوج یا فحش کلامی کرتا ہے تو بیوی بھی شوہر کے لیے ویسے ہی الفاظ کا استعمال کرتی ہے۔ بیویوں کے ذریعے شوہروں کو مارنے پیٹنے کے واقعات بھی بعید نہیں ہیں۔ یہاں عورتیں جنسی اخلاقیات کی بندشوں کا بھی اتنا لحاظ نہیں کرتیں۔ جتنا کہ میدانی علاقوں کی عورتیں کرتی ہیں۔ اگر شوہر جنسی طور پر مطمئن نہیں کرسکتا تو بیوی اسے گالیاں دیتی ہوئی علی الاعلان نامرد کہہ کر اسے ہمیشہ کے چلے چھوڑ سکتی ہے۔ دوسری طرف جیسا کہ اشارہ کیا جاچکاہے کاؤریا اور منبلا میں عورتوں کا خاندان کے مردوں کی مرضی کو مقدم ماننا بہتر سمجھا جاتا ہے۔

بھیل پدری خاندان ماننے والی، ایک ہی نسل اور ایک شادی کرنے والی برادری ہے۔ شادی کے بعد دلہن اپنے شوہر کے گھرآجاتی ہے صرف ’گھر داماد‘ اس سے مستثنیٰ ہے۔ جو شادی کے بعد اپنی بیوی کے ماں باپ کے گھر رہتا ہے۔ ایسی حالت میں خسر کی جائداد کا وہ وارث ہوتا ہے۔ بھیلوں میں شادی ایک سماجی بندھن مانا جاتا ہے۔

بھیل عورتیں گھر پر بھی کام کرتی ہیں اور شوہر کے ساتھ کھیت میں بھی، وہ جنگلوں سے ایندھن جمع کرتی ہیں اور جانوروں کو چراتی ہیں۔ وہ مردوں سے زیادہ محنتی ہوتی ہیں۔ جناب این این ویاس کا قول ہے کہ بھیل عورت کسی بھی قبیلے یا برادری کی عورت کی طرح زندگی کے تین اہم مراحل سے گزرتی ہے۔ کنواراپن۔ ازدواج اور ماں کی حیثیت۔ شادی سے قبل وہ اپنے باپ کے گھر رہتی ہے، جہاں بھیل تہذیب کے مطابق اسے سماجی اخلاق و اطوا رکی تعلیم دی جاتی ہے۔ بچپن سے ہی لڑکی گھریلو کاموں میں اپنی ماں کی مدد کرتی ہے۔ سات آٹھ برس کی عمر میں وہ ماں کی غیرموجودگی میں چھوٹے بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ بارہ تیرہ سال کی ہوتے ہوتے وہ اپنے گھر کا ہر کام کرنے کے لائق ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر دوشی کے مطابق بہو کے خاندان میں ضم ہوجانے (گھل مل جانے) کے سلسلے میں کچھ دقتیں پیدا ہوتی ہیں کیونکہ خاندان سے باہر شادی کے رواج نیز گاؤں کے دو تین خاندانوں میں منقسم ہونے کی وجہ سے بہو ہمیشہ دوسرے گاؤں کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے شوہر کے خاندان میں اسے ایک الگ سماجی انداز و عمل ملتا ہے مگر اعلیٰ ذات کے ہندو، جو مشترکہ خاندانوں کے رکن ہوتے ہیں، کے مقابلے میں ان کے سامنے کم دقتیں پیش آتی ہیں کیونکہ اپنے سسر کے گھر میں صرف چند سال ہی رہتی ہیں اور جیسے ہی ان کا خاوند اپنے کھیتوں کے تعلق سے آزاد ہوجاتا ہے۔ وہ شوہر کے بنائے ہوئے نئے گھر میں چلی جاتی ہیں۔ سسر کے گھر میں بسر کیے گئے وقت کو وہ نئے تعلقات استوار کرنے میں صرف کرتی ہیں۔

کنواری لڑکی کو پاک مانا جاتا ہے کیونکہ وہ پیدائش ی علامت ہوتی ہیں اور اسی علامت کی وجہ سے اسے مختلف طاقتوں کا سرچشمہ مانا  جاتا ہے۔ کٹائی کے وقت اسے اناج کا پہلا دانہ دیا جاتا ہے کیونکہ یہ عقیدہ ہے کہ اس سے فصل اچھی ہوتی ہے۔ شادی کے موقعے پر وہ دولہا کو خوش آمدید کہتی ہے۔ اس موقعے پر وہ سرپر مٹی کا گھڑا رکھتی ہے۔ وہی شادی کی رسم کے موقعے پر نوشادی شدہ جوڑے کے کپڑوں میں گرہ بھی لگاتی ہیں اور اسے کھولتی بھی ہیں۔ اگر کوئی مرد کسی کام سے باہر جارہا ہو اور غیرشادی شدہ لڑکی اس کا راستہ کاٹ دے تو یہ اچھا شگن سمجھا جاتا ہے۔

بیوی کا مقام اس پر منحصر ہے کہ شادی کس طرح ہوئی ہے۔ ان گاؤں میں جہاں بہت سی بیویوں کا رواج ہے۔ بیوی کو اعلیٰ مقام حاصل نہیں ہوتا۔ جس خاندان میں دو یا تین بیویاں ہوتی ہیں ان خاندانوں میں شوہر کی طرف سے دی گئی اہمیت پر اس کا انحصار ہے۔ پھر بھی بڑی بیوی کی حیثیت بہتر ہوتی ہے اور جشن و تیوہار کے معاملوں میں اور سماجی تعلقات کے سلسلے میں ا س کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے ورنہ شوہر اور سوتن میں جھگڑوں کے امکانات ہیں۔ سوکنوں کے آپسی تعلقات زیادہ تر جذباتی ہوتے ہیں کیونکہ جس بیوی کو شوہر کی محبت زیادہ ملتی ہے وہ خاندانی معاملوں میں اپنا حق زیادہ جتاتی ہے۔

بھیلوں کی عورتیں بیوہ نہیں رہتیں کیونکہ سوگ کی مدت ختم ہوتے ہی وہ دوسری شادی کرلیتی ہیں۔ صرف بوڑھی عورتیں ہی جو دوبارہ شادی نہیں کرتیں بیوہ رہتی ہیں۔ اس صورت میں بھی اسے خاندان کے دوسرے ارکان عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

بھیلوں کی عورتوں کا روایتی لباس ٹخنوں تک لمبا گھاگھرا، چوٹی اور زیور ہوتا ہے۔ آج کل بھیل عورتیں ساڑی بھی پہنتی ہی۔ ایک شادی اور بہت سی شادی دونوں کا رواج ملتا ہے۔ مگر نمائش یا صرف دکھاوے کے لیے شادی کا رواج نہیں ہے۔

بھیل عورتیں ہندو دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتی ہیں۔ جیسے گنیش، ہنومان، کالی، چنڈی، وہ دیوالی، ہولی، دسہرا وغیرہ تیوہارو ںکو مانتی ہیں۔

راجستھان کی بھیل عورتیں کھیتوں میں مزدوروں کی حیثیت میں بھی کام کرتی ہیں۔ درحقیقت وہ سخت محنت اور لگن کی ایک علامت ہیں۔

 

ماخذ: ہندوستان کی قبائلی عورتیں:، مصنف: شیام سنگھ ششی، مترجم: محبوب الرحمن فاروقی، سنہ اشاعت: 1998، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

23/1/25

نئی نسل اپنی تخلیق کو تخلیقیت کے دم پر زندہ رکھنا چاہتی ہے: ڈاکٹر معصوم شرقی،(خصوصی گفتگو)ظہیر فیصل

 اردو دنیا، دسمبر 2024


ظہیر فیصل :  اپنی پیدائش اور خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالیں۔

معصوم شرقی :  شہر نشاط کلکتہ سے 35 کیلو میٹر دور باری پاڑہ(کانکی نارہ) کے ایک متوسط گھرانے میں 4 ؍ نومبر1948 میں آنکھیں کھولیں۔ نام عبدالغفار انصاری رکھا گیا۔ میرے والد محمد شفقت علی انصاری تقسیم سے قبل ملازمت کے سلسلے میںبہار سے نقل مکانی کرکے کلکتہ آگئے اور کانکی نارہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

مدرسے کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد چشمۂ رحمت ہائی اسکول سے اسکول فائنل‘ آر۔بی۔سی کالج سے پری یونیورسٹی آرٹس‘ مولانا آزاد کالج‘ کلکتہ سے بی اے آنرز(اردو)‘ کلکتہ یونیورسٹی سے اردو و فارسی ادبیات میں ایم اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور ایل این متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ حمایت الغربا ہائر سکنڈری اسکول(کانکی نارہ) کے شعبۂ اردو و فارسی سے بحیثیت استاذ وابستہ رہا اور 4نومبر 2008 کو سبکدوش ہوا۔

ظ ف: وہ کیا محرکات تھے جنھوں نے آپ کو شعر و ادب کی طرف راغب کیا؟

م ش: کلاسیکی ادب، رسائل اور شعرائے اردو و فارسی کے کلام کے مطالعے نے شعر و ادب کی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ ادبی صلاحیت میری فطرت کا جزو ہے لیکن اسے صیقل کرنے میں استاذی محترم حشم الرمضان(مرحوم) کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔ ان کے وجود کی شعاعوں سے میری فکر روشن ہوئی۔ خارجی محرکات میں وہ مشاعرے ہیں جو ہمارے علاقے میں برپا ہوا کرتے تھے۔ پھر بھی فطری امنگ اور ذہنی اپج نے ہی اپنے اظہار کے لیے شعر کا پیرایہ اختیار کیا۔ اس طرح میرے اندر چھپا ہوا جو شاعرتھا اس نے معصوم شرقی کا روپ دھار لیا۔ زمانہ طالب علمی میں شعرگوئی کی ابتدا ہوئی لیکن باقاعدہ شاعری کا آغاز 1966 سے ہوا۔ 1970 تا 1980 میری ادبی زندگی کا اہم دور رہا ہے۔ میری تخلیقات ملک کے ہرقابل ذکر اخبار ورسائل میں شائع ہوئیں۔

شہر نشاط کلکتہ سے میرا تعلق گھر آنگن سا رہا ہے۔ یہیں میرا شعور پروان چڑھا اور یہیں میری ادبی زندگی کا ارتقا ہوا۔ اس شہر کے تعلق سے میری دو رباعیاں سن لیجیے       ؎

آماج گہہِ علم و ہُنر کلکتہ

ہے وحشت و پرویز کا گھر کلکتہ

اس شہر سے ہے نسبتِ قلبی مجھ کو

رکھتا ہے مجھے محوِ سفر کلکتہ

——

پروان یہیں رہ کے چڑھا فن میرا

کیا خوب کھِلا فکر کا گلشن میرا

معصوم یہ میرا وطنِ ثانی ہے

بنگال سے وابستہ ہے بچپن میرا

ظ ف: تنقید و تحقیق سے وابستگی سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں۔

م ش :یہ شروع سے ہی مزاج کا حصہ تھا لیکن میرے تحقیقی مقالۂ امتحانیہ کا موضوع بہت سخت تھا۔ اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں  ہفت خواںطے کرنا پڑا۔ سات برس کی محنت شاقہ اور جد وجہد کے بعد میرے بے چین ذوق کو تسکین میسر ہوئی۔ اس کے ضمنی اثرات یہ ہوئے کہ میرے اندر تنقیدی و تحقیقی شعور پیدا ہوا جو 1990 تا حال میری تحریر کا جزو ہے۔ میری تنقید کا اصل مدعا ادب کا معروضی مطالعہ اور ادبی معیار و اقدار کا تعین ہے۔ لیکن شاعری مجھ سے ترک بھی نہ ہوسکی۔ یہ کسی صورت میں اب بھی میرے ادبی مشاغل میں شامل ہے۔ میری بنیادی پہچان میری شاعری کے وسیلے سے ہے تاہم تنقید و تحقیق‘ تبصرہ‘ ترجمہ اور سفر نامہ کے میدانوں میں بھی میرے کام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ظ ف: آپ کا کوئی اہم ادبی کارنامہ  ؟

م ش:   ’’نظیر ثانی اشک امرتسری  :  تعارف‘ تنقید اور تدوین کلام‘‘ ایک تحقیقی کتاب ہے جو اپنے موضوع کی طرف پہلا قدم ہے۔ یہ ایک قیمتی دریافت اور انکشاف کی حیثیت رکھتی ہے۔ ملک کے متعدد سربرآوردہ ناقدین اور محققین نے میری اس کاوش کو نہ صرف پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا بلکہ بڑی فراخدلی سے سراہا اور رفتار قلم کو جاری رکھنے کا حوصلہ بخشا۔ میری ادبی شخصیت کی تعمیر میں اس کتاب نے بڑا کام کیا۔

ظ ف: آپ کے لائحہ عمل میں نوشت و خواند کا تناسب کیا ہے ؟

م ش: ذوق مطالعہ مجھے طبعی طور پر ملا ہے۔ جو کتاب یا رسالہ ہاتھ لگا بس شروع سے آخر تک پڑھ ڈالا۔ میں 80 فیصد پڑھتا ہوں اور 20 فیصد لکھنے پر عمل پیرا ہوں۔ میری شادمانی کا سرچشمہ ’نشاط بخش ادب‘ کا مطالعہ رہا ہے۔ مطالعۂ کتب مجھے ذہنی طور پر پرُ نشاط اور احساس و جذبے کی سطح پر تازہ دم‘ خرم اور شادماں رکھتا ہے۔

ظ ف: شاعری اور نثر نگاری دونوں میں آپ کس کو فوقیت دیتے ہیں؟

م ش: فوقیت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دونوں کی اپنی اہمیت ہے۔

ظ ف: آپ نثرونظم دونوں میں بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اپنے خیالات واحساسات کے اظہار کے لیے کس میں آسانی یا سہولت محسوس کرتے ہیں؟

م ش: اس کے لیے میں نظم کو ترجیح دیتا ہوں۔

ظ ف: کوئی ایسی تخلیق جسے آپ تحریر کرنا چاہتے ہوں اور ابھی تک تحریر نہیں کرپائے ہوں؟

م ش: مرشدِ فن، مشہور صوفی شاعر محمد سعید سرمدؒ میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ میں ان پر بھرپور کام کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک بڑا پروجیکٹ ہے۔ ایک باب لکھ چکا ہوں،  مزید مطالعہ جاری ہے۔

ظ ف: پی ایچ ڈی کی تحقیق کے بارے میں کچھ بتائیں۔

م ش:   پی ایچ ڈی کی تحقیق کا معیار دن بہ دن گرتا جارہا ہے۔ اس لیے کہ اسے کیرئیر سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ہر کوئی جلدی میں ہے کہ اسے ملازمت حاصل کرنی ہے‘ ایسے میں معیار کا خراب ہونا فطری بات ہے۔

ظ ف: آپ کا خود نوشت سوانح عمری لکھنے کا ارادہ؟

م ش: زندگی کے اہم واقعات اور ادب کے نشیب و فراز کو’ماضی کے تعاقب میں‘ کے نام سے خود نوشت سوانح عمری جستہ جستہ لکھ رہا ہوں۔

ظ ف: عزت‘ شہرت‘ محبت یعنی خدا کی اتنی ساری نعمتوں کے میسر آجانے کے بعد بھی آپ کو اپنی زندگی میں کسی کمی کا احساس ہوتا ہے؟

م ش:بشر کو کمی کا احساس دم آخر تک رہتا ہے۔ ’قرآن کہتا ہے ’’اے لوگو! حبِ ذات‘ حبِ اقتدار‘ حبِ شہرت‘ حبِ ستائش اور حبِ زن وزر کی شدت اتنی نہ بڑھالو کہ تمھارے لیے باعث رسوائی ہوجائے۔‘‘  عزت اور شہرت اللہ کی دین ہے۔ بشر کو چاہیے کہ اللہ کی عطاکردہ نعمتوں کا شکرادا کرے۔ جب ہم شاکر ہوجائیں گے تو ہمارے اندر حلیمی پیدا ہوگی‘ دلوں میں اداسی اور کسی کمی کا احساس نہیں ہوگا۔

ظ ف: ماشاء اللہ آپ نے طویل عمر پائی ہے۔ آپ نے کئی ادبی تحاریک دیکھیں۔ آپ نے کس تحریک کو خوش آمدید کہا؟

م ش: ادب میں ضرورت کے مطابق تحریک کا آغاز ہوا جیسا کہ ترقی پسند تحریک تھی۔ میں نے اس تحریک کو خوش آمدید کہا لیکن ادب میں کسی تحریک کے زیراثر نعرہ بازی کو میں پسند نہیں کرتا بلکہ میں زمانے میں وقوع پذیر حالات کی ترجمانی کرنا پسند کرتا ہوں‘ جبکہ ادب میں تصوف کی عکاسی بھی میرا پسندیدہ عمل ہے۔

ظ ف: آپ کے خیال میں کیا ادب کے ذریعے لوگوں میں سماجی آگہی پیدا کی جاسکتی ہے؟

م ش: ضرور کی جاسکتی ہے‘ اگر ادیب وشاعر اس امر کی جانب توجہ دیں۔ صرف تفننِ طبع اور داد وتحسین بٹورنے کے لیے ادب تخلیق کرنے سے گریز کریں۔

ظ ف: آپ ’ادب برائے ادب‘ کے قائل ہیں یا ’ادب برائے زندگی‘ کے؟

م ش: ’ادب برائے ادب‘کی مخالفت کیے بغیر میں ’ادب برائے زندگی‘ کو ترجیح دیتا ہوں۔

ظ ف: یہ بات عام ہے کہ رباعی کے اوزان 24 ہیں لیکن بعض عروض داں کی رائے ہے کہ رباعی کے اوزان 34 ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

م ش: قدما نے رباعی کے 24 اوزان مقرر کیے ہیں جن پر مدتِ مدید سے شعرائے متقدمین‘ متوسطین اور متأخرین نے طبع آزمائی کے عمدہ نمونے پیش کیے۔ بیسویں صدی کے نصف کے بعد زار علامی اور دیگر عروض دانوں نے بحررباعی میں اضافہ کیا اور خود ان کے نمونے پیش کیے۔ لیکن ان نئی بحروں کو بعض شعرا نے قبول کیا اور بعض نے نہیں قبول کیا لیکن 24 بحریں مستند ہیں۔

ظ ف: کیا نئی نسل کو نقاد کی عدم موجودگی کا احساس ہے؟  اگر ہے تو کیوں؟

م ش:   نئی نسل اپنی تخلیق کو تخلیقیت کے دم پر زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ نئی نسل اس بات کو محسوس کرنے لگی ہے کہ اگر تخلیقات میں متوجہ کرنے کی صلاحیت ہے تو از خود نقاد حضرات فن پارے کی طرف رجوع کریں گے۔

ظ ف: آپ کے بعد کی نئی نسل کے قلمکاروں سے آپ کی کیا توقعات ہیں؟

م ش: میں اپنے بعد کی نئی نسل کے قلمکاروں سے بہت پرامید ہوں۔ ان میں تخلیقی اعتبار سے آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے۔ اچھے شاعر‘ افسانہ نگار‘ ناول نگار اور دوسری اصناف میں اچھے لکھنے والے متعارف ہورہے ہیں لیکن وہ عجلت پسند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وقت سے پہلے ان کو وہ سب کچھ مل جائے جس کے لیے ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ انھیں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔

ظ ف: مشاعرے کی اہمیت و افادیت سے کم و بیش ہر کوئی واقف ہے۔ ادبی نشستوں کی اہمیت پر کچھ اظہار خیال کریں۔

م ش: ادبی نشستوں میں حصہ لینے والے لوگ معیاری ہوں تو شاعر اور سامع دونوں کی تخلیقی اور تنقیدی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے‘ تازہ گویوں کی قابل لحاظ جماعت سامنے آتی ہے۔ ادبی نشستوں کی افادیت اس وقت بہت مستحکم ہوجاتی ہے جب ان میں شرکاء اعلیٰ معیار کے ہوں اور اعلیٰ ظرف بھی رکھتے ہوں یعنی ان میں تنقید اور نکتہ چینی کی صلاحیت ہو۔ ایک زمانہ یہ آیا ہے کہ سخن شناس مفقود ہیں اور ناشناس خود کو بحر ادب کا شناور‘ دریائے معانی کا غواص سمجھتے ہیں۔

ظ ف: کیا اردو کے موجودہ منظر نامے سے آپ مطمئن ہیں؟

م ش: مطمئن تو نہیں ہوں مگر مایوس بھی نہیں ہوں۔ ہر صنف میں باصلاحیت لکھنے والوں کی کمی نہیں مگر سستی شہرت اور انعام کی رقم کے لیے کچھ لوگ اپنی سطح سے نیچے اتر رہے ہیں۔ میں نے ایک شعر میں اس خیال کو اس طرح باندھا ہے        ؎

ضمیر بیچ کے حاصل جسے کیا تو نے

ترے گلے میں وہی تمغۂ ادب تو نہیں

ظ ف: آپ اپنے ہم عصر ادبا وشعرا کے بارے میں کچھ بتائیں۔

م ش:   دیکھیے جناب!  ’ہم عصر‘ اور ’ہم عمر‘ میں بڑا فرق ہے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اول الذکر میں وہ ادبا وشعرا شامل ہیں جن کی طبعی اور تخلیقی عمر بھی ہم سے بہت زیادہ ہے لیکن ایک ہی عہد میں ساتھ ساتھ تخلیقی سفر جاری رہا۔ ایسے قابل احترام بزرگ ہم عصر شعراوادبا میں جرم محمد آبادی‘ نواب دہلوی‘ احمد سعید ملیح آبادی‘ سالک لکھنوی‘ ابراہیم ہوش‘ علقمہ شبلی‘ نصر غزالی‘ ناظم سلطان پوری‘ مضطر حیدری‘ قیصر شمیم‘ احسان دربھنگوی‘ مظہرامام‘ رونق نعیم‘ حشم الرمضان‘ عابد ضمیر‘ فیروز عابد‘ اویس احمد دوراں وغیرہ۔

ہم عمر‘ معاصرین میں نصرت جمیل‘ احمد رئیس‘ انیس رفیع‘ صدیق عالم‘ ف س اعجاز‘ ایم اے نصر‘ خورشید اختر فرازی‘ ڈاکٹر خواجہ نسیم اختر‘ شہناز نبی‘ شہیرہ مسرور‘ زار غازی پوری‘ ایم نصراللہ نصر‘ انور حسین انجم وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام قلمکاروں سے میرے خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔

ظ ف: شہر نشاط کلکتہ کے ادبی منظر نامے پر کچھ روشنی ڈالیں؟

م ش: کلکتے میں تحقیقی‘ تنقیدی اور تخلیقی سرگرمیاں دوسری ریاستوں سے کم تیز نہیں ہیں۔ دور حاضر میں جن قلمکاروں سے کلکتے کا ادبی مستقبل وابستہ ہے اُن کی موجودگی یہاں کے ادبی منظر نامے کے روشن مستقبل کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ رواں صدی میں کلکتہ ومضافات کے شعر و ادب کا جو منظر نامہ ابھرتا ہے وہ قابل قدر اور خوش آئند ہے۔ میں ان تمام قلمکاروں کو تہنیت پیش کرتا ہوں۔

ظ ف: خدمت ادب میں آپ نے نصف صدی گزاردی‘ آپ کا جو کچھ بھی ادبی سرمایہ ہے کیا اس سے آپ مطمئن ہیں؟

م ش: کمی کا احساس فنکار کی زندگی کی علامت ہوتی ہے۔ اگر فنکار زندگی سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے‘ اس نے جو کچھ کیا ہے اس سے اگر وہ مطمئن نہیں ہے تو وہ زندہ ہے اور اگر مطمئن ہوگیا تو گویا وہ مرگیا۔

ظ ف: نئی نسل کے لیے کوئی پیغام؟

م ش: نئی نسل کے لیے مرزا بیدل کا ایک شعر نذر ہے    ؎

بگیر ایں ہمہ سرمایۂ بہار از من

کہ گُل بدستِ توٗ از شاخِ تازہ تر ماند

(بہار کا یہ تمام سرمایہ مجھ سے لے لو کہ پھول تمہارے ہاتھ میں شاخ سے زیادہ تر و تازہ رہتا ہے)

 

Md Zahiruddin (Zahir Faisal)

Research Scholar, Dept of Urdu

Aliah University

Kolkata- 700014 (West Bengal)

Mob.: 9681548062

md.zahiruddin428@gmail.com

 

 

ہمارا تمدن، ماخذ: ہندوستان سرزمین اور عوام، مصنفہ: نارائنی گپتا، مترجمہ: ایس کے سنگھ

 اردو دنیا، دسمبر 2024

’’میں یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ میرے مکان کے چاروں طرف دیواریں کھینچ دی جائیں اور کھڑکیاں بند کردی جائیں۔ میں چاہتا ہو ںکہ تمام دنیا کا تمدن ہوا کی طرح لہراتا ہوا زیادہ سے زیادہ میرے مکان میں داخل ہو۔‘‘ (مہاتما گاندھی)

ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ ہندوستان کا سماج ان تمام اثرات کو لیے ہوئے ہے جو وقتاً فوقتاً ہندوستان میں داخل ہوتے رہے ہیں۔ ان اثرات کی گہرائی اس کے ادب، موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ میں پائی جاتی ہے، جو یہاں کے باشندوں کی تخلیقی قوت کی مظہر اور علمبردار ہے۔ یہ تمام فنون حال تک بطور خود ہندوستانی سماج کے مذہب کے زیراثر رہے ہیں اور اس کا دوسرا پہلو جو ان تمام میں پایا جاتا ہے یہ ہے کہ ان کا اتار چڑھاؤ شاہانِ وقت یا شاہی دربار کی سرپرستی کا مرہون منت رہا ہے۔ بالخصوص فن تعمیر اور فن سنگتراشی کیونکہ یہ لامحدود اخراجات کے حامل ہوتے ہیں۔ مصوری، موسیقی اور ادب اپنی قدرتی شکل میں بذات خود ترقی کرسکتے ہیں اور یہ عوام کی امداد اور جوش کی وساطت سے نشو و نما پالیتے ہیں۔ یہ دو صورتیں یعنی ان کا مذہب کے ساتھ گہرا تعلق اور حکومت کی سرپرستی پر انحصار دوسرے ملکوں کے فنون میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ہندوستان اور یورپین ملکوں میں ایک زبردست فرق بھی رہا ہے کہ ہندوستان میں ذات پات کے باعث تعلیم ایسی عام اور وسیع نہیں ہوئی ہے جیسی موجودہ یورپ میں۔ اب بھی سیکڑوں ہندوستانی تعلیم سے بے بہرہ ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے تمدنی ورثہ سے عام لوگوں کو اتنا فائدہ نہیں ہوا جیسا کہ اب ہورہا ہے۔

ہندوستان کا ادب متعدد نظریوں کے امتزاج کا ایک دلکش نمونہ ہے۔ جس طرح آج ہم کسی ایک شخص کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی رگوں میں خالص آریہ یا خالص دراوڑ خون ہے اسی طرح ہم کسی ہندوستانی زبان کے متعلق بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ قطعی طور پر خالص زبان ہے کیونکہ یہ تمام کئی ایک تاثرات کی تخلیق ہیں۔ ہندوستانی ادب میں تین ملکی اور ایک غیرملکی زبان کی آمیزش صاف دکھائی دیتی ہے اور یہ ہیں دراوڑ، سنسکرت، فارسی اور انگریزی زبانیں۔

زمانہ قدیم کا ادب جو کچھ بھی ہم تک پہنچا ہے وہ سب سنسکرت میں ہے۔ وید دنیا بھر میں تسلیم شدہ سب سے پرانی کتاب ہے۔ لفظ وید جو سنسکرت کے فعل ’وِد‘ سے نکلا ہے کا ارتھ ’جاننا‘ ہے۔ یہ ایک مناسب نام ہے کیونکہ شروع کے آریہ لوگوں کی زبان میں ہندوستان کا راز بیان کرتے ہیں اور جب فن تحریر کمال کو پہنچا تو سنسکرت ادب بھی نشو و نما پانے لگا۔ یہاں تک کہ دنیا کو کلاسیکی زبانوں میں سنسکرت کا رتبہ نہایت بلند ہوگیا۔ اس زبان میں کتنے ہی مختلف مضامین پر کتابیں تصنیف ہوئی ہیں۔ نہایت دقیق فلسفہ، رزمیہ نظموں، راج نیتی یعنی ریاستی نظام سے لے کر گرامر، ڈرامہ اور خوش الحان شاعری ان تمام مضامین پر نہایت کارآمد کتابیں ملتی ہیں۔ مسلمانوں کے آجانے سے یا فارسی کے سرکاری زبان ہوجانے کی وجہ سے سنسکر کا رتبہ کسی طرح کم نہیں ہوا۔ بلکہ اکثر مسلمان حکمرانوں نے سنسکرت کے مطالعے میں دلچسپی لی اور سرپرستی کی۔ اس کا زوال دیگر ہندوستانی زبانوں کی وجہ سے ہوا جو کہ اس سے زیادہ آسان تھیں۔شمال میں سنسکرت کا دور دورہ تھا تو جنوب میں درواڑ زبانیں نشو و نما پارہی تھیں۔ جنوب کا سب سے پرانا علم و ادب تامل سنگم ہے جو صدیوں پرانا یعنی مسیح کی پہلی دوسری صدی کا ہے۔ یہ خالص تامل زبان میں ہے۔ جنوب کی دیگر زبانیں کنڑی، تلگو اور ملیالم ہیں اور ان میں سنسکرت کے الفاظ بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہ زبانیں خاص طور پر نویں صدی کے بعد زیادہ رائج ہوئیں۔ آندھراپردیش میں تیلگو، میسور کے جینیوں کی زبان کنڑی اور کیرل میںان دونوں سے بھی پہلے کی زبان ملیالم۔ یا دو بادشاہوں کے زمانے میں مراٹھی نے جو سنسکرت اورپراکت دونوں کی ملی جلی زبان ہے، کافی ترقی کی، اور مشرق میں سین بادشاہوں کی سرپرستی میں بنگالی زبان پھلی پھولی۔ اسی طرح گجرات میں جین منیوں کی زبان گجراتی اور پندرہویں صدی میں شنکر دیو کی وجہ سے آسامی اور اسی وقت بہار میں میتھلی اور راجستھان میں راجستھانی زبان نے ترقی کی۔

ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے ہمراہ فارسی زبان کو دخل ہوا۔ یہ نہ صرف سرکاری زبان رہی بلکہ ہند میں اس نے اپنی خصوصیت کی وجہ سے ایک بلند پایہ علم و ادب پیدا کیا۔ امیر خسرو ہند کا ایک بلند مرتبہ فارسی داں ہوا ہے۔ فارسی زبان کی وجہ سے شمالی ہند کی زبانوں کی لغت میںکافی اضافہ ہوا ہے۔ دو اور ہندوستانی زبانیں تیرہویں  صدی میں پیدا ہوئیں۔ ایک ہندی اور دوسری اسی سے اخذ کی ہوئی اردو جس میں عربی اور فارسی کے کافی الفاظ کی ملاوٹ ہے۔ یہ تمام زبانیں نہ صرف عام بول چال میں مستعمل ہوتی تھیں بلکہ ان میں لوک گیت اور بھجن بھی گائے جاتے تھے۔

گذشتہ صدی میں ہندوستان میں ایک اور زبان سرکاری زبان کی صورت میں نمودا رہوئی۔ یہ تھی انگریزی۔ جو تمام زبانوں سے مختلف تھی۔ لیکن چونکہ انگریزی عملداری مقابلتاًکم عرصہ ہندوستان میں قائم رہی، اس لیے یہ زبان اتنی نہیں پھیلی جتنی کہ فارسی۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ انگریزی زبان نے ہندوستانی علم و ادب میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ انگریزی زبان نے اور اس کے ساتھ ہی یورپ کی دیگر زبانوں نے بھی جن کا انگریزی زبان میں کافی ترجمہ ملتا ہے، ہندوستان کے علم و ادب کو غیرمعمولی وسعت دی ہے۔ ان زبانوں میں کئی ایسے مضامین پربحث ملتی ہے جن کی طرف ہمارے ملک میں کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی تھی۔ مثلاً سائنس اور پولیٹکل فلاسفی۔ انگریزی کی وجہ سے ناول نویسی کا آغاز ہوا۔ آج کل بھی  اگرچہ اب انگریزی حکومت چلی گئی ہے انگریزی زبان کا کافی رواج ہے اور اس سے ہمیں باہر کی دنیا کے متعلق کافی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔

عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ فنونِ لطیفہ کی مصنوعات کے تلف ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ بہ نسبت ادبی شہ پاروں کے۔ اسی لیے زمانہ قدیم کی مصوری ہم تک بہت کم پہنچی ہے۔ ہاں و ہ چند نمونے جو ہمیں دستیاب ہوئے  ہیں اور جن میں اجنتا کے غاروں، باگھ اور سیتانواسل کی تصاویر شامل ہیں ان میں سے اول الذکر دو تو گپتا بادشاہوں کے زمانے کی ہیں اور موخرالذکر پالول بادشاہوں کے وقتوں کی ہیں اور یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مصوری نے اس ملک میں کتنی شاندار ترقی کی تھی۔ ان مجسموں کے نمایاں خد و خال اور شوخ رنگوں کا نہایت خوب صورت اور متناسب استعمال اعلیٰ پیمانے کی مصوری کا مظہر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں صدیوں علم مصوری پر تاریکی غالب رہی ہے اور اس دوران غیرملکی حملہ آوروں کی لوٹ کھسوٹ سے ہمارا فن مصوری نیست و نابود ہوگیا ہے۔ مگر بایں ہمہ ان غاروںکی مصوری ہندوستانی فنِ مصوری کی تابناک مثال ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی وقت میں مصوری کسی قدر بلند پایہ فن تھا۔

مندرجہ بالا فن کے بعد مصوری کا جو ایک نیا انداز اس ملک میں آیا وہ ایک دوسری قسم کا تھا۔ اس نے شمالی ہند میں عہد مغلیہ میں نشو و نما پائی۔ اسے فن تصویرچہ کہا جاتا ہے۔ اجنتا کی تصاویر تو حجم میں بہت بڑی تھیں۔ ان کے بڑے بڑے نقش تھے۔ مگر یہ چھوٹی چھوٹی تصاویر جیسا کہ نام سے عیا ںہے۔ بہت چھوٹی چھوٹی اور باریک خطوط پر مشتمل تھیں۔ اجنتا کے رنگ کافی جگہ گھیرے ہوئے ہیں۔ مگر یہ تصویرچے چھوٹے چھوٹے جواہرات کی مانند کئی مختلف اور خوب صورت دلکش رنگوں میں چمکتے ہیں۔ اجنتا کی تصویروں کے مضامین بودھوں کی کتھاؤں سے لیے گئے تھے مگر تصویرچوں کی مصوری بادشاہوں او ران کے درباریو ںکی سوانح کو پیش کرتے ہیں۔ یہ تصویرچے کی مصوری مغل بادشاہو ںکے دربار میں ایران اور وسطی ایشیا سے آئی تھی۔ اگرچہ بعد میں یہ فن کئی جگہ مروج ہوگیا۔ اٹھارہویں صدی میں کانگڑہ، راجستھان، اور ٹیڑھی گڑھوال میں بھی مقبول ہوگیا۔ ان کا موضوع ہر قسم کے مذہبی ،غیرمذہبی، قدرتی نظاروں اور موسیقی کے راگو ںپر مشتمل تھا۔

گذشتہ صدی میں اسی طرح بنگالی آرٹ نے جنم لیا۔ اس نے اپنا تاثر ہندوستانی نیز مغربی طرز فن سے لیا۔ اس کے ماہرین نے پانی کے نہایت لطیف رنگوں میں حقیقت نگار اور تاثر پذیر شکلوں میں تصویرکشی کی ہے۔

گذشتہ سو برسوں میں مغربی آرٹ نے مختلف شکلوں میں ہندوستانی آرٹ پر بڑا زبردست اثر ڈالا ہے اور ہندوستانی مصوروں کے لیے دنیا میں ایک نیا دروازہ کھل گیا ہے اور ہر ایک مصور اپنا حسب پسند طرز فن ان متعدد مغربی فنون سے یا روایتی ہندوستانی فن میں سے منتخب کرسکتا ہے۔ اب ہم اسے ہندوستانی آرٹ کے نام سے منسوب نہیں کرسکتے کیونکہ اب یہ ہندوستانی آرٹ دنیا کے آرٹ کا جز بن گیا ہے۔

سنگ تراشی اور فن تعمیر مصوری سے بھی زیادہ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ مختلف اوقات پر مختلف طریقے  فن کی آپس میں آمیزش ہوتی رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ پتھر بھی بولتے ہیں اور یہ درست ہے۔ سنگ تراشی اور عمارات قدیمہ کے بکھرے ہوئے کھنڈرات سے ہم پرانے زمانے کی کہانی پڑھ سکتے ہیں۔ عمارتی کھنڈرات پر نگاہ دوڑائیے اور ان دنوں یہاں آنے والے سیاحوں کے بیانات کا مطالعہ کیجیے اور ذرا اپنی قوتِ تخیل کو وسعت دیجیے تو ان آثارِ قدیمہ کی واضح تصویر آپ کے دماغ میں آجائے گی کہ وہ عمارات  جس وقت ان کی تعمیر ہوئی تھی کس انداز کی ہوں گی اور ساتھ ہی آپ وہ مشابہت بھی دیکھ پائیں گے جو ہندوستانی اور غیرملکوں کی سنگ تراشی اور تعمیرات میں پائی جاتی  ہے۔

یہ امر قابل غور ہے کہ ہمارے اجداد نے تعمیر کے کام میں یا حقیقت نگاری میں جو کچھ بھی مسالہ ان کے ہاتھ لگا مثلاً لکڑی، اینٹ، پتھر یا دھات۔ اسی سے کام لیا۔ دھات او رپتھر کی اشیا تو زمانے کی دست برد سے بچ گئی ہیں مگر لکڑی اور اینٹ کی مصنوعات نابود ہوگئیں۔ ہاں جو کچھ بھی انھوں نے بنایا اتنے وسیع پیمانے پر بنایا کہ خرچ، مسالہ اور مزدوری کی انتہا کردی۔ خاص کر جب کوئی مندر یا محل کسی بادشاہِ وقت کے فرمان سے بنایا گیا اور بارہا ایسے کاموں کی تخلیق اور تکمیل مذہبی موضوع پر ہی مبنی ہوتی تھی۔ آرٹ کے خیال سے ایسا نہیں کیا جاتا تھا اور اگرچہ ان کی تخلیق ہندوستانی مذہب اور ہندوستانی تعمیر اور ہندوستانی رنگ تراشی کی بنیاد پر تھی تاہم اس میں کئی دیگر ملکوں کے نمونوں کو پیش نظر رکھا گیا اور اس کے عوض میں اپنا انداز دوسرے ملکوں کو عطا کیا گیا۔

 

ماخذ:  ہندوستان سرزمین اور عوام، مصنفہ: نارائنی گپتا، مترجمہ: ایس کے سنگھ، دوسرا ایڈیشن: 2004، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

تازہ اشاعت

اکبر الہ آبادی کی شاعری میں مشرق کا تصور، مضمون نگار: امیرحسن

  اردو دنیا، جنوری 2025 تجھے ہم شاعروں میں کیوں نا اکبر معتبر سمجھیں بیاں ایسا کہ دل مانے زباں ایسی کہ سب سمجھیں اکبر الہ آبادی دنیائ...