28/2/25

کے آصف کا فلمی سفر، انارکلی سے مغل اعظم تک، مضمون نگار: منتظر قائمی

 اردو دنیا، جنوری 2025

دنیا میں کوئی بھی شاہکار اپنی تخلیق سے قبل جزوی طور پر وجود میں آچکا ہوتا ہے اور وہ اس بات کی بشارت دے دیتا ہے کہ عنقریب کوئی ایک ایسی شے کا وجود ہونے والا ہے جو انسان کی عقل کو متحیر و ششدر، تخیل کو حیران و پریشان، فکر کو غلطاں و پیچاںاور فن کو پابوسی و قدم بوسی پر مجبور کردیتا ہے۔ میر عطا حسین تحسین نے اگر ’نو طرز مرصع‘کو ’ قصہء چہار درویش ‘ نہیں بنایا ہوتا تو کوئی میر امن اردو نثر کو ’باغ و بہار‘ کیسے بناتا۔ کوئی شیخ سعدی نہیں ہوتا تو جلال الدین رومی اور حافظ و خیام کہاں سے آتے۔ اگر دہلی میں مغل حکمراںنصیر الدین بیگ محمد خان ہمایوں کا تقریباً سترہ ایکڑ میں پھیلا ہوا مقبرہ تعمیر نہ ہوتا تو شاہ جہاں کبھی اپنی بیگم ممتاز کی یاد میں تاج محل جیسا شاہکار دنیا کو نہ دے پاتا۔ اسی طرح اگر امتیاز علی تاج  نے ’ انارکلی‘ جیسا لازوال ڈرامہ نہ تحریر کیا ہوتا تو کریم الدین آصف ’ مغلِ اعظم‘ جیسی ایک شاہکار  اور لازوال فلم دنیا کو نہیں دے پاتا۔

امتیاز علی تاج کے اس فن پارے پر ’مغلِ اعظم ‘ فلم بننے سے قبل ہی اس ڈرامے پر تین متعدد فلم سازوں نے فلم بنا ڈالی تھی لیکن جس طرح کی جاندار، شاندار، شاہی جاہ و حشم اور تمکنت والی فلم کا خواب کے آصف نے دیکھا ویسا آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔ ایسے خواب فقط شہنشاہ ہی دیکھتے ہیں جو خواب کو زمین پر اتارتے اتارتے فقیر یا درویش ہو جایا کرتے ہیں۔ تاج محل کو تعمیر ہونے میں اگر بائیس برس لگے اور مغلیہ سلطنت نے اپنے خزانے لٹا دیے تو آصف نے بھی ’مغلِ اعظم‘ جیسے عظیم کارنامے کو پورا کرنے میں چودہ برس لگا دیے اور آصف بھی اس فلم کو بناتے بناتے فقیر اوردرویش ہوگیا۔

آصف نے مغلِ اعظم‘ کے علاوہ نہ کوئی اور خواب دیکھا اور نہ کوئی خواب پالااور اس دوران اس عظیم خواب کی تکمیل میں جو رخنے اور اڑچنیں آئیں اس کے نتیجے میں’پھول‘،’ محبت اور خدا‘،’ بھگت سنگھ‘ اور’ کلیو پیٹرا‘ جیسی فلمیں بن گئیں۔اس دوران آصف اپنے واحد خواب ’مغلِ اعظم‘ کی تعبیر تلاش کرنے میں کبھی بھی غافل نہیں رہے اور نہ ہی کسی اور فلم کو بنانے کا ایساعظیم، جاہ و حشمت اور شاندار خواب پالا۔سوتے جاگتے ایک دیوانے کی طرح وہ ذرہ برابر بھی نہ تو اپنے عزم مصمم سے ایک انچ پیچھے ہٹے اور نہ ہی اس نے ’ مغلِ اعظم‘ کو بنانے کا ارداہ ترک کیا۔یہ فلم آصف کی زندگی اور کیریئر کے لیے گویا ایک ایسی فلم تھی جو اگر نہ بنائی گئی تو گویا آصف کی زندگی رائیگاںاور عزم بے معنی ہو کر رہ جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ آصف نے اس فلم کے پیچھے اپنا پورا کیریئر داؤں پر لگا دیا وہ بہت سگریٹ پیتے تھے اور ایک وقت آیا جب وہ اُدھارکی سگریٹ پینے لگے۔ آصف نے ممبئی میں نہ تو اپنا گھر بنایا اور نہ ہی کبھی کوئی گاڑی خریدی اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس فقیر منش انسان نے دونوں ہی اشیا تادم مرگ کرائے پر رکھی شاید وہ درویشی کے ان جلی حروف میں حد درجہ اعتماد رکھتا تھا کہ یہ دنیا ایک سرائے فانی ہے انسان یہاں خالی ہاتھ آیا ہے اور ہاتھ خالی ہی جائے گا بس اس کے اعمال و افعال ہی اس کو زندہ رکھیں گے۔ اس بابت جب ان سے پوچھا گیا کہ بمبئی میں آپ اپنا گھر کیوں نہیں بناتے تو اس دیوانے کا جواب یہ تھا کہ’ میں یہاں فلمیں بنانے آیا ہوں گھر بنانے نہیں آیا ہوں‘۔

کے آصف نے ’مغل اعظم ‘ کاخواب غلام ہندوستان میں دیکھا اور اس کو آزاد ہندوستان میں پورا کیا  یعنی ـیہ فلم تو اسی وقت تشکیل پانے لگی تھی جب ’پھول‘ کی شوٹنگ کے دوران معروف فلم ساز کمال امروہوی نے ایک دن امتیاز علی تاج کا لازوال ڈرامہ ’ انارکلی‘ کی کہانی سنائی۔اس کے بعد جیسے آصف کو اپنا جہاں، اپنی منزل، اپنی تلاش، اپنی آرزو اور اپنی جستجو ہی مل گئی جس کے لیے اسے قدرت نے بنایا تھا۔ کمال امروہوی اور کے آصف دونوں کی تعلیم بہت کم تھی لیکن دونوں ہی فن کاروں میں ادب اور فلم پرزبردست دسترس اوریقین تھا۔ کے آصف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی فلموں میں اداکاروں کے سامنے خود اداکاری کر کے بتاتے تھے۔آصف بلا کا جادوگر تھا کسی بھی رئیس کے سامنے اگر وہ اپنی کہانی کی منظر کشی پیش کر دے تو وہ اس کی کہانی سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتاتھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے ایک دن موقع محل دیکھ کر اپنے خواب کو مشہور فلم اسٹوڈیو ’ مہالکشمی‘ کے مالک شیراز علی حکیم سے بیان کر ڈالا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکیم صاحب فلم میں پیسہ لگانے کو راضی ہو گئے۔آصف اور شیراز علی کا مزاج ایک جیسا تھاجو بھی کام کرنا ہے انتہائی اعلیٰ درجے کا کرنا ہے۔اس دور میں کہانیوں کا بادشاہ سعادت حسن منٹو بھی بمبئی کی فلمی رعنائیوں میںگم تھا اس نے ایک جگہ آصف کی تعریف کرتے ہوئے اس کے کہانی سنانے کے فن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ :

’’ کہانی سنانے کے دوران وہ مداری پن کرتا ہے یعنی حسبِ ضرورت واقعات کے اتارچڑھاؤکے ساتھ خود بھی چڑھتا اترتا رہتا ہے۔ابھی وہ صوفے پر ہے چند لمحات کے بعد وہ اس کی پشت کی دیوارپر، دوسرے لمحے اس کے سر کے نیچے ہے  اور ٹانگیں اوپر ہیںاور دھم سے نیچے فرش پر۔ اس کے فوراً بعد وہ کرسی پر اکڑوں بیٹھا ہے مگر پھر فوراً اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کوئی آدمی  ووٹ حاصل کرنے کے لیے تقریر کر رہا ہے۔‘‘

فلم ’پھول‘ 1944میں ریلیز ہوئی اور اس کے بعد 1945میں کے آصف نے مغل اعظم فلم کا آغاز کر دیا۔ یہیں سے اس فلم کو بنانے کی جدو جہد کا بھی آغاز ہو جاتا ہے جتنی دلچسپ اور حیران کن یہ فلم ہے اس کے بننے کی کہانی بھی اس سے کم دلچسپ نہیں ہے۔کہانی، اسٹار کاسٹ، کاسٹیوم، سیٹ، رقص، موسیقی، مکالمہ، ہدایت کاری اور اداکاری غرض کہ کسی بھی پہلو پر آصف نے کہیں کوتاہی یا سمجھوتہ نہیں کیا۔فلم کے ہر ایک شعبے پر دل کھول کر دولت لٹائی مگر اس فلم کے ریلیز ہوتے اس پر اتنی پریشانیاں، افتاد، آپسی نااتفاقیاں اور مالی دشواریاں آئیںکہ ایسا لگا کہ اب آصف کی کشتی غرقاب ہو جائے گی اور وہ ناچاہتے ہوئے کسی مالدار شخص کی دہلیز پر دم توڑ دے گا مگر آصف کسی کے آگے جھکا نہیں۔وہ ایک ایسا درویش یا فقیر تھا جس کے کشکول میںبعض دفعہ ایک کھوٹا سکہ بھی نہیں ہوتا تھا لیکن اس کا ہمالیائی ارادہ دنیا فتح کرنے والا تھا۔’مغلِ اعظم‘فلم میں پیسہ لگانے والوں میں بامبے ٹاکیز کے مالک شیراز علی حکیم سے لے کرشاپور جی پولن جی مستری جیسے بڑے تاجروں کا نام شامل ہے۔

شیراز علی حکیم سے ابھی آصف نے’ مغلِ اعظم‘ بنانے کا قول و قرار کیا ہی تھا کہ اسی وقت بامبے اسٹوڈیو فروخت ہو رہا تھا جب یہ بات حکیم صاحب تک پہنچی تو انھوں نے بامبے اسٹوڈیو خرید کر آصف کے حوالے کر دیا۔ بارہ اکتوبر 1945کو جب اس فلم کی شوٹنگ کا شاہانہ انداز میں شُبھ مہورت ہو رہا تھا اس وقت اکبرِ اعظم کے رول میں چندر موہن،مہارانی جودھا بائی کے روپ میں درگا کھوٹے، شہزادہ سلیم کے رول میں سپرو اور انارکلی کے طور پر نرگس کو سائن کیا گیا تھا۔فلم کی کہانی میں بھی آصف نے اپنے انداز ِ فکر ونظر کے اعتبار سے تھوڑی بہت تحریف کی تھی یعنی ڈرامہ انارکلی کی کہانی سے کچھ اجزا نکال کر کچھ نئے اجزا  کا اضافہ کر دیا۔سید امتیاز علی تاج کے شہرۂ آفاق ڈرامے’ انارکلی‘ میں اکبر، سلیم، بختیار (سلیم کا بے تکلف دوست)رانی، انارکلی،  ثریّا، دل آرام اور زعفران جیسے کردار موجود ہیں جبکہ فلم میں بختیار کے کردار کی جگہ درجن سنگھ اور دل آرام کی جگہ پر بہار کا اضافہ کیا گیا ہے۔ 

 فلم کو مزید پرکشش اور مربوط بنانے کے لیے اس کہانی میںپلاٹ، کردار، مکالمے وغیرہ میں حسبِ ضرورت تبدیلی کیے گئے۔ابتدائی فلم یعنی 1951 سے قبل والی ’مغلِ اعظم‘ میں انارکلی کے رول میں نرگس اور بہار کے طور پر وینا کو منتخب کیا گیا مگر جیسے ہی ہندوستان کو آزادی حاصل ہوئی اور ملک تقسیم ہوا اور اس کے بعد جو خونیں واقعات رونما ہو ئے اس نے تاریخِ انسانیت کو لرزاں، حیراں اور پریشاں کر دیا۔اس عالمِ بے سروسامانی میں بہت سے خانہ بدوش ہجرت کر کے پاکستان سے ہندوستان اور ہندوستان سے پاکستان چلے گئے۔ کپور خاندان اور چوپڑہ خاندان جیسے نہ جانے کتنے ہی خاندان سرحد کے اُس پار سے اِس پار بے سرو سامانی کے عالم میں آئے اسی طرح سعادت حسن منٹو، شیراز علی حکیم، جوش ملیح آبادی اور آصف کے ماموں نذیراحمد خاں بمبئی کو خیر باد کہہ کر پاکستان آباد کرنے چلے گئے۔ اس عظیم سانحے کا اثر نہ صرف یہ کہ نوجوان آصف کے ذہن و دل پر ثبت ہوا بلکہ اس کے خواب بھی ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے۔ کیونکہ کے آصف جب بمبئی آئے تو اپنے ماموں نذیر جو اس وقت فلموں میں ایکٹر تھے انھیں کے یہاں ٹھہرے اور ان کے ماموں نے آصف کو فلموں میں ڈریس سپلائی کرنے والے ایک ٹیلر کے یہاں سلائی وغیرہ کا کام سیکھنے کے لیے رکھ دیا۔یہیں سے آصف کو اپنی منزل کا پتہ اور راستہ مل گیا۔ آصف فلموں کے شیدائی تو تھے ہی مگر اسی بہانے ان کو فلموں کی ایکٹنگ،شوٹنگ اور میکنگ کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع مل گیا اور آصف کے فن کو بال و پر عطا ہو گئے۔ آزادی کے بعد جیسے ہی ملک تقسیم ہوا تو آصف کے ماموں نذیراحمد خان نے بمبئی چھوڑ کرپاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا حالانکہ اس وقت تک نذیر ایک کامیاب اداکار کے طور پر انڈسٹری میں اپنے پیر جما چکے تھے۔آصف کے پاس بھی موقع غنیمت تھا کہ وہ پاکستان چلا جاتا مگرکے آصف کو تو ایک ایسے ہندوستان کی تعمیر و تشکیل کرنا تھا جو ہزار زخم کھانے کے بعد، قتل و خون کے دریا سے گزرنے کے بعد بھی اپنی دیرینہ صلحِ کل کی روایات، مساوات، اخلاقیات و نظریات پر باقی رہ سکے۔ حالات کے سامنے سرنگوں ہونا تو آصف کے مزاج کا حصہ ہی نہیں تھا۔ آزادی اور بٹوارے کے بعد بھی وہ جس طرح کے ہندوستان کا خواب اپنی آنکھوں میں بسائے پھر رہا تھا وہ چاہتا تھا کہ دیگر سیکولر مزاج اور امن پسند شہری بھی اس کے خواب میں شامل ہو جائیں کیونکہ آصف کے خوابوں والے ہندوستان کی تکمیل تو بس بمبئی فلم انڈسٹری میں ہی ہو سکتی تھی۔ آصف تو ایک ضدی مزاج انسان تھا ایک دفعہ جس کام کو اس نے ٹھان لیا تو بس اسے ہر حال میں ممکن بنا کر ہی دم لینے والوں میں سے تھا۔ابھی ’مغلِ اعظم‘ کی شوٹنگ ہوئے دیر بھی نہیں ہوئی تھی کہ بٹوارہ سامنے ایک دیوار بن کر کھڑا ہو گیا اور فلم متاثر ہو گئی۔شوٹنگ روکنی پڑ گئی اور اتنی شاہانہ فلم جس پر پانی کی طرح پیسا لگا ہو وہ تقسیم کے خونیں سیلاب میں غرقاب ہوتی ہوئی دکھائی دینے لگی۔ جب آگ اور خون کا یہ دریا اپنی طغیانی پر پہنچنے کے بعد کچھ تھما تو آصف نے اپنے خوابوں کی کشتی پھر سے دریا میں اتاری۔اپنے ریزہ ریزہ خوابوں کو سمیٹتے ہوئے پھر سے تنکا تنکا جوڑنا شروع کیا اور کئی برس سے آنکھوں میں بند پڑے خواب کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش اور جستجو میں غرق ہو گیا۔

 ملک کی آزادی اور تقسیم کے خونیں مناظر کے بعد آصف نے فلم’مغلِ اعظم‘ کی اسکرپٹ پر نظر دوڑائی تو وقت اور حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ اب کہانی میں خاطر خواہ تبدیلی کی جائے جس سے ملک کی تقسیم سے پیدا ہونے والے گہرے زخموں کا نفسیاتی علاج اس طرح کیا جائے کہ دوقوموں کے درمیان وہی پرانا اعتماد اور وقار پھر سے بحال ہو جائے۔جہاں ایک طرف آصف کہانی میں کچھ تبدیلی کر رہے تھے وہیں کچھ پرانے اداکاروں نے آصف کا ساتھ چھوڑ دیا۔ قسمت کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اکبِراعظم کا کردار نبھانے والے چندر موہن اچانک اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور تو اور شہزادہ سلیم کا رول اداکرنے والے سپرو بھی اپنی پرانی چمک دمک کھو کر اب معاون اداکار کے بطور فلموں میں نظر آنے لگے تھے۔فلم کی ایک چوتھائی شوٹنگ بھی ہو چکی تھی جو لوگ فلموں کے مختلف مراحل سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایسے نازک وقت میں قدم پیچھے کھینچنے کا مطلب خود کو کتنے طرح کے خسارے میں مبتلا کرنا ہے۔اکبرِاعظم اور شہرزادہ سلیم دونوں ہی اگر اپنی چمک دمک کھو دیں تو فلم میں بچتا ہی کیا ہے۔کوئی اور ہوتا تو اپنے ہی خواب کو اپنی آنکھوں کے سمندر میں غرقاب کردیتااور فلم سازی سے توبہ کر لیتا مگر آصف نے دل پر پتھر رکھ کر اپنے تخلیق کردہ نامکمل مجسمے کو بڑی ہی نامرادی اور مایوسی کے ہتھوڑے سے توڑ ڈالااور ایک نیابت تراشنے کے بارے میں سوچنے لگا۔کولمبس کے مانند وہ اپنی کہانی کے کرداروں کی تلاش میں نکل پڑااور ایک مقام پر اسے اپنے وقت کے عظیم اداکار پرتھوی راج کپور میں اکبر ِاعظم تلاش کرلیا، مہہ جبیں عرف مدھوبالا میں انارکلی اور شہنشاہ جذبات دلیپ کمار المعروف یوسف خان میں شہزادہ سلیم کو دریافت کر لیا۔ اب ان سب کو لے کر دوبارہ فلم کی شوٹنگ شروع کی اور جب فلم مکمل بن کر سامنے آئی تو دیکھنے والے نے آصف کے ہندوستان کی وہ عبارت پڑھ لی جو آزادی اور بٹوارے کے بعد ہندوستان کی پیشانی پر آصف نے جلی حروف میں تحریر کیا تھا وہ یوں بیاں کی :

’’میں ہندوستان ہوں، ہمالیہ میری سرحدوں کا نگہبان ہے، گنگا میری پوِترتا کی َسوگندھ، تاریخ کی ابتدا سے میں اندھیروں اور اجالوں کا ساتھی ہوں اور میری خاک پر سنگِ مرمر کی چادروں میں لپٹی یہ عمارتیںدنیا سے کہہ رہی ہیں کہ ظالموں نے مجھے لوٹا اور مہربانوں نے مجھے سنوارا، نادانوں نے مجھے زنجیریں پہنا دی اور میرے چاہنے والوں نے انھیں کاٹ پھینکا۔میرے ان چاہنے والوں میں ایک انسان کا نام جلال الدین محمد اکبر تھا‘‘

ایسا نہیں ہے کہ امتیاز علی تاج کے ڈرامے پر آصف نے کوئی پہلی مرتبہ فلم بنانے کی ٹھانی بلکہ آصف سے پہلے بھی اس کہانی پر کئی فلمیں بن چکی تھیں۔نند لال جسونت لانے 1953میں ’ انارکلی‘ کے نام سے فلم بنا ڈالی۔زیادہ تر فلم سازوں نے محبت کی اس لازوال داستان کو ہی اپنی کہانی کا مرکز بنایا مگرکریم الدین آصف نے مغلیہ سلطنت کے عظیم شہنشاہ اکبرکو مرکز میں رکھ کر کہانی کے در و بست اس طرح سنوارے کہ انارکلی اور شہزادہ سلیم کے عشق کی داستان بھی رنگینی اختیار کر لے۔ڈرامے میں ان تبدیلیوں کے لیے اس نے اپنے وقت کے مشہور و معروف قلم کاروں کی ایک ٹیم لگا دی جس میںکمال امروہی،وجاہت میرزا چنگیزی، احسن رضوی اور امان صاحب جیسے لوگ شامل تھے۔اس کے علاوہ خودآصف بھی اس مکالمہ نگاری کی ٹیم کا حصہ تھے۔ان سب کی مشترکہ کوششوں سے فلم کی جو کہانی نکل کر باہر آئی اسے اگر ایک الگ ہی قسم کی کہانی کہاجائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی جس نے مغلیہ تاریخ کے بہت سے حقائق کو چیلنج کیا ہے۔شہزادہ سلیم، انارکلی، بہار، درجن سنگھ، سنگ تراش جیسے لازوال کردارتو تاریخ کی کترنوں سے نکل کرعوامی حافظے کا ایک ایسا حصہ بن گئے کہ جس کے نقوش کو مٹانا آسان نہیں ہے۔اس مرکب کہانی میں لیلیٰ مجنوں کی افسانوی داستان، رادھا کرشن کی پریم کتھا،راجہ دشرتھ کا کیکئی کو وچن،جہاں گیر کا انصاف،مہابھارت، الف لیلیٰ اور ہماری اساطیری کہانیوں کی زیریں لہریں ہمارے اوپر اس قدر اثر انداز ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں کہ ایسی کہانی بننے والا ابھی تک کوئی دوسرا شخص پیدا ہی نہیں ہوا ہے۔کہانی کی پرتوں کو اجاگر کرتے ہوئے راجکمار کیسروانی اپنی کتاب ’داستانِ مغلِ اعظم‘ میں ایک جگہ کہتے ہیں کہ :

’’ اوپر اوپر سے یہ ایک سہہ رخی عشقیہ داستان ہے جس میں باقاعدہ عاشق (شہزادہ سلیم) معشوق (انارکلی) اور رقیب  (بہار) جیسے کردار ہیں، لیکن کہانی میں اکبرِ اعظم کے کردار کوکہانی کے مرکز میں لا کر آصف نے کہانی کو ایک نیا نہج دے دیا ہے۔ محبت کی اس داستان میں نسلوں کی سناتن جد و جہد، ایک شہنشاہ کی شہنشاہ بن کر ہر چیز کو دیکھنے کی مجبوری اور ماں کی مامتا پر مہارانی جودھابائی کا مہارانی کے عہدے کو نچھاور کرتے جذبات، کہانی کو اپنے مقامِ عروج پر لے جاتے ہیں۔

 کے آصف نے امتیاز علی تاج کا شہرۂ آفاق ڈرامہ ’ انارکلی‘ کی کہانی کو ایک ایسی کہانی کے روپ میں تبدیل کیا جس میں مرکزی کردار انار کلی کی جگہ اکبرِ اعظم کو فوقیت دی اور تمام تر کہانی اسی کے ارد گرد تخلیق کی۔اس وقت کے دیگر ہدایت کاروں نے انارکلی بنائی جب کہ اسی کہانی پر آصف نے ’ مغلِ اعظم‘ بنائی جو ایک ایسی لازوال کہانی بن گئی جس کے بعد کوئی دوسری عشقیہ داستان جچتی ہی نہیں۔اگر چہ اس عہد کی عکاسی کے لیے اردو فارسی زبان کا خوب استعمال کیا گیا ہے جو کسی بھی صورت میں فلم بین پر قطعاً گراں نہیں گزرتی بلکہ عام فلم بین اس زبان کی چاشنی سے خوب لطف اندوز ہوتا ہے۔ فارسی اور اردو کے الفاظ و تراکیب، مثلاً تخلیہ، جنبش مکن، بنام تاجدارِ ہندوستان،ملکہء ذیشان، زینتِ تختِ ہندوستان مہارانی جودھابائی، شہزادہ نورالدین محمد سلیم وغیرہ عام قاری کے ذہن و دل پر نقش ہو جاتے ہیں۔ہر چند کہ یہ بڑے ہی ثقیل الفاظ و تراکیب ہیں لیکن مناظر میں استعمال ہو کر یہ اپنے معنی و مفہوم خود بہ خود بتا دیتے ہیں۔ اس فلم کا ایک ایک مکالمہ آج بھی عوام کے درمیان گردش کر رہا ہے۔کس مکالمہ نگار نے کون سا مکالمہ تحریر کیا ہے اس کابھی کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ہاں اس کی اسکرین پلے سے متعلق کئی دلچسپ معلومات ضرور ملتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ فلم کے ایک سین میں جب انارکلی کو زندہ دیوار میں چنوانے کا منظر لکھا جارہا تھا تو آصف نے سب کو کہا کہ کوئی ایسا مکالمہ تحریر کریں کہ جس سے کم الفاظ میں ساری باتیں کہہ دی جائیں تو سب اپنے اپنے انداز میں مکالمہ لکھ کر لائے آصف صاحب بہت ہی دلچسپی کے ساتھ سب کے ڈائیلاگ سن رہے تھے۔ آخر میں جب وجاہت مرزا کا نمبر آیا تو ان سے آصف نے پوچھا کہ آپ کیا لکھ کر لائے ہیں۔مرزا نے اپنے پاندان سے ایک پرچی نکالی اور کہا کہ اس منظر میں انارکلی محض ایک جملہ ادا کرے گی۔ سین کی وضاحت کرتے ہوئے وجاہت مرزا نے کہا کہ انارکلی پہلے شہنشاہ اکبر کو سلام کرے گی اور کہے گی

انارکلی:  یہ ادنیٰ کنیز جلال الدین محمد اکبر کو اپنا خون معاف کرتی ہے۔

اس جملے پر پورے کمرے کا ماحول مشاعرے جیسا ہو گیا ہر طرف سے داد و تحسین کی صدا بلند ہوئی اور سب نے اسی ڈائیلاگ پر اپنی ہامی بھر دی۔فلم کی کہانی کا انجام بھی بڑا دلچسپ ہے جس میں انارکلی کو زندہ دیوار میں چنے جانے کا حکم دیا جاتاہے مگر اکبر اپنے لاڈلے شہزادے سے تمام تر اختلافات کے باوجود، انارکلی کی شکل سے نفرت کے باوجود اس کی سزا میں تخفیف کر دیتا ہے اور اسے حکم دیا جاتا ہے کہ انارکلی مغل سلطنت کی خفیہ سرحدوں کو پار کر کے کہیں اور چلی جائے  اور یہ راز کہ انارکلی زندہ ہے ہمیشہ کے لیے ایک راز ہی رہ جائے تاکہ اس بات سے شہزادہ سلیم مطمئن ہو جائے کہ انارکلی  مر چکی ہے۔اکبر کے کردار کو عظیم اور اعلیٰ قدروںکا ایک  بڑا کردار بنا نے کے لیے آخر میں اکبر انارکلی سے کچھ اس طرح مخاطب ہوتا ہے کہ :

اکبر:      انارکلی ! جب تک یہ دنیا قائم رہے گی تم  لفظِ محبت کی آبرو بن کر زندہ رہو گی... اور مغلوں کی تاریخ تمھارا یہ احسان یاد رکھے گی کہ تم نے بابر اور ہمایوں کی نسل کو نئی زندگی دی۔ لیکن ہم تمھیں ایک گم نام زندگی کے سوا کچھ بھی نہیں دے سکتے۔ہم مجبور ہیں۔ بخدا ہم محبت کے دشمن نہیں اپنے اصولوں کے غلام ہیں، ایک غلام کی بے بسی پر غور کروگی تو شاید تم ہمیں معاف کر سکو۔‘‘

حواشی

1        راج کمار کیسوانی، داستانِ مغل اعظم(ہندی)، منجُل پبلشنگ ہاؤس، بھوپال، 2020

2        امتیاز علی تاج، انارکلی، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 1997(تیسرا ایڈیشن

3        مغلِ اعظم(فلم)، ہدایت کار  کے آصف، 1960

 

Muntazir Qaimi

Dept of Urdu

Fakhruddin Ali Ahmad Govt P G College

Mahmudabad (Awadh)

Sitapur - 261203 (UP)

Mob.: 8127934734

muntazirqaimi@gmail.com

عبد الغنی شیخ کے افسانوں میں لداخ کی تہذیب و معاشرت، مضمون نگار: محمد شریف

 اردو دنیا، جنوری 2025

اردو زبان و ادب کے معروف محقق، تاریخ داں، افسانہ نگار، ناول نگار، انشاپرداز، سوانح نگارعبدالغنی شیخ مختصر علالت کے بعد 20 اگست 2024 کو سری نگر میں اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کو چ کر گئے۔ان کی وفات واقعی یہاں کی ادبی دنیا کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔عبدالغنی شیخ کا نام اردو زبان وادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔وہ مقامی،ملکی اور بین الاقوامی سطح کے جانے مانے قلمکار اور درجنوں کتابوں کے مصنف کے ساتھ ساتھ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ وہ جموں و کشمیر اور لداخ کی سرحدوں سے باہر بھی علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اردو کی بقا اور لداخی تہذیب کی بازیافت کے لیے وقف کر دی تھی۔

عبدالغنی شیخ کی مختصر کہانیاں لداخ کے ثقافتی، سماجی اور سیاسی منظر نامے کو بڑے دلنشیں اور متاثر کن انداز میں پیش کرتی ہیں۔ ان کی تحریریں عموماً شناخت، روایت اور تبدیلی جیسے موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں، جن کے ذریعے لداخی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بہت گہرائی سے بیان کیا جاتا ہے۔ عبدالغنی شیخ کی مختصر کہانیوں کے ذریعے نہ صرف لداخ کے ثقافتی ورثے کو محفوظ کیا گیا ہے بلکہ اسے وسیع دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے، جس سے روایت اور جدیدیت کے درمیان پل بنایا گیا ہے۔ عبدالغنی کے افسانوں کے تجزیے سے اس بات کا انکشاف بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے کتنی باریک بینی سے اپنے علاقے کی چھوٹی چھوٹی اور اہم باتوں کو پیش کرکے اردو زبان و ادب کے قارئین کو اپنی تہذیب و معاشرت سے روشناس کرایا ہے۔

عبدالغنی شیخ 5مارچ 1936کولداخ کے ضلع لیہہ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام قادر شیخ اور والدہ کا نام ساجدہ بیگم تھا۔ ابتدائی تعلیم لہیہ کے مقامی اسکول سے حاصل کی۔ میڑک کا امتحان بھی اسی اسکول سے سکینڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ جب 1951میں اس اسکول کا درجہ مڈل سے ہائی اسکول کیا گیا تو وہ لیہہ ہائی اسکول کے پہلے میڑک پاس طالب علم کہلائے۔ اس کے بعد عبدالغنی شیخ نے کشمیر یونیورسٹی سے1960ادیب فاضل اور بی اے آنرس کے امتحانات امتیازی پوزیشن کے ساتھ پاس کیے۔  1975 میں راجستھان یونیورسٹی سے ایم اے ہسٹری کی سند حاصل کی۔علاوہ ازیں انھوں نے انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن دہلی سے صحافت میں پانچ ماہ کی ٹریننگ بھی حاصل کی۔

عبدالغنی شیخ نے میڑک کا امتحان پاس کر نے کے بعد ڈیڑھ ماہ کے لیے بطور کلرک کی نوکری اختیار کی اور پھر  1952میں سرینگر میں ویٹرنری اسٹاک اسسٹنٹ کی ٹریننگ حاصل کرنے چلے گئے۔ وہاں ایک سال تک قیام کیا۔ 1954میں انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اینمل ہسبنڈری میں بحیثیت اسٹاک اسٹنٹ کیا۔

 1958کو عبدالغنی شیخ کا بطور ہیڈ ماسٹر ضلع لیہہ کے ایک گاؤں تمسگام میں تقرر ہوا جہاں انھوں نے تقریبا چار سال تک اپنے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد لیہہ میں ان کا تبادلہ ہوااورلیہہ اسکول میں ایک سال قیام کے بعد ان کی تقرری لیہہ کے مرکزی فیلڈ پبلسٹی محکمہ میں بطور فلیڈ پبلسٹی آفیسر ہوئی۔اس کے بعدانھوں نے1970میں پریس انفار میشن بیورو سرینگر میں بطور انفار میشن اسسٹنٹ جوائن کیا۔اس کے علاوہ وہ دوسرے عہدوں پر بھی فائزہ رہے۔20 نومبر 1992قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر اسلامیہ پبلک ہائی اسکول لیہہ میں بطور پرنسپل کام کیا۔

عبدالغنی شیخ کو بچپن سے ہی علم و ادب کا ذوق تھا اور بچپن سے مطالعہ ان کا مشغلہ بن چکا تھا۔ ساتویں جماعت میں انھوں نے کچھ نظمیں لکھیں اور ’پیام تعلیم ‘ میں پہلی بار ان کا لطیفہ چھپا جس سے استادوں کی طرف سے کافی داد ملی۔1957میں عبدالغنی شیخ کی پہلی کہانی ’لوسر اور آنسو‘ماہنامہ ’دیش‘ سرینگر میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ اسی سال لڑکیوں کے لیے ایک ڈراما ’جھانسی کی رانی‘ کے عنوان سے بھی لکھا۔ گاندھی جی کی صدسالہ برسی پر گاندھی جی کی حیات اور کارناموں پر ان کے پیش کردہ مسودے پر کلچرل اکادمی نے انھیں انعام سے نوازا۔1971میں ان کی ایک اور کہانی ’مسکراہٹ  ہمارا ادب میں شائع ہوئی۔جس کابعد میں انگریزی اور ہندی میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔

عبدالغنی شیخ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں وہ بہ یک وقت مورخ، تبصر ہ نگار، سوانح نگار، خاکہ نگار، ناول نگار، افسانہ نگار، ادیب ہونے کے ساتھ فلسفہ تعلیم پر نظر رکھنے والے کی حیثیت سے ادبی دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ ایک  طرف انھوں نے اردو فکشن کو ایک نیا روپ دیا تو دوسری طرف لداخ کی تاریخ کو زندہ رکھنے میں اہم کارنامہ انجام دیا۔جان محمد آزاد عبدالغنی شیخ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

 ’’عبدالغنی شیخ لداخ کی دشت و سنگ سنسان برفانی سر زمین کی پیدا وار ہیں۔آپ کا بچپن اور لڑکپن لیہہ اور اس کے آس پاس کے اسی ماحول میں گزرا۔ آپ نے زوجیلا کے اس پار رہنے والے جفا کش اور تیرہ نصیب لوگوں کے درد کو اپنے وجود میںتحلیل کیا اور اپنے افسانوں اور ناولوں میں اس کا بھر پور اظہار کیا۔

(جان محمد آزاد: جموں و کشمیر کے اردو مصنفین، عبدالغنی شیخ، میکاف پرنٹرس دہلی، 2004، ص 203)

عبدالغنی شیخ نے لداخ کے حوالے سے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں’لداخ: تہذیب و ثقافت، لداخ کی سیر،  لداخ محققوں اور سیاحوں کی نظر میں، دو را ہا، زوجیلا کے آرپار، ایک ملک دو کہانی، وہ زمانہ، دل ہی تو ہے وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اردو دنیا کو لداخ کی تاریخ، ادب، طرز معاشرت،رسم و رواج، رہن سہن سے واقف کرانے میں عبدالغنی شیخ نے اہم کرار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوںنے گزشتہ آدھی صدی سے زیادہ مدت سے لداخ میںاردو ناول اور افسانے کی شمع روشن رکھی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے افسانے، ناول، تنقید، تاریخ، خاکے، ادبی اور علمی مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کی تخلیقات اور مضامین اردو کے مختلف رسائل آجکل، شمع، بیسویں صدی، شاعر، بانو، اردو دنیا، ایوان اردو، ہمارے ادب، شیرازہ، تعمیر،جد ید فکرو فن، سبق اردو، پمپوش، دیش وغیرہ میں شائع ہوئے ہیں۔ جان محمد آزاد نے اپنی کتاب ’جموں و کشمیر کے اردو مصنفین‘  میں عبدالغنی شیخ کے بارے میں یوں تحریر کیا ہے :

’’پچھلی ایک دہائی کے دوران عبدالغنی شیخ نے ادیب کے علاوہ لداخیات کے ایک مقتدر محقق کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کی ہے۔ اس دوران آپ کے افسانے اور کہانیاں ملک کے کثیر الاشاعت رسا ئل میں شائع ہو ئیں۔ شمع (دہلی) میں آپ کے نصف درجن افسانے شائع ہوئے۔ آپ کے فن میں اب خون جگر کی نقش گری صاف جھلکتی ہے آپ کی اختصار پسندی اور قطعیت آپ کے فن کی دو بڑی خصوصیات ہیں۔ادھر لداخ کے کلچر اور اس کی تاریخ پر آپ کے درجنوں مضامین پابندی سے ’شیرازہ‘ اور ’تعمیر‘ میں  شائع ہوتے رہے ہیںان مضامین کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ لداخیات کے موضوع پہ ایک اتھارٹی کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔‘‘

(جان محمد آزاد: جموں و کشمیر کے اردو مصنّفین، عبدالغنی شیخ، میکاف پرنٹرس، دہلی 2004، ص 206)

 عبدالغنی شیخ نے لداخ جیسے بر فیلے علاقے میں اردو کے افسانوی ادب کو زندہ رکھا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں لداخ کے اطراف میں بکھری ہوئی زندگیوں سے اپنے افسانوں کا تانابانا تیار کیا ہے۔ وہ یہاں کے باشندوں سے متعلق واقعات کو ایک نئے انداز سے پیش کر کے لداخ جیسے علاقے کی تہذیب و ثقافت اور یہاں کی زندگیوں کے نہ صرف مختلف رنگوں سے اردو دنیا کو روشناس کراتے ہیں بلکہ خود لداخ جیسی سنگلاخ زمین پر اردو کی آبیاری بھی کر رہے ہیں۔نور شاہ لکھتے ہیں:

’’ عبدالغنی شیخ کا سب سے بڑا کارنامہ  یہ ہے کہ انہوں نے لداخ جیسے برفیلے علاقے میں اردو افسانوی ادب کو زندہ رکھا اوراپنے افسانوں میں لداخ کے اطراف میں بکھری ہوئی زندگی اور زندگی سے وابستہ ان گنت واقعات اور حالات کو منفرد انداز سے سمیٹا اور پیش کیا۔‘‘

(نورشاہ: جموں وکشمیر کے اردو افسانہ نگار، میزان پبلشرز، سری نگر، کشمیر، 2011، ص 87)

ان کے تین افسانوی مجموعے زوجیلا کے آرپار (1975)، دوراہا (1993) وغیرہ شائع ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں۔ جن میں شامل بیشتر افسانے لداخ کی تہذیب و معاشرت کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔

عبدالغنی شیخ نے اپنے آس پاس رونما ہونے والے واقعات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے کلچر اور تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔ افسانہ ’مسکراہٹ‘ میں عبدالغنی شیخ نے لداخی ماحول اور منظر نگاری کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیاہے۔ افسانے کی کہانی دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے  جو ایک ہی محلے کے دو کردار صنم اور انگموں ہیں۔ انگموں تہوار میں شرکت کے لیے سہلیوں کے ہمراہ جیپ میں گنپہ جا رہی تھی۔ تو صنم انگموں کو دیکھتے ہی اس سے پیار کرنے لگتا ہے۔ عبدالغنی شیخ اس کہانی میں لداخ کے پہاڑ، سڑک،برف اور گنپہ وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 ’’جیپ باد صبا کے ایک مہکتے جھونکے کی طرح اس کے سامنے سے گزری اور صنم دل تھام کر رہ گیا۔ اس جیپ میں انگموں اور اس کی ہمجولیاں تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف بچے بالے، مرد، عورتیں خوبصورت اور نئے کپڑوں میں ملبوس پیدل میلہ دیکھنے جا رہے تھے۔جیپ اب پہاڑی کے دائیںجانب مڑی اور اس کی نظروں سے اوجھل ہوئی۔دور آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مخروطی چوٹیاں برف کا سفید لبا دہ اوڑھے صبح کی خنک دھوپ میں نہا رہی تھیں۔ زیر مرمت تارکول کی سڑک چھوڑ کر جیپ ریتیلے راستے پر آئی اور دھول کا ایک مرغولہ اٹھااوبڑ کھا بڑ راستے پر تھوڑی دیر ڈگمگاتی لڑکھڑاتی ہوئی پھر تارکول کی سڑک پر آئی... ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ گنپہ(خانقاہ)پہنچا۔چھتوں کے چھجوں،جھروکوں، کشادہ دیواروں اور آنگن کے ارد گرد ہزاروں مرد ،عورتیں، بچے بالے وسیع صحن میں ہونے والے دیو مالی رقص سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ‘‘

(عبدالغنی شیخ: زوجیلا کے آرپار، کشمیر مرکنٹائل پریس، ریذیڈنسی روڈ، سرینگر،1975، ص 9)

مذکورہ افسانے میں عبدالغنی شیخ نے جہاں ایک طرف لداخ کے کلچر کو نمایاں کیا ہے وہیں دوسری طرف لداخ کے گنپہ اور ستوپا کو بھی اجاگر کیا ہے۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

 ’’ایک مرتبہ انگموں دریچے سے غائب ہوئی۔ وہ دھکم دھکا کھاتا ہوا جلدی سے گنپہ کے عقب میں آیا اوردروازے کے پاس آکر کھڑا ہوا... زیوارت میں چمچماتی ہوئی عورتیں آجارہی تھیں، لیکن انگموں ان میں نہیں تھی۔سامنے ستوپا کے نیچے آدمی شراب پی رہے تھے۔ ‘‘ (ایضاً، ص 11)

لداخ قدیم زمانے سے کھیل تماشوں، میلوں اور تہواروں کے لیے مشہور رہا ہے۔ لوسر لداخ کا ایک اہم تہوار ہے۔ جو بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ افسانے ’ لوسر اور آنسو ‘ میں عبدالغنی شیخ نے لداخ کی تہذیب و معاشرت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ لوسر لداخیوں کا سالانہ تہوار ہوتا ہے۔ افسانے کی شروعات لوسر تہوار کے دن کی ٹھنڈی شام سے ہوتی ہے۔ ہرطرف لوگ خوشیاں مناتے ہیں۔ ملاحظہ کریں اقتباس:

’’ لوسر کی سہانی اور ٹھنڈی شام تھی۔ لڑکے، لڑکیاں خوش آئندآوازوں میں مَد ھر گیت گاتے ہوئے دیپ جلا رہے تھے۔

(بولو! بولو! خرلا بولو! سنگیس لابولو! چھوس لابولو! لامالا بولو! بولو!بولو!) ترجمہ: (اے دیپ جلو!اے دیپ جلو!محل کے حضور میں دیپ جلو!بْدھ حضور میں دیپ جلو! دھرم کے حضور میں دیپ جلو!عابد کے حضور میں دیپ جلو!اے دیپ جلو!اے دیپ جلو)مکانوں کی چھتوں اور بالاخانوں کے دریچوں پر دیپوں کی قطاریں جگ مگ جگ مگ کر رہیںتھیں۔ بازار میں بچوں، بوڑھوں،جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا جم غفیر تھا۔جہاں سے بے ہنگم شور و غل کی آوازیں آرہی تھیں۔ کچھ کچھ لمحے کے بعد نوجوان لڑکے اور بچے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے گھٹے لہراتے اور ہشا لاہشا کی صدائیں بلند کرتے ہوئے کوچوں سے نمودار ہوتے اور بازار روشنی سے جگمگا اٹھتا۔کبھی کبھی فضامیں آتش بازیاں چھوٹ پڑتیں جن سے ان گنت جگنو کی طرح چمکتی ہوئی آگ کی پنکھڑیاں زمین پر جھل جاتیں۔گاہے گاہے کسی بلاخانے کی چھت سے سوز اور مدھ میںڈولی ہوئی شہنائیوں کی آوازیں بلند ہوتیں۔ ‘‘ (ایضاً، ص 35)

عبدالغنی شیخ نے لداخ کی سر زمین میںآنکھ کھولی اور یہاں کے لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے احساسات و جذبات کی ترجمانی اپنے افسانوں میں کی ہے۔مذکورہ افسانے میں انگموں کے جذبات کو فنی مہارت سے پیش کرتے ہوئے یہاں کے چولہا، لوسر، پہاڑ اور ڑیمو گنپہ کو بھی نمایاں کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

 ’’آہ!اس سال لوسر کتنی کٹھنائیاں اور اداسیاں لے کر آیا۔ وہ سوچنے لگی۔پچھلے سال لوسر کے موقعے پر اس کی ماں زندہ تھی۔ اس کا شوہر گھر پر تھا۔ شوہر کا ایک دوست بھی تھا۔اور اس کی اپنی چہیتی سہیلی حمیدہ بھی گھر پر تھی۔اس دن گھر پر اچھے اچھے کھانے پکے تھے۔ لیکن اس سال ابھی تک چولہا ٹھنڈاپڑا تھا... پہاڑی پر واقع محل کے دریچے کی قندیلیں ہوا کے جھونکوں سے لرز رہی تھیں اوربلند ترین چوٹی پر واقع ڑیمو گنپہ تاریکی میں مستور تھا۔شمعوں کی چمکتی ہوئی ایک لمبی زنجیر اس کے وجود کی نشان دہی کر رہی تھی۔ ‘‘(ایضاً، ص 35)

افسانے ’آرزوئیں‘ لداخی تہذیب و ثقافت، تاریخ، رہن سہن اور لداخیت کے حوالے سے عبدالغنی شیخ کا ایک اہم افسانہ ہے۔اس کہانی کا کردار ’ کنزیز‘  ہے جو اپنی سہیلیوں نیما اور پدما کے ہمراہ من میں ایک بھائی کی تمنا لے کر سنگر گنپہ جاتی ہے۔کیونکہ بودھی مذہب میں پہلے ماہ کی پندرھویں اور سولہویں تاریخ ہر کسی کے لیے ایک خوش خبری لے کر آتی ہے۔اس لیے کنزیز بھی اپنی رسم کے مطابق ساری چیزیں لے کے مختلف گنپہ اور مندر میں جاکربڑے ادب سے نذرانہ پیش کرتی ہے اور بڑیلاما سے تعویذحاصل کر کے گھر واپس آتی ہے۔

اس کے علاوہ مذکورہ افسانے میں لداخ کی عورتوں کے روزمرہ گھریلو کام، پیرق، ڑیمو کی چوٹی، گنپے وغیرہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ جو لداخ کی قدیم تہذیب کے ورثے ہیں۔اقتباس ملاحظہ کریں:

’’پندرھویں تاریخ کو کنزیز کی آنکھ بہت سویرے کھلی۔ کپڑے لتّے لگا کر بستر تہ کیا اوراپنے روزمرہ کے کام میں لگ گئی۔سب سے پہلے مٹی کا گھڑا اٹھائے نالے پر پانی لینے چلی۔تب تک ماں چولہا پھونکتی رہی۔ پھر کمرے سے دروازے تک صفائی کی طاق پر رکھے ہوئے کٹوروں اور تھالیوں کو صاف کرنے لگی،یہ اس کا روز کا کام تھا۔جو وہ کسی دوسرے پر چھوڑ نہیں سکتی تھی۔ وہ اپنا کام پھرتی سے کر رہی تھی کیونکہ آج اس کو مقدس تیرتھوں کی یا تراکرنی تھی۔یہ سب مقدس تیرتھ اس کے گھر کے ایک میل کے فاصلے کی حدود میںتھے۔‘‘

(عبدالغنی شیخ: زوجی لا کے آرپار، افسانہ: آرزوئیں، کشمیر مرکنٹائل پریس، ریذیڈنسی روڈ، سرینگر، 1975ص، 73-77)

 ’آزمائش ‘ عبدالغنی شیخ کا لداخی تہذیب کے پس منظر میں لکھا گیا ایک رومانی افسانہ ہے۔اس میں لندن کی ایک لڑکی ’میری ‘ اور لداخ کا ایک لڑکا ’حامد ‘ کے درمیان محبت کی داستان کو پیش کیا گیا ہے۔میری لداخ میں آکرحامد سے لداخی زبان سیکھنا چاہتی تھی اور حامد میری سے انگریزی لب ولہجہ کو درست کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے اور ان کی ملاقاتیں روز کا معمول بن گئیں۔ ایک روز میری حامد سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے تو حامد میری سے کہتا ہے کہ میرا گاؤں لیہہ سے بالکل بدتر ہے۔ جہاں نہ کوئی سڑک،بجلی،رسٹوران،ریڈنگ روم وغیرہ ہے۔یہاں مصنف نے لداخ کے لیہہ شہر اور گاؤں میں رہنے والے لوگوں کا تقابل کر کے لداخی رہن سہن،ان کے کچے مکانات کے علاوہ ان کی زندگی کی مشکلات کو بھی نمایاں کیا ہے۔اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’حامد رُک رک کر بولنے لگا، لیکن تم نہیں جانتی میری، جہاں میں رہتا ہوں وہ جگہ لہیہ سے بالکل بدتر ہے۔لہیہ میں سیاحوں کی آمد کی وجہ سے بڑی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ یہاں موجودہ زمانے کی ساری بنیادی سہولتیںمیسر ہیں۔لیکن میرے گاؤں میں ابھی کوئی سہولیت نہیں، کوئی ریستوران نہیں، کوئی ریڈنگ روم نہیں، یہاں تک کہ بجلی بھی نہیں۔ دھول گرد، ریت میرے گاؤں کے تحفے ہیں۔گاؤں تک سڑک بھی نہیں جاتی۔ چنانچہ سنگ ریزوں اوردھول سے اٹی ہوئی چار کلو میٹر لمبی ایک ڈھلوان پگڈ نڈی پیدل طے کرنے کے بعد ہم اپنے گھر پہنچتے ہیں۔تو کیا ہوا؟ میری نے بیچ میں بات کاٹ دی۔ ہم کچے مکانات میں رہتے ہیں،جن کی نچلی منزل میں گائے کا تھان اور بھیڑ بکریوں کا باڑا ہوتا ہے۔کوئی ڈرائنگ روم نہیں، کوئی باتھ روم نہیں۔ ‘‘ (ایضاً، ص 73)

عبدالغنی شیخ کے بیشتر افسانے لداخ کی تہذیب و معاشرت کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ لداخ میں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کے بیچ میں کئی میلوں کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی مسافر دن  بھر سفر کرنے کے بعد شام کو اگر اپنی منزل پر نہیں پہنچتا تو پاس کے گاؤں میں بلا جھجک کسی بھی گھر کے در پر دستک دیتے ہیں اور مسافر جس در پر بھی جاتا ہے اس گھر کے افراد خا نہ خوش اسلوبی کے ساتھ مہمان کے استقبال کے لیے ’دیا‘ لیے ہوئے دروازے تک آجاتے ہیں، کیونکہ اس وقت آج کی طرح بجلی نہیں تھی۔افسانہ ’ایک رات‘ میں ایک مسافر کے استقبال کا منظر ملاحظہ فرمائیں:

’’کون ہو ؟میں ایک پردیسی ہوں۔ایک رات کے لیے پناہ چاہتا ہوں۔ ایک جوان مردانہ آواز نے جواب دیا۔تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ نیم تاریکی میں دس بارہ سال کے چھوٹے لڑکے نے ٹمٹماتا ’دیا‘  دکھاتے ہوئے کہا۔ پردیسی اندر آجائیے۔ وہ چپکے سے پیچھے ہو لیا۔کمرے میں الاؤ جل رہا تھا۔ اس کے گرد ایک خاتون،چھ سات سال کا ایک گول مٹول بچہ اور ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی۔پردیسی نے اطمینان کا گہرا سانس لیا اور الاؤ کے قریب جنگلی ہرن کی کھال پر بیٹھ گیا۔‘‘

(عبدالغنی شیخ: دو ملک ایک کہانی، افسانہ: ایک رات، یاسمیں، فورٹ روڈ لیہہ، لداخ، 2015ص، 27)

لداخ ایک ٹھنڈا علاقہ ہے یہاں سال کے بیشتر مہینے سردی کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔ گرمی کا موسم مشکل سے تین مہینے ہوتا ہے لیکن ان دنوں میں بھی رات کو ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ اس لیے جب تک رات میں ایک کمبل کے اوپر رضائی نہ اوڑھے تو نیند بھی آرام سے نہیں آتی۔اس لیے یہاں مہمان کو سب سے پہلے سردی سے راحت پہنچانے کا بندوبست کر نے کے لیے چولھے میں آگ روشن کرتے ہیں یا اگر پہلے سے آگ لگی ہے تو اس میں مزید لکڑیاں ڈال دی جاتی ہیں،تا کہ مہمان کو راحت محسوس ہو۔افسانہ ’ایک رات‘میں مہمان کی خاطر مدارات کرتے ہوئے عورت کہتی ہیں:

’’قریب آجاؤ بیٹا، ٹھیک طرح سے آگ تاپنا۔ عورت بولی اور بڑے لڑکے سے مخاطب ہو کر کہا۔داوا! ان کو کمبل اوڑھانا اور لڑکی سے بولی، تم باہر سے سوکھی لکڑیاں لانا۔ بڑے لڑکے نے پردیسی کے پیچھے کمبل اوڑھا دیا۔ شاباش بھئی داوا۔ آج بڑی سردی لگی۔ نوجوان بے تکلفی سے بولا اور چھوٹے بچے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر بچوں کی ماں سے مخاطب ہو کر کہا۔ آپ کے بچے بڑے پیارے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص 28)

افسانہ’منظر نامہ‘ میں عبدالغنی شیخ نے لداخی شادی کے رسم و رواج کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ لداخ میں شادی عام طور پر اکتوبر ،نومبر میں ہی منعقد ہوتی ہے، کیونکہ لداخ میں کوئی فنکشن ہال یا اس طرح کی کوئی مخصوص جگہ نہیںہے۔ اس لیے شادی کی تقریب کا اہتمام اگست میں فصل کاٹنے کے بعد ہی کسی کھیت میں مرد اور عورت دونوں کے لیے الگ الگ شامیانے لگائے جاتے ہیں۔اسی طرح باقی رسومات کو بھی انھوں نے اپنے افسانے میں پیش کیا ہے۔لداخ کی شادی کی رسومات وغیرہ میں بھی کافی تبدیلی آئی ہے۔

عبدالغنی شیخ کاامتیاز یہ ہے کہ انھوں نے زبان و بیان کی آرائش و زیبائش سے بلند ہو کر اپنے عہد کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی حالات کو گہرے شعور کے ساتھ سادہ، سلیس اور فطری اسلوب میں ایسی کہانیاں لکھیں جو اپنے عہد کی حقیقتوں کو سامنے لاتی ہیں۔

عبدالغنی شیخ نے لیہہ،کرگل اور دراس جیسے لداخ کے اہم مقامات کو اپنی کہانیوں میں پیش کیا ہے۔ مذکورہ افسانے میں وہ کرگل، دراس اور بٹالیک کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’صدیوں پہلے جب سیمان کرگی نے دریائے سورو کے کنارے واقع یہ ویران جگہ اپنے بسنے کے لیے انتخاب کی۔سیمان کرگی اپنے دو بھائیوں اور برو رکے ہمراہ قدیم زمانے میں گلگت سے نقل مکانی کر کے جب یہاں پہنچا تو یہ جگہ پسند آئی اور یہاں بس گیا۔ اپنے نام پر اس جگہ کا نام کرگی رکھا جو بعد میںبگڑ کر کرگل بن گیا۔ پوئنی نے دریاپار اپنی بستی بسائی  اور اسی کے نام  کی نسبت سے یہ جگہ پوئنی کہلائی جو بعد میں کثرت استعمال سے پوئن بن گیا۔ تیسرا بھائی برور پیچھے نہیں رہااس نے کرگل کے پاس ایک نئی جگہ آباد کی جو برور کہلایا اور آج بارو کے نام سے جانا جاتا ہے۔کرگل کے اکثر دفاتر یہاں ہیں۔ کرگل کے ایک طرف دراس ہے تو دوسری طرف بٹا لیک ہے۔یہاں کے باشندوں کے آباو اجداد بھی صدیوں پہلے گلگت اور اس کے نواحی علاقوں سے آئے تھے۔ ‘‘

(عبدالغنی شیخ: دو ملک ایک کہانی، افسانہ پہلا خط، یاسمیں، فورٹ روڈ لیہہ، لداخ، ص 206)

عبدالغنی شیخ کے دیگر افسانے بھی لداخ کی تہذیب و معاشرت  کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور سے بزدل، بیوقوف، پاگل، مسکراہٹ، آزمائش، راز دل، یادیں، بدلاو ، کھودا پہاڑ، نکلا چوہا ، دل ہی تو ہے، مسافر، مرنا تیری گلی وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے افسانے اور کردار لداخی تہذیب و معاشرت کی روایت کو ابھارنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ عبدالغنی شیخ کے افسانوں میں لداخ کے حالات، واقعات،ماحول اور معاشرے کے مسائل پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔جن کو انہوں نے بڑی دیانت  داری کے ساتھ پیش کیا ہے۔

 

Dr. Mohd Shareef

Assistant  Professor, Dept. of Urdu

Government Degree College

Kargil- 194105 (Ladakh )

Mob.: 8899238784

Email: shareef.sharifi786@gmail.com

27/2/25

لکھنؤ کے عمارات و باغات، ماخذ: قدیم لکھنؤ کی آخری بہار، مصنف: مرزا جعفر حسین

 اردو دنیا، جنوری 2025

لکھنؤ کو باغوں اور مرغزاروں کا شہر کہا جاتا تھا۔ فرمانروایانِ اودھ کو خوش نما باغات لگانے اور بلند و بالا، حسین و جمیل، مستحکم و استوار عمارتیں بنوانے کا بہت شوق تھا۔ آصف الدولہ نے لکھنؤ آتے ہی اپنے عالیشان محل موسومہ’دولت خانہ‘ میں اقامت فرمائی تھی۔ یہ محل مچھی بھون قلعہ کے نزدیک تیار کرایا گیا تھا۔ مچھی بھون کا قلعہ مسمار ہو گیا لیکن ’دولت خانہ‘ در و دیوارِ شکستہ کی شکل میں اب تک موجود ہے اور شیش محل کے نام سے موسوم ہے۔ اس محل کی عظمتِ پارینہ کے نشانات بیسویں صدی کی دوسری دہائی تک موجود تھے جن کو دیکھنے اور نوابانِ شیش محل کے درباروں میں شرکت کرنے کا شرف صدہا مرتبہ راقم کو حاصل ہوا تھا۔ نوابانِ شیش محل کے مورثِ اعلیٰ نواب حکیم مہدی کو غازی الدین حیدر کے دربار میں تقرب حاصل تھا۔ ان کا محل چار باغ میں اس مقام پر تھا جہاں آج ریلوے اسٹیشن موجود ہے۔ اس اسٹیشن کی تعمیر کے لیے حکیم مہدی کی املاک حاصل کی گئی تھی اور بالعوض شیش محل دیا گیا تھا۔ یہ محل دولت خانۂ آصفی کاایک حصہ تھا۔ اس کے کھنڈرات اب بھی پرانی عظمتوں کی یاد دلاتے ہیں اور نوابانِ شیش محل کے ورثا اسی میں آباد ہیں۔ ذی مقدرت حضرات اپنے اپنے مقام ہائے سکونت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

آصف الدولہ کو سیر و شکار کا شوق تھا۔ اس ذوق کی آسودگی کے لیے انھوں نے ببیا پور میں ایک محل بنوایا تھا اور چنہٹ میں ایک کوٹھی موسومہ نزہت بخش تعمیر کرائی تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل تک ان عمارتوں کے آثار موجود تھے۔ امتدادِ زمانہ سے ان پر کیا گزری اور اب کیا حالت ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ اس جلیل القدر حکمران کی ممتازِ زمانہ یادگاریں بڑا امام باڑہ اور رومی دروازہ اب تک موجود ہیں۔ آصف الدولہ اپنے اسی امام باڑے میں مدفون ہیں اور ان کی قبر اب تک زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ پچاس ساٹھ برس قبل تک ہم لوگ برابر وکٹوریہ پارک گھومنے کے لیے جاتے تھے اور اسی دوران اس امام باڑے کی زیارت کے لیے رومی دروازے سے گزرتے ہوئے جایا کرتے تھے۔ یہ شوق زیارت اس لیے زیادہ تھا کہ اس زمانے میں امام باڑے پر زبوں حالی طاری ہونا شروع ہو گئی تھی۔ جدید اصلاحات کے بعد اب اس کی حالت سدھر گئی ہے اور یہ عدیم المثال عمارتیں اپنی فنکاری و صنعت کاری کی عظمتوں سمیت برقرار ہیں۔ آصف الدولہ کے زمانے کا ایک باغ موسومۂ عیش باغ بھی تھا جس کی تعریفیں راقم نے اپنے بزرگوں سے سنی تھیں لیکن اب وہاں ایک بڑا محلہ آباد ہے اور اسی کے وسط میں چھوٹی لائن کا ریلوے اسٹیشن تعمیر ہے جو ایک زمانے میں بڑی اہمیت کا مالک تھا۔ یہ اہمیت اس ریلوے لائن کے چار باغ تک بڑھ جانے کے سبب سے بہت کم ہو گئی ہے۔

اسی زمانے کی یادگاریں لامارٹینر کی عمارتیں بھی ہیں جن میں مارٹن صاحب کی کوٹھی عجائبات میں شمار کی جاتی تھی۔ آصف الدولہ کو یہ عمارات اتنی پسند آئیں کہ انھوں نے فی الفور خریداری کا ارادہ کر لیا تھا لیکن قیمت کے سلسلے میں ہنوز گفتگو جاری تھی کہ نواب کا انتقال ہو گیا۔ مارٹن کی یادگار لامارٹینر کالج انگریزوں کے زمانے میں اپنے شباب پر تھا اور بڑی شہرت کا مالک تھا۔ عمارتوں کی داشت و پر داخت بھی توجہ سے ہوتی تھی لیکن پہلی سی توجہ اب نہیں ہے۔

سعادت علی خاں نے اپنے دورِ اقتدار میں غالباً تعداد کے اعتبار سے بہت زیادہ عمارات بنوائی تھیں خود اپنی اقامت کے لیے فرحت بخش اور حیات بخش کوٹھیاں تعمیر کرائی تھیں جو اب بھی چھوٹی چھتر منزل اور موجودہ ہائی کورٹ کی عمارت کے درمیان موجود ہیں۔ لال بارہ اپنے دربار کے لیے تعمیرکرائی تھی اور ٹیڑھی کوٹھی انگریز ریذیڈنٹ کی سکونت کے لیے بنوائی تھی۔ غدر کے بعد یہ عمارات بھی انگریزی حکومت کے قبضے میں آ گئی تھیں فرحت بخش اور متعلقہ عمارات میں اب محکمہ صحت کے ڈائرکٹر کا مرکز اور دیگر دفاتر ہیں، ٹیڑھی کوٹھی میں چیف کورٹ آف اودھ کے چیف جج رہا کرتے تھے لیکن اب وہاں ٹرانسپورٹ کے دفاتر ہیں اور پرانی ہیئت بالکل نظر نہیں آتی۔ ان عمارات کے علاوہ سعادت علی خاں نے دریا پار دل آرام کوٹھی ، دلکشا کوٹھی تعمیر کرائی تھی اور موتی محل کی اصل عمارت بھی انھیں کی حیات میں مکمل ہو چکی تھی۔ دل آرام کوٹھی اور دلکشا کوٹھی کے نمایاں آثار میرے عنفوان شباب تک موجود تھے۔ ممکن ہے کہ دلکشا میں اب بھی کچھ کھنڈرات نظر آ جائیں لیکن اب وہاں پورا محلہ آباد ہے اور ایک بڑی کالونی بن گئی ہے۔ موتی محل کی تکمیل غازی الدین حیدر نے کر دی تھی او ریہ مقام اب بہت اچھی حالت میں ہے۔ عمارات میں اضافے ہوئے ہیں اور باغ بھی اچھی حالت میں ہے تو اس کا رقبہ بہت کم ہو گیا ہے۔

متذکرہ بالا عمارات کے علاوہ کوٹھی نور بخش اور خورشید منزل بھی سعادت علی خاں ہی کی طرف منسوب تھیں اور چار باغ بھی انھیں کا لگوایا ہوا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک دوسرے سے متصل چار باغ تھے اسی لیے یہ نام دیا گیا۔ اودھ کے حکمرانوں کو اپنے گھوڑوں کے لیے بھی عالیشان عمارات بنوانے کا ذوق تھا۔ سعادت علی خاں نے چوپڑاصطبل بنوایا تھا جو بڑی شہرت کا مالک تھا۔ واجد علی شاہ کے دور میں سلاخوں والا اصطبل مشہور تھا۔ غدر کے بعد اسی اصطبل میں دیوانی کچہری قائم ہوئی تھی جہاں مجھے برسوں وکالت کرنے کا شرف حاصل تھا۔ اب اس عمارت کا کوئی نشان باقی نہیں ہے اور نئی عمارت بن کر قریب قریب تیار ہو چکی ہے۔

سعادت علی خاں نے اپنے مقبرہ کا کوئی انتظام اپنی زندگی میں نہیں کیا تھا۔ وفات کے بعد وہ اسی علاقے میں مدفون ہوئے جہاں ان کی بیگم کا مزار اب تک چھتر منزل کے حدود میں موجود ہے۔ یہ عمارت ان کے جانشین غازی الدین حیدر نے بنوائی تھی ۔ یہ پہلے حکمران تھے جنھوں نے دلی کی سلطنت کا قلادۂ اطاعت دور کرکے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا۔ ان کی بہترین اور ممتاز زمانہ تعمیر شاہ نجف ہے جو حضرت علی ؓ کے مزارِ مبارک کی اصلی شبیہ ہے۔ بادشاہ اور ان کی بیگم اسی متبرک عمارت میں مدفون ہیں اور خود انھیں کے عطیات کی بدولت شاہ نجف اب بھی مقتدر حیثیت کا مالک ہے۔ غازی الدین حیدر کے بعد نصیر الدین حیدر سریر آرائے سلطنت ہوئے تھے انھوں نے حضرت گنج کے علاقے کی بنیاد ڈا لی تھی اور خود اپنے لیے ایک کربلا ڈالی گنج پار میں بنوائی تھی جہاں وہ مدفون ہیں۔ یہ کربلا بہت بڑے رقبے میں واقع ہے لیکن اس کی ترقی و فلاح کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا ۔ چنانچہ حالات روز بروز خراب ہوتے رہے تھے۔ موجودہ صورت حال بہر حال بہتر ہے۔

آخری تین تاجدار محمد علی شاہ، امجد علی شاہ اور واجد علی شاہ تھے۔ محمد علی شاہ کا تعمیر کردہ امام باڑہ جو چھوٹا امام باڑہ کے نام سے موسوم ہے اور جہاں وہ خود مدفون ہیں ایک انتہائی اور سجی سجائی دلہن کہلانے کا مستحق ہے۔ انھوں نے اپنی حیات میں اس امام باڑے کی بقا اور فلاح کا اتنا مکمل انتظام کر دیا تھا کہ اُس کا کاروبار بڑے اور منظم پیمانے پر اب تک برقرار ہے۔ زمانے کی ستم شعاریوں نے بہت کچھ دخل اندازی کر دی ہے لیکن پھر بھی اس امام باڑہ کی عظمت بہت بڑی حد تک برقرار ہے۔ البتہ محل وقوع میں نظارگی کا جو حسن و جمال بادشاہ نے اس امام باڑے میں پیدا کرنا چاہا تھا وہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا اور ان کا انتقال ہو گیا۔ اس امام باڑے کے ایک جانب عالیشان اور بہت خوبصورت جامع مسجد ہے۔ بادشاہ نے دوسری جانب ست کھنڈا تعمیر کرانے کا ارادہ کیا تھا۔ سات منزل کی ایک کے اوپر دوسری منزل اور ساتویں منزل کے اوپر عالیشان قبّہ بن جانے کے بعد امام باڑے کا حسن دوبالا ہو جاتا لیکن چند منزلوں سے زیادہ عمارت نہیں بن سکی۔ اس کے منہدم کھنڈرات اب تک موجود ہیں۔ بعض لوگوں کو ست کھنڈے کا نام بھی یاد ہے لیکن اس کے معرضِ وجود میں آنے کا حال دنیا بھول چکی اور غالباً آثار منہدم ہو جانے کے بعد ست کھنڈے کا نام بھی فراموش ہو جائے گا۔

امجد علی شاہ کی زیادہ تر توجہ حضرت گنج کے علاقے پر مبذول رہی۔ وہاں کی پرانی عالیشان عمارتیں انہی کی کرم گستری کا نتیجہ تھیں اور سبطین آباد کا ایسا عظیم المرتبت علاقہ انھیں کی بدولت معرض وجود میں آیا تھا۔ یہاں ان کی ابدی خواب گاہ ہے جس کا احترام کرتے ہوئے اُن کے بعد ان کے جانشین واجد علی شاہ نے یہ تمام عمارات بنوائی تھیں جن کے داخلے کا عظیم الشان صدر دروازہ اب تک مال روڈ کے اوپر اپنی عظمت ِ پارینہ کی یاد دلاتا ہے لیکن گذشتہ ساٹھ ستر برس میں پے در پے جو شرمناک و عبرتناک واقعات و حالات رونما ہوئے وہ سبطین آباد کے حال زار پر ہم کو خون کے آنسو رلاتے ہیں اور کہنا پڑتا ہے کہ اچھا ہوا واجد علی شاہ اس سرزمین پر دفن نہیں ہوئے۔ اس آخری تاجدار نے چھتر منزل اور قیصر باغ کی عمارات اپنی مایۂ ناز یادگاریں چھوڑی تھیں۔ ایک کو چھوٹی چھتر منزل کہا جاتا ہے کہ غفلت و جہالت کی بدولت منہدم ہو گئی۔ اصلی چھتر منزل انگریزوں کے دور میں یونائٹیڈ سروس کلب کے استعمال میں آتی تھی لیکن اب فلاح عامہ کا کاروبار وہاں جاری ہے اور معالجات ایجاد کرنے کا مرکزی محکمہ کامیابی کے ساتھ تجربات میں مشغول ہے۔ قیصر باغ اپنی اصل چہار دیواری میں بہت کچھ کھو چکا ہے۔ اس کے شمالی اور جنوبی صدر دروازے ایک مدت قبل ختم ہو چکے تھے۔ اس کے چاروں طرف جو خوش نما اور دیدہ زیب راستے مشرقی انداز میں بنائے گئے تھے وہ ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ میری طالب علمی کے زمانے تک چھتر منزل سے قیصر باغ تک اور قیصر باغ کے مغربی پھاٹک کی سمت بھی نیز مشرق میں مینا بازار گیٹ تک دو رویہ منہدی کے درختوں کی جھاڑیاں موجود تھیں جو خوش نمائی میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔ نئی سڑکوں کی تعمیر میں ہمارا مشرقی انداز خوش نمائی فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ قیصر باغ کی عمارتیں اودھ کے تعلق داروں کو تقسیم کر دی گئی تھیں اس لیے محفوظ اور اپنی اصلی رنگ و صورت میں ہیں۔ وسطِ قیصر باغ میں سفید بارہ دری ہے جس کا نام بادشاہ نے ’’ قصر عزار‘‘ رکھا تھا یہاں تعلق دارانِ اودھ کی انجمن کا دفتر ہے اور بڑی حد تک اچھی حالت میں ہے۔ لیکن میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ وہ چھوٹی سنگ مرمر کی سفید بارہ دری جواب بنارسی باغ میں نصب ہے ابتدا ء ً قیصر باغ ہی میں تھی اور جو چاروں پتھر والے پر یوں کے مجسمے وہاں ہیں وہ بھی اسی بارہ دری کے چاروں جانب نصب تھے۔ واجد علی شاہ بیشتر راتوں کو موسم گرما میں اسی چھوٹی بارہ دری میں آرام فرما لیتے تھے۔ انتزاعِ سلطنت کے بعد راتوں کو بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو جاتے تھے اور آنے والے زار و قطار روتے تھے لہٰذا انگریزی حکومت نے اس بارہ دری کو بنارسی باغ منتقل کر دیا جہاں شہریوں کا پہنچنا دشوار ہو گیا تھا۔

شاہانِ اودھ سے متعلق مندرجہ بالا واقعات کا تاریخی پس منظر میں مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ آصف الدولہ کے بعد ان کے جا نشینوں نے وسط لکھنؤ کے علاقوں کو ترقی دینے کی کوشش کی تھی اور آخری دور تک یہ توجہ مشرقی منزل تک پہنچ گئی تھی۔ پرانی آبادی بہرحال مغربی علاقو ں ہی تک محدود رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنؤ کی پرانی معاشرت کا اثر اب تک مغربی لکھنؤ میں بڑی حد تک موجود ہے۔

شہر کے باغات اور مرغزاروں کی تعداد انھیں ناموں تک ختم نہیں ہوتی جو متذکرہ بالا حالات میں پیش کیے گئے ہیں۔ میرے لڑکپن بلکہ عنفوان شباب تک عالم باغ، صفدر باغ، سندر باغ، بندریا باغ، ڈالی باغ، بنارسی باغ، سکندر باغ، کمپنی باغ اور دیگر چند باغات کا تفریح گاہوں میں شمار تھا اس زمانے میں رؤسا ،شرفا ،عوام اور تمام شہری علاوہ تاجروں اور دکانداروں کے شام کو ہوا خوری کے لیے نکلتے تھے۔ ہر محلے میں یا اس کے قریب کوئی بڑا باغ یا مرغزار تھا۔ آبادی بڑھی اور نئے محلے تعمیر ہوئے تو ان باغات کے نام پر محلے تعمیر ہو گئے۔ جیسے چار باغ، نظر باغ، عیش باغ ، عالم باغ، صفدر باغ، سندر باغ، ڈالی باغ، بندریا باغ وغیرہ۔ بنارسی باغ میں زندہ عجائب گھر کھلا اور سکندر باغ میں محکمۂ نباتات قائم ہو گیا ۔ بادشاہ باغ میں کیننگ کالج قائم ہوا۔ جس زمانے میں مجھے وہاں تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل تھا ایک بڑے رقبے میں امرود وغیرہ کے باغات موجود تھے۔ لیکن اب ان کی جگہ عمارات تعمیر ہو گئی ہیں۔ اسی باغ میں ایک بارہ دری اور ایک عالیشان کوٹھی تھی جو کبوتر والی کوٹھی کہلاتی تھی۔ بارہ دری اندر اور باہر سے بہت خوبصورت تھی۔ اس پر اسی زمانے میں ادبار آنا شروع ہو گیا تھا۔ میرے زمانے میں یہاں علوم مشرقیہ کی تعلیم ہوتی تھی۔ بعد ازاں یہاں چار خانہ قائم ہو گیا تھا۔ لکھنؤ یونیورسٹی کے وجود میں آنے کے بعد پہلے وائس چانسلر کبوتر والی کوٹھی میں رہا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس کی شکل بدلی اور اب وہاں رجسٹرار کے دفتر سے متعلق کمرے تعمیر ہو گئے ہیں۔ گذشتہ پچاس برس میں دیکھتے دیکھتے پرانے طرز کے تمام باغ اور لالہ زار ختم ہو گئے اور نئے نئے پارک معرضِ وجود میں آ گئے ہیں۔ اس طرح ہماری مشرقی تہذیب کے ظاہری نمونے بھی اب شہر میں نظر نہیں آتے۔

 

ماخذ: قدیم لکھنؤ کی آخری بہار، مصنف: مرزا جعفر حسین، دوسری اشاعت: 2023، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی

قدیم ہندوستان کی دریافت، ماخذ: ہندوستان کا شاندار ماضی، مصنف: اے ایل باشم، مترجم: ایس غلام سمنانی

 اردو دنیا، جنوری2025

ہندوستان کی قدیم تہذیب مصر، عراق و عرب اور یونان کی تہذیبوں سے اس اعتبار سے مختلف ہے کہ اس کی روایات اس وقت تک مسلسل برقرار رہی ہیں، ماہرین آثارِ قدیمہ کی آمد سے قبل مصر یا عراق کے کاشتکار کو اپنے آبا و اجداد کے تمدن کا کوئی علم نہیں تھا اور یہ بھی مشکوک ہے کہ اس کا یونانی ہمعصر بھی قدیم اینتھس کی شان و شوکت کے متعلق خواب جیسے خیالات کے علاوہ بھی کچھ رکھتا تھا، دونوں ہی ملکوں میں ماضی سے تقریباً مکمل انقطاع رہا، برعکس اس کے یورپ کے جو سیاح ابتدا میں ہندوستان آئے وہ ایک ایسے تمدن سے روشناس ہوئے جسے اپنی قدامت کا پورا شعور تھا۔ یہ ایک ایسا تمدن تھا جسے اپنی قدامت کے سلسلے میں غلو تھا اور جس کو یہ غرہ تھا کہ اس میں کئی ہزار سال سے کوئی بھی اصولی تبدیلی نہیں واقع ہوئی ہے آج بھی ان قصور اور کہانیوں میں جو کہ معمولی سے معمولی ہندوستانی جانتا ہے ایسے خیالی سرداروں کے نام ملتے ہیں جو تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح میں رہے ہیں اور راسخ العقیدہ برہمن اپنی روزانہ کی عبادات میں ایسی مناجاتیں پڑھتا ہے جو اس سے بھی پہلے منظوم کی گئی تھیں، دراصل ہندوستان اور چین دنیا میں قدیم ترین مسلسل تمدنی روایات رکھتے ہیں، اٹھارہویں صدی عیسوی کے نصف آخر تک یورپ کے لوگوں نے ہندوستان کے قدیم ماضی کا مطالعہ کرنے کے سلسلے میں کوئی خاص کوشش نہ کی اور اس کی ابتدائی تاریخ کا علم ان کو صرف یونانی اور لاطینی مصنّفین کی تصانیف کے مختصر اقتباسات سے ہوتا تھا۔ اس جزیرہ نما میں صرف چند لگن رکھنے والے مبلغین نے معاصر ہندوستانی زندگی کی گہری واقفیت اور یہاں کی بولیوں پر بھرپور قدرت حاصل کی مگر انھوں نے بھی حقیقتاً کوئی کوشش ان لوگو ںکے تمدن کے تاریخی پس منظرکو سمجھنے کی نہیں کی جن میں وہ تبلیغ و اشاعت کا کام کررہے تھے۔ انھوں نے اس تمدن کو اس کی ظاہری ہیئت کے بموجب قبول کرلیا اور اس کو بہت قدیم اور غیرمعتبر سمجھ لیا۔ ان کا ہندوستان کے ماضی کا مطالعہ صرف اس طریقۂ غور و فکر تک محدود تھا جو کہ ہندوستانیوں کو نوح کی اولاد اور انجیل مقدس کی معدوم سلطنتوں سے وابستہ کردیتا تھا۔

دریں اثنا چند مسیحیوں نے ہندوستان کی کلاسیکی زبان سنسکرت پر قدرت کاملہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ان میں سے فادر ہینکسلڈن نے جنھوں نے 1699 سے لے کر 1732 تک مالابار میں کام کیا۔ پہلی سنسکرت قواعد کی کتاب ایک یورپی زبان میں ترتیب دی جو اگرچہ مخطوطے کی شکل ہی میں رہی لیکن اس کا استعمال اس کے بعد والو ںنے کیا۔ دوسرانام ہے فادر کورٹا وکاجو کہ اول طالب علم ہے جس نے کہ سنسکرت اور دوسری یورپی زبانو ںکے درمیان ایک ہم رشتگی کا پتہ لگایا اور یہ خیال ظاہر کیا کہ ہندوستان کے برہمن جافیت کے لڑکوں کی اولاد ہیں جس کے بھائی مغرب کی طرف ترکِ سکونت کرکے چلے گئے تھے، بایں ہمہ ان یسوعیوں نے اپنے مطالعہ کے باوجود ہندوستان کے ماضی سے کوئی حقیقی واقفیت نہیں حاصل کی، علم الہند کی بنیادیں آزادانہ طور پر ہندوستان کے ایک دوسرے حصے میں دوسرے ہاتھوں کے ذریعے رکھی گئیں۔

1783 میں اٹھارہویں صدی عیسوی کے ذہین ترین انسانوں میں سے ایک شخص سرولیم جونز (1746 تا 1794) کلکتہ میں سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے آیا، اس زمانہ میں وارن ہسٹنگنز، ہندوستان کا گورنر جنرل تھا جو خود بھی مسلم اور ہندو دونو ںہی تمدنوں سے گہرا تعلق خاطر رکھتا تھا۔ جونز ایک ایسا ماہر السنہ تھا جو عبرانی، عربی، فارسی اور ترکی کے ساتھ ساتھ پہلے ہی سے اہم تر یورپی زبانوں کو جانتا تھا،  مزید برآں اس نے اس نامکمل مواد کی مدد سے جو اس زمانہ میں یوروپ میں میسر آسکتا تھا۔ چینی زبان کی شدبد بھی حاصل کرلی تھی، ہندوستان آنے سے قبل اس نے فارسی اور دیگر یورپی زبانوں کا باہمی رشتہ سمجھ لیا تھا۔ اس نے اٹھارہویں صدی عیسوی کے اس متشدد نظریہ کو مسترد کردیا کہ یہ ساری زبانیں عبرانی سے نکلی ہوئی ہیں جو منارہ بابل میں مسخ ہوگئیں، اس متشدد عقیدہ کی بجائے جونز نے یہ نیا خیال ظاہر کیا کہ فارسی اور یورپی زبانیں ایک ایسی مشترکہ زبان کے بطن سے وجود میں آئی ہیں جو عبرانی نہیں ہے۔ان معدودے چند انگریزوں میں سے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے بنگال کا نظم و نسق انجام دیتے تھے، صرف ایک شخص چارلس ونکنس (1749 تا 1836) ہی ایک ایسا فر دہے جس نے کسی نہ کسی طرح سنسکرت سیکھ لی، ونکنس اور بنگالی پنڈت دوستوں کی مدد سے جونز نے اس زبان کو سیکھنا شرو ع کیا، یکم جنوری 1784 کو ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کا قیام جونز کی تحریک پر عمل میں آیا اور وہ خود ہی اس کا صدر ہوا، اس سوسائٹی کے جرنل مسمی ’ایشیاٹک ریسرچرز‘ میں ہندوستان کے ماضی کو عدم سے وجود میں لانے کے پہلی مرتبہ صحیح اقدامات کیے گئے، نومبر 1784 میں انگریزی میں ایک سنسکرت تصنیف کا براہِ راست پہلا ترجمہ ونکنس کی ’بھگوت گیتا‘ مکمل ہوا۔ 1787 میں ونکنس نے دوسرا ترجمہ ’ہتواپدیش‘ کا پیش کیا۔ اس کے بعد 1789 میں ونکنس نے کالی داس کی شکنتلا کا ترجمہ کیا جس کی بیس سال کے عرصے میں پانچ انگریزی اشاعتیں ہوئیں، اس کے بعد 1792 میں انھوں نے ’گیت گووند‘ کا ترجمہ کیا اور پھر منو کی کتاب قانون کا (یہ جونس کے مرنے کے بعد 1794 میں انسٹی ٹیوٹس آف ہندولا‘ کے نام سے شائع ہوئی) اس کے بعد ایشیاٹک ریسرچز میں متعدد کم اہمیت والے تراجم شائع ہوئے۔

اس طرح جونز اور ونکنس صحیح معنوں میں علم الہند کے ابوالآبا تھے، کلکتہ میں ان کی پیروڈی ہنری کول بروک (1765 تا 1837) اور ہوریس ہیمین ولسن (1789 تا 1860) نے کی، ان رہنماؤں کی مولفات میں فارسی کے ایک فرانسیسی عالم انکوتل دووپران (Anqwill Dupphon) کی خدمات کو بھی شامل کرنا ضروری ہے جس نے 1786 میں سترہویں صدی عیسوی کے ایک فارسی نسخے سے چار اپنشدوں کا ترجمہ شائع کیا، مکمل مخطوطہ کا ترجمہ جو پچاس اپنشدوں پر مشتمل ہے، 1801 میں منظرِ عام پر آیا۔

ان تراجم کی بنا پر یورپ میں سنسکرت ادب سے دلچسپی بڑھنا شروع ہوئی، 1795 فرانسیسی جمہوریہ کی سرکار نے اِکولی ڈس لینگس اور پینتالیس ورنٹیس (Ecoledes Langues Orien Tales Vivantes) قائم کی اور وہاں الگزنڈر ہملٹن (1762 تا 1824) جو ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے بانی اراکین میں تھااور جو 1803 میں پیس آف ایمنس (Peac of Aiens) کے خاتمے پر فرانس میں پیرول پر مقید تھا، یورپ میں سنسکرت کی تعلیم دینے والا پہلا شخص تھا۔ ہملٹن ہی سے پہلے جرمنی نژاد سنسکرت داں فریڈ رخ شلگل نے یہ زبان سیکھی، 1814 میں پہلی بار کالج ڈفرانس (College Defrance) میں سنسکرت کی پہلی یونیورسٹی چیئر قائم ہوئی اور اس پر لیونا رودی چیزی متمکن رہے جب کہ 1818 سے جرمنی کی بڑی دانش گاہوں نے پروفیسر شپ بھی قائم کرنا شروع کردی، برطانیہ میں سب سے پہلے سنسکرت کی تعلیم 1805 ہرٹ فورڈ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تربیتی کالج میں دی گئی۔ سنسکرت کی سب سے پہلی انگلش چیربوٹن پروفیسر شپ آکسفورڈ میں قائم ہوکر 1832 میں پر ہوئی جب یہ اعزاز ایچ ایچ ولسن کو بخشا گیا جو ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کا اہم رکن رہ چکا تھا، اس کے بعد متعدد چیرز لندن، کیمبرج ارایڈنبرا میں قائم ہوئیں او رپھر یورپ اور امریکہ کی مختلف دانش گاہوں میں قائم ہوئیں۔

1816 میں بویریا کے ایک باشندے فرانز پوپ (1791 تا 1867) نے سرولیم قونز کے اشارات کی بنیاد پر سنسکرت اور یورپ کی کلاسیکی زبانو ںکے مشترکہ سرچشمے کا پتہ لگانے میں کامیابی حاصل کی اور اس طرح تقابلی لسانیات ایک علیحدہ علم ہوگیا، 1821 میں فرانسیسی سوسائٹی ایشیاٹک (Societe Asiatique) کا قیام پیرس میں عمل میں آیا۔ اس کے دو سال بعد لندن میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی قائم ہوئی۔ اس آغاز سے قدیم ہندوستانی ادب کی تدوین و مطالعہ کا کام پوری انیسویں صدی عیسوی میں پھیل گیا، انیسویں صدی عیسوی کے یورپ میں ماہرین علم الہند کا غالباً سب سے بڑا کارنامہ وہ ضخیم سنسکرت جرمن لغت ہے جس کو عام طور پر ’سینٹ پیٹرسبوگ لکسی کان‘ کہا جاتا ہے اور جو کہ جرمن علما اوٹوبوتھ لنگ اور ریوڈالف راتھ کی مرتبہ ہے اور جس کو روسی امپریل اکادمی آف سائنسز جستہ جستہ 1852 سے لے کر 1875 تک شائع کرتی رہی، سنسکرت کے مطالعہ میں انگلستان کا عظیم ترین اضافہ رگ وید کی شاندار اشاعت اور ’مشرق کی مقد س کتابیں Sacred Books of The East کے ثقہ محشی تراجم کے سلسلوں کی اشاعت ہے۔ ان دونوں ہی کی تدوین عظیم جرمن نژاد سنسکرت کے عالم فریڈرخ میکس ملر (1823 تا 1900) نے جس نے اپنی کارکردگی کی زندگی کا بیش ترین حصہ آکسفورڈ میں تقابلی لسانیات (Comparative Philogy) کے پروفیسر کی حیثیت سے گزارا۔

دریں اثنا قدیم ہندوستانی تمدن کا مطالعہ ایک دوسری سمت میں بڑھ رہا تھا، ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے ابتدائی سارے کام تقریباً مکمل طور پر ادبی اور لسانی تھے اور انیسوی صدی کے زیادہ تر ماہرین علم الہند مخطوطات پر کام کررہے تھے، بہرحال انیسویں صدی عیسوی کی ابتدا میں بنگال سوسائٹی نے اپنی تھوڑی بہت توجہ ہندوستان کے ماضی کی مادّی یادگاروں کی جانب منعطف کرنا شروع کی کیونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پیمائش کنندگان نے مندروں، غاروں اور خانقاہوں کے متعلق اطلاعات فراہم کیں، ساتھ ہی ساتھ کچھ پرانے سکے اور ان مخطوطات کے مندرجات کی نقول پیش کیں جو بہت پہلے دستبرد زمانہ کی نذر ہوگئے تھے، موجودہ مخطوطات کی تعبیر کی مدد سے پرانے مخطوطات کی تعبیر بھی بتدریج ہونے لگی یہاں تک کہ 1837 میں ایک ذہین و ہوشیار مبتدی یعنی کلکتہ کی ٹکسال کے ایک افسر اور ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے سکریٹری جیمز پرنسپ نے سب سے ابتدائی برہمی دور کے ایک مخطوطہ کی تشریح و تعبیر کیے اور شہنشاہ اعظم اشوک کے پتھروں پر کندہ فرمانوں کو پڑھنے میں کامیابی حاصل کی، اس تعبیر و تشریح کے میدان میں پرنسپ کے ساتھیوں میں راول انجینئرز کا ایک نوجوان افسر الگزنڈر کننگم تھا جو ہندوستانی آثار قدیمہ کے ابوالآبا کہا جاتا ہے، 1831 میں ہندوستان آنے کے بعد کننگم کو اپنے فوجی فرائض ادا کرنے کے بعد جو بھی وقت ملتا تھا اس کا ایک ایک لمحہ اس نے قدیم ہندوستان کی مادّی یادگارو ںکے مطالعہ کے لیے وقف کردیا، جب 1862 میں ہندوستانی حکومت نے آر کیا لوجیکل سرویر کی ایک آسامی قائم کی تو اس پر کننگم کا تقرر ہوا۔ 1885 میں اپنی سرکاری خدمات سے سبکدوش ہونے کے وقت تک اس نے مکمل یکسوئی کے ساتھ ہندوستان کے ماضی کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی، اگرچہ اس نے کوئی حیرت انگیز دریافتیں نہیں کیں اور اگرچہ موجودہ آثارِ قدیمہ کے معیار کے مطابق ان کا طریقہ کار غیرترقی یافتہ اور بھدا تھا لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ وسر ولیم جونز کے بعد علم الہند اس میدان کے کسی اور رہ پیما کے مقابلہ میں جنرل سرالگزنڈر کننگم کا زیادہ ممنون ہے، کننگم کو متعدد دوسرے رہنماؤں کی مدد حاصل تھی اور اگرچہ حکومت کی ناکافی اور قلیل امداد کی وجہ سے آرکیالوجیکل سروے کی سرگرمیاں انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں تقریباً ختم ہوگئیں لیکن پھر بھی 1900 تک بہت سی عمارات کا سروے کیا جاچکا تھا اور بہت سے کتبات پڑھے جاچکے تھے اوران کا ترجمہ بھی ہوچکا تھا۔

صرف بیسویں صدی عیسوی میں ہی آثارِ قدیمہ کی کھدائی کاکام بڑے پیمانے پر شروع ہوا، ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن کی ذاتی دلچسپی کا ممنون ہونا چاہیے کہ 1901 میں آرکیالوجیکل سروے کی اصلاح ہوئی اور اس میں وسعت پیدا کی گئی اور ایک نوجوان ماہر آثارِ قدیمہ جان (جو بعد ’سرجان‘ ہوا) مارشل کو اس کا ڈائرکٹر جنرل مقرر کیا گیا، ہندوستان کا طول و عرض رکھنے والے ایک ملک کے لیے محکمۂ آثارِ قدیمہ اب بھی افسوسناک حد تک مختصر اور مفلس تھا لیکن مارشل نے متعدد ماہر معاونین کی خدمات حاصل کیں اور اس کے پاس کھدائی کے لیے اس پیمانہ پر مالی وسائل تھے جو اس سے قبل نہیں تھے، پہلی بار ہندوستان کے قدیم شہروں کے نشانات منصۂ شہود پر آنے لگے، علم آثارِ قدیمہ نے اپنا کام سروینگ (Surveying) اور قدیم یادگاروں کے تحفظ سے ممیز ہوکر صحیح معنوں میں شروع کردیا، سرجان مارشل کی سربراہی میںآرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی عظیم ترین فتح بلاشبہ تہذیب سندھ کی دریافت تھی، ہندوستان کے قدیم ترین شہروں کی پہلی علامات کننگم نے دریافت کیں جنھوں نے عجیب و غریب ناقابل شناخت مہریں پنجاب میں ہڑپا کے مضافات میں پائیں، 1922 میں آرکیالوجیکل سروے کے ایک ملازم آر ڈی بنرجی نے مزید کچھ مہریں سندھ میں موہن جوداڑو کے مقام پر پائیں اور اس امر کو تسلیم کیا کہ یہ عظیم تر قدامت ماقبل آریائی تہذیب کی یادگار ہیں، سرجان مارشل کے زیرِ ہدایت 1924 سے لے کر ان کی سبکدوشی کے وقت یعنی 1931 تک ان مقامات کی باقاعدہ کھدائی ہوتی رہی، کھدائی کا کام مالی عسرت اور دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے معرضِ التوا میں پڑگیا، لیکن جنگ کے معاً بعد سرآر، ای، ماریٹر وہیلر کی مختصرالوقت سربراہی میں ہڑپا کے مقام پر مزید اہم دریافتیں ظہور پذیر ہوئیں، اگرچہ یہ مقامات اب بھی کسی طور سے پوری طرح صاف نہیں کیے جاسکے ہیں۔

ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، بہت سے مٹی کے تودے جن کی کھدائی نہیں ہوئی ہے، ہندوستان کے ماضی کے تاریک گوشوں پر کافی روشنی ڈال سکتے ہیں اور اب بھی بہت سے نہایت ہی اہم نادر مخطوطات دور رس کتب خانوں میں کرم خوردہ ہورہے ہیں، ہمیں ہندوستان، پاکستان اور لنکا ایسے غریب ملک ہیں جنھیں بری طرح سے مالی امداد کی ضررت ہے تاکہ وہ اپنے غریب عوام کے معیار زندگی کو بلند کرسکیں لیکن اس وقت بھی جو کچھ وسائل ان ممالک کو فراہم ہیں ان ممالک کے محکمہ جات آثارِ قدیمہ پورے طور پر اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ اپنے ماضی کے رخ سے نقاب اٹھائیں۔

پچھلی صدی عیسوی میں خود ہندوستانیوں نے بھی بہت سے قابل قدرکارنامے انجام دیے، بالخصوص سنسکرت داں اور ماہرِ علم کتبات ڈاکٹر بھاؤداجی، ڈاکٹر بھگوان لال اندراجی، ڈاکٹر راجندر لال مترا اور عظیم سرآر، جی، بھنڈارکر، اس اعتبار سے علم الہند کے ضمن میں پہلی ابتدا خود ہندوستانیوں کی طرف سے ہوئی۔ ہند کے ماہرین اس وقت بڑی تیزی سے عظیم مہابھارت کی پہلی تنقیدی اشاعت میں مصروف ہیں اور انھوں نے ضخیم پونا سنسکرت لغت پر کام شروع کردیا ہے جو مکمل ہونے کے بعد ساری دنیا میں غالباً علم لغت پر سب سے بڑا کام ہوگا، اس وقت محکمہ آثارِ قدیمہ کے ڈائرکٹر جنرل ایک ہندوستانی (ڈاکٹر اے گھوش) ہیں اور آج ایک یوروپی ماہر علم الہند اہلِ ہند کا مددگار اور دوست نقاد کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایسے وقت میں جب کہ ایشیا میں ایک صدی اور اس کے نصف پر یورپی تسلط کے خلاف ردعمل ہورہا ہے اور ایک نیا تمدن جو مشرق و مغرب کے تمدنی و تہذیبی عناصر کا ایک مرکب ہوگا جنم لے رہا ہے، ایک یورپی طالب علم علم الہند کے میدان میں اپنا مفید کردار اداکرسکتا ہے۔

 

ماخذ: ہندوستان کا شاندار ماضی، مصنف: اے ایل باشم، مترجم: ایس غلام سمنانی، سنہ اشاعت: 1982، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

تازہ اشاعت

کورٹھا میں لوک ادب، مضمون نگار: محمد طیب

  اردو دنیا، فروری 2025 لوک ادب کی افادیت سبھی زبان و ادب کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔یہی وہ سرمایہ ہے جس سے زبان وادب کو پھلنے،پھولنے، سماج کی ...