4/9/25

جگدیش سرن سکسینہ راز کرہلوی اور ان کی غزلیہ شاعری، مضمون نگار: فیضان حیدر

اردو دنیا، اپریل 2025

جہان رنگ و بو میں کچھ ہستیاں ایسی بھی عالم وجود میں آئیں جو اپنی بصیرت، تخلیقی فکر اور ادبی خدمات سے نہ صرف معاشرے کی فکری رہنمائی کرتی رہیں بلکہ ادبی دنیا کو بھی نیا رنگ و آہنگ بخشتی رہیں۔ جگدیش سرن سکسینہ راز کرہلوی انھیں روشن ستاروں میں سے ہیں جنھوں نے اپنی علمی و ادبی خدمات سے نہ صرف ادبی دنیا کو تابانی بخشی بلکہ اسے ایک نئی سمت سے روشناس بھی کرایا۔راز کرہلوی ایک منفرد اور حساس شاعرہونے کے ساتھ ایک رسالے کے مدیر بھی رہے۔ ان کے زیرِ ادارت شائع ہونے والے رسالے ’سلگتی لکیریں‘ نے نئے لکھاریوں کو ایک مستند پلیٹ فارم فراہم کیا، جب کہ ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے معیاری تحریریں بھی پیش کیں۔ ان کی شاعری عشق و محبت، ناکامی ونامرادی،مایوسی و محرومی اور انسانی جذبات و احساسات کے اظہار سے عبارت ہے۔ وہ ان شعرا میں ہیں جو رسم وراہِ عام کے پابند نہیں بلکہ جداگانہ اندازِ نظر کے حامل اور ایک خاص طرز کے علمبردار ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے فکر وفن کو نئی جہتوں اور نئی سمتوں سے آشنا کیا۔

جگدیش سرن سکسینہ راز کرہلوی 6نومبر1922 کو ایک علمی گھرانے میںپیدا ہوئے۔ان کے والد دیاشنکر شمیم(1895-1954) خود اردو کے صاحب دیوان شاعر تھے۔ان کا دیوان ’موجِ شمیم‘ کے نام سے1974 میں شائع ہوچکا ہے۔ راز کرہلوی کی ابتدائی تعلیم کرہل اور مین پوری میں ہوئی۔کے۔پی کالج الہ آباد سے انٹر اور لکھنؤ یونیورسٹی سے بی کام تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آگرہ یونیورسٹی سے ایم کام اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے بعد کے۔ پی کالج الہ آباد میں لکچرر مقرر ہوگئے۔چار سال کے بعد 1949 میں سیلس ٹیکس افسر مقرر ہوگئے اس لیے لکچرر کی ملازمت ترک کردی۔منظور ہاشمی ان کی شخصیت کا مکمل خاکہ اس طرح کھینچتے ہیں:

’’کھلتا ہوا رنگ، کشادہ پیشانی، سوچ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں، ہونٹوں سے مسکراہٹ کے برستے ہوئے پھول،چہرے سے خلوص اور شرافت کی پھوٹتی ہوئی کرنیں، برتاؤ میں بے پناہ اپنائیت، گفتگو میں ایسی نرمی اور گھلاوٹ کہ جو ایک بار ملے ان کا ہوکر رہ جائے، اخلاق و محبت کا پیکر،یہ ہیں جناب جگدیش سرن سکسینہ رازکرہلوی۔ جہاں رہے جان انجمن بن کر رہے۔ جس جگہ گئے شعرو ادب کے چراغ کو روشن رکھا۔‘‘

)راز و نیاز،جگدیش سرن سکسینہ راز کرہلوی،ناظم پریس،رامپور، 1976، پشت کی تحریر)

شاعری کے ساتھ ’سلگتی لکیریں‘ کے اداریے بھی ان کی ذہانت اور سیاست پر گہری نظر کے غماز ہیں۔ زبان و بیان میں ایک انقلابی رنگ نمایاں ہے جو قارئین کے جذبہ حب الوطنی اور فرض شناسی کو نہ صرف متحرک کرتا ہے بلکہ قومی یکجہتی کا پیغام بھی دیتا ہے اوران کے دلوں میں جوش و جذبہ اور ایثار و قربانی کے تئیں ولولہ پیدا کرتا ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے عالمی سطح کے موضوعات اور مدعوں پر بھی کھل کر لکھا۔ ملک و قوم اور عالمی مسائل پر ان کی تحریریں قابل ذکر ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ ان کی نظر محدود نہیں ہے۔ شاعری میں ان کا اسلوب اپنے عہد کے شعرا سے قدرے مختلف ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ہندوستانی تہذیب و تمدن اور فرہنگ و ثقافت کا بہترین ڈھنگ سے احاطہ کیا ہے جو انھیں قوم پرست شاعر کی حیثیت سے بھی روشنا س کراتا ہے۔ان کے دومجموعے ’راز و نیاز‘ اور’سوزو گداز‘ اردو اور دیوناگری رسم الخط میں منظر عام پر آئے۔بعد میں دونوں مجموعوں کے انتخابات بھی شائع ہوئے۔

راز کرہلوی کے جذبات و احساسات محدود نہیں تھے۔ وہ کسی بھی چیز پر رسمی رد عمل ظاہر نہیں کرتے بلکہ اس کے اسرار ورموز تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ان کی نظران کے ہم حلقہ شعرا سے زیادہ گہری، زیادہ محیط، زیادہ جامع، زیادہ وسیع اور زیادہ حقیقت بیں ہے۔ وہ اپنے اعلیٰ افکار، گہرے جذبوں اور معنی خیز تجربوں سے ہمیں زندگی کی صداقتوں کا بھرپوراحساس دلاتے ہیںجوہم کو مسرت سے بصیرت تک پہنچانے کا داعی بنتاہے۔ان کے مجموعہ کلام ’راز و نیاز‘ کے تعارف میں ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ذاکر بھارتی رقم طراز ہیں:

’’جنابِ راز نے ایک انتہائی ادبی ماحول میں آنکھ کھولی۔ ایک طرف گھر پر والد اور ان کے ناناجناب مکٹ بہاری لال کی اردو اور فارسی کی شاعری کا سایہ تھا،دوسری طرف کرہل میں ماہانہ طرحی مشاعروں کی فضائیں، اور مین پوری میں جناب جگر، نانک، رنگیلے، مائل وغیرہ مایہ ناز شاعروں کے نغموں سے گونجتی محفلیں تھیں۔ لہٰذا قدرتی طور پر شاعری کا جوہر ان کی فطرت میں بچپن سے موجود تھا۔ چوتھی جماعت میں پہنچتے پہنچتے کھلاڑی تخلص رکھ کر باقاعدہ ایک طرحی مشاعرے میں اعلان کیاکہ     ؎

کھلاڑی ہیں تخلص بھی رکھا ہم نے کھلاڑی کا

پڑھا کرتے ہیں درجہ چار میں کرہل میں رہتے ہیں

(ایضاً، ص د)

 وقت کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی جذبہ پروان چڑھتا رہا۔ جلد ہی مزاج میں شائستگی اور متانت پیدا ہوگئی چنانچہ کھلاڑی سے راز تخلص اپنایا۔ راز کی ادبی زندگی اب راز نہ رہ سکی اور علمی و ادبی ذوق و شوق ان کو علمی و ادبی نشستوں اور مشاعروں کی طرف کھینچ لایا۔ جہاں بھی رہے شمع انجمن بن کر رہے۔طرحی و غیر طرحی مشاعروں میں مترنم لہجے میں غزلیں سناتے اور اپنی دل کش آواز سے سامعین پر ایک سماں باندھ دیتے۔ انھوں نے اپنے کلام پر باقاعدہ طور پر کسی سے اصلاح نہیں لی بلکہ والد کی صحبت اور ادبی و شاعرانہ ماحول نے انھیں فارغ الاصلاح بنادیا۔ دلکش آفریدی ان کے مجموعہ کلام ’راز و نیاز ‘پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’راز صاحب کی ہمہ رنگ و ہمہ صفات شخصیت اور ان کا فن ادبی دنیا میں قبولیت کی سند رکھتا ہے۔یوں تو جملہ اصناف سخن میں کہتے ہیںمگر غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔ ان کی زبان گنگ و جمن کے مقدس پانی میں دھلی ہوئی پاکیزہ و لطیف ہے۔‘‘(ایضاً، ص و)

ان کی غزلوں کے مطالعے سے دلکش آفریدی کی رائے حرف بہ حرف درست ثابت ہوتی ہے۔ان کی غزلیہ شاعری میں عشق و محبت اور درد کے جذبات کا خوب صورت اظہار ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں عشق، غم، وفا اور حسن جیسے موضوعات کا دل کش انداز میں احاطہ کیا ہے۔ساتھ ہی وفاداری، مایوسی اور انسانی جذبات و احساسات کے تضادات کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ الفاظ کی چاشنی اور خیال کی پہنائی قابلِ ذکر ہے۔ الفاظ کا انتخاب بھی قابل داد ہے جس کی وجہ سے قاری یا سامع کو اشعارکے معانی سمجھنے اور محسوس کرنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ایک غزل کے چند اشعار کی قرأت کیجیے          ؎

درد بڑھ کر دوا نہ ہو جائے

ایک مشکل سوا نہ ہو جائے

ان کا وعدہ وفا نہ ہو یا رب

دشمنوں کو گلہ نہ ہو جائے

دیکھ محفل سے ہم چلے محروم

اب کسی پر جفا نہ ہو جائے

نامرادیِ عشق کا غم کیا

حسن بے آسرا نہ ہو جائے

دل میں ہے درد، درد میں دل ہے

درد دل سے جدا نہ ہو جائے

مذکورہ غزلیہ اشعار اسلوب کی لطافت، فکرکی گہرائی اور اظہار کی لطافت کے باعث نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر شعر منفرد موضوع کو اجاگر کرتا ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ اشعار ایک مربوط جذباتی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ان میں محاوراتی زبان کی چاشنی موجود ہے، جیسے ’درد بڑھ کر دوا نہ ہو جائے‘ اور ’دیکھ محفل سے ہم چلے محروم‘۔ اس میں تراکیب اور تشبیہات کا خوب صورت استعمال بھی کیا گیا ہے، جیسے ’حسن بے آسرا نہ ہو جائے‘ اور ’درد دل سے جدا نہ ہو جائے‘۔ یہ اشعار جذبات و احساسات کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔خیالات اور جذبات عمومی مسائل اور کیفیات پر مبنی ہیں، جنھیں ہر دور اور ہر معاشرہ سمجھ سکتا ہے۔ عشق، مایوسی اور انسانی تعلقات کے پہلو آفاقی نوعیت کے ہیں۔ساتھ ہی بحر و قوافی کا استعمال نہایت متوازن ہے۔ اشعار کی روانی اور ہم آہنگی ان کے عروضی حسن کی عکاسی کرتی ہے۔

حسن، شوخی، لطافت، شیرینی، رنگینی اور طرح داری نے ان کی غزلیہ شاعری کو ایک منفرد رنگ و آہنگ عطا کیا ہے۔ ان کی قوت تخیل نے روز مرہ اور محاورات کو بڑی کامیابی کے ساتھ برتا ہے جس سے ان کے اشعار میں تہ داری اور معنویت پیدا ہوگئی ہے۔ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے        ؎

تو حسن کا پیکر ہے آنکھیں تری مستانہ

بت خانے کا بت خانہ، میخانے کا میخانہ

مارا ہوا الفت کا جائے تو کہاں جائے

اے شمع جلا ڈالا تو نے پرِ پروانہ

معراج محبت میں ہر چیز نئی دیکھی

ہر کیف ترا یکتا ہر درد جداگانہ

دل دے کے انھیں میں نے یہ درد جگر پایا

کچھ دے دیا نذرانہ کچھ لے لیا نذرانہ

گرمیِ محبت ہے، اشکوں کی نمی بھی ہے

پلکوں میں سجایا ہے تیرے لیے خشخانہ

بجلی کی چمک دیکھی صیاد کے تیور بھی

کیا کیا نہیں ہم جھیلے اے چرخ اسیرانہ

یہ اشعار محبت، دردو کرب اور قربانی جیسے موضوعات پیش کرتے ہیں۔ تشبیہات و استعارات کا عمدہ استعمال، جذبات کی گہرائی اور تخیل کی پروازقابل ملاحظہ ہے۔ راز نے کلاسیکی شعری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ان میں جدت و انفرادیت کا رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے۔ عاشق کے جذبات و کیفیات کو نہایت خوب صورتی اور دل کشی سے بیان کیا ہے، جیسے ’پروانے کی قربانی‘ اور ’اشکوں کی نمی‘ وغیرہ۔اسی طرح بت خانہ، میخانہ اور خشخانہ جیسے الفاظ کے ذریعے محبت اور حسن کی مختلف کیفیات کو بیان کیا گیا ہے۔پروانہ اور شمع کا استعارہ کلاسیکی شاعری کا ایک اہم عنصر ہے، جو یہاں بڑی مہارت سے استعمال کیا گیا ہے۔

راز کی شاعری ان کے جذبات و احساسات کا بے محابا اظہار ہے۔ جس چیز کا انھیں دل سے احساس ہوتا ہے وہی بات بے ساختہ زبان پر آجاتی ہے۔لیکن وہ اپنے جذبات و احساسات کا بیان نہایت مہذّب اور متین انداز میں کرتے ہیں جو ان کے تربیت یافتہ ذوق کا آئینہ دار ہے۔ ذیل کے اشعار ملاحظہ فرمائیں         ؎

گلگونۂ عارض کے تحفظ میں خمیدہ

خنجر ہیں یہ دو ابروئے خمدار نہیں ہیں

بکھرے ہوئے شانوں پہ یہ لہرائے ہوئے سے

ہیں مارِ سیہ گیسوے دلدار نہیں ہیں

کاکل کے خم و پیج سے ہوتا ہے گماں یہ

شعلے تو کہیں برسر رخسار نہیں ہیں

ساقی ہمیں کچھ مست نگاہوں سے عطا ہو

مے خانے میں ہم مے کے طلبگار نہیں ہیں

ان اشعارمیںشاعر نے محبوب کے ابرو، زلفیں، عارض اور نگاہوں کو تشبیہوں اور استعاروں میں بیان کیا ہے۔ ہر مصرعے میں حسن کی جاذبیت اور عشق کی لطیف کیفیت نمایاں ہے۔یہ اشعار محبوب کے حسن، اس کی کشش اور عاشق کی محبت کی شدت کو بیان کرتے ہیں۔ شاعر نے ابروؤں کو خنجر، زلفوں کو مارِ سیہ اور کاکل کے خم کو شعلے سے تشبیہ دی ہے، جو محبوب کے حسن کی جان لیوا جاذبیت کے عکاس ہیں۔آخر میں عاشق کا اصرار ہے کہ وہ محبوب کی مست نگاہوں کو حقیقی شراب سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہے۔

اردو کے تقریباً تمام شعرا نے غم عشق اورغم دوراں کی شکایت کی ہے، لیکن راز کا انداز کچھ نرالا ہے        ؎

کر چکے یہ زندگی وقف سبو

پارسائی سے ہمیں کیا کام ہے

اے غم دوراں تو اپنی راہ لگ

اپنے ہاتھوں میں صراحی جام ہے

یہ اشعار کلاسیکی اردو شاعری کی اس روایت کی نمائندگی کرتے ہیں جس میں عیش و طرب، درویشی اور غم دوراں کے درمیان ایک انوکھا تضاد پیش کیا جاتا ہے۔مذکورہ اشعار میں ایک طرح کی بے نیازی، زندگی سے فرار اور صوفیانہ کیفیت پائی جاتی ہے۔ شاعر دنیا کے غموں اور مشکلات کو چھوڑ کر اپنے لیے ایک الگ راہ منکشف کرتا ہے، جہاں غموں کو مے نوشی اور بے فکری سے زائل کرسکے۔یہ انداز اردو شاعری میں میر، غالب اور دیگر کلاسیکی شعرا کے یہاں بھی ملتا ہے، جہاں دنیا کے غم و اندوہ اور انسانی بے بسی کے خلاف ایک احتجاج عیش و طرب کی صورت میں نظر آتا ہے۔

ان کے صوفیانہ اشعار کے مضامین تقریباً وہی ہیں جو ان کے پیش رو شعرا کے ہیں، لیکن ان کی فنی ہنرمندی،  رچاؤ اور حسنِ ادا ملاحظہ ہو       ؎

اے راز دمِ آخر جی بھر کے پلا دینا

ساقی مئے وحدت سے لبریز ہو پیمانہ

یہ شعر صوفیانہ شاعری کی معراج ہے جہاں شاعر نے وحدت یعنی ’وحدت الوجود‘ کے فلسفے کو نہایت لطیف پیرایے میں بیان کیا ہے۔ ’دمِ آخر‘ زندگی کے آخری لمحے کو بیان کر رہا ہے، جب انسان حقیقت کے قریب ہوتا ہے۔’جی بھر کے پلا دینا‘ عرفانِ حقیقت و معرفت کی طلب ہے، یعنی شاعر خدا سے التجا کر رہا ہے کہ آخری گھڑی میں معرفتِ حق کا جام نصیب ہو۔صوفیانہ شاعری میں ’پیمانہ‘ اکثر محبتِ الٰہی یا معرفتِ حق کا استعارہ ہے۔ یہاں شاعر وحدت (یعنی حق) سے بھرپور عرفانی کیفیت کی آرزو کر رہا ہے۔یہ ایک مکمل صوفیانہ تصور ہے، جس میں فنا فی اللہ اور حق کے ساتھ اتحاد کی خواہش نظر آتی ہے۔

مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری زمینی حقیقتوں کی ترجمان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں ایک عام انسان کے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ مختلف اوقات میں انسان پر گوناگوں قسم کے جذبات طاری ہوتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے بھی جذبات و احساسات،تجربات و مشاہدات کو مختلف زاویے سے غزلوں میں سمویا ہے۔ اردو کی عام روایات کو اپنی شاعری میں ضرور برتا ہے لیکن تجربات و مشاہدات کو غزلیہ شاعری کا محور و مرکز قرار دیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انسان کی زندگی بڑی پیچیدہ ہے جس کو سمجھنا آسان نہیں۔ خصوصاً محبوب کے رویے کو سمجھنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ جہاں کہیں انھوں نے اپنے محبوب کے ظاہر پر توجہ مرکوز کی ہے وہیں اس کے باطن میں جھانکنے کی بھی کوشش کی ہے۔ان کا معشوق آج کی صارفیت زدہ زندگی کا فرد ہے، چنانچہ اس کا سمجھنا بھی اتنا ہی مشکل ہے۔ایک لمحے میں وہ جذبات کے جس پڑاؤ پر ہوتا ہے پل بھر میں وہ سطح پورے طور پر تبدیل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے عاشق کا اندرون بھی انتشاری کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے، لیکن وہ معشوق کی پینترے بازی کو ناز و ادا سے تعبیر کرتے ہیں۔

ان کی غزلیہ شاعری روایت و جدت سے ہم آہنگ ہے۔ وہ روایت کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں لیکن روایتی الفاظ و تراکیب کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ ان میں نئے معانی پیدا ہوجاتے ہیں۔ان کی غزلیہ شاعری میں معانی کی وسعت،تشبیہات و استعارات اور علامتوں کا عمدہ استعمال ملتا ہے۔ کہیں کہیں جذبات و احساسات کی رو میں بہہ کر ابتذال اور سوقیت کا بھی شکار ہوجاتے ہیںجس کا شکار کم و بیش ان کے سبھی ہمعصر شعرا ہوئے ہیں۔بایں ہمہ وہ جس سماج اور معاشرے سے تعلق رکھتے تھے ان کی شاعری اس کی بہترین آئینہ دار ہے۔

 

Dr. Faizan Haider

Assistant Professor Dept. of

Urdu & Persian, C.M. College,

Quila Ghat, Darbhanga - 846004

Mob.: 7388886628,

E-mail: faizanhaider40@gmail.com

  

3/9/25

اردو کا نند لال، جو نیرنگ سرحدی بن کے چمکا، مضمون نگار: شفیع ایوب

 اردو دنیا، اپریل 2025

نند لال نیرنگ سرحدی اردو کے بڑے عاشق اور قادر الکلام شاعر تھے۔ بطور مدرس اور بطور شاعرپوری زندگی اردو کی خدمت میں گزار دی۔ لیکن اردو حلقے میں جو پذیرائی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ انتقال کے بعد رفتہ رفتہ گمنامی کے اندھیروں میں کہیں کھو گئے تھے۔ بھلا ہو نیرنگ سرحدی کے بیٹے نریش نارنگ کا کہ انھوں نے ممتاز محقق و نقاد ڈاکٹر سید تقی عابدی سے رابطہ کیا۔ کناڈا میں اردو زبان و ادب کے علم بردار ڈاکٹر سید تقی عابدی نے برسوں کی تحقیق کے بعداکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں نندلال نیرنگ سرحدی کا تمام کلام یکجا کر کے تقریباً گیارہ سو صفحات پر مشتمل ضخیم کلیات شائع کر دی۔اس طرح ایک بار پھر نند لال نیرنگ سرحدی کے کلام کے حوالے سے اہل نظر نے اپنی آرا کا اظہار کرنا شروع کیا۔نند لال نیرنگ کی زندگی کئی نشیب و فراز سے گزری۔ لیکن زندگی کے ہر موڑ پر وہ اردو سے محبت کو اپنا مقصد حیات بنائے رکھا۔ لیکن ناقدین ادب نے نند لال نیرنگ کو خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ کلیات نیرنگ سرحدی ’ تعمیر بقا‘ کے مرتب ڈاکٹر سید تقی عابدی ان لفظوں میں اپنی شکایت درج کرتے ہیں:

’’ وہ شاعر فطرت جس نے پانچ سو کے قریب غزلیں، نظمیں، قطعات، مثنویات اور رباعیات سے گلستانِ اُردو کو رنگیں کر دیا، جس نے درجنوں آزادی اور آزادی خواہوں انسانیت اور وطن دوستی پر منظومات لکھے وہ کیوں گمنامی اور بے چارگی کی زندگی گزار کر چلا گیا۔ ہم متشاعروں کے کلام کے اشتہار کے انبار تو دیکھتے ہیں لیکن کیوں ایک فطری شاعر کے کلام کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئیں اور خود شاعر اس کے کلام کے چھپنے کی آرزو لے کر اس بیداد دنیا سے چلا گیا۔ ‘‘

 ( تعمیر بقا، نیرنگ سرحدی، ص 10)

نند لال نیرنگ سرحدی 6فروری 1912کو غیر منقسم ہندوستان کے مندھرا، ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام سادھو رام اور دادا کا نام کالے رام تھا۔ ان کے دادا کالے رام میونسپل کمیٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں داروغہ چنگی تھے۔

ایسے پرگو اور استادانہ مہارت رکھنے والے شاعر کے بارے میں یہ جاننا بھی دلچسپ ہوگا کہ انھوں نے شاعری کا آغاز کب کیا ؟ اس سلسلے میں ’ میری شاعری‘ کے عنوان سے مارچ 1967میں لکھا ہوا ان کا ایک مضمون موجود ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں:

’’میری شاعری کی ابتدا جب میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا، میرے کرم فرما مولانا عطاء اللہ خان صاحب کی زیر نگرانی ہوئی۔ وہ خود ایک بہت بڑے عالم اور اعلیٰ پایہ کے ادیب اور شاعر تھے،اسی زمانے میں جناب منشی تلوک چند صاحب محروم سے ملاقات ہوئی جو ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک مقامی اسکول میں نائب مدرس ہو کر تشریف لائے تھے۔ ان کی خدمت میں رجوع کیا۔ انھوں نے بھی میری حوصلہ افزائی فرمائی اور چند سادہ باتیں جو بنیاد شاعری کے لیے ضروری تھیں میرے ذہن نشیں کرائیں اور مجھے باقاعدہ لکھنے کے لیے ہدایت فرمائی۔ ‘‘  ( تعمیر بقا، ص 154)

نند لال نیرنگ سرحدی پیشے سے معلم تھے۔ تمام زندگی تنگ دستی میں گزاری۔ اصولوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ شعر و ادب کو اپنی زندگی میں سب سے عزیز رکھا۔ اردو اور ہندی کے علاوہ پشتو، فارسی، سنسکرت وغیرہ زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اردو تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ لوگ انھیں اردو تہذیب کا نقیب کہتے تھے۔ سفید پاجامہ اور کالی شیروانی پسندیدہ لباس تھا۔ سر پر اکثر شینل کی ٹوپی ہوتی اور ہاتھ میں کشمیری چھڑی۔ بڑے محنتی اور جفا کش تھے۔ صبح جلدی سوکر اٹھ جاتے تھے اور عام طور پر رات بارہ بجے سے پہلے نہیں سوتے تھے۔ مطالعے کے شوقین تھے۔ مشاعروں میں خوب شرکت فرماتے لیکن کبھی کسی سے عرض تمنا نہیں کرتے۔ خود بھی مشاعرے منعقد کرتے جس میں ملک کے ممتاز شعرائے کرام شرکت فرماتے تھے۔

نند لال نیرنگ سرحدی کلاسیکی شعرا کے کلام کا خوب مطالعہ کرتے تھے۔وہ اس بات کی اہمیت سے واقف تھے کہ میر، سودا، درد، انیس، غالب، مومن، ذوق، داغ، اقبال وغیرہ کا مطالعہ کسی بھی شاعر کے لیے ناگزیر ہے۔ انھوں نے کلاسیکی شعرا کے کلام پر تضمین بھی کی ہے۔ تضمین نگاری آسان نہیں ہے۔کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر ہی تضمین نگاری کے فن سے انصاف کر سکتا ہے۔نیرنگ سرحدی نے خواجہ میر درد کی مشہور غزل کے تین شعروں پر مخمس میں تضمین کی اور اس تضمین کا نام ’ نغمۂ توحید ‘ رکھا۔ انھوں نے مرزا غالب کے اشعار پر بھی تضمین کی ہے۔ بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک کامیاب تضمین نگار تھے۔ تعمیر بقا کے مرتب ممتاز شاعر و ادیب ڈاکٹر سید تقی عابدی لکھتے ہیں:

’’تضمین و ہ شعر یا نظم ہے جس میں شاعر کسی شاعر کے مصرعے یا شعر پر اپنے مصرعے جوڑ دیتا ہے۔ نیرنگ نے اساتذہ میں خواجہ میر درد اور مرزا غالب کی غزل کے چند منتخب شعروں پر تضمین باندھی ہے۔ انھوں نے بسمل سعیدی کی غزل کے شعر پر دو مصرعے اضافہ کر کے قطعہ بنا دیا          ؎

      جس سے نہ بجھے تشنگی  اے حضرت نیرنگ

اس  ساغر  مئے  کو کبھی ساغر نہیں کہتے

کعبہ میں مسلماں کو بھی  کہہ دیتے ہیں کافر

 بُت  خانہ  میں  کافر کو بھی  کافر نہیں کہتے

(تعمیر بقا، ڈاکٹر سید تقی عابدی، ص 253)

نیرنگ سرحدی غالب کے بڑے عاشق تھے۔ ان کے بیٹے نریش نارنگ نے اپنے کئی انٹر ویوز میں بتایا ہے کہ نیرنگ صاحب ہمیشہ غالب کے دیوان کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے اپنے گھر کے ایک کمرے میں غالب کی بڑی سی تصویر لگا رکھی تھی۔ غالب کی چھوٹی بحر کی ایک مشہور غزل کے چھے اشعار پر مخمس کی ہیئت میں تضمین کیا ہے۔ مطلع کا بند دیکھیے     ؎

 

جوشِ  شباب میں اسے سرشار دیکھ کر

ذرے میں ایک حسن کا انبار دیکھ کر

پیش  نگاہ  مطلع  ِ انوار  دیکھ  کر

کیوں جل گیا نہ تاب ِ رُخِ یار دیکھ کر

جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر

نیرنگ سرحدی کے شعری سرمائے میں نظموں، غزلوں، قطعات وغیرہ کے ساتھ حمد، نعت،منقبت سبھی کچھ ہے۔ مناجات کے اشعار دیکھیں تو نہ صرف نیرنگ سرحدی کی قادر الکلامی عیاں ہوتی ہے بلکہ ان کا صوفیانہ مزاج بھی سامنے آتا ہے۔ نیرنگ سرحدی ایک طرف بھکتی تحریک سے متاثر تھے تو دوسری طرف مولانا روم کی مثنوی کو اپنے دل کے قریب پاتے تھے۔ انھوں نے جو مناجات لکھی ہے اس میں خالق کائنات کی حمد، وحدت کے حوالے سے اس کی عظمت کے ذکر کے ساتھ ساتھ مخلوقات اور کائنات پر اس کے اختیار اور اقتدار کا ذکر بھی ہے۔ مسدس کی شکل میں آٹھ بند کی ایک نہایت پُر اثر اور درد انگیز مناجات ان کے مجموعے میں شامل ہے۔ بطور نمونہ صرف ایک بند یہاں پیش کیا جاتا ہے     ؎

درد مندوں  کی دوا،  اور شفا کے مالک

خالق ہر دو جہاں، ارض و سماء کے مالک

صاحب  فقر و غنا،  شاہ و گدا کے مالک

واقف  راز  فنا،  دار  بقا  کے  مالک

ہیں  گل و خار ترے،  سر و سمن تیرے ہیں

خشک و تر تیرے ہیں صحرا و چمن تیرے ہیں

سہل ممتنع میں شعر کہنا بھی قیامت ہے۔ نیرنگ سرحدی چونکہ ایک استاد شاعر تھے، اس لیے ان کے کلام میں ہر رنگ کے اشعار موجود ہیں۔

تذکروں کی ایک اصطلاح ہے سہل ِممتنع۔ عہدساز شاعر حسرت موہانی نے لکھاتھا کہ ’’سہلِ ممتنع سادگی حسن و بیان کی اس صفت کا نام ہے جس کو دیکھ کر ہر شخص بظاہر یہ سمجھے کہ یہ بات مرے دل میں بھی تھی اور ایسا کہنا شاعر کے لیے آسان ہے مگر جب خود کوشش کرے ویسا لکھنا چاہے تو نہ لکھ سکے۔ ‘‘ کسی شاعر کے کلام میں سہلِ ممتنع کے اشعار کا پایا جانا بھی اس کی ایک بڑی خوبی ہے۔ ڈاکٹر ظہیر رحمتی لکھتے ہیں:

’’ اصطلاح میں سہل ممتنع ایسے کلام کو کہتے ہیں جس میں نازک، بلند اور دقیق خیال کو بھی آسان، سلیس اور مانوس الفاظ میں اس قدر سادگی اور صفائی کے ساتھ باندھا جائے کہ وہ خیال و شعر عام و معمولی لگنے لگے یعنی قاری اور سامع کو مفہوم کی ترسیل اس طرح ہو جائے جیسے ایک عام بات کی ترسیل ہو جاتی ہے۔ سہل ممتنع کی تعریف یہ ہے کہ ایسا شعر جس کی نثر نہ کی جا سکے یعنی اس میں اتنی سادگی و عمومیت ہو کہ نثر میں کچھ بیان کرنے کے لیے باقی ہی نہ رہے،سہل ممتنع کا شعر کہلاتا ہے۔ ‘‘

(ظہیر رحمتی، غزل کی تنقیدی اصطلاحات، ص 327)

بطور نمونہ چند اشعار پیش کرتا ہوں        ؎

محبت  میں جفا  ہوتی رہی ہے

نہ جانے کیا خطا ہوتی رہی ہے 

کسے معلوم میرے دل کی حالت

تری محفل میں کیا ہوتی رہی ہے

ہمیشہ بزم میں واعظ کے ہوتے

پراگندہ  فضا  ہوتی  رہی ہے

جہاں پڑھنے گئے نیرنگ وہاں پر

غزل پر واہ وا ہوتی رہی ہے 

نیرنگ سرحدی بنیادی طور پر ایک معلم تھے۔ وہ درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ تھے اور اخلاقی قدروں پر زور دیتے تھے۔ وہ حضرت انسان کی عظمت کو پامال ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اندر کا شاعر کئی مرتبہ معلم ِ اخلاق بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ خصوصی طور پر انھوں نے اپنے قطعات میں اخلاقی درس دیا ہے۔ کلام نیرنگ سرحدی کے مرتب، ممتاز محقق و نقاد ڈاکٹر سید تقی عابدی کی تحقیق کے مطابق نیرنگ سرحدی کے قطعات کی تعداد تقریباً ایک سو اسّی ( 180) ہے۔ نیرنگ نے کچھ قطعات فارسی میں بھی لکھے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ یہ انسان یعنی حیوانِ ناطق اگر اخلاق اور کردار کی دولت سے مالامال ہے تبھی اشرف المخلوقات کہلانے کا حقدار ہے۔

خود غرضی اور احسان فراموشی بھی ہماری اخلاقی گراوٹ کے سبب معاشرے میںموجود ہے۔ یہاں بیشتر احباب چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں۔ جبکہ ہماری اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ ہم جذبۂ احترام کے ساتھ کسی کو سلام کرنے والے بنیں۔ اس بات کو نیرنگ سرحدی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس قطعہ میں پیش کیا ہے      ؎

کوئی جھک کر سلام کرتا ہے

ظاہراً احترام کرتا ہے

ظاہراً احترام کرتا ہے

بے  غرض آج کل  زمانے میں

کون کس کو  سلام کرتا  ہے

نیرنگ سرحدی کا ماننا تھا کہ شاعر کا سب سے بڑا مذہب انسانیت ہوتا ہے۔ وہ خود ایک نیک دھارمک ہندو خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ سبھی مذاہب کا احترام کرتے تھے اور اپنی شاعری کے ذریعے یہی پیغام دینے کی کوشش کرتے رہے کہ انسانیت کو سب سے بڑا مذہب تصور کیا جائے۔ انھوں نے ہر مذہب کے تہواروں کے حوالے سے نظمیں لکھیں۔ ہر مذہب کے مذہبی رہنمائوں کو اپنی شاعری کے ذریعے خراج ِ عقیدت پیش کیا۔ انھوں نے گرو نانک صاحب، گرو گوبند سنگھ، مہاویر سوامی اور مہرشی دیانند کے بارے میں جس عقیدت سے نظمیں لکھی ہیں اُس سے نیرنگ سرحدی کی رواداری اور وسعت ِ قلب کا ثبوت ملتا ہے۔ عید کے موقعے پر غزل کی ہیئت میں جو نظم انھوں نے لکھی تھی اسے بڑی عقیدت سے سنایا کرتے تھے۔ چند اشعار دیکھیں           ؎

نگاہِ  لطف  و  کرم  ہو  تو  عید  ہوتی   ہے

نصیب  دولت ِ  غم  ہو   تو  عید  ہوتی  ہے

عُروجِ عشق  یہی  ہے تمہارے نام کے ساتھ

ہمارا   نام   رقم    ہو   تو   عید   ہوتی  ہے  

جبینِ شوق  نے  سجدے کہاں  کہاں نہ کیے

تمہارے  در پہ جو  خَم  ہو  تو عید  ہوتی  ہے

نِشاطِ شعر  و  سخن  میں یہی  تو  ہے  نیرنگ 

زباں ہو،  زورِ قلم   ہو  تو  عید  ہوتی  ہے 

مشرق و مغرب کی جو کشمکش ہمیں علامہ اقبال کی شاعری میں ملتی ہے، اس کا پَرتَو نیرنگ سرحدی کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ جس طرح علامہ اقبال نے مشورہ دیا تھا کہ ہمیں نہ مشرق سے بیزار ہونا ہے نہ مغرب کی اندھی تقلید کرنی ہے۔ بلکہ یہ یاد دلایا کہ فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر شب کو سحر کیا جائے۔ علامہ اقبال کی اس فکر کو نیرنگ سرحدی نے بھی اپنی شاعری میں برتا ہے۔ بے شک وہ مشرق کے دلدادہ ہیں لیکن مغرب کی ترقی سے مشرق کو سنوارنا بھی چاہتے ہیں۔ ان کی ایک نظم ہے ’’کسی دوست کی امریکہ سے واپسی پر ‘‘۔ مسدس کی شکل میں چھہ بند پر مشتمل نظم میں ایک مثبت پیغام ہے۔ اس نظم میں امریکہ کی مادی ترقی کا ذکر بھی ہے اور اپنے وطن کی خوبصورتی اور قدرتی وسائل کا بیان بھی ہے۔  چند اشعار پیش خدمت ہیں          ؎

ملک امریکہ سے آنا ہو مبارک نوجواں

تیری اس توقیر پر شاداں ہے ہر خورد و کلاں

سیر کی ہے تونے  امریکہ کے  ارضِ پاک کی

تونے دیکھی ہے زمیں واشنگٹن، نیو یارک کی

لوگ کہتے ہیں نرالی ہے وہاں کی سرزمیں

کوہ دَریا کے مناظر ہیں وہاں سحر آفریں

کیا کوئی دریا وہاں پر ہمسرِ جمنا بھی ہے

کیا ہمالہ کی بلندی ہے وہاں گنگا بھی ہے

تاج کی صورت عمارت کوئی دیکھی ہے وہاں

ہے  زمینِ ہند  پر  جو  یادگار ِ  شہہ  جہاں 

کیا وہاں بھی دفن ہے کوئی  محبت  کا  نشاں

جس کے آگے سر جھکاتے ہوں زمین و آسماں

 تُونے  امریکہ  کے  علم و فن  سے  پائی  آگہی

تجھ کو  بھارت  میں  نظر  آئے  اگر  کوئی کمی

منتشر کر  دے  وہاں  علم  و  ہنر  کی  روشنی 

روشنی  میں  ہو  اضافہ تاکہ  تیری  ذات  سے

پار   بیڑا   ہند  کا   ہو  قلزم ِ  ظلمات   سے

ایسی بہت سی عمدہ نظمیں نیرنگ  سرحدی کے یہاں ملتی ہیں جن میں وطن سے محبت کا پیغام دیا گیا ہے۔ وہ اپنی نظموں میں شانِ وطن اور عزمِ جوانانِ وطن کے گیت گاتے ہیں۔ وہ وطن سے محبت کا درس دیتے ہیں اور اہنسا کا پاٹھ پڑھاتے ہیں۔

چند نامساعد حالات کے سبب نیرنگ سرحدی کا کلام ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔ اس بات کا انھیں قلق تھا۔ لیکن وہ اپنے کلام کی اشاعت کے لیے کسی کے سامنے اظہار ِ تمنا نہیں کر سکتے تھے۔ ایک خودداراور قناعت پسند شاعر کے لیے یہ بہت مشکل کام تھا۔ اہلِ جہاں نے اس کرب کو محسوس نہیں کیا اور وہ خود اپنی زباں سے اظہار نہ کر سکے لیکن اپنے کئی اشعار میں انھوں نے اس کرب، بے چینی اور تڑپ کو بیان کیا ہے۔ انھیں اس بات کی فکر ضرور تھی کہ ان کے بعد ان کے کلام کا کیا حشر ہوگا۔اسی کے ساتھ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ شاعری ان کی زندگی ہے۔ شاعری کے بغیر وہ ادھورے ہیں۔ وہ کہتے ہیں        ؎

 

نیرنگ ! شاعری  تھا  مرا  مقصد ِ  حیات

معلوم کیا ہو حال مرا شاعری  کے  بعد

ایک مدت تک مصائب، آلام، تنگ دستی اور تنگ حالی کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بعد نند لال نیرنگ سرحدی کو شدت سے یہ احساس ہونے لگا کہ اب سامانِ سفر باندھنے کا وقت ہو چلا ہے۔آخری وقت میں بھی یاس اور مایوسی سے اپنا دامن بچاتے ہیں لیکن حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں        ؎

  اَب  نہ  پہلی  سی  شان  باقی  ہے

ہے  غنیمت کہ جان   باقی  ہے

سب  بلائیں  تو  دیکھ  لیں   نیرنگ

موت کا امتحان باقی ہے

5فروری 1973شام کے سات (7)بجے، حرکت قلب بند ہو جانے سے نیرنگ سرحدی کا انتقال ہوا۔

 

Dr. Shafi Ayyub (Shafi Uzzama Khan)

Centre of Indian Languages,

SLL&CS / JNU

New Delhi . - 110067

Mobile : 8860248513

shafiayub75@rediffmail.com

 

تازہ اشاعت

جگدیش سرن سکسینہ راز کرہلوی اور ان کی غزلیہ شاعری، مضمون نگار: فیضان حیدر

اردو دنیا، اپریل 2025 جہان رنگ و بو میں کچھ ہستیاں ایسی بھی عالم وجود میں آئیں جو اپنی بصیرت، تخلیقی فکر اور ادبی خدمات سے نہ صرف معاشرے ...