اردو دنیا، اپریل 2025
جہان رنگ و بو میں کچھ ہستیاں ایسی بھی عالم وجود میں آئیں جو اپنی بصیرت، تخلیقی فکر اور ادبی خدمات سے نہ صرف معاشرے کی فکری رہنمائی کرتی رہیں بلکہ ادبی دنیا کو بھی نیا رنگ و آہنگ بخشتی رہیں۔ جگدیش سرن سکسینہ راز کرہلوی انھیں روشن ستاروں میں سے ہیں جنھوں نے اپنی علمی و ادبی خدمات سے نہ صرف ادبی دنیا کو تابانی بخشی بلکہ اسے ایک نئی سمت سے روشناس بھی کرایا۔راز کرہلوی ایک منفرد اور حساس شاعرہونے کے ساتھ ایک رسالے کے مدیر بھی رہے۔ ان کے زیرِ ادارت شائع ہونے والے رسالے ’سلگتی لکیریں‘ نے نئے لکھاریوں کو ایک مستند پلیٹ فارم فراہم کیا، جب کہ ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے معیاری تحریریں بھی پیش کیں۔ ان کی شاعری عشق و محبت، ناکامی ونامرادی،مایوسی و محرومی اور انسانی جذبات و احساسات کے اظہار سے عبارت ہے۔ وہ ان شعرا میں ہیں جو رسم وراہِ عام کے پابند نہیں بلکہ جداگانہ اندازِ نظر کے حامل اور ایک خاص طرز کے علمبردار ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے فکر وفن کو نئی جہتوں اور نئی سمتوں سے آشنا کیا۔
جگدیش سرن سکسینہ راز کرہلوی 6نومبر1922 کو ایک علمی
گھرانے میںپیدا ہوئے۔ان کے والد دیاشنکر شمیم(1895-1954) خود اردو کے صاحب دیوان
شاعر تھے۔ان کا دیوان ’موجِ شمیم‘ کے نام سے1974 میں شائع ہوچکا ہے۔ راز کرہلوی کی
ابتدائی تعلیم کرہل اور مین پوری میں ہوئی۔کے۔پی کالج الہ آباد سے انٹر اور
لکھنؤ یونیورسٹی سے بی کام تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آگرہ یونیورسٹی سے ایم
کام اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے بعد کے۔ پی کالج الہ
آباد میں لکچرر مقرر ہوگئے۔چار سال کے بعد 1949 میں سیلس ٹیکس افسر مقرر ہوگئے اس
لیے لکچرر کی ملازمت ترک کردی۔منظور ہاشمی ان کی شخصیت کا مکمل خاکہ اس طرح کھینچتے
ہیں:
’’کھلتا
ہوا رنگ، کشادہ پیشانی، سوچ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں، ہونٹوں سے مسکراہٹ کے برستے
ہوئے پھول،چہرے سے خلوص اور شرافت کی پھوٹتی ہوئی کرنیں، برتاؤ میں بے پناہ اپنائیت،
گفتگو میں ایسی نرمی اور گھلاوٹ کہ جو ایک بار ملے ان کا ہوکر رہ جائے، اخلاق و
محبت کا پیکر،یہ ہیں جناب جگدیش سرن سکسینہ رازکرہلوی۔ جہاں رہے جان انجمن بن کر
رہے۔ جس جگہ گئے شعرو ادب کے چراغ کو روشن رکھا۔‘‘
)راز
و نیاز،جگدیش سرن سکسینہ راز کرہلوی،ناظم پریس،رامپور، 1976، پشت کی تحریر)
شاعری کے ساتھ ’سلگتی لکیریں‘ کے اداریے بھی ان کی
ذہانت اور سیاست پر گہری نظر کے غماز ہیں۔ زبان و بیان میں ایک انقلابی رنگ نمایاں
ہے جو قارئین کے جذبہ حب الوطنی اور فرض شناسی کو نہ صرف متحرک کرتا ہے بلکہ قومی یکجہتی
کا پیغام بھی دیتا ہے اوران کے دلوں میں جوش و جذبہ اور ایثار و قربانی کے تئیں
ولولہ پیدا کرتا ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے عالمی سطح کے موضوعات اور مدعوں پر بھی
کھل کر لکھا۔ ملک و قوم اور عالمی مسائل پر ان کی تحریریں قابل ذکر ہیں اور یہ
ثابت کرتی ہیں کہ ان کی نظر محدود نہیں ہے۔ شاعری میں ان کا اسلوب اپنے عہد کے
شعرا سے قدرے مختلف ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ہندوستانی تہذیب و تمدن اور فرہنگ
و ثقافت کا بہترین ڈھنگ سے احاطہ کیا ہے جو انھیں قوم پرست شاعر کی حیثیت سے بھی
روشنا س کراتا ہے۔ان کے دومجموعے ’راز و نیاز‘ اور’سوزو گداز‘ اردو اور دیوناگری
رسم الخط میں منظر عام پر آئے۔بعد میں دونوں مجموعوں کے انتخابات بھی شائع ہوئے۔
راز کرہلوی کے جذبات و احساسات محدود نہیں تھے۔ وہ کسی
بھی چیز پر رسمی رد عمل ظاہر نہیں کرتے بلکہ اس کے اسرار ورموز تک پہنچنے کی کوشش
کرتے ہیں۔ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ان کی نظران کے ہم
حلقہ شعرا سے زیادہ گہری، زیادہ محیط، زیادہ جامع، زیادہ وسیع اور زیادہ حقیقت بیں
ہے۔ وہ اپنے اعلیٰ افکار، گہرے جذبوں اور معنی خیز تجربوں سے ہمیں زندگی کی
صداقتوں کا بھرپوراحساس دلاتے ہیںجوہم کو مسرت سے بصیرت تک پہنچانے کا داعی
بنتاہے۔ان کے مجموعہ کلام ’راز و نیاز‘ کے تعارف میں ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے
ذاکر بھارتی رقم طراز ہیں:
’’جنابِ
راز نے ایک انتہائی ادبی ماحول میں آنکھ کھولی۔ ایک طرف گھر پر والد اور ان کے
ناناجناب مکٹ بہاری لال کی اردو اور فارسی کی شاعری کا سایہ تھا،دوسری طرف کرہل میں
ماہانہ طرحی مشاعروں کی فضائیں، اور مین پوری میں جناب جگر، نانک، رنگیلے، مائل وغیرہ
مایہ ناز شاعروں کے نغموں سے گونجتی محفلیں تھیں۔ لہٰذا قدرتی طور پر شاعری کا
جوہر ان کی فطرت میں بچپن سے موجود تھا۔ چوتھی جماعت میں پہنچتے پہنچتے کھلاڑی
تخلص رکھ کر باقاعدہ ایک طرحی مشاعرے میں اعلان کیاکہ ؎
کھلاڑی ہیں تخلص بھی رکھا ہم نے کھلاڑی کا
پڑھا کرتے ہیں درجہ چار میں کرہل میں رہتے ہیں
(ایضاً،
ص د)
وقت کے ساتھ ساتھ علمی و
ادبی جذبہ پروان چڑھتا رہا۔ جلد ہی مزاج میں شائستگی اور متانت پیدا ہوگئی چنانچہ
کھلاڑی سے راز تخلص اپنایا۔ راز کی ادبی زندگی اب راز نہ رہ سکی اور علمی و ادبی
ذوق و شوق ان کو علمی و ادبی نشستوں اور مشاعروں کی طرف کھینچ لایا۔ جہاں بھی رہے
شمع انجمن بن کر رہے۔طرحی و غیر طرحی مشاعروں میں مترنم لہجے میں غزلیں سناتے اور
اپنی دل کش آواز سے سامعین پر ایک سماں باندھ دیتے۔ انھوں نے اپنے کلام پر
باقاعدہ طور پر کسی سے اصلاح نہیں لی بلکہ والد کی صحبت اور ادبی و شاعرانہ ماحول
نے انھیں فارغ الاصلاح بنادیا۔ دلکش آفریدی ان کے مجموعہ کلام ’راز و نیاز ‘پر
تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’راز
صاحب کی ہمہ رنگ و ہمہ صفات شخصیت اور ان کا فن ادبی دنیا میں قبولیت کی سند رکھتا
ہے۔یوں تو جملہ اصناف سخن میں کہتے ہیںمگر غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔ ان کی زبان
گنگ و جمن کے مقدس پانی میں دھلی ہوئی پاکیزہ و لطیف ہے۔‘‘(ایضاً، ص و)
ان کی غزلوں کے مطالعے سے دلکش آفریدی کی رائے حرف بہ
حرف درست ثابت ہوتی ہے۔ان کی غزلیہ شاعری میں عشق و محبت اور درد کے جذبات کا خوب
صورت اظہار ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں عشق، غم، وفا اور حسن جیسے موضوعات
کا دل کش انداز میں احاطہ کیا ہے۔ساتھ ہی وفاداری، مایوسی اور انسانی جذبات و
احساسات کے تضادات کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ الفاظ کی چاشنی اور خیال کی
پہنائی قابلِ ذکر ہے۔ الفاظ کا انتخاب بھی قابل داد ہے جس کی وجہ سے قاری یا سامع
کو اشعارکے معانی سمجھنے اور محسوس کرنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ایک غزل کے چند
اشعار کی قرأت کیجیے ؎
درد بڑھ کر دوا نہ ہو جائے
ایک مشکل سوا نہ ہو جائے
ان کا وعدہ وفا نہ ہو یا رب
دشمنوں کو گلہ نہ ہو جائے
دیکھ محفل سے ہم چلے محروم
اب کسی پر جفا نہ ہو جائے
نامرادیِ عشق کا غم کیا
حسن بے آسرا نہ ہو جائے
دل میں ہے درد، درد میں دل ہے
درد دل سے جدا نہ ہو جائے
مذکورہ غزلیہ اشعار اسلوب کی لطافت، فکرکی گہرائی اور
اظہار کی لطافت کے باعث نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر شعر منفرد موضوع کو اجاگر کرتا
ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ اشعار ایک مربوط جذباتی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ان میں
محاوراتی زبان کی چاشنی موجود ہے، جیسے ’درد بڑھ کر دوا نہ ہو جائے‘ اور ’دیکھ
محفل سے ہم چلے محروم‘۔ اس میں تراکیب اور تشبیہات کا خوب صورت استعمال بھی کیا گیا
ہے، جیسے ’حسن بے آسرا نہ ہو جائے‘ اور ’درد دل سے جدا نہ ہو جائے‘۔ یہ اشعار
جذبات و احساسات کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔خیالات اور جذبات عمومی مسائل اور کیفیات
پر مبنی ہیں، جنھیں ہر دور اور ہر معاشرہ سمجھ سکتا ہے۔ عشق، مایوسی اور انسانی
تعلقات کے پہلو آفاقی نوعیت کے ہیں۔ساتھ ہی بحر و قوافی کا استعمال نہایت متوازن
ہے۔ اشعار کی روانی اور ہم آہنگی ان کے عروضی حسن کی عکاسی کرتی ہے۔
حسن، شوخی، لطافت، شیرینی، رنگینی اور طرح داری نے ان کی
غزلیہ شاعری کو ایک منفرد رنگ و آہنگ عطا کیا ہے۔ ان کی قوت تخیل نے روز مرہ اور
محاورات کو بڑی کامیابی کے ساتھ برتا ہے جس سے ان کے اشعار میں تہ داری اور معنویت
پیدا ہوگئی ہے۔ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
تو حسن کا پیکر ہے آنکھیں تری مستانہ
بت خانے کا بت خانہ، میخانے کا میخانہ
مارا ہوا الفت کا جائے تو کہاں جائے
اے شمع جلا ڈالا تو نے پرِ پروانہ
معراج محبت میں ہر چیز نئی دیکھی
ہر کیف ترا یکتا ہر درد جداگانہ
دل دے کے انھیں میں نے یہ درد جگر پایا
کچھ دے دیا نذرانہ کچھ لے لیا نذرانہ
گرمیِ محبت ہے، اشکوں کی نمی بھی ہے
پلکوں میں سجایا ہے تیرے لیے خشخانہ
بجلی کی چمک دیکھی صیاد کے تیور بھی
کیا کیا نہیں ہم جھیلے اے چرخ اسیرانہ
یہ اشعار محبت، دردو کرب اور قربانی جیسے موضوعات پیش
کرتے ہیں۔ تشبیہات و استعارات کا عمدہ استعمال، جذبات کی گہرائی اور تخیل کی
پروازقابل ملاحظہ ہے۔ راز نے کلاسیکی شعری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ان میں جدت
و انفرادیت کا رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے۔ عاشق کے جذبات و کیفیات کو نہایت خوب صورتی
اور دل کشی سے بیان کیا ہے، جیسے ’پروانے کی قربانی‘ اور ’اشکوں کی نمی‘ وغیرہ۔اسی
طرح بت خانہ، میخانہ اور خشخانہ جیسے الفاظ کے ذریعے محبت اور حسن کی مختلف کیفیات
کو بیان کیا گیا ہے۔پروانہ اور شمع کا استعارہ کلاسیکی شاعری کا ایک اہم عنصر ہے،
جو یہاں بڑی مہارت سے استعمال کیا گیا ہے۔
راز کی شاعری ان کے جذبات و احساسات کا بے محابا اظہار
ہے۔ جس چیز کا انھیں دل سے احساس ہوتا ہے وہی بات بے ساختہ زبان پر آجاتی ہے۔لیکن
وہ اپنے جذبات و احساسات کا بیان نہایت مہذّب اور متین انداز میں کرتے ہیں جو ان
کے تربیت یافتہ ذوق کا آئینہ دار ہے۔ ذیل کے اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
گلگونۂ عارض کے تحفظ میں خمیدہ
خنجر ہیں یہ دو ابروئے خمدار نہیں ہیں
بکھرے ہوئے شانوں پہ یہ لہرائے ہوئے سے
ہیں مارِ سیہ گیسوے دلدار نہیں ہیں
کاکل کے خم و پیج سے ہوتا ہے گماں یہ
شعلے تو کہیں برسر رخسار نہیں ہیں
ساقی ہمیں کچھ مست نگاہوں سے عطا ہو
مے خانے میں ہم مے کے طلبگار نہیں ہیں
ان اشعارمیںشاعر نے محبوب کے ابرو، زلفیں، عارض اور
نگاہوں کو تشبیہوں اور استعاروں میں بیان کیا ہے۔ ہر مصرعے میں حسن کی جاذبیت اور
عشق کی لطیف کیفیت نمایاں ہے۔یہ اشعار محبوب کے حسن، اس کی کشش اور عاشق کی محبت کی
شدت کو بیان کرتے ہیں۔ شاعر نے ابروؤں کو خنجر، زلفوں کو مارِ سیہ اور کاکل کے خم
کو شعلے سے تشبیہ دی ہے، جو محبوب کے حسن کی جان لیوا جاذبیت کے عکاس ہیں۔آخر میں
عاشق کا اصرار ہے کہ وہ محبوب کی مست نگاہوں کو حقیقی شراب سے زیادہ قیمتی سمجھتا
ہے۔
اردو کے تقریباً تمام شعرا نے غم عشق اورغم دوراں کی
شکایت کی ہے، لیکن راز کا انداز کچھ نرالا ہے ؎
کر چکے یہ زندگی وقف سبو
پارسائی سے ہمیں کیا کام ہے
اے غم دوراں تو اپنی راہ لگ
اپنے ہاتھوں میں صراحی جام ہے
یہ اشعار کلاسیکی اردو شاعری کی اس روایت کی نمائندگی
کرتے ہیں جس میں عیش و طرب، درویشی اور غم دوراں کے درمیان ایک انوکھا تضاد پیش کیا
جاتا ہے۔مذکورہ اشعار میں ایک طرح کی بے نیازی، زندگی سے فرار اور صوفیانہ کیفیت
پائی جاتی ہے۔ شاعر دنیا کے غموں اور مشکلات کو چھوڑ کر اپنے لیے ایک الگ راہ منکشف
کرتا ہے، جہاں غموں کو مے نوشی اور بے فکری سے زائل کرسکے۔یہ انداز اردو شاعری میں
میر، غالب اور دیگر کلاسیکی شعرا کے یہاں بھی ملتا ہے، جہاں دنیا کے غم و اندوہ
اور انسانی بے بسی کے خلاف ایک احتجاج عیش و طرب کی صورت میں نظر آتا ہے۔
ان کے صوفیانہ اشعار کے مضامین تقریباً وہی ہیں جو ان
کے پیش رو شعرا کے ہیں، لیکن ان کی فنی ہنرمندی،
رچاؤ اور حسنِ ادا ملاحظہ ہو
؎
اے راز دمِ آخر جی بھر کے پلا دینا
ساقی مئے وحدت سے لبریز ہو پیمانہ
یہ شعر صوفیانہ شاعری کی معراج ہے جہاں شاعر نے وحدت یعنی
’وحدت الوجود‘ کے فلسفے کو نہایت لطیف پیرایے میں بیان کیا ہے۔ ’دمِ آخر‘ زندگی
کے آخری لمحے کو بیان کر رہا ہے، جب انسان حقیقت کے قریب ہوتا ہے۔’جی بھر کے پلا
دینا‘ عرفانِ حقیقت و معرفت کی طلب ہے، یعنی شاعر خدا سے التجا کر رہا ہے کہ آخری
گھڑی میں معرفتِ حق کا جام نصیب ہو۔صوفیانہ شاعری میں ’پیمانہ‘ اکثر محبتِ الٰہی یا
معرفتِ حق کا استعارہ ہے۔ یہاں شاعر وحدت (یعنی حق) سے بھرپور عرفانی کیفیت کی
آرزو کر رہا ہے۔یہ ایک مکمل صوفیانہ تصور ہے، جس میں فنا فی اللہ اور حق کے ساتھ
اتحاد کی خواہش نظر آتی ہے۔
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری زمینی حقیقتوں
کی ترجمان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں ایک عام انسان کے دل کی دھڑکنیں سنائی
دیتی ہیں۔ مختلف اوقات میں انسان پر گوناگوں قسم کے جذبات طاری ہوتے ہیں۔ چنانچہ
انھوں نے بھی جذبات و احساسات،تجربات و مشاہدات کو مختلف زاویے سے غزلوں میں سمویا
ہے۔ اردو کی عام روایات کو اپنی شاعری میں ضرور برتا ہے لیکن تجربات و مشاہدات کو
غزلیہ شاعری کا محور و مرکز قرار دیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انسان کی زندگی بڑی پیچیدہ
ہے جس کو سمجھنا آسان نہیں۔ خصوصاً محبوب کے رویے کو سمجھنا اس سے کہیں زیادہ
مشکل ہے۔ جہاں کہیں انھوں نے اپنے محبوب کے ظاہر پر توجہ مرکوز کی ہے وہیں اس کے
باطن میں جھانکنے کی بھی کوشش کی ہے۔ان کا معشوق آج کی صارفیت زدہ زندگی کا فرد
ہے، چنانچہ اس کا سمجھنا بھی اتنا ہی مشکل ہے۔ایک لمحے میں وہ جذبات کے جس پڑاؤ
پر ہوتا ہے پل بھر میں وہ سطح پورے طور پر تبدیل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے عاشق کا
اندرون بھی انتشاری کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے، لیکن وہ معشوق کی پینترے بازی کو ناز
و ادا سے تعبیر کرتے ہیں۔
ان کی غزلیہ شاعری روایت و جدت سے ہم آہنگ ہے۔ وہ روایت
کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں لیکن روایتی الفاظ و تراکیب کو اس طرح استعمال کرتے ہیں
کہ ان میں نئے معانی پیدا ہوجاتے ہیں۔ان کی غزلیہ شاعری میں معانی کی وسعت،تشبیہات
و استعارات اور علامتوں کا عمدہ استعمال ملتا ہے۔ کہیں کہیں جذبات و احساسات کی رو
میں بہہ کر ابتذال اور سوقیت کا بھی شکار ہوجاتے ہیںجس کا شکار کم و بیش ان کے سبھی
ہمعصر شعرا ہوئے ہیں۔بایں ہمہ وہ جس سماج اور معاشرے سے تعلق رکھتے تھے ان کی شاعری
اس کی بہترین آئینہ دار ہے۔
Dr. Faizan Haider
Assistant Professor Dept. of
Urdu & Persian, C.M. College,
Quila Ghat, Darbhanga - 846004
Mob.: 7388886628,
E-mail: faizanhaider40@gmail.com