2/12/25

عابد رضا بیدار: ایک مثالی شخصیت، مضمون نگار: اسلم جاوداں

 اردو دنیا، مئی 2025


مشہور دانشور شخصیت ڈاکٹر عابد رضا بیدار اگرچہ عظیم آباد کے نہیں تھے، مگر وہ اتنے طویل عرصے تک اپنی شخصیت کی پوری ہمہ ہمی کے ساتھ یہاں رہے کہ عظیم آباد سے ان کا رشتہ جزوِلا ینفک ہو گیا۔ آپ کسی سے بھی کہیے ’عابد رضا بیدار‘ ، پھر آپ کو یہ بتانے کی نوبت نہیں آئے گی کہ کون عابد رضا بیدار بلکہ مخاطب خود بخود سمجھ جائے گا کہ یہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کے سابق ڈائرکٹر ڈاکٹر عابد رضا بیدار کی بات کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کو یہاں سے سبکدوش ہوئے 30  برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے ، مگر     ع

ذہن میں آج بھی ہیں زہرہ جمالوں کی طرح

ڈاکٹر عابد رضا بیدار اپنے قد و قامت ، اپنے حلیے اور اپنے جثے سے بھی منفرد نظر آتے تھے، ان کی زلفیں، ان کا چوڑا خط، ان کی گھنی مونچھیں، ان کی آنکھیں، ان کا چہرہ، ریشمی ڈوری سے بندھا سینے پر جھولتا ہوا چشمہ، خاص انداز کا شرٹ اور پینٹ  اور اس پر طرہ یہ کہ سر پر ایک خاص انداز کا کیپ۔ یہ ساری چیزیں انھیں ایک غیر معمولی شخصیت اور بڑے دانشور کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کرتیں۔ ان سے پہلی بار ملنے والا کوئی بھی شخص ان کی ظاہری وضع قطع کو دیکھ کر ہی ایک قابل رشک تصور قائم کر لیتا تھا۔ گویا عابد رضا بیداراپنی خارجی شخصیت کے اعتبار سے بھی متاثر کن رہے۔

عابد رضا بیدار کی پیدائش آج سے 91 برس قبل 12 ؍اگست  1933 میں ہوئی تھی۔ تعلیمی اعتبار سے اسلامک اسٹڈیز اور اردو میں ماسٹر ڈگری لینے کے بعد B.Lib. Sc.کیا پھر قانون کی بھی ڈگری لی (بشمول مسلم لا )۔ رضا لائبریری رام پور میں 1959 سے لے کر 1964 تک اپنی خدمات دیں۔ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ میں 1972 سے لے کر اپریل 1996 تک ایک تاریخ ساز ڈائرکٹر کی حیثیت سے مشہور اور معروف رہے۔

عابد رضا بیدار کی علمیت اور لیاقت میں مثالی تھے۔ اردو، فارسی، عربی،انگریزی، ہندی اور بقدر ضرورت فرانسیسی زبان سے واقف تھے۔انگلش، عربی فارسی اور اردو میں 40 سے زائد کتابیں تصنیف کیں نیز تقریبا  200 کتابیں ان کی مرتب کردہ ہیں۔ انھوں نے کیمبرج، آکسفورڈ، مانچسٹر، لندن، پیرس، قاہرہ، کراچی، ماسکو اور تہران یونیورسٹی کے دورے کے ساتھ ان کی لائبریریوں کو بھی دیکھا۔

ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی غیرمعمولی انتظامی صلاحیت تھی۔ اتنا اچھا اور کامیاب ایڈمنسٹریٹر میں نے زندگی میں سوائے امتیاز احمد کریمی (سابق ڈائرکٹر اردو ڈائرکٹوریٹ، حکومت بہار ) کے نہیں دیکھا۔ انھوں نے اپنی بہترین انتظامی و انصرامی صلاحیت سے خدا بخش لائبریری کو جو رنگ وآہنگ عطا کیا، اس کو جس بلندی کمال تک پہنچایا، اسے بلا خوف تردید تاریخی اور مثالی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے عہد میں لائبریری میں جو نظم و ضبط اور انتظام و انصرام کی کیفیت تھی اور اس دور میں لائبریری کے اسٹاف کی جو  چستی، مستعدی اور حاضر باشی دیکھی گئی، وہ نہ اس سے پہلے تھی اور نہ اس کے بعد کبھی دیکھی گئی۔ کئی بار ایسا بھی دیکھا گیا کہ بیدار صاحب خود کھڑے ہو کر کسی قاری کی مدد کر رہے ہیں۔ اس کی ضرورت کو سمجھ رہے ہیں ، تحقیق کے معاملے میں رہنمائی فرما رہے ہیں یا اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ بلا شبہ انھوں نے خدا بخش لائبریری کو ایک نہایت معیاری اور مثالی لائبریری کے مقام تک پہنچا دیا تھا۔ وہ دور خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کا عہد زریں تھا۔ میرے اس خیال کی تصدیق بی بی سی لندن کے مشہور عالم اناؤنسر رضا علی عابدی کے اس قول سے ہوتی ہے کہ  :

’’عابد رضا بیدار نے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کو عالمی معیار کا بنا دیا ہے۔‘‘ یہ بات انھوں نے معروف صحافی ڈاکٹر نسیم اختر کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہی تھی اور یہ انٹرویو بہار کے مشہور اردو روزنامے ’سنگم‘ میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں نسیم اختر نے اس انٹرویو کو اپنی کتاب ’باتیں‘ میں شائع کیا۔ اس کتاب کے صفحہ 61 اور 62 پر خدا بخش لائبریری سے متعلق رضا علی عابدی کے خیالات درج ہیں۔ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ ان کی خوش انتظامی کا اعتراف ان کا بڑے سے بڑا مخالف اس دور میں بھی بڑی خندہ جبینی سے کرتا تھا اور آج بھی کرتا ہے ۔

عابد رضا  بیدار کی شخصیت کا دوسرا روشن پہلو ان کی علم دوستی اور ادب پروری ہے۔ وہ دانشوروں اور صاحب علم حضرات کے بڑے قدردان تھے۔ پروفیسر حسن عسکری، علامہ واقف عظیم آبادی، تقی رحیم ، عطا اللہ پالوی، احمد یوسف، شاہ اسماعیل روح، کامریڈ حبیب الرحمن وغیرہ جیسی شخصیتوں کی انھوں نے بڑی حکمت عملی کے ساتھ معاونت اور خدمت کی۔ ان کی بے پایاں علمیت، ذکاوت اور صلاحیت کے پیش نظر ان کی ناز برداری بھی کی۔ ان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سبیل نکالی۔ یہ سب کے سب علم و آگہی کے درجہ کمال کو پہنچنے ہوئے باکمال اصحاب تھے۔ ان میں سے کچھ مالی اعتبار سے کمزور اور لا ئق نگہداشت بھی تھے۔ بیدار صاحب نے ان سب کی علمیت اور صلاحیت کا پورا پورا فیض لائبریری کو پہنچایا اور ان کو بھی۔ اس طرح ان کا یہ فیض دو جہتی تھا۔ اس کو ان کی بہترین حکمت عملی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

محمد حسن عسکری سے انھوں نے نہ جانے کتنے فارسی مخطوطوں کے راز ہائے سربستہ کھلوائے۔ تقی رحیم سے ’ہندوستان کی آزادی میں بہار کے مسلمانو ں کا حصہ ‘جیسی گرا ں قدر ضخیم تاریخی کتاب لکھوالی اور اس کو شائع بھی کیا۔ علامہ واقف سے انھوں نے ایسی تاریخ لکھوائی جو بڑی مفصل اور بیش بہا ہے۔ ڈاکٹر نسیم اختر نے بتایا کہ انھوں نے 12 جلدوں پر مشتمل ’نگار شات واقف‘ کے نام سے اس کتاب کا مسودہ دیکھا ہے۔یہ کتاب شہر آرہ کی تاریخ سے شروع ہوتی ہے ،پھر ریاست بہار کی تاریخ ہے ، اس کے بعد ہندستان کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے بعدہٗ اس کا دائرہ وسیع کر کے پورے عالم میں پھیلا دیا گیا ہے۔( اس کو لوگ عام طور سے بہار کے شہر آرہ کی تاریخ سمجھتے ہیں)۔ یہ طویل ترین مفصل تاریخ ابھی مسودے کی شکل میں خدا بخش لائبریری میں محفوظ ہے۔ دیکھیے تاریخ کا یہ قیمتی سرمایہ علم، کب پکی روشنائی میں منتقل ہوتا ہے۔ مشہور فکشن نگار احمد یوسف سے انھوں نے ’ بہار اردو لغت‘ کی تدوین کا نادر کام لے لیا۔جناب شاہ اسماعیل روح کی خدمات حاصل کرکے ان کی صلاحیت، ذکاوت اور ذہانت سے لائبریری کو مسلسل فیضیاب کرتے رہے۔ عطا اللہ پالوی نے بھی کئی اعلی علمی اور تحقیقی کتابیں تصنیف کیں۔ یہ سب عابد رضا بیدار کی غیر معمولی ذہانت اور اختراعی شخصیت کا کمال تھا، جس کی کوئی ہمسری نہیں کر سکا۔

عابد رضا  بیدار اس لیے بھی قابل ذکر ہیں کہ ان کے دور میں جو سیمینار اور اجلاس ہوئے وہ تاریخی اور یادگار ہونے کے ساتھ بڑے علم خیز اور فکر انگیز ہوتے تھے۔ ان سے فکر و نظر اور علم و ادب کی جو شعاعیں پھوٹیں، انھوں نے ہمیں کئی جہتوں سے منور کیا۔ سمینار کے عنوانات بھی خوب ہوتے تھے اور ان کے شرکا بھی صلاحیت اور قابلیت میں اپنی مثال آپ ہوا کرتے تھے۔ ’اردو ریسرچ کانگریس‘ کے نام سے ان کے چار پروگرام بے حد یادگار اور تاریخی رہے۔ یہ پروگرام غالبا ًسہ روزہ ہوا کرتا  تھا۔ معیار تحقیق کے عنوان سے ’اردو ریسرچ کانگریس‘ اپنی نوعیت کا یہ بڑا منفرد اور کامیاب پروگرام رہا۔ پورے ملک کے دانشوران اردو اس میں یکجا ہوئے اور غیر معمولی نوعیت کے مقالے پڑھے گئے۔ ان تمام مقالوں کو جمع کر کے خدا بخش جرنل میں شائع کیا گیا۔ ’اردو میں دانشوری ‘ کے عنوان سے منعقدہ ریسرچ کانگریس بھی مثالی رہا۔ اس میں پڑھے گئے مقالے ’ اردو مسئلہ‘ کے نام سے ایک کتاب میں شائع کیے گئے۔

عابد رضا بیدار کے سمینار اور اجلاس کا معیار کیا ہوتا تھا اور اس میں کیسے کیسے علم و ادب کے لعل و گہر شریک ہوا کرتے تھے اس کا اندازہ آپ اس فہرست سے لگا سکتے ہیں ، جو 1989 عیسوی میں خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کے ’ اردو دانشوری ‘ سمینار کے لیے مرتب کی گئی تھی۔ چند شرکا کے نام ملاحظہ فرما ئیں:

قرۃ العین حیدر، ڈاکٹر مسعود حسین خاں، جمنا داس اختر، سید حامد، غلام سرور، گوپی چند نارنگ، شفیع مشہدی، مظہر امام، رشید حسن خاں، خلیق انجم، پروفیسر محمد محسن، نواب رحمت اللہ خاں شیروانی، تقی رحیم، کامریڈ حبیب الرحمن، انیس رفیع اور ان جیسے ایک درجن مزید اہم حضرات۔

اب آپ اندازہ لگا لیجیے کہ ان کے ذریعے منعقدہ سمینار کس نوعیت اور کس معیار کے حامل ہوتے ہوں گے۔ اس کا آپ کو مزید اندازہ لگانا ہو تو خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کے زیر اہتمام اردو دانشوری سمینار کے مقالوں پر مشتمل  شائع شدہ کتاب ’اردو مسئلہ: جڑوں کی آبیاری یا پتیوں پر چھڑکاؤ ‘ کا مطالعہ کر لیجیے۔ عابد رضا بیدار کی مرتب کردہ یہ کتاب اردو کے مسئلے پر اتنی وقیع، علمی،  دانشورانہ ، معلوماتی اور فکر انگیز ہے کہ اس کا جتنی بار مطالعہ کیا جائے ہمیشہ نئی لگتی ہے اور نئی روشنی دیتی ہے۔ اس میں فکر ونظر کی ایک دنیا آباد ہے۔

میں جب اردو ڈائرکٹوریٹ کے ترجمان ’ بھاشا سنگم‘ کا نائب مدیر تھا، تو میں نے اس کتاب میں شائع شدہ عابد رضا بیدار کی پرسوز اور پرمغز تحریر ’ ماں کی ردا : جو دن ہوئے نیلام ہو چکی‘ شائع کی تھی ، نیز اس کتاب کے کئی اہم اقتباسات کو بھی زینت رسالہ کیا تھا۔ اردو کے مداحوں اور خیر خواہوں نے اگر یہ کتاب نہیں پڑھی ہے تو یہ ان کے مطالعوں کے ذخیرے کی  ایک بڑی کمی ہے۔ گویا عابد رضا بیدار نے سمینار، اجلاس اور علمی مذاکروں کے نام پر بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

عابد رضا بیدار کی شخصیت کا ایک قابل رشک اور درخشندہ پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ناداروں اور مجبوروں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کے اندر انسان دوستی بدرجہ اتم تھی۔ اس سلسلے میں کئی واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ جس کی ایک زندہ مثال علامہ واقف عظیم آبادی ہیں۔ جو بہار کے مشہور شہر آرہ کے رئیس خانوادے سے تھے۔ بعد میں جب سب لٹ پٹ گیا تو عظیم آباد چلے آئے۔ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ رہے تھے۔ دانشوری اور علم کا ایک بہتا چشمہ علامہ واقف عظیم آباد تھے۔ وہ قلندر صفت تھے، بھوکے رہ جاتے ، مگر کبھی دست سوال نہیں دراز کرتے۔  عابد رضا بیدار کی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ لہٰذا انھوں نے ایک دن علامہ واقف عظیم آبادی کو لائبریری میں بلا کر بڑے احترام کے ساتھ کہا ’’ حضور! آپ کی یادداشت بہت قیمتی ہے ، انھیں قلم بند کیجیے اور روزانہ فی صفحے کے حساب سے مجھے نذرانہ پیش کرنے کی اجازت دیجیے ‘‘۔ واقف تیار ہو گئے۔ روزانہ جتنے صفحے لکھتے عابد رضا بیدار شام میں حساب کر کے رقم ان کے حوالے کر دیتے ۔ دفتری اوقات میں ان کے خورد ونوش کا بھی انتظام کرتے۔ حالانکہ واقف عظیم آبادی عالم جذب میں ایک صفحے پر چند سطور ہی لکھتے۔ اس طرح صفحات کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔ مگر عابد رضا بیدار نے کبھی اس کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ان کا مقصد تو کچھ اور ہی تھا ۔ عابد رضا بیدار کی اس طرح کی نجیبانہ کفالت کے کئی مثالیں ہیں۔

عابد رضا  بیدار ایک درد مند انسان تھے۔ ان میں انسانی ہمدردی بھی خوب تھی۔ لائبریری کا کوئی اسٹاف اگر کئی دنوں تک بیمار رہتا اور عابد رضا بیدار کو اطلاع ملتی کہ وہ مالی تنگی کا شکار ہے تو بلا تامل خاموشی کے ساتھ کسی کو بھیج کر اس کی مالی اعانت فرما دیتے۔ اکثر خود ڈاکٹر کو لے کر وہاں پہنچ جاتے اور اس کے عیادت اور اعانت دونوں کرتے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ اگر لائبریری کے کسی عملے کے گھر میں کوئی مالی پریشانی ہے تو وہ اس کو چھٹی کے بعد روک لیتے ہیں اور اس سے دو گھنٹے زائد از وقت (Overtime) کام کراتے اور فورا ًہی ضرورت سے زیادہ اجرت ادا کر دیتے۔ یہ تھی ان کی درد مندی اور انسان دوستی اور انداز ایسا حکیمانہ کہ کسی کی غیرت کو ٹھیس بھی نہ لگے۔

محنت کش کا پسینہ خشک ہونے سے قبل وہ اس کی اجرت دینے کے قائل تھے۔ اس لیے وہ تنخواہ بہ تاکید وقت پر ادا کرتے تھے۔ کسی سے اگر فاضل اوقات میں کام لیا تو اس کی اجرت بھی بہ عجلت ادا کرتے۔ لائبریری کے ایک سابق اسسٹنٹ انور علی وارثی نے بتایا کہ ایک بار عابد رضا بیدار مہینے کے آخری دن دلی کے لیے روانہ ہو گئے اور تنخواہ کے چیک پر دستخط کرنا بھول گئے، جس میں وارثی صاحب کا چیک بھی تھا۔ جب عابد رضا بیدار کی گاڑی پٹنہ مارکٹ کے پاس پہنچی تو انھیں یاد آگیا۔ انھوں نے ڈرائیور کو گاڑی موڑنے کے لیے کہا۔پھر وہ لائبریری پہنچے اور تمام چیک پر دستخط کیے۔ اس کے بعد ہی وہ اسٹیشن کے لیے روانہ ہوئے۔ حالانکہ انھیں دو دن بعد ہی واپس ہونا تھا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے کہ مہینے کی آخری تاریخ کو وہ مگدھ ایکسپریس سے دلی سے لوٹ رہے تھے۔گاڑی بہت لیٹ ہو چکی تھی۔ جمعہ کا دن تھا۔ دوسرے دن سنیچر اور پھر اتوار تھا۔ بینک کے بند ہونے کا وقت ہورہا تھا۔ انھوں نے گاڑی کے پٹنہ پہنچنے سے کچھ قبل ہی اسٹیٹ بینک آف انڈیا، جو ہٹہ برانچ کے منیجر کو فون کیا کہ آپ آج بینک دیر سے بند کریں گے، مجھے کچھ ارجنٹ چیک جمع کرانا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے لائبریری کے ایک اسٹاف کو کچھ ہدایت دی اور سیدھے بینک پہنچ گئے، اور ملازمین کی تنخواہ کی رقم جمع کرائی۔ اس قدر اصول پسند تھے ہمارے عابد رضا بیدارجن کی مثال ملنی دشوار ہے ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عابد رضا بیدار کی سخت اصول پسندی اور سخت گیری کے سبب لائبریری میں ان کے مخالفین کی بھی ایک خاصی تعداد تھی۔ اس کے علاوہ کچھ اہالیان شہر اور اصحاب اردو بھی ان سے ناراض رہا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے خلاف کئی بار تاریخی مورچہ بندی بھی ہوئی۔ بڑے سے بڑا مخالفت کا طوفان بھی آیا ، مگر عابد رضا بیدار پہاڑ کی طرح جمے رہے۔ کبھی نا تو ڈرے اور نہ پیچھے ہٹے، مورچے پر اڑے اور جم کے لڑے۔ بالآخر مخالفین کو خاموش ہونا پڑا۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو بھی ان کو غیر معمولی بناتا ہے۔

عابد رضا بیدار کی شخصیت کے آمیزے میں خوش انتظامی، علم پروری، اصول پسندی اور انسان دوستی بدرجہ اتم شامل رہی اور ان اوصاف نے مجتمع ہوکر انھیں ایک در نایاب بنا دیا۔

28؍ مارچ 2025 کو 10 بجے صبح میں اس مثالی شخصیت کا رام پور(  اتر پردیش ) میں انتقال ہو گیا اور اسی روز رات میں انھیں رام پور کے ہی قبرستان میں دفن کردیا گیا ، لیکن وہ ہمارے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے، جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔

 

Aslam Jawedan

Darul Gheyas

Near Hotel Blue Diamond

Jamunagali, Sabzi Bagh

Patna- 800004 (Bihar)

jawedanaslam@gmail.com

 

مطالعہ واہی کی چند جہتیں، مضمون نگار: حذیفہ شکیل

 اردو دنیا، مئی 2025


اردو شعر و ادب میں طنز و مزاح کی روایت قدیم بھی ہے اور معیاری بھی۔اس روایت کی پاسداری کرنے والوں میں اکبر الہ آبادی، ظریف لکھنوی، شوکت تھانوی، سید محمد جعفری، مجید لاہوری وغیرہ کے ساتھ ایک اہم ترین نام رضا نقوی واہی (1914-2002) کا ہے۔ طنز اور مزاح کے الفاظ عموما ساتھ ساتھ استعمال ہوتے ہیں لیکن ان دونوں کے مفہوم و مقصود اور اظہار و اسلوب میں گہرا فرق ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی ادب پارے میں طنز ہو مزاح نہ ہو یا اِس کے برعکس، اور دونوں صفات کا اجتماع بھی ہو سکتا ہے۔ بہت سے ادیب و شاعر ایسے ہیں جنھیں یا تو صرف مزاح نگار ہی کہا جا سکتا ہے یا طنز نگار۔ ایسا کم ہی ہوگا کہ ایک ہی شخصیت ان دونوں کی جامع ہو اور انہی معدودے چند شخصیتوں میں رضا نقوی واہی بھی ہیں۔

شاعری خواہ رومانی ہو یا منظری، قومی ہو یا فکری، سنجیدہ یا ظریفانہ، ان سب کے لیے ضروری اور اہم چیز یہ ہے کہ وہ بہرحال شاعری ہو۔ اشعار کا تعلق شاعری کی کسی قسم یا صنف سے ہو،وہ کامیاب اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ فن کے بنیادی تقاضوں کو پورا نہ کر سکے، ساتھ ہی اس میں شاعرانہ لطافتوں اور نفاستوں کا اظہار بھی ہونا چاہیے تاکہ اس سے لطف اندوزی بھی کی جا سکے اور اس کی سحر انگیزی بھی برقرار رہے۔ گویا ان مسلمات کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ظریفانہ شاعری میں اگر ظرافت کی بہتات ہو لیکن شعریت ہی مفقود ہو تو اسے ظرافت کا بہترین نمونہ کہا جا سکتا ہے مگر کم از کم معیاری شاعری تسلیم کر لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ مختصر یہ کہ شاعری کی دیگر قسموں کی طرح اچھی ظریفانہ شاعری کے لیے ظرافت اور شعریت دونوں کا حسین امتزاج بے حد ضروری ہے۔ جناب واہی کی شاعری کے امتیازات پر خامہ فرسائی سے قبل معیاری ظریفانہ شاعری سے متعلق ان کا نظریہ پیش کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ:

’’اعلی اور معیاری ظریفانہ شاعری کے لیے صرف طنز و مزاح کی حسین آمیزش ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ اس میں فکری عنصر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ایک شاعراسی وقت معیاری اور ظریفانہ شاعری کا خالق ہو سکتا ہے جب طنز و مزاح کی آمیزش فکری بنیادوں پر کی جائے۔ معاشرے کی برائی، بد عنوانی اور کمزوریوں کے خلاف رد عمل کا نام ظریفانہ شاعری نہیں کیونکہ اس طرح کا رد عمل انتہا پسندانہ ہوتا ہے اور ایک انتہا پسندی دوسری انتہا پسندی کو جنم دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں رد عمل کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے جو اصلاح حال کے بدلے حالات کو پیچیدہ اور غیر صحت مند بنادیتا ہے، لیکن اگر فکر کی بنیادوں پر طنز و مزاح کی آمیزش ہوتی ہے تو ظریفانہ شاعری میں ہمدردی کے عناصر شامل ہوتے ہیں اور شاعر مشاعرے کی کمزوریوں کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے اس انداز میں اس کو پیش کرتا ہے کہ قاری یا سامع کا ذہن اصلاح حال کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ظریفانہ شاعری میں پایا جانے والا ہمدردی کا یہی جذبہ اس صنف ادب کی افادیت اور مقصدیت کا ضامن ہوتا ہے۔ ‘‘  1

طنز و مزاح کا تعلق معاشرتی مسائل سے ہے، اس کے لیے بالغ نظری اور گہرے شعور و ادراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان اس وقت تک طنز و مزاح کی روح کو سمجھ نہیں سکتا جب تک کہ اس کا شعور بالغ نہ ہو۔ طنز یا مزاح محض بے معنی ہنسی کا نام نہیں، یہ گہرے عرفان ذات یا معاشرے کے شعور سے پیدا ہوتا ہے۔

رضا نقوی واہی نے شعر گوئی کا بیس سالہ سفر طے کرنے اور فن کی بھٹی میں تپ کر کندن ہونے کے بعد شعوری طور پر میدان ظرافت میں قدم رکھا اور اسی وجہ سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے یہاں ظریفانہ شاعری بے حد معتدل و متوازن ہے۔ نہ طنز اس قدر ہے کہ تنقید برائے تنقیص کا شائبہ ہونے لگے اور نہ ہی مزاح کا اتنا غلبہ کہ قاری محض ہنسی اور ٹھٹھے پر ہی اکتفا کرنے کو کافی سمجھے، بلکہ انھوں نے طنز و مزاح کی مناسب آمیزش کے ذریعے بیچ کی ایک ایسی راہ نکالی ہے کہ کسی کی دل آزاری کے بغیر پیغام کی ترسیل خوشگوار انداز میں ہو جاتی ہے، پڑھتے وقت لطف اندوزی بھی بحال رہتی ہے اور پڑھ کر عمل کا داعیہ بھی کسی نہ کسی درجے میں پیدا ضرور ہوتا ہے۔میدان ظرافت کے انتخاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

 ’’ہم نے معاشرے اور سماج میں قدم قدم پر پھیلی ہوئی بد عنوانیوں پر اور اسی طرح کی ناہمواریوں پر نظر رکھنے کے بعد دیکھا تو یہ محسوس ہوا کہ اگر ہم ان ناہمواریوں کو سنجیدہ شاعری کے پیکر میں ڈھالیں تو یہ اتنے متاثر کن نہ ہوں گے جتنا طنزیہ انداز میں کہنے کا اثر ہوگا۔ ہنستے ہنساتے کچھ کام کی باتیں ہو جاتی ہیں۔‘‘  2

واہی کے کلام میں موضوعات کا تنوع اور فراوانی ہمیں اس امر کا احساس دلاتا ہے کہ اگر فنکار کی نگاہ دور رس، قوت مشاہدہ وسیع، تخیل بلند و بالا اور ساتھ ہی اخذ نتائج کا ملکہ بھی ہو تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کسی خاص پیرائے میں لکھنے کے باوجود بھی موضوعات کی کمی جیسے مسائل درپیش ہوں۔ احمد جمال پاشا رقم طراز ہیں:

’’واہی کے یہاں موضوعات کی ایک وسیع کائنات ملتی ہے جس میں وہ زندگی کے سیاسی، سماجی، انسانی، معاشی، قومی، اجتماعی اور ادبی مسائل کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں... ان کی زبان مہذب اور شستہ ہے، ان کا لہجہ باوجود شوخی اور شرارت کے شریفانہ اور قابل داد ہے، ان کے انداز بیان میں سادگی اور پرکاری  ہے۔ ان کا ہمدردانہ انداز نظر، صحت مند والہانہ پن، خوش طبعی، ظرافت، شگفتگی، توازن، رکھ رکھاؤ، طنز اور تیکھا پن ان کی طنز یہ نظموں کو عام طنزیہ شعری ادب کی سطح سے بلند کر دیتی ہے۔‘‘3

ان کے یہاں الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے جنھیں وہ بلا تکلف اپنے کلام میں استعمال کرتے ہیں۔ کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ محض تعداد میں اضافے کے لیے اشعار کہے گئے ہوں، یعنی ہر شعر معنویت سے بھر پور ہوا کرتا ہے۔ مخمور سعیدی نے کلامِ واہی پر اپنے تاثر کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ان کا کلام پڑھتے ہوئے کسی ایک مقام پر بھی یہ گمان نہیں گزرتا کہ شاعر نے آورد سے کام لیا ہے، الفاظ کا ایک رواں دواں میل ہے جس میں قاری خود بھی بہتا چلا جاتا ہے۔ ان کی نظمیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ گرد و پیش میں پھیلی ہوئی زندگی کے تضادات اور اس کے قابل گرفت پہلوؤں پر ان کی گہری نظر ہے اور ان میں کم ہی پہلو ایسے ہوں گے جو ان کے طنز نگار قلم کا ہدف نہ بنے ہوں۔ مذہب، سیاست، اخلاق، ادب سبھی شعبوں تک ان کی نظر رسا ہوئی ہے اور اس ریا کاری اور بددیانتی کا پردہ چاک کرگئی ہے جس کے دم بدم بڑھتے ہوئے نفوذ نے زندگی کے ہر مثبت قدر کو غیر معتبر بنا دیا ہے۔‘‘ 4

واہی کو واقعہ نگاری، منظر کشی اور قصہ طرازی میں درک و کمال حاصل ہے۔ ان کی نظمیں اوصاف مذکورہ سے پُر نظر آتی ہیں۔ ان کی شاہکار نظم جس کا عنوان’ انتقال کے بعد‘ ہے، ان تمام جزئیات کے بیان کا بہترین مظہر ہے۔مکمل نظم سے گریز کرتے ہوئے صرف اخیر کے دو اشعار جنھیں بطور نتیجہ انھوں نے لکھا ہے، پیش کرتا ہوں          ؎

 کر دیا اس موت نے ثابت یہ ہم پر کم سے کم

زندگی سے موت بہتر ہے، پئے اہل قلم

اہل فن کو موت سے ہرگز نہ ڈرنا چاہیے

بلکہ ممکن ہو تو کوشش کر کے مرنا چاہیے

 کلامِ واہی میں ظرافت، شائستگی کے ساتھ موجود ہے۔ ان میں سطحیت، ابتذال اور سوقیانہ الفاظ و انداز سے مکمل اجتناب دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ چوں کہ دل درد مند اور طبع حساس کے مالک ہیں، اس لیے وہ اپنی بصیرت و آگہی اور روشن دماغی کے ذریعے سماجی بے راہ رویوں کو طشت ازبام تو کرتے ہیں لیکن وہ اپنے دل میں خود بھی بے قراری محسوس کرتے ہیں۔ اس کیفیت کی ترجمانی کے لیے ان کا یہ شعر دیکھیں          ؎

خود آگہی نے کیا ہے دماغ کو روشن

کسی کو درد ہو دل بے قرار اپنا ہے

واہی کے تیسرے مجموعہ کلام ’ نشتر و مرہم‘ پر ڈاکٹر اختر اورینوی نے ایک مبسوط اور جامع مقدمہ تحریرفرمایا ہے اور واہی کی شخصیت و شاعری کا بہترین محاکمہ پیش کیا ہے۔وہ رقمطراز ہیں:

’’واہی کی شخصیت اور شاعری میں ہمیں یہ خوبیاں ملتی ہیں۔ ان کی ظریفانہ شاعری کہیں پر رکیک اور سوقیانہ نہیں ہوتی۔ ان کے یہاں نہ بھونڈہ پن ہے اور نہ کھردرا پن۔ واہی کی شاعری میں کسی پہلو سے ناتراشیدگی نہیں ملتی۔ ان کی نظمیں شائستہ اور مہذب ظرافت کا نمونہ ہیں، ان میں نشتریت ضرور پائی جاتی ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ زخم پر مرہم بھی ضرور لگاتی ہے۔ مختصر یہ کہ واہی کی شاعری قدر اعلی کی چیز ہے۔‘‘  5

ان کا ایک قابل ذکر امتیاز یہ بھی ہے کہ انھوں نے منظوم خطوط نگاری کی کمزور اور معدوم ہوتی روایت کو تواتر و تسلسل کے ساتھ لکھتے ہوئے بار دگر زندہ و پائندہ کر دیا۔ واہی کے مکتوب الہیم  زیادہ تر علم و ادب سے تعلق رکھنے والی باکمال شخصیتیں ہیں، مثلا انھوں نے خلیل الرحمن اعظمی، مظفر حنفی، پروفیسر عبدالمغنی، مظہر امام، دلاور فگار، مجتبی حسین، جگن ناتھ آزاد، وفا ملک پوری، وغیرہم کے نام منظوم خطوط لکھے ہیں۔ ان کے خط کا اسلوب انتہائی سادہ اور تکلف سے خالی ہوا کرتا ہے۔ حال احوال، شکوہ و شکایت، ادب و سیاست، روزمرہ کے واقعات، عالمی صورتحال، سماجی ناہمواریاں، غرضیکہ تمام موضوعات کو معقول انداز میں وہ اپنے خطوط میں برتنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ مثال کے طور پر پروفیسر عبدالمغنی کے نام لکھے گئے ایک خط کے چند اشعار کے ذریعے ان کی منظوم خطوط نگاری کے رنگ و آہنگ کا اندازہ لگائیں         ؎

اے حضرت مغنی یہ جزا ہے کہ سزا ہے

کیوں تحفہ مریخ سے محروم رضا ہے

دفتر کی یہ غفلت ہے، کہ ہے ڈاک کی لعنت

یا آپ نے خود ہی نظر انداز کیا ہے

یہ اس لیے کہتا ہوں کہ مدت سے مرا خط

محروم جواب آپ کے بستر پہ پڑا ہے

کلام واہی کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان میں محض زور تخیل کی کار فرمائی نہیں ہے بلکہ حقیقتوں کی نقاب کشائی اور سماجی مسائل کی عکاسی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ روز مرہ کے واقعات و حالات کو اس انداز میں اپنی شاعری کے ذریعے پیش کرتے ہیں کہ باذوق قاری اور حساس طبع انسان بیک وقت دو کیفیتوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ ان کا ذوق شعر و ادب انھیں مسکرانے، ہنسنے اور بسا اوقات قہقہہ لگانے پر آمادہ کرتا ہے تو دوسری طرف ان کی حساس طبیعت انھیں رونے، بلکنے اور سر پیٹنے پر مجبور کر دیتی ہے۔اس طور پر ہم یہ کہہ سکے ہیں کہ ’نشتر و مرہم‘ اور ’طنز و تبسم‘ محض ان کے مجموعوں کا نام نہیں بلکہ فکر و خیال اور طرز و انداز کا حقیقی مظہر ہے، جنھیں با معنی طور پر قلم کو قابو میں رکھ کر اپنے کلام میں پیش کرتے ہوئے انھوں نے ادبی اور سماجی زندگی کی شعبدہ بازیوں کو جولان گاہ بنایا ہے۔ کہتے ہیں        ؎

میرے کلام کی تلخی میں شہد کی ہے مٹھاس

گرفت میں قلم خوش عیار اپنا ہے

یہ بات اپنی جگہ بالکل درست اور مسلم ہے کہ واہی صاحب نے اپنے تقریبا ستر سالہ شعری سفر کے طویل دورانیے میں نصف صدی سے زائد عرصے کا سفر میدان ظرافت کے ماہر شہسوار کی حیثیت سے طے کیا ہے۔ انھوں نے نہ صرف اپنی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے ذریعے اپنے ہم عصروں کو متوجہ کرتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ واہی صاحب نے فنی چابکدستی، عمق فکر اور اسلوب بیان کی یگانگت سے باذوق قارئین اور ناقدین ادب کو اپنا گرویدہ و اسیر بنا لیا ہے۔ اس کا احساس خود واہی صاحب کو بھی تھا، کہتے ہیں         ؎

خود اپنے ذوق نظر پر مدار اپنا ہے

حریف فن نہ کوئی ساجھے دار اپنا ہے

تمام عمر ظرافت کی آبیاری کی

اسی سے باغ ادب مشکبار اپنا ہے

 یہ تو تھا فن واہی کا نمایاں ترین پہلو لیکن’حکایتیں ہیں اور بھی ورق الٹ کتاب کا ‘۔ ایک اہم گوشۂ واہی جس کی طرف توجہ ناگزیر ہے وہ رضا نقوی واہی کی کم و بیش دو دہائی پر مشتمل ابتدائی زمانے کی روایتی اور سنجیدہ قسم کی شاعری کا گوشہ ہے۔ مطالعہ واہی کے دوران شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ کسی بھی فنکار کی فنکارانہ عظمتوں کا مکمل اعتراف اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس کے فن کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہ کیا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عربی کے مشہور قاعدے ’للاکثر حکم الکل‘ یعنی اکثر پر حکم کلی نافذ کر دیا جاتا ہے، کے تحت واہی صاحب کو شاعر ظریف تو تسلیم کر لیا گیا لیکن حیران کن اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ ان کی شاعری کے دوسرے رخ اور ان کے تقریبا بیس سالہ شعری سفر کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا، جبکہ اس زمانے کی شاعری کا مطالعہ ہمیں ایک الگ انداز کے واہی سے متعارف کراتا ہے اور فن کی پختگی کے اعتراف پر مجبور بھی کر تا ہے، یہ گوشہ نئی نسل کو دعوت مطالعہ دیتا ہے۔ ابتدائی زمانے کے شعری سرمائے میں نعت، منقبت، سلام، غزلیں، نظمیں، قطعات، سہرا وغیرہ شامل ہیں۔

مجموعی طور پر رضا نقوی واہی کی شاعری، سنجیدگی اور ظرافت کے حسین امتزاج کی عکاس ہے۔ ان کی سنجیدہ شاعری میں فکری گہرائی، کلاسیکی روایات کی پاسداری اور عصری مسائل کی سچی تصویر کشی نظر آتی ہے، جبکہ ان کی ظریفانہ شاعری میں شگفتگی، نکتہ آفرینی اور مزاحیہ پیرایے میں پیش کیے گئے عمیق خیالات کا دلکش امتزاج ملتا ہے۔ان کی ظرافت محض سطحی مزاح تک محدود نہیں بلکہ اس میں تہذیبی شعور، معاشرتی ناہمواریوں پر طنز اور انسانی نفسیات کا گہرا مطالعہ بھی موجود ہے۔ وہ اپنے منفرد اندازِ بیان، چابک دستی اور برجستہ لب و لہجے کے ذریعے قاری کو مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں، لیکن اس مسکراہٹ کے پس پردہ ایک فکری پیغام بھی ہوتا ہے۔ رضا نقوی واہی کی شاعری اردو ادب میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ ان کا تخلیقی سفر، زبان و بیان کی لطافت، عروضی مہارت، اور سماجی رویوں پر ان کی گہری نظر انھیں اردو کے ممتاز شعرا کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ نہ صرف لطف فراہم کرتا ہے بلکہ قاری کو سوچنے اور غور و فکر کی نئی راہوں پر بھی گامزن کرتا ہے۔ یہی ان کی شاعری کی اصل طاقت اور ان کے فن کی انفرادیت ہے۔یہی وجہ ہے کہ فن واہی کی عظمت کے معترفین میں کنہیا لال کپور، ڈاکٹر عبد المغنی، احمد جمال پاشا، اختر اورینوی، مخمور سعیدی اور وامق جونپوری جیسی نابغۂ روزگار شخصیتیں ہیں۔ واہی نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف یہ کہ دنیائے شعر و ادب کو اپنی موجودگی کا شدید احساس دلایا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہنا چاہیے کہ اس کی عظمتوں کو چار چاند لگا دیا۔

حواشی

.1            رضا نقوی واہی آئینہ در آئینہ،  مرتب: ڈاکٹر ہمایوں اشرف،  2003، کتابی دنیا، دہلی، ص: 133

(۲)         ادب نکھار  : واہی نمبر۔ مئوناتھ بھنجن، 1983،  ص : 20

(۳)         ز۔طنز و تبسم،پیش لفظ : احمد جمال پاشا، 1963: مکتبہ ادب، پٹنہ

(۴)         حرف چند: مخمور سعیدی۔ نام بنام۔ مرتب: پریم گوپال متل،  پی کے پبلیکیشنز، دہلی، 1974، ص: 5

(۵)         مقدمہ: اختر اورینوی۔ نشتر و مرہم۔ 1968، ص 24

 

Hozaifa Shakil

Research Scholar, Dept. of Urdu,

Patliputra University, Patna

At : Ara House, Haroon Nagar Sector 2,

Phulwari Sharif, Patna - 801505

Mob : 8171222390

Email : huzaifashakil1996@gmail.com

منفی رویوں کا نکتہ چیں، مضمون نگار: اسراراللہ انصاری

 اردو دنیا، مئی 2025


صوبۂ مدھیہ پردیش میں واقع اور مہاراشٹر کی سرحد پر واقع شہر برہان پور،جہاں اردو زبان و ادب کی ابتدا سے ہی تخلیقی سرگرمیاں وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں بڑے مراکز کی طرح اسے تاریخِ ادب میں مقام ومرتبہ خواہ نہ ملا ہو، لیکن اس علاقہ کے قلم کاروں کی خدمات کی چمک کبھی ماند نہیں پڑی۔عبد الرحیم خان خاناں، سعدی دکنی، ہاشم علی، متین برہان پوری، بالاجی تریمبک نائک ذرہ، سعد اللہ گلشن اور ولی دکنی وغیرہ متعدد شعرا و ادبا کی اس علاقے سے وابستگی کے ذکر سے تاریخ کے صفحات روشن ہیں۔یہ سلسلہ اسی طرح عہدِ حاضر تک چلا آتا ہے۔

ماضی قریب میں اس سرزمین کے استاد شاعر اختر آصف کا نام اہمیت کا حامل ہے، جن کی شعری وادبی خدمات قابلِ ذکر ہیں۔ اصل نام اختر حسین تھا لیکن اختر آصف کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔موصوف کی ولادت یکم جنوری 1939 کو برہان پور میں ہوئی۔آپ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی، ساتھ ہی شہر کے مشہور استاد مولوی محمد محسن سے فارسی زبان سیکھی۔1958  شعرو سخن کا شوق پیدا ہوا تو استاد الشعرا فاضل انصاری کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ پارچہ بافی کی صنعت سے متعلق مختلف ہینڈلوم اور پاور لوم کو آپریٹیو سوسائٹیوں میں کلرک کی ملازمت کو اپنا ذریعۂ معاش بنایا۔ بیسویں صدی کے اواخر میں برہان پور سے ہفت روزہ ’برہان پور ٹائمز‘ جاری ہوا جس کے آپ معاون مدیر رہے، بعد ازاں ہفت روزہ ’الم نشرح‘ کے مدیر کی ذمے داری بھی بحسن وخوبی انجام دی۔ اس طرح شاعری کے ساتھ ساتھ میدانِ صحافت میں بھی اپنی خدمات پیش کیں۔ اختر آصف نے تقریباً چار دہائیوں تک ملک بھر کے مشاعروں میں شرکت کی اور اپنے پر سوز و دلکش ترنم سے سامعین کو محظوظ کیا۔ استاد فاضل انصاری کی جانب سے فارغ الاصلاح قرار دیے جانے کے بعد متعدد نو واردانِ سخن کی اصلاح کا ذمہ لیا۔موصوف کی عمر بھر کی شعری کاوشات سے منتخب کردہ کلام کو  2005میں شعری مجموعہ ’آزاد پرندے‘ کی شکل میں شائع کیا گیا۔  16 اکتوبر 2008 میں اختر آصف اس جہاں سے رخصت ہوئے۔

اختر آصف کا نام دنیائے ادب میں محتاجِ تعارف نہیںہے، مشاعروں کے توسط سے انھیں ملک گیر شہرت و مقبولیت ملتی رہی ہے۔ شاعری کے لحاظ سے دیکھیں تو زبان و بیان کے ستھرے مذاق نیز پر سوز اور دل نواز ترنم کے باعث موصوف نے سامعین میں اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ شعرو زبان کے رمز سے آشنائی اور شاگردوں کے وسیع حلقے کی تربیت کے سبب برہان پورو اطراف کے استاد شعرا میں آپ کا شمار ہوا۔ تا دمِ آخر شعری محفلوں سے وابستگی اور مشغلۂ فکرِ سخن سے وابستہ رہتے ہوئے شعری سلسلے کوآگے بڑھانے میں بھی آپ نے اہم رول ادا کیا ہے۔ اشاعتِ کلام کے طور پرآپ کے ہاں ایک عدد مجموعہ ’آزاد پرندے ‘ہے، جسے اختر آصف صاحب کے محتاط انتخاب کے مدِ نظرکل کائنات یا نمائندہ کلام کہا جاسکتا ہے، اسے موصوف نے اپنی حیات میں شائع کروایاتھا۔

اختر آصف کا مجموعۂ کلام چند ایک نظموںاور تقدیسی کلام بطورِ خاص غزلوںپر مشتمل ہے۔ان کی غزلوں میں موصوف نے الگ الگ مضامین و موضوعات کے سہارے شاعری بنانے کی سعی کی ہے۔ جذبات واحساسات، حالات و واقعات، تجربات و مشاہدات اور عہدِ حاضر میں رونما ہونے والے مناظر وغیرہ سبھی کو موصوف نے اپنی شاعری کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔

دیکھا جاتا ہے شعرائے کرام حسن و عشق کے مضامین کے ساتھ بطورِ خاص اپنے افکار کو قرطاس پر بکھیر تے ہیں۔اختر آصف کے یہاں بھی حسن و عشق کی حکایات ہیں،مگر یہ حکایات آٹے میں نمک کی طرح ہیں۔البتہ عصری حسیت اخلاقیات جیسے موضوعات پر مشتمل اشعار سوا ہیں۔ معاملاتِ انسانی پر آپ کے ہاں کثرت سے منظوم انداز میں رائے زنی ملتی ہے۔ اسی ضمن میں معاشرے میں موجود افراد کے منفی رویے سے متعلق موصوف نے اپنی شاعری میں متعدد مقامات پر اپنا اعتراض درج کیا ہے، فی الحال یہی ہماری گفتگو کا موضوع ہے۔ 

انسان مختلف طور سے معاشرے میںاپنے وجود کا احساس کراتا ہے۔ سیاست داں، رہنمائے قوم،فردِ خانہ، ہم نشیں، ہم سایہ اور ایک دوست وبہی خواہ وغیرہ کے روپ میں انسان اپنا کام کرتا چلا جاتا ہے۔ اختر آصف کے ذخیرۂ اشعار میں ان رشتوں او ر کرداروں کے ذریعے سلوکِ انسانی کے نباہ کا خوبصورت انداز میں ذکر ہے۔ تعلقات کی بنیاد پر ہر شخص دوسرے شخص کی جانب پر امیدنظروں سے دیکھتا ہے اور اپنے گہرے تجربے کے باعث اسے بعض اوقات اپنا سب کچھ چھِن جانے کا خدشہ بھی لگا رہتا ہے۔ایسے موضوعات سے اختر آصف کو گہری انسیت رہی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں           ؎

میں نے کیا ہے جس پہ بھروسہ دغا نہ دے

وہ میرے اعتماد کی مسجد گرا نہ دے

سب کچھ تو اس نے لوٹ لیا اک مکان ہے

اس پر بھی اپنے نام کی تختی لگا نہ دے

اختر آصف کے کلام میں متعدداشعار ایسے بھی ہیں جن میں معاشرے میں موجود افراد کے نازیبا برتائو اور ناروا سکوک پراعتراض اور ردِعمل نمایاں طورپر دکھائی دیتا ہے، اس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کا ردِ عمل دکھائی دیتا ہے۔ رشتوں کا اعتبار اور تقدس دوطرفہ برتائو پر منحصر ہوتاہے، مثبت عمل کے منفی ردِ عمل سے یہ پامال ہوجاتا ہے، ایسی صورتِ حال میں منفی طرزِ عمل کو برداشت کرنے والا شخص اپنی شکایت لازمی طور پر درج کرواتا ہے جو ہمیں اختر آصف کے یہاں ذرا واضح اور تیکھے انداز میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں احباب کی طبیعت میں وفاداری اوربیوفائی دونوں طرح کا برتائو اور رویہ پایا جاتا ہے، اختر آصف کی شاعری میں اس قسم کے جو مضامین نظم ہوئے ہیں ان میں انسان کا ایک طرفہ رویہ اور ایک ہی روپ بکثرت دیکھنے کو ملتا ہے، یعنی، سفاکی، دغا و فریب جیسے چلن کے بیان کا مجموعہ غزلیات میں نمایاں ہے۔چند اشعار دیکھیں           ؎

کیوںجلاتے ہومکاںمیرا،مرے بھائی بھی ہیں

یہ مکاں تو یوں ہی بے دیوار و در ہوجا ئے گا

ایسے تو نہیں لوگ کہ گرتے کو سنبھالیں

ایسے ہیںکہ گرتے کو سنبھلتے نہیں دیتے

یہ انسانی وجود اور شخصیت کا ایک منفی پہلو ہے،انسانوں کو پرکھنے اور ان پر رائے زنی کرنے کا اگرچہ یہ اک طرفہ طرز معلوم ہوتا ہے، لیکن ایسے اشعار کی قرأت سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عہدِ حاضر کا انسان بکثرت ایسی خصلتیں اپنے اندرلیے پھرتا ہے جن میں خیر کا پہلو کم اور شر کا پہلو زیادہ ہے۔شاعر کے اپنے تقاضے کے مطابق لوگوں کا رویہ حسبِ توقع نہیں ہوتا، گویا یہ اس دورکا المیہ ہے۔ حالانکہ انسان خدا کا شاہکار ہے لیکن یہ اپنے کردارو اخلاق سے نیک وبد دونوں طرح کی خصلتوں کا اظہار کرتا ہے۔ اس معنی میں اختر آصف کا تجربہ تلخ رہا ہے، یار دوستوں سے انھیں آسودگی و مسرت غالباً کم کم ہی میسر آئی ہے،جس کا منظوم اظہار شاعر موصوف کے یہاں الگ الگ غزلوں میں الگ الگ انداز میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیں         ؎

کاغذ کے پھول جیسے ہو گل دان میںسجے

ایسا ہی کچھ خلوص کا جذبہ دلوں میں ہے

بے وفائوں سے رکھی ہم نے وفا کی امید

جیسے پتھر پہ کوئی پھول اگانا چاہے

احباب جو زندگی کے سفر میں شجرِ سایہ دار کی مانند ہوتے ہیں، ان سے گہرے رشتے کے باعث آدمی بعض اوقات ضرورت سے زیادہ تعاون اورنیک نیتی یا احسان کے بدلے احسان کی توقع رکھتا ہے،بعض اقربا اس پر پورے اترتے ہیں اور بعض توقع کے مطابق نہیں ہوتے۔ امید کے بر خلاف برتائو سے انسان تڑپ اٹھتا ہے، اختر آصف نے ان کیفیتوں کو بھی بڑی خوبی سے اپنے اشعار کا جامہ پہنایا ہے  ؎

ساتھی ہیں اجالوں کے ظلمت میں پرائے ہیں

احباب نہیں شاید احباب کے سائے ہیں

احباب کا حلقہ ہے کہ جنگل میں گھرا ہوں

ہے ناگ یہاں کوئی، کوئی ناگ پھنی ہے

غم خوار بن کے آئے دل آزار سے لگے

سارے عزیز اپنے اذکار سے لگے

ایسا بھی اک شفیق مرے دوستوں میں ہے

جس کے کرم کا عکس مرے آنسوئوں میں ہے

تو نے دغا جو دی تو تعجب کی بات کیا

تیرا شمار بھی تو مرے دوستوں میں ہے

جب بدلے میں انسان کو مسلسل غیر تسلی بخش جوابات نیز توقع سے پرے اور نازیبا برتائو ملتے ہیں تو، ایسی صورت میں ایک نازک مزاج اور سنجیدہ شخص کے دل پر ایسے گہرے زخم لگتے ہیں جن کی کسک وہ زندگی بھر محسوس کرتا ہے اور بالآخر کسی نتیجے پر پہنچتا ہے تو اس کی زبان سے جملے ادا ہونے لگتے ہیں ’’ یہ دنیا گویا انسانیت اور انسانوں سے خالی ہوچکی ہے۔ یہاں بھلائی کی امید عبث یا ایک سراب کی سی ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اشعار دیکھیں         ؎

آدمی برتر فرشتوں سے مگر

آدمی کہلائے ایسا کون ہے

مجھ سے انساں کا پتہ پوچھنے والے لوگو

میری مانو تو مزاروں کا پتہ لے جائو

انسان راہِ وفا میں چلتے چلتے کس قدر چوٹ کھاتاہے، کتنے زخم سہتا ہے، سب کچھ سہہ کر بھی وہ ضبط وبرداشت کا ملبوس سینۂ جسم سے لگائے رکھتا ہے لیکن اپنے اصول، ایثار، ثابت قدمی اور نیک نیتی پر قائم رہنے کی اپنی ضد کی خاطراپنے حسنِ سلوک سے متنفر نہیں ہوتا، زمانہ کیا سوچتا ہے اس بات کی بھی پروا نہیں کرتا، حتیٰ کہ وہ اس راہِ حق میں اپنے وجود کو لہولہان کرتا رہتا ہے، اور یہی عظمتِ انسانی کی دلیل ہے        ؎

وفا کی راہ کے سب پھول اِن قدموں سے لپٹے ہیں

زمانہ یہ سمجھتا ہے مرے پیروں میں چھالے ہیں

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اچھا تخلیق کار ایک اچھا انسان بھی ہوتاہے، وہ دردوغم، محرومیوں اور تلخیوں کو اس وجہ سے بھی موضوعِ گفتگو بناتا ہے کہ انسانوں کے درمیان تحمل و برداشت کے رویے کے ذریعے رواداری اور ایک دوسرے کو قبول کرنے والے ماحول کی آبیاری ہوسکے۔ انسان کے مزاج و معیار اور اخلاق کو بلندیِ فکر کی طرف مبذول کیا جائے، فکرِانسانی کو ذہنی، جذباتی اور قلبی،ہر قسم کی کشادگی کی جانب موڑا جائے۔ شخصیت سازی کا امر بھی فن کار کی ترجیحات میں شامل ہوتاہے، کیونکہ شاعربھی سماج کی اکائی ہے۔ اختر آصف کی شاعری کے مطالعے سے یہ احساس مزید گہرا ہوجاتا ہے کہ وجودِ انسانی کے ان  منفی و تخریبی پہلوئوں سے انسانوں کے دل کس قدر مجروح اورداغ دار ہوجاتے ہیں۔

آیا یہ کہ اختر آصف نے اپنے اشعار میں افراد کے جن منفی رویوںکاالگ الگ انداز سے اظہا ر کیا ہے وہ بہ ظاہر ہمیں گلے، شکوے جیسے محسوس ہوتے ہیں، لیکن یہ عمل ایسے ہیں کہ اس کے ذریعے انسانی عادات و اطوار اور اقدار کی اصلاح اورتعلقاتِ انسانی میں اخلاص و خیر خواہی کی فضا ہموار کرنے کی طرف ایک طرح کی پیش قدمی بھی ہے،ساتھ ہی ساتھ منفی برتائو سے ناپسندیدگی کا اظہار کر کے اس رویے سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش بھی ہے۔ الغرض آدمی، آدمی کی راہ کا پھول بنے نہ کہ خار۔اس نظر سے دیکھیں تو اختر آصف کا یہ اقدام یقینا لائقِ ستائش محسوس ہوگا۔

 

Dr. Asrar Ullah Ansari

Head, Dept. Of Urdu

Swami Vivekanand Govt. PG College

Neemuch 458441 (MP)

9753210869

asrar1607@gmail.com

 

 

تازہ اشاعت

عابد رضا بیدار: ایک مثالی شخصیت، مضمون نگار: اسلم جاوداں

  اردو دنیا، مئی 2025 مشہور دانشور شخصیت ڈاکٹر عابد رضا بیدار اگرچہ عظیم آباد کے نہیں تھے، مگر وہ اتنے طویل عرصے تک اپنی شخصیت کی پوری ہم...