23/12/25

مصنوعی ذہانت(AI) اور اردو :امکانات اور جدید رجحانات ،مضمون نگار: راشد قادری

اردو دنیا،جون 2025

مصنوعی ذہانت(Al-Artificial Intelligence) ایک ایسی جدید ٹیکنالوجی ہے جو کمپیوٹروں اور مشینوں کو انسانی طرز پر سوچنے، سیکھنے، اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں مشین لرننگ، ڈیپ لرننگ(Deep Learning)، نیورل نیٹ ورکس اور دیگر سسٹمز شامل ہیں جو مختلف تجربات سے سیکھ کر، ڈیٹا کو پروسیس کر کے، خو بخو ردعمل ظاہر کرنے یا فیصلے کرنے کے قابل بنتے ہیں۔ بنیادی طور پر، اے آئی(AI) کی کوشش ہوتی ہے کہ مشینوں کو اس طرح بنایا جائے کہ وہ انسانوں کی طرح مسائل کا حل تلاش کر سکیں اور اپنی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے پیچیدہ کام انجام دے سکیں۔اسٹیورٹ رسل( Russell    Stuart) اور پیٹر نارویگ Norvig   Peter،نے اپنی کتاب، مصنوعی ذہانت: ایک جدید نقطہ نظر میں اے آئی کی تعریف یو ں کی ہے:

 "A Modern Approach, where they define AI as “the study of agents that receive percepts from the environment and perform actions”1

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی مصنوعی ذہانت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’مصنوعی ذہانت مشین کی صلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے وہ قدرتی یا انسانی ذہانت کی نقالی کر سکتے ہیں۔‘‘

آگے لکھتے ہیں:

’’مصنوعی ذہانت ایجنٹ کی وہ صلاحیت ہے جو اپنے ماحول کو پہچانے اور وہ اقدامات کرے جن کی مدد سے اسے اپنے متعین کردہ یا مطلوب مقصد میں کامیابی حاصل ہو یا اس کے امکانات میں اضافہ ہو۔‘‘2

موجودہ دور میں، اے آئی(AI) ہماری زندگی کے مختلف شعبوں میں نہایت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ہم روزمرہ زندگی میں شاید یہ محسوس نہیں کرتے، مگر مصنوعی ذہانت ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔ مثال کے طور پر، موبائل فونز کے وائس اسسٹنٹس (جیسے Siri اور Google Assistant)، سرچ انجنز کی کارکردگی اور سمارٹ ہوم ڈیوائسز اے آئی(AI) کی مدد سے کام کرتی ہیں۔ اس کی بدولت نہ صرف ہماری زندگی میں آسانی پیدا ہو ئی ہے بلکہ صحت، تعلیم، کاروبار، اور سیکیورٹی جیسے اہم شعبوں میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اے آئی(AI) ہمارے لیے ڈیٹا کی بڑی مقدار کو فوری پروسیس کرنے، درست معلومات فراہم کرنے اور وقت کی بچت کرنے جیسے فائدے بھی لے کر آیا ہے۔

مصنوعی ذہانت:اے آئی کا آغاز بیسویں صدی کے وسط میں ہوا، جب سائنسدانوں نے کمپیوٹروں کو انسانی سوچ اور سمجھ کے انداز میں کام کرنے کی صلاحیت دینے کی کوششیں شروع کیں۔ 1950 کی دہائی میں اے آئی(AI) کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب مشہور برطانوی سائنسداں ایلن ٹیورنگ(Alan Turing) نے ایک تجربہ پیش کیا جسے آج ’ٹیورنگ ٹسٹ‘ (Turing Test) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹیورنگ ٹسٹ کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ کمپیوٹر انسانی ذہانت کی نقل کر سکتا ہے یا نہیں۔ اس تجربے نے ذہانت اور مشینوں کے درمیان رشتہ استوار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا اور اے آئی(AI) کے بنیادی اصولوں کو واضح کیا۔

1956میں، ’ڈارٹ ماؤتھ کانفرنس‘ (Dartmouth Conference) کو مصنوعی ذہانت کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں جان مکارتھی (John McCarthy)، مارون مینسکی(Marvin Minsky)،  اور کلاڈ شینن (Claude Shannon)  جیسے ماہرین نے پہلی بار Artificial Intelligence کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کے مختلف پہلوؤں پر بات کی۔ اس کانفرنس میں یہ خیال پیش کیا گیا کہ کمپیوٹروں کو ایسا بنایا جا سکتا ہے کہ وہ انسانوں کی طرح سوچ سکیں، سیکھ سکیں ا ور پیچیدہ مسائل حل کر سکیں۔3

سنہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں مصنوعی ذہانت میں خاطر خواہ ترقی ہوئی۔ اے آئی (AI)  ریسرچرز نے نیورل نیٹ ورکس اور ایکسپرٹ سسٹمز (Expert Systems)  کا تصور پیش کیا۔ ایکسپرٹ سسٹمز نے کمپیوٹروں کو خاص شعبوں میں ماہرین کے مشورے فراہم کرنے کی صلاحیت دی، جیسے میڈیکل تشخیص یا انڈسٹریل پلاننگ وغیرہ۔ ان کوششوں کے باوجود، ان کے نتائج محدود تھے اور اے آئی(AI) کی ترقی میں کئی برسوں تک پیش رفت نہ ہو سکی جسے اے آئی  'Winter' کہا جاتا ہے۔

1990 کی دہائی میں کمپیوٹنگ پاور اور ڈیٹا کے بڑھتے ہوئے ذخائر نے اے آئی میں مشین لرننگ کی ترقی کو فروغ دیا۔ مشین لرننگ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں کمپیوٹر خود بخود ڈیٹا سے سیکھتے ہیں اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ 1997 میں آی بی ایم(IBM) کے کمپیوٹر،ڈیپ بلیو(Deep Blue) نے شطرنج کے عالمی چیمپئن گیری کسپارو (Garry Kas Parov) کو شکست دی، جو اے آئی(AI) کی دنیا میں ایک سنگ میل تھا۔4

2000 کی دہائی میں انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ڈیٹا میں تیزی سے اضافے نے مشین لرننگ اور ڈیٹا سائنس کے میدان کو اور زیادہ ترقی دی۔ 2010 کی دہائی میں ڈیپ لرننگ(Deep Learning)  اور نیورل نیٹ ورکس  ( Networks  Neural) کی ترقی نے اے آئی کو ایک نئی جہت دی۔ ڈیپ لرننگ نے بڑے ڈیٹا سیٹس اور طاقتور کمپیوٹرز کے ذریعے پیچیدہ مسائل کے حل کو ممکن بنایا۔ اے آئی اب تصویری شناخت، وائس اسسٹنٹس اور خودکار (utomatic  A یا  Autonomou) گاڑیوں جیسے ایپلی کیشنز میں وسیع پیمانے پر استعمال ہونے لگا۔ گوگل، ایپل، اور ٹیسلا جیسی بڑی کمپنیاں اے آئی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری(Investment) کرنے لگیں، جس نے اس شعبے کو مزید مستحکم کیا۔

مصنوعی ذہانت میں آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس (AGI) اور آرٹیفیشل سپر انٹیلی جنس (ASI) کے تصورات پر کام کیا جا رہا ہے، جن سے یہ امید کی جاتی ہے کہ اے آئی انسانوں جیسی یا اس سے بھی زیادہ ذہانت حاصل کر لیں گے۔ مستقبل میں اے آئی مزید پیچیدہ اور ترقی یافتہ ہو سکتی ہے۔

مصنوعی ذہانت سے ہماری زندگی کے کئی شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اس کی مدد سے پیچیدہ کاموں کو تیزی سے اور مؤثر طریقے سے انجام دینا ممکن ہوا ہے۔مصنوعی ذہانت (AI) نے مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ صحت میں یہ بیماریوں کی تشخیص اور ادویات کی تحقیق میں مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ تعلیم میں AI نے ذاتی نوعیت کی تعلیم اور خودکار تشخیص کو ممکن بنایا ہے۔ کاروبار میں، AI ڈیٹا کے تجزیے کے ذریعے بہتر کاروباری فیصلے اور کسٹمر سروس میں بہتری فراہم کرتی ہے۔ روزمرہ زندگی میں، AI پر مبنی سمارٹ آلات نے زندگی کو آرام دہ بنایا ہے، جب کہ سائبر سیکیورٹی (Cybersecurity)، میں یہ خطرات کی نشاندہی اور ردعمل کو تیز کرتی ہے۔ زرعی شعبے میں AI فصل کی دیکھ بھال اور پیداوار بڑھانے میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔ تفریح اور میڈیا میں AI نے صارفین کے لیے پسندیدہ مواد کی فراہمی کو ممکن بنایا ہے، اس طرح دیکھیںتو اے آئی نے زندگی کے کئی پہلوؤں کو بہتر اور آسان بنایا ہے۔

مصنوعی ذہانت (AI) نے ادب کے میدان میں بھی کئی اہم کارنامے انجام دیے ہیں، جن سے نہ صرف تخلیقی عمل میں جدت آئی ہے بلکہ ادبی مواد کو زیادہ وسیع پیمانے پر سمجھنا ممکن ہوا ہے۔ ذیل میں AI کے ادب میں فوائد کو بیان کیا گیا ہے:

اے آئی کی مدد سے ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا بے حد آسان ہو گیا ہے آرٹیفیشیل انٹیلی جنس پر مبنی ترجمہ سافٹ ویئر جیسے گوگل ٹرانسلیٹ اور ڈیپ ایل(DeepL)، کے ذریعے مختلف زبانوں کے ادب کو تیزی اور مؤثر طریقے سے ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے بین الاقوامی قارئین کو مختلف زبانوں کی ادبی تخلیقات تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔حالاں کہ مشینی ترجمہ کے مقابلے میں انسانی ترجمہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔اے آئی کی مدد سے مخصوص زبانوں اور بولیوں کی شناخت کے نظام کو بہتر کر کے ترجمے کو اصل مفہوم کے قریب تر کیا جا رہا ہے، جس سے مقامی زبان اور ادب کی بقا میں مدد ملتی ہے۔

 چیٹ جی پی ٹی (Chat GPT)  ٹولس کے ذریعے تخلیقی تحریر کے نئے امکانات فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ان ٹولس کی مدد سے کہانیاں، شاعری، اور دیگر تخلیقی مواد فوری طور پر تیار کیا جا سکتا ہے۔ اے آئی تخلیق کاروں کے لیے ابتدائی خیالات فراہم کرتا ہے، جسے وہ مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔اے آئی مصنفین کو لکھنے کے لیے نئے خیالات فراہم کرنے اور ان کے موجودہ مواد کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی مدد سے مختلف ادبی تخلیقات کا تجزیہ کر کے مختلف رجحانات، موضوعات اور اسلوب کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔  مثلاً اس کی مدد سے کسی بھی طرح کے ناول، شاعری، افسانہ  میں موجود پلاٹ، کردار،  اسلوب، زبان کا تجزیہ بہت ہی بہتر انداز میں کیا جا سکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت پر مبنی جدید اردو لرننگ ایپلی کیشنز اردو زبان سیکھنے کے عمل کو نہایت آسان اور دلچسپ بنا رہی ہیں۔ ان ایپلی کیشنز میں طلبا کے لیے انٹرایکٹو اسباق، صوتی تربیت، گرامر کی مشقیں، اور روزمرہ کی گفتگو کے لیے مشقیں شامل ہوتی ہیں۔  مزید برآں، ان ایپس کے ذریعے غالب یا اقبال کی شاعری کو سمجھنے اور مشکل الفاظ کے معانی کو آسانی سے جاننے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ ایپلی کیشنز اردو ادب کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

اے آئی نے اردو میں خودکار تحریری نظام (Auto- matic Writing System) کو بھی ممکن بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ ویئر، جیسے ٹیکسٹ جنریشن (Text Generation) اور ورڈ پریڈکشن (Word Prediction)، مواد کی تیز رفتار تخلیق میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ خودکار نظام اردو زبان کے قواعد و ضوابط کو سمجھ کر قدرتی اور روانی سے مواد تخلیق کرتے ہیں، جس سے اردو ادب، صحافت، اور دیگر شعبوں میں تخلیقی مواد کی فراہمی آسان ہو گئی ہے۔

اے آئی محققین کے لیے مختلف ذرائع، جیسے کتابوں اور مقالوں سے مطلوبہ مواد تلاش کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس سے محققین کا وقت بچتا ہے اور تحقیق کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت قارئین کی پسند اور دلچسپیوں کو مدنظر رکھ کر کتابوں، مضامین اور دیگر ادبی مواد کی سفارشات فراہم کرتی ہے۔ جیسے نیٹ فلکس یا یوٹیوب کی طرح، قارئین کو ان کے پسندیدہ موضوعات پر بہترین ادبی مواد تجویز کر سکتا ہے۔اے آئی کی مدد سے ای بکس میں ایسی خصوصیات شامل کی جا سکتی ہیں جو قارئین کو مطالعے کے دوران مخصوص لفظوں کے معنی یا پس منظر سمجھانے میں مدد دیں۔

عصر حاضر میں اے آئی کی مدد سے قدیم کتابوں، نایاب مخطوطات اور اہم دستاویز کو ڈیجیٹلائز (Digitalize) کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ او سی آر (Optical  Character  Recognition) ٹیکنالوجی کی مدد سے پرانی تحریروں کو کمپیوٹر فارمیٹ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس سے ان کتابوں اور دستاویز کو محفوظ رکھنے اور ان تک رسائی کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ ادب کے ڈیجیٹل آرکائیوز(Digital archives) کی مدد سے مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے ادبی ذخائر کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔   

مصنوعی ذہانت(AI) نے ادب میں تخلیقی امکانات اور جدت کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔ کہانی نویسی، ناول اور شاعری کی تخلیق میں اے آئی کا کردار نہایت اہم ہے، جہاں یہ مصنفین کو پلاٹ، کردار اور مکالمات کے لیے تخلیقی تجاویز فراہم کرتا ہے۔ ایپلی کیشنز جیسے ’AI Dungeon‘ قارئین کو کہانیوں کا رخ متعین کرنے کا موقع دیتی ہیں، جبکہ ’Verse by Verse‘ جیسے ٹولز کلاسیکی شاعرانہ اسلوب کو جدید تقاضوں کے مطابق پیش کرتے ہیں۔ انٹرایکٹو تجربات، جیسے 'Netflix's Bandersnatch' قارئین کو ادب کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اے آئی نہ صرف مصنفین کے لیے نئے اسلوب دریافت کرنے میں معاون ہے بلکہ قارئین کے لیے ادب کو مزید دلچسپ اور ذاتی بنا رہا ہے، جو مستقبل میں ادبی تخلیقات کے نئے افق تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

 مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اے آئی نے ادب کے میدان میں کئی اہم فوائد فراہم کیے ہیں، جن میں ترجمے کی آسانی، تخلیقی تحریر کی تیاری، ادبی تجزیہ، ذاتی نوعیت کا مواد فراہم کرنا، کلاسیکی ادب کو محفوظ کرنا اور ڈیجیٹلائز کرنا اور ادب میں نئی اصناف کی تخلیق شامل ہیں۔ AI کی مدد سے ادب کو عالمی سطح پر پہنچانا، مقامی لسانی تاثرات کی حفاظت، تخلیقی عمل میں جدت لانا، اور محققین اور قارئین کے لیے آسانیاں فراہم کرنا ممکن ہوا ہے۔ اس سے ادب کی دنیا میں نئے تجربات، نئے اصناف اور زیادہ وسیع پیمانے پر رسائی ممکن ہوئی ہے۔

 اے آئی کے جہاں بہت سارے فوائد موجود ہیں،  وہیں اس کے استعمال کے ممکنہ خطرات اور چیلنجز بھی در پیش ہیں۔ مثلاً اے آئی کے استعمال سے لکھنے والوں کی تخلیقی انفرادیت متاثر ہو سکتی ہے۔اے آئی موجود ڈیٹا کی بنیاد پر مواد تیار کرتا ہے، جس سے ادب کی وہ انفرادیت اور جدت ختم ہو سکتی ہے جو ہر مصنف کے تخلیقی انداز میں جھلکتی ہے۔ اس طرح ادبی تخلیق میں مصنف کی ذاتی بصیرت اور جذباتی گہرائی کا عنصر کمزور ہو جاتا ہے۔ادب میں ہر ثقافت کی روایات، محاورات،  اور دیسی زبانیں مخصوص اور منفرد ہیں۔اے آئی میں جو ڈیٹا موجود ہیں وہ اسی کے استعمال سے مواد فراہم کرتا ہے جس بنا پر وہ ہر ادب کی روایات اور ان ثقافتوں کی گہرائیوں کو مکمل طور پر سمجھنے اور بیان کرنے سے قاصر ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں مقامی روایات اور زبان کی نزاکت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اے آئی کا استعمال ادب میں اگر عام طور پر ہونے لگے تو اس سے ان مصنفین کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو روایتی طور پر لکھتے رہتے ہیں۔اسی طرح اگر اشاعت اور میڈ یا کے شعبوں میں اے آئی کا استعمال بڑھتا ہے تو مصنفین کی خدمات کی ضرورت کم ہو سکتی ہے، جس سے لکھنے والوں کے روزگار اور مواقع پر منفی اثر پڑے گا۔

مصنوعی ذہانت کی تحریروں میں انسانی جذبات اور گہرائی کی کمی کی ایک مثال AI کے ذریعے تخلیق کی گئی کہانیوں اور ناولوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مثلاً ’’Harry Potter and the Portrait of What Looked Like a Large Pile of Ash‘‘، ایک مشہور مثال ہے، جو کہ ایک اے آئی ماڈل نے لکھی تھی۔ یہ کہانی بظاہر دلچسپ اور عجیب تھی لیکن اس میں پلاٹ کے تسلسل، کرداروں کی گہرائی، اور جذباتی تعلق کا فقدان تھا، جو انسانی مصنف کے کام کا خاصہ ہے۔ اسی طرح، اے آئی کے ذریعے لکھی گئی شاعری اکثر تکنیکی طور پر درست لیکن جذباتی اثر اور تخلیقی بصیرت سے محروم ہوتی ہے، جیسے کہ"GPT-3 poetry experiments'' جہاں اشعار تو موزوں تھے لیکن ان میں انسانی تجربات یا جذبات کی عکاسی کمزور تھی۔ یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ AI کی تحریریں انسانی ذہانت اور فکر کی گہرائی کے بغیر مکمل ادبی معیار پر پورا نہیں اتر سکتیں۔5

اے آئی کی مدد سے مواد تیار کرنے کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ پہلے سے موجود تحریروں کو بغیر اجازت شامل کر کے انھیں نیا بنا کر پیش کر سکتا ہے۔ اس سے ادبی چوری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور مصنفین کے حقوق کی پامالی ہو سکتی ہے۔

ادب میں ہر مصنف اپنے ذاتی تجربات اور احساسات کو متن میں شامل کر کے، قاری کے ساتھ ایک ذاتی تعلق قائم کرتا ہے۔ اے آئی میں یہ شخصی تعلق پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ انسانی تجربات اور احساسات کو براہ راست محسوس نہیں کر سکتا۔ اس طرح کی ا دبی تخلیقات زبان کی باریکیوں اور انسان کی جذباتی دنیا کی عکاسی سے محروم ہو سکتی ہیں۔

ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ادب میں مصنوعی ذہانت اے آئی کا استعمال تخلیقی عمل میں کچھ آسانیاں تو فراہم کر سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی بڑے نقصانات کا امکان بھی ہے۔

مستقبل میں اے آئی کی ترقی نئی ایجادات اور اسمارٹ ٹیکنالوجیز کی شکل میں متوقع ہے، جس سے انسانی روابط میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔ اگرچہ AI ہمیں زیادہ مؤثر طریقے سے زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرتا ہے، لیکن ضروری ہے کہ ہم اس کی ترقی کو اخلاقی اصولوں اور قانونی فریم ورک کے تحت منظم کریں تاکہ ہم ایک ایسی دنیا تخلیق کر سکیں جہاں ٹیکنالوجی انسانی بھلائی کے لیے مفید ثابت ہو۔ اس طرح اے آئی کے ذمہ دارانہ استعمال کے ذریعے ہم ایک مثبت مستقبل کی تشکیل کر سکتے ہیں۔

حواشی

1.       Stuart J.Russell, & Petter Norvig, Artificial Intelligence: A Modern Approach  (3rd ed.). Prentice Hall. P. 1

.2       مصنوعی ذہانت،مصنفین  ذیشان الحسن عثمانی،ص34

3.      McCarthy, J., Minsky, M. L., Rochester,  N., & Shannon, C. E.(1956). A Proposal for the Dartmouth Summer Research Project on Artificial  Intelligence.

4.       Stuart J.Russell, & Petter Norvig, Artificial Intelligence: A Modern Approach (3rd ed.). Prentice Hall. Section 1.5 Page No.29

5.       Harry Potter and the Portrait of What Looked Like a Large Pile of Ash (29 Novmber) وکی پیڈیا: آزاد دائرۃ المعارف, 2004

          https://harrypotter.fandom.com/wiki/Har ry_Potter_and_the_Portrait_of_what_ Looked_Like_a_Large_Pie_of-Ash

 

Rashid Kadaree

4/145 Shibli Bagh,Dhorra Mafi,Aligarh

Research Scholar,Department Of Urdu,

Aligarh Muslim University,

Aligarh-202002 (U.P.)

Email.rashidqadri786@gmail.com

Mob.: 7376925305

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

دورِ جدید کے آئینہ میں اساتذہ کا کردار،مضمون نگار: احمد حسین

  اردو دنیا،جولائی 2025 تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام کا بنیادی ستون ہے، اور اساتذہ اس نظام کے معمار ہیں۔   جدید دور میں، جہاں ٹی...