اردو دنیا،جون 2025
تصوف یا صوفی ازم اسلامی روحانیت کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ
روحانیت اسلام کے ساتھ دوسرے مذاہب سے بھی وابستہ ہے۔ روحانیت کا تجربہ انسان کو
اپنے خدا سے قرب حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ خدا کے ساتھ یا اپنے خالق کے
ساتھ ایک ہوجانا۔ یہ روحانیت ہے اور یہی تصوف کا اصل معنی بھی ہے۔ یہ روحانیت اور
تصوف ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ہندوستان میں جب صوفیائے کرام آئے اور
انھوں نے مذہب کی تبلیغ کی تو ان کے نزدیک مذہب کا مقصد عبادات اور پرہیزگاری یا
فرائض دینوی کو بجالانا ہی نہیں تھا بلکہ انسان اور اس کے وجود کی شناخت، اس کے
باطن کی کھوج بھی تھا۔ انسان کون ہے، کیا ہے اور کیوں ہے؟ یہاں یہ بھی واضح کردینا
ضروری ہے کہ یہ روحانیت ہندوستان میں اسلام کی آمد کے پہلے سے موجود تھی۔
ہندوستان میں روحانیت کا سلسلہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب دنیا کی
قدیم ترین تہذیب تصور کی جاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تقریباً 5 ہزار سال پہلے بھی یہ تہذیب موجود تھی۔ رگ وید کا زمانہ
بھی کافی قدیم ہے۔ رگ وید میں خدا کی حمد وثنا اور نغموں کو شامل کیا گیا ہے۔ ویدوں
کے بعد اپنشدوں کا زمانہ آتا ہے۔ ویدانت اور اپنشد کے فلسفے نے پوری دنیا میں
اپنا اثر پھیلایا تھا۔ ایک روایت کے مطابق یونان کا عالم سقراط برہمنوں کی محفل میں
اپنشد سننے جاتا تھا اور جو باتیں اسے سمجھ میں نہیں آتی تھیں وہ ایتھنز میں رہنے
والے برہمنوں سے دریافت کرتا تھا۔ ہمارے ملک میں اپنشد کے بعد جین منیوں، بودھ
بھکشوئوں نے بھی اپنی تعلیمات کے ذریعے عوام میں بیداری پیدا کی۔ یہ سارے سلسلے
روحانیت سے ہی جڑے ہوئے ہیں۔ بعد میں جب صوفیوں اور بزرگان دین کی ہندوستان میں
آمد ہوئی تو یہ ملک رشی منیوں، سادھو سنتوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔صوفیوں نے یہاں
کی قدیم روایتوں اور تہذیبی اقدار کو پیش نظر رکھا۔ صوفیوں نے ایک عام انسان میں ویسی
ہی تعلیمات کو عام کیا جو تمام مذاہب میں یکساں قابل قبول تھیں۔یہ روحانیت کا
سلسلہ اسلام میں تصوف، عیسائیت میں رہبانیت، یہودیت میں قبالہ، ہندوئوں میں اپنشد
کی تعلیمات اور جین و بودھ بھکشوئوں کی تبلیغ سے ہوتا ہوا گزرتا ہے۔اس سلسلے میں ایک
نام یہاں لینا مناسب سمجھتا ہوں اور وہ نام سنت دادو کا ہے۔ انھوں نے روحانیت میں
ایک نیا تجربہ کیا اور خالق سے یکتائی کا نظریہ پیش کیا۔ کچھ انھیں صوفی امداد
کہتے ہیں تو کچھ انھیں سنت دادو دیال۔ ان کا یہ شعر دیکھیں ؎
عشق اللہ کی جاتی ہے،عشق اللہ کا رنگ
عشق اللہ کا وجود ہے،عشق اللہ کا رنگ
صوفی سلسلے نے
ہر دل میں محبت و اتحاد اور رواداری کو جگایا اور ایک قوم یا ملک سے اوپر اٹھ کر
پوری بنی نوع انساں کی بات کی۔ ذات پات، مذہب، رنگ ونسل یا ملک کی بنا پر تفریق کو
ختم کیا اور یہاں تک کہ چھوٹے سے چھوٹے جاندار اور نباتات، حیوانات کو بھی خدا کی
مخلوق تسلیم کیا اور اس سے محبت کا پیغام دیا۔ ایک صوفی کا قول دیکھیں:زمین پر
آہستہ قدم رکھو کیونکہ ہر جگہ زندگی موجود ہے۔
یہی زندگی اور اس کی بقا کا مقصد ہی روحانیت ہے اور اس کا
تجربہ انسان کو خدا کی قربت عطا کرتا ہے۔
صوفی ازم اور بھکتی دونوں ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ ان کی
تعلیمات میں اتنی زیادہ مماثلت ہے کہ کبھی کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ کون ہندو
تھا اور کون مسلمان۔ کبیر نے شیخ فریدالدین عطار کا پند نامہ پڑھ رکھا تھا اور
جلال الدین رومی اور سعدی کے کلام سے بھی شناسائی تھی۔کبیر کہتے ہیں کہ: جب تم دنیا
میں آئے تو لوگ ہنستے تھے اور تم رورہے تھے، تم دنیا میں اسی طرح زندگی گذارو کہ
لوگ تمھاری موت پر روئیں اور تم ہنسو۔ یہ شیخ سعدی کی ایک رباعی کا ترجمہ ہے۔کبیر
کے چیلوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں پہنچتی ہے۔ ان کے روحانی سلسلے کی بارہ شاخیں ہیں۔،
ان کے کچھ اہم شاگردوں کے نام ہیں۔ مگھر، جگن ناتھ، دوارکا، بھگوداس، دھرناداس، جیون
داس، کمال ابن کبیر، دادود دیال جن کا ذکر گذشتہ سطروں میں آچکا ہے۔ ان کا ایک
دوسرا قول دیکھیں جن میں صوفیائے کرام کی تعلیمات کا پورا عکس دکھائی دے جاتا ہے۔
جب نفس غالب آجاتا ہے تو تکبر، غصہ، خودی، دوئی، جھوٹ،
حرص، ضد ابھرآتے ہیں اور نیکی ختم ہوجاتی ہے۔ ارواح کا مقام یہ ہے کہ جب محبت،
عبادت، اطاعت، وحدت، تزکیہ، رحم، حق اور نیک خوئی جمع ہوجاتے ہیں تو آدمی راہ
راست پر آجاتا ہے۔یہ صوفیاے کرام کی اصطلاحات تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب ہے۔
کبیر کے شاگردوں میں ملک داس، سندرداس، ویر بھان وغیرہ کی تعلیمات میں صوفیائے کرام کی تعلیمات
کا اثر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ سکھ مذہب کے بانی گرونانک جو کسی زمانے میں نواب دولت
خان کے یہاں منشی بھی رہے۔ بعد میں انھوں نے ملازمت چھوڑ دی اور فقیری اختیار کرلی۔
انھوں نے ایران،سری لنکا اور عرب وغیرہ کے اسفار بھی کیے تھے۔شیخ شرف الدین بو علی
قلندر پانی پتی، شیخ فرید الدین اور ملتان
کے مشائخ کی صحبت میں رہے اور ان کا مشن ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان
فاصلوں کو ختم کرنا تھا۔
اسلام میں لفظ صوفی کا آغاز دوسری ہجری سے ہوتا ہے اور سب
سے پہلے ابوہاشم کوفی کے لیے صوفی کا لقب استعمال کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے حضرت
ذوالنون مصری کو بھی پہلا صوفی بتایا ہے اور ساتویں صدی بتائی ہے۔ خواجہ حسن بصری اور رابعہ حسن بصری کے بھی نام
آتے ہیں۔ ابوہاشم کوفی ابو سفیان ثوری کے استاد تھے اور 16 ہجری میں وفات پائی۔صوفی
کے لیے عارف کی اصطلاح تیسری ہجری میں رائج ہوئی۔ ابونصر سراج طوسی کی کتاب اللمع
فی التصوف کے ص427 پر درج یہ اقتباس دیکھیں جو مشترکہ تہذیب اور انسانی دلوں میں
محبت و اخوت کو جاگزیں کرنے کا پیغام بھی دیتا ہے اور اس کتاب میں بھی صوفی کے لیے
لفظ عارف کا استعمال کیا گیا ہے۔
کوئی شخص اس وقت تک عارف نہیں کہلا سکتا جب تک کہ وہ زمین کی
طرح نہ ہوجائے کہ سب کو وہ اپنے سینے پر روندنے کا موقع دیتی ہے۔ اور بادل کی طرح
نہ ہوجائے جو ہر چیز پر سایہ کرتا ہے اور سورج کی طرح نہ ہوجائے جو ہرکسی کو روشن
کرتا ہے اور بارش کی طرح نہ ہوجائے جو ہر چیز کو سیراب کرتی ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں سب سے پہلے جس صوفی اور بزرگ کا نام
آتا ہے وہ حضرت شیخ ابوالحسن علی ہجویری عرف داتا گنج بخش ہیں۔ ان کے شاگردوں میں
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت نظام الدین اولیا، حضرت خواجہ بختیار کاکی،
شیخ فریدالدین گنج شکر، شیخ برہان الدین بلخی، قاضی حمید الدین ناگوری، شیخ بہا ء
الدین زکریا ملتانی، شیخ نصیر الدین چراغ، حضرت امیر خسرو، شیخ شرف الدین بو علی
قلندر پانی پتی، حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی وغیرہ کے نام نامی قابل ذکر ہیں جو
سب اپنے آپ میں ہندوستان میں صوفی سلسلے کو فروغ دینے اور تصوف کی تعلیمات کو عام
کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔
صوفیائے کرام نے ہمیں
ہمیشہ امن و آشتی کا پیغام دیا ہے۔ ہندو گرو ہوں یا مسلم صوفی دونوں ہی معاشرے میں
امن و سکون کا قیام چاہتے تھے۔ جہاں وہ فرض عبادات اور تسبیح و اذکار سے خدا سے
جڑے رہنے کی تعلیمات دیتے ہیں وہیں خدا کی مخلوق سے محبت کرنے پر بھی زور دیتے ہیں۔
مساوات، بھائی چارہ، ہم آہنگی کا قیام تب ہی ہوگا جب لوگ عشق حقیقی کو سمجھیں گے
اور عشق حقیقی کی معنویت کو سمجھنا ہی تصوف اور بھکتی ہے۔ جس نے خدا سے سچی لو لگا
لی وہ کبھی خدا کے بندوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ رامانج نے عبادت کے لیے بہت سارے مراکز کا قیام کیا
تھا اور لوگوں کو یہی تعلیم دیتے تھے کہ اگر آپ نجات چاہتے ہیں تو آپ کو مراقبہ
اور عشق الٰہی میں اپنے آپ کو گم کرنا ہوگا۔انھوں نے تمام مذاہب سے رواداری کو بھی
ضروری بتایا ہے ساتھ ہی لوگوں کے درمیان مساوات کا قیام ہی آپ کو خدا کا قرب دلوا
سکتا ہے۔ مسلم اور ہندو صوفیائے کرام کے یہاں تو ملتا جلتا تصور ہے ۔ یہ ہم سب
جانتے ہیں لیکن دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی یہ تصور موجود ہے کہ خدا سے قربت کے لیے
آپ کو خدا کے بندوں سے محبت کرنی ہوگی اور ان کے لیے فلاح و بہبود کے کام کرنے
ہوں گے۔لبریشن تھیالوجی کا تصور (آزادی مرکوز الہیاتی نظریہ)بھی اسی تھیوری پر
مبنی ہے۔ جس کے تحت غریبوں کی حالت کو سدھارنے کے لیے ان میں کلام مقدس کی تشریح کی جانی چاہیے، ساتھ
ہی ان میں معاشرتی اور سیاسی تبدیلی لانے کے لیے ان کے کام کاج اور رہن سہن میں بھی
ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ کلیسا نے ایک دور میں غریبوں، مزدوروں اور لاچاروں کو وہ
ترجیح نہیں دی تھی جس کے وہ حقدار تھے۔ ان کا استحصال کیا جاتا رہا تھا لیکن لبریشن
تھیالوجی میں غریبوں کے حقوق کا دفاع کرنے اور انجیل مقدس کے پیغام کو مرکزی مقام
دینے کی بات کہی گئی ہے۔ آزادی مرکوز الہیاتی نظریہ لاطینی امریکی کیتھولک فرقے
کے ساتھ وابستہ ہے۔ یوں تو اس تصور کی تاریخ کافی قدیم ہے لیکن 1971 میں اسے گسٹائو گوٹیرز نے باضابطہ ایک تصور کی
شکل دی اور اپنی کتاب A Theology of
Liberationمیں تفصیل سے بیان کیا۔
رامانج کی طرح رامانند نے بھی ذات پات اور چھوا چھوت اور ورن آشرم کو ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں
رکاوٹ بتایا۔کبیر بھی رامانند کے ہی شاگرد تھے جن کا قول بہت مشہور ہے کہ ذات پات
ہندومت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔انھوں نے مذہب کو بھکتی بتایا اور بھکتی عشق الٰہی
تک پہنچنے کا راستہ ہے۔بعد کے تمام ہندو صوفیوں دادو دیال، ملوک داس، بابا لال،
رام موہن رائے، کشیپ چندر سین، سوامی دیانند سرسوتی وغیرہ نے بھی تمام انسانوں کے
ساتھ محبت کا سلوک اور انصاف کرنے کی بات کہی ہے۔مسلم صوفیائے کرام کے یہاں بھی
باہمی تعاون کا تصور موجود ہے۔ صوفیائے کرام نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا اور ایک
اچھے معاشرے کے قیام کے لیے دونوں قوموں کو باہمی پیار ومحبت سے رہنے کا درس دیا
ہے۔ترقی کے حصول کے لیے معاشرے میں امن و سکون کا قیام بہت ضروری ہے۔ سماج، معاشرے
اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیں تصوف اور بھکتی کی تعلیمات اور تصورات کو فروغ دینا ہوگاتا کہ
معاشرے میں امن و آشتی کی فضا قائم ہوسکے اور تمام انسان آپس میں اتحادو اتفاق
سے رہ سکیں۔
ہندوستان میں آٹھویں صدی میں شنکر اچاریہ نے دھرم میں
سدھار کرنے کی کوششیں کیں۔ ان کی کوششوں نے ہی بعد میں بھکتی تحریک کا روپ لے لیا۔بھکتی
تحریک کے بانی رامانج ویشنو تھے اور ان کے پیروکار ویشنو کہلاتے ہیں۔صوفی ازم اور
بھکتی میں عشق الٰہی کی بات سرفہرست رکھی گئی ہے۔ اتھر وید میں لکھا ہے کہ صرف
اپنے لیے زندہ نہ رہو سب کے ساتھ مل کر جیو۔ گیتا کا اپدیش ہے کہ جو شخص کسی انسان
سے نفرت نہیں کرتا وہی بہتر ہے۔ جبکہ حدیث میں ہے کہ الخلق کلہم عیال اللہ۔ ساری
دنیا خدا کا کنبہ ہے۔
مختصر یہ کہ ہندو مسلم صوفی سنتوں کی تعلیمات تمام انسانوں
کے لیے تھیں اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے میں صوفیوں اور سنتوں
نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کی کوششوں کو ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔ بھکتی اور تصوف کے درمیان جو ایک سب سے اہم نکتہ نظر
آتا ہے وہ یہ کہ اپنے خالق سے اپنے تخلیق کرنے والے سے وفا کی جائے اور اسی کی
پرستش کی جائے اور اس کی کسی بھی تخلیق کو کوئی تکلیف نہ دی جائے۔
(اس مضمون کی تیاری میں اسرار روحانیت، تاریخ تصوف، تصوف کا انسائیکلوپیڈیا،
عشق اور بھکتی، تصوف اور بھکتی جیسی کتابوں سے مدد لی گئی ہے)۔
Dr. Abdul Hai
GayaCollege, Sherghati Rd
A P Colony
Gaya- 823001 (Bihar)
Mob.: 9899572095
ahaijnu@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں