23/12/25

انسانی شخصیت کے تشکیلی عناصر،مضمون نگار: احسان حسن

 اردو دنیا،جون 2025

سماج میں مختلف انواع و اقسام کے لوگ رہتے ہیں۔ سب کے مزاج، عادات و اطوار الگ الگ ہوتے ہیں، سب کی پسند و نا پسند اور پھر اسی حساب سے ترجیحات بھی جدا جدا ہوتی ہیں۔ لوگوں کا عمل جو کہ بظاہر ہمارے سامنے ہوتا ہے وہی ان کے بارے میں ہماری رائے قائم کرنے کا ایک واضح اور تقریباً واحد ذریعہ ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ اسی عمل میں پختگی کی صورت بنتی ہے جس کو ہم کسی کے اندر مستحکم دیکھتے ہیں اور پھر اسی مناسبت سے شخصیت کا تعین کرنے لگتے ہیں۔ ندا  فاضلی کا ایک شعر ہے         ؎

ہر آدمی میں  ہوتے ہیں  دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

شخصیت کے حوالے سے اس شعر کی اہمیت مسلم ہے اور جب بھی ایسی کوئی گفتگو ہوتی ہے جس میں انسان کی شخصیت پر بحث ہو تو یہ شعر بے ساختہ زبان پر آجاتا ہے۔ شخصیت کو انگریزی میں Personality کہتے ہیں۔ Personality لیٹن لفظ Persona سے  بنا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے نقاب یا مکھوٹا ۔ سب سے پہلے گریک آرٹسٹوں نے تھیٹر میں اپنے کام کے مطابق منھ پر ایک مکھوٹا لگانے کا چلن شروع کیا۔ اس مکھوٹے کوPersona کہا جاتا تھا۔ اس پر سونا سے شخصیت کا لفظ پر سونالٹی وجود میں آیا۔ ایک انسان حقیقت میں کیا نظر آتا ہے۔ اس کی شکل و صورت کیسی ہے ؟ دوسروں کے سامنے خود کو کس طرح پیش کرتا ہے جب کہ واقعی وہ ویسا نہیں ہوتا، یہ بھی شخصیت ہے۔ شخصیت ایک طرح کا رول(ROLE)ہے جس کو انسان اپنی زندگی کے مختلف شعبوں میں طرح طرح سے انجام دیتا ہے، جیسے تجارتی کام، سیاسی کام، مذہبی کام، معاشرتی کام اور خاندانی و گھریلو کام وغیرہ۔ ایک شخص کی اپنی پوری خصوصیات ہی شخصیت ہے اس میں جسمانی و دماغی دونوں ہی خوبیاں شامل ہیں۔

ایک انسان کی شخصیت کی تشکیل میں ماحول، خاندان، اسکول، کالج، دوست، عزیز و اقارب وغیرہ غیر معمولی طور پراثر انداز ہوتے ہیں۔ اندر سے ایک انسان کیا ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ بظاہر ایک انسان اپنے کام، اپنے اخلاق کے ذریعے دوسروں پر جیسا اثر ڈالتا ہے اسی کے مطابق اس کی شخصیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ لیکن انسان حالات کے مطابق اپنے مزاج ، ڈھنگ ، برتائو، اخلاقی رویے کو بڑی حد تک تبدیل کرتا رہتا ہے ایسی صورت میں شخصیت کو سمجھنا کافی مشکل ہے۔ اب ہم مختلف دانشوروں کے ذریعہ دی گئی شخصیت کی چند تعریفیں پیش کرتے ہیں جو کسی حد تک شخصیت کو سمجھنے و پرکھنے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔

آلپورٹ کے مطابق :

’’شخصیت ان تمام خصوصیات کی محرک ہے جو ذاتی طور پر ایک انسان کی اندرونی، دلی ، دماغی اور جسمانی خصوصیات ہوتی ہیں اور انھیں خصوصیات کی بنا پر ایک انسان کے ذاتی چال چلن، برتائو سلوک اور خیالات کو متعین کیا جاتا ہے۔ ‘‘

( بحوالہ ’ منووگیان کی پدھتیاں اور سدھانت ‘ از ڈاکٹر جے ڈی شرما، ص545)

آل احمد سرور کے لفظوں میں :

’’شخصیت اس مجموعی، انوکھی، ممتاز اور منفرد خاصیت کا نام ہے جو وراثت اور ماحول کے ایک دوسرے پر پیہم کبھی مخالف اور کبھی موافق اثرات سے وجود میں آتی ہے۔ ‘‘  ( نظر اور نظریہ از آل احمد سرور، ص14)

اس طرح شخصیت کی تعمیر میں جسمانی خصوصیات کے ساتھ بچپن کی تربیت کا اثر ابتدائی عمر ہی سے پڑتا ہے۔ سماجی رشتے اس پر مختلف طریقوں سے اثر ڈالتے رہتے ہیں۔ کوئی بڑا واقعہ، کوئی غیر معمولی شخص، کوئی بڑی مذہبی سماجی یا سیاسی تحریک ذہن کو متاثر کرسکتی ہے اور شخصیت کی تشکیل میں اہم رول ادا کر سکتی ہے۔

سائیکو لوجسٹ کے۔ ینگ نے شخصیت کی دو قسمیں بتائی ہیں، ایکسٹروورژن اور انٹروورژن، اکسٹروورژن انسان اندرونی دنیا کے مقابلے میں اپنی باہری دنیا کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ جب کہ انٹروورژن قسم کے لوگوں میں ایک خود مشغولیت سی پائی جاتی ہے اور یہ اپنی اندرونی دنیا کو باہری دنیا کے مقابلے میں زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ کے۔ ینگ کے لفظوں میں  :

’’انٹروورژن ایک ایسی خاصیت ہے کہ یہ جس انسان میں پائی جاتی ہے وہ سب سے پہلے اپنے بارے میں سوچتا ہے اور فکر کرتا ہے۔ اس کے برعکس ایکسٹرو ورژن ایک ایسی خاصیت ہے کہ وہ جس انسان میں ہوتی ہے وہ دوسروں کے متعلق یعنی قوم اور عوام کی بھلائی کے متعلق زیادہ سوچتا ہے۔ ‘‘

(بحوالہ ’چارٹ ڈائل سائیکولوجی‘ از البرٹ جیمس، ص 417)

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ انٹروورٹ شخصیت کے انسان اپنے ہی متعلق زیادہ سوچتے ہیں۔ وہ دنیا کو اپنے خیالات ، احساسات اور کاموں کے لحاظ سے دیکھتے ہیں اور سخت مزاج ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ایکسٹروورٹ شخصیت کے لوگوں کا رجحان باہری دنیا کی طرف ہوتا ہے ٗ وہ ان چیزوں میں زندگی کی قیمت سمجھتا ہے اور اس کے قریب آتا ہے۔ وہ آسانی سے مختلف حالات میں خود کو حالات کے مطابق ڈھال لیتا ہے اور معاشرے سے پیار کرتا ہے۔ انٹرو ورٹ انسان ایکسٹروورٹ کی بنسبت ترنم کو زیادہ پسند کرتا ہے اور ہنسی مذاق کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ اس کے علاوہ انٹروورٹ احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے اور اس کی خواہشات ضرورت سے زیادہ ہوتی ہیں۔ بڑے سے بڑا کام کرنے کے باوجود وہ احساس کمزوری کا  شکار رہتا ہے اور اپنی کامیابیوں کو ہمیشہ کمتر ہی آنکتا ہے۔ لیکن ایکسٹرو ورٹ اپنی مرضی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اپنی ہی مرضی کے مطابق سب کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جو کچھ سوچتے اور سمجھتے ہیں اسی لحاظ سے عمل بھی کرتے ہیں۔ انٹرو ورٹ کی بنسبت اپنے خیالات و مزاج کو جلدی جلدی تبدیل کرتے رہتے ہیں اور اپنے آس پاس کے ماحول اور ہونے والی واردات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ زیادہ سوشل ہوتے ہیں۔

سائیکولوجسٹ کے۔ ینگ نے ایکسٹروورٹ شخصیت کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے:

’’.1  ایکسٹروورٹ انسان دنیا سے ہمدردی رکھتا ہے اور تنقیدی ڈھنگ سے اس کے بارے میں سوچتا ہے جس کی بنیاد سچائی پر ہوتی ہے۔ ایسا انسان اپنے ذاتی کاموں اور خیالوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔

.2 ایکسٹروورٹ انسان وہ ہوتا ہے جو باہر کے خیالوں سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور حالات کے مطابق کام کرتا ہے۔ معاشرے کے قانون کو نبھاتا ہے۔ وہ چاروں طرف کے لوگوں کے خیالات سے بہت جلد متاثر ہوتا ہے اور اسی طرح کام کرنا چاہتا ہے۔

.3 ایکسٹرو ورٹ لوگ اپنے خیال کو عمل میں لاتے ہیں۔ وہ معاشرے کو جیسا دیکھتے ہیں ویسا ہی ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا کو خوش کرتے ہیں۔

.4 ایکسٹروورٹ لوگ دنیا سے صرف اشارہ حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے ڈھنگ سے کام کرتے ہیں۔ ‘‘ (بحوالہ ’بیکتیتو‘از رام بہاری سنگھ تومر ، ص، 241-42)

اسی طرح انٹروورٹ شخصیت کو بھی کے۔ ینگ نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے :

’’.1 پہلی طرح کی انٹروورٹ شخصیت دنیا کی طرف زیادہ نہیں دیکھتی۔ ایسے لوگ عمل بھی نہیں کرتے۔ کپڑے، روپے اور دوسری چیزوں کی طرف سے بھی لاپرواہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ خیالوں، قانونوں اور آدرشوں کی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں۔

.2 دوسری طرح کی انٹرو ورٹ شخصیت کے لوگ اپنے ہی کاموں اور خیالوں میں ڈوبے رہتے ہیں۔ وہ دن میں خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ خاموش ہوتے ہیں اور دنیا سے بالکل دور۔

.3  تیسری طرح کے انٹرو ورٹ لوگ ہر چیز کو اپنے ہی نظریے سے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے ہی نفس کو اہمیت دیتے ہیں۔

.4 چوتھی طرح کے انٹر وورٹ لوگ اپنی اندرونی دنیا کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس سے اشارے حاصل کرتے ہیں اور اپنے آپ ہی میں رہتے ہیں ۔ دوسروں کی فکر نہیں کرتے۔ مذہبی لوگ، درویش ، آرٹسٹ ، سنکی وغیرہ اسی میں آتے ہیں۔‘‘

(بحوالہ ’بیکتیتو‘از رام بہاری سنگھ تومر، ص242)

اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ایک انسان میں ایکسٹروورٹ اورانٹرو ورٹ دونوں کی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ یعنی ایک انسان ایکسٹرو ورٹ اور انٹروورٹ دونوں ہوتا ہے اور یہ دونوں خصوصیات ایک انسان میں ایک ہی وقت میں پائی جاتی ہیں۔ ان دونوں خصوصیات میں سے جو زیادہ طاقتور ہوتی ہے وہ دوسری خصوصیت پرفتح پا لیتی ہے اور ذہن پر حاوی ہو جاتی ہے پھر انسان کا برتائو اسی کے مطابق ہوتا ہے۔ دوسری خصوصیت جو ذہن میں دب جاتی ہے وہ بھی پوشیدہ طور پر ذہن میں برقرار رہتی ہے لیکن ختم نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر کوئی انسان ایکسٹروورٹ ہے تو ناواقفیت میں وہ انٹرو ورٹ بھی ہوگا۔ اگر جانکاری اور واقفیت میں انٹروورٹ ہے تو وہ ناواقفیت میں ایکسٹروورٹ بھی ہوگا۔

 واقعی شخصیت ہی کسی شخص کا جوہر ہوتی ہے۔ شخصیت کے پیچھے بہت سے پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں جو شخصیت کی نشونما اور اس کی تعمیر کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں، مثلاً آدمی کس ماحول میں پیدا ہوا، اس کے والدین کیسے رہے ہیں، اس کی پرورش کس طرح ہوئی، اس کی تعلیم و تربیت کا کیا معیار رہا وغیرہ۔ اس کے علاوہ کچھ چیزیں فطری ہوتی ہیں۔ خداداد ہوتی ہیں جو کسی شخص کی شخصیت میں انفرادیت کا باعث بنتی ہیں۔

اس طرح اگر کوئی اپنی شخصیت تبدیل کرنا چاہے تو اس کو ایک زبردست چیلنج سے گذرنا ہوگا۔ جس میں نہ صرف اس کے اپنے عادات و اطوار شامل ہوں گے بلکہ ماحول، معاشرے اور خود اس شخص کی اپنی انا کی تبدیلی کا مرحلہ بھی ہوگا۔ اسے ہم ایک چھوٹے سے واقعے کے ذریعے بھی سمجھ سکتے ہیں۔  واقعہ یوں ہے کہ ایک نام و نمود والا، باعزت و باوقار شخص کچھ اس قسم کے اتفاقات کی گردش میں پھنسا کہ بری طرح ذلیل وخوار ہو کررسوا ہو گیا۔ اس کی انا نے سماج میں اب مزید منھ دکھانا گوارہ نہ کیا۔ اس شخص نے اپنا شہر اپنا وطن ترک کر دیا مع افراد خانہ کے اور بہت دور کسی ایسے شہر میں جا کر آباد ہو گیا جہاں پر اس کو اور اس کے گھر والوں کو کوئی بھی جانتا پہچانتا نہیں تھا۔ سب کچھ چھوڑ کر بالکل نئی جگہ پر گمنام سی زندگی اس شخص نے اپنا لی۔ بس اتنا سا واقعہ ہے۔ اب آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس شخص کو اپنی شخصیت کے ساتھ کتنی جنگیں لڑنی پڑی ہوں گی۔ کہاں روز سو پچاس ہاتھ سلام و تسلیم میں اٹھا کرتے تھے، کہاں اب کوئی پہچاننے والا بھی نہیں ہے۔ اپنی ذات اور اپنی انا سے ایک لڑائی پرانی جگہ پر تھی جس کے سبب وہاں سے ہٹنا پڑا اور اب نئی جگہ پر بھی ذات سے کائنات کے درمیان جنگ واقع ہے۔ انسان اپنی ایک زندگی میں ہی متعدد شخصیتوں کو ڈھوتا پھرتا ہے اور ان سب کے مابین ایک تصادم برپا رہتا ہے۔ ایک ہی انسان بیک وقت دو مختلف جگہوں پر چھوٹی اور بڑی یا ہلکی اور وزن دار شخصیت کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ اس کی یہی سب شخصیتیں آپس میں مل کر ایک مرکزی شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں۔ یہی مرکزی شخصیت ہی عام طور پر سماج میں ہماری شناخت کا باعث بنتی ہے۔ اس عکس کا ایک معکوس بھی ہوتا ہے یعنی الگ الگ افراد کی نظروں میں ہماری الگ الگ شخصیت مرتب ہوسکتی ہے۔ اب اس میں درستگی اور واقعیت کا معاملہ افراد کی اپنی اپنی بصیرتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک ادیب ایک فنکار کے لیے کسی طوائف کی شخصیت قابل  ستائش ہو سکتی ہے تو ایک زاہد کے لیے قابل  مذمت۔

داخلی اور خارجی شخصیت کا معاملہ بھی دلچسپ ہے۔ خارجی طور پر جیسا کہ ابھی ذکر ہوا کہ بیشتر مدار سامنے والے کی سمجھ اس کی فہم اور اس مخصوص نقطئہ نظر پر ہوتا ہے جو کسی شخص کی شخصیت کے وصف اس کے عمل کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔ چونکہ عمل ہی ظاہر ہے، اس لیے کسی کی نیت کیا ہے اور کوئی عمل راضی خوشی ہو رہا ہے یا بہ وجہ مجبوری، اس حقیقت  کا پتہ لگا پا نا بہت مشکل ہے۔ اسی طرح دوسرا پہلو بھی ہے کہ کسی شخص کے نیک عمل سے اگر فوری طور پر ہم اس کی شخصیت کا تعین کرتے ہیں اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ اس نیک عمل کے پس پشت آئندہ کی کوئی سازش کارفرما تھی تو پھر اس شخص کی شخصیت کو کس قسم کی شخصیت قرار دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ شخصیت کوئی چند اعمال کی بنا پر یا محض چند روزہ کیفیتوں اور صورتوں کے مد نظر طے کی جانے والی شے نہیں ہے۔ شخصیت میں مزاج کا بڑا دخل ہوتا ہے، کوئی شخص اگر مزاجاً نیک ہے تو پھر بہت دیر تک آپ اس کو برے سلوک کے ساتھ نہیں پا سکیں گے کیوں کہ اس کے مزاج ہی میں برائی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مزاجاً برا ہے تو اچھائی اور نیکی کے خول میں وہ بہت دیر تک خود کو پوشیدہ نہیں رکھ سکے گا اور کسی نہ کسی بہانے اس کا اصلی چہرہ جلد ہی سامنے آ جائے گا۔ جب تک کہ کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہ پیش آجائے کہ آدمی قلب ماہیت کے دور سے گذرے اور وہ مخصوص واقعہ اس کے مزاج کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دے، تب تک شخصیت میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ شخصیت ایک دیر پا اور مستقل صفت کیفیت ہوتی ہے، جس میں نہ تو اتنی جلدی اور نہ ہی اتنی آسانی سے کوئی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ اگر ایک بار کوئی چیز شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے تو اس کو چھوڑنا ، الگ کرنا اور ترک کرنا بڑا دشوارکن مرحلہ ہوتا ہے۔

شخصیت کے ایک اورپہلو پر بات کر لیتے ہیں اور وہ ہے خود کی ہی نظروں میں آدمی کی اپنی شخصیت یعنی خود بینی و خودخیالی۔ آدمی سب سے زیادہ خود کے ہی قریب ہوتا ہے۔ اپنے بارے میں جتنی معلومات خود ہمیں ہوگی اتنی کسی بھی دیگر شخص کو نہیں ہو سکتی ہے۔ ہم کتنے بھلے برے ہیں یہ ہم سے بہتر بھلا کوئی کیا جانے گا۔ بس یہیں سے شروع ہوتی ہے شخصیت میں خود بینی یا خود خیالی کی بحث۔ کوئی شخص اپنے تعلق سے کیسی سوچ رکھتا ہے، وہ خود کو کس طرح کا انسان گردانتا ہے یہ ایک نہایت ایمانداری والا اور ذاتی قسم کا سوال ہے کہ ہماری نظروں میں ہمارا مقام کیا ہے؟ ویسے اس سوال میں ایمانداری تو فطری بات ہے کہ خود سے خود کے ہی بارے میں کوئی کیا جھوٹ یا مبالغے سے کام لے گا۔ یہ مرحلہ اکثر تب پیش آتا ہے جب ہمیں کوئی اہم قدم اٹھانا ہو، کوئی قوت ارادی کا فیصلہ کن معاملہ درپیش ہو اور ذمہ داری و جواب دہی خود کے کندھوں پر ہو تو آدمی محاسبے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے کہ ہماری اصلیت تو ہم جانتے ہیں کہ ہم سے کیا اور کتنا ہو پائے گا۔ خود خیالی اور خود بینی کا جو تصور ہے اس کی ایک سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ اگر ایک بار انسان اپنی شخصیت کے تعلق سے آگاہ ہو گیا تو پھر اس کے سامنے کسی قسم کی کوئی کشمکش نہیں رہ جاتی ہے اور وہ بے نیازانہ عمل شروع کر دیتا ہے۔

شخصیت میں کچھ پوشیدہ عناصر بھی ہوتے ہیں جو عام طور پر روزمرہ کے معاملات میں نظر نہیں آتے ہیں لیکن جب ہم کسی غیر متوقع اور غیر معمولی قسم کے واقعے سے دوچار ہوتے ہیں تو شخصیت کا یہ پوشیدہ عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ یہ مثبت اور منفی دونوں طرح کا ہو سکتا ہے۔ جس کے لیے پرورش و پرداخت اور ذہنی تربیت ذمہ دار ہوتی ہے۔ ذہنی تربیت کا واسطہ گرد و پیش کے ماحول سے ہوتا ہے۔ قنوطی اور حوصلہ شکن ماحول سے مثبت اور دلیری بھرے اقدام کی امید نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح مثبت اور حوصلہ مندی کی فضا میں منفی اثرات مرتب نہیں ہوا کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ شخصیت کا جو پوشیدہ پہلو ہے جس سے خود بھی کوئی شخص واقف نہیں ہوتا، وہ جب اتفاقیہ طور پر دفعتًا  سامنے آتا ہے تو وہ مخصوص رویہ کوئی علیحدہ یا شخصیت سے باہر کی چیز نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی جڑیں ہماری شخصیت میں ہی گہرے طور پر تہ داری کے ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ اس طرح انسان کی شخصیت تہ بہ تہ پرت در پرت ایک ایسے بٹوے  کی مانند ہوتی ہے جس میں سے کب کون سا سکہ چھوٹا بڑا، کھرا کھوٹا باہر نکل آئے، کوئی نہیں جانتا۔ ہم محض قیاس آرائی کر سکتے ہیں۔ معاملہ عمل اور رد عمل کے درمیان تعین کا ہے جس کے متعلق یقینی طور پر کوئی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔

کتابیات

  •         فرائڈی تناظر، مرتبہ تہذیب صدیقی، برائون بک پبلی کیشنز، نئی دہلی
  •          بیکتیتو از رام بہاری سنگھ تومر
  •          نظر اور نظریہ از آل احمد سرور 
  •   منووگیان کی پدھتیاں اور سدھانت از ڈاکٹر جے ڈی: شرما
  •         چارٹ ڈائل سائیکولوجی از البرٹ جیمس

Dr. Ehsan Hasan

Assistant Prof., Dept of Urdu

Banaras Hindu University

Varanasi- 221005 (UP)

Mob.: 9935352141

ehasan.hasan1@bhu.ac.in

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

دورِ جدید کے آئینہ میں اساتذہ کا کردار،مضمون نگار: احمد حسین

  اردو دنیا،جولائی 2025 تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام کا بنیادی ستون ہے، اور اساتذہ اس نظام کے معمار ہیں۔   جدید دور میں، جہاں ٹی...