اردو دنیا،جون 2025
نو مبر1910کی ایک
صبح کو تا لستائے اپنی آبائی جاگیر کو چھوڑ کر اس روحانی آزادی کی تلاش میں نکل
پڑا جو اسے موت سے قبل نہیں حاصل ہو سکی۔ جارج آردیل نے اس کی موت کو کنگ لیٹر (King Lear) کی موت سے مشابہت دی ہے اور
پروفیسر عیسائیہ برلن نے اسے یونانی بادشاہ عدیپس کا (Dedipus) ہم مقدر قرار دیا ہے۔ ان دونوں تشبیہوں میں ایک عظیم مفکر اور
فنکار کی ایک معمولی اسٹیشن ماسٹر کے گھر میں موت مخصوص اہمیت رکھتی ہے۔
تالستائے کی موت اس کی پیدائش کے پیشتر تضادات کی آخری کڑی
ہے۔ یہ سلسلہ اس کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے۔ ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ وہ رئیس
گھرانہ میں پیدا ہوا اور عوام سے نزدیک ہونے کے باوجود طبعاً امارت پسند ہی رہا۔
گورکی نے غالباً سچ ہی کہا تھا کہ اپنی ذاتی زندگی میں زبردست انقلاب کے
باوجود تالستائے غیر شعوری طور پر یہ
محسوس کرتا رہا کہ اس کا تعلق مالکان سے ہے اور وہ عوام سے خدمت اور تعظیم کا
مستحق ہے۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ تالستائے کے یہاں ایک خاص قسم کا پندار ملتا ہے۔
اسے اپنی ذات پر فخر کے علا وہ اپنے خاندان اور اعلیٰ نسبی پر بھی ناز ہے۔
دوسرا تضاد یہ ہے کہ تالستائے خاندان اور مزاج کے اعتبار سے
قدامت پسند تھا مگر اقلیت پسندی اور مخصوص مسیحی عقیدہ کی بدولت وہ انقلابی ہو گیا۔
وہ سماجی انقلاب کا مبلغ نہیں تھا بلکہ اخلاقی انقلاب کا حامی تھا چنانچہ ’اعتراف‘
کی تصنیف کے بعد بھی ندامت یا پشیمانی کے احساس سے دو چار نہیں ہوتا۔ اس زمانے میں
اس کی حیثیت اس جاگیر دار کی تھی جس نے تلوار سے صلیب بدل لی ہو۔
تالستائے کی اخلاقی اور ذہنی انقلابیت سے یہ مراد ہر گز نہیں
کہ انسان اپنی ذات میں بنیادی تبدیلی کرے اور خود سے ماورا ہو جائے۔ اس کے نزدیک
انسان کے اندر اگر تبدیلی ممکن ہے تو وہ دلوں میں تبدیلی سے ممکن ہے۔ اپنی زندگی
کے آخری دور میں تالستائے نے اپنے اندر یہ تبدیلی محسوس کی تھی، لہٰذا وہ دوسروں
کے یہاں بھی یہی دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ وہ ’کردار کا کم لیکن گفتار
کا غازی‘ زیادہ تھا اس لیے اس کا اثر مغربی یورپ میں منفی ہی رہا۔ وہ لوگوں کو
کردار کی بلندی اور اخلاقی تکمیل کے لیے مشورہ دے سکتا تھا لیکن عملی اعتبار سے اس
سے زیادہ کچھ نہ کرسکا۔ تالستائے کے یہاں زندگی کے بدلتے ہوئے اور قلب ماہیت کا وہ
عرفان نہیں ملتا جو نتشے اور دوستووسکی کا خاصہ ہے لیکن اس کا نتشے کے اس قول سے
مشابہت رکھتا ہے جس میں اس نے تلقین کی ہے کہ"جو تم ہو ، ہو جاؤ" (Become who you
are) تالستائے کا نظریہ خودی پر مبنی ہے لیکن اس کے یہاں
شخصیت پرستی کو کم دخل ہے۔ اس نے ہر انسان کے اندر فطری صلاحیت اور جودت طبع کا
اعتراف کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس کا یہ خیال بھی اہم ہے کہ سماجی زندگی میں
مروجہ رسوم کی کورانہ تقلید سے یہ صلاحیتیں سلب ہو سکتی ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ
تالستائے کا مطلب اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں سے نہیں بلکہ نفسیاتی معنی میں ہے یعنی وہ
خوبیاں جو سادگی اور تازگی سے پیدا ہوتی ہیں اور جو داخلی وسائل پرمشتمل ہیں۔
تالستائے نے اپنے کرداروں کو اسی نظریے کے تحت تخلیق کیا اور اس کے تمام چھوٹے بڑے
کرداروں میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم ملتی ہیں۔ اپنے کردار میں تمام انسانی ہمدردی کے
باوجود تالستائے اکثر مایوس ہو کر انسان دشمنی پر اتر آتا تھا۔ اس کے غصے کی زدمیں
نہ صرف افراد بلکہ وہ لوگ بھی آجاتے تھے جو سماجی فرائض انجام دیتے ہیں مثلاً سیاست
داں ، سرکاری ملازم ، افسر، پیشہ ور وکیل ، حج، استاد، مصنف اور فنکار۔ وہ بنیادی
طور پر انسان کو معصوم اور بے ضرر نہیں سمجھتا تھا اور نہ وہ اس خیال سے متفق تھا
کہ انسان کو اس کا ماحول بگاڑتا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کی رگوں میں شر کا عنصر خون
کے ساتھ دوڑتا ہے اور اپنی ذہنی اور روحانی یا اخلاقی قوت ہی سے اس کا ازالہ کر
سکتا ہے۔ تالستائے کی مسیحیت میں عقیدہ کی ایک وجہ غالبا یہ بھی تھی کہ وہ اپنے
اندر آدم اور بنی آدم کی تمام خوبیاں اور خرابیاں پاتا تھا جن کے بغیر انسان
مکمل نہیں ہوسکتا۔
اپنی زندگی کے آخری تیس سالوں میں تالستائے کو مستقل ایک
طرح کی کشمکش کا سامنا رہا۔ تالستائے بحیثیت ناصح اور تالستائے بحیثیت مصنف ،
تالستائے بحیثیت اخلاقی معلم اور تالستائے بحیثیت فنکار ان مختلف پہلوؤں میں تضاد
نمایاں ہے لیکن ہمیں ان کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ تالستائے نے خود
کہا تھا کہ مصنف کا مقصد کسی مسئلہ کو مستقل طور پر حل کرنا نہیں بلکہ اپنے پڑھنے
والوں کو زندگی کی مختلف اور لا انتہا ہیئتوں کو دیکھنے پر مجبور کرنا ہے ،
تالستائے کی پیغمبری اور فن کاری ایک ہی ذہن کی پیداوار ہے لہٰذا ان میں داخلی
رابطہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے یہاں یہ ربط و تنظیم مختلف متضاد عوامل کے
باہمی تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے دل و دماغ میں بسنے والے سینکڑوں افراد کے درمیان
مستقل مکالمہ اور خیالات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ اس کے نمائندہ کرداروں کے
یہاں جدلیاتی رجحانات خود اسی شخصیت کا براہِ راست نتیجہ ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ
تالستائے نے اپنی تخلیقات کی بنیاد متضاد کیفیتوں پر رکھی جس سے ان میں عجیب و غریب
پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے لیکن وہ کبھی ان مبہم کیفیات میں نہیں کھو جاتا۔ وہ اپنا
راستہ متعین رکھتا تھا اور اندر جانے یا باہر نکلنے کے لیے سمتوں کی جس واقفیت کی
ضرورت ہے وہ اس کے اندر بخوبی موجود تھی۔
تالستائے کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے ہمیں اس امر کو بھی
ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اس کے افسانوں میں زندگی اپنی تمام تر آب و تاب اور جلوہ
نمائیوں کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے اور ہم اکثر یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں
کہ کس حد تک یہ ادبی کارنامے اس کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں اور کسی حد تک محض تخیل
کی پیداوار۔ یہ بات کچھ تعجب خیز نہیں کہ ناول نگار اور ڈرامہ نویس اپنی تصانیف کے
لیے اپنے زمانہ کے سماجی، سیاسی، معاشرتی زندگی ، اس دور کی اہم شخصیات اور مخصوص
واقعات سے متاثر ہوتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ "بڈن بروکس" (Budden
Brooks) میں طامس
مان کی خاندانی زندگی کا عکس اسی طرح ملتا ہے جس طرح ڈکنس کی ذاتی زندگی کا چربہ ڈیوڈ
کا پر فیلڈ (David Copperfield) میں موجود ہے۔ ہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ شعری یافنی
کارنامہ ایک حد تک مصنف کی ذاتی زندگی یا اس کے ماحول کا حقیقی نفسیاتی چربہ ہوتا
ہے۔ جب ہم تالستائے کے یہاں ذاتی زندگی کا عکس تلاش کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا
احساس ہوتا ہے جہاں آگسٹن اور روسو کے اعترافات میں مصنف بڑھاپے کی منزل سے جوانی
اور بچپن کی طرف دیکھتے ہیں وہاں تالستائے اپنے بچپن ، لڑکپن اور جوانی میں عنفوان شباب کے دوران بچپن ، لڑکپن اور
جوانی کو ان کی تمام تر معصومیت تازگی اور جذباتی حقیقت نگاری کے ساتھ بیان کرتا
ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نو خیز مصنف نجی زندگی کے معمولات اور خوشیوں
میں خارجی زندگی کے معروضی جائزہ سے زیادہ دل چسپی رکھتا ہے۔
تالستائے کی ابتدائی تصانیف میں معروضیت بہت کم ہے۔ اپنے
روز نامچے میں جو تاثرات اور یادداشتیں اس نے درج کی تھیں انھیں بچپن ، لڑکپن اور
جوانی میں زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہاں ہمیں وہ شخصیتیں ملتی ہیں جنھوں
نے مصنف کو متاثر کیا۔ وہ کمرے یا وہ مناظر یا وہ واقعات جن سے اس کی بیشتر یادیں
وابستہ ہیں ہمارے سامنے احتساسی تازگی کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ رحم دل ماں جو زندگی کی
برکتوں سے آشنا تھی، شفیق باپ جو زندگی سے لطف اندوز ہونے کا قائل تھا ، بوڑھی
دادی جو احترام کی مستحق تھی، خاندان کے افراد میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے
علاوہ جرمن اتالیق ، اور فرانسیسی استاد کے ساتھ نوکروں، خادماؤں، فقیروں، نیم
مفلوج زائرین کا جمگھٹ نظر آتا ہے۔ گھر میں بھائی بہن، دوست احباب اور نوخیز لڑکیاں
ملتی ہیں جو محبت کی پہلی ترنگ میں جھومتی پھرتی ہیں۔ باہر مدرسہ کا ماحول،
شکارگاہ، بچوں کے ناچ، دیہاتی میلے اور رسمی ملاقاتیں ہیں۔ مختصراً ان ابتدائی
افسانوں میں انیسویں صدی کے وسط میں جاگیرداروں اور رئیسوں کے بچوں کی نفسیات کا
دلکش خاکہ موجود ہے جو اپنی حیثیت کے لحاظ سے عیش و آرام کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔
نجی زندگی کو فن میں سمونے کی کوشش ابتدائی تصانیف کے ساتھ
ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وسطی دور کی بیشتر کہانیوں میں یہ عناصر جا بجا ملتے ہیں۔
تالستائے کی قزاقزستانی داستانیں حملہ، قذاق، سیواستوپول، برفانی طوفان، زمیندار کی
صبح وغیرہ میں خارجی زندگی کے ساتھ نجی زندگی اور ایک حد تک گناہوں کا اعتراف بھی
شامل ہے۔ ’قزاق‘ میں آلینن (Olenin) ’جنگ اور امن‘ میں شاہزادہ
بولونسکی اور پئربیزوخاف، اناکرینینا میں لیون اور دیگر متعدد کہانیوں کے کردار
تالستائے کی زندگی کے مختلف ابواب ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اپنے دو مشہور ناولوں
میں تالستائے نے اپنے خاندان کے لوگوں کے علاوہ احباب اور رشتہ داروں کے خاکے بھی
کھینچے ہیں جو بہت حد تک ان کی زندگی کا چربہ ہیں۔
اپنی ادبی زندگی کے آخری دور میں جب تالستائے روحانی کشمکش
سے دوچار تھا ہمیں اس کی شخصیت کا پوری طرح احساس ہوتا ہے۔ ہمعصر سیاسی، مذہبی اور
سماجی زندگی سے بیزاری اور نئے مسیحی نظام کی بشارت خود اس کے ذہن کے مختلف گوشوں
کو نمایاں کرتے ہیں۔
تالستائے کی تصانیف میں جہاں سماجی مسائل خالص فنی انداز میں
ہمارے سامنے آتے ہیں وہاں نجی زندگی کی کیفیات اور تضادات بھی کچھ اس خوش اسلوبی
سے سموئے گئے ہیں کہ ہم اس کی عظمت کے قائل ہونے لگتے ہیں۔ وہ کبھی نہ تو محض تخیل
کی دنیا بساتا ہے اور نہ خارجی حقیقت پسندی کو زیادہ قابل توجہ سمجھتا ہے۔ کچھ
مبصروں نے تالستائے کی اعتدال پسند نگاری کی تنقید کی ہے لیکن انھیں شاید اس بات
کا احساس نہیں کہ وہ لفظوں کا ایسا جادو گر ہے جو اپنے فن کے ذریعے وہ کرنے کو زیادہ
جاندار اور دلپذیر بنا دیتا۔ اس خوبی کے باوجود تالستائے کی اہمیت محض اس وجہ سے
نہیں ہے کہ وہ انسانی تجربہ کے مختلف پہلوؤں کونئے مشن کے ساتھ پیش کرتا ہے یا اس
نے خدا اور شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ کرداروں کو جنم دیا ہے۔ ہماری بیسویں صدی
کے لکھنے والوں میں بھی ایسے مصنف نکل سکتے ہیں جنھوں نے خدا کی مخلوق سے محبت کی
ہے اور جو زندگی کو تمام حسن و کوائف کے ساتھ پیش کرتے رہے ہیں لیکن تالستائے کے یہاں
شعریت و حقیقت کا جو حسین امتزاج ملتا ہے وہ اسی کا حصہ ہے۔ امریکی مصنف ہیمنگوے
نے تو ایک دفعہ مقابلے کے زعم میں تمام یورپین حقیقت نگاروں مثلاً تر گنف اور فلوبیر
کو چیلنج کردیا لیکن تالستاے کے متعلق اس کا خیال تھا کہ وہ کبھی اس دیو قامت
فنکار سے آنکھیں ملانے کا تصور نہیں کر سکتا۔
ماخذ: تالستائے، مصنف: ڈاکٹر محمد یٰسین، سنہ اشاعت: دوسرا
ایڈیشن: 1998، ناشر: قومی کونسل برائے
فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں