23/12/25

داستانوں نے اپنی بقا کے لیے اسٹیج کا رخ کیاہے: پروفیسر اسلم جمشید پوری،مضمون نگار: ارشاد سیانوی

 اردو دنیا،جون 2025

ارشاد سیانوی:  جب آپ کالج میں سیکنڈری کی تعلیم حاصل کررہے تھے تو کیا آپ کو معلوم تھا کہ آپ آگے چل کر اردو فکشن اور فکشن تنقید کے شہسوار ہوں گے؟ 

 اسلم جمشیدپوری:نہیں،مجھے پتہ نہیں تھا۔ لیکن جمشیدپور کاادبی ماحول ایساتھاجو ادبی ذوق رکھنے والے طالب علموں کے لیے ساز گار تھا۔ ایسے ماحول میں میں نے اوٹ پٹانگ چیزیں لکھنے کی ابتدا کی اور مجھ میں اتنی ہمت تھی کہ اس زمانے کے معروف رسائل میں وہ اوٹ پٹانگ تخلیقات بھیج دیا کرتا تھا۔ مدیران کے جواب آتے کہ آپ اپنے شہر کے معروف ادیبوں و شعرا  سے اپنی تخلیقات پر اصلاح لے لیا کریں۔ ان جوابات کے ساتھ میری تخلیقات واپس آتی رہیں۔ آپ کو حیرا نی ہو گی کہ میں نے یہ عمل تقریباً دو سال کیا۔لیکن لکھنے اور شائع کرنے کی مشق سے ایک کہانی جسے افسانچہ بھی کہہ سکتے ہیں ایسی ہو گئی جو1981 میں دہلی کے مشہور رسالے ’روشن ادب‘ میں شا ئع ہو گئی اور اس تخلیق کو اسی مہینے ’گونج‘ نام کے اخبار نے ڈائجسٹ کر کے چھاپا۔ اس کے بعد جمشید پور کے ادیبوں میں کھلبلی مچ گئی۔ کیونکہ یہ کہانی میں نے ایم۔ اسلم بدر کے نام سے لکھی تھی، اس وقت میرے ذہن میں اسلم بدر اور بشیر بدر چھائے ہوئے تھے۔ شہر کے ادبی لوگوں نے یہ سمجھا کہ اسلم بدر نے شاعری کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری بھی شروع کردی ہے۔ لیکن اسلم بدر کے انکار کرنے کے بعد بہت سے ادبی لوگ مجھے ڈھونڈتے رہے۔ آخر تنویر اختر رومانی نے مجھے تلاش کرلیااور مشورہ دیا کہ آپ اپنا نام بدل لیں اور کہانیاں کسی افسانہ نگار کو دکھا لیاکریں۔ دوسری کہانی سے میں اسلم جمشیدپوری بن گیا اور تنویر اختر رو مانی کو اپنی کہانیاں دکھانے لگا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نویں کلاس کاطالب علم تھا۔ گھر پر ناولوںکا اچھا خاصا ذخیرہ ہوتاتھا،کیونکہ والد صاحب کو ناول پڑھنے کابڑا شوق تھا۔ اس زمانے میں،میں نے ابن صفی،رضیہ بٹ، فیاض علی، بشریٰ رحمن وغیرہ کے بہت سا رے ناول پڑھے۔ اس طرح میں افسانے کی دنیا میں داخل ہوا۔

ا س: جب آپ کی پہلی کہانی’نشانی‘ (1981)منظر عام پر آئی تو اس وقت کون کون افسانہ نگار افسانے لکھ رہے تھے اور سب سے پہلے کس افسانہ نگار نے آپ کی کہانی کو سرا ہا۔

ا ج:  جب میری پہلی کہانی شائع ہوئی تو اس زمانے میں جمشید پور میں منظر کاظمی،ذکی انور،جہاں گیر محمد، سلطان احمد ساحل، انور امام، تنویر اختر رومانی،ارمان شباب، حسن نظامی کیراپی وغیرہ افسانے لکھ رہے تھے۔میری کہانیوں کی نوک پلک درست کرنے اور تعریف و تحسین کاکام پہلی بار تنویر اختر رومانی نے کیا۔

ا س:  ایسی کونسی بات تھی جس نے آ پ کو کہانی لکھنے کے لیے تیار کیا؟

ا ج:میں بتا چکا ہوں کہ میرا ارادہ باضابطہ کسی موضوع پر کہانی لکھنے کا نہیں تھا،بس لکھتے لکھتے کہانی ہوگئی۔

ا س:آپ نے ابتدا میں کتنی کہانیاں ایسی لکھی ہیں جن کو آپ نے اپنی امی جان کو پڑھ کر سنایا اور کہانی سننے کے بعد انھوں نے کیسا محسوس کیا؟

ا ج:امی تو نہیں۔ امّی کا تو لکھنے پڑھنے سے کوئی تعلق نہیں تھا،ہاں والد محترم مرحوم شمس الدین صاحب کو ضرور میں نے اپنی کہانیاں سنائیں۔ وہ کہانیوں پر اچھے مشورے دیتے تھے۔ ایک بار میں نے ایک کہانی میں ایک مریض کوفالج زدہ دکھایا تھا اور اس کے دونوں پیر معذور دکھائے تھے۔ والد صاحب نے کہا کہ فا لج ہمیشہ جسم کے ایک حصے پر پڑتا ہے۔ سیدھا یا الٹا حصہ مفلوج ہوجاتا ہے۔  دو نوں پیر فالج زدہ نہیں ہو سکتے تو پھر میں نے کہانی میں اصلاح کی۔ والد محترم میری کہانیوں پر بہت خوش ہو تے تھے۔ کیونکہ میری سات پشتوں نے بھی قلم پکڑنا نہیں سیکھا تھا۔ ایک بار یہ ہوا کہ میںنے لینڈرا نام کی کہانی لکھی،جس میں گائوں کے حقیقی کردار موجود تھے۔ میں نے کہانی والد صاحب کو سنائی تو وہ آگ ببولہ ہوگئے اور غصہ میں کہا کہ تم گائوں میں لڑائی جھگڑا اور فساد کرادو گے۔ یہ کہانی جب چھپے گی اور گائوں والے پڑھیں گے تو تمھارے سا تھ ہم پر بھی مصیبت آ سکتی ہے۔ وا لد صاحب کے اس رد عمل پر میں نے کہانی لینڈرا کے کرداروں کے نام فرضی کردیے۔ اس کہانی نے مجھے عالمی شہرت عطا کی۔

ا س:آپ کا پہلا افسا نوی مجموعہ ’افق کی مسکراہٹ‘ 1997 میں منظر عام پر آ یا۔اس مجموعے میں کونسا افسانہ آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے اور کیوں؟

ا ج:میرا پہلا افسانوی مجموعہ’افق کی مسکراہٹ‘ میں افسانے اور افسانچے شامل ہیں۔ افسانوں میں مجھے سب سے زیادہ’لال خط‘ افسا نہ پسندہے جو کہ کتاب میں ’افق کی مسکرا ہٹ‘ کے عنوان سے درج ہے۔ ویسے اس کتاب میں ٹیوشن کو لے کر بھی ایک افسا نہ ہے جس کا نام’کشمکش‘ ہے، وہ بھی مجھے بے حد پسند ہے۔ اس افسانہ کا ایک واقعہ بھی ہے کہ جمشید پور سے سورن ریکھا نام کی پہاڑی ندی گزرتی ہے۔ گرمیوںمیں پانی کم ہونے کے سبب کالی کالی چٹانیں ابھر آتی ہیں میں اس ندی کے اوپر بنے پل سے اکثر گزرتا تھا۔ اس زمانے میں جب میں یہ کہانی لکھ رہا تھا تو میرے دماغ میں ایک ڈائلاگ آیا جو ابھی تک اس افسانے میں موجود ہے۔

’’میری حالت ندی کے سینے میں سر چھپائے ان چٹانوں جیسی ہوگئی تھی جو پانی کم ہونے پر بے نقاب اور ننگی ہوجاتی ہیں۔‘‘

اس مجمو عے کے دو تین افسانچے اور بھی مجھے بہت پسند ہیں۔ اشتہار،آٹوگراف،مجھے معاف کرنا رام سنگھ وغیرہ

ا س:آپ کا دوسرا افسانوی مجمو عہ’لینڈرا‘ کے تین ایڈیشن آ چکے ہیں۔ اس مجمو عے کا نام کیا آپ کو عجیب نہیں لگتا۔ قارئین تو اس کا نام سن کرسوچ میں پڑ جاتے ہیںتو کیا آپ بھی کچھ ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔

ا ج:نہیں مجھے ایسا نہیں لگتا۔ دراصل لینڈرا لفظ بلند شہرکے دیہات میں بولاجاتاہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اردو کے لیے یہ لفظ نیا ہے۔اس عنوان سے جو کہانی مجموعے کا سر نامہ ہے وہ میرے اپنے گائوں دھنورا کی حقیقی کہانی ہے۔ ہمارے گائوں میں یعقوب نام کا ایک نوجوان تھا۔ اس کولوگ لینڈرا کہتے تھے۔ میں نے اسی کو لے کر یہ کہانی تخلیق کی ہے۔ اس نام میں جو تجسس ہے اس نے اس افسانوی مجموعے کو بے حد مقبول کیا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ لینڈرا میری اب تک کی سب سے اچھی کہانی ہے۔

ا س:سر آپ کی کہانی’عید گاہ سے واپسی‘ کو منشی پریم چند کی کہانی’عید گاہ‘ سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے اور لوگ آپ کو پریم چند کی وراثت کا امین ماننے لگے ہیں،تو کیا آپ کو بھی ایسا محسوس ہو تاہے کہ آپ پریم چند کی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

ا ج:میرے تیسرے افسانوی مجمو عے کا نام’عید گاہ سے واپسی‘ ہے۔یہ ضرور ہے کہ یہ نام میںنے پریم چند کی ’عید گاہ‘کو سامنے رکھ کر قائم کیا۔لیکن پریم چند کی عید گاہ اور میری کہانی ’عید گاہ سے واپسی‘ میں کا فی فرق ہے۔ میری کہانی میں پریم چند کے ننھے معصوم کردار حامد کا ایکسٹینشن ہے۔ اصل میں پریم چند کا ننھا حامد عید گاہ سے اپنی دادی کے لیے چمٹا خرید کر لاتاہے جب کہ میری کہانی میں وہی حامد اپنے غیر مسلم پڑوسی کے لیے پیتل کی لٹیا لے کر آتا ہے۔

          پریم چند کی ’عید گاہ‘ شہر اور قصبہ کی کہانی ہے جب کہ میں نے ’عید گاہ سے واپسی‘ دیہات کے پس منظر میں لکھی ہے، میری ایک درجن کہانیاں دیہات کے پس منظر میں ہیںجن میں گا ئوں دیہات کی بو لی کو میں نے سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ میری کہانیوں کا غالب رخ دیہات کی طرف ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ مجھ میںیا میری کہانیوں میں پریم چند کو تلاشتے ہیں۔ حقیقت میں پریم چند ایک بڑے کہانی کار تھے میں تو ان کے پاسنگ بھی نہیں ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں نے کئی کہانیوں کے نام پریم چند کی کہانیوں اور ناولوں پر رکھے ہیں۔ مثلاً عید گاہ سے واپسی، گئودان سے پہلے، بڑے گھر کی چھوٹی بیٹی وغیرہ۔ اسی لیے بہت سے لوگ میری کہانیوں میں پریم چند کو تلاشتے ہیں۔

ا س:آپ کا پہلا ناول’دھنورا‘2022 میں منظر عام پر آیا۔ یہ ناول دیہی پس منظر اورگائوں دیہات کے مسائل  پر لکھا گیا ناول ہے۔آپ نے پریم چند کی روایت کو ناول کے ذریعے بھی آگے بڑھا نے کی کوشش کی ہے۔ گائوں دیہات میں بولی جانے والی زبان کو پیش کرنے میں آپ کو بڑی دشواری پیش آئی ہو گی۔ ذرا اس دشواری کو ہمارے ساتھ بھی ساجھا کیجیے۔

ا ج:آپ کا قیاس بالکل ٹھیک ہے میں نے جب بیماری کے دوران ناول دھنو را کی تخلیق کی تو اپنے گائوں کی زندگی کو پیش کیا۔ دھنو را اصل میں بلندشہر کا ایسا گائوں ہے جس میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی موجود ہے اور وہاں کبھی بھی فساد نہیں ہوا۔ میں نے اپنے ناول میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ گائوں والوںکی زبان مجھے چونکہ اچھی طرح آتی ہے۔ اس لیے میں نے اس ناول میں بھی کرداروں کے ذریعے بولی جانے والی گائوں کی بولی کا استعمال کیا۔کئی بار بہت سارے لفظ اردو میں لکھنے میں مشکل پیش آئی۔لیکن میں نے اس پر فتح پائی۔

ا س:میں نے آپ کا ناول’دھنورا‘ پڑھاہے جس کا کوئی مرکزی کردار نہیں بلکہ ناول ہی مرکزی کردار کے روپ میں سامنے آ تا ہے تو ایسے ناول بہت کم لکھے گئے ہیں۔ آپ نے اس طرح کا ناول لکھنے کی جانب خیال کیوں کیا؟

ا ج:آپ نے ٹھیک کہا۔ میں نے اس ناول میں دو تجربے کیے۔ ایک تو اس ناول میں کوئی مرکزی کردار نہیں۔ کردارآ تے ہیں اور اپنا رول ادا کر کے چلے جاتے ہیں۔ گائوںمیں ہی ان کرداروںکا Stageہے تو کئی بار ایسا لگتاہے کہ گائوں ہی مرکزی کردار ہے۔ میں نے دوسرا تجربہ اس ناول میں یہ کیا کہ ناول کوکولاژ تکنیک میں لکھا۔یعنی ہر باب اپنے آپ میں مکمل بھی ہے اور اگلے باب سے منسلک بھی، یہ دو نوں تجربے اردو ناول میں ایک ساتھ شا ید پہلی بار ہوئے ہیں۔

ا س:ناول’دھنورا‘ کی کہانی کو میں نے بخو بی سمجھا ہے۔ یہ گائوں کی زندگی کے پیچ و خم کی کہانی ہے تو اس سوانحی ناول میں آ پ نے بڑی حدتک تخلیقی زبان کا استعمال کیا ہے۔ ایسا آپ کس طرح کرلیتے ہیں جب کہ آپ نے شہروں میں زیادہ وقت گزارا ہے۔

ا ج:یہ ٹھیک ہے کہ میرا زیادہ تر وقت شہر جمشیدپور میں گزرا۔ میںنے زندگی کے کچھ سال دہلی میں بھی گزارے اور اب میں کافی زمانے سے میرٹھ میں ہوں۔لیکن میرے بچپن کاکافی زمانہ اپنے گائوں میں گزرا ہے اور جمشید پور یا دہلی میں رہتے ہوئے بھی میں گائوں آ تا جاتا رہا، در اصل میرے والدین دھنورامیں ہی قیام پذیر تھے۔ اسی لیے میری کہانیوں اور ناول میں گائوں، دیہات کی عکاسی ملتی ہے، گائوں دیہات کے لوگوں کے جذبات ان کی زندگی، ان کے مسائل سے بھی اچھی طرح واقف ہوں۔

ا س:عصر حاضر میں جتنا کام ناول اور افسانوں پر ہو رہا ہے، داستان پر کم نظر آرہا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

ا ج:اصل میں اکیسویں صدی میں بہت سی اصناف کا گراف اونچا ہوا ہے۔ خاص کر ناول اور افسا نے بہت لکھے جارہے ہیں۔ان کے مقابلے داستان نا کے برابر لکھی جارہی ہیں۔ایک تو یہ وجہ بھی ہے کہ اب لوگوں کے پاس طویل داستانیں پڑھنے کا وقت نہیں ہے، دوسرے ہمارے یہاں داستان لکھنے والوں کی بھی کمی ہو گئی ہے۔ تیسرے داستان نے اپنی بقا کے لیے Stageکا رخ کیاہے۔ اب داستانیں ڈرامے کی طرحStageپر پیش ہونے لگی ہیں تو اب داستانیں پڑھنے سے زیادہ دیکھنے کی چیز ہوگئی ہیں۔ دوسری طرف بعض زبانوں کی فلمیں اور ٹی وی سیریل داستانوں جیسے ہی ہوتے ہیں،خاص کر ہندوستان میں بننے والے طویل ٹی وی سیریلز داستان جیسا طلسم پیش کرتے ہیں تو یہ کہنا کہ داستانیں بالکل ختم ہوگئی ہیں غلط ہے، ہاں داستانوںکا رنگ بدل چکاہے اور وہ اب پڑھنے سے زیادہ دیکھنے کی چیز ہو گئی ہیں۔

ا س:اردو ادب میں آپ کی خدمات بہت ہیں۔ آپ نے اردو کو اوڑھنا، بچھونا بنا رکھا ہے تو کیا آپ کی طرح آپ کے گھر یا خاندان میں بھی کوئی ایسا شخص ہے جو اردو کی خدمات میں لگاہوا ہو۔

ا ج:مجھے نہیں پتہ کہ میں اردو کی خدمت کر پا رہا ہوں یا نہیں،میری طرح بہت سارے لوگ ہیں جو ناول، افسانے، تنقید، تحقیق اور دیگر چیزیں تخلیق کررہے ہیں۔ اگر یہ سب اردو کی خدمت ہے تو ہو سکتا ہے میرے ذریعے بھی اردو کی خدمت ہو رہی ہو۔

ہمارے پو رے خاندان میںمجھ سے پہلے کسی کا تعلق کاغذ اور قلم سے نہیں تھا۔ میرے بعد ہو سکتا ہے کہ میرے خاندان کا کوئی فرد میری میراث کو سنبھا لے۔ ویسے یہ جراثیم تھوڑے بہت میری بیٹی مدیحہ اسلم میں ملتے ہیں۔ اس نے دسویں کلاس میں ایک افسانہ لکھا تھا جو’ کتاب نما‘ دہلی سے شائع ہوا تھا۔

ا س: بیسویں صدی میں خواتین ناول نگاروں نے ناول کے میدان میں بڑے بڑے کار نامے انجام دیے جیسے عصمت چغتائی، خالدہ حسین، بانو قدسیہ،ترنم ریاض، قرۃ العین حیدر وغیرہ نے اچھے ناول لکھے ہیں۔ اب یعنی اکیسویں صدی میں ایسا محسوس ہو رہاہے کہ خواتین ناول نگاروں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ ایسا کیوں؟

ا ج:بیسویں صدی میں ناول کے تعلق سے جو ماحول تھا وہ اکیسویں صدی میں کچھ کم ضرور ہوا ہے۔ کیونکہ اکیسویں صدی میں اردو بولنے پڑھنے والوں کی تعداد بھی بہت کم ہوئی ہے۔ ہماری نئی نسل ٹی وی اور ویڈیو کی طرف مائل ہوتی جا رہی ہے۔ ان سب کے باوجود ہمارے ہاں کئی خواتین اکیسویں صدی میں اچھے ناول لکھ رہی ہیں۔ بالکل نئی نسل کی بات کریں تو غزالہ قمر اعجاز، سفینہ بیگم، حمیرا عالیہ اچھے ناول لکھ رہی ہیں۔

ا س:فکشن تنقید کے تعلق سے ہندوستان میں زیادہ لکھا جارہا ہے یا پاکستان میں زیادہ تنقیدی کام ہو رہا ہے؟

ا ج:ہندوستان اور پاکستان میں فکشن تنقید پرکا فی کام ہورہاہے۔ دونوں ملکوںکا موازنہ کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں شمس الحق عثمانی، علی احمد فاطمی، قدوس جاوید، اعجاز علی ارشد، ارتضیٰ کریم، صغیر افرا ہیم، احمد صغیر وغیرہ نے اردو فکشن تنقید کو سنبھال رکھا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں مرزا حامد بیگ، انوار احمد،حمید شاہد، ناصر عباس نیر، رابع الربا، اے خیام، نجیبہ عارف، عرفان عالم، وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

ا س:نئی صدی میں آپ کی نظر میں کون سے نئے فکشن ناقد، فکشن تنقید کو آگے بڑھانے کا کام انجام دے رہے ہیں۔

ا ج:موجودہ وقت میں ہندوستان کی سطح پر نئے فکشن ناقدین کی بات کی جائے تو غالب نشتر،ریاض توحیدی، ارشاد سیانوی،شہناز رحمن، سفینہ بیگم، مسرت جہاں، تسنیم، فاطمہ، مکمل حسین، نہال افروز، اسود گوہر دائم انصاری، تسنیم فاطمہ، شبستاں آس محمد وغیرہ فکشن تنقید کے میدان میں ابھرکر سامنے آرہے ہیں جوفکشن تنقیدکو آگے بڑھانے کا کام انجام دے رہے ہیں۔

ا س:آپ نے معاصر فکشن پر خوب لکھا ہے۔ ناول اور افسانے بھی آپ کے قلم سے لکھے جا رہے ہیں مگر فکشن میں آپ کی دلچسپی ناول تنقید میں زیادہ ہے یا افسا نے کی تنقید میں؟

ا ج:فکشن تنقید مجھے بہت پسند ہے۔یوں بھی نارنگ صاحب کے مطابق یہ صدی فکشن کی صدی ہے۔ناول، افسانے، افسانچے وغیرہ خاصی تعداد میں شا ئع ہو رہے ہیں۔ ایک بار شمس الرحمن فاروقی نے کہا تھا کہ نئی نسل کو اپنا ناقد خود پیدا کرنا چا ہیے۔ لہٰذا اس کے بعد بے شمار ناقد سامنے آ ئے جنھوںنے فکشن کے ساتھ شاعری کو بھی اپنی تنقید کا مو ضوع بنایا۔ میں نے بھی اپنی سمجھ کے مطابق فکشن تنقید کو اپنا میدان بنایا اور افسانے، ناول، ناولٹ، افسانچہ اور داستان وغیرہ پر تنقید لکھنے کی کوشش کی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں نے اب تک جو فکشن تنقید لکھی ہے اس میں افسانے کی تنقید زیادہ ہے۔                                  

ا س:آپ کے معاصرین میں ناول لکھنے والوں کی تعداد کافی ہے جب کہ آپ کا صرف ایک ہی ناول ابھی تک منظر عام پر آ یا ہے جب کہ فکشن تنقید پر بہت سی کتابیں منظر عام پرآ کر مقبول ہو چکی ہیں تو ناول کے میدان میں ابھی تک صرف ایک ناول آنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

ا ج:مجھے افسانے لکھتے ہوئے تقریباً43برس ہوگئے لیکن میں نے کبھی ناول لکھنے کی ہمت نہیں کی۔ہاں دو تین بار میں نے بہت سے ناولوں کو بیس پچیس صفحات لکھ کرچھوڑ دیا۔ بعد میں،میں نے ایک مکمل ناول ’دھنورا‘ لکھا اور اب ارادہ ہے کہ مزید ناول لکھے جائیں۔ 

ا س:آپ کی کتاب’اردو فکشن کے پانچ رنگ‘ کافی مقبول ہوئی اور سنا ہے کہ یہ کتاب پاکستان سے بھی شائع ہوچکی ہے تو اس کتاب میں ایسی کیا خاصیت ہے جو دونوں ممالک میں اس کو شہرت ملی؟

ا ج:واقعی ’اردو فکشن کے پانچ رنگ‘ نے مجھے کافی شہرت بخشی۔تقریبا800؍صفحات کی اس کتاب میں طالب علموں کے لیے کافی مواد ہے۔اس کتاب میں داستان، ناول، ناولٹ، افسانہ اور افسانچے کی صنف، روایت اور ارتقا  پر میں نے خاصی بحث کی ہے ساتھ ہی کئی داستانوں، ناولوں، ناولٹس، افسانوں اور افسانچوں کے تجزیے بھی کتاب میں شامل ہیں۔ طالب علموں کو فکشن سے متعلق اچھی خاصی معلومات اس کتاب سے ملتی ہے،شایداس لیے زیادہ مقبول ہو رہی ہے۔

ا س:آخرمیں نئی نسل کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ا ج:1970 کی نسل یہ مان رہی تھی کہ اس کے بعد اردو ادب میں زوال ہی زوال ہو گا اور مختلف اصناف میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہو گا۔لیکن ہر دس سال کے بعد ایک نئی نسل سامنے آتی رہی جس نے ادب کی بہت سی اصناف میں اچھی طبع آزمائی کی۔ موجودہ نسل کو میرا پیغام یہی ہے کہ آپ سب مل کر اردو کے فروغ میں حصہ لیں تاکہ اردو کی زمینی سطح پر آبیاری ہوسکے۔

Irshad Siyanvi

Urdu Deptt. CCSU

Meerut- 253001 (UP)

Mob: 9759238472

Email: irshadali223234@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مولانا رومی کی جمالیات اور شکیل الرحمن،مضمون نگار: امانت اللہ

  اردو دنیا،جون 2025 اردو ادب کی دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے علم، فن اور فہم کی بنیاد پر ایک عہد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پروفیسر ش...