29/12/25

کوکن کے مہر: مہر مہسلائی کی شاعری،مضمون نگار: محمد دانش غنی

 اردو دنیا،اگست 2025

خطۂ کوکن کی مشہور، فعال، کارگر اور تجربہ کار ادبی اور تعلیمی ہستیوں میں مہر مہسلائی ایک ایسی بزرگ اور قابلِ تعظیم شخصیت ہیں جن کی ذاتِ گرامی سے فروغِ زبان و ادب اور بیداریِ تعلیم کے مشن کو تقویت ملی۔ ان کا میدانِ عمل اگرچہ ضلع رائے گڑھ رہا ہے لیکن یہاں انھوں نے جن تعلیمی اور ادبی امور کو سر انجام دیا ہے اس کے خوشگوار اثرات سارے کوکن پر مرتب ہوئے ہیں۔ اپنی اسی ہمہ گیر افادیت کی بدولت وہ ’آفتابِ کوکن ‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔

سید محمد صدیق قادری سے مہر مہسلائی بننے اور اس نام کو معتبر بنانے میں انھیں ایک عمر لگی۔ تعلیم یافتہ خاندان اور علم و ادب کے گہوارے میں تربیت، اپنے عہد کے بہترین اساتذہ سے حصولِ علم اور سب سے بڑی چیز طبیعت میں موجزن مسابقت کا جذبہ اور ساتھ ہی موافق حالات، یہ سب وہ عناصر تھے جنھوں نے مہسلہ سے اٹھے ہوئے اس فرد کو خطۂ کوکن کی ایک ممتاز ادبی اور تعلیمی شخصیت بنا دیا۔ سرکاری ملازمت انھیں ایسے شعبوں میں لے گئی جہاں ان کی تنظیمی صلاحیتیں خوب خوب نکھریں اور یہی نکھار انجمن اسلام جنجیرہ مروڈ اور دیگر ماتحت اداروں کے لیے بھی تب و تاب ثابت ہوا۔ مہر صاحب نے اپنے علم، تجربے، سرکاری رعب و دبدبہ، اثر و رسوخ نیز شہرت و مقبولیت سے بھی اپنے ماتحت اسکولوں کو بنائے رکھنے اور ان میں زندگی کی نئی روح پھونکنے میں بڑا کام لیا۔ انھوں نے تعلیمی بیداری کی فضا بنائی اور بیرونِ ملک جا کر بھی کوکن کی تعلیمی فضا کو نکھارنے اورسنوارنے کی سعیِ جمیل کرتے رہے۔

مہر صاحب کا پورا نام سید محمد صدیق سید ابراہیم قادری تھا۔ وہ ضلع رائے گڑھ کی ایک تحصیل مہسلہ میں 26 جنوری1920 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید ابراہیم قادری ریاستِ جنجیرہ کے نامور تاجر تھے۔ ان کی سرپرستی میں ہی مہر صاحب کی ابتدائی تعلیم مہسلہ میں ہوئی۔ اسکول کی درسی تعلیم کے علاوہ ان کے دادا سید عبداللہ قادری اور نانا سید امیر الدین سید علی قادری کے بھائی سید کمال الدین سید علی قادری سے اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ 1932 میں ثانوی تعلیم کے لیے مروڈ کی سرسید احمد خاں ہائی اسکول میں انھیں داخل کرایا گیا جہاں انھیں مولانا عبدالشکور کوکاٹے جیسے شفیق استاد ملے جن کے سایۂ عاطفت میں مہر صاحب میں شعر گوئی کا جذبہ پیدا ہوا۔ مولانا خود بھی ایک اچھے شاعر تھے۔ ان کا لکھا ہوا قومی ترانہ اور دعائیہ نظمیں آج بھی مروڈ جنجیرہ کی اسکولوں میں  شوق کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔  مولانا نے ان کا تخلص مہر تجویز کیا۔      

1937میں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد مہر صاحب نے اسماعیل یوسف کالج، جوگیشوری میں داخلہ لیا جہاں پرنسپل ڈاکڑمحمد بذل الرحمن، سید نجیب اشرف ندوی اور پروفیسر محمد ابراہیم ڈار کی شاگردی نصیب ہوئی جن کی پدرانہ سرپرستی اور رہنمائی نے مہر صاحب کے ادبی ذوق کو پروان چڑھایا۔ 1941 میں انھوں نے بی اے کا امتحان اول درجے میں پاس کیا۔ انھیں دنوں ان کے والد کا انتقال ہوگیا جس سے ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا اور وہ ’ انجمن اسلام آگبوٹ والا میں مڈل اسکول، بمبئی ‘ میں ٹیچر کی نوکری کرنے لگے۔ تقریباً نو مہینے درس و تدریس کے پیشے سے منسلک رہنے کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہوئے اور 15 جون 1942 کو سیکریٹریٹ میں ملازمت ملی۔ سرکاری ملازمت انھیں اونچے اونچے عہدے پر لے گئی جہاں وہ اسسٹنٹ سیکریٹری، انڈر سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری، ڈپٹی ڈائریکٹر آف ٹیکنیکل ایجوکیشن، ڈائریکٹر آف سول سپلائز، کنڑولر آف سمینٹ، کنٹرولر آف راشننگ وغیرہ عہدوں پر فائز رہ کر 31 جنوری 1978 کو جوائنٹ سیکریٹری کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعدانھوں نے خود کو سماج کے لیے وقف کردیا اور سماجی کام کرتے رہے۔ کئی اداروں کو قائم کیا۔ کئی انجمنوں کی سرپرستی کی اور کئی تنظیموں میں سرگرمِ عمل بھی رہے۔ ان کی سماجی خدمات اور شعری کاوشوں کے پیشِ نظر اہلیانِ کوکن نے انھیں ’ آفتابِ کوکن ‘ کے خطاب سے نوازا۔

مہر صاحب درویش صفت انسان تھے۔ اپنی علمی اور تعلیمی قابلیت سے اونچے اونچے عہدوں پر فائز رہے مگر انکساری اور خاک نشینی ان کا شیوہ رہا۔ انھیں انگریزی اور مراٹھی زبانوں پر عبور تھا۔ عربی اور فارسی پر بھی خاطر خواہ دسترس حاصل تھی مگر اردو سے والہانہ عشق تھا۔ اردو کے فروغ اور ترویج کے لیے زندگی بھر کوشاں رہے۔ انجمن اسلام جنجیرہ سے انھیں قلبی لگائو تھا۔ وہ ایک عرصے تک انجمن کے سالانہ اجلاس کے لیے ایک طویل نظم لکھتے رہے۔ 1943 میں ایک ایسی ہی نظم ’ شجرۂ انجمن اسلام‘ کتابچہ کی صورت میں شایع ہوئی جس میں نہ صرف انجمن اسلام کی مکمل تاریخ ہے بلکہ بانیانِ انجمن، کارکنانِ انجمن اور 1942 تک کے فیض یافتگانِ انجمن کا ذکر شامل ہے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’نزہتِ دل‘1964 میں شائع ہوا تھا۔20 ستمبر 2004 کو ان کی رحلت سے کوکن کا عصری ادب اور اردو شاعری ایک مخلص و منفرد فنکار سے محروم ہوگئی۔

جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ مولانامحمد عبدالشکور کوکاٹے صاحب نے مہر صاحب کے لیے مہر تخلص تجویز کیا تھا اور اسی نئے تخلص کے ساتھ مہر صاحب نے ایک قومی نظم کہی جسے ان کے اساتذہ اور بزرگوں نے خوب سراہا اور ان کی ہمت افزائی بھی کی۔ یہ واقعہ 1935 کا ہے جب ان کی عمر صرف پندرہ سال کی تھی۔ 1937 سے ممبئی کی مستقل سکونت نے مہر صاحب کو متعدد اہلِ علم و دانش سے فیضیابی کے مواقع فراہم کیے۔ وہ حضرت مولانا قاضی اطہر مبارکپوری، حضرت ادیب مالیگانوی، حضرت پرتو لکھنوی سے وقتاً وقتاً مشورے کرتے رہے۔ یہ وہ دور تھا جب برِ صغیر میں اردو شاعری کے آفتاب و ماہتاب جگمگارہے تھے۔ اس وقت ترقی پسند ادب اور رومانوی تحریک سے وابستہ فنکاروں کا طوطی بول رہا تھا۔ اردو نظم نئی انگڑائیاں لے رہی تھی لیکن شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی شاعری اپنی فکری اساس کے ساتھ فضا پر چھائی ہوئی تھی۔ مہر صاحب نے بھی اپنے لیے یہی راستہ منتخب کیا          ؎

وہ بھی جفا میں ماہر، میں وفا میں ماہر

دوزخ میں جی رہا ہوں جنت بسا بسا کے

کانٹوں میں پھول پائے، پھولوں کے ساتھ کانٹے

کوئی چلے کہاں تک دامن بچا بچا کے

——

ایک آتا ہے ایک جاتا ہے

اس کو کہتے ہیں گردشِ ایام

تشنگی کا مرے علاج نہیں

جامِ جم ہو کہ ساغرِ خیام

ظرف اپنا مزاج اپنا ہے

غم میں آرام عیش میں آلام

——

یہ تری نظر کا ہے معجزہ

کہ آپ اپنے نظیر ہوں

مری زندگی سے معاہدہ

میں وفا کا اپنی اسیر ہوں

یہ مرا کمالِ عروج ہے

کہ نظر میں اپنی حقیر ہوں

——

اللہ رے پائے ناز کی نازک خرامیاں

محشر بپا ہو اور کسی کو خبر نہ ہو

باقی تہیں ہمیشہ دعائوں کی لذتیں

یا رب مری دعا ہے دعا میں اثر نہ ہو

——

زندگی کی لطافتوں کی جھلک

میں نے دیکھی نگاہِ قاتل میں

——

ان کی محفل میں مرا دل کھو گیا

یہ بھی ہونا چاہیے تھا ہوگیا

——

ہم اپنی ہر اک بھول پہ اس واسطے خوش ہیں

ہر بھول سے وابستہ رہی اک حسین یاد

مندرجہ بالا اشعار ’ نزہتِ دل ‘ سے لیے گئے ہیں جو حمد، نعت، غزلیں اور نظموں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں کچھ نظمیں ایسی ہیں جن کا موضوع تاریخِ کوکن ہے۔ مثال کے طور پر ’شجرۂ انجمن اسلام‘، ’ بناتِ مادرِ حبشاں‘، ’لیل و نہار‘، ’بی انجمن میکے میں‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ نظمیں سلاست، فصاحت اور اثر آفرینی سے مزین ہیں اور طوالت کے باوجود طبیعت پر گراں نہیں گزرتیں۔  ان کے کلام میں جو تازگیِ فکر اور عصری حسیت نمایاں ہے وہ انھیں خطۂ کوکن کا ایک ممتاز اور معتبر شاعر ثابت کرتی ہیں۔ ان کی لفظیات اور اشارات و استعارات انھیں جدید شاعری سے قریب کرتے ہیں اور یہی وہ پیرایۂ اظہار ہے جو مذہبی حصار بندی کے باوجود انھیں ایک کھرا شاعر ٹھہراتا ہے۔

اردو میں ترقی پسند ادب کے فروغ کے زمانے میں مہر صاحب کی شاعری بھی اگرچہ بامقصد شاعری ہی تھی۔ تاہم انھوں نے جاری و ساری فلسفیانہ موشگافیوں کو اپنے کلام میں راہ نہیں دی۔ مغربی افکار و نظریات ان کی نگاہ میں ریت کی دیوار تھے جن کا منہدم و مسمار ہوجانا یقینی لگتا تھا۔ان کی شاعری محض پند و نصائح کا روکھا پھیکا اظہار نہیں ہے۔ ان کی نظمیں ہوں یا غزلیہ اشعار، وہ شعری حسن اور شعریت سے عاری نہیں ہیں۔ اسی سے ان کا ایک باکمال اور بھر پور شاعر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ مولانا قاضی اطہر مبارکپوری کے مطابق :

 ’’ نزہتِ دل، صحت مند ادب کا بہترین ترجمان ہے اور اس میں متانت، سنجیدگی، وقار اور عزت نفس کی بڑی قدریں ہیں۔ اس میں صرف زبان ہی کا ادب نہیں ہے بلکہ روح کا ادب بھی ساتھ ساتھ ہے اور ناظرین کو اس میں ادبِ لفظی کی لذت کے ساتھ ادبِ نفسی کا بھی سکون ملے گا۔ اس اعتبار سے یہ مجموعہ بڑا دقیع اور قابلِ قدر ہے۔ ‘‘ ( نزہتِ دل، ص 10 )

چنانچہ مہر صاحب کی شاعری میں جا بجا تاثر کی بجلیاں کوندتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کا پیرایۂ اظہار بڑا ہی دلنشیں اور دلپذیر ہے۔ اپنی ماضی پسندی کے باوصف انھوں نے برتے ہوئے لفظوں کو نئی تاب و توانائی عطا کی۔ نئے اشارات اور مخصوص علامتوں کی صف بندی سے اشعار میں عصری حسیت اور نئی معنویت کو رچایا۔ داخلی اور خارجی رنگوں سے چمکتے دمکتے ان کے اشعار ان کے اخلاص و اظہار اور فنی کمال کا آئینہ ہیں۔

 

Dr. Mohd. Danish Gani

Dept. of Urdu

Gogate Jogalekar College

Ratnagiri - 415 612

Mobile. No. 7558600893

danish_gani@yahoo.co.in


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو نثر میں ’ مضمون نما تحریریں ‘،مضمون نگار: سیدہ جعفر

  اردو دنیا،اگست 2025 اسّے   Essay یا مضمون کی سب سے ابتدائی اور قدیم صورتیں امثال اور کہاوتیں ہیں۔ 1جب انسانوں نے اجتماعی زندگی بسر کرنی شر...