فضلِ
حق آزاد عظیم آبادی کا ایک معروف شعر ہے
؎
یہ
بستی اب بھی بازارِ ختن ہے باکمالوں سے
غزال
آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے
یہ
شعر کس پس منظر میں کہا گیا اور اس وقت شاعر کے ذہن میں دبستانِ عظیم آباد کے کون
کون سے باکمال فنکار تھے؟ یہ ایک تحقیق طلب امر ہے۔ لیکن اس بات سے کون انکار
کرسکتا ہے کہ عظیم آباد اسکول نے ہر عہد میں ایسے ایسے گوہر آبدار پیدا کیے، جن
کی عظمت و رفعت کا ہر زمانے نے اعتراف کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
رمز
عظیم آبادی بھی انھیں باکمالوں کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہیں۔ آج وہ بطور شاعر عظیم
آباد کیا، پوری اردو دنیا میں معروف اور مقبول ہیں۔ ان کے حالاتِ زندگی پر نظر
ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے گھر میں پیدا ہوئے جہاں عسرت و ناداری پہلے
سے اپنا پر پَسارے سو رہی تھی۔ گھر میں دو جون کی روٹی جمع کرنا کٹھن تھا۔ ایسے میں
بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ رمز کے والدین انھیں اسکول اور کالج کی تعلیم سے آراستہ
کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کوئی باضابطہ تعلیم حاصل نہ کرسکے اور جب وہ کچھ بڑے
ہوئے تو ان پر ایک اور بڑی افتاد آپڑی۔ یعنی جو عمر پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کودنے
کی تھی اس عمر میں انھیں تلاشِ معاش کے متعدد کرب انگیز مرحلوں سے گزرنا پڑا اور
اِس کی انتہااس وقت ہوگئی جب ایک بڑے فنکار کو تین پہیوں والی سواری کھینچنے پر
مجبور ہونا پڑا، ہوٹلوں میں مزدوری کرکے زندگی گزارنی پڑی۔ اردو ادب کی تاریخ میں
غریب اور مفلوک الحال فنکاروں کی بہت سی مثالیں مِل جاتی ہیں، مزدور اور محنت کش
بھی مل جاتے ہیں۔ لیکن رمز جیسا کوئی نہیں ملتا، جس نے زندگی کی صعوبتوں اور مصیبتوں
سے مقابلہ کرتے ہوے خود کو اس قدر بلند حوصلہ رکھا۔ جس نے اپنی ذاتی کوشش سے ادب کی
مختلف اصناف کو نہ صرف پڑھا، پرکھا، بلکہ اردو سے والہانہ اور بے لوث محبت کے سبب
اخیر عمر تک اسے ذہن و دل میں سجائے رکھا۔
یہاںایک
کمال کی بات یہ ہے کہ قدرت نے جہاں ایک طرف رمز کو سخت آزمائشوں اور مشکلات کے
حصار میں رکھا تو دوسری طرف انھیں ایک بیش بہا تحفے سے بھی نوازا۔ یعنی قدرت نے
چپکے سے ان کے اندر ایک بڑا فنکار بھی رکھ دیا۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ اپنی تمام
محرومیوں، تمام ناکامیوں پر حاوی ہوگیا۔ اور وہ دیکھتے دیکھتے آسمانِ ادب کا ایک
ایسا ستارہ بن گیا جس کی ضَو سے اچھے اچھوں کی نگاہیں خیرہ ہوگئیں۔
رمز
عظیم آبادی کو ان کے عہد نے اہمیت نہیں دی، مگر جب رفتہ رفتہ ادب کے بڑے ایوانوں
تک ان کا نام پہنچنے لگا تو وہ ثقہ حضرات بھی ان کی طرف متوجہ ہوئے جو انھیں ادنیٰ
درجے کا شاعر تصور کیے بیٹھے تھے۔ وہ چونکہ ایک فطری فنکار تھے، اس لیے ان کی طبیعت
حددرجہ موزوں تھی۔ وہ خوش گو کے ساتھ ساتھ زودگو بھی تھے۔ انھوں نے ابتدائی زمانے
میں سیکڑوں رمضانی قصیدے لکھے، قوالوں کے لیے کلام تیار کیے، خانقاہوں، درگاہوں
اور دیگردینی مجلسوں کے لیے حمد، نعت اور مناقب کی تخلیق بھی کی۔ لیکن آگے چل کر
ان کی اصل شناخت ایک نظم گو شاعر کے طور پر ابھری اور وہ کچھ ہی عرصے کے بعد اپنی
بعض نظموں کے سبب شہرت و مقبولیت کی بلندی پر جاپہنچے۔ گوکہ رمز صاحب غزلیں بھی
خوب کہا کرتے تھے، ان کی غزلوں کے متعدد اشعار آج بھی مقبول ہیں اور ان کے حوالے
بھی ناقدین کی تحریروں میں اکثر آتے ہیں۔ مگر ان کا اصل میدان نظم ہی تھا اور
نظموں نے ہی رمز کو رمز عظیم آبادی بنایا۔
رمز
کا بڑا خاصہ یہ ہے کہ انھوں نے نظمیں ہوں یا غزلیں، حمد و نعت ہوں یا مناقب، قطعات
ہوں یا رباعیات، ہرجگہ اپنی مخصوص اور منفرد شناخت برقرار رکھی۔ انھوں نے اپنی
ذات، ملکی و بیرون ملکی حالات اور اپنے گرد و پیش کو خالص اپنے تجربات و مشاہدات کی
روشنی میں دیکھا، محسوس کیا اور براہِ راست انداز میں انھیں شعری قالب میں ڈھال دیا۔
دراصل رمز عوامی سروکار کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں بہت تہہ داری اور عمق کی تلاش عبث
ہے۔ وہ روایتی ابہام و اغلاق اور دوسرے غیر ضروری شعری تکلفات سے مبرّا ہیں۔ وہ اس
لیے کہ رمز جن امور کو اپنا موضوع بناتے ہیں، ان کے لیے مذکورہ تمام لوازمات بہت
لازمی نہیں۔ بلکہ وہ لوازمات اکثر ان کے موقف کی سہل اور سریع ترسیل و تفہیم کے لیے
مناسب نہیں جان پڑتے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی نظموں میں قصداً فلسفیانہ
اور دور اَزکار انداز و اسلوب سے اجتناب برتتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہی ان کی شہرت
و مقبولیت کا سب سے بڑا سبب ہے۔
رمز
عظیم آبادی کی نظموں کی بنیادی خصوصیات ان کی روانی اور برجستگی ہے۔ ربط و تسلسل
خیال کے ارتقا میں سب سے بڑے معاون ہوتے ہیں اور نظم کے اختتام پر ایک بھرپور
مجموعی تاثر چھوڑ نے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ رمز کو اس بنیادی وصف پر قدرت حاصل ہے۔
رمز کا اسلوب ایک سیل رواں کے مانند ہے۔ ان کے یہاں یہی فطری بہاؤ اپنے قارئین کو
اخیر تک اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔ وہ کسی قید و بند اور بندھے ٹکے اصول اور ضابطے
کے پابند نہیں۔ وہ کھلی فضا میں کھل کربات کرنے کی جرأت و فطرت رکھتے ہیں۔ اس ضمن
میں علیم اللہ حالی کا ایک مختصر اقتباس ملاحظہ کریں:
’’...
انھوں نے (رمز نے) شاعری کی سطح پر کبھی تکلف و تصنع اختیار
نہیں کیا۔ کبھی کسی امام کے پیچھے صف باندھ کر مقتدی رہنا پسند نہیں کیا۔ اپنے لیے
آزاد شعری فضا کا انتخاب کیا…۔‘‘
(رمز عظیم آبادی کا فنکارانہ مرتبہ- رمز عظیم آبادی: شخصیت
اور فن، ص:35)
رمز
کے اساتذہ کے طور پر نظر عظیم آبادی، ثاقب عظیم آبادی، زار عظیم آبادی اور پرویز
شاہدی کے نام آتے ہیں۔ مگر انھوں نے کسی کے رنگ کو کلیتاً نہیں اپنایا۔ وہ اگر کسی
استاد سے مرعوب بھی ہوئے تو محض تھوڑے وقفے کے لیے۔ اور پھر وہ اپنی نجی اور مخصوص
روش پر واپس آگئے۔
رمز
کے نظمیہ سرمایے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ان کی زیادہ تر نظمیں عوام و خواص
میں بہت مقبول ہوئیں۔ ان میں ’تاج، زمین اور عورت‘ وغیرہ سامنے کی مثالیں ہیں۔ یہ
نظمیں اپنے موضوع اور پیش کش کے اعتبار سے ان کا شناخت نامہ ہیں۔ انھوں نے اپنی
مشہور زمانہ نظم ’تاج‘ میں تاج کو محبت کی نشانی ضرور مانا، لیکن ساحر کی نظم
’تاج‘ سے بالکل علاحدہ انھوں نے مزدوروں کی اہمیت کو مقدم مانا ہے۔ ان کے مطابق
تاج محل بھلے ہی پیسے کے زور پر شاہ جہاں نے تعمیر کروایا، مگر اس پر سب سے پہلا
حق ان مزدوروں اور معماروں کا ہے جنھوں نے اپنا خون پسینہ بہا کر اسے تعمیر کیا۔
نظم کا ایک چھوٹا حصہ دیکھیں ــ؎
تاج
ہے محنت کشوں کی یاد گار
فکر
کی جنت مشقت کا وقار
کتنی
پیشانی کا در شاہ سوار
علم
و صنعت کا حسیں آئینہ دار
یہ
مرقع ہے کسی کے پیار کا
تاج
پر حق ہے مگر فنکار کا
رمز
کا پہلا مجموعہ ’نغمہ سنگ‘ 1988 میں بہار اردو اکیڈمی کے توسط سے شائع ہوا۔ اس
مجموعے کی نظموں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ابتدا تا آخر ایک تسلسل ہے وقت
اور زمانے کا، جو صاف طور پر ان کے مزاج اور ان کے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ پہلی
نظم ’چاند کو چھونے کا قصہ‘ اس کے بعد ’صبح تمنا‘ اور پھر ’اس عہد کا المیہ‘ تسلسل
کے ساتھ کسی شاعر کی فکر کا ارتقا بھی ہے اور ابتدا تا اخیر زندگی کا بتدریج بدلتا
ہوا منظر نامہ بھی ہے۔ ان کے علاوہ رومان سے حقیقت تک، زندگی، عورت، یقین، رقصِ حیات،
نیادور، مسیح و صلیب اور شام وطن جیسی نظمیں بھی ہیں۔ ’نغمہ سنگ‘ میں شامل ایک نظم
’کاغذ کا پھول‘ بھی ہے۔ یہ بہت ہی رواں، پرکشش اور فکر انگیز ہے۔ یہاں شاعر کی
جولانیٔ طبع شباب پر ہے۔ یہاں محبوب کی آرائش و زیبائش کو ایک بالکل نئے زاویے سے
پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ؎
میرا
موضوع سخن، میرے قلم کا جادو
تیری
زلفوں کی مہک تیرے بدن کی خوشبو
میرے
تخیل میں تا بندگئی عارض و لب
میرے
انفاس کی گرمی، تیرے چہرے کا جلال
عہد
ماضی کے دھند لکوںسے ابھری تصویر
میرے
احساس کی شوخی ترا وارفتہ خیال
اس
نظم کے تمام بند پڑھ جائیے۔ اخیر میں اندازہ ہوگا کہ شاعر اپنے محبوب کی وعدہ شکنی
سے نالاں ہے۔ محبوب غالیچوں پر چلنا پسند کرتا ہے۔ اسے آرائش و زیبائش سے بہت شغف
ہے۔ لیکن عاشق تو کانٹوں پر چلنا چاہتا ہے۔ہررنج و غم اور آزمائش سے گزرنا چاہتا
ہے۔ اس کے باوجود وہ محبوب کو فراموش نہیں کرتا۔
’شاخِ
زیتون‘ ان کا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔ اسے سید فیاض الرحمن اور معین کوثر نے ترتیب
دے کر ادبی مرکز پٹنہ کے زیر اہتمام 1995 میں شائع کرایا۔ اس میں شامل درجن بھر
نظموں کو پڑھیے۔ صاف اندازہ ہوگا کہ یہ نظمیں نہ صرف موضوعاتی سطح پر بلکہ فنی سطح
پر بھی اپنے مخصوص رنگ و آہنگ اور امتیاز کے ساتھ قارئین پر اثر انداز ہونے کی
بھر پور قوت رکھتی ہیں۔
رمز
عظیم آبادی کو اکثر اشتراکی سمجھ لیا جاتا ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ نہ مارکس کو
جانتے تھے اور نہ اینگلز کو۔ اور نہ ہی وہ جدلیاتی مادیت کے فلسفے سے واقف تھے۔ ان
کے یہاں سماجی نابرابری اور ظلم و استحصال کے خلاف ایک فطری آواز ہے، جس کی گھن
گرج اکثر نظموں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کلکتہ میں قیام کے دوران
معروف شاعر پرویزشاہدی کی شاگردی میں رہے اور ان کا رنگ بھی اختیار کیا۔ مگر وہ
اشتراکیت کے کل وقتی پیروکار نہیں بنے۔ بلکہ انھوں نے اس رجحان کے ساتھ ساتھ خدا کی
وحدانیت کی بھی شہادت پیش کی۔ اس کا بین ثبوت شاخِ زیتون میں شامل ان کی نظمیں
معراج، طلوع اسلام، رحمتِ جزو کل، جلوہ ہی جلوہ اور ’بعداز خدا بزرگ توئی‘ ہے۔ ان
نظموں کے متعلق پروفیسر عبدالمغنی نے لکھا ہے:
’’ظاہر
ہے یہ سب اسلامی موضوعات ہیں اور حمدیہ نعتیہ کلام کے نمونے۔ ان سے رمز کی اسلام
پسندی اور حب رسولؐ نمایاں ہے۔ یہ تخلیقات اس اعتبار سے بھی بلند ہیں، جس طرح ان کی
دیگر موضوعات پر نظمیں ہیں۔‘‘ (شاخ زیتون: رمز عظیم آبادی کی شاعری، ص:16)
مثبت
اور سچے جذبے کی ترجمانی شاعر کے یہاں اکثر و بیشتر مقامات پر مل جاتی ہے۔ آخری
بند دیکھیں ؎
جسے
سنبھال کے لایا ہے وقت کا آشوب
دعا
یہ ہے کہ نیا سال سوگوار نہ ہو
یہ
ساتھ لے کے چلے رنگ و نور کا تحفہ
خدا
کرے یہ کبھی دشمنِ بہار نہ ہو
بنے
سفیر یہ قوموں میں دوستی کے لیے
یہ
چارہ ساز ہو بیمار زندگی کے لیے
رمز
کے یہاں خواہ نظمیں ہوں، غزلیں ہوں یا رباعیات و قطعات ہر جگہ شد و مد کے ساتھ
نفرت و عصبیت کے خلاف مضبوط آواز سنائی دیتی ہے۔ شاخِ زیتون کی نظم’فرقہ پرستوں
سے‘ اس کی عمدہ مثال ہے ؎
بتاؤ
اے ہمارے سورماؤ!
چراغ
آندھی میں کیوں جلتا نہیں ہے
چھری
ہوتی ہے تیز اپنوں کی خاطر
مگر
غیروں پہ بس چلتا نہیں ہے
…
ذرا
سوچو یہ رشتہ ہے لہو کا
کہیں
دنیا میں اپنا چھوٹتا ہے
یہ
بات آخر سمجھتے کیوں نہیں ہو
کوئی
خود اپنے گھر کو لوٹتا ہے
رمز
کی نظموں کے غائر مطالعے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں بھلے ہی بہت
ابعاد اور تہہ داری نہیں، لیکن موضوعات کا تنوع بہت ہے اور اکثر و بیشتر موضوعات
قارئین کی ایک کثیر تعداد کے نزدیک بہت ہی قابل قدر ہیں۔ وہ زندگی کے ہر رنگ سے
واقف ہیں اور کمال خوبی کے ساتھ تمام رنگوں کو ذاتی اور خارجی سطح پر ابھارنے میں
حددرجہ کامیاب بھی ہیں۔ رمز کو قدرت نے غضب کا طبع موزوں عطا کیا تھا۔ ان کو فکر کی
وسعت، بلندی اور ذوق سلیم کا وصف بھی حاصل تھا، جس نے انھیں قبولیت عام کے مقام تک
پہنچایا۔ گزشتہ سطور میں عرض کیا گیا کہ رمز نے شاعری میں کسی کی تقلید نہیں کی
بلکہ اپنے موقف کے اظہار کے لیے خود اپنی راہ ہموار کی۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ
ان کے پاس جو کچھ تھا، ان کا اپنا تھا، ان کی کوششوں اور کاوشوں کا نتیجہ تھا، تو یہ
کوئی نامناسب بات نہیں ہوگی۔
Naseem Ahmad
Near Mirshikari Toli Masjid
Kali Bagh
Bettiah- 845438 (Bihar)
Mob.: 7011548240
ahmad.naseem7011@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں