29/12/25

اردو شاعری،مضمون نگار: چکبست

 اردو دنیا،اگست 2025

کسی استاد کا شعر ہے      ؎

اسیراے دوست تیرے عاشق و معشوق دونوں ہیں

گرفتار آہنی زنجیر کا یہ وہ طلائی کا

ہمارے عزیزان وطن نے جب غیر قوم کی اطاعت قبول کی تو انھیں بھی دوقسم کی زنجیریں پہننا پڑیں۔ فرماں روا قوم کے قانون کے پردے میں جو پابندیاں انھیں برداشت کرنا پڑیں انھیں لوہے کی زنجیر سمجھنا چاہیے۔ زبان و قلم کی کامل آزادی سے محروم رہنا، انتظام حکومت میں شریک نہ ہونا، قومی آرام و آسائش کے کافی ذریعوں کی فکر میں گرفتار رہنا، ان قانونی پابندیوں کا نتیجہ تھا۔ یہ ایسی گرفتاری تھی جو ہمارے اہل وطن ہمیشہ کم و بیش محسوس کرتے رہے اور اپنی قومی آزادی کے لیے دعا و فریاد کے نعرے بلند کیا کیے۔ پولیٹکل بحث و تحریک کے کارنامے ان لوہے کی زنجیروں سے آزاد ہونے کی کوشش کے افسانے ہیں۔ مگر ان ظاہری پابندیوں سے بہت زیادہ قابل عبرت خیالات کی غلامی تھی جس نے غیر قوم کی حکومت کا سکہ ہمارے دل و دماغ پر جاری کر دیا۔ ہمارے جذبات و خیالات مغربی تہذیب کے مصنوعی اور نمائشی رنگ میں گرفتار ہو گئے اور ہم اپنے قومی حفظ مراتب سے بے خبر ہو گئے۔ میں اس خیالات کی غلامی کے سلسلے کو سونے کی زنجیر کہوں گا جسے ہم نے خوشی سے پہن لیا اور اپنی گرفتاری پر ناز کرنے لگے۔

اس دماغی اور روحانی غلامی نے طبیعتوں کا رنگ کچھ ایسا پلٹ دیا کہ ہم حکمران قوم کے انداز معاشرت کی تقلید کو تہذیب و تربیت کا جو ہر سمجھنے لگے۔ قومی وقار کا سودا ہمارے سروں سے رخصت ہو گیا۔ اکثر صورتوں میں ہمیں اپنے اخلاق و مذہب سے بھی شرم آنے لگی۔ اس قومی بے خبری کے عالم میں ہمیں اپنے قدیم ادب یا لٹریچر سے بھی حجاب آنے لگا۔ انگریزی زبان میں کمال پیدا کرنا تعلیم و تربیت کا معیار ہو گیا۔ اردو یا ہندی کی زبان دانی کی یاد تک دل سے فراموش ہونے لگی۔ ایسے اہل قلم و اہل زبان پیدا ہو گئے جو انگریزی میں فصاحت کے دریا بہا سکتے تھے مگر اپنی مادری زبان کو جنت نصیب بزرگوں کی ناواقفیت و کم نصیبی کا ورثہ سمجھتے تھے۔ جیسا کہ لازمی تھا۔ اردو زبان اور اردو شاعری کا سفینہ بھی ڈگمگانے لگا۔ یہ صدائیں عام ہو گئیں کہ قدیم رنگ کی اردو شاعری میں سوائے گل و بلبل اور کنگھی چوٹی کے مضامین کے کیا رکھا ہے۔ اکثر انگریز مصنفین نے اردو زبان یا شاعری کے بارے میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا لفظ لفظ ہمارے ناواقف نوجوانوں کے لیے قرآن و حدیث ہو گیا اور انھوں نے اپنے مغربی استادوں کے خیالات کی غلامی بلا تکلف قبول کر لی۔ جس طرح زندگی کے اکثر صیغوں میں مغربی تہذیب کا نمائشی پہلو ہماری نظروں میں سما گیا تھا اور اصلی جو ہروں سے نگاہیں آشنا نہ تھیں۔ اسی طرح انگریزی نظم کے ظاہری رنگ و روپ کو ہم حسن سخن کا معیار سمجھنے لگے اور چونکہ اردو شاعری اس معیار کے کانٹے میں تل نہ سکی لہٰذا وہ قابل نفریں قرار دی گئی۔

اردو شاعری کے فروغ کا آغاز اسلامی تہذیب کے آخری دور میں ہوا جبکہ عیش پرستی و کاہلی نے ہمارے ہم وطنوں کے خیالات و جذبات کی روحانی آگ کو قریب قریب ٹھنڈا کر دیا۔ قومی زندگی کی نبض سست ہو چکی تھی۔ جو کچھ بلند خیالی وضعداری اور عالی حوصلگی کے جوہر باقی رہ گئے تھے ان کی ہستی بجھتے ہوئے چراغوں کی روشنی سے زیادہ نہ تھی۔ تاہم اس بدنصیبی کے دور میں اردو زبان کی خوش قسمتی سے چند ایسے باکمال پیدا ہو گئے جو شاعری اور زبان دانی کے جوہر اپنے ساتھ لائے تھے اور جن کے دلوں میں اس قومی زوال کے زمانے میں بھی اپنے بزرگوں کی قدیم حمیت و تہذیب کا اثر باقی تھا۔ میر وسودا، آتش و غالب و انیس نے اپنی شاعری سے جو چراغ روشن کیے انھیں زمانے کی ہوا ابھی پورے طور سے گل نہیں کر سکی ہے۔ مگر باوجود ان قدرتی جو ہروں کے زمانے کا رنگ ان کے کمال کا دشمن تھا۔ جس دنیا میں وہ رہتے تھے اس کے عام پسند خیالات و جذبات کے حلقوں میں ان کے دل و دماغ جکڑے ہوئے تھے۔ اکثر وہ ان پابندیوں سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہے تھے مگر اپنی قومی تہذیب و تربیت کے محدود دائرے سے مجبور ہو جاتے تھے۔ شاید یہی خیال غالب کے دل کو ستا رہا تھا۔ جب اس نے یہ شعر کہا         ؎

بقدر شوق نہیں اپنے تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے

یا میرانیس نے انھیں پابندیوں سے عاجز آکر مرثیے کا وسیع میدان تلاش کیا لیکن باوجود ان امنگوں کے ہمارے قدیم شاعروں کے مذاق سخن کے آئینے پر بہت کچھ مصنوعی شاعری کا گرد و غبار جم گیا اور ان کا دامن اکثر غیر پاکیزہ خیالات و جذبات کے کانٹوں سے الجھ کر رہ گیا۔ اگر زمانہ کروٹ لیتا اور قومی زندگی میں شاعرانہ مذاق کی ترقی کا پہلو قائم رہتا تو بعد کی نسل قدیم شعرا کے جو ہروں کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتی اور جو عیب ان کے کلام میں موجود تھے ان سے زبان و شاعری کو پاک کر دیتی۔ مگر دنیا دوسرے رنگ پر جارہی تھی۔ نئی تہذیب کی اشاعت نے طبیعتوں کا رنگ کچھ اس طرح بدل دیا تھا کہ صحیح مذاق سخن کا قائم ہونا دشوار تھا۔

انگریزی تعلیم نے ملک میں رفتہ رفتہ جو بیداری پیدا کی ہے اسے بھول جانا قومی احسان فراموشی ہے۔ مگر اس تعلیم کا ایک صریحی اثر ہمارے قومی اخلاق پر بہت خراب پڑا۔ وہ یہ تھا کہ تعلیم محض ذریعہ معاش ہوگئی۔ علم و ادب کی تحصیل سے جو روحانی سرور کا سرمایہ دلوں کو حاصل ہوتا ہے وہ بالکل نظر انداز ہو گیا۔ اس زمانے میں کثرت سے ایسے تعلیم یافتہ بزرگ ملیں گے جنھیں اردو، فارسی، ہندی یا انگریزی کے مذاق سخن سے ذرا بھی حس نہیں ہے۔ ان کی زندگی شاعرانہ لطافت کے اثر سے بالکل خالی ہے۔ تعلیم نے ان کی آنکھیں صرف اس قدر روشن کردی ہیں کہ وہ کھوٹے کھر ے روپیہ کو پرکھ سکیں۔ قومی مفلسی نے تعلیم کے اس تجارتی شوق پر اور تازیانے کا کام کیا ہے۔ وہ لطیف جذبات و خیالات جن کا تازہ کرنا تعلیم کا اصل منشا ہے اور جن کی نشو و نما سے انسان دنیا کے گرد و غبار سے ہٹ کر روحانی لطافتوں کا حظ اٹھا سکتا ہے، روز بروز سرد ہو جاتے ہیں۔ اس تجارتی تعلیم کے طوفان میں جبکہ شاعرانہ جذبات کی ترتیب کی اصلاح کا راستہ ہی بند ہو رہا ہے مذاق سخن کی صحت کی امید رکھنا فضول ہے۔

ان تمام اسباب کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا مذاق سخن صحیح و درست نہیں ہے۔ ہمارے تعلیم یافتہ حضرات عموماً اردو فارسی ہندی یا سنسکرت کی شاعری سے نا آشنا ہیں۔ انھوں نے اپنا مذاق سخن انگریزی نظم کے مطالعے سے قائم کیا ہے لیکن ان کے معیارسخن کا دارو مدار بہت کچھ انگریزی شاعری کی غلط تعبیر پر ہے۔ انگریزی نظم کے جس پہلو کا اثر ان کے دماغ پر ہوتا ہے اس کا تعلق محض خیالات سے ہے۔ ان کے دل انگریزی نظم کے اس لطیف پہلو سے پورے طور پر آشنا نہیں ہیں جس کی بنیاد جذبات کے لطافت و نزاکت پر ہے اور جو اصل جزو شاعری ہے۔ انگریزی نظم ان کے دماغ کو ضرور روشن کر دیتی ہے مگر ان کے دلوں میں جذبات کی آگ نہیں بھڑکاتی۔ چنانچہ نئی تعلیم کے معصوم بندے یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ شاعری کی وقعت کا دارو مدار محض خیالات کی بلندی و پاکیزگی پر ہے۔ انگریزی نظموں میں آزادی و حب الوطنی کے خیالات دیکھتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ اردو شاعری میں انھیں اس قسم کے خیالات کا پتہ نہیں ملتا، لہٰذا اس کے مطالعے کا بار ان کی نگاہیں نہیں اٹھا سکتیں۔

نفس شاعری کے جو ہر لطیف کا زبان یا قلم کی مدد سے خاکہ کھینچنا دشوار ہے۔ یہ ویسا ہے کہ سریلی آواز کے سننے سے یا دریا کی لہروں پر چاند کی روشنی دیکھنے سے انسان کے دل پر جو کیفیت طاری ہوتی ہے اس کے بیان کرنے کی کوشش کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعری و زبان کے جادو کی تشریح و تعریف زبان و قلم کے اختیار سے باہر ہے۔ بقول شاعر          ؎

بیان درد محبت جو ہو تو کیوں کر ہو

زبان دل کے لیے ہے نہ دل زباں کے لیے

مگر بادی النظر میں شاعری کے دو پہلو ہیں۔ ایک کا تعلق خیالات سے ہے۔ دوسرے کا زبان سے ہے۔ جس کو خیالات کا پیراہن یا لباس سمجھنا چاہیے۔ خیالات کا اظہار پاکیزہ اور سلیس نثر میں بھی لطافت کے ساتھ ہو سکتا ہے مگر شاعر کے خیالات دلی جذبات کے رنگ میں ڈوبے ہوئے نکلتے ہیں اور زبان میں خاص تاثیر پیدا کر دیتے ہیں۔ شاعرانہ خیالات کے پھولوں کی نشو و نما محض دماغ کی پھلواری تک محدود نہیں رہتی ہے۔ شاعر کے دلی جذبات کی برقی حرارت ان پھولوں کا عطر کھینچ لیتی ہے۔ اسی کا نام شاعرانہ تاثیر و لطافت ہے۔ اس شاعرانہ لطافت و تاثیر کے عام کرنے کا ذریعہ شاعرانہ زبان ہے۔ شاعر بھی وہی الفاظ استعمال کرتا ہے جو اس کے ہم وطنوں کی زبان پر ہوتے ہیں مگر انھیں الفاظ کی الٹ پھیر سے وہ اپنے بیان میں عالم تصویر پیدا کر دیتا ہے اور محض عالم تصویر ہی نہیں پیدا کر دیتا ہے بلکہ اس کے الفاظ میں ایک راگ کی تاثیر نمایاں ہو جاتی ہے جو فن موسیقی کی راگ راگنی سے الگ ہے۔ اگر انگریزی شاعری کو اس نظر سے دیکھا جائے تو یہ ظاہر ہو جائے گا کہ ہمارے تعلیم یافتہ حضرات مغربی نظم کے پڑھنے سے دماغی حظ ضرور حاصل کر لیتے ہیں لیکن نہ انداز کلام کی شاعرانہ لطافت ان کے دلوں میں برقی حرارت پیدا کرتی ہے نہ زبان کی مصوری کا انھیں حِس ہوتا ہے، نہ الفاظ کا راگ ان کے کانوں کی فضا میں سماتا ہے۔ ان کا دماغ یہ خوب پہچان لیتا ہے کہ کس قسم کے خیالات نظم کیے گئے ہیں مگر ان کا دل جسے جذبات کا ذخیرہ خیال کرنا چاہیے یہ محسوس نہیں کرتا کہ ان خیالات کے ادا کرنے کا شاعرانہ انداز کیا ہے۔ ان کے یہ کان یہ اندازہ نہیںکر سکتے کہ شاعر نے معمولی الفاظ میں کیا جادو بھر دیا ہے۔

ایسا ہونا ایک حد تک لازمی ہے جس زبان میں انگریزی شاعری ہے، اس زبان کے کلام سے ہمارے کان قدرتی طور سے غیر مانوس ہیں۔ ان کا قدرتی نغمہ ہمارے لیے خلق نہیں ہوا تھا۔ جس تہذیب کے عالم میں مغربی شاعروں کے رنج و راحت کے جذبات نے نشو و نما پائی۔ ہماری سوسائٹی کی دنیا اس سے دور اور الگ ہے۔ مغربی دنیا کے قدیم مذہبی اور قومی کارنامے جو وہاں کے سورماؤں اور پیمبر ان دین کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں اور جن کی بدولت وہاں کے اکثر دریا یا پہاڑ یا اکثر قدرتی منظر قومی شاعری کے لیے سرمایہ ناز ہو گئے ہیں۔ ہمارے دلوں میں تاثیر کی گرمی نہیں پیدا کر سکتے۔ ایسی حالت میں مغربی نظم کے اصلی شاعرانہ پہلو کا اندازہ کرنا جس کا تعلق خاص جذبات سے ہے اگر ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔

ممکن ہے چند ایسے ارباب وطن ہوں جنھوں نے انگلستان کی بود و باش کی وجہ سے اورقدرتی ذہانت کے صدقے میں مغربی سوسائٹی کے قومی و مذہبی خیالات و جذبات کا رنگ پورے طور سے پہچان لیا ہو اور جنھوں نے انگریزی زبان پر ایسا عبور حاصل کر لیا ہو کہ انھیں اس ساز کے تمام پردوں سے واقفیت حاصل ہو گئی ہو، ایسے حضرات انگریزی نظم کی شاعرانہ لطافت سے ضرور حظ اٹھا سکتے ہیں مگر عام طور سے شیکسپیئر وملٹن کی جو ثنا و صفت انگریزی داں نو جوانوں کی زبان سے سننے میں آتی ہے وہ بہت کچھ فرہنگوں کی بدولت ہوا کرتی ہے۔ میر تقی میر جب دہلی سے لکھنؤ آئے تو یہاں کے چند بزرگ ان سے ملنے گئے اور کلام سنانے کی فرمائش کی۔ میر صاحب نے کہا کہ آپ حضرات میرکا کلام سمجھ نہیں سکتے۔ بے چارے اپنا طیش ضبط نہ کر سکے اور کہہ اٹھے کہ جناب ہم فردوسی و نظامی کا کلام سمجھ سکتے ہیں مگر آپ کا کلام ایسا ہے کہ اس کی قدر دانی ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ میر صاحب نے جواب دیا کہ فردوسی و نظامی کے کلام کی فرہنگیں چھپ گئی ہیں مگر میرے کلام کی ابھی کوئی فرہنگ نہیں چھپی ہے اس لیے آپ اس کی خوبی کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ عام طور سے انگریزی نظم کے قدر دانوں کی حالت اس سے زیادہ اچھی نہیں ہے۔ وہ فرہنگ کے مطالعے سے شیکسپیئر کے کلام پر وجد کرنا سیکھ لیں مگر وہ اس قدر دانی کے جذبے کا اندازہ نہیں کر سکتے جس نے کارلائل کو یہ لکھنے پر مجبور کیا کہ اگر اس سے پوچھا جائے کہ اسے ہندوستان کی سلطنت زیادہ عزیز ہے کہ شیکسپیئر تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ چاہے ہندوستان کی سلطنت نکل جائے مگر انگریزی قوم شیکسپیئر کا دامن نہیں چھوڑ سکتی۔

یہ خامی ہمارے لیے باعث شرم نہیں ہے۔ کوئی انگریز کتنا ہی ہندی زبان سے واقف کیوں نہ ہو مگر تلسی داس کی شاعری کا اثر و نغمہ اس کے دل میں وہ کیفیت نہیں پیدا کر سکتا، جس کا لطف اَن پڑھ ہندو رامائن کے طفیل میں روز مرہ اٹھاتے ہیں۔ غیر ملک کا باشندہ تلسی داس کے خیالات کی بلندی و پاکیزگی کی داد دے سکتا ہے مگر زبان و شاعری کے جو ہروں کو نہیں پرکھ سکتا، نہ ان جذبات کی تاثیر قبول کر سکتا ہے، جو ہندوؤں کی قومی تہذیب کے ٹکسالی سکے ہیں۔ اس قدر خامی کے علاوہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس حالت میں ہم اپنی مادری زبان کی شاعری سے حظ نہیں اٹھا سکتے ہمارے لیے کسی غیر زبان کے مذاق سخن کی قدر شناسی سخت دشوار ہے۔ شاعری سے حظ اٹھانے کے لیے دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ یا تو انسان کے دل میں قدرتی طور سے شاعرانہ مذاق کا جو ہر موجود ہو یا اس کے جذبات کی ترتیب و اصلاح سے اس کی طبیعت میں سخن فہمی کا سلیقہ پیدا ہو گیا ہو۔ شاعرانہ نزاکت و لطافت کا حظ حاصل کرنے کے لیے محض دماغی تربیت کافی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ انسان کا دماغ فلسفہ و منطق کے نور سے آئینہ ہومگر شاعرانہ مذاق کے جوہر سے خالی ہو۔ خیالات و زبان کی شاعرانہ لطافت کا اثر قبول کرنے کے لیے انسان کی ہستی کے اس جز ولطیف کے نشو و نما کی ضرورت ہے جس کا تعلق جذبات سے ہے۔ جس طرح فلسفہ و ریاضی کی باریکیوں کے سمجھنے کے لیے خاص قسم کی دماغی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح طبیعت میں شاعرانہ مذاق سے دلچسپی پیدا کرنے کے لیے فطری جذبات کی اصلاح و تربیت لازمی ہے۔ اپنی زبان کی شاعری کے مطالعے سے اس قسم کی اصلاح و تربیت کا سرانجام آسانی سے ہو سکتا ہے۔ مادری زبان کے الفاظ کا نغمہ کانوں میں بلا تکلف گھر کر لیتا ہے اور قومی شاعروں کے کلام میں جو رنج و راحت کے جذبات کے نشتر موجود ہیں وہ دل میں چبھ جاتے ہیں اور دبی ہوئی امنگوں کو بیدار کر دیتے ہیں، اسی کی شاعرانہ ترتیب ہے۔ اگر کوئی شخص چاہے کہ بغیر اس تربیت کے محض غیر زبان کی فرہنگوں میں نفس شاعری کے متعلق مضامین پڑھ کر صحیح مذاق سخن قائم کر لے تو یہ اس کی خوش قسمتی ہے۔

افسوس ہے تو اس قدر کہ یہ خوش قسمتی ہمارے حصے میں نہیں آئی۔ ہمارے تعلیم یافتہ عزیزان وطن نے اپنی زبان و شاعری سے بے خبر رہ کر انگریزی شاعری کا جوغیر صحیح اندازہ کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا مذاق سخن بگڑ گیا۔ ہمیں اپنی قدیم شاعری کے قابل قدر ذخیرے سے شرم آنے لگی اور نئی شاعری کے لقب سے جس طرز کلام کی بنیاد پڑی اس کی وقعت نثر ونظم سے زیادہ نہ تھی۔ یہ خیال عالمگیر ہو گیا کہ محض بلند و پاکیزہ خیالات کا برے بھلے الفاظ میں نظم کر لینا معراج شاعری ہے جذبات کی لطافت کا خیال نظر انداز ہو گیا۔ زبان کے نغمے سے کان نا آشنا ہو گئے۔ محض ننگے بوچے خیالات کی تصویریں کاغذ کے صفحوں پر نظر آنے لگیں۔

اردو زبان پر مولانا حالی کا جو احسان ہے اس کی یاد دلوں میں ہمیشہ تازہ رہے گی۔ مولانا مرحوم غالباً پہلے شخص تھے جنھوں نے یہ آواز بلند کی کہ زمانے کے ساتھ اردو شاعری کو بھی نیا لباس بدلنا چاہیے اور یہ معمولی بات نہ تھی۔ مگر اپنے انگریزی داں احباب کی مدد سے انگریزی شاعری کا جو معیار مولانا موصوف نے قائم کیا اور جس کے سانچے میں اردو شاعری کو ڈھالنا چاہا وہ اس عیب سے خالی نہ تھا جس کا ابھی ذکر ہو چکا ہے۔ اس عیب کا اثر مولانا کے نئے رنگ کے کلام میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ مولانا کی ایک رباعی اس وقت تمثیلاً یاد آگئی        ؎

دھونے کی ہے رخار مر جا باقی

کپڑے پہ ہے جب تلک کہ دھبا باقی

دھو شوق سے کپڑے کو پہ اتنا نہ رگڑ

دھبّا رہے کپڑے پہ، نہ کپڑا باقی

جو خیال ان دو شعروں میں نظم کیا گیا ہے وہ نہایت اعلیٰ درجے کا اصول اصلاح ظاہر کرتا ہے، مگر اظہار خیال کا طریقہ شاعرانہ نہیں ہے۔ اگر پاکیزہ وسلیس نثر میں یہ خیال ادا کیا جائے تو اس نظم سے زیادہ دلکش ثابت ہوگا۔ ہمیں افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ مولانا حالی نے اردو شاعری کی اصلاح میں اپنے اصول اصلاح کو مد نظر نہیں رکھا۔ اردو شاعری کے دامن پر جو داغ اور دیتے تھے انھیں اس طرح صاف کرنے کی کوشش کی کہ نہ داغ دھبے باقی رہے نہ دامن کا ایک تار باقی رہا۔

قدیم اردو شعرا کے کلام میں بہتیرے ایسے خیالات ملیں گے جنھیں موجودہ زمانے کا مذاق قبول نہیں کر سکتا یا جو موجودہ معیار کے مطابق پایۂ تہذیب سے گرے ہوئے ہیں۔ مگر محض خیالات کی پستی سے تنگ آکر ہمیں ان کے شاعرانہ جو ہر کو نہ بھول جانا چاہیے اور یہ خیال کرنا چاہیے کہ محض پند و نصائح نظم کرنے کا نام شاعری ہے۔ قدیم اردو شاعروں کے خیالات بلند نہ ہوں مگر ان کا انداز سخن شاعرانہ ہے۔ ان کی زبان شاعرانہ تاثیر کا ذخیرہ ہے۔ جو مضامین وہ نظم کرتے ہیں ان میں ان کے دلی جذبات کا پر تو نظر آتا ہے یہی شاعری ہے۔ اگر آتش و انیس و غالب کی شاعرانہ وقعت کا صیح اندازہ ہم سے نہ ہو سکا تو ان کی شاعری کا قصور نہ تھا۔ بلکہ اپنی قومی بے خبری کے عالم میں جہاں ہم نے زندگی کے بہت سے معاملات میں مغربی تہذیب کے اکثر اصولوں کی غلط تعبیر کی وہاں انگریزی شاعری کے غیر صحیح اندازے سے ہم نے اپنا مذاق سخن بھی الٹا سیدھا قائم کر لیا۔ زبان و شاعری کی آئندہ اصلاح و ترقی کے لیے قدیم شعرا کے انداز سخن اور رنگ بیان کا صحیح اندازہ کرنا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے کیونکہ جس غیر صحیح مذاق سخن کی بنیاد پر ہم قدیم رنگ سخن کی قدر نہ کر سکے اس کی مدد سے ہم زبان و شاعری میں نئے جو ہر نہیں پیداکرسکتے۔

ماخذ: مضامین چکبست، ترتیب و تالیف: ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی، پہلی اشاعت: 2016، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو نثر میں ’ مضمون نما تحریریں ‘،مضمون نگار: سیدہ جعفر

  اردو دنیا،اگست 2025 اسّے   Essay یا مضمون کی سب سے ابتدائی اور قدیم صورتیں امثال اور کہاوتیں ہیں۔ 1جب انسانوں نے اجتماعی زندگی بسر کرنی شر...