29/12/25

ذہن اور ذہانت،مضمون نگار: طلعت عزیز

 اردو دنیا،اگست 2025

.1       دماغ اور ذہن

قدرت کی تخلیق کردہ چیزوں میں سب سے پیچیدہ شے انسان کا دماغ ہے، اس کی صلاحیتیں لامحدود ہیں اس لیے’لا محدودیت کا آئینہ‘بھی کہا جا تا ہے۔اب تک اس کی وسعت اور تخلیقی نشوونما کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکی ہے۔انسانی دماغ کا وہ حصہ جسے مغز(کارٹیکس) کہا جا تا ہے تہہ در تہہ انسان کی کھوپڑی میں سمایا ہوا ہے۔ اگر اسے کھول کر پھیلایا جاسکے تو یہ اخبار کے تقریباً ایک صفحہ کے برابر ہوگا۔یہی مغز ذہانت کی مرکزی کرسی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دیکھنے ،سننے، بولنے، غور و فکر کرنے اور تخلیقی اعمال یعنی عام ذہنی صلاحیتوں کو منظم کیا جاتاہے۔ اسی حصے میں فیصلے لیے جاتے ہیں۔ مشاہدات کو ترتیب دی جاتی ہے اورزندگی بھر کچھ کرنے، سیکھنے یا یاد کرنے کے لیے آپ کو جتنی جگہ یا وسعت چاہیے وہ دماغ کے اس حصے میں موجود ہوتی ہے۔ اسی حصہ کے کچھ علاقے بولنے، سمجھنے، سیکھنے اور محسوس کرنے کے لیے مخصوص ہیں جہاں ان اعمال سے متعلق معلومات محفوظ کی جاتی ہیں۔ دماغ کے دو اعضا اس کے معاون اعضا ہوتے ہیں جو کارٹیکس کے بالکل نیچے ہوتے ہیں یہ اعضا تھیلمیس اور ہپوکیپس کہلاتے ہیں۔

دریائی گھوڑے کی شکل کا ہپوکیمپس (دریائی گھوڑے کے لیے گریک لفظ) معلومات کو طویل مدت تک محفوظ رکھ سکتا ہے۔ طویل مدتی یادداشت اس حصہ میں محفوظ ہوتی ہے۔ اس کے بالکل نیچے تھتیلیمس ہوتا ہے۔ ہمارے حسی اعضا عکس کی شکل میں جو بھی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ تھیلیمس انھیں کارٹیکس میں پہنچاتا ہے۔ یہ ایک طرح سے سوئچ کا کام کرتا ہے جس طرح سوئچ آن کرنے سے بجلی تمام تاروں میں پہنچتی ہے اسی طرح تھیلیمس کے ذریعے معلومات کارٹیکس میں جاتی ہے۔ تھیلیمس حاصل ہونے والی حسی معلومات کا تحلیلی تجزیہ بھی کرتا ہے۔ اسی حصہ میں موجود معلومات ہمارے جذباتی رویو ںکے لیے بھی بہت اہم ہوتی ہے۔ یہیں ذہنی تناؤ بھی بنتا ہے۔ سیریبیلم میں  ہماری عضلاتی یادداشت محفوظ ہوتی ہے۔ جو حرکیاتی کاموں میں ہماری مدد کرتی ہے، مثلاً سائیک چلانا، مشین چلانا، تیرنا وغیرہ۔ یوں تو دماغ کا ہر خلیہ کچھ نہ کچھ کام کرتا ہے جو اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن معلومات کے حصول، اس کی ترتیب اور حفاظت (یادداشت) کے لیے کارٹیکس، ہپوتھیلیمس اور تھیلیمس بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دماغ جسم کا ایک طبعی عضو ہے اور ذہن اس کی کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ دماغ ٹھوس مادّہ ہے جب کہ ذہن کا تعلق دماغ کے افعال سے ہے۔

ذہنی اعمال کو سمجھنے کے لیے ہم ذہن کو ایک کمپیوئٹر مان لیتے ہیں۔

.2       ذہن کی کارکردگی

  1. ترتیبِ معلومات اور یادداشت (Information Processing and Memory)

انسان کا ذہن کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے۔کمپیوٹر کی طرح وہ معلومات اکٹھا کرتا ہے ، انھیں ترتیب دیتا ہے ،اس کی شکل اور مواد کو تبدیل کرتا ہے ،ذہن میںذخیرہ کرتا ہے ،ضرورت پر واپس لاتا ہے اور اس کے تئیں عمل کرتا ہے۔کمپیوٹر کی مثال اس لیے دی گئی ہے کہ یہ ایک ٹھوس مثال ہے جس کے ذریعہ یاد داشت اور معلومات کے عمل کو سمجھا جا سکتا ہے۔ کمپیوٹر انسانی ذہن کی نقل ہے جو خود انسان نے ہی تیار کیا ہے تاکہ وہ ذہن کی کار کردگی اور اعمال کو ظاہری شکل دے سکے۔ کمپیوٹر اپنے تمام اعمال تین اقدام میں پورے کرتا ہے:  

  1.      خفیہ تحریر میں منتقل کرنا۔ (Encoding) عکس کو اشکال یا زبان میںتبدیل کرنایعنی معلومات حاصل کرنا اور انھیں ترتیب دینا۔  
  2.  ذخیرہ کرنا  (Storage)  معلومات ذہن میں جمع کرنا۔
  3.  دوبارہ حاصل کرنا  (Retrieval)  ضرورت کے تحت معلومات حاصل کرنا۔

یہ پورا عمل منضبط طریقہ سے کام کرتا ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ کب اور کیسے معلومات اس نظام سے گزرے گی۔

حسی یادداشت، عملی یادداشت اور طویل مدتی یادداشت کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے۔

.1       حسی یادداشت: ہمارے حسی اعضا آنکھ، کان، ناک، زبان اور جلد گردوپیش سے مسلسل معلومات ہمارے دماغ کے مختلف حصوں میں پہنچاتے رہتے ہیں جس کی بدولت ہم دیکھتے،سنتے، سونگھتے، چکھتے (ذائقہ) اور محسوس کرتے ہیں۔حسی یادداشت پہلا عمل ہے جو ان محرکات کو معلومات میں تبدیل کرتا ہے جنھیں ہم کوئی معنی پہنا سکتے ہیں۔دیکھنے اور سننے کا عمل اگرچہ چند لمحات کا ہوتا ہے لیکن احساسات اس عمل کو حسی معلوماتی اسٹور میں قید کر لیتے ہیںتاکہ ابتدائی عمل شروع ہو سکے۔

حسی یادداشت میں معلومات ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ حسی معلومات بہت جلدی ضائع ہو جاتی ہیں یہ ایک اور تین سیکنڈ کے دوران ہی ضائع ہو جاتی ہیں۔ آپ کی آنکھ،ناک اور کان دن بھر کھلے رہتے ہیں اور معلومات اکٹھا کرتے رہتے ہیں اس میں سے آپ کو کتنی باتیں یا چیزیں یاد رہتی ہیں ؟دن بھر میں آپ نے کتنا سنا،دیکھا اور محسوس کیا؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں؟ یا آپ کو یاد ہے؟ اس سطح پر دوعمل خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔

  1.      ادراک  (Perception)
  2.     توجہ  (Attention)

i         کسی محرک کوپہچاننا اور معنی پہنانا ادراک کہلاتا ہے۔ حروف، اعداد اور اشکال کو ہم اس عمل کی بدولت پہچانتے ہیںاگر ہمیں حروف کی پہچان ہے تو ہم خراب سے خراب تحریر بھی پڑھ سکتے ہیں کیونکہ ہم اندازہ لگا سکتے ہیںکہ الفاظ میں حرو ف کیا ہیں اور اسی مناسبت سے لفظ پڑھ یا سمجھ سکتے ہیں۔

ii        جو محرکات ہمیں ملتی ہیں ان میں سے ہر ایک کو ہم برابر توجہ نہیں دیتے۔ ہمارے سامنے رنگ، آواز، خوشبو، حرارت وغیرہ میں بہت تبدیلیاں آتی ہیں ہم ہر تبدیلی کو ذہن میں محفوظ نہیںکرتے۔ان میں سے جن پر ہم توجہ دیتے ہیں ان پر ہی ذہنی عمل ہوتا ہے۔ ہم کس کو توجہ دیں گے اس کا انحصار اس پر ہے کہ ہم پہلے سے کس کے بارے میں معلومات رکھتے ہیںاور مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

حسی، عملی اور طویل مدتی یادداشتوں میں توجہ کا عمل دخل ہے۔ابتدا میں ہماری توجہ صرف ایک ہی چیز پر رہتی ہے لیکن وقت اور تجربہ کے ساتھ ہم ایک وقت میں کئی چیزوں پر ایک ساتھ توجہ دے سکتے ہیں۔ مثلاً پڑھائی کرتے وقت ہم پڑھتے بھی ہیں،پس منظر میں گانے بھی سنتے ہیں اور ساتھیوں سے بات چیت بھی کرتے رہتے ہیں اور ہماری توجہ تینوں طرف رہتی ہے۔

.2       عملی یادداشت: حسی یادداشت میں جو معلومات موجود ہے وہ مزید ترتیب کے لیے فراہم ہے۔ عملی یادداشت معلومات کے لیے وقتی اسٹور کا کام کرتی ہے جو بعد میں مختلف ذہنی کاموں کے لیے ترتیب دی جاتی ہیں۔عملی یادداشت نئی معلومات کوایک مقام فراہم کرتی ہے جہاں اس کا تعلق طویل مدتی یادداشت میں موجود مواد سے ہوتا ہے۔عملی یادداشت میں وہ معلومات رہتی ہیں جس کے بارے میں آپ اس وقت سوچ رہے ہیں یا غور و فکر کر رہے ہیں۔عملی یادداشت میں معلومات ، طویل مدتی یادداشت کے مقابلے میں کم دیر رکتی ہیں۔ کبھی کبھی آپ بات کرتے بھول جاتے ہیں اور پھر ذہن پر زور دینے پر آپ کو وہ بات یاد آتی ہے اور تسلسل قائم رہتا ہے۔ عملی یادداشت کو ’قلیل مدتی‘یادداشت بھی کہا جاتا ہے۔عملی یادداشت قلیل مدتی یادداشت سے اس معنی میں مختلف ہے کہ یہاں معلومات کا وقتی اسٹوریج بھی ہوتا ہے اور فعالی ترتیب بھی ہوتی ہے۔ قلیل مدتی یادداشت میں عام طور پر نئی معلومات 15 سے  20سیکنڈ تک قائم رہ سکتی تھیں۔عملی یادداشت میں معلومات الفاظ، اشکال، نظریات اور جملوں کی شکل میں محفوظ ہوتی ہے۔

.3       طویل مدتی یادداشت: ہم نے دیکھا کہ حسی یاد داشت سے معلومات فوراً عملی یادداشت میں منتقل ہو جاتی ہے۔  حسی یادداشت میں محرکات ہوتے ہیں جو تصورات کی شکل اختیار کرکے عملی یادداشت میں چلے جاتے ہیں۔ عملی یادداشت میں داخل ہونے والی معلومات تیزی سے کار گر ہوتی ہیں۔عملی یا دداشت میں ان تصورات پر عمل ہوتا ہے اور ترتیب دی جاتی ہے اس کے بعد وہ طویل مدتی یادداشت میں داخل ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ معلومات کا داخلہ عملی یادداشت میں فوری اور طویل مدتی یاداشت میں نسبتاً سست ہے۔

طویل مدتی یادداشت میں معلومات لمبے عرصے تک رہتی ہیں اگر اس معلومات کو بہتر طور پر محفوظ کیا گیا ہے تو یہ وہاں ہمیشہ کے لیے قائم رہتی ہیں۔طویل مدتی یادداشت میں جو معلومات ہیں اسے یاد کرنے میں کچھ وقت اور محنت لگ سکتی ہے جب کہ عملی یادداشت میں چونکہ معلومات بہت کم دیر کے لیے رکتی ہیں تو انھیں یاد کرنا فوری طور پر تو ممکن ہے لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد دوہرایا نہیں جاسکتا۔

ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ طویل مدتی یادداشت میں معلومات بصری عکس یا الفاظ یا دونوں کی شکل میں محفوظ رہتی ہیں۔نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ اس شکل میں معلومات کا محفوظ ہونا سیکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اس لیے ہم درسی کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ نظریات اور خیالات کی وضاحت کے لیے تصاویر اور الفاظ (تصورات) کا استعمال کیا جاتا ہے۔کچھ نفسیات داں طویل مدتی یادداشت کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:

1        صریحی یادداشت (Explicit Memory) یہ طویل مدتی یادداشت میں محفوظ وہ معلومات ہے جس کو شعوری طور پر یاد کر سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمیں یاد ہیں یہ واقعات،مکالمے اور تصورات ہوسکتے ہیں۔

صریحی یادداشت دو قسم کی ہوتی ہے:

  1.       معنیاتی یادداشت  (Semantic Memory)
  2.      ضمنی یادداشت  (Episodic Memory)

معنیاتی یادداشت اسکولی تعلیم کے لیے اہم ہے۔ یہ وہ یادداشت ہے جو الفاظ، حقائق، تصورات اور نظریات کو معنی پہناتی ہے۔یہ یادداشتیں کسی ایک یا مخصوص تجربے سے منسلک نہیں ہوتی ہیں بلکہ ہمارے ذہن میں بیان ،تصاویر /اشکال (Image)  اور خاکوں (Scheme) کی شکل میں محفوظ ہوتی ہیں۔

ضمنی یادداشت کا تعلق کسی مخصوص تجربے سے ہوتا ہے جس کے لیے ہم بتا سکتے ہیں ہم نے فلاںچیز یا فرد کہا ں دیکھا تھا۔

مضمر یادداشت(Implicit Memory) بھی دو قسم کی ہوتی ہے:

(i)      کلاسیکی التزام

(ii)     طریقۂ کار (Procedural) اور ابتدائی اثرات (Primary Effect)۔

i         امتحان ہال،انٹرویو،ڈاکٹر وغیرہ کے پاس جانے سے پہلے جو ہماری حالت ہوتی ہے وہ در اصل ان تجربات کی یاد دلاتی ہے جو ہمیں اس وقت ہوئے تھے جب ہمارا ان سے سابقہ ہوا تھا۔ دل کی دھٹرکن کا بڑھنا،پسینہ آنا، گھبراہٹ ہونا ہماری حالت کو ظاہر کرتے ہیں یہ کلاسیکی التزام کی مثال ہے۔

ii        دوسری قسم کی یادداشت کا تعلق ہماری مہارتوں اور صلاحیتوں سے ہے۔ جب ہم کوئی عملی کام کرتے ہیں تو اس سے متعلق ہماری مہارتیں یاد آتی ہیں اور ہم ان کا استعمال کرکے کام کو بخو بی ا نجام دیتے ہیں۔

ان کے علاوہ ایک یادداشت اور ہوتی ہے جو بھولی بسری یا طویل فا صلاتی یادداشت (Remote Memory) کہلاتی ہے اس کا پھیلاؤ سیسر یبرل کارٹیکس کے اردگرد ہوتا ہے۔  کار ٹیکس میں جو ہماری یادداشتیں زندگی بھر کے لیے محفوظ ہوتی ہیں وہ بڑھاپا آنے تک کمزور ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کبھی با لکل غائب ہوجاتی ہیںاسی لیے کہا جاتا ہے کہ بڑھاپے میں انسان جلدی بھولتا ہے یہ کام بھولی بسری یا طویل فاصلاتی یادداشت ہی کرتی ہے۔

یادداشت کی ترتیب کو یاد رکھنے کے لیے ہم ایک لفظ (WIRES)کا استعمال کرتے ہیںاس کی مدد سے یادداشت کی قسمیں پہچان سکتے ہیں:

W  Working Memory

I       Implicit Memory

R      Remote Memory

E      Episodic Memory

S      Semantic Memory

اگر آپ نے یہ چھو ٹا سا لفظ یاد کرلیا تو یادداشت کی قسمیں کبھی نہیں بھولیں گے۔

    یاد رکھنا اور بھولنا

جو واقعات، معلومات،مواد علم طالب علم کے لیے با معنی ہوتے ہیں یا کار آمد ہوتے ہیں طالب علم انھیں یاد رکھتے ہیں، جو بے معنی ہوتے ہیں یا بے تعلق ہوتے ہیں انھیں وہ بھول جاتے ہیں۔با معنی ہونے کا مطلب ہے کہ ان حقائق ،تصورات،نظریات ،تعمیمات،قوانین یا اصول میں کوئی تعلق ہے جس کو طالب علم اپنے تجربے کی روشنی میں پہچان سکتا ہے اور اسی لیے وہ اس کے لیے بامعنی یا کار آمد ہوسکتے ہیں، لہٰذا طالب علم کو وہ یاد رہتے ہیں۔اسٹیفن بھی اسی بات کو کہتے ہیں: ’’اگر مواد تعلیم کسی حد تک با معنی ہے تو اسے بھولنے کا سوال ہی نہیں ہوتا مثال کے طور پر مادہ یا توانائی کی بقا کا اصول۔‘‘

وہ مواد تعلیم جس کا اکتساب ادراک کی سطح پر تعمیم کی شکل میں ہوتا ہے وہ ہماری شخصیت کاایک مستقل حصہ بن جاتا ہے۔جو کچھ ہمیں یاد ہے،جو ہماری شخصیت کا مستقل حصہ ہے وہ ہمارا علم ہوتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ معلومات اکٹھا کرنے کا کام حسی اعضا کے ذریعے کیا جاتا ہے لیکن ان معلومات کو علم میں تبدیل کرنے کا عمل ’ ترتیب معلومات‘کے ذریعے ہوتا ہے۔

(ii)     ترتیب معلومات اور تصورات بننے کا عمل

ہم نے دیکھا کہ ہمارے حسی اعضا ماحول سے عکس حاصل کرکے ذہن میں منتقل کرتے ہیں۔ ہم جو کچھ دیکھتے ،سنتے، سونگھتے،چکھتے، یا محسوس کرتے ہیں وہ تمام احساسات ٹھوس حقائق ہوتے ہیں۔ یہ عکس ہے ان چیزوں کا جو ہمارے ماحول میں موجود ہوتی ہیں۔ اسی کو ہم سچائی کہتے ہیں اسی سچائی کو حقیقت (fact)بھی کہا جاتا ہے۔سنگترہ گول ہوتا ہے،کتاب چوکور ہوتی ہے ،قلم لکھنے کے کام آتا ہے ،شہد میٹھا ہوتا ہے ،چڑیاں اڑتی ہیں ،کتا بھونکتا ہے، بکری ممیاتی ہے، گلاب اور بیلاکی مخصوص خوشبو ہوتی ہے،سلک نرم اور چکنی ہوتی ہے وغیرہ چند حقائق ہیں جن کے عکس حسی تسجیل (Registration)کے بعد ذہن میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔جب ان سے ہمارا سابقہ پہلی بار ہوتا ہے تو تسجیل چند سیکنڈ کے لیے ہوتی ہے۔دوسری اور تیسری بار سابقہ پڑنے پر ہماری توجہ ان کی کسی خصوصیت پر جاتی ہے جیسے سنگترہ کا رنگ ہرا یا نارنجی ہوتا ہے، چڑیاں چہچہاتی ہیں۔بکری ،کتے ، بلی کی خاص جسامت ہوتی ہے قلم میں روشنائی ہوتی ہے وغیرہ۔اب سنگترے کی گولائی، رنگ اور ذائقہ اس کی پہچان کا حصہ بن گئے۔ یہ تمام خصوصیات وہ ہیںجو حسی یادداشت میں محفوظ ہو گئی تھیں۔ اب مزید ترتیب کے لیے حاصل ہیں اور عملی یادداشت کا حصہ بن جاتی ہیں۔اب اگر ہمارے سامنے سنگترہ۔ لیمو، نارنگی۔موسمی وغیرہ ایک ساتھ ہوں اور اس کے ساتھ ہی امرود،انگور، سیب بھی ہوں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں کچھ خصوصیات تو ملتی جلتی ہیں اور کچھ مختلف ہوتی ہیں۔ان ہی خصوصیات کی یکسانیت اور اختلاف کی بنیاد پر ہم ان کو درجہ بند کرتے ہیں۔یہ کام عملی یادداشت کا ہوتا ہے کہ وہ ہمارے مشاہدات کو خصوصیات کی بنیاد پر درجہ بند کر دے۔اسی بنیاد پر امرود، سنگترہ، سیب اور انگور الگ الگ جماعتوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔خصوصیات میں جتنا اختلاف ہوگا اتنے ہی درجہ بنتے چلے جائیں گے۔اختلاف کی پہچان کے لیے مشاہدہ لازمی ہے۔ یہ درجہ بندی اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک جماعت میں پائے جانے والے عناصر کی خصوصیات یکساں ہوں۔ یہ کام طویل مدتی یادداشت کاہوتا ہے جب بھی کوئی نیا مشاہدہ اس کے سامنے آتا ہے تو وہ اس کی خصوصیات کی بنیاد پر اس کو اس کے مطابق درجہ میں درج کر لیتی ہے۔کسی بھی درجہ میں موجود عناصر کی خصوصیات کو ایک جملے میں بیان کیا جا سکتا ہے۔اس عمل کو تعمیم (Generalization)   کہتے ہیں اور اس جملے کو تعریف کہتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک جماعت کی اشیا کی تعریف ہم اس طرح کر سکتے ہیں کہ ’’ایک فرد کے بیٹھنے کے لیے استعمال ہونے والی شے جس میں پایہ،سیٹ اور پشت ہوتی ہے‘‘ اس میں ’پایہ‘کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔یہ پایہ ایک بھی ہو سکتا ہے اور چار بھی ہو سکتے ہیں۔اس جماعت کی تعریف تو بیان ہو گئی لیکن ہمیشہ ہم لمبے جملو ں کا استعمال نہیں کرتے بلکہ صرف ایک لفظ میں اس جماعت کو ظاہر کرتے ہیں۔جیسے یہاں اگر ہم لفظ ’کرسی‘کا استعمال کریں تو اس میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو ہم نے بیان کی ہیں۔اس لفظ کے سنتے ہی ہم اس جماعت کی بنیادی خصوصیات کو سمجھ سکتے ہیں۔ جسامت، رنگ، میٹیریل (لکڑی، لوہا، پلاسٹک، المونیم وغیرہ)میں فرق ہو سکتا ہے جو ثانوی ہیں۔اس ایک لفظ کو ہم تصور کہتے ہیں۔

تصور ایک ذہنی خاکہ ہوتا ہے جو اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ ذہن میں محفوظ ہوتا ہے۔  مثال کے طور پر پھول،پتی،ایسڈ،دھات،طالب علم، گھر، کتاب، قلم… وغیرہ،جتنے نام آپ استعمال کر سکتے ہیں وہ سب تصورات ہوتے ہیں۔ تصورات علم کا پہلا جز ہوتا ہے۔ کھانا، پینا، دوڑنا، تبخیر،جلنا،ہنسنا،رونا وغیرہ سب اعمال ہیں اور یہ بھی تصورات ہیں،ان کا نام سنتے ہی ان کی خصوصیات آپ ذہن میں آجاتی ہیں۔کسی بھی فرد ، شے یا عمل کا نام تصور کو ظاہر کرتا ہے۔ تصورات صرف نام ہوتے ہیں یہ بذات خود کوئی ٹھوس نہیں ہوتے بلکہ ٹھوس مثالوں کے ذریعہ بتائے اور سمجھائے جا سکتے ہیں۔تصورات مجرد (Abstract)بھی ہوتے ہیں جن کی ٹھوس مثالیں نہیں ہوتیں جیسے قوت، توانائی، جمہوریت، دوستی، آزادی،ایمانداری یا سچائی وغیرہ۔

مندرجہ بالا بیانات سے ظاہر ہے کہ معلومات سے علم بننے کا سفر ترتیب معلومات اور تصورات بننے کے عمل سے ہوتا ہے۔اس میں درج ذیل اعمال حصہ لیتے ہیں:

1        مشاہدہ :مشاہدہ جتنا زیادہ ہوگا اتنی ہی خصوصیات اور اقسام ہمارے سامنے ہوں گی۔

2        درجہ بندی:خصوصیات اور اقسام کے درمیان یکسانیت اور اختلاف کی بنیاد پر درجہ بندی ہوتی ہے۔

3        تعمیمات: وہ بیانات ہوتے ہیں جن میں کسی درجہ یا جماعت میں شامل اشیا یا اعمال کی اہم ترین خصوصیات کابیان ہوتا ہے۔ یہی بیان تعریف کہلاتا ہے۔

تصور کی جامعیت کا انحصار مشاہدے پر ہوتا ہے۔ تصورات کی آموزش جیروم برونر کی وقوفی نفسیات کے میدان میں تحقیقات کی بنیاد پر ہے،برونر کے مطابق: ’’تصورات وہ ذہنی خاکے ہوتے ہیں جو ہمیں افراد ، اشیا، اعمال،مواقع یا خیالات کو درجہ بندکرنے میں مدد کرتے ہیں اور یہ ہر شے، عمل، خیال اور واقع کی مخصوص خصوصیات ہوتی ہیں۔‘‘

بروئز کے مطابق ہر تصور کے کچھ اجزا ہوتے ہیں جو ان کی آموزش میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں:

1        نام

2        مثالیں اور غیر مثالیں

3        خصوصیات

4        خصوصیات کا دائرہ کار

5        تعریف

کوئی طالب علم کسی تصور کو کتنی اچھی طرح سمجھتا ہے اس کی جانچ بھی ان کے ذریعہ ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی طالب علم کسی تصور کی مثالیں دے سکتاہے یا مثالوں اور غیر مثالوں میں فرق کر سکتاہے، اس کی خصوصیات بتا سکتاہے اورخصوصیات کی بنیاد پر اس کی تعریف بیان کر سکتا ہے تب ہی ہم  کہہ سکتے ہیں کہ اس طالب علم کے تصورات واضح اور صحیح ہیں۔

.3       ذہانت: آسان اور عام زبان میں سمجھا جائے تو ذہانت ذہن کی کار کردگی کو کہا جاتاہے یعنی جو کام ہمارا ذہن کرتا ہے اسے ہی ذہانت کہتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ ذہن کیا کام کرتا ہے پچھلے صفحات میں ہم نے دیکھا کہ ذہن ہمارے حسی اعضا سے ملنے والی محرکات کو ایک ترتیب وار عمل کے ذریعہ علم میں تبدیل کرتا ہے۔ انسان ابتدا سے ہی علم حاصل کرتا آیا ہے۔ چند مفکرین نے اس بات پر بھی غو ر کرنے کی کوشش کی کہ ایک ہی مقام پر رہنے والے افرادکے علم اور کار کردگیوں میں فرق کیوں پایا جاتا ہے؟ مفکرین اور ماہرین کی کاوشوں کے نتیجہ میں اب یہ علم ہمارے پاس موجود ہے کہ ذہن کون کون سے اعمال کرتا ہے اور یہ کہ ہر انسان کا ذہن ایک سے اعمال نہیں کرتاان ہی کاوشوں کے نتیجہ میں ’ذہانت‘کا تصور ابھر کر سامنے آتاہے۔

انسان کی اپنی اور اپنے ارد گرد کے ماحول کی سمجھ،ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت، مسائل کو پہچاننے اور ان کو حل کرنے کی صلاحیت،اپنا علم اور سمجھ دوسروں تک منتقل کرنے اور دوسروں کی بات سمجھنے کی صلاحیت جسے ترسیلی صلاحیت  (Communication Skill)  یا گفتگو بھی کہا جاسکتا ہے، غور و فکر کرنے کی صلاحیت ایسی چند صلاحیتیں ہیں جو تقریباً ہر عام انسان میں پائی جاتی ہیںان ہی صلاحیتوں کو بنیاد بنا کر سائنسدانوں اور مفکرین نے ذہانت کی تعریف بیان کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں سے چند کاذکر درج ذیل سطور میںکیا جا رہاہے۔

1994 میں شائع ہونے والی ’مین اسٹریم سائنس آن  انٹیلی جنس‘(Mainstream Science on Intelligence)  میں پچاس سے زیادہ ماہرین نے اتفاق رائے سے بتایا :

’’ ذہانت ایک عام ذہنی صلاحیت ہے جس میں دلائل پیش کرنے کی صلاحیت، منصوبہ بندی، مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت، تجریدی(Abstract) طرز فکر، پیچیدہ خیالات کو سمجھنے کی صلاحیت، تیزی سے سیکھنے اور تجربات سے سیکھنے کی صلاحیت شامل ہیں ‘‘۔ بورڈ آف سائنٹفک افیئرز آف امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کے ذریعے1995 میں شائع کی گئی’انٹیلی جینس: نو اینڈ آن نونز‘ (Intelligence: know and unknowns) میں دیا گیا ہے کہ ’’افراد ایک دوسرے سے جن صلاحیتوں میں مختلف ہوتے ہیں وہ صلاحیتیں ہیں : پیچیدہ خیالات کو سمجھنے کی صلاحیت، ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت ،تجربے سے سیکھنے کی صلاحیت، فکری مسائل حل کرنے کے لیے استدلال کی مختلف شکلوں کو استعمال کرنے کی صلاحیت وغیرہ‘‘یہ ضروری نہیں ہے کہ جس فرد میں یہ صلاحیتیں ہوں وہ ان کا اظہار اور استعمال تمام حالات میں کرتا بھی ہو۔ وقت، موقع اور حالات کے مطابق انسان ان صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے۔

اجتماعی طور پر دی گئی ان تعریفوں کے علاوہ نفسیات دانوں، ماہرین تعلیم اور مفکروں نے انفرادی طور پر بھی ذہانت کی تعریف بیان کی ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

ڈیوڈ  ویچلر(David Wechsler) کے مطابق :

’’کسی فرد کی وہ مجموعی صلاحیت جس کے ذریعے وہ با مقصد عمل کر سکتا ہو، منطقی فکر استعمال کرتا ہو اور اپنے ماحول سے مناسب مطابقت پیدا کر سکتا ہو، ذہانت کہلاتی ہے‘‘

سیرل برٹ (Cyril Burt) کے مطابق:

’’ذہانت ایک باطنی عام ذہنی صلاحیت کا نام ہے۔‘‘

یوں تو انسان جب سے اس دنیا میں آیاہے نہ صرف اپنے طبیعی ماحول سے مطابقت پیدا کرتا رہا ہے بلکہ اپنی ضرورتوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں بھی کرتارہا ہے۔انسان ایک سماجی جانوربھی ہے اور سماج میں رہنے کے لیے دوسرے انسانوں کے ساتھ ربط قائم کرنے، تبادلہ خیالات کرنے،مسائل کو سمجھنے اور انھیں حل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔اس کے پاس ذہنی اور سماجی دونوں قسم کی صلاحیتیں رہی ہیںجن کا اس نے بھرپور استعمال کیا ہے۔ انسان کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی صلاحیتوں کے اعتبار سے اس کے کام کی تقسیم بھی ہوتی رہی ہے۔’مخصوص کام‘کو انجام دینے کے لیے مناسب صلاحیتوں کے انسانوں کی تلاش صلاحیتوں کی پہچان کی سمت لے گئی۔ انسانی صلاحیتوں کی باقاعدہ پہچان کا سلسلہ بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ہوا۔ان صلاحیتوں کو پہچاننے اور پیمائش کرنے کے لیے پیمانہ تیا رکیا گیا۔

یہ پہلا پیمانہ الفرڈ بنے(Alfred Binet) نام کے ایک ماہر نفسیات نے کیا۔الفرڈ بنے ایک فرانسیسی نفسیات داں تھے جن کی پیدائش 8جولائی 1856کو ہوئی اور 18اکتوبر 1911  میں ان کا انتقال ہوا۔الفرڈ نے مختلف مقامات پر مختلف قسم کے کام کیے ہیں۔ 1954میں فرانسیسی حکومت نے ایک کمیشن قائم کیا جو ذہنی طور پر معذور بچوں کی تعلیم کا انتظام کر سکے۔یہ ذمہ داری ایک فرنچ پروفیشنل گروپ کو سونپی گئی جس کے ایک ممبر الفرڈ بنے بھی تھے۔بنے اور ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر تھیوڈور سائمن نے مل کر ایک پیمانہ تیار کیا جس کے ذریعہ مختلف عمر کے بچوں کی عام صلاحیتوں کی پہچان ہو سکتی تھی۔یہ پہلا پیمانہ تھا جو ’بنے - سائمن- پیمانے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ان صلاحیتوں کی پہچان کافی عرصے تک مختلف عمر کے بچوں کی حرکات و صلاحیتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد کی گئی۔ یہی وہ پیمانہ ہے جسے ’ذہنی صلاحیتوں کی پیمائش کاپہلا پیمانہ‘ تسلیم کیا گیا۔

بعد میں تحقیق و تجربے کی بنیا دپر اس پیمانے میں تبدیلیاںکی گئیں اور اسی کے ساتھ ماہرین کی توجہ اس سمت ہونے کے باعث نئے پیمانے بنائے گئے اور ذہانت کی ایک اور تعریف بیان کی گئی:

’’ذہنی صلاحیتوں کی پیمائش کے پیمانے کے ذریعہ پیمائش کی گئی صلاحیتیں ہی ذہانت ہے۔‘‘

جب ذہنی صلاحیتوں کی پہچان اور پیمائش کا سلسلہ شروع ہوا تو بہت سے ماہرین تعلیم اور نفسیات دانوں نے ذہنی صلاحیتوں اور ذہانت پر تحقیق کے بعد اپنے نظریات پیش کیے۔

ماخذ: تعلیمی نفسیات، مصنف: طلعت عزیز، پہلی اشاعت: 2013، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو نثر میں ’ مضمون نما تحریریں ‘،مضمون نگار: سیدہ جعفر

  اردو دنیا،اگست 2025 اسّے   Essay یا مضمون کی سب سے ابتدائی اور قدیم صورتیں امثال اور کہاوتیں ہیں۔ 1جب انسانوں نے اجتماعی زندگی بسر کرنی شر...