29/12/25

ماہر عروض ڈاکٹر شعور اعظمی: کچھ یادیں، کچھ باتیں،مضمون نگار: ساجد جلال پوری

 اردو دنیا،اگست 2025

26فروری 2025 کو شام سات بجے ہمارے عزیز دوست اور جواں فکر شاعر وصی جلال پوری نے ممبئی سے نہایت کرب کے عالم میں اطلاع دی کہ عروس البلاد کے استاد شاعر ڈاکٹر قاسم مہدی المعروف شعور اعظمی صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ یہ خبر سن کر دل و  دماغ کو شدید جھٹکا لگا۔یقین نہیں ہورہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اتنی جلدی ادبی دنیا کو سوگوار کرجائیں گے۔تسلی کے لیے فوراً ڈاکٹر قمر صدیقی صاحب ممبئی یونیورسٹی و مدیر اردو چینل کو فون کیا تو انھوں نے بھی موت کی تصدیق کر دی اور بتایا کہ کوئی بہت زیادہ بیمار نہیں تھے بلکہ کل تک وہ گوونڈی میں اپنے مطب پر بھی آئے تھے، آج  اچانک کچھ طبیعت خراب ہوئی ،اسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا اور حرکت قلب رک جانے کے باعث برہانی اسپتال میں انتقال ہوا۔

ڈاکٹر شعور اعظمی کی ولادت یکم ستمبر 1957 عیسوی  اعظم گڑھ میں ہوئی۔ آپ کا تاریخی نام ’سید کلیم اختر‘ 1375ہجری ہے۔   ادبی دنیا میں ماہر عروض و لغت کی حیثیت سے مستحکم شناخت ہے، جس کا ثبوت ان کی کتاب ’شعور عروض‘ و ’فرہنگ شعور‘ کی بے پناہ مقبولیت اور ممبئی یونیورسٹی کے نصاب میں شمولیت ہے۔

اس کے متعلق ڈاکٹر قمر صدیقی رقم کرتے ہیں کہ ’’میں نے شعور اعظمی جیسا فنافی الاردو کوئی  دوسرا نہیں دیکھا۔ زبان و ادب سے یہ محبت انھیں ورثے میں ملی ہے۔کچھ  طبیعت کی افتاد اور کچھ وراثت اجداد نے انھیں اردو تہذیب کی تمثال میں ڈھال دیا ہے۔ شعور صاحب کا میدان عروض ہے ۔  وہ عروضی مسائل پر واضح اور مدلل موقف رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتاب’شعور عروض‘ خاص و عام میں مقبول ہے۔ ’فرہنگ شعور‘ عروض اور قافیہ کے اصطلاحات کی فرہنگ ہے۔ میری ناقص معلومات کے مطابق اردو میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔ ‘‘  (بحوالہ کتاب ’فرہنگ شعور‘ )

 ڈاکٹر شعور اعظمی کی انفرادیت کے متعلق  جو میں نے محسوس کیا وہ ان کے مطالعے کی وسعت تھی، جس موضوع پر آپ بات شروع کرتے اس کی گہرائی و گیرائی میں اتر جاتے اور سامنے والے کو مطمئن کردیتے۔

ان کا انفراد و اختصاص یہی تھا کہ مشکل سے مشکل موضوع یا مضمون پر قلم چلاتے، سنگلاخ زمینوں اور مشکل بحروں میں اشعار کہتے۔ وہ اپنی دھن کے پکے تھے۔اپنی ذہانت کا دیانت کے ساتھ استعمال کرتے ۔

وہ اردو ادب کے ایک نہایت باشعورشاعرو ادیب، محقق، نقاد  تھے۔ اردو،فارسی اور انگریزی زبانوں میں انھیں خصوصی مہارت تھی۔ ان کی فارسی زبان میں خدمات پر ایران میں اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ حقیقت میں لفظ شعور ان پر زیب دیتا تھا۔ وہ اسم بامسمٰی تھے اور انھیں بھی اس لفظ سے شدید انسیت تھی۔ شاید یہی وجہ ہو کہ ان کی ساری کتابوں کے نام کے ساتھ شعور کا سابقہ اور لاحقہ موجود ہے ۔ انھوں نے جو بھی سوچا، جس موضوع پر غور و فکر کیا اس کو عملی جامہ پہنایا-

تصنیف و تالیف کے حوالے سے ان کی آخری خواہش جو انھوں نے ایک گفتگو کے دوران مجھ سے ذکر کی کہ بس ’شعور اللغات‘ کسی طرح لکھ دوں اس کے بعد زندگی تمام ہوجائے تو مجھے کوئی فکر نہیں ۔

ماہ محرم میں جب اپنے وطن چماواں اعظم گڑھ تشریف لائے تو مجھے خاص طور سے  بلایا اور میں نے وہاں حاضری دی۔ اس وقت وہاں بنارس، اعظم گڑھ، جون پورکے تمام علمائے کرام بیٹھے ہوئے تھے، ان سے میرا تعارف کروایا اور اپنی کتابیں پیش کیں۔ دوران گفتگو انھوں نے اپنا لیپ ٹاپ نکالا اور’شعور اللغات‘ کا مسودہ دکھانے لگے۔کہہ رہے تھے کہ اس میں صرف وہ الفاظ شامل ہوں گے جن کی سند صرف انیس، دبیر،عشق و تعشق  وغیرہ کے مرثیوں سے ملے گی۔ وہ اس کام کے حوالے سے نہایت پرجوش تھے۔تین چوتھائی کام مکمل ہوچکا تھا۔

واقعاً یہ بہت بڑا ادبی کارنامہ تھا مگر اچانک موت سے یہ خواب اسی طرح نامکمل رہ گیا جیسے ’سیرت النبیؐ‘ کی تکمیل علامہ شبلی نعمانی اپنی زندگی میں نہیں کر سکے۔ خدا کرے کہ سید سلیمان ند وی کی طرح ڈاکٹر شعور اعظمی  کو  بھی کوئی ادبی جانشین مل جائے تاکہ ان کا یہ خواب ،ڈریم پروجیکٹ پورا ہوسکے۔

میرے شہر جلال پور سے ان کا وطن چماواں چالیس کلومیٹر دور کیفی اعظمی کے گاؤں مجواں کے قریب ہے۔ ان کے خاندان ،عزیز و اقارب میں پروفیسر سجاد باقر لاہور،فہیم اعظمی مدیر ماہنامہ’ صریر‘ کراچی ، ڈاکٹر پیام اعظمی وغیرہ ہیں، انھوں نے مجھے دکھایا کہ مشہور نقاد و  جاسوسی ناول نگار پروفیسر مجاور حسین رضوی (ابن سعید) کا نانیہال ان کے مکان کے سامنے ہے۔ اور وہ بھی عزیزوں میں ہیں۔

ڈاکٹر شعور اعظمی کے والد مہدی اعظمی (ولادت 1936 وفات2019 ) ممبئی میونسپل اسکول میں مدرس اور کہنہ مشق شاعر تھے-انھوں نے شعور صاحب کو سات سال کی عمر میں ممبئی بلالیا اور وہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی اور  طبیہ کالج ممبئی  سے انھوں نے طب یونانی میں سند حاصل کی۔انھوں نے اپنے والد مہدی اعظمی کی ساری کتابوں کو اشاعت سے ہمکنار کیا۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے کہ انسان اپنی ذاتی مصروفیات سے وقت نکال کراپنے اسلاف کی میراث کو بچانے اور سنوارنے کا کام کرے۔اسی کو کہتے ہیں نیک خلف ،نیک سلف۔

ڈاکٹر شعور اعظمی کو ممبئی شہر میں بڑے بڑے اساتذہ فن کی صحبتیں اور قربتیں نصیب ہوئیں،جو ان کی شخصیت کو سجانے،سنوارنے،نکھارنے کا باعث بنیں جیسے شاگردان علامہ آرزو لکھنوی، پرتو لکھنوی،احسن دانا پوری،کے علاوہ سروش الٰہ آبادی، غلام حسنین شفیق کراروی، ریاض جرولی، مولانا حسن عباس فطرت ہلوری وغیرہ۔

وہ اکثر دوران گفتگو عہد حاضر کے تمام شاعروں، ادیبوں، ناقدوں کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کرتے تھے، اس سے معلوم ہوتا کہ ان کا مطالعہ و مشاہدہ کتنا وسیع و عمیق ہے۔ وہ اپنی بات کو  تمام دلائل و شواہد سے ثابت کرتے، خشک سے خشک اور سنگلاخ سے سنگلاخ موضوع کو اپنے علم و مطالعہ سے گلزار بنادیتے-ان کی گفتگو میں عہد قدیم و جدید کا پورا منظرنامہ آنکھوں کے سامنے آجاتا۔ اپنے سے کم عمر شعرا کو بھی ہمیشہ خوبصورت اور حوصلہ افزا کلمات سے یاد کرتے ۔

وہ ایک نستعلیق شخصیت تھے۔ ان کو محفل و مشاعرہ میں دیکھ کر میر و غالب کا زمانہ یاد آجاتا۔ ہمیشہ خوش پوشاک کرتا پاجامہ، شیروانی، ٹوپی میں رہتے۔ دراز قد ہونے کے باعث یہ لباس ان پر زیب دیتا۔ 

آپ کو علم و ادب کی محفلوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ پورا ممبئی شہر ان کا گرویدہ تھا۔ ممبئی یونیورسٹی کے اکثر سمیناروں، جلسوں، میں انھیں تقریریں کرنے، مقالے پڑھنے،انٹرویو پیش کرنے اور طلبا کی رہنمائی کے لیے مدعو کیا جاتا۔ زیادہ تر ادبی نشستوں ،مذہبی محفلوں کی صدارت ان کے حصے میں آتی تھی،بزرگ شاعر کی حیثیت سے  سب سے آخر میں پڑھنا بھی پڑتا۔ مجھ سے کہتے تھے ساجد کیا کریں، اب تو ساری محفل شاعر نما متشاعر لوٹ کر لے جاتے ہیں اور جب تک ہمارا نمبر پڑھنے کا آتا ہے تو گنے چنے لوگ ہی بچتے ہیں اور پھر شعرا کی فہرست میں طوالت کے باعث شاعروں سے کلام میں تخفیف کرنے کو کہاجاتاہے، بہر حال بادل نخواستہ خانہ پری کرنی پڑتی ہے۔  اس موقعے پر اسی پس منظر میں کہا گیا ان کا خوبصورت شعر یاد آگیا        ؎

مختصر پڑھنے کی کیوں شاعر سے فرمائش رہے

اتنے ہی شاعر بلائیں جتنی گنجائش رہے

لیکن یہ عزت و  مقام ملنا بھی بہت بڑی بات ہے۔ ممبئی شہر جہاں تمام اہل فن موجود ہوں، علم و ادب سے لے کر  فلم نغمہ نگاری تک کی بڑی بڑی ہستیاں ہوں وہاں اگر قدردانی ہورہی ہے تو یہ خود بہت بڑا اعزاز ہے ۔

ڈاکٹر شعور اعظمی پہلے صرف منقبتی شاعری ہی کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے غزل،قصیدہ، رباعی، قطعات، مادہ تاریخ، وغیرہ کسی  صنف سخن کو تشنہ نہیں چھوڑا۔ ادب کی دنیا میں قدم کیسے رکھا-اس پر وہ اپنی کتاب ’ترکی بہ ترکی ‘میں لکھتے ہیں:

’’میرے لیے دوسری بڑی نعمت وہ احباب ہیں جنھوں نے میدان منقبت سے باہر جولان گاہ ادب جدید میں قدم رکھنے پر اصرار کیا، ان میں شمیم عباس، ڈاکٹر قمر صدیقی، عبید اعظم اعظمی وغیرہ شامل ہیں۔ دعائے خیر مرحوم پروفیسر صاحب علی کے لیے، جنھوں نے ممبئی یونیورسٹی کے سمیناروں میں مشاہیر ادب کے ساتھ پڑھنے کا موقع دیا، ان میں پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر قاضی افضال حسین، پروفیسر قاضی جمال حسین، پروفیسر انیس اشفاق،شمیم طارق،اور صفدر امام قادری تھے۔ ‘‘

پورے ہندوستان میں اہل علم حقیقی معنوں میں  انھیں استاد کی حیثیت سے دیکھتے ،ہر جگہ عزت و تکریم کے ساتھ مدعو کیے جاتے-ابھی نومبر میں جوگی پورہ بجنور میں محفل میں شرکت کی ،وہاں بیسوں سال سے ان کا مصرع طرح رہتا تھا،مجھ سے بھی کہا تھاکہ آپ بھی بحیثیت شاعر کے آجائیے۔ لیکن میں درس و تدریس کی مصروفیات کے باعث نہیں جاسکا، جس کا مجھے شدید ملال ہے۔ کاش اسی بہانے ان سے ایک ملاقات اور ہوجاتی۔

وہ کسی بڑی شخصیت یا نقاد سے مقدمہ،پیش لفظ لکھوانے کے بہت قائل نہیں تھے -اس کا ثبوت ان کی معرکۃ الآرا کتاب ’ترکی بہ ترکی‘ ہے جو انھوں نے سخت ترین نقاد پروفیسر کلیم الدین احمد کی کتاب ’میر انیس‘ کے جواب میں لکھی ہے۔ اس پر بھی کسی کی تحریر نہیں۔خود  کلیم الدین احمد کی کتابوں سے ہی اس کا مدلل و تشفی بخش جواب دیا ہے۔ سوچیے جو نقاد اپنے والد کے علاوہ کسی کی شاعری کے قائل نہ ہو ان  کی کتاب کا جواب لکھنا کتنا مشکل کام تھا مگر شعور اعظمی صاحب نے نہایت سنجیدہ انداز میں جواب لکھا ہے۔  اس جواب کے سلسلے میں شمس الرحمن فاروقی صاحب سے بھی ان کی گفتگو ہوئی۔ انھوں نے بھی حوصلہ بڑھایا اور کلیم الدین احمد کی سخت گیری اور میر انیس  کی شاعری پر تنقید و تنقیص کی انھوں نے بھی شدت سے  مخالفت کی۔

وہ ایک بہترین شاعر،ادیب، خطیب، مرثیہ گو، مرثیہ خوان بھی تھے۔ میری ان سے آخری گفتگو 24جنوری کو ہوئی۔ 11سے13جنوری 2025کو ممبئی یونیورسٹی میں منعقد ’جشن اردو‘ پروگرام کے سلسلے میں انھوں نے مجھے فون کیا جس میں مختلف اصناف سخن پر پروگرام رکھے گئے تھے۔ مرثیہ خوانی پر ان کے بیٹے منذر شعور نے میر انیس کے انداز میں مرثیہ پڑھا تھا جسے سامعین نے بہت پسند کیا تھا -وہ بہت خوش تھے،کہہ رہے تھے کہ پہلی بار ممبئی یونیورسٹی میں اس قسم کا ایونٹ تھا اور پھر منذر کی مرثیہ خوانی اور ادائیگی نے سامعین کو مسحور کردیا۔ میں نے بھی اس پروگرام کو یوٹیوب پر دیکھا، واقعی ان کے بیٹے نے میر انیس جیسی پوشاک، انگرکھا اور دوپلی ٹوپی پہنی تھی اور ان کے مرثیے کا انداز پیش کش نہایت عمدہ اور متاثر کن تھا،طلبا سے لے کر اساتذہ تک سب محظوظ ہوئے ۔

ظاہر سی بات ہے مرثیہ پڑھنا بھی ایک الگ فن ہے۔پروفیسر نیر مسعود  نے تو مرثیہ خوانی پر ایک جامع کتاب ’مرثیہ خوانی کا فن‘ بھی تحریر کی ہے۔   پھر دوران گفتگو انھوں نے معروف ادیب و نقاد حقانی القاسمی صاحب کا ذکر کیا جو  ایک سیمینار کے سلسلے میں ممبئی آئے تھے مگر طبیعت اچانک بہت خراب ہوگئی تھی۔

بہرحال یہ میری ان سے سات منٹ کی آخری گفتگو تھی-پھر ایک مہینے کے بعد 26فروری 2025  کو اچانک ان کے انتقال کی خبر ملتی ہے۔ کاش وہ کچھ سال  اور زندہ رہتے تو اردو والے ان سے اور استفادہ کرتے، لیکن قدرت کو جو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اس کی مرضی میں کسی کو دخل کا اختیار نہیں ۔

شعور مدحت‘ ان کا ایسا نعتیہ مجموعہ ہے جس میں ہربحرمیں ایک نعت لکھی ہے۔ ہر کلام کے اوپر بحر کا نام مع افاعیل درج ہے۔ یہ کتاب بھی عروض کے شائقین، طلباکے لیے نہایت مفید ہے ۔

آخر میں ہمیں یہی کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر شعور اعظمی اردو ادب کی تمام اصناف سخن پر دسترس رکھتے تھے۔

 ان سے مشورہ سخن کرنے والے، شاگردان اور چاہنے والے صرف ممبئی ہی نہیں پورے ملک میں موجود ہیں۔ ان کے انتقال پر ادبی دنیا سے جو تعزیتی پیغامات موصول ہوئے ہیں اس سے احساس ہوتا ہے کہ ان کے روابط کہاں کہاں تھے۔ مجھ سے خود کئی شعراء نے بیان کیا کہ جب بھی کوئی عروض و بحر کا معاملہ درپیش ہوتا تو ڈاکٹر صاحب سے رجوع کرتے تھے۔   عوام میں ان کی مقبولیت کا اندازہ اسی سے لگا لیں کہ ان کی تدفین میں بلا تفریق مذہب و مسلک ہزاروں لوگوں کا جم غفیر تھا- ادب کی بڑی بڑی  شخصیات ہوں یا علمائے کرام سبھی غم زدہ تھے۔ ان کے شیدائی ڈھاڑیں مار کر رو رہے تھے۔ جس انجمن والوں کو برسوں سے  نوحے لکھ لکھ کر  دیتے تھے وہ ان کی قبر پر انھیں کانوحہ پڑھ رہے تھے،جو ان کے حال کا ترجمان تھا       ؎

اک روز تم تو خاک میں مل جاؤ گے شعور

باقی رہے گا نوحہ تمھارا ،تمھارے بعد

 

Azadar Husain Sajid Jalalpuri

Mohalla: Jafrabad, Post. : Jalalpur

Dist. Ambedkar  Nagar - 224149 (UP)

Mob.: 7571867185

azadarhusainsajid@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو نثر میں ’ مضمون نما تحریریں ‘،مضمون نگار: سیدہ جعفر

  اردو دنیا،اگست 2025 اسّے   Essay یا مضمون کی سب سے ابتدائی اور قدیم صورتیں امثال اور کہاوتیں ہیں۔ 1جب انسانوں نے اجتماعی زندگی بسر کرنی شر...