17/12/25

سماجی رویے اور معذور طلبا: ایک نئے نقطۂ نظر کی ضرورت ،مضمون نگار: محمد جہانگیر عالم

اردو دنیا،جون 2025

جب ہم معذوری کا لفظ سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں فوراً ایک مخصوص تصور آتا ہے—کوئی وہیل چیئر پر بیٹھا ہو، بیساکھیوں کا سہارا لے رہا ہو یا کسی مددگار کی ضرورت محسوس کر رہا ہو۔ لیکن معذوری صرف جسمانی رکاوٹ کا نام نہیں، بلکہ یہ اس طرزِ فکر کا بھی مسئلہ ہے جو ہم نے معذور افراد کے بارے میں اپنا رکھا ہے۔ اکثر، سب سے بڑی رکاوٹ جسمانی نہیں بلکہ معاشرتی اور نفسیاتی ہوتی ہے۔

معذور طلبہ کو درپیش مسائل کی بڑی وجہ ان کا جسمانی چیلنج نہیں بلکہ لوگوں کا رویہ ہے۔ انھیں اکثر محتاج، کمزور یا دوسروں کے سہارے پر جینے والا سمجھا جاتا ہے۔ اس رویے کے باعث ان کی صلاحیتوں، خوابوں اور عزائم کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ان کی قابلیت کو پرکھنے کے بجائے، معاشرہ ان کی کمزوریوں پر زور دیتا ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ معذوری کسی فرد کی ذہانت، تخلیقی صلاحیت یا کامیابی کی صلاحیت کو محدود نہیں کرتی۔ اگر انھیں مناسب سہولیات، حوصلہ افزائی اور دوستانہ تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے، تو وہ بھی دوسروں کی طرح کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ ہمارے زاویۂ نظر کو بدلنے کا ہے۔

ہمیں ہمدردی کے بجائے اختیار دینے پر زور دینا ہوگا۔ اساتذہ، والدین اور معاشرہ مل کر ایک ایسا ماحول بنائیں جہاں معذور طلبہ خوداعتمادی محسوس کریں اور اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکیں۔ جب ہم معذوری کے بجائے صلاحیت پر توجہ دیں گے، تب ہی ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکیں گے جہاں ہر طالب علم کو کامیابی کے یکساں مواقع میسر ہوں، چاہے اس کی جسمانی حالت جیسی بھی ہو۔

سماجی رکاوٹیں

جب ہم معذور طلبہ کو درپیش مشکلات کی بات کرتے ہیں تو زیادہ تر لوگ صرف جسمانی رکاوٹوں کے بارے میں سوچتے ہیں، جیسے اسکول میں ریمپ نہ ہونا یا مناسب سہولیات کی کمی۔ لیکن اصل میں سب سے بڑی رکاوٹیں وہ ہیں جو معاشرہ خود تخلیق کرتا ہے—نفسیاتی، تعلیمی، اور پیشہ ورانہ رکاوٹیں جو معذور طلبہ کے خوابوں کو محدود کر دیتی ہیں، چاہے ان میں صلاحیت موجود ہو۔

.1 نفسیاتی رکاوٹیں: کم توقعات کا دباؤ: سب سے بڑی سماجی رکاوٹ معذور طلبہ سے کم توقعات رکھنا ہے۔ اکثر لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ جسمانی معذوری رکھنے والے طلبہ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس سوچ کی وجہ سے والدین ان کے تعلیمی مواقع محدود کر دیتے ہیں، اساتذہ انھیں مشکل مضامین پڑھانے سے گریز کرتے ہیں، اور معاشرہ انھیں کسی بڑے منصب یا کامیابی کے قابل نہیں سمجھتا۔

جب ایک بچہ بار بار یہ سنتا ہے کہ وہ زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتا، تو وہ خود بھی اس پر یقین کرنے لگتا ہے۔ بالآخر، وہ اپنی صلاحیتوں کو دریافت کرنے کے بجائے محدود خواب دیکھنے لگتا ہے، جس سے اس کی ترقی رک جاتی ہے۔

.2       تعلیمی رکاوٹیں: شمولیتی تعلیمی نظام کی کمی: ہمارے تعلیمی نظام اکثر صرف عام طلبہ کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے معذور طلبہ کے لیے مساوی مواقع حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بہت سے اسکولوں میں بنیادی سہولتیں، جیسے ریمپ، لفٹ، یا آسانی سے قابلِ رسائی کمرہ، جماعت موجود نہیں ہوتے، جو معذور طلبہ کو تعلیم کے حق سے محروم کر دیتے ہیں۔

لیکن مسئلہ صرف انفراسٹرکچر تک محدود نہیں ہے۔ روایتی تدریسی طریقے اکثر معذور طلبہ کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔ بیشتر اسکول جدید تدریسی وسائل جیسے اسسٹِو ٹیکنالوجی، اسکرین ریڈرز، یا خصوصی تدریسی مواد فراہم نہیں کرتے۔ مزید برآں، اساتذہ کو عموماً شمولیتی تعلیم کے بارے میں تربیت نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے وہ نادانستہ طور پر معذور طلبہ کو نظر انداز کردیتے ہیں، اور وہ تعلیمی ماحول میں خود کو الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ، معذور طلبہ کو اکثر اعلیٰ تعلیمی اور پیشہ ورانہ اہداف حاصل کرنے سے روکا جاتا ہے۔ انھیں ڈاکٹر، انجینئر، کاروباری یا فنکار بننے کی ترغیب دینے کے بجائے ’آسان‘  پیشے چننے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہ محدود سوچ ان کے مواقع کو کم کر دیتی ہے اور اس غلط نظریے کو تقویت دیتی ہے کہ کچھ شعبے ان کے لیے موزوں نہیں ہیں، چاہے ان میں صلاحیتیں موجود ہوں۔

.3       پیشہ ورانہ رکاوٹیں: مساوی مواقع کی جدوجہد: تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی، معذور طلبہ کو ملازمت کے مواقع میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے آجر (Employers) اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ معذور افراد کم اہل، کم محنتی، یا اضافی سہولتوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے، وہ اکثر میرٹ پر پورا اترنے کے باوجود ملازمتوں کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔

بہت سی کمپنیاں ایسی ورک پلیس پالیسیز اختیار نہیں کرتیں جو معذور افراد کے لیے مددگار ثابت ہو سکیں، جیسے لچکدار اوقاتِ کار یا قابلِ رسائی دفاتر۔ نتیجتاً، معذور طلبہ کو نہ صرف روزگار کے مواقع کم ملتے ہیں بلکہ وہ سماج میں برابر کے شہری کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو بھی ثابت نہیں کر پاتے۔

ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات

ان سماجی رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے سب سے ضروری قدم سوچ کی تبدیلی ہے۔ معذوری کو کمزوری سمجھنے کے بجائے، اسے ایک منفرد صلاحیت کے طور پر قبول کرنا چاہیے۔اس مناسبت سے مندرجہ ذیل اقدامات قابل ذکرہیں:

        شمولیتی پالیسیوں کا نفاذ:اسکولوں میں شمولیتی پالیسیوں کا نفاذ ضروری ہے، تاکہ معذور طلبہ کو بھی وہی معیاری تعلیم اور مواقع ملیں جو دوسرے طلبہ کو دیے جاتے ہیں۔

        شعوربیداری: آجروں اور کمپنیوں کو معذور افراد کے بارے میں آگاہی دی جانی چاہیے، تاکہ وہ انھیں ملازمتیں دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوں۔

        حوصلہ افزائی: معذور طلبہ کو بڑے خواب دیکھنے اور انھیں پورا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی ملنی چاہیے، نہ کہ ان کی صلاحیتوں کو شک کی نظر سے دیکھا جائے۔

جب معاشرہ ترس کھانے کے بجائے حوصلہ افزائی کو اپنائے گا اور خارج کرنے کے بجائے شامل کرنے کی سوچ پیدا کرے گا، تبھی حقیقی معنوں میں ایک ایسا ماحول بنے گا جہاں ہر طالب علم— چاہے وہ کسی بھی جسمانی حالت میں ہو—برابر کے مواقع حاصل کر سکے اور اپنی صلاحیتوں کو ثابت کر سکے۔

خاندانی اور سماجی تعاون

کسی بھی طالب علم کی کامیابی میں گھر اور معاشرے کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، لیکن معذور طلبہ کے لیے یہ تعاون اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر خاندان اور سماج ان کی صلاحیتوں کو پہچانے اور انھیں حوصلہ دے، تو وہ کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر انھیں کمزور سمجھا جائے، حدیں مقرر کی جائیں، یا ان پر غیر ضروری ہمدردی کی جائے، تو یہ ان کے اعتماد کو کمزور کر سکتا ہے۔

.1       والدین کا کردار: اعتماد اور حوصلہ افزائی: اکثر والدین اپنے معذور بچوں کے بارے میں زیادہ فکر مند ہوتے ہیں، اس لیے وہ:

        زیادہ تحفظ دینے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے بچے کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔

        مشکل کیریئر کے انتخاب سے روکتے ہیں، یہ سوچ کر کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

        دوسروں سے موازنہ کر کے ان کا حوصلہ پست کر دیتے ہیں۔

حالانکہ، والدین کو چاہیے کہ وہ:

        بچوں کو خودمختار بننے دیں اور خود اعتمادی پیدا کریں۔

        ان کی دلچسپیوں اور صلاحیتوں کے مطابق کیریئر میں آگے بڑھنے میں مدد کریں۔

        معذوری کو رکاوٹ نہیں، بلکہ منفرد صلاحیت کے طور پر دیکھیں۔

.2  بہن بھائی اور خاندان: برابر کا سلوک ضروری:گھر کے ماحول میں اگر معذور بچوں کو برابر کا فرد سمجھا جائے، تو ان کا اعتماد بڑھتا ہے۔ بہن بھائی اور رشتہ دار اگر انھیں غیر ضروری مدد دیں یا ہمدردی کا اظہار کریں، تو وہ خود کو بوجھ محسوس کر سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ:

        ان سے روزمرہ کے کاموں میں شامل ہونے کو کہا جائے۔

        انھیں بھی فیصلہ سازی اور تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لینے دیا جائے۔

        خاندان کے افراد معذوری کے حوالے سے مثبت رویہ اپنائیں۔

.3       سماج کا کردار: مکمل شمولیت کی ضرورت: بہت سے معاشروں میں معذور افراد کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے:

  •         وہ سماجی تقریبات میں شامل نہیں ہو پاتے۔
  •          عوامی مقامات اور تفریحی مراکز میں سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں۔
  •          انھیں کمزور سمجھ کر ان کی صلاحیتوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

معاشرہ اگر انھیں مکمل شمولیت کا موقع دے، تو وہ زیادہ پر اعتماد اور کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ:

        عوامی مقامات کو معذور افراد کے لیے قابلِ رسائی بنایا جائے۔

        لوگوں کو معذوری کے بارے میں شعور دیا جائے تاکہ وہ بہتر رویہ اپنا سکیں۔

        معذور افراد کی کامیابیوں کو تسلیم کیا جائے تاکہ معاشرے میں مثبت سوچ پروان چڑھے۔

.4       دوست اور ہم عمر ساتھی: مضبوط سماجی دائرہ بنانا: دوستوں اور ہم جماعت ساتھیوں کا رویہ بھی معذور طلبہ کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اکثر:

  •          لوگ ان سے میل جول کم رکھتے ہیں، کیونکہ انھیں معذوری کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہوتا۔
  •          انھیں یا تو مکمل نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا ضرورت سے زیادہ ہمدردی دی جاتی ہے۔
  •          گروپ سرگرمیوں میں انھیں شامل نہیں کیا جاتا۔

اسے بدلنے کے لیے:

  •          اسکولز میں معذوری سے متعلق آگاہی سیشنز کرائے جائیں۔
  •         گروپ ایکٹیویٹیز میں سب کو برابر موقع دیا جائے۔
  •         سینئر طلبہ، معذور ساتھیوں کی مدد کے لیے رہنمائی پروگرامز کا حصہ بنیں۔

معذور طلبہ کی کامیابی صرف تعلیم پر منحصر نہیں، بلکہ ایک مضبوط سپورٹ سسٹم پر بھی ہے۔ اگر خاندان، دوست، اساتذہ، اور سماج مل کر انھیں مکمل شمولیت اور مواقع فراہم کریں، تو وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں اور زندگی میں کسی بھی مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔

میڈیا اور معذور طلبہ کی نمائندگی

میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے جو عوامی رائے کو تشکیل دیتا ہے اور معاشرے کے نظریات پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ بدقسمتی سے، فلموں، ڈراموں، خبروں اور سوشل میڈیا میں معذور طلبہ کی تصویر کشی اکثر غلط فہمیوں اور دقیانوسی تصورات کو فروغ دیتی ہے، بجائے اس کے کہ حقیقی معنوں میں شمولیت کو اجاگر کیا جائے۔

.1       انتہا پسندانہ پیشکش کا مسئلہ: زیادہ تر میڈیا میں معذوری کو دو انتہائی طریقوں سے پیش کیا جاتا ہے:

  •          المیہ اور بے بسی کی کہانی: معذور افراد کو کمزور، لاچار اور ہمدردی کے محتاج دکھایا جاتا ہے۔ اس سے لوگوں میں یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ معذوری ایک بدقسمتی ہے، نہ کہ ایک مختلف طرز زندگی۔ اس کا اثر معذور طلبہ کی خوداعتمادی پر بھی پڑتا ہے، اور وہ خود کو ایک بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔

        غیرمعمولی ہیرو کی کہانی: دوسری طرف، بعض اوقات معذور افراد کو ’سپر ہیومن‘ دکھایا جاتا ہے، جو صرف اس وقت قابل قدر سمجھے جاتے ہیں جب وہ کوئی غیر معمولی کامیابی حاصل کریں۔ حالانکہ کامیابیوں کو سراہنا ضروری ہے، لیکن یہ تاثر معذور طلبہ پر غیرضروری دباؤ ڈال دیتا ہے کہ انھیں مسلسل کچھ ثابت کرنا ہوگا۔

یہ دونوں طریقے معذور طلبہ کو ایک عام انسان کی طرح پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جن کی بھی اپنی خوبیاں، کمزوریاں، خواب اور چیلنجز ہوتے ہیں۔

.2 حقیقت پسندانہ اور متنوع نمائندگی کی کمی: ایک بڑا مسئلہ میڈیا میں معذور کرداروں کی کمی ہے۔ زیادہ تر فلموں اور ڈراموں میں معذور افراد یا تو بالکل نظر نہیں آتے، یا پھر انھیں ایسے اداکار ادا کرتے ہیں جو خود معذوری کے تجربے سے ناواقف ہوتے ہیں۔ جب معذور طلبہ کو اپنے جیسے لوگ کامیاب کرداروں میں نظر نہیں آتے، تو اس سے ان کی خود اعتمادی اور مستقبل کے خواب متاثر ہو سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ، جب میڈیا معذور افراد کو شامل کرتا بھی ہے تو زیادہ تر توجہ صرف ان کی معذوری پر ہوتی ہے، بجائے اس کے کہ ان کی صلاحیتوں، شخصیت اور خدمات کو اجاگر کیا جائے۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ معذوری کسی فرد کی پوری شناخت ہے، حالانکہ یہ صرف زندگی کا ایک پہلو ہے۔

.3  خبروں اور سوشل میڈیا کا کردار: خبروں اور سوشل میڈیا میں معذوری پر بات کرنے کا انداز بھی عوامی رائے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ زیادہ تر خبریں ’معذوری پر قابو پانے‘ کی کہانیاں دکھاتی ہیں، بجائے اس کے کہ وہ معاشرتی رکاوٹوں پر بات کریں جو معذور طلبہ کی زندگی کو مشکل بناتی ہیں۔

دوسری جانب، سوشل میڈیا معذور افراد کو اپنی کہانی خود سنانے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ یوٹیوب، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر کئی معذور افراد اپنی زندگی کے تجربات شیئر کر رہے ہیں، دقیانوسی تصورات کو چیلنج کر رہے ہیں، اور معاشرتی آگاہی بڑھا رہے ہیں۔ یہ آوازیں مرکزی دھارے کے میڈیا میں بھی شامل کی جانی چاہئیں تاکہ معاشرہ معذوری کی حقیقت کو بہتر طور پر سمجھ سکے۔

.4 میڈیا کس طرح مثبت کردار ادا کر سکتا ہے؟: حقیقی تبدیلی لانے کے لیے میڈیا کو درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:

  •         زیادہ حقیقت پسندانہ اور متنوع معذور کردار فلموں، ڈراموں اور کتابوں میں شامل کیے جائیں۔
  •         معذوری کے بجائے صلاحیتوں پر توجہ دی جائے، اور معذور طلبہ کو تعلیم، کھیل، کیریئر اور سماجی سرگرمیوں میں متحرک دکھایا جائے۔
  •          معذور افراد کو اپنی کہانی خود بیان کرنے کا موقع دیا جائے، تاکہ دوسرے لوگ ان کی زندگی کے تجربات براہِ راست سمجھ سکیں۔

l         معاشرتی رکاوٹوں اور سہولتوں کی کمی پر بات کی جائے تاکہ لوگ صرف ذاتی جدوجہد پر نہیں بلکہ مجموعی طور پر شمولیت اور رسائی کے مسائل پر بھی غور کریں۔

جب میڈیا معذور طلبہ کو صحیح اور مثبت انداز میں پیش کرے گا، تو نہ صرف معاشرتی رویے تبدیل ہوں گے، بلکہ یہ طلبہ خود کو زیادہ قابل، بااعتماد اور معاشرے کا برابر کا حصہ محسوس کریں گے۔

ہندوستان میں معذور طلبہ کے لیے سرکاری پالیسیاں اور قانونی تحفظ

ہندوستانی حکومت نے حالیہ برسوں میں معذور طلبہ کو مساوی تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے متعدد مثبت اقدامات کیے ہیں۔ مختلف پالیسیوں اور قوانین کے ذریعے ایسی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو معذور طلبہ کی ترقی میں حائل ہیں۔ لیکن ان اقدامات کے باوجود عملی سطح پر کئی چیلنجز باقی ہیں، جنھیں بہتر پالیسیوں اور سخت عمل درآمد کے ذریعے حل کرنا ضروری ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

.1 تعلیم کا حق اور شمولیتی اسکولنگ: رائٹ ٹو ایجوکیشن (RTE) ایکٹ 2009 نے تعلیم کو تمام بچوں کا بنیادی حق قرار دیا، جس میں معذور طلبہ بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد رائٹس آف پرسنز وِد ڈِس ایبیلٹیز (RPWD) ایکٹ 2016 کے ذریعے تمام عام اسکولوں کو معذور بچوں کے لیے شمولیتی بنانے کا حکم دیا گیا۔ حکومت نے سمگرشکشا ابھیان جیسے پروگرام بھی متعارف کرائے، جن کا مقصد معذور طلبہ کے لیے سہولیات فراہم کرنا ہے، جیسے کہ خصوصی اساتذہ، معاون آلات، اور آسان رسائی والا انفراسٹرکچر۔

چیلنجز

  •         کئی اسکولوں میں وہیل چیئر ریمپ، لفٹ، اور دیگر بنیادی سہولتیں موجود نہیں۔
  •          خصوصی تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی کی وجہ سے معذور طلبہ کو ذاتی تعلیمی مدد نہیں مل پاتی۔
  •         کچھ اسکول معذور طلبہ کو داخلہ دینے سے ہچکچاتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس وسائل اور آگاہی کی کمی ہے۔

.2  اعلیٰ تعلیم اور ملازمت میں ریزرویشن: معذور طلبہ کو مزید مواقع دینے کے لیے حکومت نے اعلیٰ تعلیم اور سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کا نظام متعارف کرایا۔ RPWD ایکٹ کے تحت کالجوں میں 5% اور سرکاری ملازمتوں میں 4% کوٹہ مقرر کیا گیا ہے، جس سے معذور طلبہ کو بہتر تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع میسر آئے ہیں۔

چیلنجز

  •         بہت سے معذور طلبہ کو ریزرویشن کے بارے میں آگاہی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے وہ ان مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔
  •         کئی یونیورسٹیاں اور کالج معذور طلبہ کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے میں ناکام ہیں، جیسے کہ قابلِ رسائی ہاسٹل اور امتحانی سہولتیں۔
  •         نجی شعبے میں معذور افراد کے لیے نوکریوں کے مواقع محدود ہیں کیونکہ وہاں شمولیتی پالیسیوں پر سخت عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

.3  مالی معاونت اور وظائف: حکومت نے معذور طلبہ کے لیے متعدد اسکالرشپ اور مالی مدد کے پروگرام متعارف کرائے ہیں، جیسے کہ:

  •          پری-میٹرک اور پوسٹ-میٹرک اسکالرشپ، جو اسکول اور کالج کے طلبہ کے لیے ہیں۔
  •       نیشنل ہینڈی کیپڈ فنانس اینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن (NHFDC) کے ذریعے تعلیمی قرضے۔
  •         سرکاری اداروں میں مفت یا رعایتی تعلیم۔

چیلنجز

  •         اسکالرشپ کے لیے درخواست کا عمل اکثر پیچیدہ اور وقت طلب ہوتا ہے۔
  •         دیہی علاقوں میں طلبہ کو ان وظائف کے بارے میں معلومات نہیں ہوتیں۔
  •          بعض اوقات مالی مدد کی رقم وقت پر جاری نہیں کی جاتی یا ناکافی ہوتی ہے۔

.4  ڈیجیٹل تعلیم اور معذور طلبہ : آن لائن تعلیم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر، حکومت نے دِکشا اور سویم (Diksha & Swayam) جیسے پلیٹ فارمز متعارف کرائے ہیں، جہاں معذور طلبہ کے لیے آڈیو بکس، سائن لینگویج ویڈیوز، اور دیگر معاون مواد فراہم کیا جاتا ہے۔

چیلنجز

  •          دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل مہارتوں کی کمی کی وجہ سے یہ پلیٹ فارمز سب تک نہیں پہنچ پاتے۔
  •          کچھ آن لائن تعلیمی پلیٹ فارمز نابینا اور بہرے طلبہ کے لیے پوری طرح موافق نہیں۔
  •         اساتذہ کی آن لائن تدریس کے حوالے سے خصوصی تربیت کی کمی ہے۔

معذور طلبہ کو بااختیار بنانے میں ٹیکنالوجی کا کردار

ٹیکنالوجی نے معذور طلبہ کے لیے تعلیم کو زیادہ آسان اور قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ جدید آلات اور ڈیجیٹل وسائل کی مدد سے وہ تعلیمی رکاوٹوں کو عبور کر سکتے ہیں اور دوسرے طلبہ کے برابر تعلیمی مواقع حاصل کر سکتے ہیں۔ اسمارٹ ڈیوائسز سے لے کر آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز تک، ٹیکنالوجی نے ان طلبہ کو زیادہ خودمختار اور پراعتماد بنایا ہے، ان کی ایک مختصر تفصیل مندرجہ ذہل ہے:

.1   معذور طلبہ کے لیے مددگار آلات: حرکت میں مشکلات کا سامنا کرنے والے طلبہ کے لیے اسکول میں آنا اور پڑھائی کرنا ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔ مگر جدید مددگار آلات جیسے کہ:

  •         اسمارٹ ویل چیئرز جو نقل و حرکت کو آسان بناتی ہیں۔
  •          وائس کنٹرول کمپیوٹرز اور ٹیبلٹس جو ہاتھوں کے بغیر بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
  •         ایرگونومک کی بورڈز اور اسپیشل تحریری آلات جو امتحانات اور ہوم ورک میں مدد دیتے ہیں۔

یہ ٹیکنالوجی یقینی بناتی ہے کہ جسمانی مشکلات طلبہ کی تعلیمی ترقی میں رکاوٹ نہ بنیں۔

.2    ڈیجیٹل لرننگ اور آن لائن تعلیم: ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے دکشا (Diksha)، سویم (Swayam)اور ای-پھاٹھ شالا نے معذور طلبہ کے لیے تعلیم کو مزید لچکدار بنا دیا ہے۔ اب وہ:

  •          گھر بیٹھ کر آن لائن کلاسز لے سکتے ہیں اور اسکول آنے کی مشکلات کم ہو گئی ہیں۔
  •         اسکرین ریڈرز اور وائس اسسٹنٹس کی مدد سے کتابیں اور نوٹس سن سکتے ہیں۔
  •          ریکارڈ شدہ لیکچرز تک رسائی حاصل کر کے اپنی رفتار سے سیکھ سکتے ہیں۔

یہ خاص طور پر ان طلبہ کے لیے فائدہ مند ہے جو سفر یا اسکول کے بنیادی ڈھانچے کی مشکلات کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔

.3  مصنوعی ذہانت (AI) اور اسمارٹ اسسٹنٹس: مصنوعی ذہانت نے تعلیم کو زیادہ قابلِ رسائی اور آسان بنا دیا ہے۔ گوگل اسسٹنٹ، سری اور الیکسا جیسے اسمارٹ اسسٹنٹس معذور طلبہ کو درج ذیل طریقوں سے مدد دیتے ہیں:

  •          آواز کی مدد سے معلومات تلاش کرنا اور ہوم ورک کی یاددہانی۔
  •          ٹیکسٹ ٹو اسپیچ ٹولز جو کتابیں اور نوٹس بلند آواز میں پڑھ کر سناتے ہیں۔
  •          ایسا لرننگ سسٹم جو ہر طالب علم کی ضروریات کے مطابق سبق کو ایڈجسٹ کرے۔

یہ جدید سہولتیں طلبہ کی دوسروں پر انحصار کم کرتی ہیں اور انھیں مزید خودمختار بناتی ہیں۔

.4   درپیش چیلنجز اور بہتری کے مواقع: اگرچہ ٹیکنالوجی نے تعلیم کو مزید آسان بنایا ہے، مگر اب بھی کچھ مسائل موجود ہیں:

  •         بہت سے اسکولوں میں مددگار ٹیکنالوجی دستیاب نہیں۔
  •         معذور طلبہ کے لیے جدید آلات مہنگے ہیں اور ہر کوئی انھیں خرید نہیں سکتا۔
  •          اساتذہ کو ان ٹیکنالوجیز کے استعمال کی مناسب تربیت نہیں دی جاتی۔
  •          دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت ناکافی ہے جس کی وجہ سے آن لائن لرننگ مشکل ہو جاتی ہے۔

ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت اور نجی اداروں کو مل کر ٹیکنالوجی کو مزید سستا اور عام کرنا ہوگا، اساتذہ کو تربیت دینی ہوگی، اور انٹرنیٹ کی سہولیات بہتر بنانی ہوں گی۔

اگر صحیح اقدامات کیے جائیں تو ٹیکنالوجی معذوری اور مواقع کے درمیان فاصلے کو کم کر سکتی ہے اور ہر طالب علم کو مساوی تعلیمی مواقع فراہم کر سکتی ہے۔

الغرض معذور طلبہ کے لیے ایک جامع اور معاون تعلیمی ماحول فراہم کرنا صرف ایک ذمہ داری نہیں، بلکہ ایک منصفانہ اور ترقی پسند معاشرے کی ضرورت ہے۔ حکومت، تعلیمی ادارے، خاندان، اور معاشرہ معذور طلبہ کی شمولیت کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں، لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ طلبہ مساوی مواقع اور عزت حاصل کر سکیں۔

حقیقی شمولیت صرف اسکولوں میں ریمپ اور سہولیات فراہم کرنے تک محدود نہیں، بلکہ سوچ کا بدلنا ضروری ہے—معذوری کو کمزوری سمجھنے کے بجائے، ہر فرد کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اسکولوں میں جامع تعلیم کو فروغ دینا چاہیے، اساتذہ کو خصوصی تربیت دینی چاہیے، خاندانوں کو بچوں کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنی چاہیے، اور میڈیا کو معذوری کی حقیقت پسندانہ اور مثبت تصویر پیش کرنی چاہیے۔

ٹیکنالوجی نے معذور طلبہ کے لیے نئے دروازے کھول دیے ہیں، انھیں وہ رکاوٹیں عبور کرنے میں مدد دی ہے جو پہلے ناممکن لگتی تھیں۔ لیکن، ان وسائل تک رسائی کو مزید وسیع کرنا ہوگا تاکہ تمام طلبہ، چاہے وہ کسی بھی پس منظر سے ہوں، ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔

سب سے بڑھ کر، معاشرے میں برابری اور عزت کا کلچر فروغ دینا ہوگا، جہاں معذور طلبہ کو کسی رعایت کے مستحق نہیں بلکہ معاشرے کے اہم رکن کے طور پر دیکھا جائے۔ جب ہم معذوری کو ایک رکاوٹ کے بجائے ایک منفرد پہچان سمجھیں گے، تبھی ہر طالب علم اپنی صلاحیتوں کو بغیر کسی حد کے استعمال کر سکے گا۔

Md. Jahangeer Alam

Ph. D Scholar

MANUU, College of Teacher Education

CTE, Darbhanga- 946001 (Bihar)

Mob.: 8885485920

20phed002db@manuu.edu.in


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

یوگا کی روحانی اور مادی اہمیت ،مضمون نگار: عبدالعلیم

  اردو دنیا،جون 2025 موجودہ حالات و معمولات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنے میں حرج نہیں کہ آج کا انسان ذہنی و جسمانی دونوں اعتبار سے بے اطمین...