پروفیسرمحمودالٰہی
نے اپنے ادبی کارناموں سے علمی وادبی دنیامیں منفردمقام حاصل کیا۔ان کی شخصیت کی
جاذبیت جفاکشی اوران کے خلوص میں مضمر ہے۔ اردوزبان سے بے لوث محبت کاجذبہ ان
کواردوکے ادب عالیہ کی تدریس کی توسیع پرآمادہ کرتاہے۔ انھوں نے ایک طرف تدریسی
سلسلے کو بھی جاری رکھا اوردوسری طرف اردوزبان وادب کے فروغ میں بھی کوشاں رہے۔
ساتھ ہی ساتھ تحقیقی وتنقیدی کارنامے بھی انجام دیتے رہے۔یہ ان کاعزم اورحوصلہ تھا
کہ وقت کوربرکی طرح کھینچتے گئے اوراپنی فتوحات درج کراتے گئے۔ انھوں نے اردوزبان
کو اس طرح گلے لگایا کہ اردوزبان وادب ان کاتعارف بن گئے۔ ان کی ادبی شخصیت کی کئی
جہتیں شاعری،طنزومزاح اورتنقید ہیں لیکن جس جہت نے ان کوقبولیت کی منزل تک پہنچایا
وہ ان کی تحقیقی خدمات ہیں۔
پروفیسرمحمود الٰہی 2ستمبر 1930 کو ضلع ’امبیڈکر نگر‘ کے مشہور قصبہ ’ٹانڈہ‘ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ’مولانا علیم اللہ ‘ ٹانڈہ کے مشہور مدرسہ ’کنزالعلومـ‘ کے بانی اور صدر مدرس تھے۔ اسی مدرسہ سے محمودالٰہی کی تعلیمی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ مولوی 1943، عالم (1944) اور فاضل (1946)کی سندحاصل کرنے کے بعد ہائی اسکول (1947) اور انٹرمیڈیٹ (1952) کے امتحانات پاس کرتے ہیں۔ پھراعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ’آگرہ یونیورسٹی‘ میں داخل ہوتے ہیں۔ جہاں سے وہ بی اے (1953میں) اوراردومضمون میں ایم اے (1955میں)کی سندحاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعد محمود الٰہی کاداخلہ ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ میں ہوجاتاہے جہاں وہ ڈاکٹر محمد حسن کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کاسندی مقالہ بعنوان’اردوقصیدہ نگاری کاتنقیدی جائزہ‘ پیش کرتے ہیں اور1958میں ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازاجاتاہے۔
پروفیسرمحمودالٰہی
کو درس وتدریس سے گہراشغف تھا۔ اپنے اس شوق کو انھوں نے اپنے پیشے میں بدل دیا۔ یہ
ان کی خوش نصیبی تھی کہ ان کاشوق ہی آگے چل کران کاپیشہ بن گیا۔ محمودالٰہی کی
پہلی ملازمت درس وتدریس سے ہی وابستہ تھی کہ انھوں نے ’اسلامیہ انٹرکالج ہمیرپور‘
سے اپنی تدریسی زندگی کاآغاز کیا۔ اس کالج میں وہ 1952 سے 1955 تک عربی و فارسی
مضامین کی تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد بحیثیت اردو لیکچرر1958 کو
’گورنمنٹ رضا ڈگری کالج‘ رامپور میںتقرر ہوا۔اسی سال ’گورکھپور یونیورسٹی‘ میں
شعبہ اردوکا قیام عمل میں آتاہے اور محمود الٰہی اپنی تدریسی زندگی کو اس ادارے
کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ ان کاشعبۂ اردومیں نومبر1958 کو بحیثیت لیکچرر تقرر
ہوجاتا ہے اور 1972 میں پروفیسر کے عہدے پرفائزہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ڈین بھی
متعین ہوتے ہیں اور ’کارگزاروائس چانسلر‘کی ذمہ داریاں بھی سنبھالتے ہیں۔ انھوں نے
گورکھپوریونیورسٹی میں رہ کر تقریباً 32 برس تک تدریسی اورعلمی خدمات انجام دینے
کے علاوہ اردوزبان کو فروغ دینے کے عملی اقدامات بھی کیے۔ شعبۂ اردوگورکھپوریونیورسٹی
سے 1991 میں سبکدوش ہوئے۔آپ کی نگرانی میں 36 پی۔ ایچ ڈی اورایک ڈی لٹ کے مقالے
پرڈگری تفویض کی گئی۔
محمودالٰہی
نے اردوزبان کے فروغ میں فقط فکری حصہ ہی نہیں لیابلکہ عملی سرگرمی بھی دکھائی،
انھوں نے گورکھپوریونیورسٹی سے ملحق مختلف کالجوں میں اردوزبان کوبحیثیت مضمون
شامل کرانے کااہم کارنامہ بھی انجام دیا۔ یہ ان کی جدوجہدکانتیجہ ہے کہ آج بھی یونیورسٹی
سے ملحق متعددکالجوں میں اردوزبان کاتدریسی سلسلہ جاری ہے۔ان کی سنجیدہ سرگرمیوں
کو دیکھتے ہوئے ’اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ‘ کاتین بار (فروری 1981 تا اگست
1983، جون 1987 تا جولائی 1989، جولائی 1993 تا مارچ 1994) چیئرمین بھی بنایا گیا۔
اردو اکیڈمی سے ان کی وابستگی نے اردوتحقیق کے دامن کو مالامال کردیاکہ ان کی بیشترتحقیقی
کتابیں اورمضامین اسی دورانیہ میں منظرعام پرآئیں۔
محمودالٰہی
کی ادبی زندگی کاآغاز شاعری سے ہوتا ہے۔ جب وہ تیرہ سال کے ہوئے توان کے اندرکی
جمالیاتی حس نے انگڑائی لی اور وہ شعرگوئی پرآمادہ ہوئے۔ اس زمانے میں وہ مدرسہ میں
زیرتعلیم تھے اورعربی کی ابتدائی نصابی کتابیں پڑھ رہے تھے۔اسی عہدمیں سیاسی تبدیلیاں
بھی رونماہورہی تھیں کہ آزادی کے متوالے1942 کی تحریک کو کامیاب بنانے کی ہرممکن
کوشش کررہے تھے، جس کے لیے شعرا بھی سرگرم تھے۔ اتفاق سے ٹانڈہ میں مشاعروں
کاسلسلہ شروع ہوا جن میں مجروح سلطانپوری اورہندی گورکھپوری شامل ہوتے تھے، پورا
قصبہ ان کی شاعری اورترنم کادیوانہ بن گیا تھا۔
سامعین ان دونوں کے اندازشعرگوئی کی نقالی کرتے تھے۔ اس عہدکے ماحول کے
مرتب ہونے والے اثرات کابیان خودمحمودالٰہی کی زبان میں ملاحظہ ہو کہ انھوں نے کس
طرح ماحول سے متاثرہوکرشاعری کے میدان میں قدم رکھا:
’’ماحول کی زدسے میں کیوں کر بچ سکتا تھا۔ میرے مدرسے کے ساتھی
جب دوسرے محلوں سے آتے تھے اور رات کی محفل شعر و سخن کا ذکر کرتے تھے تو میں اسے
بڑی حسرت کے ساتھ سنتا تھا۔ آخرش ایک سامع کی حیثیت سے میں بھی مشاعروں میں شریک
ہونے لگا۔ اور ایک دن شعر گوئی کی بھی جرات پیدا ہوگئی جی چاہتا تھا کہ اپنے اشعار
کسی مشاعرے میں سناؤں لیکن ساتھیوں کا یہ مشورہ بڑا صائب تھا کہ سنانے سے پہلے کسی
استاد سے ان پر اصلاح لے لی جائے۔ قرعۂ فال ہندی صاحب کے نام نکلا اور میں نے ان
کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔ انھوں نے مجھے مایوس نہیں کیا، انھوں نے شعر و شاعری
کے بارے میں مجھے بڑے نیک مشورے دیے اور جب میں شعر کہتا تھا تو ان مشوروں کو
ملحوظ رکھتا تھا لیکن اس کوچے کی رہ نور دی میرے بس کی بات نہیں تھی‘‘ (تعارف،
شعلۂ گل، مصنف:ہندی گورکھپوری، نشاط پریس ٹانڈہ،1984، ص5)
مذکورہ
اقتباس سے انکشاف ہوتاہے کہ محمودالٰہی نے ہندی گورکھپوری سے اصلاح سخن لی اورزخمی
تخلص اختیار کیا، لیکن وہ خود کوفطری شاعر نہیں تسلیم کرتے تھے بلکہ انھوں نے تفنن
طبع کے لیے اس میدان میں قدم رکھا تھا۔ اس کے باوجود ان کی دستیاب نظموں اور غزلوں
کارنگ قابل تعریف ہے جن میں ذاتی احساسات کے علاوہ ان کے عہد کا غالب رجحان بھی دیکھنے
کو ملتا ہے، کیونکہ یہی وہ زمانہ ہے جب آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی اور ہندوستان
چھوڑو تحریک کاچرچاتھا۔ان کا زیادہ ترکلام اس دورکے مقبول رسالوں اوراخباروں کی زینت
بناجن میں ’مدینہ ‘بجنورقابل ذکرہے۔ محمودالٰہی زخمی کی ایک غزل ملاحظہ ہو جس میں
انھوں نے داخلی جذبے کی شدت کو بیان کیا ہے ؎
غم
دل سنانے کو جی چاہتا ہے
تمھیں
بھی رلانے کو جی چاہتا ہے
سراپا
الم ہے مری زندگانی
مگر
مسکرانے کو جی چاہتا ہے
جسے
سن کے عرش بریں جھوم اٹھے
وہ
نغمہ سنانے کو جی چاہتا ہے
مہ
و مہر کو انجم و کہکشاں کو
زمیں
پر بچھانے کو جی چاہتا ہے
یہ
انساں کے ظلم و ستم دیکھ کر اب
قیامت
اٹھانے کو جی چاہتا ہے
یہ
زخمی جنون محبت تو دیکھو
انھیں
بھول جانے کو جی چاہتا ہے
محمودالٰہی
زخمی نے مذکورہ بالاغزل میں اپنے جذبات
کونہایت ہی سادگی سے پیش کیاہے۔وہ اپنے محبوب کواپنی داستان غم سناناچاہتے ہیں
تاکہ محبوب کی ہمدردی حاصل کی جاسکے اوروہ بھی ان کے غم میں برابرکاشریک ہو۔
محمودالٰہی
زخمی نے غزلوں کے علاوہ کچھ سیاسی،قومی اوروطنی نظمیں بھی تخلیق کی ہیں جن میں ان
کی نظم’تفاخر‘ قابل تعریف ہے جس میں وہ اپنے وطن’ٹانڈہ‘کی معیشت کے تناظرمیں
تفاخرکانظریہ پیش کرتے ہیں ؎
اسی
ٹانڈہ سے تمھیں آج بھی خط لکھتا ہوں
جس
کی گلیوں میں اُگے اطلس و دیبا و حریر
جس
کی صناعی و خلاقی کے بل بوتے پر
شیش
محلوں میں سنورتے تھے شہنشاہ و وزیر
میرا
یہ ہاتھ کہ جس سے تمھیں خط لکھتا ہوں
چلے
کرگھے پہ تو اس کو ید بیضا کہیے
چھوئے
جیکارڈ تو بہزاد سے کیجیے تعبیر
خام
ریشم پہ پڑے تو دم عیسیؑ کہیے
مذکورہ
نظم میں محمودالٰہی زخمی کہتے ہیں کہ میں ٹانڈہ (جہاں کپڑے کی صنعت ہوتی ہے)سے تمھیں
نامہ لکھ رہاہوںجہاں ہرقسم کے کپڑے بنائے جاتے ہیں ،جہاں کی کاری گری اس قدرشاندار
ہے کہ وہاں کے منقش عمدہ کپڑوں سے بادشاہوں اور وزیروں کی شان بڑھتی ہے۔میرا یہ جو
ہاتھ ہے جس سے میں خط لکھ رہا ہوں اس کے مختلف ہنرہیں، اگرکرگھے پرچلے تو یدبیضاکاکام
کرتاہے یعنی شانداراورخوبصورت کپڑوں کی بنائی کرتاہے۔جب جیکارڈ کوچھوتاہے(یعنی ایسا
کپڑایاڈیزائن جس میں دھاگے سے نقاشی کی جاتی ہے)توایران کے مشہورنقاش بہزادکی طرح
ہنرمندی دکھاتا ہے۔ جب کچے ریشم کو مس کرتاہے تو اس میں زندگی پھونک دیتاہے یعنی قیمتی
بنادیتا ہے۔ اسی پراکتفا نہیں اگریہ کپڑامصرپہنچے تویوسفؑ کادامن بن جائے جس کی
آرزو زلیخابھی رکھتی ہے،یہی کپڑاہے جوجنگل میں سیتاجی کاگیرواچیربن جاتاہے
اورنجدپہنچتاہے تولیلی کانقاب بن جاتاہے۔
لیکن
ان کی شاعری کاسلسلہ تادیرقائم نہیں رہتابلکہ وہ آہستہ آہستہ اس سے دور ہوتے چلے
جاتے ہیں اورتحقیق وتنقید کے میدان میں قدم جمانا شروع کردیتے ہیں اس حوالے سے ان
کی سب سے پہلی تحقیقی کتاب ان کاسندی تحقیقی مقالہ ’اردوقصیدہ نگاری کاتنقیدی
جائزہ‘ہے جو پہلی بارر1972 میں شائع ہوا۔ان کے اس تحقیقی کام کی اہمیت کااندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی پہلی اشاعت کے بعد متعدد ایڈیشن منظرعام پرآچکے
ہیں،یہی نہیں بلکہ اس کتاب کو یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی جگہ ملی۔محمودالٰہی نے
اپنی تحقیق میں اردوقصائدپرعربی اورفارسی قصائدکے اثرات کوپیش نظررکھتے ہوئے اس کی
سمت ورفتار کاتعین کیاہے۔
اردوناول
کی تاریخ میں ڈپٹی نذیراحمد کو پہلاناول نگار تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔لیکن محمود
الٰہی نے ان کی اولیت سے انکار کرتے ہوئے مولوی کریم الدین کو اردو کا پہلا ناول
نگار اور ان کی کتاب’خط تقدیر‘کو اردو کا پہلا ناول قرار دیا ہے۔ جس کے ثبوت میں
انھوں نے اس کے طویل مقدمہ میں متعدد دلائل بھی پیش کیے۔ محمودالٰہی نے مولوی کریم
الدین کے اس تمثیلی قصے کو 1964میں ’اردو کا پہلا ناول۔خط تقدیر‘کے نام سے شائع کیاہے۔چونکہ
خط تقدیر کا زمانہ تصنیف1865 ہے اور مرأۃ العروس اس کے چارسال بعد شائع ہوتا ہے
اس زمانی تقدم کے علاوہ دیگر اہم انکات بھی پیش کیے ہیں جن سے خط تقدیر کی اولیت
ثابت ہوتی ہے، محمود الٰہی کا ماننا ہے کہ اس ناول سے اردو میں قصہ نگاری کا ایک نیا
دور شروع ہوتا ہے کیونکہ مغربی ادب کے زیراثر اردوادب میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں،اب
تک کی تحقیق کے مطابق خط تقدیر اس کا اولین نمونہ ہے۔ اس کے علاوہ مولوی کریم الدین
کو آزاد اور نذیر احمد پر زمانی تقدم بھی حاصل ہے جو بعد میں ادبی شہرت حاصل کرتے
ہیں حالانکہ اس سے قبل خط تقدیر کو شہرت مل چکی تھی،اس کے علاوہ خط تقدیرمیں ناول
کے پلاٹ کی جھلک ملتی ہے اورانھوں نے کہانی کوپیش کرنے میں فن کی نزاکتوں کاخیال
بھی رکھاہے کیونکہ کریم الدین اس فن سے بخوبی واقف ہیں کہ مقصداورکہانی میں کتنی
قربت ہونی چاہیے۔ اس طرح مراۃ العروس کے بجائے خط تقدیر کو اردو کا پہلا ناول کہا
جاسکتا ہے جس کی تائیدوہ درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیںحالانکہ محمودالٰہی کی اس تحقیق
کوشک کی نظرسے دیکھاگیالیکن اس کاایک فائدہ ضرورہواکہ انگریزی ادب کے زیراثرلکھی
جانے والی پہلی تمثیل کاانکشاف ہوا:
’’انھوں نے نہ صرف یہ کہ اردومیں پہلی بارناول لکھابلکہ اسے سماج
کے مختلف طبقوں کانمائندہ بنانے کی کوشش کی‘‘(رشحات،ص72)
محمودالٰہی
کے تحقیقی کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے استاد پروفیسرمحمد حسن لکھتے ہیں کہ
گورکھپور اور اس کے نواح کے علمی اور ادبی
ذخیروں کی بازیافت میں محمود الٰہی نے پہل کی ہے۔ صحیفۂ محبت، کریم الدین کا خط
تقدیر اور میرکے تذکرہ نکات الشعراء اور رجب علی بیگ سرور کے فسانۂ عجائب کے نئے
متون کے سلسلے میں محمود الٰہی کی دریافتیں تحقیق میں نئے باب کا اضافہ ہیں۔اس میں
کوئی دورائے نہیں کہ محمودالٰہی نے جوتحقیقی سرمایہ پیش کیاہے وہ تحقیق کی نئی راہیں
ہموارکرتاہے۔ان کے کھولے گئے نئے باب میں ’فسانہ عجائب کا بنیادی متن‘کی ترتیب
وتدوین کوبڑی اہمیت حاصل ہے۔جس کاپہلاایڈیشن 1973 میں شائع ہوا۔محمودالٰہی اپنے
مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’لیکن اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سرور نے فسانۂ عجائب میں
جو نثرپیش کی ہے وہ ان کی اپنی نثرنہیں ہے، وہ ان کی ایسی نثرہے جس میں ان کی ضمیرکی
ٓآوازشامل نہیں ہے، فسانۂ عجائب کی نثرسراسراکتسابی ہے۔انھوں نے بعض مصلحتوں کے
پیش نظرفسانۂ عجائب کومسجع نثرکانمونہ بناکرپیش کیا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ سرورایک
سچے اورکھرے نثرنگارتھے اوران کی نثراردو نثرنگاری کے ارتقا کی ایک فطری مگراہم کڑی
ہے۔‘‘(رشحات،ص98)
فسانۂ
عجائب کے بارے میں محمودالٰہی نے حیرت انگیزانکشافات کیے ہیں جیسے فسانۂ عجائب
کاپہلانسخہ(1240ھ بمطابق 1824) میرامن کی باغ وبہارکے جواب میں نہیں لکھاگیاتھا۔سرورنے
پہلے نسخے میں سہل ممتنع کواختیارکیاتھا۔فسانہ عجائب لکھنے کامقصدرنگین اسلوب
کارعب دکھاناہرگزنہ تھا۔انیس سال تک لوگ پہلے نسخے کے سہل اسلوب سے لطف اندوزہوتے
رہے۔ سرورنے اپنے سہل اورفطری اسلوب میں تبدیلی اس وقت کی جب انھوں نے اس پرطباعت
کی غرض سے نظرڈالی۔ محمودالٰہی نے سرورکے اندرپیداہونے والی اس حیر ت انگیزتبدیلی
کااظہارکچھ اس انداز سے کیاہے:
’’سرورنے آج سے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال پہلے فسانۂ عجائب میں جومعیاری
نثرپیش کی تھی اورجس کی بنیادپرانھیں ایک محدودحلقے ہی میں سہی،حسن قبول ملاتھا،وہ
نثرفسانۂ عجائب کی پہلی اشاعت (1259ھ)کے بعد ہی نظروں سے اوجھل ہوگئی اوراس وقت
سے آج تک دنیاسرورکی ایسی نثرسے دوچارہے جس پرآوردوتکلف کے ہزارپردے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
سرورکے
اسلوب میں اس انقلاب کے محرکات میں محمودالٰہی نے تین بنیادی وجوہات شمارکرائی ہیں۔اول
یہ کہ نصیرالدین حیدرکے عہدکے لکھنؤمیں علیحدگی پسندی اوردہلی سے ممتازہونے کاشدیدرجحان
پیداہوچکاتھا۔دوم یہ کہ فسانۂ عجائب لکھتے وقت سرورکی ادبی حیثیت متعین نہیں ہوئی
تھی اس لیے جب ان کو قبولیت ملنا شروع ہوئی ہوگی توانھوں نے تقاضائے وقت کے مطابق
اپنے اسلوب میں تبدیلی کرنابھی مناسب خیال کیاہوگاتاکہ شاعری کی طرح نثرمیں بھی
لکھنؤ کاامتیاز قرارپائے۔سوم یہ کہ خطی نسخے کے علاوہ فسانۂ عجائب کے متداول
نسخوں میں سرورکے استاد ’آغانوازش‘ کا ذکر ملتا ہے کہ انھوں نے فسانۂ عجائب
پربغرض اصلاح نظرڈالی، لہٰذا قرین قیاس ہے کہ استادنے تبدیلی اسلوب کے مشورے دیے
ہوںگے۔
محمودالٰہی
نے سرور کی فطری نثرنگاری کوثابت کرنے کے لیے متعددمثالیں پیش کی ہیں اوریہ ایک حقیقت
ہے کہ سرورنے اپنی کتاب کو18مرتبہ درست کیاتھاجس کاذکرسخن دہلوی نے اپنی کتاب’سروش
سخن‘میں بھی کیاہے۔محمودالٰہی کی تحقیقی نظرنے اس بات کابھی انکشاف کیا ہے کہ
فسانۂ عجائب کاپہلانام’فسانۂ عجیب‘ہے۔
اسی طرح پروفیسرمحمودالٰہی نے ’تذکرہ ٔ شورش‘(اصل نام:رموزالشعرا)کی اشاعت کرکے اردوتحقیق میں گراں قدراضافہ کیاہے،جس کو انھوں نے عظیم آبادکے شعرائے اردوکاپہلاتذکرہ قراردیاہے۔انھوں نے اس تذکرے کاقدیم نسخہ ’خانقاہ رشیدیہ،جونپور‘سے حاصل کیااور 1984 میںاترپردیش اردواکادمی، لکھنؤ سے شائع کیا۔ غلام حسین شورش نے یہ تذکرہ 1191ھ(بمطابق1777) کو ’شاہ رکن الدین عشق‘ کی فرمائش پر لکھاتھا۔جس کی زبان فارسی ہے لیکن اس کامواداردوشعراء کے احوال وکوائف اورنمونۂ کلام پرمبنی ہے۔محمودالٰہی ’مقدمۂ مرتب‘ اس تذکرے کی اہمیت کااقرار اس طرح کرتے ہیں:
’’اگرتذکرۂ شورش کچھ اورپہلے منظرعام پرآجاتاتوگزشتہ نصف صدی
سے بہارمیں اردوشاعری کے آغازوارتقاپرجواختلاف رائے پایاجاتاہے،اس کی شدت بڑی
حدتک کم ہوجاتی کیونکہ اس اختلافی موضوع پراسے اصل ماخذکی حیثیت حاصل ہے اوراب تک
زیادہ ترثانوی مآخذسے کام لیاگیاہے۔‘‘
(مقدمۂ مرتب،تذکرۂ شورش،اترپردیش اردواکیڈمی لکھنؤ،1984،ص9)
محمودالٰہی نے اپنی تحقیق میںثابت کیا ہے کہ’تذکرۂ شورش ‘ بہارمیں اردوتاریخ کی روایت کوجاننے کاسب سے قدیم اورمستندوسیلہ ہے جس سے ہم بہارمیں اردوادب کی تاریخی کڑیاں جوڑسکتے ہیں اوراختلافات کودورکرسکتے ہیں بشرطیکہ اس کی قدامت کوتسلیم کرلیاجائے جیساکہ وہ اک دوسری جگہ کہتے ہیں:
’’بہارمیں اردوشاعری کے آغازاوراس کے ارتقا کے باب میں تذکرۂ
شورش کو سب سے قدیم اورسب سے مستندماخذسمجھنا چاہیے۔‘‘
(مقدمۂ مرتب،تذکرۂ شورش،اترپردیش اردواکیڈمی لکھنؤ، 1984،ص15)
محمودالٰہی
نے محض یہ تذکرہ ہی شائع نہیں کیا بلکہ صاحب تذکرہ کے سوانحی حالات کی دریافت میں
اپنی تحقیقی بصیرت کاثبوت بھی دیاہے اور جس قدرممکن ہوسکا شورش کے حوالے سے
معلومات بہم پہنچائی کہ ان کا اصل نام میرغلام حسین تھا،ان کا عرف ’میربھینا‘
اورتخلص شورشتھا، ان کے والدکانام میرمحسن اوروطن عظیم آباد تھا، میرباقرحزیں
اورشاہ رکن الدین عشق سے مشورۂ سخن کرتے تھے، تقریباتمام اصناف سخن پر قدرت رکھتے
تھے اورصاحب دیوان شاعر تھے،یہ دیوان تقریباً چار ہزار اشعارپر مشتمل تھا۔ اس میں
کوئی شک نہیں کہ تذکرہ ٔ شورش کی دریافت محمودالٰہی کاغیرمعمولی کارنامہ ہے۔
محمودالٰہی
کے تحقیقی کاموں میں ’تذکرہ نکات الشعرا‘کی ترتیب وتدوین کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔جس
کوبخوبی انجام دینے کے لیے انھوں نے نکات الشعرا کے ایک نسخے کوپیرس کے قومی کتب
خانہ سے حاصل کیااورانجمن کے بنیادی متن کے علاوہ دیگر نسخوں سے موازنہ کرنے کے
بعدصحیح متن کی دریافت کی ہے اوراپنے بنائے گئے طریقۂ کارپراصل متن پیش کرنے کی
پوری کوشش کی ہے۔محمودالٰہی نے اس تذکرہ کامتن تیارکرنے میں جوطریقہ اختیار کیاہے
وہ دوسرے مرتبین کے یہاں مفقود ہے۔ ’نکات
الشعرا‘کی متنی تحقیق میں جونکات ملحوظ خاطررکھے گئے ہیں وہ محمودالٰہی کے محققانہ
ذہن کی اُپج ہیں۔کہ جوحروف، فقرے یا جملے بنیادی نسخے میں موجودہیں لیکن نسخۂ پیرس
میں موجود نہیں تو انھوں نے اپنے تیارکردہ متن میں ان پرخط کشید کیا ہے۔ اسی طرح
انھوں نے اپنے تیارکردہ متن میں نسخۂ پیرس کے اضافوں کوواوین میں درج کرنے
کااہتمام کیاہے۔ مختلف نسخوں میںاختلاف نسخ کی وضاحت کے لیے حواشی کا سہارا لیاہے
اورنسخوں کی نشاندہی کے لیے علامتیں متعین کی ہیں۔ اشعاردرج کرنے میں نسخۂ انجمن
کوبنیادی مرجع بنایاہے،چونکہ دونوں نسخوں کے اشعارکی تعدادمیں اختلاف ہے لہذااس
اختلاف کودورکرنے کے لیے انھوں نے یہ طریقہ اختیارکیاہے کہ جن اشعار کا اضافہ
’نسخۂ پیرس‘ میں ہے ان کواپنے متن میں شامل کرلیاہے اور امتیازکے طورپرواوین میں
درج کیاہے۔اسی طرح جو اشعار’نسخۂ انجمن‘میں شامل ہیں لیکن ’نسخۂ پیرس‘ میں موجود
نہیں ان کے شروع کے الفاظ پرخط کشیدکردیاگیاہے۔
محمودالٰہی
نے ’نکات الشعرا‘پر نہایت ہی تحقیقی مقدمہ بھی لکھاہے جس کے ذیل میں متعددایسی باتیں
آگئی ہیں جومیرتقی میراوران کے تذکرہ سے متعلق نئی معلومات کی حیثیت رکھتی ہیں۔جن
کی توضیح وہ ’تذکرہ ریختہ گویاں‘ اور ’نکات الشعرا‘ کومدمقابل رکھتے ہوئے حقائق
کاانکشاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اس حوالے سے ان کے ایک جملے کی معنویت ملاحظہ
ہو،جس سے ان کے تحقیقی شعورکاعلم بھی ہوتاہے:
’’یہ دونوں تذکرے معاصرانہ چشمک کے مظاہرہیں اورایک کامطالعہ
دوسرے کے مطالعے کے بغیرنامکمل رہے گا۔‘‘(رشحات،ص76)
محمودالٰہی
کے کارناموں میں ’صحیفۂ محبت‘کو بھی ستائش کی نظرسے دیکھا گیا ہے۔ یہ مہدی افادی
کے خطوط کامجموعہ ہے جس کو محمودالٰہی نے ترتیب دے کر1964 میں ادارۂ فروغ
اردولکھنؤ سے شائع کیا۔ یہ وہ خطوط ہیں جن کومہدی افادی نے اپنی بیوی عزیزالنسا(مہدی
افادی)کے نام لکھے ۔اردوادب میں ان خطوط کی اہمیت ان کی ادبیت کی وجہ سے ہے جس
کااظہار محمود الٰہی کچھ اس طورپر کرتے ہیں:
’’خوب صورت الفاظ کی ترکیب اور تراش خراش اور موزونیت کے ساتھ ان
کی ترتیب یہ مسٹر مہدی حسن کا خاص حصہ ہے اور تمام خوبیوں پر دور جدید میں الفاظ
کے سکے ڈھالنا اور اتنا خوبصورت گڑھنا کہ دیکھنے والے دنگ ہو جائیں۔ یہ مسٹر مہدی
حسن کا اعلیٰ کمال ہے۔‘‘ (رشحات،ص40)
محمودالٰہی
ان خطوط کی اہمیت کے پیش نظراس پرجامع مقدمہ بھی تحریرکرتے ہیں جس میں ان کے تحقیقی
شعورکے علاوہ تنقیدی بصیرت کابھی علم ہوتاہے کہ انھوں نے مہدی افادی کی جمالیاتی
حس اوررومانیت کو کس پیرائے میں پرکھاہے اوراس کی وجوہات کانفسیاتی مطالعہ بھی پیش
کیاہے۔صحیفۂ محبت کے مقدمہ میں محمودالٰہی نے مہدی افادی کی سماجی، خانگی اورادبی
زندگی کوجس نقطۂ نظرسے پرکھاہے اس میں ایک ماہرنقادکاذہن کام کرتاہوامحسوس
ہوتاہے۔مثلامہدی افادی میںشادی کے بعد پیدا ہونے والے فکری اورجذباتی انقلاب کی
وضاحت کرتے ہوئے ان کے دونوں ادبی سرمایوں پرکچھ اس طرح رائے دیتے ہیں:
’’اس رشتے پر جو مسرت انھیں حاصل ہوئی، اس کا اظہار انھوں نے کھل
کر اپنے دوستوں سے کیا یہاں تک کہ شادی کے بعد جو دو تین مضامین انھوں نے لکھے وہ
بھی ان کے اس جذبہ مسرت کے ترجمان بن گئے۔ میں ان کے اس طرز کے مضامین کو اردو ادب
میں ایک صحت مند اضافہ سمجھتا ہوں مگر اس کے ساتھ میں اس حقیقت کو بھی سامنے لانا
چاہتا ہوں کہ ان کے یہ مضامین اور جو خطوط انھوں نے اپنی رفیقہ حیات کو لکھے ہیں
وہ دو جدا گانہ چیزیں ہیں۔ان مضامین کے بہت سے جملے ان خطوط میں نظر آئیں گے۔
مضامین میں نور جہاں، جہاں گیر،عذرا وغیرہ کا جو ذکر ہے اس کی تفسیر ان خطوط میں
ملے گی۔‘‘ (رشحات،ص:41)
محمودالٰہی
’افادات مہدی‘ اور ’صحیفۂ محبت‘ کوان کاقیمتی سرمایہ تسلیم کرتے ہیں۔ وہ صرف ان
کے خطوط کی ادبیت کی ہی ستائش نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے مضامین کوبھی قدرکی نگاہ
سے دیکھتے ہیں جن میں ایسی ادبی قدریں پائی جاتی ہیں جو مہدی افادی کے مقام کونمایاں
کرتی ہیں۔ ان کے تنقیدی اورادبی مقام کومتعین کرتے ہوئے محمودالٰہی نے اپنے قیمتی
خیالات پیش کیے ہیں جن کامطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔
محمودالٰہی
کے تحقیقی سرمایے میں ’الہلال اورالبلاغ‘کی اشاعت کوبھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ انھوں
نے کافی تلاش وجستجوکے بعددونوں اخبارات کی فائلوں کو جمع کیااور پہلی بارمرتب
کرکے1988 میں اترپردیش اردواکادمی لکھنؤ سے تین جلدوں میں شائع کیا۔ دونوں
اخبارات کی اشاعت کو اردو صحافت کاعہدزریں تصور کیا جاتا ہے۔ دونوں اخبارات کی تحقیق
میں محقق کو کن پریشانیوں کاسامناکرناپڑااس کوبڑی تفصیل سے مقدمے میں بیان کیاگیاہے
حتی کہ وہ اپنے اہل خانہ کو اس کی تحقیق میں شامل کرکے اس کواجتماعی تحقیق میں بدل
دیتے ہیں :
’’اس کے بعدایک ایک کرکے میں نے سارے شماروں کے الیکٹرواسٹیٹ عکس
حاصل کرلیے۔اصل مرحلہ اس کے بعد پیش آیاجسے میں تنہاطے نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے
اپنی بیوی کے سامنے مسائل رکھے اوراس سے کہاکہ میں ہفتے دوہفتے کے لیے سارے گھر
کواس کام میں لگانا چاہتا ہوں۔ تم ایسا کروکہ گھرکے معمولات میں فرق بھی نہ آئے
اوراپنی اپنی بساط کے مطابق گھر کاہرفرداس کام میں میری مددبھی کردے۔‘‘
محمودالٰہی
نے ’الہلال اورالبلاغ‘کے مقدمے میں دونوں اخبارات میں پیش کیے گئے مولاناآزاد کے
مذہبی ، سیاسی، قومی ، سماجی اوراقتصادی نظریات پر باریک روشنی ڈالی ہے۔جس سے ان
اخبارات کی اہمیت اورافادیت کاپہلوسامنے آتاہے کہ اگریہ اخبارات مرتب نہ کیے جاتے
تو نئی نسل کوآزاد کے ذہن کوسمجھناکتنا مشکل ہوتا۔ اس اعتبارسے محمودالٰہی کایہ
تحقیقی کام قابل قدرہے۔محمودالٰہی نے دونوں اخبارات کے ا سلوب کابھی جائزہ لیاہے
اوران کے طرزنگارش کوتین خانوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک اسلوب تووہ ہے جوخطیبانہ شان
کاحامل ہے ،دوسراوہ ہے جوعالمانہ یافلسفیانہ رنگ رکھتا ہے، تیسرے اسلوب کو ان
کافطری اسلوب خیال کیاجاتاہے جس میں غزلیت اور افسانویت کاامتزاج پایاجاتاہے اس
اسلوب کی نمائندگی غبارخاطرمیں بھی نظرآتی ہے۔
اسی
طرح ’بازیافت‘ان کے تحقیقی وتنقیدی مضامین کاپہلامجموعہ ہے جو1965 میں دانش محل
لکھنؤ سے شائع ہوا،یہ مجموعہ ان کے تنقیدی شعورکاغمازہے،جس میں دس مضامین شامل ہیں۔
مذکورہ
کتابوں کے علاوہ بھی ان کی متعددکتابیں دستیاب ہیں جن پرانھوں نے اہم مقدمے قلم
بندکیے۔ڈراماانارکلی پرمختلف ناقدین نے مقدمے لکھے لیکن محمودالٰہی کا مقدمہ ان سب
پرفوقیت رکھتاہے۔مختلف رسائل وجرائدمیں ان کے متعددمضامین شائع ہوئے اس کے علاوہ
انھوں نے اترپردیش اردواکادمی سے شائع ہونے والے رسائل میں اہم اداریے اورکتابوں
پرگرانقدرمقدمے تحریرکیے۔مولاناآزادصدسالہ تقریب کے موقعے پروہ اترپردیش
اردواکادمی کے چیئرمین تھے، لہٰذانھوں نے ملک کے مشہورقلمکاروں کی سوکتابیں شائع کیں
جن پرپیش لفظ بھی لکھے،اسی موقعے پرانھوں نے ادب میں ان اخبارات کوجگہ دی جواپنی بیباکی
کے لیے مشہورتھے اورانگریزوں کے حریف تھے ایسے اخباروں میں مدینہ، زمیندار، پیغام،
الہلال ، البلاغ، ہمدرد، زمانہ وغیرہ قابل ذکرہیںجن کے انتخابات کواکادمی سے شائع
کرانے کااہم کام انجام دیا۔اس کے علاوہ انھوں نے اکادمی سے شعری انتخاب،نثری
انتخاب،تراجم،نصابی کتب اور تذکرے بھی شائع کیے۔
المختصریہ
کہ پروفیسرمحمودالٰہی زخمی کی حیات اورخدمات کادائرہ اس قدروسیع ہے کہ ایک محفل میں
ان کامکمل بیان کرناناگزیرثابت ہوگا لہٰذاان کے اہم کارناموں کی نقاب کشائی پر ہی
اکتفاکیاگیاہے کیونکہ ضروری نہیں کہ کسی خوشبو کاتعارف کرانے کے لیے اس کی تمام تر
خوبیاں اوراثرات پیش کیے جائیں ،کچھ معاملات ذوق کے حوالے بھی کیے جاسکتے ہیں، حس
خود بخوداپنی منزل ڈھونڈلے گی،محمودالٰہی کی شخصیت بھی خوشبو کی طرح ہے جواپنے
کارناموں اورفتوحات کے سبب پہچان لیے جاتے ہیں۔اردوزبان و ادب کے تئیں ان
کاگہراخلوص ایساگراں قدراثاثہ ہے جوان کوکبھی فراموش نہیں ہونے دے گا۔محمودالٰہی
نے شخص سے شخصیت اورشاعرسے محقق بننے تک کاجوسفرطے کیاہے اس میں وہ ایک
ماہرمدرس،کامیاب منتظم،باذوق شاعراور اپنے عہدکے سنجیدہ محقق ثابت ہوتے ہیں۔
Prof. Abbas Raza Nayyar
Department of Urdu
University of Lucknow, Lko.
Mob: 9919785172
Email: abbasrazanayyar@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں