24/12/25

طبعِ انسانی اور آغازِ تعلیم،مضمون نگار: ڈی ایس گورڈن، مترجم: خلیل الرحمن سیفی پریمی

 

اردو دنیا،جولائی 2025

تعلیم اور حصول تعلیم

نسلِ انسانی جتنی پرانی ہے تعلیم بھی تقریباً اتنی ہی پرانی ہے۔ اصل میں انسان اپنی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت کی بنا پر ہی ادنیٰ درجے کے حیوانات سے ممیز سمجھا جاتا ہے۔ جب ہم دنیا میں حیوانات کی ادنیٰ قسم امیبا سے لے کر اعلی قسم یعنی دودھ پلانے والے حیوانات تک کی شکلوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کی ایک اہم خصوصیت تعلیم پذیری نظر آتی ہے۔ ادنیٰ درجے کے اجسام نامی کو صریحی طور پر تعلیم نہیں دی جا سکتی اور جیسے ہی ہم اس سطح سے او پر پہنچتے ہیں ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس نوع کے حیوانات میں حصول تعلیم کے آثار نمایاں ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس قسم کے حیوانات مثلاً سفید چوہوں ، خرگوشوں، امریکی چوہوں، گھوڑوں اور کتوں میں حصول تعلیم کی پرکھ کے لیے اختیارات کیے گئے ہیں۔ ان اختیارات نے ادنی درجے کے حیوانات میں ان کی تجربے سے سیکھنے کی قابلیت کے بجائے ان کے حصول تعلیم کے حدود کو واضح کر دیا ہے جو ذہانت کی یقینیعلامت ہے۔

مثال کے طور پر، پروانے کو لیجیے۔ شمع، رات کو روشن ہوتی ہے اور پروانہ روشنی کی جانب مائل ہوتا ہے۔ وہ شعلے یا بجلی کے بلب تک پہنچتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ اس کے پر جھلس گئے لیکن وہ اس تجربے سے بھی کچھ نہیں سیکھتا۔ وہ اس پر بار بار گرتا ہے یہاں تک کہ  مر جاتا ہے۔ اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ پروانے میں حصول تعلیم بدرجہ صفر ہے۔

ہمیں اکثر یہ خیال آتا ہے کہ شہد کی مکھی اور چیونٹی ذہین مخلوقات ہیں۔ لوگوں نے ادب میں شہد کی مکھی کے چھتہ بنانے کے ہنر کی توصیف کی ہے۔ انھوں نے چھتے کے خانوں کی با قاعدہ اقلیدی شکل اور شہد جمع کرنے کی محنت کو سراہا ہے۔ اسی طرح چیونٹی کے اناج اکٹھا کرنے اور ذخیرہ کو مستقبل میں کام لانے کی پیش بینی کو سراہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت سلیمان کے قول کا اکثرحوالہ دیا جاتا ہے:

’’اے آرام طلب شخص! چیونٹی کے پاس جا، اس  کی روش پر غور کر اور عقل مند بن جا۔ ‘‘

یہ اور اسی طرح کے اقوال ہمارے لیے اخلاقی سطح پر مفید ہو سکتے ہیں لیکن سائنسی نقطۂ نظر سے ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ یہ مخلوقات صرف ان ہی باتوں پر عمل پیرا ہوتی ہیں جنھیں ان کی طبع نے ان کا مقدر بنا رکھا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کی زندگی پر کلیۃً جبلت کی فرماں روائی ہوتی ہے۔

 میچ جوابی عمل

 ماہرین نفسیات اس رائے پر متفق ہیں کہ آموزش بنیادی طور پر میچ اور جوابی عمل کا معاملہ ہے۔ فرض کیجیے ایک مخلوق کا کسی خاص انداز میں ایک مخصوص مہیج کے تحت جوابی عمل ہوتا ہے اور اسے پتہ چلتا ہے کہ بعض غیر تشفی بخش یا نا خوش گوار نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ پھر اگر شاید چند نا کام کوششوں کے بعد، وہ اپنے جوابی عمل کو مناسب طور پر بدل دیتی ہے اور اس طرح خاطر خواہ نتائج حاصل کر لیتی ہے تب ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ مخلوق تعلیم پذیر ہے۔

 مثلا فرض کیجیے کہ ایک ڈبے میں غذا رکھ دی گئی ہے اور چوہا کئی ناکام کوششوں کے بعد غذا والے خانے کے دروازے کو کھولنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ پھر اس تجربے کے بعد ناکام کوششوں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے۔ اس بنیاد پر ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس مخلوق میں تجربے سے سیکھنے کی کچھ صلاحیت موجود ہے۔

آموزش میں سعی و خطا کا یہ طریقہ، حصول تعلیم کی جانب ایک اشارہ ہے۔

طویل المدت طفولیت کی اہمیت

انسان کے علاوہ اکثر جان دار صرف جبلت کی رہنمائی میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے نوزائیدوں کو اس معاملہ میں مکمل طور پر وہ جو ہر ودیعت ہوا ہے کہ وہ اپنے وجود کو قائم رکھنے کا اہتمام کر سکتے ہیں اور اپنے والدین کی بہت کم مدد کے سہارے پروان چڑھ سکتے ہیں۔ ان کی مجبوری کا زمانہ بہت مختصر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک انسان کے بچے کا اس چھوٹے چوزے سے موازنہ کیجیے جوا بھی انڈے سے نکلا ہے۔ تھوڑے ہی عرصے میں چوزہ خود کو سنبھالنے کے لائق ہو جاتا ہے جب کہ آدمی کا بچہ لاچاری کے تحت مہینوں حتی کہ برسوں اپنی ماں کا دست نگر رہتا ہے۔ یہ طویل المدت بے چارگی اور نا پختگی کا زمانہ تعلیم کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر دوسرے حیوانات کی طرح انسان کے بچے کو پیدائش کے وقت اتنے مکمل طور پر ایک مجموعہ جبلت ودیعت ہوتی تو اس کی آموزش کی صلاحیت واقعی بہت محدود ہو جاتی۔

 انسان کا بچہ اپنے پورے دور انحصار میں کردار کے بعض نمونے ان لوگوں سے سیکھتا ہے جنھیں وہ دیکھتا ہے اور ان کی نقل کرتا ہے۔ انسانی بچہ جن لوگوں کو دیکھتا ہے اور نقل اتارتا ہے وہ ان لوگوں سے اپنے دور انحصار میں مخصوص کردار سیکھتا ہے۔ یہ اس کا سماجی ورثہ ہے جو اس کے جسمانی ورثہ سے ممیز ہے۔ ادنی حیوانات تقریبا مکمل طور پر ترقی یافتہ جبلتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی صرف جبلی سطح ہی پر گزرتی ہے اس لیے ایک نسل سے دوسری نسل تک کوئی فروغ یا ترقی ممکن نہیں ہوتی۔ ہمارے گردو پیش کے پرند اور چرند کسی طرح اس سے مختلف طور پر زندگی بسر نہیں کرتے جس طریقے پر ان کے آبا و اجداد صدیوں سے زندگی گزار چکے ہیں۔ ان کے کردار کے انداز متعین اور تقریبا غیر مقلب نظر آتے ہیں۔ اور اگر ایک نسل اپنے والدین سے کچھ سیکھ بھی لے تو یہ بات بہت مشتبہ ہے کہ یہ اکتسابی خصوصیات آئندہ نسل میں ورثہ کے طور پر پہنچ جاتی ہیں۔ اکتسابی خصوصیات کے سلسلے میں اختیارات کیے گئے ہیں اور اب بھی کیے جاتے رہے ہیں لیکن نتائج قطعی تصفیہ کن نہیں ہیں۔

 سماجی ورثہ کی ترسیل

اس لیے فی الحال ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر نسل بالکل ابتدا سے سیکھتی نظر آتی ہے اور دوسری نسل تک بمشکل ہی آموزش کی ترسیل ہوتی ہے لیکن بنی نوع انسان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔ ہم نہ صرف اپنے ذاتی تجربوں سے سیکھتے ہیں بلکہ دوسروں کے تجربے کی بنیاد پر بھی سیکھتے ہیں دوسرے لفظوں میں ہمارے اندر لامتناہی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔ اگر ایسی بات ہے تویہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نسل انسانی صدیوں میں جو کچھ سیکھتی ہے اس کو ضرور محفوظ رکھنا اور نسل در نسل منتقل کرتے رہنا چاہیے۔ ایک اہم بات جس نے ہمیں اس کام میں سہارا دیا ہے وہ قوت گویائی ہے۔ ادنیٰ حیوانات میں اگر خیالات ہوں بھی تو وہ ان کی ترسیل نہیں کر سکتے۔ انھوں نے بعض بنیادی جذبات مثلاً خوشی اور خوف کے لیے بلند آوازیں پیدا کر لی ہیں۔ بہرحال انسان نے نہ صرف تقریر بلکہ تحریر کو جنم دیا ہے جو اس کے سماجی ورثہ کی ترسیل کے لیے نہایت قابل قدر آلہ کار ہے کیونکہ اس میں ثبات ہے۔ ایک شخص نے جو کچھ کہا ہے وہ کچھ عرصے کے بعد بھلا دیا جا سکتا ہے لیکن اس نے جو کچھ لکھا ہے وہ ہمیشہ باقی رہتا ہے۔

انسان صدیوں میں اس بیش قیمت ورثہ کو نسل درنسل پہنچانے کی ضمانت کے لیے قدم اٹھائے ہیں؟ اس نے کس طرح اس بات کا اطمینان کر لیا ہے کہ ریاضت و کاوش سے حاصل کیا ہوا علم تلف نہ ہوگا بلکہ وہ محفوظ رہے گا اور منتقل ہوتا رہے گا اور بعد کی نسلیں اس میں اضافہ اور ترقی کرتی رہیں گی۔ ان سوالوں کا جواب ایک لفظ یعنی تعلیم میں مل سکتا ہے۔ انسان نے اپنی نشو ونماکی ہر منزل پر ہمیشہ تعلیم کا کچھ نہ کچھ اہتمام کیا ہے۔

تعلیم کیا ہے؟

یہ بات ہمیں اس امر کی تفتیش تک لے جاتی ہے کہ تعلیم کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے اور اس کا جواب دینا آسان نہیں ہے جیسا کہ سر جان ایڈمس نے ظریفانہ انداز میں کہا ہے کہ ہر شخص جانتا ہے کہ کتا کیا ہے لیکن اگر ایک ہال میں روشن خیال لوگوں کے مجمع کو سزائے موت کا خطرہ دلا کر کتے کی تعریف بیان کرنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس ہال میں بھیا نک اتلاف جان واقع ہوگا۔ اس بیان میں جو نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم بہت سی چیزوں کو جانتے یا جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں جن کی ہم ٹھیک ٹھیک تعریف بیان نہیں کر سکتے۔ بہرحال یہ ایسی کوئی نئی چیز نہیں ہے جس کو ہم نئی نسل والوں نے دریافت کیا ہے۔ یہ تحقیق اتنی ہی قدیم ہے جتنا سقراط۔ نیک نام سقراط کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ہر صبح کو اپنے گھر سے نکل جاتا تھا اور ایتھنز کی سڑکوں پر اپنے شکار کی تلاش میں گھوما کرتا تھا۔ دور ہی سے وہ انھیں دیکھ لیتا تھا اور اتنی احتیاط سے ان کے قریب پہنچتا تھا جیسے مکھی کے پاس مکڑہ پہنچتی ہے۔ ان سے ملاقات کے بعد وہ بظاہر معصوم انداز میں موسم یا کسی معمولی معاملہ کیمتعلق بات چیت کا آغاز کرتا تھا اور پھر دھیرے دھیرے ان کو پھسلا کر مشکلات میں مبتلا کر دیتا تھا۔ وہ ان سے ان الفاظ کی تعریف پوچھتا تھا جو انھوں نے گفتگو میں استعمال کیے تھے۔ وہ ان سے معلوم کرتا تھا کہ صداقت، حسن، نیکی وغیرہ کا ان کے نزدیک کیا مفہوم ہے۔ وہ جب انھیں ایہام اور تناقض بالذات میں مبتلا کر لیتا تھا، وہ جب ان فلسفیوں کی بے مایگی علم کو بے نقاب کر دیتا تھا جنھوں نے دوسروں کو درس دینے کے لیے اکادمی قائم کر رکھی تھیں، اس وقت سقراط خاموشی سے چل دیتا تھا۔ سقراط کی سب سے اہم تعلیم یہ تھی کہ لاعلمی کا شعور ہی علم کا آغاز ہے۔

 رسمی اور غیر رسمی تعلیم

تعلیم ایک ایسا لفظ ہے جس کی تعریف بیان کرنا مشکل ہے کیونکہ لوگ اس کو مختلف معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صرف وہ عمل ہے جو مدرسوں اور کالجوں میں برتا جاتا ہے لیکن سچ پوچھیے تو تعلیم اپنے وسیع معنوں میں ایک طریق عمل ہے جو پیدائش سے شروع ہوتا ہے اور موت پر ختم ہوتا ہے۔ اس طرح تعلیم کے بارے میں سوچنے کے دو انداز ہیں:

  1.                     غیر رسمی اور 2 رسمی

غیر رسمی تعلیم میں تبدیلی لانے والے وہ تمام اثرات شامل ہیں جن کے تحت ایک شخص کو زندگی بھر رہنا پڑتا ہے جب کہ رسمی تعلیم اس طرف اشارہ کرتی ہے جو گھر، گر جایا مدرسہ جسے بعض تعلیم دینے والے وسائل کے ذریعہ شعوری طور پر عمل میں لایا جاتا ہے۔

غیر رسمی تعلیم جیسی بھی ہے اچھی ہے لیکن اس کی بعض حدود ہیں اولا تو وہ غیر منتظم ہے۔ جن تجربات کو وہ پیش کرتی ہے ان کا انحصار اتفاق پر ہوتا ہے۔ یہ تجربات منظم نہیں ہوتے اور کسی منطقی ترتیب یا تاریخی تسلسل کے تحت پیش نہیں کیے جاتے۔ لہٰذا جوعلم پہنچانا مقصود ہوتا ہے اس کے اندر بہت سے خلا باقی رہ جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تجربے سے سیکھنا، فضول، خطر ناک اور مہنگا ثابت ہو سکتا ہے بعض باتیں ذاتی تجربے سے سیکھی جاسکتی ہیں لیکن بیشتر باتوں کو نسل انسانی کے اجتماعی تجربے سے سیکھنا پڑتا ہے۔ رومن کہاوت ہے کہ ’’آرٹ عریض ہے اور وقت کے پر لگے ہیں۔‘‘ تاوقتیکہ انسانی زندگی ستر برس کی عام عمر سے غیر معمولی طور پر طویل نہ ہو جائے ہر چیز کو تجربے سے سیکھنے کی کوشش کرنا یقینا عمل رائگاں ثابت ہوگا۔

لیکن یہ خطرناک اور مہنگا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آگ سے جلا ہوا بچہ آگ سے ڈرتا ہے۔ ایک بچہ جس کی انگلیاں جھلس گئی ہیں آگ کے نزدیک پھر کبھی نہیں جائے گا۔ بچے نے ذاتی تجربے سے کچھ سیکھا ہے لیکن اس طرح کا تجربہ بعض اوقات بہت زیادہ مہنگا پڑ سکتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک بچہ ایسے تار کو چھوتا ہے جس میں بجلی دوڑتی ہے۔ وہ فورا مر سکتا ہے۔ اس تجربے سے اس بچے کو مرنے کے بعد کیا فائدہ پہنچے گا۔ تا ہم تعلیم کے موضوع پر لکھنے والے عظیم مصنفین نے بتایا ہے کہ تجربے سے سیکھنا ہی کسی چیز کو سیکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔

مثلاً روسو نے کہا تھا کہ اس کا ایمیل فطرت سے ہر بات کو سیکھ لے گا اور اس کو کچھ نہیں بتایا جائے گا۔ بعد ازاں ہر برٹ اسپنسر نے نظریہ تعزیر سے بحث کرتے ہوئے اپنے فطری نتائج کے مشہور نظریہ کو پیش کیا جس کے مطابق اس کا یہ عقیدہ تھا کہ فطرت کی طرف سے جو سزا ملتی ہے وہ انسان کی دی ہوئی سزا کے مقابلے میں زیادہ برتر ہوتی ہے۔ اس نے بتایا کہ قدرتی سزائیں ناگزیر ہوتی ہیں اور یہ کہ جب قدرت کسی شخص کو سزا دیتی ہے تو وہ خود بخود کچھ نہ کچھ اس تجربے سے سیکھ لیتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ایک شخص ضرورت سے زیادہ کھا لیتا ہے یا کوئی ایسی غذا کھاتا ہے جس سے بدہضمی ہو جائے تو وہ سیکھ لیتا ہے کہ اگلی بار اس غلطی سے کیسے بچا جائے۔

یہی خیال کہ تجربہ ہی بہترین مکتب آموزش ہے، ہماری حالیہ تعلیمی ترقی میں ظاہر ہوتا ہے جیسے اکتشافی طریقہ۔ اس طریقے کے مطابق شاگرد کو کسی چیز پر پہلے سے یقین کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کو ہر بات کی خود تفتیش کرنا چاہیے۔ اس طریق کار کی اہمیت کو بحیثیت ایک طریق آموزش سے بے تامل تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ بغیر سمجھے ہوئے کتابی آموزش یا کسی بتائی ہوئی بات کی بنیاد پر آموزش کے لیے طریقہ اصلاح کا کام کرتا ہے۔ یہ شخصی تجربے کے ذریعے آموزش کو حقیقی بناتا ہے۔ لیکن اس طریقے سے آپ ہر ایک بات نہیں سیکھ سکتے کیونکہ اس طریقے میں مذکورہ بالا غیر رسمی تعلیم کی تمام کو تا ہیاں شامل ہو جاتی ہیں۔

دوسری طرف رسمی تعلیم میں بعض یقینی فائدے ہیں۔ یہ غیر منظم نہیں ہے۔ اس سے ہمارے علم میں خلاباقی نہیں رہتا۔ اس کے تحت ان تمام تجربات کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کو نسل انسانی نے سود مند سمجھا ہے اور ان تجربات کو بچے کے سامنے منظم اور مرتب انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں بچہ ضروری باتوں کو مناسب وقت پر سیکھ لیتا ہے۔

ماخذ: اصولِ تعلیم اور عمل تعلیم، مصنف: ڈی ایس گورڈن، مترجم: ڈاکٹر خلیل الرحمن سیفی پریمی، تیسری طباعت: 2016، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

دورِ جدید کے آئینہ میں اساتذہ کا کردار،مضمون نگار: احمد حسین

  اردو دنیا،جولائی 2025 تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام کا بنیادی ستون ہے، اور اساتذہ اس نظام کے معمار ہیں۔   جدید دور میں، جہاں ٹی...